آیت تطہیر سورہ احزاب کی 33ویں آیت کا دوسرا حصہ ہے جس میں اللہ تعالی نے اہل بیتؑ کو ہر قسم کی نجاست اور پلیدی سے پاک رکھنے کے تکوینی ارادے کا اظہار فرمایا ہے۔ شیعہ علما اور متکلمین ائمۂ معصومینؑ کی عصمت کے اثبات کے لئے اس آیت سے استناد و استدلال کرتے ہیں اور لفظ "الرجس" میں موجود الف و لام کو مد نظر رکھتے ہوئے اہل بیت کو ہر قسم کی فکری اور عملی پلیدی جیسے شرک، کُفر، نفاق، جہل اور گناہ سے پاک سمجھتے ہیں۔
اس آیت میں اہل بیت کے مصداق کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مفسرین اس سے پنجتن پاک مراد لیتے ہیں اور بعض مفسرین تمام ائمہ معصومینؑ کو اہل بیت کے مصداق میں شامل کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض اہل سنت مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ اس آیت میں اہل بیت سے مراد ازواج پیامبرؐ ہیں اور بعض مفسرین کے مطابق اس آیت میں اہل بیت سے مراد وہ افراد ہیں جن کو زکات دینا حرام ہے۔
آیت تطہیر
آیہ تطہیر سورہ احزاب کی 33ویں آیت کے دوسرے حصے کو کہا جاتا ہے جو درج ذیل ہے:
إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً
بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیتؑ کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
شان نزول
بعض احادیث میں ہے کہ یہ آیت ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے اور اس کے نزول کے وقت گھر میں رسول اللہؐ کے علاوہ، امام علیؑ، حضرت فاطمہؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ بھی موجود تھے۔ اس موقع پر رسول اللہؐ خیبری چادر اوڑھ کر علیؑ، حضرت فاطمہؑ، حضرت حسنؑ اور حسینؑ کو چادر اوڑھا لی اور اپنے ہاتھ پروردگار عالمین کی جانب اٹھا کر عرض کیا: "پروردگارا! یہ میرے اہل بیت ہیں انہیں ہر پلیدی سے پاک رکھ"۔ ام سلمہ نے رسول اکرمؐ کی خدمت میں عرض کیا: "اے رسول خداؐ! کیا میں بھی اہل بیت میں شامل ہوں؟ فرمایا: تم ازواج رسول خداؐ میں شامل ہو اور تم خیر کے راستے پر ہو۔[1]
اہل بیت کی عصمت
یہ آیت اس کے دوسرے حصے کی وجہ سے "آیہ تطہیر" کے نام سے مشہور ہے[2] اول اہل بیت کی عصمت پر دلالت کرتی ہے۔[3] آیہ تطہیر کی اہل بیت کی عصمت پر دلالت کی کیفیت یوں بیان کی جاتی ہے:
• ماہرین لغت کے مطابق لفظ "إِنَّما" انحصار پر دلالت کرتا ہے؛ اس بنا پر یہ چیز واضح ہو جاتی ہے کہ ارادہ الہی صرف اور صرف اہل بیت کی عصمت کے ساتھ تعلق پکڑتا ہے۔
• لفظ "عنکم" لفظ "الرجس" سے پہلے آیا ہے اور جار و مجرور کا مفعولٌبہ پر تقدم کے قاعدہ بھی اس انحصار اور اختصاص پر تأکید کرتا ہے۔
• "لِیذهِبَ عَنکُمالرّجسَ" کے بعد لفظ "یطہّرکُم" (تمہیں پاک کیا) کا آنا بھی نجاست اور پلیدی کے دور ہونے کے بعد طہارت اور پاکیزگی پر تاکید ہے۔
• لفظ "تَطہیرًا" مفعول مطلق ہے جو طہارت پر مزید تاکید ہے۔
• "الرِجسَ" (پلیدی) چونکہ "الف و لام جنس" کے ساتھ آیا ہے، لہذا ہر قسم کی فکری یا عملی پلیدی جیسے شرک، کُفر، نفاق، جہل اور گناہ سب کو شامل کرتا ہے۔[4]
