خلقت  انسان اور قرآن
  • عنوان: خلقت انسان اور قرآن
  • مصنف: حسن علی دادی سلیمانی
  • ذریعہ: امام حسین فاونڈیشن
  • رہائی کی تاریخ: 0:2:50 2-9-1403

بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر : حسن علی دادی سلیمانی
ترجمہ : محمد حسین مقدسی  
  


انسان کے  بارےمیں بات کرنا آسان ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ مشکل بھی  ہے چونکہ انسان کی شناخت ان مسائل میں سے ہے کہ جن  تک رسائی حاصل کرنا آسانی سے ممکن نہیں ہے، کیونکہ انسان کئی تمایلات کےساتھ معنوی پہلو بھی رکھتا ہے ۔ اور انسان کی مختلف خصوصیات کے بارےمیں مطالعہ اورتحقیق کرنے کے لئے زیادہ وقت اور متعدد مطالب لکھنے کی ضرورت ہے لہذا بہت سارے کتابوں میں انسان کے اندر موجود خصوصیات کے بارےمیں تحقیق کی گئی ہے ۔
اور قرآن مجید کتاب وحی، اور خداوندکا کلام ہے جو خود انسان کا خالق بھی ہے،  انسان کے بارےمیں بہترین نظریات اسی سے لئیے جا سکتے ہیں لہذا  قرآن کے نظریے پر زیادہ توجہ دی گئی ہے :
قرآن اور انسان کے حوالے سے چند نکتہ ذکر کیے جاتے ہیں ۔
خلقت انسان کی ابتدا ء۔
انسان کی خلقت کے بارےمیں بحث؛ اہل نظر اور اہل مطالعہ کے درمیان بہت ہی رائج مباحث میں سے ہے اور اس مطلب تک رسائی حاصل کرنے کیلئے جو کہ ہمیشہ مورد بحث واقع ہوا ہے اس کے بارےمیں چند نظریات کی
 یاد دہانی کرواتے ہیں روی زمین پر بنی نوع انسان کی پیدائش کی بارےمیں دو اہم نظریے موجود ہیں ۔
پہلا نظریہ   :
قدیم فلسفی اور ظواہر دینی نظریہ کے مطابق خلقت، کسی سابقہ انواع و اصول کے بغیر وجودمیں آگئی ہے ۔
دوسرا نظریہ  
جو استقرائی اورتحقیقی نظریہ ہے جو فلسفہ کی فروع سے لے کر ارتقاء اور تکامل تک  پایا جاتا ہے ۔
اس نظریہ کے مطابق انواع کی پیدائش پست مرتبہ سے بلند مرتبہ کی طرف اور ہمیشہ پیوستہ شمار ہوتی ہے اور ہر پست نوع کو زمان کے گزرنے کے ساتھ ساتھ نوع بالاتر تک پہنچنے کیلئے ماحول کو بھی موثر سمجھتا ہے ۔
اس نظریہ کی جزئیات تجربہ کے لحاظ سے اور اس کے کلیات،فلسفی ادلہ کے لحاظ سے جس انداز میں روشن ہونی چاہیں تھیں روشن  نہیں کی گئی ہیں(1)
خلاصہ:
نظریہ دوم کا خلاصہ یہ ہے کہ زمین سیارات کا ایک  ٹکڑا ہے جو سورج سے جدا ہوا ہے، ابتداءمیں ایک مایع چیز تھا جس کے اندر جینے کی قدرت موجود تھی، اسکے بعد آہستہ آہستہ مخصوص عوامل کے ذریعے ٹھنڈی ہوئی اور اس پر بہت سخت قسم کی بارش پڑی؛ جس کے نتیجے میں سیلاب جاری ہوا اوردریا بہنے لگےپھرکچھ ترکیبات زمین اورپانی کےدرمیان پیدا ہو گئیں جسکے نتیجےمیں کچھ دریائی نباتات پیدا ہوئے اور ان نباتات کے اندرموجود جراثیم کی وجہ سے ان میں تکامل آگیا جسکے نتیجےمیں مچھلیاں اور دوسرے دریائی حیوانات پیدا ہوئے۔ اوراسکے بعد ترتیب وار پرندےوجودمیں آگئے اور پھرخشکی اور دریائی حیوانات اور آخرمیں انسان وجود میں آگیا ۔یہ سارے مراتب تکامل کی وجہ سے وجودمیں آئے جو ان کی آپس میں ایک قسم کی ترکیبات ہیں پس ان سب ترکیبات اور تکامل کے ذریعے دریائی حیوانات اورخشکی والے حیوانات اور آخرمیں انسان وجودمیں آیا ۔(2)
علامہ طباطبائی اس نظریے کے رد میں فرماتے ہیں اس فرضیہ اور نظریہ کو کسی خاص دلیل سے ثابت نہیں کر سکتے ہیں لیکن یہ فرض کر سکتے ہیں کہ یہ انواع کلی طور پر ایک دوسرے سے جدا اور ہر ایک مستقل ہوئے بغیر اس کے کہ ایک نوع دوسرے نوع میں تبدیل ہو جائے ہاں ممکن ہے کچھ تبدیلیاں سطحی طور پر ہر نوع میں پائی جاتی ہوں بغیراس کے کہ اسکی ذات میں کوئی تبدیلی آجائے۔
 یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ ایک نوع کے اندر تبدیلی آنے سے وہ دوسری  نوع میں تبدیل نہیں ہو جاتا ہے اور یہ کبھی بھی نہیں دیکھا گیا کہ ایک بندر تبدیل ہو کر انسان بن گیا ہو۔ (3)
انسان کی خلقت اور اس کے وجود اور تمام زندہ موجودات کی خلقت کے بارے میں قدیم زمانے سے دانشمندوں کے درمیان دو متضادعقیدے پائے جاتے ہیں ۔
دانشمندوں کے ایک گروہ کا عقیدہ ہے کہ جاندارکے تمام انواع ایک دوسرے سے مستقل ہیں کسی دوسرے نوع سے وجودمیں نہیں آئے ہیں ۔
  اور دوسرا گروہ انواع کے تبدل اور تکامل کا قائل ہے۔ اور اس تبدل والے نظریے کو یونان کے قدیم دانشمندوں کی طرف نسبت دی گئی ہے؛ اورآخرصدیوں میں بھی کچھ دانشمند اس نظریے کے قائل ہیں ۔
ان میں سے اہم ترین شخصیت (چارلز داروین) ایک برطانوی شخص ہے کہ جو طبیعت اورہستی کا علم رکھتا تھا جو انیسسوی  صدی میں زندگی کررہا تھا۔(4)
چارلیز داروین نے دو نظریے پیش کیے کہ جن پر بہت سا شور و شرابہ ہوا ۔
ایک نظریہ تمام زندہ موجودات کے بارے میں اور دوسرا نظریہ خاص انسان کے بارے میں: پہلے نظریےکے مطابق جو (اصل انواع ) نام کی کتاب میں منتشر ہوا  اس میں یہ کہا کہ حیوانات کی تمام  انواع و اقسام ایک ہی نوع سے وجودمیں آئی ہیں، پھر آہستہ آہستہ ایک نوع دوسرے نوع میں تبدیل ہوئی اور پھرکئی انواع میں تبدیل ہوئے ۔
دوسرا نظریہ جو کتاب(اصل انسان )میں بیان ہوا ہےکہ انسان جو موجودات زندہ میں سے ہے؛ بندرکے ساتھ ایک منشاء رکھتا ہے یہ دونوں اجداد مشترک رکھتے ہیں  یعنی ایک ہی نسل سے وجودمیں آئے  ہیں۔ (5)
اور دوسرے نظریے کے مطابق داروین اور اس کے پیروکار اس بات کا عقیدہ رکہتے ہیں کہ انسان اور حیوان کے درمیان بہت کم فرق پایا جاتا ہے جو قبائل  پیچھے رہ گئے ہیں داروین کی تعریف کے مطابق وہی مفقود دائرہ ہے جو انسان اور حیوان  کے درمیان موجود ہے  ۔
کسی اور دانشمند کا یہ دعوی ہے کہ انسان اور بلند مرتبہ ترین بندر کے درمیان  بہت کم فرق پایا جاتا ہے اور یہ فرق اس سے کم ہے کہ جو عالی ترین اور پست ترین بندر کے درمیان پایا جاتا ہے۔ (6)
قرآن میں انسان کی خلقت کا مبداء اور تکامل کے مرحلے :
خلقت انسان کے بارےمیں جو دو نظریے پیش ہوئے انکو اجمالی طور پر بیان کرنے  کے بعد اب وقت آگیاہے کہ قرآن کو سامنے رکھیں؛ اور دیکھیں کہ قرآن مجید ان دو نظریوں میں سے کس کے ساتھ  موافقت کرتا ہے یا یہ کہ کوئی اور تیسرا نظریہ رکھتا ہے ۔
کیا انسان ابتداءمیں ہی بطورمستقل خلق ہوا ہے یایہ کہ دوسرے زندہ موجودات میں سے تکامل پایا ہے۔ اس بارے میں قرآن مجید فرماتا ہے کہ
«ان مثل عیسى عندالله كمثل آدم خلقه من تراب ثم قال له كن فیكون‏»۔  (آل عمران :59)
بے شک اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے کہ اس نے پہلے اسے مٹی سے خلق کیا، پھر اسے حکم دیا: ہو جا اور وہ ہو گیا۔
حضرت عیسی  کی خلقت کی جو کیفیت ہے وہ بطورمستقل ہے حضرت آدم کی خلقت اور وجود کی نسبت سے، ان دونوں کا وجود اور خلقت کا آپس میں مقایسہ کرتا ہے اور اس بات  کی تصریح کرتا ہے کہ آدم کا وجود بطورمستقل مٹی سے ہے قرآن مجید نہ حضرت آدم کیلئے ماں باپ کے وجود کا قائل ہےاور دوسرےموجودات زندہ سے تکامل یافتہ نہیں سمجھتا ہے۔ آیہ کریمہ«بداء خلق الانسان من طین‏»   (7)
ابتدا انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی۔
