تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 47 تا 50)
  • عنوان: تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 47 تا 50)
  • مصنف: سید مون کاظمی
  • ذریعہ: اقتباس از تفسیر فصل الخطاب
  • رہائی کی تاریخ: 18:2:34 1-9-1403


"یٰبَنِیْ اِسْرآءِیْلَ اذْکُرُوْانِعْمَتِیَ  الَتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَ اَنِیْ  فَضَلْتُکمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ (47)
اے بنی اسرائیل! میری نعمت  یادکروجس وقت میں نےتمہیں نوازا اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام خلائق سےزیادہ عطا کیا"
؛؛؛
قرآن کریم میں متعدد جگہ فضل کا لفظ مال و دولت وغیرہ کی زیادتی کے مفہوم میں آیا ھے.جیسے :
"فماالذین فضلوا برادی رزقهم علٰی ما ملکت ایمانهم"
توجنہیں زیادہ دیاگیاھے وہ ایسانہیں کرتے کہ جو انہیں ملا هے اسےپلٹادیں انکی طرف جو انکی ملکیت میں ھیں(غلام وغیره)" (النحل#71) دوسری جگہ "فضلتکم علی العالمین" کی تشریح یوں آئی ھے :
"واذقال موسی لقومه یٰقوم اذکروا نعمةالله علیکم اذ جعل فیکم انبیاء و جعلکم ملوکا و اٰتاکم مالم یؤت احدا من العالمین" (المائدہ#21)جس کا ترجمہ پہلے آچکا ھے.اسی لیے "فضلتکم علی العالمین" کا ترجمہ میں نے کثرتِ عطا سے کیا ھے.فضیلتِ مرتبہ سے اسکا کوئی تعلق نہیں ھے.
پھر "یاد کرو" کا لفظ جو شروع میں ھے بتاتا ھے کہ یہ ماضی کا ذکر ھے ، حال میں تو کفران کے سبب سے وہ نعمت و فضیلت سب سلب ھوچکی ھے.
**


"وَاتَقُوْا یَوْمًا لاَ تَجْزِیْ نَفْسّ  عَنْ نَفْسٍ شَیْئًاوَلاَ یُقْبَلُ مِنْها شَفَاعَةّ وَ لاَ یُؤْخَذُ مِنْھَا عَدْلّ  وَلاَ همْ یُنْصَرُوْنَ (48).
اوراس دن سےبچنےکاسامان کروجب نہ کوئی دوسرےکو کوئی فائدہ پہنچاسکےگا اور  نہ کسی کی سفارش قبول  هوگی اور نہ کسی کا کوئی  معاوضہ لیا جائیگااور نہ انہیں  کوئی مدد مل سکےگی"
؛؛؛
جیسا کہ عبدالماجد صاحب دریابادی نے لکھا ھے
"اس دن سے مراد ظاھر ھے کہ یومِ قیامت ھے.قیامت کی یاد بڑے حکیمانہ موقع پر دلائی گئی.حشر و نشر، جزا و سزا کا عقیدہ جو انسان کے دل میں مسئولیت اور ذمہ داری کی روح ھے، اسرائلیوں کے دلوں ھی سے نہیں کہنا چاھیئے کہ انکی مقدس کتابوں اور نوشتوں تک سے مٹ چکا تھا.آگے روزِ قیامت کے جو اوصاف بیان ھوئے ھیں سب میں کسی نہ کسی طرح اسرائیلی عقیدہ کی رد ھی ھے.
"لاتجزی نفس عن نفس" اس سے مقصود اس اسرائیلی عقیدہ کی رد ھے جو آج تک جیوش انسائیکلوپیڈیا میں ان الفاظ میں لکھا چلا آتا ھے."بہت سے لوگ اپنے اسلاف کے اور بہت سے لوگ اپنے اخلاف کے اعمالِ حسنہ کی بنا پر بخش دیئے جائیں گے.(جلد6 ص61)
"ولایقبل منھا شفاعة" (جس صورت میں کہ موت حالتِ کفر پر اور عدمِ ایمان ھوئی ھے) یہاں بھی رد ھے اس اسرائیلی عقیدہ کا کہ عمل اور عقیدے کیزے ھی ھوں بہرحال اپنے اسلافِ کرام شفاعت کرکے بخشوا ھی لیں گے.شفاعت اور ایک شفیعِ مستقل کا یہی وہ مبالغہ آمیز تخیل ھے جس نے مسیحیت میں آکر انتہائی شکل اختیار کرلی اور کفارہ ھی کی طرح شفاعت پر مسیحیت کی بنیاد ھے.
