بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
سورۃ النساء، آیت نمبر ایک کی تفسیر
ترتیب نزولی کے اعتبار سے یہ سورہ، سورۂ ممتحنہ کے بعد نازل ہوا۔ صرف آیت نمبر ۵۸ مکہ میں نازل ہوئی، باقی سورہ مدینہ میں نازل ہوا۔
مضامین اور مباحث
اس سورۂ مبارکہ میں اسلامی معاشرے کی تشکیل کے اہم مراحل نظر آتے ہیں کہ دور جاہلیت کے پست ترین معاشرے کو اعلیٰ ترین انسانی معاشرہ بنانے کے لیے بتدریج کس قسم کی حیرت انگیز حکمت عملی اختیار کی گئی اور دور جاہلیت کے آثار پر مشتمل کثیف ملبے کو ہٹا کر اس کی جگہ ایک جامع اور انسان ساز معاشرے کی بنیاد کس طرح رکھی گئی۔ اس راہ میں انتہائی تکلیف دہ مشکلات پیش آئیں اور بے شمار معرکے سر کرنے پڑے:
i۔ جس معاشرے میں خون انسان کی حرمت کا کوئی قائل نہ تھا، اس میں مال مسلم کو بھی خون مسلم کے برابر حرمت مل گئی:
حرمۃ مال المسلم کحرمۃ دمہ ۔ (بحار الانوار ۲۹: ۷۔۴۰، الجامع الصغیر للسیوطی حرف الجاء حدیث ۷ :۳۷)
مسلمان کے مال کو وہی حرمت حاصل ہے جو اس کے خون کو ہے۔
چنانچہ یتیم کے مال اور دیگر ناجائز طریقوں سے لوگوں کے اموال میں تجاوز و تصرف کو ممنوع قرار دیا گیا۔
ii۔ جاہلانہ معاشرے میں وراثت کی تقسیم میں طاقتور کو بڑا اختیار حاصل تھا اور کمزور کو محروم رکھا جاتاتھا۔ اسلام نے عدل و انصاف کی بنیاد پر میراث کی تقسیم کو انسانی تقاضوں کے عین مطابق بنایا۔
iii۔ قرآن نے عدل و انصاف اور احترام آدمیت پر مبنی نظام قائم کرنے کے لیے مرد و زن کی تفریق کے پرانے فرسودہ تصورات کو بہ یک جنبش قلم مسترد کرتے ہوئے مرد و زن کو ایک تنے کی دو شاخیں قرار دیا، کیونکہ دونوں نفس واحدہ سے خلق ہوئے ہیں۔
iv۔ ایک عادلانہ نظام کے قیام کے لیے بے لچک قوانین کی تدوین کا تصورپیش کیا:
اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ ۔ (۱۶ نحل:۹۰)
یقینا اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔
حتیٰ کہ ایک سازشی یہودی کے ساتھ بے عدالتی کو بھی قرآن نے بہتان اور گناہ عظیم قرار دیا ہے۔
v۔ اس سورۂ مبارکہ کے ذریعے مسلمانوںمیں قیادت کی اطاعت کا شعور پیدا کیا گیا اور جماعتی نظم و نسق قائم کرنے کے لیے ایک دستور فراہم کیا گیا۔ (اطاعت اولی الامر)
vi۔ اس سورے میں احد کی شکست کے بعد پیش آنے والے نامساعدحالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کو بیدار رہنے کی تلقین بھی موجود ہے۔
vii۔ اس سورے میں عائلی نظام کی تشکیل و تنظیم کے لیے رہنما اصول اور ازدواجی قوانین نہایت جامع صورت میں پیش کیے گئے ہیں۔
viii۔ اسلامی اخلاقیات کا ایک قابل توجہ حصہ اس سورۂ مبارکہ میں مذکور ہے۔
ix۔ معاشی مسائل پر بھی توجہ دی گئی ہے۔
x۔ تعزیری قوانین کا ایک معتد بہ حصہ بھی اس سورے میں موجود ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا﴿۱﴾
۱۔ اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (پرہیز کرو)، بے شک تم پر اللہ نگران ہے۔
تشریح کلمات
نَّفۡسٍ:(ن ف س) کسی شے کی ذات کو نفس کہا جاتا ہے۔ جس سے انسان کی ذات تشکیل پاتی ہے
وہ انسان کا نفس ہے۔ یعنی روح و جسم کا مجموعہ۔ البتہ صرف روح کے لیے بھی نَّفس کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے۔
بَثَّ:
( ب ث ث ) متفرق، منتشر، پراگندہ کرنا۔
زَوج:
( ز و ج ) جن چیزوں میں نر و مادہ پایا جاتا ہے، ان میں سے ہر ایک، دوسرے کا زَوج کہلاتا ہے۔
