قرآن کی نظر میں حضرت علی(علیہ السّلام)  کا مقام
  • عنوان: قرآن کی نظر میں حضرت علی(علیہ السّلام) کا مقام
  • مصنف: حجة الاسلام سعید عطاریان
  • ذریعہ: ترجمہ: اسدرضا چانڈیو(پیشکش موسسہ امام حسین علیہ السلام
  • رہائی کی تاریخ: 16:50:10 4-9-1403

 

مقدمہ

(1)مختصر تاریخ دمشق میں ابن عباس سے نقل ہوا ہے  کہ ابن عباس کہتے ہیں : "ما نزل القرآن "یا ایها الذین‌ آمنوا" الا علی سیدها و شریفها و‌امیرها و ما احد من اصحاب رسول الله الا قد عاتبه الله فی القرآن ما خلا علی بن ابی‏طالب فانه لم‏ یعاتبه بشی‏ء... ما نزل فی احد من کتاب الله ما نزل فی علی... نزلت فی علی ثلاثماة آیة."جہاں بھی قرآن میں "یا ایہا الذین‌ آمنوا"     اے ایمان والو، آیا ہے  حضرت علی (علیہ السّلام)   ان مومنوں کا سید اور سالا ر ہے  اور مومن کا مصداق کامل، حضرت علی(علیہ السّلام)    ہے ۔ قرآن میں رسول اکرم  (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کے ہر صحابی پر عتاب کا ذکر ہواہے سوائے حضرت علی(علیہ السّلام)    کےان پر کوئی  کسی عتاب کا ذکر نہیں ہوا ۔ حضرت علی (علیہ السّلام)   کے فضائل کی قرآن میں اتنی آیتیں ہیں جتنی کسی کے فضائل کی نہیں۔ قرآن کی تین سو ۳۰۰ آیتیں ان کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔
ہم نے اس مقالہ میں حضرت علی (علیہ السّلام)   کو قرآن کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔ حضرت علی (علیہ السّلام)   قرآن کی تعریف میں  فرماتے ہیں : ان الله تعالی انزل کتابا‌هادیا، بین فیه الخیر والشر فخذوا نهج الخیر تهتدوا و اصدفوا عن سمت الشر تقصدوا؛(2)
اللہ تعالی نے ہدایت کرنے والی کتاب نازل فرمائی ہے ،اس مبارک کتاب میں خیر اور شر کو بیان کیا گیا ہے تاکہ خیر کے راستے کو اپنا کے ہدایت یافتہ بن جاؤاور شر  سے دور رہو تاکہ اچھی اور میانہ  زندگی بسر کرو۔
"واعلموا ان هذا القرآن هو الناصح‌الذی لایغش والهادی الذی لایضل و المحدث الذی لایکذب... ؛(3)
جان لو قرآن ایسا نصیحت کرنے والا ہے جو خیانت نہیں کرتا، ایسا ہادی ہے جو گمراہ نہیں کرتا ،ایسا سچا کلام ہے جس میں جھوٹ کی آمیزش نہیں ہے ۔
قرآن کریم میں حضرت علی (علیہ السّلام)کے فضائل پر مشتمل تین سو۳۰۰آیتیں ہیں اور حضرت علی (علیہ السّلام)  نے قرآن کے بارے میں بلندوالا خطبے ارشاد فرمائے ہیں ۔ثقل اکبر ، ثقل اصغرکی  اورثقل اصغر ، ثقل اکبر کی معرفت کا وسیلہ ہے یعنی  قرآن حضرت علی کی پہچان کرواتا ہے اور حضرت علی (علیہ السّلام)   قرآن کے فضائل بیان کرتے ہیں۔رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کے ارشاد کے مطابق قرآن اور حضرت علی (علیہ السّلام) ہمیشہ ساتھ رہیں گے ۔
جب کوئی طہارت کے بغیر قرآن کے قریب نہیں جا سکتا "لایمسه الا المطهرون‏"(4)تو کوئی کیسے طہارت کے بغیر اہلبیت (علیہم السّلام) کو سمجھ سکتا ہے ۔اہل بیت(علیہم السّلام)  کی معرفت کا قرآن کے سوا کوئی ذیعہ نہیں ہے۔ ہم بھی اہلبیت (علیہم السّلام) میں سے پہلے فرد حضرت علی(علیہ السّلام)    کی معرفت کیلئے قرآن سے مدد لیتے ہیں۔
قرآن میں کئی اسباب کے سبب علی کا   نام ذکرنہیں ہوا-(5) لیکن اہل سنت کے علماو بزرگان نے کئی مقامات پہ اعتراف کیا ہے کہ  : قرآن میں حضرت علی(علیہ السّلام)    کی شان میں کئی آیتیں نازل ہوئی ہیں۔  قرآن میں اہل بیت(علیہم السّلام)  کی شان بیان ہوئی ہے ۔ اہلبیت(علیہم السّلام)  کی شان جیسی کسی ان کے علاوہ کسی کی شان بیان نہیں ہوئی۔   اس نقطہ سے بھی غافل نہ رہیں کہ ممکن ہے ایک آیت عام ہو بہت سارے مصداق رکھتی ہو لیکن اس آیت کا  مصداق کامل حضرت علی(علیہ السّلام)  اور اہلبیت (علیہم السّلام) ہوں۔
پہلے بیان ہوا کہ ابن عباس کے قول کے مطابق قرآن میں حضرت علی (علیہ السّلام)   کے فضائل کی تین سو ۳۰۰ آیتیں ہیں۔ ہم یہاں اس مقالے میں چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان آیتوں کا شان نزول بھی اہلسنت کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں تاکہ برادران اہلسنت ان کتابون کی طرف مراجعہ کرکے مطمئن اور مسرور ہوں۔

 

1 - آیہ تبلیغ

یا ایها الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم ‏تفعل فما بلغت رسالته والله یعصمک من الناس ان الله لایهدی القوم الکافرین(6) اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔
تمام شیعہ مفسروں کے ساتھ اکثر اہل سنت (7)مفسروں کا ماننا ہے کہ یہ آیت حضرت علی(علیہ السّلام)   کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

 

