تحریک عاشورا کے قرآنی اصول
  • عنوان: تحریک عاشورا کے قرآنی اصول
  • مصنف: غلام قاسم تسنیمی
  • ذریعہ: امام حسین فاونڈیشن
  • رہائی کی تاریخ: 0:25:54 2-9-1403

تحریک عاشورا کے قرآنی اصول
تحریر: غلام قاسم تسنیمی


مقدمہ
تمام مسلمانوں کا اجماع و اتفاق ہے کہ اسلام آخری دین ہے، رسول کائنات حضرت محمد، اللہ کے آخری پیغمبر اور خاتم النبین ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں  آئے گا، اب کوئی نئی شریعت نہیں آئیگی۔ جب یہ متفق علیہ ہے کہ اسلام ہی خدا کا پسندیدہ دین ہے جسے قیامت تک باقی رہنا ہے، تو لا محالہ خالق کائنات نے اسلام کو تحریف سے بچانے کیلئے کوئی پختہ انتظام کیا ہوگا، جس کا اعلان رسول کائنات کی زبانی ہوا ہوگا۔  نبی کریم کی حدیث متواتر ہے کہ میں تمہارے درمیاں دو قیمتی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک اللھ کی کتاب دوسری میری اہلبیت۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہونگیں یہاں تک  کہ میرے پاس حوض کوثر تک آ پہنچیں۔
ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ اہلبیت سے کون کون مراد ہیں۔ البتہ یہ بات یقینی ہے کہ امام حسین اہلبیت میں ضرور داخل  ہیں۔ نبی پاک کی اس حدیث کی روشنی میں اتنا کہا جا سکتا ہے کہ امام حسین، قرآن سے ملے ہوے ہیں اور قرآن امام حسین سے ملے ہوے ہیں۔ یہ دونوں ہی من جانب خدا و رسول ہیں، ایک لفظی صورت میں ہے تو دوسرا چلتا پھرتا۔
بہرحال امامیہ کے عقیدے کے مطابق امام حسین خود امام ہیں، اور امام کا عمل خود حجت ہوتا ہے اس کیلیے کسی دوسری حجت و دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن نبی پاک کی اس حدیث اور قرآن اور اہلبیت کی معیت ثابت کرنے کیلیے ہم تحریک عاشورا میں موجود قرآنی اصولوں پر روشنی ڈالتے ہیں تا کہ روشن ہو جائے کہ امام حسین کا قیام اور تحریک قرآنی احکام اور اصولوں پر عمل کرنے کا نتیجہ تھی یہاں تک کہ اگر مولا کی جگہ کوئی بھی وارث دین ہوتا تو وہ بھی وہی کرتا جو امام نے کیا۔ اب یکی بعد از دیگری ان اصول کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
۱۔ نام خدا کی سربلندی
بدیہی بات ہے کہ تمام انبیا اور آئمہ کااہم وظیفہ خداوند متعال کا تعارف اور خداشناسی ہوا کرتا ہے۔ کیونکہ وہ خدا کے ترجمان اور خلیفہ ہوتے ہیں۔وہ ذات ہی ایسی ہے کہ جو بھی اس کی معرفت حاصل کرے گا اس کا گرویدہ ہوجائیگا، اس کا عاشق بن جائیگا، اسے ہی لائق عبادت جانے گا ، اسی کے سامنے پیشانی کو جھکائیگا۔ یہ ہستیاں تو خدا کی حقیقی عاشق تھیں، انہوں نے تو سبوح قدوس سننے کیلئے اپنے آپ کو بیچ ڈالا۔
امام حسین ایسی معرفت والے خدا کے عاشق تھے، مولا اپنی دعا عرفہ میں فرماتے ہیں: خدایا اسی ملا کیا جسے تو نہیں ملا اور اس نے کھویا ہی جسے تو مل گیا۔  خالق کائنات نے اپنے حبیب کو حکم دیا ہے اس کی تسبیح کرو۔ظاہر ہے کہ اس تسبیح سے مراد فقط یہ نہیں ہے کہ زبان سے اس کی بھڑائی بیان کرو۔بلکہ عملی طور پر اس  کی بڑہائی یہی ہے کہ اس کا نام بلند کرنے کیلیے جان بھی دینی پڑی تو انسان دیدے۔
امام حسین نے نام خدا کی بلندی کیلئے جان کا نذرانہ دیا، اسی قرآنی قانون و اصول کی روشنی میں اپنی تحریک کا آغاز فرمایا۔روایت ہے کہ کربلا جاتے ہوے صفاح کی منزل پر مولا حسین فرزدق سے ملے تو اپنا مقصد بیان کرتے ہوے آپ نے فرمایا: و انا اولى من قام بنصرة دين؛ و اعزاز شرعه؛ والجهاد في سبيله؛ لتکون کلمة الله هي العليا؛ (1)
