پیغمبر اکرمؐ کوعظیم نعمت سورہ کوثر
  • عنوان: پیغمبر اکرمؐ کوعظیم نعمت سورہ کوثر
  • مصنف: ویکی شیعہ
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 21:45:44 13-9-1403

آپارات - سرویس اشتراک ویدیو

سورہ کوثر قرآن کریم کی 108ویں اور مکی سورتوں میں سے ہے جو تیسویں پارے میں واقع ہے۔ یہ سورہ قرآن کا سب سے چھوٹا سورہ ہے۔ اس سورے کو اس بنا پر "کوثر" کہا جاتا ہے کہ اس کی ابتدائی آیت میں اللہ تعالی کی جانب سے اپنے پیارے رسول حضرت محمدؐ کو کوثر عطا کرنے کا ذکر ہے اور پیغمبر اکرمؐ کو اس عظیم نعمت کے شکرانے کے طور پر نماز پڑھنے اور قربانی دینے کا حکم دیا گیا ہے۔
مفسرین نے کوثر کے بہت سارے مصادیق کی طرف اشارہ کئے ہیں منجملہ ان میں: حوض کوثر، بہشت، خیر کثیر، نبوت، قرآن، اصحاب کی کثیر تعداد اور شفاعت وغیرہ مشہور ہیں۔ شیعہ علماء کے مطابق حضرت فاطمہ زهرا(س) اور آپ کی ذریت کوثر کے مصادیق میں سے ہیں کیونکہ یہ سورہ ان لوگوں کے جواب میں نازل ہوا ہے جنہوں نے پیغمبر اکرمؐ کو ابتر ہونے کا طعنہ دیا تھا۔
سورہ کوثر کی تلاوت کی فضیلت کے بارے میں آیا ہے کہ جو شخص نماز پنگانہ میں اس سورت کی تلاوت کرے تو قیامت کے دن حوض کوثر سے سیراب اور درخت طوبی کے سایے میں رسول خداؐ کا ہم نشین ہوگا۔
تعارف
•    نام
اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت میں مذکور لفظ کوثر کی مناسبت سے رکھا گیا ہے جس کے معنی خیر کثیر کے ہیں۔ خدا نے اپنے حبیب حضرت محمدؐ کو اس عظیم نعمت سے نوازا ہے۔[1]
•    ترتیب نزول اور محل نزول
سورہ کوثر مکی سورتوں میں سے ہے۔[نوٹ 1]ترتیب نزول کے اعتبار سے پندرہویں اور قرآن کی موجودہ ترتیب کے مطابق 108ویں سورہ ہے اور قرآن کے آخری پارے میں موجود ہے۔[2]
•    آیات، الفاظ اور حروف کی تعداد
3 آیات، 10 الفاظ اور 43 حروف پر مشتمل یہ سورہ قرآن کی سب سے چھوٹا سورہ ہے۔[3]
مضامین
سورہ ضحی اور سورہ انشراح کی طرح اس سورت کے تمام آیات میں پیغمبر اکرمؐ کو مورد خطاب قرار دیا ہے۔[4] پہلی آیت میں خدا کی طرف سے پیغمبر اکرمؐ کو کوثر جیسی نعمت عطا کرنے کی بشارت دی گئی ہے۔[5] مفسرین کوثر سے خیر کثیر مراد لیتے ہیں۔[6] دوسری آیت میں اس عظیم نعمت کے شکرانے میں نماز ادا کرنے اور قربانی دینے کا حکم دیا گیا ہے۔[7] تیسری اور آخری آیت میں آپؐ کے دشمنوں کو ابتر اور بے اولاد قرار دیا گیا ہے۔[8]
کوثر کے مصادیق
اس آیت میں مذکور لفظ کوثر کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ حوض کوثر، بہشت، بہشت میں ایک نہر، خیر کثیر، نبوت، قرآن، بے شمار اصحاب اور پیرکار، بے شمار اولاد اور شفاعت کو من جملہ کوثر کے مصادیق میں سے قرار دئے گئے ہیں۔[10]
تفسیر نمونہ میں اکثر شیعہ علماء سے نقل کرتے ہوئے کوثر کے مصداق کو حضرت فاطمہ(س) قرار دیا ہے کیونکہ اس سورت میں ان لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو پیغمبر اکرمؐ کو بے اولاد اور ابتر ہونے کا طعنہ دیا کرتے تھے حالانکہ پیغمبر اکرمؐ کی نسل آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ(س) کے ذریعے آگے چلی ہے اور یہ وہی ذریہ ہے جس کے ذمہ خدا نے امامت کا عظیم الہی عہدہ سونپا ہے۔[11]
شأن نزول
سورہ کوثر عاص بن وائل کے اس طعنے کے جواب میں نازل ہوا جس میں اس نے پیغمبر اکرمؐ کو بے اولاد اور ابتر کہا تھا۔ یہ طعنہ ایسے موقع پر دیا گیا تھا جب پیغمبر اکرمؐ کے فرزند عبدالله اس دنیا سے وفات پا گئے تھے اور ان کے علاوہ آنحضرت کا کوئی اور بیٹا بھی نہیں تھا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے عاص بن وائل نے قریش کے بزرگان کی محفل میں پیغمبر اسلامؐ کو ابتر اور بے اولاد ہونے کا طعنہ دیا تھا۔[12] خداوند متعال نے پیغمبر اکرمؐ کی تسلی کیلئے سورہ کوثر نازل کیا جس میں آپ کو کوثر(خیر کثیر) عطا کرنے اور آپ کے دشمنوں کے بے اولاد ہونے کی بشارت دی۔[13]
حضرت فاطمہؑ کی شأن میں
مفسرین نے لفظ "کوثر" کی تفسیر میں بہت سارے مطالب بیان کئے ہیں۔ اس سلسلے میں لفظ کوثر کے مصداق کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ تفسیروں میں اس لفظ کے بہت سے مصادیق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے منجملہ ان میں: حوض کوثر، بہشت، بہشت میں ایک نہر، خیر کثیر، نبوت، قرآن، اصحاب اور پیروکاروں کی کثرت، حضرت زہراؑ کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ کی کثیر تعداد میں نسل اور شفاعت کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔[14]