شان نزول

یہ آیت غدیر خم سےمتعلق ہے ۔ علامہ امینی نےاپنی کتاب الغدیر میں حدیث غدیر کو معتبر  اور مختلف سندوں کے ساتھ ۱۱۰ ،اصحاب سے  نقل کیا ہے :  ان روایتوں میں اس آیت کا شان نزول کچھ اس طرح سے ہے، ہم یہاں  مختصر بیان کرتے ہیں۔
رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)  کی حیات طیبہ کے آخری سال حجہ الوداع کے اعمال رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)  کے حضور   کی برکت سےشان و شوکت سے انجام پائے۔  واپسی کے سفر میں یہ قافلہ  بیابانوں سے گذرتا ظہر کے وقت  غدیر خم پہ پہنچا۔  اس وقت عید قربان کو آٹھ دن گذرے تھے۔ اچانک رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)   کی طرف سے رکنے کا حکم آیاجو آگے نکل گئے تھے انہیں واپس بلایاگیا جو پیچھے تھے ان کا انتظار کیا گیا ۔ جب سب جمع ہوئے سول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کی اقتدا میں نماز جماعت انجام پائی، گرمی میں جلتے صحرا میں رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کیلئے سائبان بنایا گیا ۔رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے تمام لوگوں کو حکم خداوندی سننے کیلئے آمادہ ہونے کا حکم دیا۔ لوگ زیادہ تھے ہر ایک کو رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کا چھرہ مبارک دکھائی نہیں دے رہا تھا،  اس لئے اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا۔  رسول اکرم اس منبر پہ جلوہ افروز ہوئے اور پر معنی خطبہ ارشاد فرمایا:رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نےخدا کی حمد و ثنا کے بعد  کچھ اس طرح سے خطاب کیا : میں عنقریب  داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے تمہارے درمیان سے جانے والا ہوں۔  تم لوگوں سے بھی سوال ہوگا اور مجھ سے بھی پوچھا جائے گا ۔تم لوگ میرے بارے میں کیا گواہی دوگے؟تمام افراد نے ملکر ایک جواب دیا  : "نشهد انک قد بلغت و نصحت و حمدت فجزاک الله؛ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے وظیفہ رسالت کو بخوبی نبھایا اوراپنی تمام کاوشوں کو انسانی ہدایت کیلئے بروئے کار لائے۔ اللہ تعالی آپ کو ا س کی نیک جزا عنایت فرمائے۔
اس کے بعد رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے تمام مسلمانوں  سے اللہ تعالی کی وحدانیت ،اپنی رسالت  ،مرنے اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کا اقرار لیا   اور اس اقرار پراللہ تعالی کو گواہ بنایا اور فرمایا :
میں تم لوگوں میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جو میری یادگار ہیں، دیکھو تم لوگ ان سے کیا سلوک کرتے ہو ؟ ایک عظیم چیز، اللھ تعالی کی پاک کتاب ہے اور دوسری عظیم چیز میری اہلبیت (علیہم السّلام) ہے۔ مجھے رب جلیل نے بتایا ہے کہ یہ دو نوں کبھی بھی جدا نہ ہونگے  یہاں تک کہ جنت میں مجھ سے مل جائیں۔  ان سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے  ان سے پیچھےبھی نہ رہ جانا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔
لوگوں نے دیکھا کہ رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)  کی نظریں لوگوں کا طواف کرنے لگیں جیسے کسی کو ڈھونڈ رہی ہوں۔  جب رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)  کی نظریں حضرت علی (علیہ السّلام) پہ پڑیں ان کو بلایا اور ان کا ہاتھ تھام کر اتنا بلند کیا کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔ تمام افراد کو حضرت علی(علیہ السّلام)    نظر آنے لگے۔ اس وقت رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)  نے فرمایا : "ایها الناس من اولی الناس بالمؤمنین من انفسهم؛ اے لوگو!مومنوں کی جانوں پر ان سے بھی زیادہ حق کس کا ہے ؟سب نے جواب دیا اللہ اور اس کا رسول(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)  بہتر جانتے ہیں۔ رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے ارشاد فرمایا: اللہ میرا مولا ہے  اور میں مومنین کا مولا ہوں اور مومنین کی جانوں پر  ان سے بھی زیادہ حق رکھتا ہوں  "فمن کنت مولاه فعلی مولاه‏"جس کا میں مولا ہوں اس کا حضرت علی(علیہ السّلام)   مولا ہے۔
پھر آسمان کی طرف منہ کر کے فرمایا  : "اللهم وال من والاه و عاد من عاداه و احب من احبه و ابغض من ابغضه وانصر من نصره واخذل من خذله و ادر الحق معه حیث دار؛ پروردگارا !حضرت علی (علیہ السّلام)   کے دوست  کو اپنا دوست قرار دے  اور حضرت علی کے دشمن کو اپنا دشمن قرار دے، جو حضرت علی(علیہ السّلام)    سے محبت کرےتو بھی اس  سے محبت کر، جو حضرت علی (علیہ السّلام)   سے دشمنی کرے تو بھی اس سے دشمنی کر ،جو حضرت علی(علیہ السّلام)    کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر ،جو حضرت علی سے منہ موڑے تو اس سے منہ موڑ لے،جہاں حضرت علی(علیہ السّلام)    ہو وہاں حق کو قرار دے۔
 آخر میں رسول اکرم نے تاکید کی کہ جو یہاں موجود نہیں ان تک اس بات کو پہنچائیں۔ اس کے بعد تمام مسلمانوں نے ابوبکر اور عمر کے ساتھ حضرت علی(علیہ السّلام)    کو یہ کہہ کہ مبارک باد پیش کی :  علی ابن ابو طالب(علیہ السّلام)   تم کو مبارک ہو! آپ آج تمام مومن مرد اور عورتوں کے مولا بن گئے۔ (8)

 

۲۔   آیہ ولایت

"انما ولیکم الله و رسوله والذین‌ امنوا الذین یقیمون الصلاة و یؤتون الزکاة و هم راکعون(9) ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں (
الغدیر میں علامہ امینی نےان بزرگان اہلسنت کے نام لکھے ہیں جو اس آیت کے شان نزول میں حضرت علی (علیہ السّلام)   کا ذکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں(10)تمام اہل تشیع نے اس آیت کے شان نزول میں حضرت علی(علیہ السّلام)    کا نام لکھا ہے۔

 

شان نزول

سیوطی نے اپنی کتاب الدر المنثور میں اس آیت کے ذیل میں ابن عباس سے نقل کیا ہے حضرت علی(علیہ السّلام)    نماز کی حالت رکوع میں تھے جب کسی سائل نے اللہ کی راہ میں مدد کا سوال کیا ، حضرت علی نے اپنی انگوٹھی  سائل کوصدقے میں دے دی۔ رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)  نے سائل سے پوچھا تمہیں یہ انگوٹھی کس نےدی ہے؟ سائل نے حضرت علی کی طرف اشارہ کیا اور کہا  اس مرد نے جو کہ حالت رکوع میں ہے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی "انما ولیکم الله و رسوله..." (11)


۳۔  آیہ اولی الامر

" یا ایها الذین‌امنوا اطیعوا الله و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم؛‌ ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے (


شان نزول

حاکم حسکانی حنفی نیشابوری اہلسنت کے معروف مفسر ہیں وہ  اپنی کتاب میں اس آیت کے ذیل میں پانچ روایتیں نقل کرتے ہیں، ان پانچوں روایتوں کا عنوان اولی الامر ہے اور سب کی سب حضرت علی(علیہ السّلام)    پر صادق آتی ہیں۔ آخری روایت میں وہ خود حضرت علی(علیہ السّلام)    سے نقل کرتے ہیں حضرت علی (علیہ السّلام)نے نقل کیا ہے کہ :رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے ارشاد فرمایا میرے شریک وہ ہیں جن کو اللہ تعالی نےاپنے ساتھ اور میرے  ساتھ اس آیت میں بیان کیا ہے " یا ایها الذین‌امنوا اطیعوا الله و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم؛۔ میں نے رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)  سے پوچھا"یا نبی اللہ من ہم؛  اے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)   اولی الامر کون ہیں؟ رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے جواب دیا "قال: انت اولهم؛تم اولی الامر کے پہلے فرد ہو(12)
اہل سنت کی بعض روایتوںمیں بارہ اماموں(علیہم السّلام) میں سے ہر ایک کا نام ذکر ہوا ہے(13)


۴۔   آیہ صادقین

"یا ایها الذین‌ آمنوا اتقوا الله و کونوا مع الصادقین(14)ایمان والواللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ (

 

شان نزول

درالمنثور  میں معروف مفسر سیوطی  اس آیت"اتقوا الله و کونوا مع الصادقین‏" کے ذیل میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا ہے: "مع علی بن ابی طالب؛   حضرت علی (علیہ السّلام)   کے ساتھ ہوجاؤ۔(15)
اس آیت کے شان نزول میں دونوں مکتبوں یعنی اہلسنت اور اہل تشیع  سے اور بھی روایتیں موجود ہیں(16) غور طلب بات یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالی  مومنین کوحکم دے رہا ہے کہ صادقین کے ساتھ ہو جاؤ۔ یہ حکم مطلق ہے اس  میں کوئی قید یا شرط نہیں ،کسی حالت سے مخصوص نہیں   اس طرح کا حکم  امام معصوم کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ غیر معصوم سے غلطی ممکن ہے اور جب غلطی کرے گا اس حالت میں اس سے جدا ہونا پڑے گا ۔جس کی ہر حالت میں پیروی جاسکتی ہے وہ امام معصوم ہے۔ اس مطلب کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ صادقین سے مراد  ہر سچا نہیں بلکہ امام معصوم ہے جس کی گفتار میں جان بوجھ کے یا بھولے  سے غلطی کی گنجائش نہیں۔
اس آیت سے مراد حضرت علی(علیہ السّلام)    اور اس کے معصوم بیٹے(علیہم السّلام)  ہیں جو امت کے ہادی  ہیں۔ اس مطلب کے اثبات کیلئے ڈاکٹر تیجانی نے ایک کتاب لکھی ہے جس  کانام بھی یہی رکھا ہے   کہ کونو مع الصادقین یعنی صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔ اس کتاب نے اکثر مسلمانوں پر عجیب اثر چھوڑاہے۔


۵۔   آیہ قربی

"قل لا اسئلکم علیه اجرا الا المودة فی القربی(17) آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو

 