رجس سے مراد
رجس کے معنی سے متعلق مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اس بنا پر اس کے کئی معانی ذکر کئے گئے ہیں، من جملہ ان میں گناہ، فسق، شیطان، شرک، شک، بخل، لالچ، ہوائے نفس اور بدعت شامل ہیں۔[5] شیعہ علماء اور مفسرین کا کہنا ہے کہ اہل بیت کو رجس سے پاک کرنے سے مراد گناہوں کی نسبت ان کی عصمت اور خدا کی اطاعت و بندگی کی توفیق ہے۔[6]
شیعہ اور اہل سنت بعض منابع میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: " میں اور میری اہل بیت گناہ سے پاک ہیں۔"[7] حضرت علیؑ نے بھی فدک کے واقعے میں حضرت زہرا(س) کا گناہ سے پاک اور منزہ ہونے کو اسی آیت سے استناد کرتے ہوئے ثابت کئے ہیں۔[8]
اہل بیت کا مصداق
مفسرین کے درمیان اہل بیتؑ کے مصداق کے متعلق اختلاف نظر پایا جاتا ہے:
پہلا قول: انس بن مالک، ابوسعید خُدْری، ام سلمہ، عائشہ، سعد بن ابی وقّاص، عبداللہ بن جعفر اور عبداللہ بن عباس جیسے صحابہ کا کہنا ہے کہ اہل بیتِ رسولؐ سے مراد علیؑ، حضرت فاطمہ(س)، حسنؑ اور حسینؑ ہیں۔ ائمہ معصومینؑ سے اس نظریے کی تائید میں احادیث نقل ہوئی ہیں۔[9]
شیعہ مفسرین من جملہ طبرسی اور علامہ طباطبائی بھی اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ آیت اصحاب کساء کی شان میں نازل ہوئی ہے اور یہ بات شیعوں کے نزدیک تواتر کی حد تک پہنچ گئی ہے۔[10] اسی طرح ائمہ معصومینؑ سے بعض احادیث نقل ہوئی ہیں جن کے مطابق اہل بیتؑ میں پنج تن کے علاوہ شیعوں کے دوسرے ائمہ بھی شامل ہیں۔[11]
کتاب مسند احمد بن حنبل میں پیغمبر اکرمؐ سے منقول کئی احادیث میں آیہ تطہیر کا مصداق حضرت فاطمہ(س)، حضرت علیؑ اور ان کے دو فرزند امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو قرار دیا گیا ہے۔[12] احمد بن حنبل اسی طرح کتاب فضائل الصحابہ میں نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے 6 مہینے تک نماز صبح کی نماز کے لئے جاتے وقت جب بھی حضرت فاطمہ(س) کے دروازے پر پہنچتے تو فرماتے تھے:اے اہل بیت! نماز! نماز!اے اہل بیت! "خدا تم سے پلیدی کو دور اور تمہیں پاک و پاکیزہ قرار دینا چاہتا ہے۔"[13]
اہل سنت عالم دین ابن کثیر آیہ تطہیر کی تفسیر میں امام حسنؑ سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپ نے منبر سے فرمایا: "ہم ان اہل بیت میں سے ہیں جن کے بارے میں خدا نے اس آیت میں فرمایا ہے"۔ ابن کثیر اسی طرح امام سجادؑ سے بھی نقل کرتے ہیں کہ آپ نے شام سے آئے ہوئے کسی شخص کے جواب میں فرمایا: "اہل بیت کے مصداق ہم ہیں"۔[14]
دوسرا قول: ایک قول کے مطابق اہل بیت کا مصداق ازواج رسولؐ ہیں کیونکہ آیت کا سیاق ازواج رسولؐ کے بارے میں ہے۔ ابن عباس کے آزاد کردہ عِکْرِمَہ اور مقاتل بن سلیمان سے اس بارے میں بعض حدیثیں نقل ہوئی ہیں۔[15]
لیکن شیعہ مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ آیہ تطہیر کے ظہور کے مطابق اہل بیتؑ سے مراد حضرت علیؑ، حضرت فاطمہ(س) اور حسنینؑ ہیں، کیونکہ اگر اہل بیت سے مراد ازواج پیغمبر ہوتے تو "عَنکُم" کی جگہ "عَنکُنَّ" اور "یطَہِّرَکُم" کی جگہ "یطَہِّرَکُنَّ" آنا چاہئے تھا[16]