پس قرآن کریم انسان کو ایک مستقل نوع سمجھتا ہے اور انسان  کے دیگر انواع  کے تکامل سے وجود میں آنے کو قبول نہیں کرتا ہے اور قرآن اس مطلب کی حکایت کرتاہے کہ انسان مٹی کے کچھ مراحل سے گزر کر اس حالت انسانی میں داخل ہوا  ہے ۔لیکن ان مراحل سے کس طرح  گزر کر آیاہے اس کے بارے میں تصریح نہیں کی ہے ۔جیسا کہ فرمایا: «و لقد خلقنا الانسان من سلالة من طین‏» (8)
 اور بتحقیق ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے بنایا۔
اور مٹی کے بعد جو دوسرا مرحلہ ہے وہ پانی اور مٹی کا ملا ہوا گارا ہے جو سیر تکاملی انسان میں ایک مرحلہ کے نام پر بیان ہوا ہے۔
اورعلامہ طباطبا ئی فرماتےہیں کہ(انسان سے مراد نوع انسان ہے جو آدم اور اس سے نیچے تمام انسانوں کو شامل ہے اور خلق سے مراد خلقت ابتدائی ہے جوحضرت آدم کی ہوئی تھی ۔(9)
قرآن مجید اس گارے کے مرحلے کو ذکر کرنےکے بعد ایک اورمرحلے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
«لقد خلقنا الانسان من صلصال من حماء مسنون‏»۔ (10)
بتحقیق ہم نے انسان کو سڑھے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے پیدا کیا۔
معلوم ہوتا ہے کہ اس گارے میں کچھ اورفعل و انفعالات وجود میں آئے؛  یہ صرف ایک نیا اور تازہ گارہ نہیں تھا بلکہ اس میں کچھ اور حالات پائے جاتے ہیں ۔
ایک اور مرحلہ جس کے بارے میں قرآن مجید خبر دیتا ہے ۔
 «خلق الانسان من صلصال كالفخار»۔ (11)  
اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح کے خشک گارے سے بنایا۔
علامہ طباطبائی نے صلصال کو خشک گارا سے تعبیر کیا ہے۔(12)
یہ گارا کئی مرحلوں کو گزارنےکے بعد خشک ہو کر ایک نئی حالت اپناتاہے اور وہ پہلے والی حالت جوکہ نرمی ہے وہ نہیں رہتی ہے اور اسی حالت کو صلصال سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
اب وہ وقت آگیا ہےکہ ہم یہاں دو مطالب کی طرف توجہ کریں گے۔
پہلا یہ کہ قرآن مجید کی رو سے انسان کس چیز سے بنا ہوا ہے اور آیا اسکی خلقت اصل مٹی سے ہوئی ہے اورسیر تکاملی کوطے کر کےآیا ہے یا یہ کہ انسان دوسری زندہ موجودات سے تکامل پاکر یہاں تک آپہنچا  ہے؟
اور دوسرا مطلب جو روشن ہونا چاہے وہ یہ ہے کہ کیا تکامل کے مراحل بہت تیزی سے گزرنے کے بعد اچانک انسان وجودمیں آیا ہے ؟ یا کچھ مدت گزرنے کرنے  کے بعد وجود میں آیا  ہے ؟
پہلا نکتہ یہ ہےکہ انسان اصل میں استقلال رکھتا ہے نہ یہ کہ دوسرے موجودات سے ملکر وجود میں آیا ہے اس بات پر دلالت کرنے کیلئے قرآن مجید میں بہت ساری آیات موجود ہیں ۔
 قرآن مجید نے خلقت انسان کے پانچ مراحل بیان کیے ہیں۔
پہلا مرحلہ:خلقت انسان کو مٹی سے شروع کرتا ہے ۔
دوسرا مرحلہ: طین جو پانی اورمٹی سے ملکر بن جاتا ہے ۔
تیسرا مرحلہ: سلاسلہ جو اسے مٹی سے خالص گارا بتاتا ہے۔
چوتھا مرحلہ :صلصال من حمآ مسنون ۔
 گارا بننے  کے بعد خشک ہونے والی حالت کو بیان کرتا  ہے ۔
پانچوان مرحلہ :صلصال کالفخار۔
اس گارے کے خشک ہونے کے بعدٹھیکری کی حالت کو بیان کرتا ہے ۔
صاحب تفسیرمجمع البیان ان مراحل کو اسطرح سے بیان کرتا ہے
 «اصل آدم كان من تراب و ذلك قوله«خلقه من تراب‏» ثم جعل التراب طینا و ذلك قوله: «خلقه من طین‏» ثم‏ترك ذلك الطین حتى تغیر و استرخى و ذلك قوله: «من حماء مسنون‏» ثم ترك حتى جف‏وذلك قوله: «من صلصال‏» فهذه الاقوال لا تناقض فیها اذ هی اخبار عن حالاتهاالمختلفة‏»۔   (13)
مجمع البیان کی اس عبارت سے بآسانی روشن ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید کی رو سے انسان کی خلقت مٹی سے شروع ہو جاتی ہے اور دوسرے مرحلہ میں داخل ہوکر پانی اور مٹی سے مخلوط ہوکر خالص گل کی حالت میں تبدیل ہونے کے بعد خشک ہوکر گارا بن جاتاہے اس کے بعد اس میں روح انسان داخل ہونے کی صلاحیت پیداہوتی ہے۔ پس قرآن مجیدکے مطابق انسان ایک مستقل وجود رکھتاہے نہ کہ دوسرے موجوات کے تکامل کیوجہ سے وجود میں آیا ہے۔ اور ابھی جو انسان موجود  ہے وہ آدم ابو البشر  کی نسل سے ہے ۔