شان نزول

حاکم حسکانی جو پانچویں صدی ہجری کے مشہور دانشمند ہیں،  اپنی کتاب شواہدالتنزیل میں سعید ابن جبیر  اور ابن عباس سے اس طرح نقل کرتے ہیں "لما نزلت قل لا اسئلکم علیه اجرا الا المودة فی القربی قالوا یا رسول الله من هولاء الذین‌امرنا الله بمودتهم! قال: علی و فاطمة و ولدهما؛
جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ نے رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)  سے پوچھا وہ کون ہیں جن کے ساتھ ہمیں محبت کرنے کا حکم دیا گیا ہے ؟ رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)  نے فرمایا وہ حضرت علی (علیہ السّلام)   ، حضرت فاطمہ(علیہا السّلام)    ، حضرت حسن(علیہ السّلام)   ، حضرت حسین(علیہ السّلام)    ہیں(18)
اہم نکتہ
قرآن مجید  سورہ شعرا میں پانچ نبیوں (نوح، ہود، صالح، لوط و شعیب)سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا : "و ما اسئلکم علیه من اجر ان اجری الا علی رب العالمین‏" اور میں اس تبلیغ کی کوئی اجر بھی نہیں چاہتا ہوں میری اجر ت تو رب العالمین کے ذمہ ہے
اور دوسری طرف ہم سورہ فرقان کی  ۵۷آیت میں نبیوں کے بارے ہیں پڑھتے ہیں "قل ما اسئلکم علیه من اجر الا من شاء ان یتخذ الی ربه سبیلا؛آپ کہہ دیجئے کہ میں تم لوگوں سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر یہ کہ جو چاہے وہ اپنے پروردگار کا راستہ اختیار کرے
اور پھرسورہ سبا کی سنتالیسویں ۴۷آیت میں  رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)  ارشاد فرماتے ہیں"قل ما سئلتکم من اجر فهو لکم ان اجری الا علی الله."
کہہ دیجئے کہ میں جو اجر مانگ رہا ہوں وہ بھی تمہارے ہی لئے ہے میرا حقیقی اجر تو پروردگار کے ذمہ ہے اور وہ ہر شے کا گواہ ہے
اب سوال یہ ہے کہ :ان چار باتوں کا جمع کرنا کیسے ممکن ہے؟
کیارسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) میں اور  دوسرے نبیوں میں تضاد ہے پایاجاتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں یوں کہنا چاہیے : ان آیتوں کے دقیق مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے بھی اپنی رسالت اور تبلیغ کے بدلے میں اپنی ذات کیلئے  کچھ نہیں مانگابلکہ اپنی قربی کی مودت کا تقاضہ کیا ہے جواللہ تعالی تک پہنچنے کا راستہ ہیں ۔یہ سو فیصد انسانوں کے نفعے کی بات ہے کیونکہ یہ مودت مسئلہ امامت اور خلافت اور رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کی جانشینی کا پیش خیمہ ہے اور حقیقت میں امت میں رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کےمشن کو آگے بڑھانا ہے جو انسانوں کی ہدایت ہے۔


۶ آیہ تطہیر

"انما یرید الله لیذہب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا(19)
بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھ السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے
آیت تطہیر، اہل بیت (علیہم السّلام)    کے فضائل میں چمکتا ستارہ ہے  ، اس میں بلند مطالب اور فائدہ مند نکات ہیں  جو ہر حق طلب محقق کی توجہ اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ ہم ان میں سے چند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ ہیں۔


شان نزول

علامہ طباطبائی المیزان میں فرماتے ہیں ستر ۷۰ سے زیادہ روایتیں اس بات پہ دلالت کرتی ہیں کہ آیت  تطہیر رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) ، حضرت علی(علیہ السّلام)    ، حضرت فاطمہ (علیہا السّلام)   ، حضرت حسن(علیہ السّلام)   ، حضرت حسین(علیہ السّلام)    کی شان میں نازل ہوئی ہے اور ان کے علاوہ کوئی اس  میں شامل نہیں۔کچھ روایتیں اہلسنت کی ہیں اور کچھ اہل تشیع کی ہیں پر مزے کی بات یہ ہے اہل تشیع سے زیادہ روایتیں اہلسنت کی ہیں ۔(20)
ڈاکٹر تیجانی اپنی کتاب فاسئلوا اھل الذکر  میں اہلسنت کی حدیث کی معتبر  کتابوںمیں سے تیس ۳۰سے زیادہ کتابیں ذکر کیں ہیں جو اس بات پہ دلالت کرتی ہیں کہ آیت  تطہیر اہلبیت(علیہم السّلام)    یعنی رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) ، حضرت علی(علیہ السّلام) ، حضرت فاطمہ(علیہا السّلام) ، حضرت حسن(علیہ السّلام)  ، حضرت حسین(علیہ السّلام)  کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور آخر میں فرماتے ہیں اہلسنت کے زیادہ تر علما آیت تطہیر کو اہلبیت (علیہم السّلام)  کی شان میں سجھتے ہیں اور ہم بھی اس مقدار کو کافی سمجھتے ہیں۔(21)
آلوسی جو کہ اہلسنت کا متعصب ترین عالم ہے وہ بھی آیت تطہیر کو حضرت علی(علیہ السّلام)   اور اہلبیت(علیہم السّلام)  کی شان میں سمجھتے ہیں وہ اس بارے میں لکھتے ہیں:
اہلبیت (علیہم السّلام) سے مراد وہ ہستیاں ہیں جن کو رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)نے چادر کے نیچے جمع کیا اور ان کے بارے میں ارشاد فرمایا : "اللهم هؤلاء اهل بیتی فاجعل صلواتک و برکاتک علی آل محمد کما جعلتها علی آل ابراهیم انک حمید مجید؛ پروردگارا یہ میرے اہلبیت(علیہم السّلام) ہیں ان پر درودوسلام نازل فرماجس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر درود وسلام نازل، فرمایا بے شک تیری ہستی بلندو بالا ہے۔۔(22)
وہ روایتیں جوآیت تطہیر کے متعلق حدیث اور تفسیر  کی کتابوں میں مذکور ہیں ان کی چار قسمیں ہیں:


۱۔ وہ روایتیں جو رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کی ازواج مطہرہ سے نقل ہیں وہ فرماتی ہیں ہم چادر تطہیر سے باہر ہیں(23)
۲۔ وہ روایتیں جو حدیث کسا کے بارے میں ہیں ۔(24)
۳۔وہ روایتیں جو کہتی ہیں کہ آیت تطہیر کے نازل ہونے کےبعد چھ ۶ مہینوں تک رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) ہر نماز کے وقت حضرت علی(علیہ السّلام)   اور فاطمہ(علیہا السّلام)کے گھر کے دروازہ پہ جاتے اور فرماتے  : "الصلوة! یا اهل البیت! انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطہرکم تطهیرا؛ اے اہلبیت نماز کا وقت ہو چکا ہے! بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھ السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے(25)
۴۔ وہ روایتیں جو ابوسعید خدری سے ہم تک پہنچیں ہیں۔ ابوسعید خدری کہتے ہیں"نزلت فی خمسة: فی رسول الله و علی و فاطمة والحسن والحسین(علیهم السّلام)" یہ آیت رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)، حضرت علی (علیہ السّلام)   ، حضرت فاطمہ(علیہ السّلام)، حضرت حسن(علیہ السّلام)  ، حضرت حسین (علیہ السّلام)  کے شان میں نازل ہوئی ہے۔(26)
ہم یہاں اس بات کو پورا کرنے کیلئے  جناب عائشہ سے ایک جملہ نقل کرتے ہیں جو ثعلبی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے۔ثعلبی لکھتا ہے جب جناب عائشہ جنگ جمل میں آئی ۔ کسی نے ان سے  اس بارے میں سوال کیا، جناب عائشہ نے افسوس ناک انداز میں کہا یہی تقدیر الہی تھی۔ اور جب جناب عائشہ سے حضرت علی (علیہ السّلام)کے بارے میں سوال کیا گیا  تو انہوں نے اس طرح سے جواب دیا‏"تسالنی عن احب الناس کان الی رسول الله و زوج احب الناس کان الی رسول الله، لقد رایت علیا و فاطمة و حسنا و حسینا و جمع رسول الله بثوب علیهم. ثم قال: اللهم هؤلاء اهل بیتی و حامتی فاذهب عنهم الرجس و طهرهم تطهیرا. قالت: فقلت: یا رسول الله انا من اهلک؟ فقال: تنحی فانک الی خیر؛ مجھ سے اس شخص کے بارے میں کیا پوچھتے ہو جو رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کا محبوب ترین شخص ہے  میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا حضرت علی (علیہ السّلام)، حضرت فاطمہ (علیہ السّلام)  ، حضرت حسن(علیہ السّلام) ، حضرت حسین (علیہ السّلام)  کو رسول اکرم نے ایک چادر میں بلاکر ارشاد فرمایا: خدایا!یہی میرے اہلبیت (علیہم السّلام)    ہیں، یہی میرے حامی ہیں، پروردگار ان سے  رجس کو دور فرما اور اس طرح پاک کردے جس طرح پاک کرنے کا حق ہے ۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کیا میں بھی ان میں شامل ہوں؟ رسول اکرم نے ارشاد فرمایادور ہوجاؤ  تم نیکی پہ ہو(پر اہلبیت (علیہم السّلام)   میں شامل نہیں)(27)