تفسیر نمونہ کے مطابق اکثر شیعہ علماء نے "کوثر" کے مصداق کو حضرت فاطمہؑ قرار دئے ہیں۔ کیونکہ اس سورت میں ان اشخاص کا تذکرہ ہے جو پیغمبر اکرمؐ کو بے اولاد اور ابتر سمجھتے تھے۔ حالنکہ آنحضرت کی اولاد آپ کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہؑ کی نسل سے آگے بڑی جنہوں نے امامت جیسے عظیم عہدے کو سنبھال کر دین اسلام کی آبیاری کی جس کی بنا پر آج اسلام کا یہ تنومند درخت پوری آب و تاب کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا ہوا ہے۔[15]
نماز میں اس کی قرأت
بعض مستحب نمازوں میں سورہ کوثر پڑھنے کی سفارش کی گئی ہے:
•    ماہ رمضان کی گیارہویں رات کی نماز: یہ دو رکعتی نماز ہے جس کی ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورہ حمد اور 20 مرتبہ سورہ کوثر پڑھی جاتی ہے۔[16]
•    ماہ رمضان کی اٹھارہویں رات کی نماز: یہ چار رکعتی نماز ہے جس کی ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورہ حمد اور 25 مرتبہ سورہ کوثر پڑھی جاتی ہے۔[17]
فضیلت اور خواص
ابو بصیر امام صادقؑ سے نقل کرتے ہیں: جو شخص اپنی یومیہ نمازوں میں سورہ کوثر کی تلاوت کرتا ہے اسے قیامت کے دن حوض کوثر نصیب ہو گی اور وہ درخت طوبی کے سایے میں رسول خدا کا ہم نشین ہوگا۔[18] مجمع البیان میں پیغمبر اکرمؐ سے روایت کرتے ہیں:‌ جو شخص سورہ کوثر کی تلاوت کرتا ہے خداوند متعال اسے بہشت کے نہروں سے سیراب کرے گا اور عید قربان کے دن مسلمانوں کی طرف سے ذبح کرنے والی قربانی نیز اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے پیش کردہ قربانی کے برابر اسے ثواب دیا جائے گا۔[19]
ہنری آثار
سورہ کوثر من جملہ ان سورتوں میں سے ہے جو مختلف مساجد، معصومین کی ضریحوں اور دینی مدارس کی عمارتوں پر منقش ہیں؛ من جملہ ان موارد میں حرم امام حسینؑ،[20] شیخ صدوق کی آرامگاہ پر ابراہیم تہرانی کے قلم سے،[21] مدرسہ سپہ سالار[22] اور مسجد سید اصفہان کے دروازے پر دیکھا جا سکتا ہے۔[23]
حوالہ جات
1.    ↑ خرمشاہی، دانشنامہ قرآن، ۱۳۷۷ش، ج۱، ص۱۲۶۹.
2.    ↑ معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۱۶۶.
3.    ↑ خرمشاہی، دانشنامہ قرآن، ۱۳۷۷ش، ج۱، ص۱۲۶۹.
4.    ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۷، ص۳۷۰.
5.    ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۷، ص۳۷۰و۳۷۱.
6.    ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۸۳۵.
7.    ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۷، ص۳۷۲.
8.    ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۷، ص۳۷۴و۳۷۵.
9.    ↑ خامہ‌گر، محمد، ساختار سورہ‌ہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
10.    ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۸۳۶و۸۳۷.
11.    ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج ۲۷، ص ۳۷۵؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲۰، ص۳۷۰.
12.    ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۸۳۶.
13.    ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۷، ص۳۶۹.
14.    ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۸۳۶و۸۳۷.
15.    ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج ۲۷، ص ۳۷۵. ر.ک: طباطبایی، المیزان، ج۲۰، ص۳۷۰.
16.    ↑ شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، ماہ رمضمان کی راتوں کی نمازیں
17.    ↑ شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، ماہ رمضان کی راتوں کی نمازیں
18.    ↑ شیخ صدوق ثواب الأعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۲۶و۱۲۷.
19.    ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۰، ص۸۳۵.
20.    ↑ «کونسی آیات اور روایات امام حسین‌ؑ کے نئے ضریح پر درج ہیں» سائٹ موعود، تاریخ بازبینی (۲۱ بهمن ۱۳۹۵ش).
21.    ↑ مصطفوی، آثار تاریخی، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۲۴۳.
22.    ↑ مہجور و علیئی، «بررسی کتیبہای مسجد ـ مدرسهٔ شہید مطہری (سپہ سالار)»، ص۵۷.
23.    ↑ «مسجد سید اصفہان»، در سایت کویرها و بیابان‌ہای ایران.
1.    ↑ سورہ کوثر کے محل نزول کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض مفسرین کے مطابق یہ سورہ مکہ میں نازل ہوئی جبکہ بعض نے مدینہ کو سورہ کوثر کا محل نزول قرار دیا ہے۔ مشہور یہی ہی کہ یہ سورہ مکی سورتوں میں سے ہے۔ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۷، ص۳۶۸