 اللہ کے دین کی نصرت کیلئے سزاوار ترین شخص میں ہی ہوں۔ کہ اس کی شریعت کو عزت بخشوں، اس کی راہ میں جہاد کروں، تاکہ اس کا نام بلند ہو۔
در اصل مولا کا یہ فرمان قرآنی اصول ہی ہے، آپ کا یہ ارشاد اس آیت کا اقتباس ہے: : وَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيا(2)
۲۔حفاظت اسلام کیلئے جہاد
ویسے تو اسلام انسانیت، محبت اور الفت کا دین ہے، جس کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول کو دونوں جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ وَ مَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (3)
 آپ کریم تو دشمنوں کیلئے بھی رحمت تھے تبہی تو آپ راستے پر کانٹے بچھانی والی کی عیادت کیلئے بھی گئے۔البتہ کچھ ایسے افراد ہوتے ہیں جن کو علم، منطق، عقل کی کوئی دلیل سمجھ میں نہیں آتی، وہ نہ فقط یہ کہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے ہدایت کے مناروں کو سرنگوں کرنا چاہتے ہیں، ایسی صورت میں سوائے اس کے کہ ان کا خاتمہ کیا جائے اور کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ اسلام میں جہاد اسی کا نام ہے، اور خالق کائنات نے جہاد کا مقصد بھی یہی بیان فرمایا ہے: وَ قاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَ يَكُونَ الدِّينُ لِلَّه(4)
امام حسین نے اسی وجہ سے پہلے خطبات دئے تا کہ اگر کوئی انہیں اور ان کے مقصد کو نہیں جانتا تو جان لے، تا کہ اس پر اتمام حجت ہوجائے کل قیامت کے دن کوئی بہانہ پیش نہ کر سکے، پر جب انہوں نے کوئی بات نہیں مانی اور اپنی گمراہی پر اڑے رہے اور منارہ ہدایت کو گرانا چاہا تو مولا نے جہاد کیا، آپ نے اپنی تحریک کے اس قرآنی اصول کو اس طرح بیان فرمایا: يا فرزدق أَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ قَدْ لَزِمُوا طَاعَةَ الشَّيْطَانِ ؛ وَ تَوَلَّوْا عَنْ طَاعَةِ الرَّحْمَنِ وَ أَظْهَرُوا الْفَسَادَ في الارض؛ و ابطلوا الحدود؛ و شربو الخمور؛ واستاثروا في اموال الفقراءِ والمساکين؛(5)
اے فرزدق اس قوم نے شیطان کی اطاعت کو اپنے لئے لازم قرار دے دیا ہے، انہوں نے رحمان کی اطاعت کو چھوڑ دیا ہے، یہ زمیں پر فتنہ فساد کر رہے ہیں، انہوں نے حدود الہی کو معطل کر دیا ہے، یہ شراب پیتے ہیں، فقرا اور مساکین کے مال میں دست اندازی کرتے ہیں۔
امام حسین نے اسی مقصد کیلئے جہاد فرمایا اور اسی راہ میں شہید ہوے۔ پس آپ نے قرآن کو زندہ کیا اور متعدد آیات پر عمل فرمایا، من باب المثال یہ آیتین:
وَ الَّذينَ آمَنُوا وَ هاجَرُوا وَ جاهَدُوا في‏ سَبيلِ اللَّهِ وَ الَّذينَ آوَوْا وَ نَصَرُوا أُولئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا (6)
يا أَيُّهَا النَّبِيُّ جاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنافِقينَ وَ اغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَ مَأْواهُمْ جَهَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصيرُ (7)
۳۔اصلاح طلبی
کسی بھی سالم اور صالح معاشرہ کےقیام کیلئے جہاں نیکیوں اور خوبیوں کا عام کرنا لازمی ہے وہاں کافی امور میں اصلاح بھی لازمی ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے حضرت شعیب کی زبانی نقل کیا ہے: إِنْ أُريدُ إِلاَّ الْإِصْلاحَ مَا اسْتَطَعْت(8)