اور دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کیا یہ مراحل تیزی سے گزر ے ہیں یا آرام سے؟
 اگرچہ اس کے بارے میں قرآن تصریح نہیں کرتا ہےلیکن آیات میں دقت کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مراحل تدریجا اور آرام سے طے ہوئے ہیں اور طبیعتا یہ عوامل بھی خداوند عالم کی طرف سے ہیں اور وہی انکا خالق ہے۔ اور ایک ضعیف قول بھی اس آیة کے ذیل میں بیان ہوا ہے :
«هل اتى على الانسان حین من الدهر لم یكن شیئا مذكورا» (14)
قبل انه اتى (15) على آدم (16) اربعون سنة  لم یكن شیئا مذكورا لا فی السماء و لا فی الارض بل كان جسدا ملقى من طین قبل ان ینفخ فیه الروح (17) ۔
اور تیسرا نکتہ یہ ہے کہ قرآن مجید لوگوں  کیلئے آیا ہے،  لہذا متوسط طبقہ کے ذہن رکھنے والے انسانوں کو مد نظر رکھا  ہے۔ اور جن مراحل کو قرآن نے ذکر کیا  ہے ان سے فہم عرفی میں یہ بات سمجھہ میں آتی ہے کہ ان مراحل  کے درمیان  کچھ مدت کا فاصلہ واقع ہوا ہے۔ اگر فرض کریں یہ مراحل ایک لحظہ میں طے ہوے  ہیں تو پھر عرف میں اسکو مرحلہ وار نہیں کہا جا سکتا ہے۔ اگرچہ عقلی اعتبارسے ان پر مراحل بھی اطلاق ہوا هو ۔
اشکال :
 اس  آیت کو مد نظر رکھتے ہوے ۔
«قال یا ابلیس ما منعك ان تسجد لما خلقت‏ بیدی۔۔۔» (18)
خدا نے) فرمایا کہ اے ابلیس جس شخص کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اس کے آگے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا۔
یہاں پر «بیدی‏» کا جو تعبیر ہوا ہے اس سے احتمال پیدا ہوتا ہے کہ ممکن ہے پہلے انسان کی خلقت طبیعی عوامل کے زریعہ سے ہو‏‏ئی ہو، اگرچہ خدا وند عالم کے اسباب و عوامل سےہیں لیکن ان کو رد کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں خلقت انسان  کے بارے میں جو تکاملی نظریہ ہے وہ مردود ہو جاتا ہے۔ (19)
جواب :
نسبة خلقه الى الید للتشریف بالاختصاص كما قال:«نفخت فیه من روحى‏» وتشبیه الید كنایة عن الاهتمام التام بخلقه وصنعه فان الانسان انما یستعمل الیدین فیما به یتم به من العمل‏»  (20)
یعنی خلق کا ید کی طرف نسبت دینا انسان کی شرافت کیوجہ سے ہے کہ خدا نے اسکو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور لفظ یدین کا تثنیہ استعمال کرنا بھی کنایہ ہے کہ حضرت آدم کی خلقت کس اہتمام سے ہوئی ہے ۔
ایک اشکال اور اسکا جواب :
کتاب (خلقت انسان) کا مؤلف: اپنی اس کتاب میں لکھتا ہے کہ جسطرح کتاب  کے مقدمہ میں ذکر ہوا کہ خلقت انسان  کے بارے میں جو تقلیدی ادیان  کی  زبانی یا کتاب تورات میں جعلی اخبار کے ذریعے جو شائع کیا گیا ہے کہ صرف دو قسم کے لوگ حضرت آدم سے وجود میں آئے ہیں۔ اورحضرت آدم خود ایک خاص خلقت رکہتا تھا خدا نے آدم کا ڈھانچہ گارے سے بنایا پھر اس کے اندر روح  پھونک دی اور ایک موجود زندہ کی شکل میں وجود بخشا۔
اور آدم کی بیوی کو اسی آدم سے بنایا پھر اسی جوڑے سے اولاد پیدا ہوگئی پھر نواسے ہو گئے اور اسی طرح سے تدریجا ان کے اولاد میں ترقی ھو گئ اور بشر وجود میں آگیا (21)
 پھر چند صفحہ بعد اس آیت
 «ان الله اصطفى آدم و نوحا و آل ابراهیم و آل عمران على العالمین‏» (22)
خدا نے آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہان کے لوگوں میں منتخب فرمایا تھا.
