.
"اِنَ الله لاَ یَسْتَحْی اَنْ یَضْرِبَ مَثَلاًمَابَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَها^ فَاَمَا الَذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنهُ الْحَقُ مِنْ رَبِهمْ ^ و َاَمَا الَذِیْنَ کَفَرُوا فَیَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَادَالله بِهذامَثَلاً یُضِلُ بِه کَثِیْرًاوَیَهدِیْ بِه کَثِیْرًا وَمَایُضِلْ بِه اِلاَالْفٰسِقِیْنَ (26)
بلاشبہ اللہ اس سے نہیں شرماتا کہ وہ مچھر یا اس سے بھی بڑھ کرکسی چیز کی کوئی مثال بیان کرےاب وہ لوگ جوایمان لائےھیں وہ جانتےھیں کہ وہ یقینًا حق ھے انکےپروردگارکی طرف سے اور جولوگ کفر اختیار کیےھوئے ھیں وہ کہتےھیں کہ آخراللہ کااسطرح کی مثال سے کیا مطلب ھے؟ وہ اس سے بہت سوں کو گمراھی میں ڈالتا ھے اور بہت سوں کی ہدایت کرتا ھے اور گمراھی میں نہیں ڈالتا مگر بداعمالوں کو"
؛؛؛
ذھن انسانی محسوسات سے مانوس ھے اس لیے وہ کسی حقیقت کا اس وقت تک آسانی کے ساتھ تصور نہیں کرتا جب تک کہ اسے کسی حسی شکل کی مثال دیکر اور مشاھدہ میں آئی ھوئی کسی واقعیت کی نظیر سامنے لاکر پیش نہ کیا جائے اسی لیے قرآن کریم میں حقیقتوں کے اظہار کےلیے مثالوں سے کام لیاگیا ھے اور اقسامِ قرآن میں "امثال" کو ایک مستقل جگہ حاصل ھے.اس میں جیسے بڑی چیزوں کی مثالیں ھیں جیسے آفتاب و ماھتاب وغیرہ ویسے ھی مخلوقاتِ الہی میں بعض چھوٹی چیزوں کی مثالیں دی گئی ھیں جیسے ایک جگہ انسان کی عاجزی دکھانے کے لیے آیا ھے:
"وان یسلبهم الذباب شیئالایستنقذوہ منه ضعف الطالب ولمطلوب" (الحج#73)
اگر مکھی ان سے ذرا سی کوئی چیز چھین لے جاتی ھے تو یہ اسے اس کے ھاتھ سےچھڑانہیں سکتےجیسی کمزور مخلوق وہ ویسے ھی کمزور یہ"
کون کہہ سکتا ھے کہ مقصد کلام کے لحاظ سے یہاں مکھی کے علاوہ کسی بڑے جانور مثلاً شیر،بھیڑیئے وغیرہ کا تذکرہ بھی مناسب ھوسکتا تھا مگر معاندین کے لیے تو اعتراض کا کوئی بہانہ چاھیئے.انہوں نے اس کو سرمایہ اعتراض بنالیا کہ واہ خالق کائنات کے کلام ھونے کا دعوٰی اور اس میں مچھر مکھی ایسی حقیر مخلوق کا ذکر اس کا جواب اس آیت میں دیا گیاھے.