اس آیت میں حضرت شعیب اپنا مقصد بیان فرما رہے ہیں کہ میرا مقصد تربیت اور اصلاح کرنا ہے، وہ خدا کی طرف سے ایسے حقائق جانتے ہیں جن کا لوگوں کو علم نہیں ہے۔ البتہ اصلاح کا بہت ہی وسیع مفہوم ہے(9)
جو کہ ہر قسم کی سیاسی، اقتصادی، فکری، اخلاقی اور ثقافتی اچھی تبدیلی کو شامل ہے۔
امام حسین نے اپنی تحریک عاشورا کے آغاز میں، مطلب کہ مدینہ سے نکلتے وقت جو وصیت اپنے بھائی محمد حنفیہ کے نام لکھی، اس میں فرمایا: وَ أَنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشِراً وَ لَا بَطِراً وَ لَا مُفْسِداً وَ لَا ظَالِماً ؛ وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي ص أُرِيدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ ؛ وَ أَسِيرَ بِسِيرَةِ جَدِّي وَ أَبِي‏ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِب‏(10)
میں سرکشی، ظلم اور فساد کیلئے قیام نہیں کر راہا ہوں، میں نے تو فقط اپنے نانا کی امت کی اصلاح کیلئے قیام کیا ہے، میں چاہتا ہوں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں اور اپنے نانا اور بابا کی سیرت پر چلوں۔
مولا نے  اپنی تحریک کا بنیادی مقصد امت کی اصلاح بتایا ہے جو کہ انبیا کا مقصد ہے جس کی قرآن نے تاکید کی ہے، اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ تحریک عاشورا قرآنی اصولوں کا پرتو ہے۔جس کی بنیاد خالص قرآنی اصولوں پر ہے۔
۴۔امربالمعروف اور نہی عن المنکر
جس طرح معاشرے میں نیکیوں کو عام کرنے کیلئے امربالمعروف لازمی ہے اسی طرح معاشرے کو برایوں سے پاک کرنے کیلئے نہی عن المنکر بی لازمی ہے۔اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوے ان دونوں کو فروع دین میں داخل کیا گیا ہے، اور قرآن مجید نے ان کی بہت زیادہ تاکید  کی ہے: . وَ لْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (11)
امام حسین اپنی تحریک کا ایک مقصد اسی خدائی فریضہ کی ادائیگی بیان کرتے ہیں۔
فقہ اسلامی میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کےمختلف مراحل ذکرہوے ہیں، جو کہ یہ ہیں:
۱۔انکار قلبی: جو بھی منکر اور برائی کی معرفت رکھتا ہوگا جب ہو کسی کو برائی کا مرتکب ہوتے ہوے دیکھے گا تو اس سے اسے ٹھیس پہنچے گی، جس کا اثر اس کے چہرہ پر ظاہر ہوگا۔
۲۔انکار زبانی: مومن جب کسی برائی کو دیکھے گا تو زبانی طور پر اس کی مذمت کرے گا، زبان سے اسے روکے گا، اس کی مخالفت کرے گا۔البتہ اس کیلئے پہلے نرم لہجہ، دھیمی آواز اور  ناصحانہ انداز میں روکنا چاہیے لیکن جب یہ کارگر نہ ہوں تو سخت لہجہ میں برائی سے زبانی طور پر روکے۔
۳۔عملی اقدام
کوئی بھی رکاوٹ کھڑی کر کے برائی کو روکنا، نہی عن المنکر کا عملی اقدام ہے۔البتہ اس کا مرحلہ سابقہ مراحل کے موثر نہ ہونے کے بعد ہے۔اگر نرم لہجے یا زبانی نصیحت سے ہی برائی کو روکا جا سکتا ہو تو عملی اقدام کرناایک قسم کی زیادتی شمار ہوگا۔ لیکن زخمی کرنا یا قتل کرنا عام مومن کا وظیفہ نہیں ہے، بلکہ یہ اقدام حاکم شرع کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے۔(12)
امام حسین کا قیام بھی اسی مقصد کے تحت تھا، آپ برائی سے روکنا چاہتے تھے، یزید جیسے حاکم سے بڑہ کر کیا برائی ہو سکتی ہے۔ مولا نے اپنی تحریک کا آغاز اسی قرآنی دستور کی روشنی میں کیا تھا۔اور کیونکہ خود ہی وارث شریعت تھے، اسی مسلحانہ اقدام کو بھی لازمی سمجھا تو ششمیر کے ساتھ برائی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
