تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 66 تا 70)
  • عنوان: تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 66 تا 70)
  • مصنف: سید مون کاظمی
  • ذریعہ: تفسیر فصل الخطاب سے اقتباس
  • رہائی کی تاریخ: 17:43:14 1-9-1403


تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 66 تا 70)
"فَجَعَلْنَهانَکَالاًلِمَا بَیْنَ یَدَیْهاوَمَا خَلْفَهاوَمَوْعِظَةً لِلْمُتَقِیْنَ (66)
تو ھم نےاُسےعبرت بنادیا اُس زمانہ اوراُس کےبعد کیلئےاور نصیحت بنادیا فکرِ نجات رکھنے والوں کیلئے"

یہ تتمہ صاف صاف بتادیتا ھے کہ سزا محسوس شکل و صورت میں ایسی تھی جس کے عذابِ الہی ھونے کا ھر شخص کو احساس ھوسکے.اخلاق کا مثل بندروں کے ھوجانا، یہ اس قسم کی چیز نہیں ھے جسے ھر ایک شخص سمجھ سکے کہ یہ خالق کی طرف کا عذاب ھے جو نازل ھوا ھے.آج بندر کیا بندروں سے بھی بدتر بہت سوں کے افعال ھیں مگر اس کے عذاب ھونے کا تصور بھی پیدا نہیں ھوتا.
**

"وَاِذْقَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِه اِنَ الله یَامُرُوْکُمْ اَنْ تَذْبَحُوْابَقَرَةً قَالُوْآ اَتَتَخِذُنَا هزُوًا  قَالَ اَعُوْذُ بِالله اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجَاهلِیْنَ (67).
اور جب موسٰی نے اپنی سے قوم سے کہاکہ اللہ تمہیں حکم دیتاھےکہ ایک گائےذبح کرو.انہوں نےکہا:آپ ھم سے مذاق کرتے ھیں.کہا پناہ بخداکہ میں جاھلوں میں سے ھوں"

اس واقعہ کی تفصیل اھلبیت طاھرین علیھم السلام سے دو معتبر روایتوں میں وارد ھوا ھے.(1) اسکا خلاصہ یہ ھے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک نہایت نیک آدمی کو اُس کے ایک ناھنجار عزیز نے قتل کردیا اور خود آکر اُس کے خون کا دعوٰی کیا.اُسی کے قاتل کا پتہ چلانے کے سلسلے میں یہ گائے کے ذبح کرنے کا حکم ھوا(طبرسی). یہ گائے بنی اسرائیل کے ایک جوانِ صالح کی تھی جسکا اپنے باپ کے ساتھ حسنِ سلوک اللہ کو پسند آیا اور اسی کے صلہ میں اس گائے کے ذریعہ سے اُس کے فقروفاقہ کو دور کرنا منظور ھوا اس لئے قاتل کا پتہ لگانے کیلئے صفات کے ذریعہ سے اُس گائے میں انحصار کردیا تاکہ یہ لوگ اُسے منہ مانگی قیمت پر خرید لیں اور وھی اُس جوان کی فارغ البالی کا ذریعہ ھو(صافی). چونکہ قاتل کی سراغ رسانی کا گائے کے ذبح کرنے سے بظاھر کوئی تعلق نہ تھا اس لئے قوم والے سمجھے کہ یہ مذاق ھے(2).
ظاھر ھے کہ قتل کا ایسا مقدمہ پیش ھونے کے ھنگام پر مذاق کا کوئی محل نہیں ھوسکتا اور اس محل پر مذاق کرنا جہالت کے سوا کچھ ھو ھی نہیں سکتا.اس لئے موسٰی علیہ السلام نے مذاق کی نفی ان الفاظ میں فرمائی
"پناہ بخدا کہ میں جاھلوں میں سے نہیں ھوں"
یعنی اس محل پر مذاق کا میری نسبت تمہیں تصور ھی نہیں ھونا چاھیئے. (3).
**

"قَالُوْاادْعُ لَنَارَبكَ یُبَیِنْ لَنَامَاهیَ قَالَ اِنَه یَقُوْلُ اِنَهابَقَرَةلَافَارِضّ و َ لَا بِکْرّ  عَوَانّ بَیْن َ ذٰلِكَ  فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ (68).
انہوں نےکہا ھماری طرف سےاپنے پروردگار سے التجا کیجئے کہ وہ ھمارےلئےظاھرکردےکہ وہ کیسی ھے؟ کہا وہ فرماتا ھے کہ وہ گائے ایسی ھے جو نہ بوڑھی ھے نہ بن بیاھی دونوں عمروں کے بیچ میں ایسی ھےجس کےبچےھورھے ھیں بس اب جو حکم ھو رھا ھے اُسے انجام دیدو"