خدا اس سے نہیں شرماتا یعنی اسے اپنی اپنے کلام کی شان کے خلاف نہیں جانتا کہ اس میں مچھر یا اس سے بھی بڑھ کر یعنی اس سے بھی زیادہ چھوٹی کسی شے کی مثال دی جائے کیونکہ مثال کا مقصد تو کسی حقیقت کو ذھن سے قریب لانا ھوتا ھے.اب وہ حقیقت اگر بڑے قدوقامت والی چیز کے ذریعہ سے سامنے آتی ھے تو اسکی مثال دی جائیگی اور چھوٹی چیز کے ذریعہ سے یہ مقصد پورا ھوتا ھے تو اس کا ذکر کرنا بلاغت کے لحاظ سے ضروری ھوگا.جو صاحبان ایمان ھیں وہ مثال کے چھوٹے اور بڑے ھونے کو نہیں دیکھتے بلکہ اس حقیقت پر نظر کرتے ھیں جو اس کے تحت میں ھے اور اس سے ان کے علم و یقین میں اضافہ ھوتا ھے اور جو جان بوجھ کر کفر اختیار کیے ھوئے ھیں وہ بطور طنز و استہزاء کہتے ھیں کہ اللہ سبحانہ کا بھلا ایسی مثالوں سے کیا مطلب ھوسکتا ھے؟ اب یہ فقرہ کہ "بہت سوں کو گمراھی میں ڈالتا ھے اور بہت سوں کی ھدایت کرتا ھے" ان ھی کافروں کے قول کا تتمہ بھی ھوسکتا ھے.گویا وہ اللہ پر تفرقہ اندازی کا الزام عائد کرتے ھیں کہ ایسی مثالوں کا لانا اور زیادہ لوگوں کو شکوک پیدا کرنے کا ذریعہ ھے تو آخر اس سے فائدہ کیا ھے اور جواب اس کا اس کے بعد اللہ کی طرف سے یہ ھے کہ گمراہ تو صرف وہ ھوتے ھیں جو پہلے ھی سے بداعمال ھیں یعنی مخالفت پر تلے ھوئے ھیں لہذا انکی گمراھی کا سبب حقیقۃً اللہ کا ان مثالوں کو پیش کرنا نہیں ھے بلکہ خود انکے سوء اختیار کا نتیجہ ھے کہ وہ اس سے گمراہ ھوتے ھیں.(1)
دوسری صورت یہ ھے کہ کافروں کا کلام اس جملہ پر ختم ھوگیا کہ اللہ آخر اس سے چاھتا کیا ھے!اور اس کے بعد کلامِ الٰہی یہ ھے کہ اللہ اس سے "بہت سوں کو گمراہ کرتا ھے اور بہت سوں کی ھدایت کرتا ھے" اس صورت میں یہ اس قبیل سے ھوگا جیسے اس سے پہلے :
"فی قلوبهم مرض فزادهم الله مرضا"
حقیقت میں اللہ کو مقصود کسی کا گمراہ کرنا نہیں ھوتا لیکن چونکہ نتیجہ یہی مرتب ھوتا ھے کہ اس کی مثالوں سے کچھ لوگ فائدہ اٹھاتے ھیں اور کچھ اپنے تعصب و عناد سے مزید گمراھی میں مبتلا ھوتے ھیں اس لیے اسکی نسبت اللہ کی طرف دے دی گئی ھے اور پھر اسکی تشریح بعد میں کی گئی ھے کہ گمراھی ان ھی لوگوں کے لیے ھے جو پہلے سے راہِ حق سے ھٹے ھوئے ھیں اور اسی سے ظاھر ھوتا ھے کہ یہ گمراھی خود انسان کی بداعمالی اور سوء اختیار کا نتیجہ ھے نہ کہ اللہ کی طرف سے ھے خوامخواہ انکو گمراہ کرنے کا ارادہ ھے.
بہرصورت آخری فقرہ "ومایضل به الاالفاسقین" سے یہ امر بالکل نمایاں ھے کہ گمراہ کرنے کی نسبت اللہ کی طرف عقیدہ جبر سے کوئی واسطہ نہیں رکھتی.(2)
**
"اَلَذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَاللہِ مِنْ بَعْدِ مِثَاقِہ وَیَقْطَعُوْنَ مَآاَمَرَاللہُ بِہ اَنْ یُوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الاَرْضِ ^ اوْلٰئِكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ (27).
یہ جو اللہ سےکیے ھوئے معاھدہ کو اس کے استحکام کے بعد توڑ ڈیتےھیں اورجس رشتہ کےملائے رکھنےکااللہ نےحکم دیاھے اسے وہ کاٹ ڈالتے ھیں اور دنیا میں خرابی کرتے ھیں یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو گھاٹے میں رھنے والے ھیں"
؛؛؛
یہ اوصاف ھیں ان فاسقین کے جن کیے لیے قرآنی امثال سے گمراھی کا نتیجہ مرتب ھوتا ھے اور انکی یہ گمراھی طبیعتِ فسق کا نتیجہ ھے اس لیے یہی اوصاف مطلق فاسقین کے ھر دور میں قرار پائیں گے.