  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ لیتا ہے کہ اصطفی انتخاب کے معنی میں ہے جس طرح کہ حضرت نوح اور آل عمران اور آل ابراہیم کو اپنی ہم نوع سے منتخب کیاگیا۔ لذا حضرت آدم کو بھی اپنے ہم نوع سے انتخاب کیا پس اس بنا پر نوع انسان کے آدم سے وجود میں آنے والی بات صحیح نہیں ہیں، بلکہ انسان حضرت آدم سےپہلے؛ چون تشخیص اور تمیزکے  قابل نہیں تھے اور کوئی مسئولیت ان پر عائد نہیں تھی اور جب تشخیص و اختیار حاصل ہوا تو مسئولیت مل گئی ہے۔ (23)
جواب:
اصطفی کا لفظ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں کسی اور معنی میں استعمال ہوا  ہے اس معنی میں نہیں کہ جومستشکل نے بیان کیا ہے کہ حتما اس سے پہلے کوئی اور گروہ موجودتھا تاکہ اصطفی کا معنی دیدے بلکہ اصطفی کا معنی یہ ہے کہ نوع انسانی کا سب سے پہلا خلیفہ حضرت آدم تھا اور سب سے پہلا شخص کہ جس  کے  ذریعے سے توبہ کا دروازہ کھلا حضرت آدم علیہ السلام تھا اور سب سے پہلا شخص کہ جس کیلئے دین تشریع ہوا۔۔۔۔۔۔(24)
نوع انسان کی بقاء قرآن کی نظر میں :
اس بات کی طرف توجہ دیتے ہوے کہ انسان کی عمر محدود ہے نوع انسان کی بقاء کس طرح ہے؛ قرآن کے نظر میں نوع انسان کی بقاء نطفہ سے ہے جیسا کہ قرآن میں ہیں
«خلق الانسان من نطفة۔۔۔»۔ (25)
علامہ طباطبائی فرماتے ہے کہ اس آیہ میں خلق سے مراد نوع انسان اورآدم علیہ السلام کا نسل ہے اور خود آدم کو شامل نہیں ہے۔(26)
 خصوصا اس آیت کی طرف توجہ دیتے ہوئے۔
 «ثم جعل نسله من سلالة من ماء مهین‏» (27)
اس بات  کی طرف توجہ کرتے ہوے کہ انسان کی اولین خلقت کو اسی سورہ میں اس آیت سے پہلے خاک سے بیان کیا گیا ہے اور ان دو آیتوں کو ایک ساتھ لانے سے دوسری آیت کی صراحت نسل انسانی کی طرف ہوتی ہیں ۔
اور دوسری آیت کہ جس میں نطفہ کے مراحل بیان ہوئے ہے ۔
«ثم خلقنا النطفة علقة فخلقنا العلقة مضغة فخلقنا المضغة عظاما فكسونا العظام لحما ثم انشاناه خلقا آخر فتبارك الله۔۔۔» (28)
پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھرلوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایا۔ پھراس کو نئی صورت میں بنا دیا۔
 تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے۔
 پہلی والی دو آیتوں میں انسان  کی اولین خلقت کے بارے میں خبر دیتا ہے اور اس آیت میں نطفہ جن مراحل کو طے  کرتا ہے ان کو مشخص کرتا ہے اس سے یہ بات سمجھ میں آتی  ہےکہ نطفہ کے اندر کے مراحل کا ہونا نوع انسان کی بقاء کیلئے  ہے۔ نہ یہ کہ اصل خلقت حضرت آدم ابو البشر علیہ السلام کیلئے یہ مراحل طے ہوئے ہوں۔
ممکن ہے کوئی یہ کہہ دے  کہ کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم حضرت آدم کیلئے بھی کہہ دیں  کہ اصل اسکا مٹی سے ہے اور اس کے بعد دوسرے مرحلہ میں نطفہ پھر اس کے بعد بقیہ مراحل ہیں...............................؟
علامہ طباطبائی اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ :
«ثم جعل نسله من سلالة من ماءمهین‏»
 پھر اس کی نسل خلاصے سے (یعنی) حقیر پانی سے پیدا کی۔
فالنسل الولادة بانفصال المولود عن الوالدین و المقابلة بین بدء الخلق وبین النسل لا یلائم كون المراد ببدء الخلق بدء الخلق الانسان المخلوق من ماء مهین ولو كان المراد ذلك لكان حق ‏الكلام ان یقال: ثم جعله سلالة من ماء مهین‏»۔ (29)
علامہ کی اس کلام سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ:
پہلا :
 نسل ؛جو ولادت منفصل کو کہا جاتا ہے ۔
دوسرا:
(والمقابلة بین بدء الخلق وبین النسل)