اَرۡحَامَ:
( ر ح م ) رحم کی جمع۔ عورت کا رحم بطور استعارہ قرابت اور رشتہ داری کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ تمام اقرباء ایک رحم سے پیدا ہوتے ہیں۔
رَقِیۡب:
( ر ق ب ) نگران۔
تفسیر آیات
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ: یہ خطاب تمام انسانوں سے ہے، جن کا تعلق ایک ہی رب سے ہے۔ تمام انسانوں کا ارتقا و تکامل اور ان کی تربیت، مقام ربوبیت سے مربوط ہے۔
خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ: تمام انسانوں کا تعلق ایک ہی اصل اور ایک ہی حقیقت سے ہے۔
بقول سعدی:
بنی آدم اعضائے یکدیگرند
کہ در آفرینش ز یک گوہرند
بنی نوع انسان کو یہ باور کرا یا جا رہا ہے کہ ان کا رب ایک ہے اور ان کی اصل حقیقت بھی ایک ہی ہے۔ ربوبیت کا حق یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کیا جائے۔ وحدت آدمیت کا حق صلہ رحمی اور باہمی محبت و برادری اور برابری ہے۔
تمام افراد بشر کا تعلق نفس واحدۃ سے ہے۔ یہ تصور ان بہت سے قدیم و جدید المیوں کا حل پیش کرتاہے جو طبقاتی، نژادی، علاقائی، لسانی اور رنگ و نسل کی تفریق کے باعث انسانیت کو درپیش رہے ہیں۔ چنانچہ ہمارے عہد میں بھی جدید جاہلیت نے ان تفرقوں کی بنیاد پر ظلم و بربریت کی وہ داستانیں رقم کی ہیں جن کی وجہ سے قدیم جاہلیت کا سر بھی شرم سے جھک گیا ہے۔
وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا : یعنی جوڑا بھی اسی نفس سے پیدا کیا، کسی اور نوع یا جنس سے نہیں۔ مِنْھَا کی ضمیر نَّفْسٍ کی طرف جاتی ہے۔ مقصود وہی نفس واحدہ ہے، جس سے تمام انسان پیدا ہوئے ہیں۔ جب کہ دوسری جگہ فرمایا:
وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا ۔۔۔۔ (۱۶ نحل: ۷۲)
اور اللہ نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں۔
لہٰذا س آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت حوا حضرت آدم (ع) سے پیدا ہوئی ہیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ حضرت حوا کو حضرت آدم (ع) کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔
قرآن نے عورت اور مرد کو اصل واحد کے ساتھ مربوط کر کے عورت کو اس کے فطری اور طبیعی حقوق دے کر:
الف: قدیم جاہلیت کے اس فرسودہ تصور کو رد کر دیا جس کے تحت عورت سے اس کی انسانیت سلب کی گئی تھی اور اسے نجس اور شر محض قرار دیا گیا تھا۔
ب: جدید جاہلیت کے اس ناپاک تصور کو بھی مسترد فرما دیا جس کے تحت عورت سے اس کی نسوانیت سلب کر کے اسے مردوں کی شبیہ قرار دیا گیا۔
ج: قرآن عورت سے نہ تو اس کی انسانیت سلب کرتا ہے اور نہ ہی نسوانیت بلکہ اسے مرد کا زوج قرار دیتا ہے، کیو نکہ انسان ہونے کے لحاظ سے یہ دونوں برابر ہیں، لیکن زوجین ہونے کے ناطے دونوں کے اپنے اپنے تقاضے ہیں۔
وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً : انسانی نسل کو متعدد خاندانوں کے ذریعے نہیں پھیلایا، بلکہ آدم (ع) و حوا پر مشتمل ایک ہی خاندان سے افزائش نسل ہوئی۔ اسی لیے تمام انسانوں کے فطری اور طبیعی تقاضے ایک جیسے ہیں۔ بنا بر ایں نظام حیات اور قانون زندگی بھی ایک ہی ہے۔
رہا یہ مسئلہ کہ حضرت آدم (ع) و حوا سے نسل انسانی کس طرح پھیلی؟ تواس کی وضاحت قرآن میں نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے لیے اس تفصیل کاسمجھنا ضروری اور مفید ہے۔
وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ: اس آیت میں تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دوبارہ آیاہے لیکن اس کے باوجود تکرار مکرر لازم نہیں آتا۔ کیونکہ آیت کی ابتدا میں مقام ربوبیت کے لحاظ سے تقویٰ کا حکم دیا تھا اور یہاں مقام خالقیت کے نقطہ نظر سے تقویٰ کا حکم ہے۔
آیت کا ربط کچھ اس طرح سے ہے: اس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں نفس واحدہ سے خلق کیا اور عورتوں کو بھی اسی نفس سے خلق فرمایا۔ تمہاری کثرت بھی ایک ہی خاندان سے وجود میں آئی۔ اس تمہید کے بعد فرمایا: اللہ کے بارے میں تقویٰ اختیار کرتے ہوئے حقوق اللہ ادا کرو اور قرابتداروں کے بارے میں تقویٰ اختیار کرتے ہوئے حقوق الناس ادا کیا کرو۔
صلہ رحمی: یعنی رشتہ داروں اور قرابتداروں سے اچھے روابط رکھو۔ ان کے دکھ درد میں شریک رہو۔ اس کی ضد قطع رحمی ہے۔ بنا بر ایں صلہ رحمی کے حکم کا دوسرا رخ یہ ہے کہ رشتہ داروں سے قطع تعلق انتہائی سنگین جرم ہے۔
اسلام اللہ تعا لیٰ کی ایک عظیم نعمت اور رحمت ہے۔ یہ رحمت فرد، امت اور معاشرے سب کو یکساں شامل ہے۔ـ اسلام کے جامع نظام حیات میں کوئی ایسا گوشہ نہیں ملتا جسے اس کا مناسب مقام نہ ملا ہو۔ نہایت قابل توجہ بات ہے کہ صلہ رحمی کو اللہ تعالیٰ نے یہ مقام اور اہمیت دی ہے کہ خود اپنی ذات کا تقویٰ اختیار کرنے کے حکم کے فوراً بعد صلہ رحمی کا حکم صادر فرمایا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک تمام انسانوں کے عمومی تعلقات اور قریبی رشتہ داروں کے خصوصی تعلقات کو کس قدر اہمیت حاصل ہے۔
توجہ طلب نکتہ: جن کے دلوں میں آل محمد صلوات اللہ علیہ و علیہم اجمعین کی عداوت موجزن ہے، ان کے تعصب اور عناد کے اثرات عربی ادب میں نمایاں نظر آتے ہیں بلکہ قواعد عربیہ میں بھی سرایت کر گئے ہیں۔ چنانچہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے سلسلے میں و آلہ کو علیہ پر عطف کرنے کو عربی قواعد کے خلاف اور سنی اور شیعہ کے درمیان وجہ امتیاز قرار دیتے ہیں۔ جب کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حرف جر کے اعادے کے بغیر مجرور ضمیر پر اسم ظاہر کا عطف کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ یعنی صلی اللہ علیہ و آلہ کہنا درست ہے یا نہیں؟ اہل بصرہ ایسے عطف کو حرف جر کے اعادے کے بغیر صحیح نہیں سمجھتے۔ جب کہ اہل کوفہ یونس، اخفش، زجاج وغیرہ اسے جائز اور صحیح قرار دیتے ہیں او ر اس پر مورد بحث آیت سے استشہاد بھی کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس، حضرت عبد اللہ بن مسعود، قاسم، مجاہد، قتادہ اور دیگر مشاہیر نے اس آیت میں {وَالْاَرْحَام کی میم کی قرائت جر کے ساتھ کی ہے اور مشہور قراء سبعہ میں سے حضرت حمزہ کی قرائت بالجر ہے۔ یعنی حرف جر ’’باء‘‘ کے اعادے کے بغیر الۡاَرۡحَامَ کو بِہ کی ضمیر پر عطف کر کے یوں قرا ئت کی ہے: تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ۔
