تفسیر سورہ نساء آیت 2
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾
۲۔ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔
تشریح کلمات
اَلۡحَمۡدُ:
( ح م د ) ثنائے کامل۔ اختیاری خوبیوں کی تعریف کرنے کو حمد کہتے ہیں۔ اَل کلمہ استغراق ہے۔ یعنی ساری حمد، کوئی بھی حمد ہو۔ اس لیے ہم نے اَل کا ترجمہ کامل سے کیا ہے۔
رَبِّ:
( ر ب ب )کسی شے کو تدریجاً ارتقائی درجات کی طرف لے جانے والا۔ رب اس مالک کو کہتے ہیں جس کے ہاتھ میں تدبیر امور ہو۔ المالک الذی بیدہ تدبیر الامور ۔ العین میں مذکورہے: و من ملک شیئاً فھو ربہ ۔ جو کسی چیز کا مالک بنے وہ اس کا رب کہلائے گا۔
لسان العرب میں ہے: فَلَان رَبُّ ہَذَا الشیء اَیْ مِلْکُہُ لَہُ ۔ فلاں اس چیز کا رب یعنی مالک ہے۔ بادل کو رباب کہتے ہیں، کیونکہ اس سے برسنے والے پانی سے نباتات کی نشو و نما ہوتی ہے۔
جو شخص رب کی طرف منسوب ہوا، اسے ربانی کہتے ہیں۔ ارشا د قدرت ہے :
کُوۡنُوۡا رَبّٰنِیّٖنَ (۳ آل عمران : ۷۹)
تم سچے ربانی بن جاؤ۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ (ع)نے فرمایا:
اَنَا رَبَّانِیُّ ھٰذِہِ الْاُمَّۃ ۔ (مفردات راغب مادہ ’’رب‘‘ ۔ قال النبی (ص) علیَ رَبَّانِیَّ ھٰذِہِ الُٔامَّۃ ۔ المناقب ج ۲ ص ۴۵)
میں اس امت کا ربانی ہوں۔
تفسیر آیات
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ: اَلۡحَمۡدُ دو لفظوں اَل اور حمد سے مرکب ہے۔ اَل عمومیت کا معنی دیتا ہے اور حمد ثنائے کامل کو کہتے ہیں۔ اردو زبان کی گنجائش کے مطابق اس کا مفہوم یہ بنتا ہے: ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے۔ یعنی اگر غیر خدا کے لیے بظاہر کوئی جزوی ثنا اور حمد دکھائی دیتی بھی ہے تو اس کا حقیقی سرچشمہ بھی ذات خداوندی ہے۔ بالفاظ دیگر مخلوقات کی حمد و ثنا کی بازگشت ان کے خالق کی طرف ہوتی ہے:
قَالَ رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی﴿۵۰﴾ (۲۰ طہ : ۵۰)
ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی ۔
تمام موجودات معلول ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے لیے علت العلل ہے۔ لہٰذا معلول کے تمام اوصافعلت کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ یہاںتک کہ ان کا وجود جو ایک کمال ہے، وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے۔ اسی لیے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ (ع) نے اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ کہنے کے بعد فرمایا: فَمَا مِنْ حَمْدٍ اِلّا وَ ھُوَ دَاخِلٌ فِیْمَا قُلْتُ ۔ (کشف الغمۃ ج ۲ ص ۱۱۸) یعنی ہر قسم کی حمدو ثنا اس جملے اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ میں داخل ہے جو میں نے کہا ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
شُکْرُ النِّعْمَۃِ اجْتِنَابُ الْمَحَارِمِ وَ تَمَامُ الشُّکْرِ قَوْلُ الرَّجُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ۔ (الکافی ۲: ۹۵ باب الشکر۔ بحار الانوار ۶۸ : ۴۰ باب الشکر)
حرام سے اجتناب کرنا نعمت کا شکر ہے اور الحمد للّٰہ رب العالمین کہنے سے شکر کی تکمیل ہوتی ہے۔
رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ: توحید رب تمام انبیاء (ع) کی تبلیغ کا محور و مرکز رہی ہے ، ورنہ توحید خالق کے تو مشرکین بھی قائل تھے ۔ ملاحظہ ہو سورۃ عنکبوت : ۶۳تا ۶۱۔ سورہ زخرف ۹،۸۷ ۔ لقمان: ۲۵
تربیت یعنی کسی شے کوبتدریج ارتقائی منازل کی طرف لے جانا۔ جب لفظ رَب کو بلا اضافت استعمال کیا جائے تو اس کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے:
قُلۡ اَغَیۡرَ اللّٰہِ اَبۡغِیۡ رَبًّا وَّ ہُوَ رَبُّ کُلِّ شَیۡءٍ ۔۔۔ (۶ انعام: ۱۶۴)
کہدیجیے: کیا میں کسی غیر اللہ کو اپنا معبود بناؤں؟ حالانکہ اللہ ہر چیز کا رب ہے۔
البتہ غیر خدا کے لیے اضافت ضروری ہے۔ جیسے رب البیت، رب السفینۃ وغیرہ۔
لفظ رب اس مالک کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جس کے ہاتھ میں مملوک کے امور کی تدبیر ہو۔ اسلامی تعلیمات کا مرکزی نکتہ خالق و مدبر کی وحدت ہے کہ جس نے خلق کیا ہے، اسی کے ہاتھ میں تدبیر امور ہے: یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الۡاَرۡضِ ۔۔۔ (۳۲ سجدہ : ۵)
انسانی تکامل و ارتقا کا مربی خدا ہے اور حقیقی مالک بھی وہی ہے اس لیے لفظ رب کومقام دعا میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ تمام انبیاء (ع)کی یہ سیرت رہی ہے کہ انہوں نے اپنی دعاؤں کی ابتدا لفظ رَبّ سے کی اور اللہ کو ہمیشہ اسی لفظ سے پکارا : رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً ۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۰۱) رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا ۔۔۔ (۳ آل عمران: ۸) رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ ۔۔۔۔۔ (۲ بقرہ ۱۲۹)
عالمین:اسم جمع ہے۔ موجودات کی ایک صنف پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جیسے عالم الانس، عالم الارواح وغیرہ۔ اللہ کے سوا پوری کائنات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
ممکن ہے عَالَمِین سے یہاں پہلا معنی مراد ہو۔ بنابریں رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ کا معنی یہ ہوا کہ تمام عالمین کا مربی اور ان کی ارتقا کا سرچشمہ فقط اللہ ہے۔ اس جامع اور وسیع نظریہ توحید سے وہ فرسودہ توہمات بھی باطل ہوجاتے ہیں، جن کے مطابق مشرکین تربیت و فیض کا سرچشمہ ایک ذات کی بجائے متعدد اذوات کو قرار دیتے اور ایک رب کی بجائے بہت سے ارباب کو پکارتے تھے۔
اہم نکات
۱۔ ہر حمد و ثنا ء کی بازگشت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے: اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ۔
۲۔ تمام کائنات کا مالک اور ہر ارتقا کا سرچشمہ اللہ تعا لیٰ ہے: رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۔
۳۔ کائنات پر صرف ایک رب کی حاکمیت ہے۔
۴۔ ربوبیت کا تقا ضا یہ ہے کہ مربوب اپنے رب کی تعریف کرے۔
۵۔ مربی کے بغیرارتقا ئی مراحل طے نہیں ہو سکتے۔
۶۔ تربیت یعنی حقیقی منزل کی طر ف رہنما ئی سب سے اہم کام ہے۔
۷۔ لفظ عالمین سے ظا ہر ہے کہ تربیت کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔
۸۔ وحدت مربی نظا م کا ئنا ت میں ہم آہنگی اور وحد ت ہدف کی ضامن ہے۔
تحقیق مزید: مجموعہ ورام ۲ : ۱۰۷۔ الکافی ۶ : ۲۲۳۔ الاستبصار ۱: ۳۱۱
الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 200