 ابتدا ءخلق اور نسل کو ایک دوسرے کے مقابل میں قرار دینے سے یہ سمجھ میں آتا  ہےکہ یہ سازگار نہیں کہ نسل اول انسان بھی نطفہ سے ہو اور اگر اسکا مطلب یہی ہے تو پھر ایک اور نسل کا ہونا لازمی ہے لہذا ناچار اس بات کو ماننا پڑے گا کہ انسان اول کی خلقت مٹی سے ہے اور اس کے بعد (جیسا کہ قرآن کہہ رہا ہے) میں آنے والے انسان نطفہ سے ہیں اور نطفہ خود تبدیل بہ مضغہ و علقہ ۔۔۔۔ہوتے ہوئے انسان وجودمیں آیا ہے  ۔
انسان کی تعجب آور خلقت:
انسان  کی عجیب خلقت کے بارے میں قرآن کی اس آیت
«الذی احسن كل شی‏ء خلقه»۔ (30)
جس نے ہر چیز کو بہت اچھی طرح بنایا (یعنی) اس کو پیدا کیا۔ اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا
 کی طرف توجہ دیتے ہوئیے کچھ جالب نکات کی طرف اشارہ کریں گے ۔
انسان کا دل جو گوشت کا ایک  ٹکڑا ہے جس کا اندازہ  ایک مٹھی کے برابر ہے جو ہر دن بطور متوسط 110000 مرتبہ دھڑکتا ہے اور تقریبا 10500 لیٹر خون کو انسان کے جسم میں جریان دیتا ہے ۔
انسان  کے اندر موجود رگوں  کی لمبائی مجموعا 560،000 کلو میٹر ہے جو تقریبا کرہ زمین اور چاند کے مسافت کے برابر ہیں۔
خون کے اندر موجود جراثیم تقریبا 125 ارب ہیں اگر انکو ایک دوسرے پر رکھا جائے تو انکی مسافت تقریبا 37500 کلو میٹر یعنی مسافت مدار زمین خط استوا سے کم فاصلہ پر ہو گی۔
اور دماغ کے اندر موجود رگوں کی تعداد 14 کروڈ ہے اور یہ طول مسافت  کے اعتبار سے 480000 کلو میٹر یعنی خط استوا کے 12 برابر ہے۔
انسان کے گردوں کے اندر 200 ملیون نازک و ہلکی رگیں موجود ہیں ان کے اندر ہر روز 500 لیٹر خون صاف ہو جاتا ہے ۔
چھوٹی انتھڑی جسکی لمبائی 8 میٹر اور چوڑھائی 3 سینٹی میٹر اور ہرسینٹی میٹر میں3سے4 عدد تک برآمدگی موجود ہے جن میں سے ہر ایک میں3000 جراثیم موجود ہیں ۔
آنکھ کے اس پردہ میں75 ملیون سلول موجود ہیں۔(31)
نور کی سرخی جو ہر ثانیہ میں آنکھ کے اندر داخل ہو جاتی ہیں 458000 ہزار میلیارد ہیں اور جو کلیجی رنگ کی ہیں انکی تعداد 727000 میلیارد ہیں ۔
ہر معمولی شخص 34000 قسم کی آوازں کو تشخیص دے سکتا ہے ۔
خلقت انسان کا مقصد :
اگر خلقت کا ہدف اس معنی میں ہو تو پھرخالق کا ہدف، انسان کی خلقت سے کیا  ہے؟ یعنی خالق نے کس انگیزہ کے تحت انسان کو خلق کیا اور اس خلقت پر کونسی چیز سبب بنی؟
اس میں خدا وند عالم کیلئے کوئی ہدف نہیں ہے کیونکہ وہ ہدف جو فاعل کو اس فعل  کے انجام دینے پر ابھارنے کا باعث بنا۔
پھر وہ فاعل؛ فاعل ہو سکتا ہے اس صورت میں کہ فاعل اپنے فعل کو انجام دینے میں مجبور ہو اس سے نقض فاعل لازم آتا ہے ۔
لیکن کبھی  خلقت کا ہدف فعل ہے اور فعل کی غایت یہ ہے کہ جس کام کو بھی فرض کریں گے وہ فعل اپنے ہدف و غایت کی طرف روان دواں ہے اور اس کمال کو حاصل کرنے کیلئے ہے نہ یہ کہ فاعل اس فعل کو انجام دیکر خود کمال تک پہنج جائے۔ اس صورت میں خلقت کا جو غایت ہے ؛اور کلی طور پراس سے ہر چیز کا وجود نقص سے شروع ہوگا اور اسکا مسیر کمال کی طرف ہے۔ اور خلقت انسان کا ہدف کیا ہے اسکی طرف جاتا ہے انسان کی ماہیت کیا ہے اور اس کے اندر کونسی استعداد چھپی ہوئی ہیں اور کونسے کمالات ہیں ؛کہ ممکن ہو ہر اس کمال کو حاصل کرنے کیلئے انسان کو خلق کیا گیا  ہے۔ ہم ایک کلی صورت میں کہہ دیں گے کہ انسان کو سعادت تک پہنچنے کیلئے بھیجا گیا ہے اور خدا وند عالم  انسان کو خلق کرنے میں کوئی ہدف نہیں رکھتا ہے اس میں اس کیلئے کوئی فائدہ بھی نہیں ہے بلکہ انسان کو خلق کیا ہے تاکہ وہ سعادت تک پہنج جائے ۔
لیکن قرآن مجید میں انسان کی خلقت کا ہدف بطور جزئی بھی بیان ہواہے جیسا کہ فرمایا ۔
 «ا فحسبتم انما خلقناكم عبثا و انكم الینا لا ترجعون‏»۔ (32)
 کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا ئے نہیں جاو گے۔