پہلے حکم کے الفاظ مطلق تھے کہ ایک گائے ذبح کردو.اگر بنی اسرائیل ان الفاظ کے اطلاق پر عمل کرکے کوئی گائے لے آتے اور ذبح کر ڈالتے تو اصولًا حکم کی تعمیل میں کسی کمی کا الزام نہیں آسکتا تھا.مگر انہیں پہلے تو یہ یقین ھی نہیں آتا تھا کہ قاتل کی سراغ رسانی کیلئے واقعی گائے ذبح کی جائے.وہ اسے مذاق قرار دے رھے تھے.اب جب نبی کی تصریح کے بعد انہیں یہ یقین آیا کہ واقعی یہ حکم ھے تو ان کے ذھن میں آیاکہ بہرحال یہ کوئی عام گائے نہیں ھوسکتی.ضرور کوئی خاص گائے ھوگی جس میں یہ خاصیت ھے.اس وجہ سے اُنہوں نے کہا کہ وہ گائے کونسی ھے اور کیسی ھے.اب اُنکی ذھنیت جب اس مشکل پسندی کی طرف مائل ھوگئی جو اُن کے رجحانِ طبعی کا تقاضہ تھی اور وہ علمِ الہی میں پہلے ھی سے تھی تو خالق نے کشاں کشاں اُنکو اُس معین گائے تک پہنچا دینا چاھا جس کے ذریعہ سے اس ایک جوان صالح کی اقتصادی حالت کو درست کرانا مقصود تھا.(4)
**

"قَالوْا ادْعُ لَنَا رَبَكَ یُبَیِنْ لَنَا مَا لَوْنُها قَالَ اِنَه یَقُوْلُ اِنَها بَقَرَة ّصَفْرآءُفَاقِعّ لوْنُهاتَسُرُالنٰظِرِیْنَ (69).
انہوں نے کہا ھماری طرف سے اپنے پروردگارسےعرض کیجئے وہ ھمیں بتا دے کہ اُسکا رنگ کیا ھے. کہا وہ فرماتاھےکہ وہ ایک گائےھےچوکھے زرد رنگ کی جو دیکھنے والوں کو فرحناک بناتی ھو"

معلوم ھوتا ھے عمومًا اس رنگ کی گائیں کم ھوا کرتی تھیں.اس لئے یہ وصف فرد واحد کی تعیین سے بہ نسبت پہلے کے قریب تھا.
حدیث سے ظاھر ھوتا ھے کہ دیکھنے والوں کو فرحناک بنانا زدد رنگ کی طبعی صفت ھے.(5).
**
"قَالُوْا ادْعُ لَنَا رَبَكَ یُبَیِنْ لَنَا مَا هیَ اِنَ الْبَقَرَ تَشٰبَهَ عَلَیْنَا وَاِنَآ اِنْ شَآءَالله لَمُهتَدُوْنَ (70).
انہوں نےکہااپنےپروردگارسےھماری طرف سے درخواست کیجئے کہ وہ ھمارےلئےمزیدتوضیح کرےاس لئے کہ گائیں ھمیں ملتی جلتی نظرآتی ھیں اور اللہ نےچاھا تو ھم صحیح راستہ پا جائیں گے"
؛؛؛
معلوم ھوتا ھے کہ گزشتہ صفات باوجود کمیابی کے اب بھی متعدد گایوں میں جمع نظر آرھے تھے اور اُنکی سمجھ میں یہ آتا ھوگا کہ بس کوئی ایک گائے کافی ھے تو وہ پہلے ھی کیوں "ھندی کی چندی" کرتے.اُن کے تو دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ ھو نہ ھو کوئی خاص گائے ھے.اس لئے وہ چاھتے تھے کہ اوصاف ایسے آئیں جو بس ایک میں منحصر ھوجائیں.ھاں یہ ضرور ھے کہ گزشتہ ھر صفت سے دائرہ تنگ ھوتا جاتا تھا اور معلوم ھوتا ھے کہ رنگ کے وصف کے بعد اب یہ دائرہ کافی تنگ ھوگیا تھا.اسی لئے اُنہیں امید بندھی کہ بس ذرا سی تشریح اور ھوجائے تو ھم ایک فردِواحد کو معین کرنے میں کامیاب ھوجائیں.(6)
**
________________________________________________________
(1). رواه القمی بسند معتبر عن الصادق علیه السلام وابن بابویه فی العیون فی الصحیح عن الرضا علیه السلام (بلاغی)
(2). لم یعرفوا بین هذا الجواب وذلك السئوال مناسبة فظنوا انه بلاعبهم (رازی)
(3). اطلاق لاسم السبب علی المسبب فان الاشتغال بالاستهزاء لایکسن الابسبب الجهل ومنصب النبوة یجل عن ذلك (نیشاپوری)

(4). امام رضا علیہ السلام کا ارشاد ھے "ولوانهم عمدواالٰی بقرة اجزاتهم ولٰکن شدد وافشددالله علیهم (طبرسی) ولاتنافی بین الروایتین لجواز ان یکون ذٰلك نتیجة علم الله بتشدیدهم علٰی انفسهم (بلاغی)
(5). عن علی علیه السلام من لیبس نعلا صفراء همة لقوله تسرالناظرین (نیشاپوری)
روی عن الصادق علیه السلام انه قال من لبس نعلا صفراء لم یزل مسرورا حتٰی یبلیها کما قال الله تعالٰی صفراء فاقع لونها تسرالناظرین (طبرسی)

(6). ومعنٰی اهتدائهم فی هذاالموضع معنٰی تبینهم ای ذٰلك الذی لزمهم ذبحه مما سواه من اجناس البقر (طبری)