۵۔سنت پیغمبر کی حفاظت
دین مبین اسلام میں نبی اکرم کی سنت اہم منبع اور ماخذ شمار ہوتی ہے، احکام الہی کیلئے قرآن کے ساتھ سنت بھی حجت ہے، بلکہ کیونکہ قرآن کریم میں کلیات کا تذکرہ ہے تو اس کی جزئیات کو جاننے کیلئے سنت کی اور زیادہ ضرورت ہے۔در حقیقت ارشادات و فرمودات اور عمل پیغمبر ، قرآن کی تفسیر ہے۔ ارشاد رب العزت ہے: وَ أَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (13)
تمام مسلمانوں کیلئے سنت کی پیروی اور اتباع لازمی ہے، بلکہ ان کو چاہیے کہ دوسروں کو بھی سنت کی دعوت دیں، نبی پاک کی سنت کا دفاع کریں؛ کیونکہ سنت کا دفاع، حقیقت میں دین کا دفاع ہے۔ سنت کو چھوڑ دینا، دین کے اہم حصہ کو چھوڑ دینے کے مترادف ہے۔قانونی طور پر مسلمان رسول اللہ کے احکام کی مخالفت کا حق نہیں رکھتے۔ جیسا کہ ارشاد قدرت ہے: وَ ما كانَ لِمُؤْمِنٍ وَ لا مُؤْمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَ مَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً مُبيناً (14)
امام حسین تحریک عاشورا کے ذریعہ سے سنت کو زندہ کرنا چاہتے تھے، جیسا کہ آپ نے اپنے وصیت نامہ میں فرمایا: إِنِّي أَدْعُوكُمْ إِلَى کتاب اللَّهِ وَ إِلَى سنة نَبِيِّهِ؛ فَإِنَّ السُّنَّةَ قَدْ أُمِيتَت؛‏ و ان البدعة قد احييت(15)
مولا کی تحریک اسلام اور سنت نبوی کو مسلمانوں کی زندگی میں نافذ کرنے کیلئے تھی۔ کیونکہ اس دور میں سنت کو چھوڑ دیا گیا تھا اور بدعتوں کو اندہ کیا گیا تھا، ایسے حالات میں تو ہر مسلمان کا وہی وظیفہ بنتا ہے جیسا کہ سید الشہدا نے اقدام کیا۔
۶۔ہجرت
ہجرت دین کا ایک اہم حکم اور دستور ہے، جہاں بھی انسان اپنی دینی تکالیف کو انجام نہ دے سکتا ہو، آزادی سے اپنے دینی وظائف پر عمل نہ کر سکتا ہو تو انسان کو چاہیے کہ وہاں سے ہجرت کرے۔ کیونکہ یہ تمام زمین خدا کی ہی ہے۔کل قیامت کے دن کوئی بھی یہ بہانا نہیں بنا سکتا کہ میں ایسے ماحول میں تھا، مجھے آزادی نہیں تھی۔ یہاں تک کہ رسول کائنات نے جب مکہ میں رہنے میں دین کا نصقان ہوتا دیکھا تو آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ قرآن اس حوالے سے فرماتا ہے:
قالُوا أَ لَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فيها فَأُولئِكَ مَأْواهُمْ جَهَنَّمُ وَ ساءَتْ مَصيرا(16)
پھر قرآن اس نکتہ کی یاد دہانی فرماتا ہے کہ اگر کوئی خدا کیلئے ہجرت کرے، اور راستے میں مارا جائے تو اس کا اجر خدا پر ہے، ہجرت کرنے والوں کا بہت ہی بلند درجہ ہے:
وَ الَّذينَ هاجَرُوا في‏ سَبيلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ ماتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِزْقاً حَسَناً وَ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقينَ (17)
وَ مَنْ يُهاجِرْ في‏ سَبيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُراغَماً كَثيراً وَ سَعَةً وَ مَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ وَ رَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ
الَّذينَ آمَنُوا وَ هاجَرُوا وَ جاهَدُوا في‏ سَبيلِ اللَّهِ بِأَمْوالِهِمْ وَ أَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ وَ أُولئِكَ هُمُ الْفائِزُون‏(18)

