"وَاٰمِنُوْا بِمَآاَنْزَلْتُ مُصَدِقًالِمَا مَعَکُمْ وَلاَتَکُوْنُوْآ اَوَلَ کَافِرٍم بِه وَلاَتَشْتَرُوْابِاٰیٰتِیْ ثَمَنًاقَلِیْلاً وَاِیَایَ فَاتَقُوْنِ ۔(41)
اوراس پر ایمان لاؤ جومیں نےنازل کیا ھے تصدیق کرتا ھوااسکی جوتمہارےپاس ھےاوراس کے اول نمبر کے منکر نہبنوا ورمیری آیتوں کو ذرا سیقیمت پرھاتھ سےنہ دیدو ورنہ پھرمجھ سے بچاؤکی فکرکرو"
"اس پر جو اب نازل کیا ھے" اس سے مراد قرآن ھے اور "جو تمہارے پاس موجود ھے" اس سے مراد توریت ھے.مطلب یہ ھے کہ اس نبی اور اسکی زبان پر کلامِ الٰہی اتارے جانے کی اطلاع تو خود توریت میں موجود ھے.یہ کتاب تو اسکی سچائی کا عملی ثبوت ھے تو تمہیں تو اس پر اول درجہ کا مومن ھونا چاھیئے نہ یہ کہ تم ھی اس کے اول درجہ کے کافر نظر آؤ.
چونکہ مدینہ منورہ کی طرف ھجرت اور قریش کی شکستوں کے بعد اب سب سے بڑے منکر قرآنی صداقت کے یہودی ھی نظر آرھے تھے اور واقعہ یہ تھا کہ وہ اس وقت اول درجہ کے کافر بنے ھوئے تھے اس لیے یہ کہاگیا کہ بجائے اول درجہ کے مومن ھونے کے تم اتنی شدت سے کافر کیوں ھو.یہ کوئی قید احترازی نہیں ھے جسکا مطلب یہ ھو کہ پہلے کافر نہ بنو دوسرے کافر ھوں تو کوئی حرج نہیں.(1)
اسی طرح یہ کہ "میری آیتوں کو ذرا سی ھاتھ سے نہ دیدو" اسکا مطلب بھی یہ نہیں کہ بہت قیمت ملے تو دیدو بلکہ واقعہ یہ تھا کہ علمائے اھلِ کتاب ذرا ذرا سے نفع کی خاطر احکامِ الٰہیہ میں تحریف کرتے تھے.تو ان کے عمل کی جو حقیقی صورت تھی اسکی رکاکت اور پستی دکھانے کے لیے یہ الفاظ صرف کیے گئے ھیں.پھر یہ کہ آیاتِ الٰہیہ پر عمل میں جو بلند مفاد وابستہ ھے اس کے لحاظ سے اس کے مقابلہ میں جو بڑی سے بڑی قیمت بھی وہ حاصل کریں گے "ثمن قلیل" (2) ھی ھوگی.
آخر میں "وایای فاتقون" کا مطلب یہ ھے کہ اگر تم اپنے اس طرزعمل پر قائم رھوگے تو پھر تمہارے لیے میرے عذاب کا استحقاق یقینی ھے.اب اگر کرسکتے ھو تو اس سے بچاؤ کی فکر کرلو.
**
"وَلاَتَلْبِسُواالْحَقَ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوْاالْحَقَ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْن (42).