اگر اصحاب و تابعین کی قرائت نیزمسلّم اور متواتر قراء سبعہ کی قرائت سے عربیت ثابت نہیں ہوتی تو قرائت اور عربیت ثابت کرنے کا کوئی اور ذریعہ موجود ہی نہیں ہے، بلکہ جمہور اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سات قرائتوںمیں سے کسی ایک قرائت کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح ہے۔ بنا برایں جو بات صحت نماز کے لیے کافی ثابت ہو، کیا وہ صحت عربیت کے لیے کافی نہیں ہے؟ مزید وضاحت کے لیے غرائب القرآن نیشاپوری ج ۴ ص ۱۷۹، تفسیر قرطبی ج ۵ ص ۴۵ اور تفسیر کبیر فخر الدین رازی ج ۹ ص ۱۶۳ ملاحظہ فرمائیں۔
اسی طرح آیہ : قُلۡ قِتَالٌ فِیۡہِ کَبِیۡرٌ ؕ وَ صَدٌّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ کُفۡرٌۢ بِہٖ وَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ۔۔۔۔ ( ۲ بقرہ :۲۱۷ ۔ کہدیجئے: اس میں لڑنا سنگین برائی ہے لیکن راہ خدا سے روکنا، اللہ سے کفر کرنا، مسجد الحرام کا راستہ روکنا ۔۔۔۔) کے بارے میں ایک مؤقف یہ ہے کہ المسجد الحرام کا کلمہ بہ کی ضمیر پر عطف نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں و کفر بہ کا فاصلہ لازم آتا ہے جو درست نہیں ہے۔ جب کہ ابن مالک نے شواہد التوضیح صفحہ ۵۴ میں، ابو حیان نے اپنی تفسیرج ۲ ص۱۴۷ میں اور فراء نے المسجد الحرام کو بِہ پر عطف قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس مطلب پر متعدد آیات، احادیث اور عربی اشعار سے بھی استشہاد کیا جاتا ہے، جن میں سے ہم فقط ایک مشہور حدیث نبوی (ص)کو بطور شاہد پیش کرتے ہیں:
المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ ۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان۔ اصول الکافی ۲ : ۲۳۳۔ امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے)
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمانوں کو کوئی گزند نہ پہنچے۔
موجودہ نسل: اس کرۂ ارض پر موجود انسانی نسل اولین ارضی مخلوق نہیں ہے، جیساکہ عام خیال کیا جاتا ہے، بلکہ اس سے پہلے بے شمار نسلیں گزر چکی ہیں۔ موجودہ نسل کی عمر تقریبا آٹھ یا د س ہزار سال سے زیادہ نہیں ہے، جب کہ اب تک ایک لاکھ سال پرانی انسانی مخلوق کا کھوج لگایا جا چکا ہے۔
احادیث
جناب رسول اکرم (ص) سے روایت ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا :
قال اللہ تعالیٰ: اَنَا الرَّحْمَنُ خَلَقْتُ الرَّحِمَ وَ شَقَقْتُ لَھَا اسْماً مِنْ اَسْمَائِی فَمَنْ وَ صَلَھَا وَ صَلْتُہُ وَ مَنْ قَطَعَھَا قَطَعْتُہُ ۔ (مستدرک الوسائل ۱۵ : ۲۴۲۔ مجمع البیان)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں رحمن ہوں اور میں نے رحم کو خلق کیا اور اپنے نام سے اس کا نام بنایا۔ لہٰذا جو صلہ رحمی رکھے گا میں بھی اس سے صلہ رکھوں گا اور جو قطع رحمی کرے گا میں بھی اس سے قطع تعلق کروں گا۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
لعلک تری ان اللّٰہ لم یخلق بشراً غیرکم؟ بلی و اللّٰہ لقد خلق الف الف عالم و الف الف آدم، انت فی آخر تلک العوالم و اولئک الآدمیین ۔ (بحار الانوار ۲۵: ۲۵)
شاید تمہارا خیال یہ ہے کہ اللہ نے تمہارے سوا کسی بشر کو خلق نہیں فرمایا، قسم بخدا اللہ نے تم سے پہلے دس لاکھ عالم اور دس لاکھ آدم پیدا کیے ہیں جن میں تم سب سے آخری عالم اور آخری آدم کی نسل ہو۔
اہم نکات
۱۔ قدیم جاہلیت نے عورت سے اس کی انسانیت جب کہ جدید جاہلیت نے عورت سے اس کی نسوانیت سلب کی ہے۔
۲۔ تقوائے الٰہی کے ساتھ صلہ رحمی کا ذکر اس کی اہمیت کی واضح دلیل ہے۔
الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 240