"لایؤخذ منھا عدل" اس میں اصلی ضرب یہودی اور مسیحی عقیدہ کفارہ پر ھے.مسیحیوں کے یہاں عقیدہ کفارہ کی اھمیف تو ظاھر ھی ھے لیکن خود یہود بھی اس عقیدہ کفارہ سے متاثر ھوکر قائل ھوگئے تھے.(جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد2ص278)"
بےشک اسلام میں بھی شفاعت کا عقیدہ ھے اور وہ قرآن سے بھی ثابت ھے مگر اس میں اسرائیلی عقیدہ کی طرح نہ عمومیت ھے نہ اس طرح قطعیت، بلکہ وہ خاص اھلِ ایمان کے لیے خدا تعالٰی کے اذن و رضا کے ساتھ مشروط ھوتے ھوئے مایوسیوں کی گھنگھور گھٹا میں صرف ایک امید کی چمک دکھا کر توجہ الی اللہ کو تازہ کرنے کا ذریعہ ھے.اس طرح نہ اس میں نجات پر اعتماد کلی ھے جس کے بعد اصلاح اعمال کی ضرورت ھی نہ ھو جو اسرائیلی عقیدہ کا لازمہ ھے اور نہ یاس کامل ھی ھے جس کے بعد گناھگار اپنے کو دوزخی سمجھ کر پھر اصلاحِ نفس کو بیکار سمجھ لے، بلکہ اسلام کی تعلیمات ان دونوں نقطوں کو چھوڑ کر بَین بَین ھے اور یہی اس کا طرہ امتیاز ھے
"الایمان نصفان نصف خوف ونصف رجاء"
ایمان کے دو حصے ھیں ایک حصہ خوف ھےاور ایک حصہ امید ھے"
**


"وَاِذْنَجَیْنٰکُمْ مِنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ  یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ  یُذَبِحُوْنَ اَبْنَآءَکُم ْوَیَسْتَحْیُوْنَ  نِسَآءَکُمْ ^ وَ فِیْ ذٰلِکُمْ بَلاَءّ  مِنْ رَبِکُمْ عَظِیْمّ (49).
اوراس وقت جب ھم نےتمہیں فرعون والوں سے چھٹکارادیا جو تمہیں بری طرح تکلیفیں پہنچاتے تھے، تمہارے لڑکوں  کو حلال کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھ  لیتےتھے اوراس میں تمہارے  پروردگارکی طرف سے بڑی آزمائش تھی"
؛؛؛
"تمہیں" یہ نسبت اور اس کے بعد کی تمام نسبتیں جو اس آیت اور اس کے بعد کی آیتوں میں ھیں موجودہ بنی اسرائیل کی طرف قومی حیثیت سے دی گئی ھیں ورنہ حقیقۃً تو جنہیں نجات دی گئی تھی اور جن پر یہ واقعات گزرے تھے وہ اس تخاطب سے بہت صدی پہلے کے ان کے آباؤاجداد تھے.
فرعون کسی خاص آدمی کا نام نہیں ھے بلکہ مصر کا ھر بادشاہ فرعون کہلاتا تھا جیسے ایران کا ھر بادشاہ کسرٰی اور روم کا قیصر اور حبشہ کا نجاشی.
بنی اسرائیل پر جن مظالم کا حوالہ قرآن مجید نے دیا ھے انکا ذکر توریت میں بھی موجود ھے.مصریوں نے خدمت کروانے میں بنی اسرائیل پر سختی کی اور انہوں نے سخت محنت سے گارا اور اینٹ کا کام اور سب خدمت کھیت کی کروا کے انکی زندگی تلخ کی.انکی ساری خدمتیں جو وہ ان سے کراتے تھے مشقت کی تھیں.(خروج 13:1 و 14) لڑکوں کو قتل کرنے اور لڑکیوں کے زندہ رکھے جانے کا جو فرعون کی طرف سے حکم تھا اسکا بھی ذکر ان الفاظ میں ھے کہ "فرعون نے اپنے سب لوگوں کو تاکید کرکے کہا کہ ان میں جو بیٹا پیدا ھو تم اسے دریا میں ڈال دو اور جو بیٹی پیدا ھو جیتی رھنے دو. (خروج 15:1 و 22)
لڑکیوں کے زندہ رھنے کی غرض نہ تو توریت میں صراحۃً مذکور ھے اور نہ قرآن میں مگر اسے مصائب کے ذیل میں درج کرنے ھی سے ظاھر ھے کہ یہ زندہ رکھنا لڑکیوں کا کچھ ایسے مقاصد کے لیے تھا جنکی بہ نسبت نفسیاتی طور سے مار ڈالنا زیادہ گوارا ھوسکتا ھے.