امام حسین کو بھی جیسے ہی معلوم ہوا کہ حاکم مدینہ یزید کے حکم سے  آپ سے بیعت لینا چاہتا ہے اور انکار کی صورت میں آپ کو شہید کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو آپ کو رات کے وقت ہی مدینہ سے ہجرت فرماتے ہیں۔ جب مکہ میں بھی ان کی سازشیں تمام نہ ہویں اور حالت  احرام میں بیت اللہ کے اندر ہی آپ کو شہید کرنے کا پروگرام بنایا گیا تو آپ نے وہاں سے بھی ہجرت فرمائی۔ اور کربلا کی طرف روانہ ہوے۔ راستہ میں جہاں کسی نے سوال کیا کہ مولا آپ نے اپنے جد امجد کا مدینہ کیوں چھوڑا؟ تو ارشاد فرمایا: مجھے قتل کرنا چاہتے تھے اسی لئے میں نے ہجرت کی۔(19)
مولا کا یہ اقدام بھی قرآنی وظیفہ کو انجام دینے کیلئے تھا۔ آپ کی اسی ہجرت نے آپ کی مقتل گاہ کو کربلا معلی بنا دیا، ہاں قرآن پر عمل کرنے کی یہ تمام برکات ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ مولا کے نقش قدم پر چلیں اور پھر یہ نعرا لگائیں کہ کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا۔
۷۔ظلم کے آگے ڈٹ جانا
دین مبین اسلام نے زندگی گذارنے کا ایک جامع نظام بیان کیا ہے۔یہ نظام انسانی ضروریات کو عقل اور فطرت کے عین تقاضائوں کے مطابق پیش کرتا ہے، یہی سبب ہے کہ اس خدائی دین نے جس طرح ظلم کرنے سے روکا ہے اسی طرح ظلم سہنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ قرآن مجید نے گذشتہ کئی اقوام کی ہلاکت کا سبب ظالموں پر اعتماد کو بتایا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: وَ لا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَ ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِياءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُونَ (20)
اس کے بعد خداوند متعال نے مظلوموں کو جہاد کی اجازت دیتے ہوے فرمایا ہے: : أُذِنَ لِلَّذينَ يُقاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلى‏ نَصْرِهِمْ لَقَدير(21)
امام حسین نے بھی جب دیکھا کہ دین خدا اور خلق خدا بنی امیہ کے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں تو آپ ظلم کے ڈٹ گئے، آپ نے ظلم کو روکنے کیلئے تحریک عاشورا کی بنیاد رکھی۔مولا نے اپنے فرامین اس ظلم کو اس طرح بے نقاب فرمایا ہے: يزيد رجل فاسق؛ معلن بالفسق؛ يشرب الخمر؛ و يلعب بالکلاب والفهود؛ و يبغض بقية آل الرسول؛ و قاتل النفس المحترمة مثلي لا يبايع مثله؛
یزید ایک فاسق شخص ہے، برے اعمال کھلے عام انجام دیتا ہے، شراب نوشی کرتا ہے، کتوں اور شیروں سے کھیلتا ہے، اہلبیت سے بغض و کینہ رکھتا ہے، بے گناہ لوگوں کا قاتل ہے، مجھ جیسا کبھی بھی اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔
۸۔آزادی دلانا
انسانیت کو غلامی سے نجات دینا، جھوٹے خدائوں کے چنگال سے نکالنا، رسم رواج کی زنجیروں سے رہانی دلانا، انبیا کی بعثت کا ایک مقصد ہے۔ خاص طور پر رسول اکرم  کا تعارف اسی عنوان سے کرایا گیا ہے: الَّذينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذي يَجِدُونَهُ مَكْتُوباً عِنْدَهُمْ فِي التَّوْراةِ وَ الْإِنْجيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَ يَنْهاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّباتِ وَ يُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ وَ يَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَ الْأَغْلالَ الَّتي‏ كانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذينَ آمَنُوا بِهِ وَ عَزَّرُوهُ وَ نَصَرُوهُ وَ اتَّبَعُوا النُّورَ الَّذي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (22)