۷- آیہ مباہلہ

"فمن حاجک فیه من بعد ما جائک من العلم فقل تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم و نسائنا و نسائکم و انفسنا و انفسکم ثم نبتهل فنجعل لعنة الله علی الکاذبین؛(28)
پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دی
لغت میں ابتھال کی معنی کسی فرد یا حیوان کو اس کے حال پر چھوڑنا ہے۔ اور اصطلاح میں ابتھال کی معنی نفرین کرناہے  اور مباھلہ کی معنی دو شخصوں کا  ایک دوسرے پر نفرین کرنا ہے۔  اس معنی کے مطابق جب دو شخص دینی مسئلے پہ گفتگو کریں اور کوئی زبانی دلیل کام نہ آئے تو دونوں ساتھ ملکر اللہ تعالی کی بارگا ہ میں درخواست کرتے ہیں کہ پروردگار جھوٹے کو ذلیل اور رسوا کردے۔(29)


شان نزول

 جو اسلامی روایتیں  محدثین اور مفسرین نے نقل کی ہیں ان سے سمجھ میں آتا ہے کہ  جب یہ آیت نازل ہوئی رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)نے نجران کے مسیحیوں کو مباھلہ کی دعوت دی۔ عیسائی علما نے ایک دن کی مہلت مانگی تا کہ اس بارے میں غوروفکر کریں۔ اسقف نے ان سے کہا  اگر محمد (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)اپنے خاندان اور بیٹوں کے ساتھ آئے تو مباہلہ نہ کرنا اور اگر اپنے اصحاب کے ساتھ آئے تو ان سے مباھلہ کرنا کیونکہ اس صورت میں وہ حق پر نہ ہوں گے۔
اگلے دن  رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)  اس صورت میں  آئے کہ حضرت علی(علیہ السّلام)    کاہاتھ رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)  کے ہاتھ میں تھا حضرت حسن(علیہ السّلام)    اور حضرت حسین(علیہ السّلام)    ساتھ تھے اور حضرت فاطمہ(علیہا السّلام)    پیچھے تھی اور دوسری طرف سے مسیحی اپنے اسقف اعظم کے ساتھ آئے۔ جب انہوں نے رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کو چند افراد کے ساتھ دیکھا تو پوچھا یہ کون ہیں؟کسی نے جواب دیا:  ان میں سے ایک رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کا چچا زاد بھائی اور داماد ہے اور یہ  دو نوں بچے رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کی دختر کے بیٹے ہیں اور یہ خاتون رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کی بیٹی ہے ۔یہ سب رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کے نزدیک ترین افراد ہیں اور رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کو بہت پیارے ہیں۔ جب اسقف نے ان کو دیکھا تو بولا:میں ایسے چہرے دیکھ رہاہوں جو یقین اور اطمنیان کے ساتھ مباھلہ کرنے آئے ہیں، میں ڈرتا ہوں کہیں یہ سچے نہ ہوں! اگر یہ سچے نکلے تو ہم برباد ہو جائیں گے۔ اسقف نے رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) سے کہا اے اباالقاسم  (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)ہم تم سے ہرگزمباہلہ نہ کریں گے، ہم سے صلح کرلو ۔ کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ جب اسقف نے اہلبیت (علیہم السّلام)   کو دیکھا توکہا: میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں اگر یہ اللہ تعالی سے پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانے کی دعا کریں تو  ضرور بہ ضرور ایسے ہوگا ، مباہلہ نہ کرو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔(30)
صحیح مسلم میں اس طرح لکھا ہے کہ معاویہ نے سعد ابن وقاص سے پوچھا :تم حضرت علی(علیہ السّلام)    پر لعنت کیوں نہیں کرتے ؟ سعد نے جواب دیا تین چیزوں کی وجہ سے، جنگ تبوک میں حدیث منزلت کی وجہ سے ، جنگ خیبر میں پرچم کی وجہ سے، اور مباہلہ کی وجہ سے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے حضرت علی(علیہ السّلام)    ، حضرت فاطمہ (علیہا السّلام)   ، حضرت حسن(علیہ السّلام)   ، حضرت حسین (علیہ السّلام)   کو بلایا اور کہا پروردگارا یہی میرے اہل بیت(علیہم السّلام)    ہیں۔(31)


۸ - آیہ خیر البریہ

"ان الذین‌ آمنوا و عملوا الصالحات اولئک هم خیر البریة * جزائهم عند ربهم جنات عدن تجری من تحتها الانهار خالدین فیها ابدا رضی الله عنهم و رضوا عنه ذلک لمن خشی ربه؛(32)
اور بے شک جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کئے ہیں وہ بہترین خلائق ہیں (7) پروردگار کے یہاں ان کی جزائ وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی وہ انہی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں خدا ان سے راضی ہے اور وہ اس سے راضی ہیں اور یہ سب اس کے لئے ہے جس کے دل میں خوف خدا ہے
بے شک اس آیت کا مفہوم بے حد وسیع ہے  ۔ اس آیت کا مفہوم کسی   ایک یاچند اشخاص سے  مخصوص نہیں ۔لیکن اسلامی روایتوں کے مطالعہ سے سمجھ میں آتا ہے کہ  خیرالبریہ اور اللہ تعالی کی بہترین مخلوق ہونے کے چند مصداق بتائے گئے ہیں۔


شان نزول

اہلسنت کے مفسروں میں سے مشہور مفسر سیوطی اپنی تفسیر الدر المنثور  میں اورایک بزرگ حنفی عالم   حاکم حسکانی اپنی مشہور اور معروف کتاب شواہد التنزیل میں بہت ساری روایتیں نقل کی ہیں جن سے سمجھ میں آتا ہے کہ خیر البریہ کے مصداق کامل حضرت علی(علیہ السّلام)   ہیں۔
الف۔ سیوطی، ابن عساکر سے اور جابر ابن عبداللہ  سے نقل کرتے ہیں کہ میں رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کی خدمت میں تھا اتنے میں حضرت علی(علیہ السّلام)   ہماری طرف آتےہوئے نظر آئے،جب رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کی نظر ان پر پڑی تو رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)نے ارشاد فرمایا: "والذی نفسی بیده ان هذا و شیعته لهم الفائزون یوم القیامة‏" قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے  یہ شخص اور اسکے شیعہ قیامت میں کامیاب ہیں۔ جابر ابن عبداللہ کہتے ہیں : "نزلت ان الذین‌ آمنوا و عملوا الصالحات اولئک هم خیر البریة. فکان اصحاب النبی(صلّی الله علیه و آله و سلّم) اذا اقبل علی(علیه السّلام) قالوا جاء خیر البریة؛  اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وجہ سے جب  بھی حضرت علی (علیہ السّلام)  آتے رسول اکرم کے صحابہ کہتے خیرالبریہ آئے ہیں۔(33)
ب۔ حاکم حسکانی اوپر والی حدیث کو ذکر کرنے کے بعد ابن عباس سے ایک اورحدیث نقل کرتے ہیں:ابن عباس کہتے ہیں:  جب یہ آٓیت نازل ہوئی  "ان الذین‌ آمنوا و عملوا الصالحات اولئک هم خیر البریة‏"  رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)نے حضرت علی(علیہ السّلام)   سے فرمایا  : "هو انت و شیعتک، تاتی انت و شیعتک یوم القیامة راضین مرضیین و یاتی عدوک غضبانا مقمحین؛ تم اور تیرے شیعہ خیرالبریہ ہیں، قیامت میں ایسے آؤ گے کہ اللہ تعالی تم لوگوں  سے راضی ہوگا اور تم اللہ سےلیکن تمہارا دشمن اس حال آئے گا کہ عذاب میں ہوگا۔(34)