اللہ سے کیا ھوا معاھدہ ان منافقین کےلیے جو اظہار اسلام کرچکے تھے کھلا ھوا ھے کیونکہ جب انہوں نے آکر رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دست شفاء پر اسلام قبول کیا اور آپ(ص) کی رسالت کو تسلیم کیا تو اس سے وفاداری اور احکام کی تعمیل کا عہدوپیمان ظاھر ھے.اب جبکہ وہ اس کے بعد برابر رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے درپے آزار رھتے ھیں اور احکامِ قرآنی پر اعتراضات کے پہلو ڈھونڈتے رھتے ھیں تو انکے عہدشکنی کے مجرم ھونے میں شک ھی کیا ھوسکتا ھے.رہ گئے وہ کافر جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا انکے لیے یہ عہد وہ عہدِ فطرت ھوسکتا ھے جو اللہ کی خالقیت اور ربوبیت کے اقتضاء سے مطالبہ عبودیت کے طور پر ان سے بواسطہ عقل و ضمیر ابتدائے سن شعور ھی سے موجود ھے اور جس کے خلاف عمل کرنا اس عہد کو توڑنے کے مترادف ھے.(3)
پھر اس عہد کی تجدید انبیاء ومرسلین علیہم السلام کی زبان سے بھی ھوتی رھی ھے جو یقینًا ھر ملک اور قوم میں ابتدائے تکوینِ بشر سے آتے رھے ھیں.
اگرچہ زیادہ نمایاں مصداق اس کے یہود و نصارٰی ھیں جو "اھل کتاب" کہلاتے ھیں.انکو پہلے سے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بشارتیں دے دی گئی تھیں.اب یہ اسے نہیں مانتے تو عہدشکنی نہیں تو کیا ھے؟
لطف یہ ھے کہ بائبل کا نام بھی خود یہود و نصارٰی کی اصطلاح میں عہد ھی ھوگیا ھے.چنانچہ توریت اور اس کے ملحقات "عہدنامہ قدیم" (پرانا عہد نامہ) اور انجیل اور اس کے ملحقات "عہد جدید" (نیا عہد نامہ) کہلاتے ھیں.
"جس رشتہ کے ملائے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ھے اسے توڑتے ھیں" اس میں تمام حقوق داخل ھیں "حقوق اللہ" بھی اور "حقوق الناس" بھی.رشتہ ملائے رکھنے کا مطلب ھے حقوق کو ادا کرتے رھنا اور توڑنے کا مطلب ھے ان حقوق کو ادا نہ کرنا بلکہ انکی عملی مخالفت کرنا.(4)
"فساد فی الارض" کی تشریح پہلے ھوچکی ھے.دوسروں کو کفر یا معصیت کی دعوت دینا اور خلقِ خدا کی گمراھی کا سامان کرنا بدترین قسم کا فساد فی الارض ھے اور ظاھر ھے کہ آیاتِ قرآن پر نکتہ چینیاں جو وہ لوگ کرتے رھتے تھے ان کا مقصد یہی تھا کہ لوگوں کے عقائدِ حقہ میں تزلزل پیدا کریں.
"یہ لوگ گھاٹا اٹھانے والے ھیں" دنیا میں بھی کیونکہ کوئی جماعت ان پر اعتماد نہیں کرتی اور خود انکے دل کو سکون و اطمینان نصیب نہیں ھوتا اور آخرت میں بھی عذابِ ابدی کی شکل میں.
**
"کَیْفَ تَکْفُرُونَ بِالله وَکُنْتُمْ اَمْوَتًا فَاَحْیَاکُمْ ^ ثُمَ یُمِیْتُکُمْ ثُمْ یُحْیِیْکُمْ ثُمَ اِلَیهِ تُرْجَعُوْنَ (28).
