تفسیر سورہ حجرات آیات 41 - 42
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوا اللّٰہَ ذِکۡرًا کَثِیۡرًا﴿ۙ۴۱﴾
۴۱۔ اے ایمان والو! اللہ کو بہت کثرت سے یاد کیا کرو۔
وَّ سَبِّحُوۡہُ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا﴿۴۲﴾
۴۲۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو۔
تفسیر آیات
۱۔ اذۡکُرُوا اللّٰہَ: یاد کرنا، نسیان کے مقابلے میں ہے۔ اللہ کو یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر حالت اور ہر عمل میں ا للہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کا غضب پیش نظر ہو۔ نیک عمل کے وقت یاد خدا کامطلب یہ ہے کہ یہ نیک عمل برائے رضایت خدا انجام دیا جائے اور گناہ کاسامنا کے وقت یاد خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ناراضگی کو سامنے رکھ کر اسے ترک کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:
مَنْ اَعْطِیَ لِسَاناً ذَاکِراً فَقَدْ اُعْطِیَ خَیْرَ الدُّنْیَا وَ الآخِرَۃِ۔۔۔۔ (الکافی۔ ۲: ۴۹۸)
جسے یاد خدا کرنے والی زبان عنایت ہوئی ہو اسے دنیا و آخرت کی بھلائی عنایت ہوئی ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
مِنْ اَشَدِّ مَا فَرَضَ اللہ عَلَی خَلْقِہِ ذِکْرُ اللہِ کثیراً۔ ثُمَّ قَالَ: لَا اَعْنِی سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ اَکْبَرُ وَ اِنْ کَانَ مِنْہُ وَ لَکِنْ ذِکْرَ اللہِ عِنْدَ مَا اَحَلَّ وَ حَرَّمَ فَاِنْ کَانَ طَاعَۃً عَمِلَ بِھَا وَ اِنْ کَانَ مَعْصِیَۃً تَرَکَھَا۔ (الکافی: ۲: ۸۰)
اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر جو فرض کیا ہے ان میں اہم ترین فرض کثرت سے اللہ کو یاد کرنے کا حکم ہے۔ میری مراد ذکر خدا سے سبحان اللہ اور الحمد اللہ اور لا الٰہ الا اللہ نہیں ہے اگرچہ یہ بھی ذکر اللہ میں شامل ہے مگر اللہ کو یاد کرنا ہے، جو حلال و حرام کیا گیا ہے اس وقت خدا کو یاد کرنا ہے۔ اگر طاعت ہے توبجا لائے اگر گناہ ہے چھوڑ دیا جائے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے دوسری روایت میں آیا ہے:
تَسْبِیْحُ فَاطِمَۃَ الزَّہْرَائِ ع مِنَ الْذِکْرِ الْکَثِیْرِ الَّذِی قَالَ اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ اذۡکُرُوا اللّٰہَ ذِکۡرًا کَثِیۡرًا۔ (الکافی ۲: ۵۰۰)
تسبیح فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ذکر کثیر میں شامل ہے جسے اللہ عزوجل نے فرمایا: اذۡکُرُوا اللّٰہَ ذِکۡرًا کَثِیۡرًا۔
واضح رہے تسبیح حضرت زہرا سلام اللہ علیہا یہ ہے: ۳۴ مرتبہ اللّٰہ اکبر ، ۳۳ مرتبہ الحمد اللّٰہ ، ۳۳ مرتبہ سبحان اللّٰہ پڑھے۔
۲۔ وَّ سَبِّحُوۡہُ: اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو۔ تسبیح، ہر نقص سے اللہ تعالیٰ کو پاک و منزہ قرار دینے کو کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں تصور توحید کو درست کرنے کو تسبیح کہتے ہیں۔ مشرکین اور انحرافی مذاہب نے اللہ کی ذات و صفات اور افعال میں اس قسم کے عقائد کو شامل کر دیے جو ذات اقدس الٰہی کی شان میں نہایت گستاخی ہیں۔
صحیح تصور توحید کے لیے امام الموحدین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے خطبۂ توحید کا مطالعہ ضرور فرمائیں: اَوَّلُ الدِّینِ مَعْرِفَتُہُ۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ خ ۱)
۳۔ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا: صبح و شام اس کی تسبیح کرو۔ دن کی ابتدا اللہ کی تسبیح سے کرو اور دن کا اختتام بھی اللہ کی تسبیح سے کرو۔ ممکن ہے اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے سارا دن عبادت شمار فرمائے۔
اہم نکات
۱۔ صرف ذکر خدا کے لیے لفظ کَثِیۡرًا کی تاکید آئی ہے۔
۲۔ تسبیح حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو ہر نماز کے بعد فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 83