اسی طرح شیعہ مفسرین اس سوال کے جواب میں کہ اس سورت میں ازواج پیغمبر کے وظائف بیان ہونے کے درمیان ایسی بات کیسے آئی جس میں ازواج پیغمبر شامل نہیں ہیں؟ کے جواب میں کہتے ہیں کہ اس طرح کی گفتگو کا طریقہ فصحائے عرب میں رائج تھا اور قرآن میں بھی بہت ساری آیات پائی جاتی ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ تو آئی ہیں لیکن مختلف موضوعات سے متعلق گفتگو کرتی ہیں اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حصہ جداگانہ طور پر نازل ہوئی تھی لیکن قرآن کو جمع کرتے وقت انہیں ایک دوسرے کے ساتھ رکھی گئی ہیں۔[17]
تیسرا قول: تیسرا قول صحابی رسولؐ زید بن ارقم سے منسوب ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اہل بیتؑ وہ ہیں جن پر اللہ نے زکٰوة حرام کردی ہے؛ اور وہ رسول اللہؐ کے قریبی رشتہ دار ہیں جیسے آل علی، آل عقیل اور آل جعفر؛ اور اس آیت میں تطہیر سے مراد صدقہ اور زکٰوة لینے سے انہیں پاکیزہ قرار دیئے جانے کے ہیں۔[18]
حوالہ جات
1. ↑ ترمذی ، ج5، ص699؛ ابن بابویہ، ج2، ص403۔
2. ↑ راضی، سبیل النجاۃ فی تتمۃ المراجعات، بیروت، ص۷۔
3. ↑ طوسی، التبیان، دار احیاءالتراث العربی، ج۸، ص۳۴۰۔
4. ↑ راضی، سبیل النجاۃ فی تتمۃ المراجعات، بیروت، ص۷۔
5. ↑ صدوق، معانی الاخبار، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۱۳۸۔
6. ↑ مفید، المسائل العُکبریۃ، ۱۴۱۳ق، ص۲۷؛ شوشتری، الصوارم المہرقۃ، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۷، ۱۴۸؛ طباطبائی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۶، ص۳۱۳۔
7. ↑ بیہقی، دلائل النبوۃ، ۱۴۹۵ق، ج۱، ص۱۷۱؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ق، ج۳، ص۲۰۸۔
8. ↑ طبری، کامل بہائی، ۱۳۸۳ش، ص:۲۵۶۔
9. ↑ ابن عطیہ، المحرر الوجیز، ۱۴۲۲ق، ج ۱۳، ص۷۲؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن، ۱۳۷۵ق، ج۳، ص۷۹۹؛ شوکانی، فتح القدیر، عالم الکتب، ج۴، ص۲۷۹۔
10. ↑ ابن حکم، تفسیر الحبری، ۱۴۰۸ق، ص۲۹۷-۳۱۱؛ طبرسی، مجمع البیان، مؤسسہ الاعلمی، ج۸، ص ۱۵۵-۱۵۷؛ طباطبائی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۶، ص۳۱۱۔
11. ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۲۳؛ طبرسی، الاحتجاج، ۱۳۸۶ق، ج۲، ص۳۴۔
12. ↑ ابن حنبل، مسند، دار الصادر، ج۱، ص۳۳۱؛ ج۴، ص۱۰۷؛ ج۶، ص۲۹۲۔
13. ↑ ابن حنبل، فضائل الصحابۃ، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۷۶۱۔
14. ↑ ابن کثیر دمشقی، تفسیر القرآن، ۱۴۱۹ق، ج۶، ص۳۷۱۔
15. ↑ ابن کثیر، ج 3، ص 798؛ شوکانی، ج 4، ص 278۔
16. ↑ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ۱۳۶۴ش، ج۱۴، ص۱۸۳؛ حسینی طہرانی، مہرتابان، ۱۴۰۲ق، ص۲۹۰-۲۹۲۔
17. ↑ طبرسی، مجمع البیان، مؤسسۃ الاعلمی، ج۸، ص۵۶۰؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۶، ص۳۱۱۔
18. ↑ مسلم، ج 2، ص 1874؛ ابن کثیر، ج 3، ص 802؛ شوکانی، ج 4، ص 278.