اور حق کو باطل کےساتھ خلط ملط نہ کرو اورنہ حق کوچھپاؤ حالانکہ تم جانتے
بھی ھو"
؛؛؛
امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام نے نہج البلاغہ میں مندرج ایک کلام کے ذیل میں فرمایا ھے :
"فلوان الباطل خلص من مزاح الحق لم یحف علی المرتادین ولو ان الحق خلص من الباطل انقطعت عنه السن المعاندین ولکن یؤخذمن هذا ضغث ومن هذا ضغث فیمزجان و یخرجانمعا فهتالك یستولی الشیطان علی اولیائه"
اگر باطل حق کی آمیزش سے صاف هوتوطلب گاروں پرپوشیدہ نہ رهے اور اگر حق باطل سےالگ هو تو معاندین کی زبانین اس پرنکتہ چینی سےبند هوجائیں لیکن هوتایہ هے کہ ایک مُٹها اُس کالیا جاتا هےاور ایک مُٹها اِس کا اوردونوں کو ملا جلا دیا جاتا هے اور اس طرح ایک ساتھ سامنےلایا جاتا هے، تو اب نتیجہ یہ هوتا هےکہ شیطان اپنے حوالی موالی پر قابو پاجاتا هے"
مطلب یہ ھوا کہ نرا کھرا جھوٹ ھوتو اتنا خطرناک نہیں ھے جتنا وہ جھوٹ جس میں سچائی کا شائبہ بھی شریک ھو.مخالف سیاست دان اکثر اسی طرح کا جھوٹ بولا کرتے ھیں.چنانچہ اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مقابلہ میں ایسا ھی کرتے تھے مثلاً اھلِ کتاب کبھی یہ کہہ دیتے تھے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پیغمبر بحق ھیں لیکن اولاد اسمٰعیل علیہ السلام اور قریش کےلیے ھیں.ھم سے کیا مطلب! اسکی صدائے بازگشت آجکل بعض تعلیم یافتہ اربابِ وطن کے دھن سے بلند ھوتی ھے ان الفاظ میں کہ ؛؛محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ملکِ عرب کی ھدایت کےلیے مبعوث ھوئے تھے اور سچے رسول تھے؛ یا کچھ نام نہاد مسلمان یہ کہتے ھیں کہ روزہ، نماز وغیرہ کے احکام عرب کے ماحول اور اس زمانہ کی فضا کے لحاظ سے تھے.اب ھم سے اُنکا تعلق نہیں ھے؛؛ ایسی ھی باتوں پر قرآن مجید نے یہ کہہ کر متنبہ کیا ھے کہ "حق کو باطل سے نہ ملاؤ"(3)
"لبس" کی ایک صورت یہ بھی ھے کہ جن الفاظ میں حقیقت پنہاں ھے ان کے معانی بدل کر حقیقت کو مشتبہ بنایا جائے.اس میں علمائے اھلِ کتاب یدطولٰی رکھتے تھے.بشارتیں بعثتِ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ھزاروں لفظی تحریفوں کے باوجود بھی آج تک توریت اور انجیل میں موجود ھیں مگر علمائے اھلِ کتاب نے ان الفاظ کے معنی بدل کر اپنی جماعت کو باطل کے شکنجہ سے ھُمسنے تک نہ دیا یہاں تک کہ وہ لفظ جس کے معنی "احمد" تھے اُسے ترجموں میں "تسلی دھندہ" سے تبدیل کرکے حقیقت سے دور کردیا.یہی سلوک اس امت کے جمہور علماء نے خلافت علی المرتضٰی علیہ السلام کی نصوص کے ساتھ کیا اور اس طرح رسالت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ایمان کے ادعاء کے ساتھ آپکی مسلسل تبلیغات و تعلیمات کو ٹھکرانے کا موقع پیدا کرلیا.
پھر یہ جان بوجھ کر ھوتا ھے کیونکہ یہ حقیقت ھے کہ ھر مذھب کے عوام تو سادہ لوح ھوتے ھیں اور خواص گرفتارِ اغراض ھوتے ھیں.عوام اکثر باطل کو نادانستہ اختیار کیے ھوئے ھوتے ھیں مگر علماء زیادہ تر حقیقت سے واقف ھوتے ھوئے دھاندلیوں سے کام لیکر حق سے دور رھتے اور دوسروں کو بھی دور رکھتے ھیں.اسی کا قرآن نے ان الفاظ میں اظہار کیا ھے کہ "حق کو چھپاؤ نہیں جبکہ تم جانتے بھی ھو" اسی لیے خالق کے یہاں مواخذہ ان علماء سے عوام کی نسبت بہت زیادہ ھوگا جو ازروئے عدالت ان کے جان بوجھ اعراض کرنے کا صحیح نتیجہ ھے.
**
"وَاَقِیْمُوْاالصَلٰوةَ وَاٰتُوْاالزَکٰوةَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرَاکِعِیْنَ ¢(43).
اورنمازادا کرواور زکوة دیتےرھو اور رکوع کرنیوالوں کےساتھ رکوع کرتے رھو"
؛؛؛
چونکہ ترتیبِ آیات کے لحاظ سے سیاق اس بات کا بتانا ھے کہ یہ خطاب یہود سے ھے اس لیے اس آیت کے ذیل میں یہ بحث پیدا ھوئی کہ کیا کافروں کو فروع کا مخاطب بنانا درست ھے.(4)
ھمارے نزدیک یہ بحث اس لیے دورازکار ھے کہ ترتیبِ آیات موافق تنزیل نہیں ھے لہذا ھر آیت کو مستقل طور پر دیکھنے کی ضرورت ھے کہ اس سے کیا مفہوم پیدا ھوتا ھے.سیاق آیت سے نتیجہ برآمد کرنا ھرگز درست نہیں ھے.
اس آیت میں شریعتِ اسلام کے تین احکام کا ذکر ھے.پہلے "اقامتِ الصلوة" جسکی تشریح "یقیمون الصلٰوة" میں ھوچکی ھے.اسکا مطلب ھے ادائے نماز ، دوسرے "ایتاءزکٰوة.یہ شریعت اسلام کا وہ حکم ھے جو اموال سے متعلق ھے یعنی کچھ خاص شرائط کے ساتھ ایک مال میں سے سال گزرنے پر کچھ مخصوص حصہ فقراء و مستحقین اور دیگر امورِخیر کےلیے الگ کرنا.پہلا عمل انفرادی حیثیت رکھتا ھے اور دوسرا مفادِ اجتماعی سے متعلق ھے.
تیسرا حکم "رکوع کرنیوالوں کے ساتھ رکوع کرو" یہ نمازِ جماعت سے متعلق ھے.اس میں انفرادی عبادت میں اجتماعیت کو سمونے کی صورت ھے جو شریعتِ اسلام کی خاص خصوصیت ھے.
اس میں رکوع کا ذکر بظاھر اس لیے ھے کہ نمازِ جماعت میں ادراکِ رکعت کا آخری موقع رکوع ھے جیسا کہ فقہ میں ثابت ھوا ھے اور اس صورت میں خطاب یہود سے ھو ، رکوع کا خاص طور سے ذکر اس لیے بھی ھوسکتا ھے کہ یہود کے یہاں کی عبادت میں رکوع نہیں ھے.یہ ان کے بالمقابل اسلامی نماز کی خصوصیت امتیازی ھے.(5) مگر ھمیں اس میں تامل ھے، اس بنا پر کہ سورہ آلِ عمران میں جیسا کہ اس کے بعد آئیگا جناب مریم علیہاالسلام سے خطاب کرکے ارشاد ھوا ھے :"وارکعی مع الراکعین" اس سے پتہ چلتا ھے کہ شریعتِ موسوی کی نماز میں بھی رکوع جزءِ اھم تھا.ھاں یہ ممکن ھے کہ بعد میں یہود نے شریعتِ موسوی کے اس حکم میں تنسیخ و ترمیم کرکے رکوع کو ساقط کردیا ھو.
**
"اَتَامُرُوْنَ النَاسَ بِالْبِرِوَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتَابَ^اَفَلاَتَعْقِلُوْنَ (44).
کیا تم لوگوں کو نیکی کاحکم تو دیتے ھو اور خود کو بھول جاتےھوحالانکہ تم کتابِ الہی پڑھتے رھتےھو پھر بھی کیا عقل سے کام نہیں لوگے"
؛؛؛
یہ خطاب اصلاً علمائے یہود سے ھے.چونکہ مشرکین کو اُنکی علمی بلندی کا احساس تھا اس لیے اکثر وہ ان کے پاس آکر پیغمبرِاسلام (ص) کے متعلق دریافت کرتے تھے اور یہ اُنکو اپنے علم کے مطابق یہ جواب دیتے تھے کہ بلاشبہ جو علامتیں ھماری کتابوں میں پائی جاتی ھیں وہ سب اس رسول (ص) میں پائی جاتی ھیں اس لیے اس پر ضرور ایمان لانا چاھیئے.یہ ھدایت وہ دوسروں کو کرتے تھے مگر خود اپنی کتاب کی تعلیم کے مطابق ایمان قبول نہ کرتے.اس سے انہیں اپنے جاہ و منصب کے تحفظ کا خیال مانع تھا کیونکہ موجودہ حالت میں تو اپنے مذھب میں وہ ایک پیشوا کی حیثیت رکھتے تھے لیکن اگر ایمان قبول کرلیتے تو انکی حیثیت پیروکار کی ھوجاتی بس اسی بےعملی پر قرآن کریم نے اس آیت میں متنبہ کیا ھے.