اہم نکتہ

حضرت علی(علیہ السّلام)   کے ماننے والوں کو شیعہ پکارنا، رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کے دور کی بات ہے اور سب سے پہلے شیعہ پکارنے والے بھی خود رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)ہیں۔ لفظ شیعہ بھی رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کے ارشادات میں موجود ہے، اب جو شیعہ کی معنی ادہر ادہر کی کریں درست نہیں، کیونکہ شیعہ رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کا دیا ہوا نام ہے ۔اب جو اس نام کی توہین کرے وہ درحقیقت رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)شان میں گستاخی کر رہا ہے اور شیعہ سے بغض اور عداوت، رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) سے بغض اور عداوت ہے۔رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کی صفتوں میں سے ایک صفت جو قرآن میں ذکر ہے   "و ما ینطق عن الهوی ان هو الا وحی یوحی‏(35) رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)اپنی طرف سے کچھ نہیں بولتے جو بولتے ہیں اللہ تعالی کے حکم سے بولتے ہیں۔
بے شک حضرت علی(علیہ السّلام)   کے ماننے والوں کو شیعہ کا نام دینا ،ایسا کام ہے جو صرف رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کے کہنے پہ نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالی کی جانب سے انجام پایا ہے کیونکہ رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)وحی کے سوا کچھ نہیں بولتے۔


۱۰۔ آیہ لیلة المبیت

و من الناس من یشری نفسه ابتغاء ‏مرضات الله والله رؤف بالعباد؛(36)
اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے
اس آیت کے شان نزول میں اسلامی معتبر  کتابوں میں بہت ساری روایات وارد ہوئی ہیں جیسا کہ ثعلبی اپنی تفسیر میں اور حاکم حسکانی شواہد التنزیل میں ابو سعیدخدری اور ابن عباس سے حدیث نقل کرتے ہیں ہم ثعلبی کے بیان کو یہاں پر نقل کرتے ہیں ۔(37)


شان نزول

ثعلبی لکھتے ہیں :رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا  حضرت علی (علیہ السّلام) کو اپنے قرض اور امانتیں ادا کرنے کیلئے مقرر فرمایا   اور غار کی طرف روانہ ہوئے اس حال میں کہ مشرکین نے گھر   کو گھیر رکھا تھا۔  رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے حضرت علی (علیہ السّلام)  کو حکم دیا کہ آپ کے بستر پہ سوئے   اور ارشاد فرمایا جو سبز چادر میں اوڑھ کے سوتا ہوں وہ چادر اوڑھ کے سو جاؤ انشااللہ کوئی پریشانی پیش نہ آئے گی  ۔
حضرت علی (علیہ السّلام) نے حکم کی تعمیل کی تو اللہ تعالی نے جبرئیل اور میکائیل پہ وحی نازل فرمائی کہ میں نے تم دونوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا ہے لیکن ایک کی زندگی دوسرے سے طولانی ہے ،تم دونوں میں سے کون دوسرے کو خود پر مقدم کرے گا ؟ دونوں  میں سے ہر ایک نے اپنی زندگی کے طولانی ہونے کا تقاضہ کیا۔ اللھ تعالی نے ارشاد فرمایا تم دونوں حضرت علی (علیہ السّلام) کی طرح کیوں نہیں بنتے ؟
میں نے حضرت علی (علیہ السّلام)  اورمحمد  (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا  حضرت علی  (علیہ السّلام) اپنے بھائی کے بستر پر سو رہا ہے  اور اپنے بھائی کی جان کو اپنی جان پر مقدم کر رہا ہے، پس  زمین پر جاؤ اور حضرت علی  (علیہ السّلام) کی دشمنوں سےحفاظت کرو۔  جبرئیل اورمیکائیل زمین پر آئے،  میکائیل پائنتی کی طرف بیٹھے  اورجبرئیل سر کے پاس بیٹھے  اور کہنے لگے اے حضرت علی(علیہ السّلام)  تیرے  کیا کہنے! تیرے جیسا کون ہے؟ اللہ تعالی فرشتوں میں تجھ پر فخر کر رہا ہے۔
جب رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) مدینہ کی طرف روانہ تھے اس وقت  یہ آیت  حضرت علی (علیہ السّلام) کی شان میں نازل ہوئی  "و من الناس من یشری..."۔(38)
ابن ابی الحدید نہج البلاغہ کی شرح میں ابو جعفر اسکافی سے نقل کرتے ہیں : "حدیث الفراش قد ثبت‏بالتواتر فلایجحدہ الا مجنون او... حدیث فراش متواتر ہے پاگل کے سوا کوئی اس حدیث کا  انکار نہیں کر سکتا۔تمام مفسروں نے نقل کیا ہے کہ : یہ آیت شب ہجرت  حضرت علی (علیہ السّلام) کی شان میں نازل ہوئی  ہے کیونکہ حضرت علی (علیہ السّلام)  کا رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کے بستر پہ سونا تمام مفسروں کے نزدیک ثابت ہے اسلئے پاگل کے سوا کوئی اس حدیث کا  انکار نہیں سکتا۔ تمام مفسروں نے نقل کیا ہے یہ آیت شب ہجرت جب حضرت علی (علیہ السّلام)  رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کے بسترے پہ سوئے تو    حضرت علی (علیہ السّلام) کی شان میں نازل ہوئی  ہے۔(39)
مستدرک الصحیحین میں حاکم نیشابوری  داستان شب ہجرت کو ابن عباس سے نقل  کرتے ہیں اور صاف صاف لکھتے ہیں : "هذا حدیث صحیح الاسناد و لم یخرجاه؛ اگرچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم نے اس حدیث کو نقل نہیں کیا لیکن یہ حدیث صحیح ہے اور  اس حدیث کی سند درست ہے(40)


۱۰۔ آیات برائت

براة من الله و رسوله الی الذین عاهدتم من المشرکین... ؛ مسلمانو جن مشرکین سے تم نے عہد و پیمان کیا تھا اب ان سے خدا و رسول کی طرف سے مکمل بیزاری کا اعلان ہے(41)
اہل تشیع کے تمام  مورخین ، محدثین اور مفسرین   اوراہل سنت کے اکثر مورخین ، محدثین اور مفسرین نے  نقل کیا ہے کہ رسول اکرم  (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)نے سورہ برائت کی ابتدائی آیتوں کے  پہچانے کی ذمیداری ابو بکر کو سونپی لیکن  بعد میں  حضرت علی (علیہ السّلام) کو ابو بکر کے پیچھے بھیجا کہ ابو بکر  سے ان آیتوں کولے کہ خود مدینہ جاکے ان آیتوں کو پہنچاؤ۔
اس بارے میں ہم اہلسنت کے مشہورعالم احمد ابن حنبل کی معتبر کتاب  مسند احمد ابن حنبل کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں۔


شان نزول

احمد ابن حنبل اپنی کتاب  مسند احمد ابن حنبل میں لکھتے ہیں : رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)  نے سورہ برائت کی ابتدائی آیتوں کے  پہنچانے کی ذمیداری دے کر ابو بکر کو اہل مکہ کی طرف بھیجا تا کہ وہ اعلان کرے کہ اس سال کے بعد کسی مشرک کو خانہ کعبہ کے حج کا حق نہیں اور کسی کیلئے مناسب نہیں کہ وہ ننگا اور عریان  خانہ کعبہ کا حج کرے۔ بعد میں رسول اکرم  (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)نے حضرت علی (علیہ السّلام) سے فرمایا  جاؤ مدینہ اور مکہ کے بیچ ابوبکر سے ملو، ابوبکر کو میرے پاس واپس بھیجو اور خود جاکے مکہ میں سورہ برائت کی آیتوں  کوپہنچاؤ ۔ اس روایت  کے آخر میں ہے  جب ابو بکر نے سوال کیا  میں ان آیتوں کوکیوں نہ پہنچاؤں، میری  مخالفت میں  کچھ نازل ہوا ہے کیا؟ رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)نے جواب دیا  : "امرت ان لایبلغه الا انا او رجل منی؛ مجھے حکم ہوا ہے اس سورہ  کو کوئی نہ پہنچا ئے سوائے میرے یا اس شخص کے جو مجھ سے ہو۔(42)
ترمذی اپنی مشہور کتاب سنن ترمذی میں (اہلسنت کے نزدیک سنن ترمذی حدیث کے اصل کتابوں میں شمار ہوتی ہے) اس حدیث کو مختلف انداز میں انس ابن مالک سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: رسول اکرم نے ابوبکر کو سورہ برائت کی ابتدائی آیات دے کر بھیجا پھر فرمایا "لاینبغی لاحد ان یبلغ هذا الا رجل من اهلی فدعا علیا فاعطاه ایاه؛
 کسی کیلئے سزاوار نہیں  کہ وہ ان آیات کی تبلیغ کرے سوائے میرے یا اس شخص کے جو مجھ سے ہو پھر حضرت علی(علیہ السّلام)  کو بلا کے یہ ذمیداری اس کے سپرد کی۔(43)

 