ظلم کا مرتکب اگرچہ ظالم ھوتا ھے اور وھی اپنے ارادہ و اختیار کی بنا پر اسکا ذمہ دار ھے مگر خداوندِ عالم کی طرف سے اسکا موقع دیا جانا کہ وہ ظلم کرسکے اور اسکا اپنی طاقت سے مزاحمت نہ کرنا کبھی بطورِ سزا ھوتا ھے جسے مذھبی روایات میں ان الفاظ سے یاد کیا جاتا ھے کہ اللہ نے ظالمین کو مسلط کردیا اور کبھی بطورِ امتحان ھوتا ھے جس میں کامیابی کی صورت میں وہ مظلومین کو اپنے انعام و اکرام کے ساتھ سرفراز کرتا ھے.
آلِ فرعون کے ان مظالم کو جو بنی اسرائیل پر تھے قرآن نے دوسری قسم میں داخل کیا ھے.
**

 


"وَاذْفَرَقْنَابِکُمُ الْبَحْرَفَاَنْجَیْنٰکُمْ  وَ اَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ  تَنْظُرُوْنَ (50).
اور جب ھم نےتمہارے ذریعہ سےدریا میں شگاف دیدیا اس طرح تمہیں چھٹکارا دلایا اور فرعون والوں کو ڈبو دیا اس حالت میں کہ تم دیکھ رھے تھے"
؛؛؛
فرعونی حکومت کے مظالم سے نجات دلانے کے لیے خالق کے حکم سے حضرت موسی علیہ السلام اسرائیلیوں کو لیکر مصر کی سرزمین سے نکلے کہ اپنے آبائی وطن شام و فلسطین کی طرف روانہ ھو جائیں.فرعون نے اپنی فوج کو ساتھ لیکر ان کا تعاقب کیا.وہ لوگ اتفاق سے شب کی تاریکی میں راستہ بھول کر دریا کے قریب پہنچ گئے تھے کہ پس پشت سے فرعونی لشکر آگیا.اب یہ لوگ پریشان ھوئے کہ آگے دریا اور پیچھے دشمنوں کی فوج.وحی خداوندی سے حضرت موسی علیہ السلام نے تمام قوم کو حکم دیا کہ وہ بلاتامل دریا کی طرف قدم آگے بڑھا دیں.ان نے بڑھنے کے ساتھ ھی دریا کا پانی بیچ سے پھٹ گیا.اسکی بڑی بڑی موجیں اِدھر اُدھر دیواروں کی طرح کھڑی ھوگیئں اور حضرت موسی علیہ السلام تمام بنی اسرائیل کے ساتھ اُس طرف کے ساحل تک پہنچ گئے مگر جب فرعون اپنے لشکر سمیت دریا کی حدود میں پہنچ گیا تو دونوں طرف سے پانی کی موجیں پلٹ پڑیں اور انہوں نے اس تمام لشکر کو غرق کردیا.
یہ واقعہ توریت میں بھی مذکور ھے"پھر موسی (ع) نے دوبارہ ھاتھ بڑھایا اور خداوند بہ سبب بڑی پوربی آندھی کے تمام رات میں دریا کو جلایا اور دریا کو سکھادیا اور پانی کو دو حصے کیا اور بنی اسرائیل دریا کے بیچ میں سے سوکھی زمین پر ھوکر گزر گئے اور پانی کی ان کے داھنے دیوار بائیں دیوار تھی. (خروج 7:14و 21 و23)
بنی اسرائیل خشک زمین پر دریا کے بیچ میں چلے گئے اور پانی کی ان کے داھنے اور بائیں دیوار تھی.سو خداوند نے اس دن اسرائیلیوں کو مصریوں کے ھاتھ سے یوں بچایا. (خروج 39:14 و 30)
اور مصریوں نے پیچھا کیا اور ان کا پیچھا کیے ھوئے وہ اور فرعون کے سب گھوڑے اور اسکی گاڑیاں اور اس کے سوار دریا کے بیچوں بیچ تک آئے اور موسی (ع) نے اپنا ھاتھ دریا پر بڑھا دیا اور دریا صبح ھوتے ھی اپنی اصلی قوت پر لوٹا اور مصری اس کے آگے بھاگے اور خداوند نے مصریوں کو دریا میں ھلاک کیا اور پانی پھرا اور گاڑیوں اور سواروں اور فرعون کے سب لشکر کو جو ان کے پیچھے دریا میں آئے تھے چھپالیا اور ایک بھی ان میں سے باقی نہ چھوٹا. (خروج 23:14 و 24)
اسی واقعہ کا تذکرہ قرآن مجید کررھا ھے.