"وانتم تتلون الکتاب" کا مطلب یہ ھے کہ ان لوگوں کو تو تمہارے واسطے تمہاری کتاب کے مندرجات پہنچتے ھیں اور تم اس کتاب کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے اور زبان سے پڑھنے والے ھو.پھر کیا وہ تمہارے خلاف حجت نہ ھوگی؟ اور یہی اتمامِ حجت کا پہلو وہ ھے جس پر عقل کا حوالہ دیا ھے کہ سوچو تو خود تمہاری عقل بتائیگی کہ اس صورتِ حال میں ایمان نہ لانے پر ان لوگوں سے زیادہ تم موردِالزام ھو اور مواخذہ کے زیادہ مستحق ھو.
اب یہ تنبیہ چونکہ ایک عام اصولِ عقلی کے ماتحت ھے اس لیے وہ عمومی طور پر تمام عالمان بےعمل اور واعظانِ غیرمتعظ کو شامل و حاوی ھے.(6)
**
"وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَبْرِ وَالصَلٰوةِ^ وَ اِنَهالَکَبِیْرَةّ اِلاَعَلَی الْخٰشِعِیْنَ (45) اَلَذِیْنَ یَظُنُوْنَ اَنَهمْ مُلٰقُوْا رَبَهمْ وَ اِنَهم اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ (46)
اورسہارا لو صبر اور نماز کا اور یقینًاوہ گراں ھےمگرعظمت الہی سے متاثردل رکھنےوالوں کیلیےجنہیں خیال ھے کہ انہیں اپنے پروردگار کاسامناکرنا ھے اوریہ کہ اُنہیں اسکی طرف رجوع کرنا
ھوگا"
؛؛؛
"سہارا" لینے کے حکم میں مشکلات کے پیش آنے کی خبر مضمر ھے اور کوئی شک نہیں کہ ماحول کے تقاضوں کے خلاف حق کے راستے پر آنا دشواریوں سے خالی نہیں اور دشواریاں بھی ایسی جن کے مقابلہ سے خود اپنی مادی قوت قاصر ھے کیونکہ قوت قاصر نہ ھوتی تو سہارا لینے اور مدد حاصل کرنے کی ضرورت ھی نہ ھوتی مگر یہ مدد کسی دوسری مادی طاقت کی نہیں ھے بلکہ راہِ حق میں جو مشکلات درپیش ھوں ان کے مقابلہ میں مدد لی جائے تو بس ایک اندرونی قوت سے اس کا نام "صبر" ھے اور ایک بیرونی قوت سے جو پردہ غیب میں ھے اور اس سے مدد طلب کرنے کا طریقہ "صلٰوة" ھے.
صبر کے اصل معنی برداشت کرنے کے ھیں اور انسان جتنی برداشت کی طاقت بڑھائیگا اتنی ھی مشکلیں آسان نظر آئیں گی.
اسلام میں ایک عبادت یعنی "صوم" انسان کیلیے قوتِ برداشت کی مشق کے واسطے ایک بہترین ورزش کی حیثیت رکھتی ھے اس لیے متعدد روایات میں صبر کی تفسیر صوم کے ساتھ ھوئی ھے.(7)
صبر یعنی قوتِ برداشت کے ذریعہ انسان سے استقلال اور ثباتِ قدم کا ظہور ھوگا اور اب صلٰوة کے ذریعہ سے خالق کی جانب رجوع کریگا تو توفیقِ ربانی اس میں پہلے تو مزید استقلال پیدا کریگی اور استقلال کے کمال کے ساتھ مشکلات کے دور ھونے کی صورتیں پیدا ھونگی
"والذین جاهدوا فینالنهدینهم سبلنا" (العنکبوت#29)
اسی لیے دوسری آیت میں صبر اور صلٰوة دونوں کو مرکز استعانت قرار دینے کے ساتھ پھر آخر میں انحصار صبر پر کردیا ھے
"یاایهاالذین اٰمنوااستعینوا بالصبر والصلٰوة ان الله مع الصابرین" (البقرہ#153)
اور اس سے ظاھر ھے کہ صبر و استقلال کے معیار پر پورے اترنے کا ثبوت دیئے بغیر مددِغیبی کا آسرا لگانا بیکار اور بالکل غلط ھے.