۱۱۔ آیہ سقایة الحاج

"اجعلتم سقایة الحاج و عمارة المسجد الحرام کمن‌ آمن بالله والیوم الآخر و جاہد فی سبیل الله لایستوون عند الله و الله لایهدی القوم الظالمین؛(44)
کیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبادی کو اس کا جیسا سمجھ لیا ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور راسِ خدا میں جہاد کرتا ہے -ہرگز یہ دونوں اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہوسکتے اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے (
اس آیت کو جو مفسرین حضرت علی (علیہ السّلام)  کی شان میں سمجھتے ہیں ان میں سے ایک حاکم حسکانی ہے۔  وہ اپنی تفسیر  شواہد التنزیل میں اس آیت کے ذیل میں مختلف اسناد کے ساتھ دس حدیثیں لاکر اس مطلب کو ثابت کرتے ہیں۔


شان نزول

حاکم حسکانی  اپنی تفسیر  شواہد التنزیل میں انس ابن مالک سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: عباس ابن عبدالمطلب اور شیبہ   ایک دسرے پر فخر کر رہے تھے اتنے میں حضرت علی(علیہ السّلام)  وہاں پہنچے۔ عباس ابن عبدالمطلب نے عرض کیا:  اےمیرے بھتیجے رک جاؤ!  تم سے ایک کام ہے ۔ حضرت علی(علیہ السّلام)  رک گئے۔  عباس نے کہا: شیبہ مجھ پر فخر کر رہاہے، وہ  گمان کر رہا ہے کہ وہ مجھ سے افضل اور اشرف ہے ۔ حضرت علی(علیہ السّلام)  نے کہا  چچا جان آپ نے کیا جواب دیا؟   عباس نے عرض کیا میں نے اس کے جواب میں کہا :میں رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کا چچا ہوں ، رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کے والد محترم کا وصی ہوں اور حاجیوں کو سیراب کرنے والا ہوں حاجیوں کو پانی پلاتا ہوں  میں تم سے افضل ہوں! حضرت علی(علیہ السّلام)  نے شیبہ سے کہا تم نے عباس  کے جواب میں کیا کہا؟ شیبہ نے کہا میں نے عباس کو جواب دیا : میں تم سے افضل ہوں کیونکہ میں اللھ تعالی کا امین ہوں خانہ کعبہ کی چابیاں میرے پاس ہیں۔ اگر تم افضل ہوتے اللہ تعالی تمہیں امین قرار دیتا اللہ تعالی نے تمہیں امین کیوں نہیں بنایا؟ حضرت علی (علیہ السّلام)  نے کہا میرا افتخار اس چیز پر ہے کہ میں اس امت کا پہلا شخص ہوں جس نے سب سے   پہلےرسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)پر ایمان قبول کیااور ہجرت اور جہاد کیا۔ پھر یہ تینوں ملکر رسول اکرم  (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کی بارگاہ میں آئے اور ہر ایک نے اپنی بات رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کو بتائی۔  رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)نے کچھ نہ کہا خاموش رہے  اس واقعہ کے چند دن بعد اس بارے میں وحی نازل ہوئی۔ رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)نے قاصد بھیج کر تینوں کو  بلایا۔ جب تینوں رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کی خدمت میں آئے۔ رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے اس آیت کی تلاوت کی "اجعلتم سقایة الحاج و عمارة المسجد الحرام‏"(45) یہی مضمون کچھ کمی زیادتی کے ساتھ دوسری روایات میں بھی آیا ہے ۔  


۱۲۔  آیہ و کفی اللہ المؤمنین القتال

"و رد الله الذین کفروا بغیظہم لم ینالوا خیرا و کفی الله المؤمنین القتال و کان الله قویا عزیزا(46) اور خدا نے کفّار کو ان کے غصّہ سمیت واپس کردیا کہ وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے اور اللہ نے مومنین کو جنگ سے بچالیا اور اللہ بڑی قوت والا اور صاحبِ عزّت ہے
بہت سارے محدثین اور مفسرین  نے لکھا ہے :یہ حضرت علی (علیہ السّلام)  کی طرف اشارہ ہے  اس بے مثال ضربت کی وجہ سے جو حضرت علی  (علیہ السّلام) نے جنگ خندق میں عمر ابن عبدود پر لگائی جس سے مسلمان ،کفار پر فاتح قرار پائے۔
حاکم حسکانی  نے بہت ساری  حدیثیں مختلف اسنادسے نقل کی ہیں۔
 ہم حاکم حسکانی کی اس روایت کے ذکر کو کافی سمجھتے ہیں جو انہوں نے بہت مشہور اور معتبر صحابی حذیفہ سے نقل کی ہے۔


شان نزول

حضرت علی(علیہ السّلام)   کی عمر ابن عبدود کے ساتھ جنگ کو اور عمر ابن عبدود کے قتل کو  حذیفہ نے تفصیل سےنقل کیا ہے۔ حذیفہ کہتے ہیں: رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے فرمایا : "ابشر یا علی! فلو وزن الیوم عملک بعمل ‌امة محمد(صلّی الله علیه و آله و سلّم) لرجح عملک بعملهم و ذلک انه لم‏یبق بیت من بیوت المسلمین الا و قد دخله عز بقتل عمرو؛  اے  علی (علیہ السّلام)  تمہیں بشارت ہو تم نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے۔  اگر تیرے اس کارنامے کا امت مسلمہ کے اعمال سے موازنہ کیا جائے تو تیرا یہ کارنامہ امت مسلمہ کے تمام اعمال پر بھاری ہوگا کیونکہ اگر تیرا یہ کارنامہ نہ ہوتا تو زمین پرکوئی مسلمان نہ ہوتا۔(47)


۱۳۔ آیہ صدیقون

"والذین‌ آمنوا بالله و رسله اولئک هم الصدیقون والشهداء عند ربهم لهم اجرهم و نورهم والذین کفروا و کذبوا بآیاتنا اولئک اصحاب الجحیم؛(48)
اور جو لوگ اللہ اور رسول پر ایمان لائے وہی خدا کے نزدیک صدیق اور شہید کا درجہ رکھتے ہیں اور ا ن ہی کے لئے ان کا اجر اور نور ہے اور جنہوں نے کفر اختیار کرلیا اور ہماری آیات کی تکذیب کردی وہی دراصل اصحاب جہنّم ہی
حاکم حسکانی  نےاپنی تفسیر  شواہد التنزیل میں اس آیت کے ذیل میں پانچ مختلف اسناد سے پانچ روایتیں نقل کی ہیں ہم فقط ابن ابی لیلی کی روایت پر اکتفا کرتے ہیں۔


شان نزول

ابن ابی لیلی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں: "قال رسول الله: الصدیقون ثلاثة حبیب النجار مؤمن آل یاسین و حزبیل (حزقیل) مؤمن آل فرعون و علی بن ابی طالب الثالث و هو افضلهم." رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)نے فرمایا صدیق تین ہی ہیں حبیب نجار مومن آل یاسین ، حزبیل (حزقیل) مومن آل فرعون اور تیسرے حضرت علی ابن ابی طالب(علیہ السّلام)   جو کہ سب سے افضل ہیں ۔(49)


۱۴۔ آیہ نور

"یا ایها الذین آمنوا اتقوا الله و‌ آمنوا برسوله یؤتکم کفلین من رحمته و یجعل لکم نورا تمشون به و یغفر لکم والله غفور رحیم؛‌(50)
ایمان والو اللہ سے ڈرو اور رسول پر واقعی ایمان لے آؤ تاکہ خدا تمہیں اپنی رحمت کے دہرے حّصے عطا کردے اور تمہارے لئے ایسا نور قرار دے دے جس کی روشنی میں چل سکو اور تمہیں بخش دے اور اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے


شان نزول

حاکم حسکانی  اپنی تفسیر  شواہد التنزیل میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں "یؤتکم کفلین من رحمته‏" اس جملے سے مراد، حضرت حسن (علیہ السّلام)  اور حضرت حسین (علیہ السّلام)  ہیں جبکہ "یجعل لکم نورا تمشون‏" سے مراد، حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السّلام)  ہیں۔  (51)
اسی کتاب کی دوسری حدیث میں جابر ابن عبداللہ کی سند سے رسول اکرم  (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)سے نقل کرتے ہیں "یؤتکم کفلین من رحمتہ‏"  اس جملے سے مراد،  حضرت حسن(علیہ السّلام)   اور حضرت حسین (علیہ السّلام)  ہیں جبکہ "یجعل لکم نورا تمشون‏"  سے مراد  حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السّلام)  ہیں ۔
حاکم حسکانی اسی کتاب کی دوسری حدیث میں امام محمد باقر (علیہ السّلام)  سے  اس آیت کی تفسیر  میں نقل فرماتے ہیں  امام محمد باقر (علیہ السّلام)  نے فرمایا : "من تمسک بولایة علی فله نور؛ جس کے دل میں حضرت علی (علیہ السّلام)  کی ولایت ہے اس کے دل میں نور ہے(52)