کس طرح تم اللہ کاانکار کرتے ھو حالانکہ تم بےجان تھے تو اسی نے تمہیں جاندار بنایا پھر وھی تمہیں موت دیگااور وھی
تمہیں زندگی دےگا. پھر انجام میں اسی کی طرف تمہاری رجوع ھوگی"
؛؛؛
"کس طرح" کا لفظ اصل میں تو سوال کو بتاتا ھے مگر کلامِ الہی میں جہاں بھی سوال کا کوئی لفظ آئے اس سے مقصود استفہام کے علاوہ کچھ اور ھی ھوتا ھے اس لیے کہ استفہام یعنی دریافتِ حال کا امکان اس کےلیے ھے جو حقیقت سے ناواقف ھو اور ظاھر ھے کہ خالق کی ذات "علام الغیوب" ھے کوئی بھی حقیقت اس سے مخفی نہیں ھے.لہذا کیونکر اور کس طرح سے بھی دریافتِ سبب مقصود نہیں ھوسکتا بلکہ اس سے زجر و توبیخ مقصود ھوتی ھے اور مطلب یہ ھے کہ تمہیں انکار نہ کرنا چاھیئے.(5)
کیوں نہ انکار کرنا چاھیئے؟ اس لیے کہ اللہ کی قدرت کے کرشمے خود تمہارے ھی اندر نمایاں ھیں.تم بےجان تھے ان مواد سے لیکر جن سے انسان کی خلقت ھوتی ھے شکم مادر میں اس وقت تک کہ جب تک اس میں جان پڑے وہ بےجان تھا.پھر جان ڈال کر اسے اس نے ذی حیات بنایا، پھر وھی اُسے عمر پوری ھونے پر موت دیتا ھے، پھر وھی دوبارہ زندہ کریگا.یہ حشر والی زندگی ھے جس پر مختتم جزاء و سزا کا دارومدار ھے.اس زندگی کے بعد حساب و کتاب وغیرہ منازلِ آخرت درپیش ھونگے اور اس کے بعد آخری انجام جو مومنین کا بہشت اور کافرین کا دوزخ کی شکل میں نمودار ھوگا.یہ بھی خالق ھی کی جانب سے ھوگا اور فیصلہ صرف خالق کی مرضی پر موقوف ھے.اس معنی سے کہاگیا ھے "ثم الیہ ترجعون" یعنی تمہارا معاملہ اس کے بعد اسی کے ھاتھ میں ھوگا.(6)
**
"هوَالَذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَافِی الاَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَ اسْتَوٰی اِلَی السَمَآءِ فَسَوٰهنَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ^ وَ هوَ بِکُلِ شَیءٍ عَلِیْمّ (29).
وہ وہ ھےجس نے تمہارےلیے پیدا کیا جو کچھ زمین میں ھے سب ، پھر آسمان کی طرف رُخ کیا تو انہیں سات آسمانوں کی
صورت میں درست کیااوروہ ھر چیز کا جاننے والاھے"
؛؛؛
یہ انسانی رفعت و عظمت کا وہ پیغام ھے جو اسلام کا طرہ امتیاز ھے اور جسے پیش نظر رکھنے سے ھر قسم کے شرک یعنی غیراللہ کی پرستش کا سدباب ھوتا ھے.
انسان نے کائناتِ عالم کو دیکھ کر اُن میں اپنے کو حقیر سمجھا.وہ جسامت میں پہاڑوں سے بہت کم نظر آیا، نشوونما میں درختوں سے بہت پیچھے دکھائی دیا، ضروریاتِ زندگی کے پورا کرنے میں جانوروں کا محتاج محسوس ھوا تو وہ انکے سامنے جھکنے لگا لیکن اگر وہ اسے پیش نظر رکھے کہ دنیا کی ھر چیز اس کےلیے پیدا ھوئی ھے اس لیے اسے ھر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ھے اور کسی کے سامنے جھکنے کی ضرورت نہیں تو کبھی ان میں سے کسی کو معبود نہ بناتا، ھاں احسان اس کا مانتا اور معبود اسی کو بناتا جو ان سب چیزوں کا پیدا کرنے والا ھے اور جس نے اس انسان کو وہ قوٰی عطا فرمائے جن سے کام لیکر وہ ان تمام عالم کی چیزوں کو تسخیر کرسکتا ھے.