ویسے بھی دیکھا جائے تو حریت و آزادی کا لفظ محبوب ترین لفظ ہے، یہاں تک کہ ملکوں پر ناجائز قبضہ کرنے والے اور اقوام کو اپنا غلام بنانے والے بھی آزادی کے نام پر خیر خواہ بن کر آتے ہیں؛ بلکل شیطان کی  طرح جس نے قسم کھا کر حضرت آدم کو کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔لیکن اگر انسان اس قوت کو استعمال کرے جو کو خدا نے اس کے اندر رکھا ہے اور عقل نام دیا ہے تو مصنوعی آزادی کوحقیقی آزادی سے جدا کرسکتا ہے، انبیا نے اسی وظیفہ کو انجام دیا۔امام حسین خود بھی حریت اور آزادی کے خواہاں تھے تو دوسروں کو بھی غلامی سے نجات دینا چاہتے تھے اس لئے ان کا ایک لقب ابو الاحرار، سرور آزادگان ہے۔ یہاں ہم ایک دو نمونوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔
۱۔ مولا اپنے دشمنوں کو پہلے دین کی بنیاد پر ان کے عمل کے نتیجہ سے ڈرایا، خدا ترسی اور قیامت شناسی کی طرف متوجہ کیا۔ رسول اللہ سے اپنی نسبت کو بیان کیا، اپنی خاندان کی دینی خدمتوں کو یاد دلایا مگر ان کے شقی قلب نے اس نورانی نصیحت کو قبول نہیں کیا۔ پھر مولا نے دوسرا طریقہ اپنایا کہ ان کے ذہنوں جنجھوڑا، ضمیروں کو بیدار کرنا چاہا ان کو عرب ہونے کا احساس دلا کر، فرمایا: إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ دِينٌ وَ كُنْتُمْ لَا تَخَافُونَ الْمَعَادَ فَكُونُوا أَحْرَاراً فِي دُنْيَاكُمْ وَ ارْجِعُوا إِلَى أَحْسَابِكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْرَابا کما تزعمون(23)
اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے اور قیامت سے بھی ڈرتے ہو تو کم از کم اس دنیا میں آزاد رہو اپنے آبا و اجداد کا ہی خیال کر لو اگر تم اپنے آپ کو عرب سمجھتے ہو تو۔
۲۔بیعت کو اٹھا دینا
کسی کو مجبور کر کے کوئی خدمت لینا ایک آزاد دین کے مزاج کے برخلاف ہے، یہی وجہ ہے کہ سرور آزدگان حسین بن علی نے مکہ سے کوفہ جاتے ہوے کتنی ہی بار اپنے ساتھیوں سے بیعت کو اٹھا لیا، یہاں تک کہ سب کو یہ بھی بتا دیا کہ جو بھی ہمارے ساتھ جائے گا وہ شہید ہوگا۔ (24)
کوئی بھی کسی قسم کی بے خیالی یا دھوکہ میں نہ رہے، اگر کسی کا مقصد کچھ اور ہے، اگر کوئی اس تحریک میں کسی اور غرض سے داخل ہوا ہے تو الگ ہو جائے، مولا یہی چاہتے تھے کہ اس تحریک کا ہر رکن اپنی مرضی، اختیار اور عشق کے ساتھ اپنے مقصد کا انتخاب کرے۔
۹۔ذلت گریزی اور عزت محوری
مولا حسین کی سیاسی تحریک کا ایک مقصد ذلت گریزی اور ذلت کو ٹھکرانا تھا، مولا کی تحریک کا شعار یہ تھا: مَوْتٌ فِي عِزٍّ خَيْرٌ مِنْ حَيَاةٍ فِي ذُل؛(25)  کہ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے، مولا کا یہ شعار طول  تاریخ میں تمام شیعوں کیلئے نمونہ اور آئیڈیل رہا ہے۔
جی ہاں! مکتب حسین میں سعادت کا معیار، پیسہ، شہرت، عہدہ، اور منصب نہیں ہے۔ بلکہ معیار عزت ہے، اس لئے فرمایا: هيهات منا الذلة؛(26) ذلت ہم سے دور ہے۔ مولا حسین نے انسانیت جو یہی نظریہ دیا، آقا نے اسی راستے کی ہدایت فرمائی۔ در حقیقت مولا نے موت کے حوالے سے آزاد انسانوں کے نظریہ کو ہی تبدیل کر دیا۔ آپ کا فرمانا تھا کہ موت برحق ہے، اس دنیا میں کسی کو باقی نہیں رہنا، سب کو ایک دن مرنا ہے تو پھر کیوں نہ انسان اپنی موت کا خود انتخاب کرے، یہ انسان کو سوچنا ہے کہ اسے کس قسم کی موت چاہیے۔ آپ نے اس حقیقت کو برملا فرمایا کہ خدا کیلئے دین کیلئے تلواروں کے سائے میں مرنا ہی حقیقی زندگی ہے۔