۱۵۔ آیہ انفاق

"الذین ینفقون‌ اموالهم باللیل والنهار سرا و علانیة فلہم اجرہم عند ربهم و لا خوف علیهم و لا هم یحزنون؛(53)
جو لوگ اپنے اموال کو راسِ خدا میں رات میں .دن میں خاموشی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ہیں ان کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ حزن۔
بے شک اس آیت کا مفہوم بے حد وسیع ہے،  اس آیت میں مختلف حالتوں میں اللہ کی راہ میں انفاق کرنے  کی تاکید کی گئی ہے۔سب کے سامنے دکھا کے، سب سے چھپا کے رازداری میں،دن میں اور رات میں۔جو لوگ اللہ کی راہ میں انفاق کرتے ہیں ان کیلئےاس آیت میں بہت بڑی خوشخبری ہے۔ لیکن اسلامی روایتوں کے مطالعے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اس آیت کا مصداق کامل، حضرت علی(علیہ السّلام)   ہے۔


شان نزول

اس آیت کو جو مفسرین حضرت علی (علیہ السّلام)  کی شان میں سمجھتے ہیں ان میں سے ایک سیوطی ہیں۔ سیوطی ابن عباس سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :یہ آیت حضرت علی (علیہ السّلام)  کی شان میں نازل ہوئی ہے کیونکہ حضرت علی (علیہ السّلام)  کے پاس صرف چار درہم تھے۔  انہوں نے ایک درہم   ہےسب کے سامنے دکھا کے، ایک درہم   سب سے چھپا کے رازداری میں، ایک درہم   دن میں اور ایک درہم   رات میں اللہ کی راہ میں صدقہ دیا  اس وقت یہ مبارک آیت نازل ہوئی ۔(54)
ابن ابی الحدید نے جہاں حضرت علی (علیہ السّلام)  کی بلند صفات کو شمار کیاہے وہاں مختلف صفات کے تذکرے کے بعد جب حضرت علی (علیہ السّلام)  کی سخاوت پہ پہنچے سورہ ھل اتی کی طرف اشارہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ‏"روی المفسرون انه لم یملک الا اربعة دراهم، فتصدق بدرهم لیلا و بدرهم نهارا و بدرهم سرا و بدرهم علانیة. فانزل فیه الذین ینفقون‌ اموالهم مفسرین نے لکھا ہے حضرت علی(علیہ السّلام)   کے پاس صرف چار درہم تھے  انہوں نے ایک درہم   ہےسب کے سامنے دکھا کے، ایک درہم   سب سے چھپا کے رازداری میں، ایک درہم   دن میں اور ایک درہم   رات میں اللہ کی راہ میں صدقہ دیا۔ اللہ تعالی نے اس وقت حضرت علی(علیہ السّلام)   کی شان میں یہ مبارک  آیت نازل کی۔
ابن ابی الحدید کے بیان سے لگتا ہے اس مسئلے میں تمام مفسر ین متفق ہیں یا کم سے کم یہ مسئلہ مفسروں کے نزدیک مشہور ہے ۔(55)


۱۶۔ آیہ محبت

"یا ایها الذین‌ آمنوا من یرتد منکم عن دینه فسوف یاتی الله بقوم یحبهم و یحبونه... ؛‌(56)
ایمان والو تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا ...تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اس کی محبوب اور اس سے محبت کرنے والی مومنین کے سامنے خاکسار اور کفار کے سامنے صاحبِ عزت, راسِ خدا میں جہاد کرنے والی اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے والی ہوگی -یہ فضلِ خدا ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور وہ صاحبِ وسعت اور علیم و دانا بھی ہے
یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ :کچھ تازہ مسلمانوں کے کردار سے اسلام پر حرف نہیں آتا سچے مسلمانوں کی کچھ نشانیاں ہیں۔ اللہ تعالی نے اپنےدین کی حفاظت ان لوگوں کے سپرد کی ہے  جولوگ اللہ تعالی کو دوست رکھتے ہیں  اور اللہ تعالی ان کو دوست رکھتا ہے۔ وہ صفات جو اس آیت میں بیان ہوئی ہیں ان کا ایک شخص یا کچھ افراد میں جمع ہونا اللہ تعالی کے خاص لطف  اور کرم کے بغیر ممکن نہیں ، ہر کوئی اس مقام کا حقدار نہیں ہو سکتا۔
  اس آیت کا مفہوم  بھی گذشتہ آیتوں کی طرح وسیع ہے  لیکن  جواسلامی روایتیں اہلسنت اور اہل تشیع  سے نقل ہوئی ہیں ان سےبخوبی سمجھ میں آتا ہے کہ اس آیت کا مصداق کامل حضرت علی(علیہ السّلام)   ہیں۔


شان نزول

فخر رازی جب اس  آیت کی تفسیر میں پہنچتے ہیں تو اس آیت کی تطبیق میں  مفسرین کےکچھ اقوال نقل کرتے ہیں اور بحث کے آخر میں لکھتے ہیں: یہ آیت حضرت علی(علیہ السّلام)   کی شان میں نازل ہوئی ہے۔  پھر اس آیت کے حضرت علی (علیہ السّلام)  کی شان میں نازل ہونے  کی دو دلیلیں بیان کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جنگ خیبر میں   رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)نے یہ ارشاد فرمایا اور حضرت علی(علیہ السّلام)   کے ہاتھ میں پرچم دیا: ‏"لادفعن الرایة غدا الی رجل یحب اللہ و رسولہ و یحبہ اللہ و رسولہ؛ کل میں پرچم اس کے حوالے کروں گا  جو اللہ تعالی اور اس کے رسول(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کو دوست رکھے گا  اور اللہ تعالی اور اس کا رسول(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) بھی اس شخص کو دوست رکھیں گے ۔پھر فخر رازی لکھتے ہیں یہ وہ صفتیں ہیں جو اس آیت میں بیان ہوئی ہیں۔
اور دوسری دلیل یہ کہ آیت ولایت  "انما ولیکم الله و رسوله بھی حضرت علی (علیہ السّلام)  کی شان میں نازل ہوئی ہے ، ضروری ہے کہ اس آیت کو بھی حضرت علی(علیہ السّلام)   کی شان میں شمار کریں۔(57)


۱۷۔ آیہ مسؤولون

"وقفوہم انہم مسؤولون؛ اور ذرا ان کو ٹہراؤ کہ ابھی ان سے کچھ سوال کیا جائے گا (58)

 

شان نزول

بہت ساری روایتوں میں آیا ہے کہ :  اس سوال سے مراد، حضرت علی (علیہ السّلام)  کی ولایت کا سوال ہے۔ اہل سنت علما میں سے بہت سارے بزرگ علما  اس سوال سے مراد، حضرت علی(علیہ السّلام)   کی ولایت کا سوال سمجھتے ہیں۔ ان میں سے ایک حاکم حسکانی ہے جو شواہدالتنزیل میں ابو سعید خدری سے دو سندوں کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : "عن ولایة علی بن ابی‏طالب‏"  اس سوال سے مراد حضرت علی(علیہ السّلام)   کی ولایت کا سوال ہے۔
حاکم حسکانی دوسری حدیث میں سعید ابن جبیر سے اور ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)نے  فرمایا : "اذا کان یوم القیامة اوقف انا و علی علی الصراط فما یمر بنا احد الا سئلناه عن ولایة علی، فمن کانت معه و الا القیناه فی النار و ذلک قوله: "وقفوهم انهم مسؤولون‏" جب قیامت کا دن ہوگا میں اور حضرت علی (علیہ السّلام)  پل صراط پہ کھڑے ہوں گے جو بھی ہمارے پاس سے گذرے گا ہم حضرت علی (علیہ السّلام)   کی ولایت بارے میں اس سے سوال کریں گے۔ جس کے پاس حضرت علی کی ولایت ہوگی وہ پل صراط سے گذر جائے گا اور جس کے پاس حضرت علی(علیہ السّلام)    کی ولایت نہ ہوگی ہم اسے جہنم میں پھینک دیں گے اس آیت سے بھی یہی مراد ہے۔(59)
مزے کی بات یہ ہے کہ آلوسی جو بغض اہل بیت میں مشہور ہے اور ہر اس آیت کو جو اہلبیت (علیہم السّلام)  یا حضرت علی(علیہ السّلام)    کی شان میں نازل ہوئی ہے اس کو موڑنے کی کوشش کرتا ہے وہ بھی اس آیت ذیل میں آکر یہ کہنے پرمجبور ہو جا تا ہے  کہ:  شیعہ لوگ کہتے ہیں یہ آیت حضرت علی (علیہ السّلام)   کی شان میں نازل ہوئی ہے اور آخر میں خود اپنی طرف سے  تمام خلیفوں کا اضافہ کرتا ہے ۔  (50)