اگر خدا کی طرف لوٹ کر جانا نہیں ہوتا تو خلقت انسان بے ہودہ ہو جاتی قرآن مجید  کی آیات میں قیامت  کے مسئلہ کا حق ہونا باربار تکرار ہواہے اور خلقت انسان  کے باطل یا کهیل و تماشا نہیں ہونے کو بیان کیا گیا  ہے۔ حقیقت میں استدلال کیا  ہے کہ یہ قیامت  خداکی طرف واپس جانے کا نام  ہے  کہ اس میں  اس عالم کی خلقت  کا سبب روشن ہوتا ہے  ۔
 کسی اور جگہ پر صراحت کے ساتھ فرمایا :
 «ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون‏»(33)
 اس آیہ مبارکہ میں عبادت کو خلقت انسان کا غایت سمجھا  ہے ۔(34)
کسی اور جگہ پر تصریح فرمایا ۔
 «هو انشاءكم من الارض و استعمركم فیها فاستغفروہ‏»۔
اس آیت میں یہ نہیں کہا «انشاكم فی الارض‏» آپکو زمین میں پیدا کیا بلکہ فرمایا  «انشاكم من الارض‏»  زمین سے پیدا کیا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ  ہےکہ کہا جاتا  ہےکہ زمین انسان کی دوسری ماں ہے اور پھر فرمایا: «و استعمركم فیها»        اللہ تعالی کا ارادہ  ہےکہ تم اس زمین کو آباد کرو۔(35)
چند سئوالات اور ان کے جوابات :
کیا حضرت آدم کی بیوی خود آدم  کی نوع سے تھی ؟
جواب :اس آیت کی طرف توجہ دیتے ہوئیے
 «یا ایها الناس اتقوا ربكم الذی خلقكم من نفس واحدة و خلق منها زوجها۔۔۔» (36)
 اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک ذات سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے ۔
علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ نفس واحدة سے مراد حضرت آدم اور زوجھا سے مراد اسکی بیوی  ہے ۔اور آج  کے موجودہ انسان  کے ماں باپ ہیں
(و خلق منها زوجها)
سے مراد یہ ہے کہ اسکی زوجہ بھی اسکی نوع سے ہے خود آدم کی طرح ،لیکن بعض تفسیری کتابوں میں جو ذکر ہوا  ہے آدم کی بیوی خود اسی آدم سے خلق ہوئی جس طرح کہ بعض روایات میں آیا  ہے خدا نے حواء کو آدم کی پسلی سے پیدا کیا  ہے ؛اس آیت میں اسطرح کی کوئی بات ذکر نہیں ہوئی ہے (37)
 کیا انسان کی عمر سات ہزار سال ہے یا کئی میلیون سال سے بھی تجاوز کر گئی   ہے ؟
جواب : طبقات زمین  کاعلم رکھنے والے  دانشمندوں کا کہنا  ہےکہ انسان کی عمر کئی میلیون سال سے زیادہ ہے اگرچہ یہودیوں کی تاریخ یہ کہتی  ہےکہ انسان کی عمر سات ہزار سال سے زیادہ نہیں ہوتی ہے اما قرآن مجید نے اس مطلب  کے بارے میں کوئی تصریح نہیں کی ؛ کہ  کیا نوع انسان کا ظہور اسی دورہ تک منحصر  ہے یا یہ کہ ہم سے پہلے  بھی کئی ادوار گزر چکے ہیں اور ہم آخر میں آئے ہیں ۔اگرچہ اس آیت
 «و اذ قال للملائكة انی جاعل فی الارض خلیفة۔۔۔» (38)
سے سمجھا جاتا  ہےکہ ہم سے پہلے کئ ادوار گزر چکے ہیں (39)۔
اس بات کا خیال رکہتے ہوئے کہ افراد بشر چار قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں سفید رنگ ؛کالا رنگ اور پیلا  رنگ والے جیسا چین اور جاپان والے ہیں اور سرخ رنگ والے جیساکہ ہندو  اور امریکہ والے ؛ان قسموں میں تقسیم ہوتیں ہیں اور خون کا مختلف ہونا بھی اس میں دخیل  ہے لہذا بعض نے کہا  ہےکہ ان میں سے ہر ایک کا مبداء خاص ہونا چاہئے پس نوع انسان کا مبدا کم از کم چار قسم کا ہے ۔
جواب :خون  کے اختلاف ہونے کو انکا رنگ مختلف ہونے کا منشآ قرار دیا  ہے  یہ کافی نہیں  ہے کیونکہ آج کل جو طبیعت  کے بارے میں بحث کی جاتی  ہے وہ انواع کے مختلف ہونے کی وجہ سے  ہے بنا بر این کس طرح ممکن  ہے کہ ہم مطمئن ہو جائیں کہ خون اور رنگ کا مختلف ہونا انواع  کے مختلف ہونے کی وجہ سے نہیں ہوا ہو اس طرح سے بہت سارے حیوانات  کے درمیان جیسا گھوڑا اور بکری  کے درمیان اور ہاتھی  اور دوسرے حیوانات  کے درمیان ایک مسلم اختلاف پایا جاتا  ہے ۔(40)