آپ نے جب ملاحظہ کیا کہ آپ کی نصیحتیں بنی امیہ کے کارندوں پر اثر گذار نہیں ہو رہیں اور یزید بھی ایک فاسق و فاجر حکمران ہے جس کی بیعت نہیں کی جا سکتی، فرار کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ ہر جگہ ان کا پیچھا کیا جائے گا تو پھر مولا نے جوان مردی کے ساتھ ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ فرمایا اور اپنے مقدس لہو کے آخری قطرے تک جہاد کیا، اور فرمایا: لَا وَ اللَّهِ لَا أُعْطِيكُمْ بِيَدِي إِعْطَاءَ الذَّلِيلِ وَ لَا أَفِرُّ فِرَارَ الْعَبِيد؛(27) خدا کی قسم! ذلیل افراد کی طرح بیعت نہ کرون گا اور نہ غلاموں کی طرح فرار کا راستہ اختیار کروں گا۔
مولا کی تحریک کا یہ اصول بھی قرآن سے اقتباس شدہ ہے، قرآن مجید نے عزت کا حقیقی مصداق خدا، رسول اور اہل ایمان کو قرار دیا ہے اور یہ بھی اعلان کر دیا ہے کہ منافق کبھی بھی اس حقیقت کو جان نہیں پائینگے۔
۱۰۔دو میں سے ایک نیکی کا انتخاب
حق و باطل کا مقابلہ ازل سے چلا آ رہا ہے اور ابد تک جاری رہے گا، لیکن اصل بات نتیجہ، انجام اور عاقبت کی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ جنگ میں رسول اللہ کے ساتھ بد رفتاری کرتے تھے یا نا پسند باتیں کرتے تھے ان کے جواب میں پیغمبر اکرم فرماتے تھے: قُلْ لَنْ يُصيبَنا إِلاَّ ما كَتَبَ اللَّهُ لَنا هُوَ مَوْلانا وَ عَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ - قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنا إِلاَّ إِحْدَى الْحُسْنَيَيْن-(28)
مطلب یہ کہ ہم ہر صورت مہں کامیاب ہیں، چاہے دنیا میں فتح ملے یا شہادت۔ کیونکہ دیناوی فتح جلدی ملنے والا نتیجہ ہے یہ تو نور علی نور اور خدا کا احسان، لیکن اگر دینا میں غلبہ یا فتح نھ ملے تو بھی آخرت تو ہمارے ہاتھوں میں ہے۔شہادت کے بعد ہم جنت کے حقدار ہونگے، جب کہ کافر یا تو اس دنیا میں ہی شکست کھائینگے یا پھر آخرت میں جہنم کا ایندھن بنینگے۔
امام حسین بھی اگر چاہتے تو باطل حکومت کو تسلیم کر لیتے، روضہ رسول کے مجاور بن کر گدی نشین بن جاتے۔ لیکن آپ نے مدینہ سے ہجرت فرمائی، مکہ کو حالت احرام میں ایک بلند مقصد کیلئے چھوڑا۔ وہ وہی مقصد تھاجن کیلئے آپ نے تحریک کا آغاز فرمایا تھا۔ آپ نے اعلان فرمایا: فَقَالَ إِنَّ بَيْنِي وَ بَيْنَ الْقَوْمِ مَوْعِداً أَكْرَهُ أَنْ أُخْلِفَهُمْ فَإِنْ يَدْفَعِ اللَّهُ عَنَّا فَقَدِيماً مَا أَنْعَمَ عَلَيْنَا وَ كَفَى وَ إِنْ يَكُنْ مَا لَا بُدَّ مِنْهُ فَفَوْزٌ وَ شَهَادَةٌ إِنْ شَاءَ اللَّه-(29)  میں نے کوفیوں کو وعدہ دیا ہے اور میں وعدہ خلافی کو پسند نہیں کرتا، اگر خدا نے اس مصیبت کو ٹال دیا تو وہ وہی ذات ہے جو ہمیشہ سے ہم پر انعام کرتی آئی ہے اور اگر وہی ہوا جو ہونا ہے تو بھی کامیابی اور شہادت ہے انشا اللہ۔
یہ ایک منطقی اورمعقول بات ہے کہ اگر لوگ امام کی حمایت کرتے ان کا ساتھ دیتے تو یزید کی حکومت کا خاتمہ ہو جاتا، اور نتیجہ اسلام کے حق میں ہوتا اور کامیابی نصیب ہوتی۔ لیکن اگر لوگ مدد نہ کرتے تو حضرت نے شید ہونا تھا، پھر بھی یزید کی حکومت رسوا ہوتی، حضرت کے پاک لہو سے اسلام زندہ ہوتا، لہذا ہر حال میں مدینہ اور مکہ سے نکلنا بیعت کرنے اور وہاں قتل ہونے سے بہتر تھا۔