مگر یہ صبروصلوة سے سہارا لینا ھر انسان کے بس کی بات نہیں ھے.مادی ذھنیت والا آدمی تو ھر مشکل میں کسی مادی قوت ھی کا سہارا ڈھونڈھے گا اور جب نہ پائے گا تو یقینِ شکست کے ساتھ ھمت ھار جائیگا.یہ کام انہیں افراد ھے جن کے دل عظمتِ الہی سے متاثر ھوں اور اسی لیے ارشاد ھوا کہ
"و انها لکبیرة الا علیالخاشعین"
اس احساس و عظمت کا نتیجہ اس خیال قائم ھونا ھے کہ آخر میں اُن کے معاملہ کا انحصار خالق کی مرضی پر ھے.
یہاں لفظ "یظنون" صرف کی گئی ھے جو ادنٰی درجہ اعتقاد کا پتہ دیتی ھے اور وہ اس لیے کہ انسان کے لیے خالق رجوع کا ظن بمعنی گمانِ غالب بھی مطلق العنانی ھے روکنے کے لیے کافی ھے کافی لیکن جو صاحبانِ ایمان ھیں وہ اس سے بالاتر یعنی یقین کا درجہ رکھتے ھیں اور وہ بھی ان الفاظ میں داخل ھے.
یوں سمجھنا چاھیئے کہ لفظِ ظن اپنے سے کم درجوں کے مقابل میں ھے نہ کہ اپنے سے مافوق کے مقابل میں ، اس لیے یہ ظن بڑھ کر یقین کے درجہ پر پہنچ جائے تو وہ اس آیت کے خلاف نہ ھوگا بلکہ اس کا فردِ اکمل ھوگا اور اسی لیے روایات میں "یظنون" کی تفسیر "یوقنون" کے ساتھ کی گئی ھے.(8)
**
_____________________________________
_____________________________________
(1). (اول کافر) اول من بعد من الکافرین وذلك لفاحش کفرکم بعد قیام الحجة علیکم من وجوہ عدیدة یقال لکثیرالکذب وشدید الفسق اول کاذب واول فاسق ای اول من بعد من الکاذبین ومن الفاسقین (البلاغی)
لیس فی نهیة عن ان یکونوا اول کافر به دلالة علٰی انه يجوز ان يكونوا آخر کافر به. کما قال الشاعر :
من اناس لیس فی اخلاقهم عاجل الفحش ولا سؤالجزع و لیس یرید ان فیهم فحشا اٰجلا (مجمع البیان)
(2). کل کثیر الیه قلیل وکل کبیراليه حقیر (کشاف)
(3). وکان اعظمهم یقولون محمد نبی مبعوث الا انه مبعوث الٰی غیر نافذلك خلطھم الحق بالباطل ولبسهم ایاه به (طبری)
(4). فی هذاالخطاب مع الیهود دلالة علٰی ان الکفار مخاطبون بفروع الشرائع (نیشاپوری)
دوسرے گروہ کی طرف سے معقول جواب یہ ھے کہ آیت کے سارے احکام ایک قبل کے حکم ایمان "وامنوا بماانزل" کے ماتحت ھیں یعنی پہلے ایمان لاؤ اور پھر ان احکام پر عمل کرو (دریابادی)
(5). عبرعن الصلٰوة بالرکوع احترازاعن صلٰوة الیهود (ابوالسعود)
(6). نزلت فی الخطبآء والقصاص وهوقول امیرالمؤمنین علیه السلام وهوعلی کل منبر منهم خطیب مصقع کذب علی الله وعلی رسوله وعلی کتابه اقول وهی جاریة فی کل من وصف عدلاوخالف الی غیره (صافی)
(7). فی الکافی والفقیه والعیاشی عن الصادق علیه السلام فی هذه الایة ان الصبر الصیام (صافی)
(8). فی التوحید والاحتجاج والعیاشی عن امیرالمؤمنین علیه السلام یوقنون انهم یبعثون والظن منهم یقین (صافی)