فرق کا جو مفہوم عربی میں ھے اُسے اس سے سمجھنا آسان ھوگا کہ مانگ نکالنے کو فرق کہتے ھیں.اس سے ظاھر ھے کہ دریا میں راستہ پیدا ھونا جزرومد کا کوئی کرشمہ نہ تھا جیسا کہ بعض مادی نقطہ نظر والے افراد نے جو کسی معجزہ ماننے پر تیار نہیں بوتے 'توھم' کہا ھے.
'بکم' کے لفظ سے یہ معنی پیدا ھوتے ھیں کہ تمہارے داخلہ کے ساتھ ھی پانی نے راستہ دیا. (1) رہ گئی عقلی حیثیت سے اس پر بحث تو وہ ایک مستقل کلی موضوع کا جزئیہ ھے جو معجزات انبیاء سے متعلق ھے اور جس پر بحث کا یہ مقام نہیں ھے.روحِ مطلب یہ ھے کہ دریا کا اس طرح شگافتہ ھوجانا محالِ عقلی تو ھے نہیں صرف محالِ عادی سمجھا جا سکتا ھے جس کے معنی یہ ھیں کہ عام طور پر ایسا ھوا نہیں کرتا لیکن خدا کو ماننے کے بعد پھر اسکی قدرت کو محدود سمجھنا معقول چیز نہیں ھے.
اگر بنظرِ حقیقت شناس سے دیکھیے تو دریا کا دو حصوں میں تقسیم ھوجانا خود سمندر کے وجود سے زیادہ حیرت خیز چیز نہیں ھے.پھر وہ جو اس کے پیدا کرنے پر قادر تھا وہ کسی وقت اسے دو حصوں میں تقسیم کرنے پر کیوں قادر نہیں ھے.
عبدالماجد صاحب دریابادی نے اس پر طبیعی نقطہ نظر سے بھی بحث کی ھے.وہ کہتے ھیں کہ
"یہاں جس 'فرق البحر' کا ذکر ھے تو یہ سمندر کا پھٹ جانا اور درمیان میں خشکی کی راہ بن جانا کچھ ایسا زیادہ خارقِ عادت ھے بھی نہیں کہ اسکی نظیر کہیں ملتی ھی نہ ھو.بحری زلزلہ کے وقت ایسی صورتیں پیش آتی ھی رھتی ھیں چنانچہ جنوری 1944 اور رمضان 1354 میں جو عظیم الشان زلزلہ بہار اور اطرافِ بہار میں آیا اس موقع پر صوبہ کے صدر مقام پٹنہ شہر میں دن دھاڑے کوئی ڈھائی بجے کے وقت ایک مجمع کثیر نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ گنگا جیسے وسیع و عریض دریا کا پانی چشم زدن میں غائب ھوگیا اور اتنے چوڑے پاٹ میں بجائے دریا کے خشک زمین نکل آئی اور یہ حیرت انگیز اور دھشت ناک منظر چند سیکنڈ نہیں چار پانچ منٹ قائم رھا یہانتک کہ دریا اسی برق رفتاری کے ساتھ یک بیک زمین سے اُبل کر پھر جاری ھوگیا.واقعہ کی مفصل روداد ایک وقائع نگار کے قلم سے انگریزی روزنامہ 'پانیر لکھنؤ' کی 20جنوری 1944 کی اشاعت میں درج ھے"
"بحر سے مراد یہاں دریائے نیل نہیں جیسا کہ بعض ثقات کو دھوکا ھوگیا ھے بلکہ بحر قلزم یا بحر احمر مراد ھے.دریائے نیل تو بنی اسرائیل کے مسکن سے مغرب کی طرف واقع تھا اور اسرائیلیوں کا راستہ شام کے لیے مشرق کی طرف تھا.نیل سے اس راستے کو دور کا بھی واسطہ نہ تھا.مصر سے شام کی راہ کے قریب بحر قلزم تھا.اس کے تنگ شمالی راستے کی طرف یہاں اشارہ ھے.مصر کے مشرق میں جہاں اب نہر سویز کھد گئی ھے اس سے متصل مغرب میں سمندر دو مثلثوں کی شکل میں تقسیم نظر آئیگا.یہاں ان میں سے مغربی مثلث مراد ھے اسرائیلیوں نے اسی کو عبور کرکے "جزیرہ نمائے سینا" میں قدم رکھا تھا"
علامہ بلاغی نے لکھا ھے :
"البحر هوخلیج السویس من البحرالاحمر و عرضه بحسب اختلاف مواقعه نحو عشرة امبال الٰی نحو عشرین میلا"
بحرسےمرادنہرسویزھےجوبحر احمر سے نکلی ھےاور اسکی چوڑائی ان مختلف موقعوں کے  اعتبار سے دس میل سے تقریبًا  بیس میل تک ھے" (آلاءالرحمٰن)
**