خلاصہ یہ کہ یزیدیوں کا انجام ہر حال میں  ذلت اور شکست ہے یا آخرت کا عذاب۔ جبکہ حسینی دنیا و آخرت میں سرخرو اور کامیاب ہے تو عقل کا یہی فیصلہ ہے کہ ہم راہ حسین پر چلتے رہیں۔
۱۱۔اتمام حجت
قرآن مجید نے دلیل، حجت اور برہان کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے، اور مخالفین کو کتنی بار متوجہ کیا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل لے آئو۔ یہاں تک کہ انبیا کی بعثت کا بھی ایک مقصد اتمام حجت اور دلیل قائم کرنا ہے۔ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُل‏-(30)
 مولا حسین نے اپنی تحریک کو مدینہ سے کوفہ لے جانے کا ارادہ ، اتمام حجت کیلئے کیا۔ کیونکہ اہل کوفہ کی طرف سے کئی خطوط، مکتوب اور قاصد پہنچے تھے کہ ہمارے پاس کوئی امام نہیں ہے، ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے تو امام حسین نے جناب مسلم بن عقیل کو بھیجا تا کہ وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر امام کو آگاہ کریں۔ جب کوفیوں نے مسلم بن عقیل کی بیعت کر لی تو امام کیلئے جانا لازمی ہوگیا، کیونکہ ظاہری طور پر امام پر حجت تمام تھی۔ اب امام وہاں جا کر لوگوں پر اتمام حجت کرنا چاہتے تھے۔ اسی لئے فرمایا: هذه کتب اهل الکوفة و رسلهم و قد وجب علي اجابتهم و قام لهم العذر علي عند الله سبحانه؛-(31)  یہ اہل کوفہ کے خط اور قاصد ہیں، ان کو قبول کرنا لازمی تھا خدا کی نظر میں وہ حجت رکھتے تھے۔
پھر دوسری طرف امام نے اپنی تقریرات میں، خطبات میں امام عادل اور برحق کی صفات کو بیان فرمایا، تاکہ لوگوں پر حجت تمام ہوجائے۔ فرمایا: العامل بالکتاب والآخذ بالقسط والدائن بالحق والحابس نفسه علي ذات الله؛-(32)   جو کتاب پر عمل کرنے والا ہو، عدل و انصاف کرنے والا ہو، حق کی پیروی کرنے والا ہو، جس نے اپنی ذات کو خدا کیلئے وقف کر دیا ہو۔
تحریک عاشورا کے اہم ترین قرآنی اصول یہی تھے، دعا ہے خالق کائنات ہمیں بھی اس عظیم تحریک کا ممبر بننے اور آج کے حسین کی نصرت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حوالہ جات:

(1)-موسوعہ کلمات الامام الحسین، ص337.
(2)-سورت توبہ، آیت 40.
(3)-الانبیاء ، ا الآیة: 107
(4)-سورت بقرہ، آیت 193
(5)-تذکرة الخواص، ص217.
(6)-سورت انفال، آیت74.
(7)-سورت توبہ، آیت73.
(8)-سورت ہود، آیہ88.
(9)-مفردات راغب، مادہ صلح
(10)-بحارالانوار، ج‏44، ص 330
(11)-سورت آل عمران، آیت 104.
(12)-تحریر الوسیلہ، باب امربالمعروف
(13)-سورت نحل، آیت 44.
(14)-سورت احزاب، آیت36.
(15)-تاریخ طبری، ج3، ص306؛ الکامل فی التاریخ، ج2، ص552؛ احقاق الحق، ج11، ص609.
(16)-سورت نساءَ، آیت97
(17)-سورت حج، آیت58.
(18)-سورت توبہ، آیت20.
(19)-موسوعہ، ص۳۵۷۔
(20)-سورت ہود، آیت113
(21)-سورت حج، آیت39
(22)-سورت اعراف، آیت 157.
(23)-موسوعہ، ص504.
(24)-بحار الانوار، ج44، ص316
(25)-بحار، ج44، ص191.
(26)-موسوعہ، ص423.
(27)-بحار، ج44، ص191.
(28)-سورت توبہ، آیت51  52.
(29)-موسوعہ، ص364.
(30)-سورت نساءَ، آیت165.
(31)-معالی السبطین، ج1، ص246؛ ناسخ التواریخ، ج2، ص122؛ اسرار الشہادة، ص247.
(32)-ارشاد مفید، ص204.