زمین اور اس کے اندر کی چیزوں کے ذکر کے بعد یہ کہنا کہ "پھر آسمان کی طرف رُخ کیا" اس سے پتہ چلتا ھے کہ زمین کی خلقت آسمان سے پہلے ھے حالانکہ دوسری جگہ قرآن میں آیا ھے کہ :
"والارض بعد ذٰلك دحاها" (النازعات#30)
دونوں آیتوں کو ملاکر دیکھنے سے ایسا محسوس ھوتا ھے کہ آسمان ایک واحد شکل میں زمین سے پہلے خلق ھوا.اس کے بعد زمین کی تخلیق ھوئی اور زمین کی خلقت کے بعد آسمان کو سات طبقوں پر تقسیم کیاگیا.اسی لیے "استوٰی" کے لفظ کے ساتھ "السماء" بطور مفرد آیا ھے اور اس کے بعد "سبع سمٰوٰت" کی صورت میں اس کے درست کیے جانے کا ذکر ھے.
یہ آسمان جو ھمیں نظر آتا ھے اگر "حدِنظر" کا نام ھو تب بھی اس کے آگے کیا ھے اس کے متعلق کون بتاسکتا ھے؟ پھر جبکہ خالق خود اسے سات کی تعداد میں بتائے تو انکار کا سبب ھی کیا ھو سکتا ھے.یہ اور بات ھے کہ ھم ان سات کی شکل و کیفیت کو نہ سمجھ سکیں.
آخری فقرہ "وھو بکل شیء علیم" جیسے ھر دور کی سائنس کے بلند بانگ دعووں کو پیش نظر رکھ کر ھی لایا گیا ھے کہ آسمانوں کے بارے میں تمہارے سرمایہ حقیقت میں جہل کے سوا کچھ نہیں ھے پھر جہل کی بنیاد پر "علیم و خبیر خالق" کے بیان کی نفی کا حق تمہیں کہاں پہنچ سکتا ھے.
ھاں اس سات کہنے سے بھی یہ ضروری نہیں ھے کہ اس بارے میں ھئیتِ قدیم والوں کی تفصیلات کو قبول کرلیا جائے کیونکہ انکی بنیاد بھی ظن و تخمین کے سوا کچھ نہیں ھے.
**
"وَاِذْقَالَ رَبُكَ لِلْمَلٰئکَةِ اِنِیْ جَاعِلّ فِیْ الاَرْضِ خَلِیْفَة ^ قَالُوْااَتَجْعَلُ فِیْها مَنْ یُفْسِدُ فِیْھَاوَیَسْفِكُ الدِمَآءَ^ وَنَحْنُ نُسَبِحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِسُ لَكَ قَالَ اِنِی اَعْلَمُ مَالاَ تَعْلَمُوْنَ(30).
اور اس وقت جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک جانشین بنانا چاھتا ھوں انہوں نے کہا کیا تو اس میں ایسے کو نائب بنائےگا جو اس میں خرابی پھیلائےاور خون خرابہ کرےحالانکہ ھم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح کرتےاورتیری پاکیزگی کوسراھتے رھتےھیں اس نے کہا یقین جانو کہ میں وہ جانتا ھوں جو تم نہیں جانتے ؛؛؛
یہ کائناتِ عالم میں اشرف المخلوقات انسان کی "آمد آمد" کا ذکر ھے جبکہ یہ مخلوق ابھی عالم انوار و ارواح میں تو تھا مگر دنیائے اجسام اس سے خالی تھی.اس کے اس عالم میں آنے سے پہلے خالقِ کریم نے اپنے فرشتوں کو اس کے آنے کی خبر دی.