آخری بات

بہترین اختتام یہ ہے کہ ہم اپنی گفتگو کورسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کی اس حدیث پر ختم کریں جس کو اہلسنت اور اہل تشیع سب نے مختلف اسناد سےنقل کیا ہے۔
رسول اکرم ارشاد فرماتے ہیں  "علی مع القرآن والقرآن مع علی حضرت علی (علیہ السّلام)   قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآ ن حضرت علی (علیہ السّلام)   کے ساتھ ہے۔
جس معاشرے میں رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)نے یہ نورانی کلام ارشاد فرمایا اگرچہ اس دور میں اس نورانی کلام کے سمجھنے والے کم تھے۔ لیکن آج اس بات کو سمجھنا اور ہضم کرنا آسان ہے۔ اگر اس کلام میں رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کا مقصد صرف ساتھ ہونے کو ذکرکرنا ہوتا توبات آسان تھی اور حدیث  کا پہلا جملہ  علی مع القرآن اس مطلب کی ادائگی کیلئے  کافی تھا دوسرے جملے  والقرآن مع علی کے اضافے کی ضرورت نہ تھی۔ غور وفکر کی ضرورت دوسرے جملے میں ہے،جس میں رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)نے ارشاد فرمایا :قرآن حضرت علی کے ساتھ ہے   ۔یہ کلام  غور طلب ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کا مقصد صرف ساتھ ہونے کو بیان کرنا نہیں بلکہ رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کا مقصد یہ بیان کرناہے کہ قرآن اور حضرت علی(علیہ السّلام)    ہم ردیف ہیں۔ قرآن اور حضرت علی(علیہ السّلام)    ایک وجود کے دو نام ہیں کیونکہ حضرت علی(علیہ السّلام)    قرآن مجسم یا عینی قرآن  ہیں ہم اس بات کا فیصلہ اہل علم پر چھوڑتے ہیں جو اللہ تعالی کی حکمت کو جانتے ہیں ۔آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی اہلبیت(علیہم السّلام)     کے صدقے قیامت میں ہمیں قرآن اور اہلبیت  (علیہم السّلام)    کے ماننے والے گروہ میں محشور فرمائے  آمین۔


حوالہ جات

1:مختصرتاریخدمشق،ج‏18،ص‏11
2:نہج البلاغہ،صبحی صالح،خطبہ‏167
3:وہی خطبہ خطبہ‏176
4:واقعہ،آیہ‏79
5:اس بارے  میں شواہد التنزیل میں ایک حدیث  بیان ہوئی ہے  جو بتاتی ہے کہ امام علی علیہ السلام اور ائمہ علیہم السلام کا نام قرآ ن میں کیوں نہیں آیا؟ ابو بصیر امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں میں اس آیت کے بارے میں سوال کیا  ؟ امام نے فرمایا اس سے مراد علی علیہ السلام ہیں میں نے سوال کیا لوگ پوچھتے ہیں  امام علی علیہ السلام ا ور ائمہ علیہم السلام  کا نام قرآن میں کیوں نہیں آیا؟ امام نے فرمایا اللہ تعالی نے قرٓن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو  نماز کا حکم دیا ہے  لیکن رکعتیں نہیں بتائیں۔ مسلمانوں کو حج کا حکم دیا طواف کعبہ کی تعداد نہیں بتائی کہ وہ سات بار ہے  اس لئے تاکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کی تفسیر کریں یہاں بھی اسی طرح ہے  اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اکرم نے فرمایا  میں تم لوگوں کو قرآن اور اہلبیت علیہم السلام کی وصیت کرتا ہوں   ؛شواہدالتنزیل،ج‏1،ص‏148
6:مائدہ،آیہ‏67
7:اہلسنت کے معتبر منابع میں سے ۲۰ سے زائد کتابوں میں اس آیت کا امام علی علیہ السلام کے شان میں نازل ہونا ذکر ہے جن کا عنوان خلیفہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے حاکم نے شواہدالتنزیل میں ، سیوطی نے الدرمنثور میں ،فخر رازی نے تفسیر کبیر میں رشید رضا نے المنار میں اور اس بارے میں رجوع کرین الغدیر،ج‏1،ص‏223 - 214 ولاکونمعالصادقین،تیجانی،ص‏51 و 52
8:پیامقرآن سے خلاصہ،ج‏9،ص‏187 - 184
9:مائدہ،آیہ‏55
10:الغدیر،علامہ امینی،ج‏2،ص‏53 و 52؛معالصادقین،تیجانی،ص‏47 - 46
11:الدرالمنثور،ج‏2،ص‏293
12:شواہدالتنزیل،ج‏1،ص‏148. اس بات کو ذکر کرنا ضروری ہے کہ  تمام تفسیرون میں سے شواہد التنزیل ایسی تفسیر ہے جو کامل تر ہے  اور اس میں شان نزول تفصیلا بیان ہوا ہے اس لئے ہم اکثر اس تفسیر کا حوالا دیں گے
13:تفسیربرہان،ج‏1،ص‏381 تا 387
14:توبہ،آیہ 119
15:المیزان،ج‏9،ص‏408 درالمنثور سے نقل کیا ہے
16:اس سے زیادہ  معلومات کیلئے رجوع کریںاحقاقالحق،ج‏14،ص‏274 و 275؛والغدیر،ج‏2،ص‏277
17:شوری،آیہ‏23
18:شوری،،آیہ‏33
19:احزاب،آیہ‏33
20:المیزان،ج‏16،ص‏311
21:فسئلوااہلالذکر،ص‏71
22:روح المعانی،ج‏22،ص‏14 و 15
23:مجمع البیان،ج 7 و 8 ص 559 وشواہدالتنزیل،ج‏2،ص‏56 صحیح مسلم،ج‏4،ص‏1883
24:شواہدالتنزیل،ج‏2،ازص‏11 تا 15 وص‏92مختلف سندوں کے ساتھ.
25:شواہدالتنزیل،ج‏2،ازص‏24 تاص‏27
26:مجمع البیان،ج 7 و 8 ص 559
27:مجمع البیان،ج 7 و 8 ص 559
28:آلعمران،آیہ‏61
29:تلخیصازمطالبپیامقرآن،ج‏9،ص‏242
30:مجمع البیان،ج 1 و 2 ص‏452تھوڑے خلاصہ کے ساتھ
31:صحیح مسلم،ج‏4،ص‏1871
32:بینہ،آیہ 7 و 8
33:الدرالمنثور،ج‏6،ص‏379؛والغدیر،ج‏2،ص‏58 ‏
34:شواہدالتنزیل،ج‏2،ص‏357 وصواعق،ص‏96
35:نجم،آیہ 3 و 4
36:بقرہ،آیہ 207
37:حاکم حسکانی نے ابو سعید خدری سے تھوڑے اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے جیسے ثعلبی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے۔
38:ا لغدیر،ج‏2،ص‏48
39:شرح نہج البلاغہ،ابن ابی الحدید،ج‏3،ص‏270 والغدیر،ج‏2،ص‏47 وص‏48
40:مستدرک الصحیح ین،ج‏3،ص‏4
41:توبہ،آیہ‏1اوراس کے بعد
42:مسنداحمد،ج‏1،ص‏3
43:سنن ترمذی،ج‏5،ص‏275
44:توبہ،آیہ‏19
45:شواہدالتنزیل،ج‏1،ص‏249
46:؛احزاب،آیہ‏25
47:شواہدالتنزیل،ج‏2،ص‏7
48:حدید،آیہ‏19
49:شواہدالتنزیل،ج‏2،ص‏223
50:حدید،آیہ‏28
51:شواہدالتنزیل،ج‏2،ص‏227
52:شواہدالتنزیل،ج‏2،ص‏22۸
53:بقرہ،آیہ‏274
54:الدرالمنثور،ج‏1،ص‏363
55:شرح نہج البلاغہ،ابن ابی الحدید،ج‏1،ص‏21
56:مائدہ،آیہ‏54
57:تفسیرکبیر،ج‏12،ص‏20
58:صافات،آیہ‏24
59:شواہدالتنزیل،ج‏2،ص‏106 و 107
60:روح المعانی،ج‏23،ص‏74