قارہ امریکہ کا کشف کرنا کہ جہان قبائلی لوگ   زندگی کرتے تھے  یہ خود باعث بنتا  ہےکہ ہم اصل انسان کو ایک جوڑے سے زیادہ فرض کریں کیونکہ یہ ناممکن  ہے کہ قبائلی  نسل  کے لوگ جو کئی میلیون فاصلہ پر زندگی بسر کرتے تھے  وہ اور دوسرے اس کرہ شرقی سے جدا تھے  دونوں ایک  ہی نسل سے ہو ۔؟
جواب : جیسا کہ علما‏‏ء طبیعت نے لکھا  ہے انسان کی عمر کئ میلیون سال سے چلتی آرہی  ہے اور جیسا کہ تاریخ میں ثبت ہوا  ہے چھ ہزار سال سے زیادہ نہیں اس لیے کیا معلوم کچھ ایسے حوادث رونما ہوئے ہوں جنہوں نے قارہ امریکہ کو دوسرے بلاد سے  جدا کردیا ہو ۔اور آج کل زمین شناس بتاتے  ہیں کہ بہت سے اثار موجود ہیں کہ جن سے اندازہ لگایا جا سکتا  ہےکہ زمان  کے گزرنے  کے ساتھ کچھ ایسی اہم تغیرات وجود میں آئی ہیں جیسا کہ ایک سمندر کا خشک ہوکر سحرا میں تبدیل ہونا اور سحرا کا سمندروں میں تبدیل ہوجانااور  اسی طرح پہاڑوں کا دشت میں تبدیل ہوجانا ۔(41)
اس کے بعد علامہ فرماتے  ہےکہ قرآن نے صراحتا ذکر کیا  ہےکہ موجودہ انسانوں کی نسل ایک مرد اور عورت جو ان نسلوں  کے والدین ہیں ان تک منتہی ہو جاتی  ہے اب اس مرد کا نام آدم ذکر ہوا  ہے اور اس عورت کا نام قرآن میں ذکر نہیں ہوا  ہے ؛لیکن روایات میں اسکو حواء کا نام دیا گیا  ہے ۔(42)
ممکن  ہے یہ کہا جائے کہ آدم سے مراد جو قرآن میں نام لیا گیا  ہے نوع آدم ہو  ؛  نہ وہ مخصوص شخص کیونکہ انسان کی پیدائش زمین سے شروع ہوئی ہے  اور اسکی بقاء کیلئے مسلسل تولید نسل ہوتاہے اس لیے  اسکا نام آدم رکھا گیا ہو اور ممکن  ہے اس مطلب کو اس آیت سے لیا گیا ہو۔
«لقد خلقناكم ثم صورناكم ثم قلنا للملائكة اسجدوا» ۔(43)
بتحقیق ہم نے تمہیں خلق کیا پھر تمہیں شکل و صورت دی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو پس سب نے سجدہ کیا صرف ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ تھا
جواب : علاوہ اس کے کہ یہ مفہوم ظاہر آیات  کے خلاف  ہے دوسری آیت اس مطلب کورد کرتی  ہے جیسا کہ آدم کوملائکہ کا سجدہ اور شیطان  کے انکار کرنے کو بیان کرتی  ہے ۔(44)
«واذ قلنا للملائكة اسجدوا لادم فسجدوا الا ابلیس قال ء اسجد لمن خلقت طینا»۔ (45)
اور (یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے کہا:آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے کہا: کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔


حوالہ جات :
1۔پرتویی از قرآن:1/113۔
2۔ المیزان، علامہ طباطبایی، در تفسیر آیہ 1 سورہ نساء۔
3۔ ہمان۔
4۔ نظریہ تکامل از دیدگاہ قرآن۔
5۔نظریہ تکامل از دیدگاہ قرآن۔
6۔ علم و دین، ایان باربور،ص 114 ترجمہ خرمشاہ۔
7۔ آل عمران/59۔
8۔ سجدہ/7۔
9۔ مؤمنون/12۔
10۔ المیزان در ذیل آیہ 12 سورہ مؤمنون۔
11۔ حجر/26۔
12۔ الرحمن/14۔
13۔ المیزان ذیل آیہ مورد بحث۔
14۔مجمع البیان۔
15۔دہر/1۔
16۔روزگار۔
17۔ مجمع البیان در ذیل ہمین آیہ۔
18۔ ص/75۔
19۔ نظریہ تکامل از دیدگاہ قرآن۔
20۔ تفسیر المیزان در ذیل آیہ مورد بحث۔
21۔ خلقت انسان، ص 100۔
22۔ آل عمران/33۔
23۔ خلقت انسان،ص 107، 106، 105۔
24۔ المیزان:3/165۔
25۔ نحل/4۔
26۔ المیزان در ذیل ہمین آیہ۔
27۔ سجدہ/8۔
28۔ مؤمنون/14۔
29۔المیزان در ذیل آیہ 8 سورہ سجدہ۔
30۔ سجدہ/7۔
31۔ این 7 مورد از مجلہ «شاہد» شمارہ 139، شہریور 1366، ص 42۔
32۔ مؤمنون/115۔
33۔ ذاریات/56۔
34۔ تکامل اجتماعی انسان،ص 70 بہ بعد، اثر استاد شہید مرتضی مطہری‏ رحمہ الہم ۔
35۔ بیست گفتار، ص 74، شہید مطہری، چاپ صدرا۔
36۔ نساء/1۔
37۔ خلاصہ ‏ای از آنچہ علامہ در تفسیر المیزان در ذیل ہمین آیہ فرمودہ‏ اند۔
38۔ بقرہ/30۔
39۔ المیزان در ذیل آیہ اول سورہ نساء۔
40۔ المیزان در ذیل آیہ اول سورہ نساء۔
41۔ ہمان
42۔ ہمان۔
43۔ اعراف/11۔
44۔ المیزان در ذیل آیہ یک سورہ نساء۔
45۔ اسراء/61۔