فرشتے نور سے پیدا کیے ھوئے صاحبِ احساس و شعور وہ مخلوق ھیں جن میں ھواء و ھوس اور جذبات کا پتا نہیں اور اس لیے سرشت ھی کے اعتبار سے معصوم ھیں.انکو خالق منتظر و مشتاق بنانا چاھتا ھے ایک نئی قسم کی مخلوق کا جو مادیت اور روحانیت کا مجموعہ ھوگا اور اسکی پہلی فرد آدم علیہ السلام ھیں جن کے آنے کی ملائکہ کو اطلاع دی جارھی ھے ان الفاظ میں کہ "میں زمین میں ایک جانشین قرار دینا چاھتا ھوں.
جانشین کے کیا معنی؟ جو دوسرے کی نیابت میں کوئی ایسا کام انجام دے جس کا اصل ذمہ دار وہ دوسرا ھے.اب یہ جانشینی خواہ اصل شخص کی غیبت کی وجہ سے ھو یا انتقال کی وجہ سے اور خواہ اس لیے ھو کہ خود اُس کےلیے اس کام کے انجام دینے میں کچھ موانع پائے جاتے ھیں، خالق کی طرف سے جانشین کا مقرر کیا جانا اسی تیسرے سبب سے ھے.
اصل میں خلائق کی ھدایت و تنظیم "تقاضائے ربوبیت" ھے، اس لیے اسکا ذمہ دار وہ خود ھے مگر وہ جسم و جسمانیت سے منزہ و مبرا ھے اور خلائق جنکی ھدایت کرنا ھے وہ مادیت کے شکنجہ میں اسیر ھیں لہذا بلاواسطہ اسکی طرف سے فیض حاصل کرنے کی ان میں صلاحیت نہیں.اس وجہ سے ضرورت محسوس ھوئی کہ وہ ان ھی میں سے کسی نفس کاملہ کو اپنے فیوض کا مرکز بناکر ھدایت و تنظیم ملت کا کام سپرد کرے اور وہ اس ھدایت کے فریضہ کو جو اصل میں اللہ سے متعلق ھے اسکی طرف سے انجام دیکر خلقِ خدا پر حجت تمام کرے.ان ھی خلفاء میں سے ھر ایک کا نام نبی اور رسول اور کسی وقت امام ھونا ھے جنکا تقرر صرف اللہ کے اختیارِ خاص سے وابستہ ھے اور کسی دوسرے کو اس میں دخل نہیں.
امام جعفر الصادق علیہ السلام نے خلیفہ کے لفظ کے معنی بتائے ھیں :
"یکون حجة لی فی ارضی علٰی خلقی"
وہ روئےزمین پرمیری مخلوق کے مقابلہ میں میری حجت تمام ھونے کا ذریعہ ھوگا" (تفسیرصافی)
علمائے جمہور بھی زیادہ تر اس سے متفق ھیں چنانچہ مولانا عبدالماجد دریابادی نے اس کے معنی میں لکھا ھے :
"یخلفنی فی الحکم بین خلقی و ذلك الخلیفةهوادم ومن قام مقامه فی طاعة الله والحكم بالعدل بين خلقه" (7)
"خلیفة الله فی ارضه لاقامية احكامه وتنقيذ قضاياه" (8)
نسل انسانی خود اپنی اصلاح و فلاح کے لیے اسکی محتاج تھی اور محتاج ھے کہ اپنے کسی ھم جنس کے واسطہ سے شریعتِ الہی سے استفادہ کرے اور سلسلہ نبوت اسی غرض سے قائم ھوا ھے :
"وکذلك كل نبی استخلفهم الله فی عمارةالارض وسياسةالناس وتكميل نفوسهم وتنقيذ امره فيهم" (9)
اس کے علاوہ یہ ھے کہ خالقِ کائنات کے ساتھ اگرچہ تمام عوالم کا تعلق یکساں ھے بایں معنی کہ وہ سب کا خالق اور مالک ھے مگر نسبتی حیثیت سے عرش کو "سریرِسلطنتِ ربانی" کا درجہ دیا گیا ھے اور اس کے لحاظ سے زمین اس شرف سے محروم ھے.لہذا خالق کو منظور ھوا کہ زمین بھی ایک دارالسلطنت ھونے کے شرف سے محروم نہ رھے.لہذا کہا گیا کہ میں زمین میں اپنا نائب قرار دینا چاھتا ھوں یعنی ایک ایسا شخص جو زمین میں بجائے میرے ھو.
اب اس نائب کے متعلق چونکہ ملائکہ کو خالق کی طرف سے علم دیا جاچکا تھا کہ اسکی خلقت مٹی سے ھوگی نیز انہیں مٹی کے خواص معلوم تھے کہ اس سے پیدا شدہ مخلوق میں جذبات نفس جو سرمایہ جبگ و جدال ھوتے ھیں کا ھونا ضروری ھے.اس کے ساتھ انہیں انسان کے علمی جوھرِکمال اور اس نوع کی معصوم ھستیوں کی عظمتِ کردار کا اس وقت علم نہ تھا اور اس لیے انکے ذھن میں یہ تھا کہ خود ان سے بڑھ کر کوئی مخلوق مقامِ عبودیت میں بلند اور تقربِ الہی میں ان سے آگے نہیں ھے.اب جو خالق کی طرف سے یہ اعلان ھوا کہ "میں زمین میں اپنا جانشین مقرر کرنے والا ھوں" اور "خلافت الہیہ" کا یہ منصب انہیں اپنے حاصل شدہ مراتب سے اونچا نظر آیا تو یہ امر اُنکو اپنے اب تک کے ذھنی مرتکزات اور حدود علم و ادراک کے خلاف محسوس ھوا لہذا فطری طور پر اُن میں ایک اضطراب پیدا ھوا جس نے اس سوال کی شکل اختیار کی "کیا اسے مقرر کیا جائیگا جو زمین میں خرابی پھیلائے اور خونریزی کرے؟" یہ سوال نہ اعتراض تھا نہ اس میں کوئی جذبہ مخالفت کار فرما تھا کیونکہ یہ باتیں ملائکہ کی عصمت کے خلاف ھیں بلکہ وہ صرف ایک قلبی اضطراب کا مظاھرہ تھا جو اُن کے قصورِ علم کا لازمی نتیجہ تھا.
خالق نے فعلاً ان کے سوال کا تفصیلی جواب نہیں دیا بلکہ مجمل طور پر ایسا جواب دیا جس سے پتہ چلتا تھا کہ قدرت کا راز ھے جس کا بتانا اس وقت مناسب نہیں ھے یا ملائکہ میں ابھی اس کے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ھے.
**
-----------------------
(1). وهذا وجه حسن (مجمع البیان)
(2). ان الرجل اذا ضل باختیاره عند حصول شیء من غیر ان یکون لذالك الشیء اثر فی اضلاله فیقال لذالك الشیء انه اضله (رازي)
(3). نقضهم لذالك تركهم الاقرار بماقد ثبت صحته لهم بالادلة (مجمع البيان)
(4). قبل معناه الامر بوصل كل من امرالله بصلته من اوليائه والقطع والبراءة من اعدائه وهذا اقوی لانه اعم ويدخل فيه الجميع (مجمع البيان)
(5). کیف فی الاصل سئوال عن الحال - ومعناه فی الایة التوبیخ (مجمع البیان)
(6). کما یقال رجع امرالقوم الی الامیر ولا یراد به الرجوع من مکان الی مکان وانما براد به ان النظر صارله خاصة (مجمع البیان)
(7). وہ میرا جانشین ھوگا میری مخلوقات کے درمیان حکومت کرنے میں، اور یہ جانشین آدم علیہ السلام تھے اور جو ان کے قائم مقام ھوئے اطاعتِ الہی اور خلائق کے درمیان عدالت کے ساتھ فیصلہ کرنے میں (ابن جریر عن ابن عباس و ابن مسعود رضی اللہ عنھما)
(8). اللہ کا جانشین اسکی زمین میں اس کے احکام کو قائم کرنے اور اس کے فیصلوں کو جاری کرنے میں (معالم)
(9). اسی طرح ھر پیغمبر ، ان سب کو اللہ نے خلیفہ بنایا زمین کے آباد کرنے اور لوگوں کا نظم قائم کرنے اور ان کے نفوس کو کمال کی منزل تک پہنچانے اور خدا کے فرمان کو ان کے درمیان جاری کرنے میں (بیضاوی)