قرآن و علم
  • عنوان: قرآن و علم
  • مصنف:
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 20:30:43 1-9-1403


قرآن اور علم کے رشتے کو سمجھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن وعالم انسانیت کی رہبری کے لئے آیا ہے اور عالم انسانیت کی رہبری کے لئے آیاہے اور عالم انسانیت کا کمال و جوہر علم و دانش ہی سے کھلتا ہے۔ قرآن نے رسول اکرم کی بعثت کی غرض بیان کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ رسول کو تعلیم کتاب کے لئے بھیجا گیا ہے۔ ”یعلمهم الکتاب“ اور کتاب کی تعریف میں یہ الفاظ بیان کئے ہیںکہ۔ ”لارطب ولا یابس الا فی کتابٍ مبین“ کوئی خشک و تر ایسا نہیںجو اس کتاب مبین میں نہ موجود ہو۔ جس کا کھلا ہوا مطلب یہ ہے کہ رسول عالم انسانیت کوہر خشک وتر کی تعلیم دینے آیا تھا۔
اس کااندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم نے اپنی تنزیل کا آغاز لفظ اقراٴ سے کیا ہے اور انجام علّم الانسان ما لم یعلم پرکیا ہے یعنی تنزیل قرآن کا مقصد قراٴت ہے اور اللہ نے انسان کو اس بات کی تعلیم دی ہے جو اسے نہیں معلوم تھی۔غور کرنے کی بات ہے کہ جو رسول اتنی جامع کتاب کی تلاوت وتعلیم کے لئے آیا ہووہ کتاب سے بے خبر یا تعلیم سے بے گانہ کیسے ہو سکتاہے؟۔ اسلامی روایات کا بہت بڑا ظلم ہے کہ انہوں نے تنزیل قرآن کی روایات میں سرور دو عالم کی جہالت بھی شامل کردی، حالانکہ لفظ اقراٴ کا وجود ہی اس امر کے اثبات کے لئے کافی تھا کہ رسول قراٴت سے با خبر تھے ورنہ حکم قراٴت لغو ہوجاتا اس لےے کہ جبرئیل بحیثیت رسول کے وحی لیکر آئے تھے،اسکول کے کسی بچے کو تعلیم دینے نہیں آئے تھے، واضح لفظوں میں یوں کہا جائے کہ مدرس بچے سے بھی کہتاہے کہ پڑھو جب کہ وہ پڑھنے سے نا واقف ہوتا ہے اور ملک رسول سے بھی کہہ رہا ہے کہ پڑھوجب کہ وہ تعلیم کتاب کے لئے رسول بنایا جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ایک بچے اور رسول میں فرق ہوگا تو دونوں جگہ قراٴت کا تصور بھی الگ الگ ہوگا اور اگر رسول رسالت کے با وجودطفل مکتب اور غار حراکوئی مدرسہ ہوگا توجبرئیل یقینا الف۔ب کی تعلیم دینے آئیں ہوں گے۔
کہا یہ جاتا ہے کہ قرآن مجید نے خود ہی رسول کو جاہل قراٴت و کتابت ثابت کیا ہے تو ہم کہاں سے علم و دانش پر ایمان لے آئیں۔ ارشاد ہوتا ہے ”وما کنت تتلوا من قبلہ من کتاب ولاتخطہ بیمینک اذاً لارتاب المبطلون“ آپ اس قرآن سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ورنہ اہل باطل شبہ میں پڑ جاتے۔اور قرآن کو کسی مدرسہ کی تعلیم کا نتیجہ قرار دیتے۔
میری سمجھ میں نہیںآتا کہ علماء اسلام نے آیت کے کس لفظ سے رسول کی جہالت کا اندازہ کیا ہے، جب کہ قرآن نے صاف صاف لفظوں میںپڑھنے اور لکھنے کی نفی کی ہے ان دونوں کے جاننے کی نفی نہیں کی ہے بلکہ آگے چل کر اسی سے ملی دوسری آیت میںرسول کے علم کی وضاحت بھی کر دی ہے”بل ہو آیات بینات فی صدور الذین اوتوا العلم“بلکہ یہ قرآن چند آیات بینات کا نام ہے جنہیںان صاحبان علم کے سینوں میں رکھ دیا گیا ہے جنہیںعلم دیا گیا ہے۔ کیاآیت سے صاف واضح نہیں ہوتا کہ قرآن پہلے پڑھنے لکھنے کی نفی کی اور اس کے بعدعلم کا اثبات کردیا۔ یعنی علم قرآن پہلے بھی تمہارے سینے میں تھالیکن ہم نے تمہیںپڑھنے لکھنے سے روک رکھا تھا تاکہ اہل باطل شبہ میں نہ پڑ جائیں اور انہیںسادہ لوح عوام کے ذہنوں میں شکوک پیدا کرنے کا موقع نہ ملے۔
قیامت تو یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ تنزیل قرآن کے بعد بھی رسول کو قراٴت وکتابت سے جاہل ہی تصوّر کرتا ہے اور اسی بنیاد پر دربار رسالت میںکاتبان وحی اور کاتبان خطوط ورسائل کی ضرورت محسوس کرتا ہے حالانکہ تاریخ میں صلح حدیبیہ کا واقعہ زندہ ثبوت ہے کہ رسول اکرم عالم قراٴت و کتابت تھے ورنہ اگر عالم قراٴت نہ ہوتے تو رسول اللہ کے بجائے کوئی دوسرا لفظ کاٹ دیتے اور اگر عالم کتابت نہ ہوتے تو ابن عبد اللہ کے بجائے کچھ اور لکھ دیتے۔
میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ رسول کی جہالت کاافسانہ اس حقیقت پرپردہ ڈالنے کے لےے گڑھا گیا ہے کہ حضور نے آخری وقت میں قلم و داوات کامطالبہ کیا تھاتاکہ امت کی نجات کے لئے نوشتہ لکھ جائیں اور امت کے بعض جانے پہچانے لوگوں نے آپ کے حکم کو ہذیان قرار دے کر قوم کو قلم و داوات دینے سے روک دیا تھا۔ یعنی مقصد یہ ہے کہ رسول کو جاہل کتابت ثابت کر لیا توکتابت کے لےے کاغذ و قلم مانگنے کوہذیان آسانی کے ساتھ کہا جاسکے گا ورنہ امت اسلامیہ ورنہ امت اسلام رسول پر تہمت یذیان رکھنے والے کے بارے میںبھی کچھ فیصلہ کر سکتی ہے؟
بہر حال علمی دنیاکی آفاقی وسعتوں پر قرآن مجید کے احسانات کا اندازہ اس بات سے بھی ہوسکتا ہے کہ آسمانی کتابوں کی آخری کتاب یعنی انجیل مقدس اپنی قوموں کو بنی اسرائیل کی بھیڑوں سے تعبیر کرتی ہے اور ظاہر ہے کہ جس قوم کی ذہنی سطح بھیڑوں کی سطحِ ذہن جیسی ہوگی اسے علوم و معرفت کے وہ خزانے نہیں دےے جاسکتے جو یا ایہا الناس کی مصداق قوم کو دےے جا سکتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج سے دو صدی قبل تک مسیح کے پرستاروں اور کلیسا کے ٹھیکیداروں نے جدید تحقیقات کی شدید مخالفت کی ہے اور حرکت زمین، قوت جذب جیسی حقیقتوںکے انکشاف کرنے والوں کو سخت سزاوٴں کا اہل قرار دیا ہے جب کہ قرآن مجید نے آج سے تقریباً چودہ سو برس قبل اس وقت کے ذہن کی برداشت کا لحاظ کرتے ہوئے دو دو لفظوں میں دنیا کے ہر بڑے علم کی طرف اشارہ کر دیا تھا اور آنے والی ترقی یافتہ انسانیت کے لےے سمندر کو کوزہ میں بند کرکے پیش کر دیا تھا۔ اب ترقی یافتہ انسان قرآن کی ان آیتوں کو پڑھے اور سر دھنتا رہے کہ اگریہ کتاب آسمانی کتاب نہ ہوتی، اگر اس کے پیغامات ابدی پیغامات نہ ہوتے تو چودہ صدی قبل کے جاہل عرب معاشرے کے سامنے ان حقائق و معارف کو پیش کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ قرآن مجید نے مختصر الفاظ میں جن علوم کی طرف اشارہ کیا ہے ان کا اجمالی خاکہ یہ ہے:

 

۱۔ علم ذرہ:

”وما یعزب عن ربک من مثقال ذرة فی الارض ولا فی السماء ولا اصغر من ذٰلک ولا اکبر الا فی کتابٍ مبین“ (زمین و آسمان کی ذرہ برابر چیز یا اس سے کم وزیادہ بھی اللہ کی نظروں سے بعید نہیں ہے، اس نے سب کو کتاب مبین میں جمع کردیا ہے۔
آیت میں ذرّے کے ذکر کے ساتھ ثقل کاذکراور پھر ذرّے میں زمین و آسمان کی عمومیت اس بات کی دلیل ہے کہ ذرّے کا وجود صرف زمین پر نہیں ہے بلکہ آسمانوں پر بھی ہے اوریہ وہ چیز ہے جہاں تک ابھی سائنس کی رسائی نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ ذرّے کے ساتھ اصغر و اکبر کاذکر اس بات کا ثبوت ہے کہ ذرّے سے چھوٹی چیز کا تصوّر ممکن ہے اور اس کا وجود واقع بھی ہے بلکہ علم خدا میں محفوظ بھی ہے۔ظاہر ہے ذرّے سے چھوٹی چیز ذرہ نہیں ہے اس لےے کہ اس پر بہرحال ذرے کا اطلاق ہوگا بلکہ ذرے سے چھوٹی چیز وہی کہربائی موجیں ہیں جنہیں آج کی دنیا میں الکٹرون و پروٹون وغیرہ سے تعبیر کیا جاتا ہے بلکہ ممکن ہے کہ قرآن کریم کی نظر اس سے زیادہ لطیف مادہ کی طرف ہوجیسے اس نے اصغر کہہ کر چھوڑ دیا ہے اور لفظ موج کا استعمال نہیں کیا ہے۔

 

۲۔علم طبیعت:

”اولم یر الذین کفروا ان السمٰوٰت والارض کانتا رتقا ففتقناهما“۔(کیا کفار نے اس بات پر غور نہیں کیا ہے کہ سماوات و ارض آپس میں جڑے ہوئے ہیں ہم نے ان دونوں کو الگ کیا ہے۔
سماوات و ارض کے جڑے ہونے اور الگ ہونے کا جو مفہوم بھی ہو، آیت نے علماء طبیعت کے ذہنوں کواس امر کی طرف ضرور متوجہ کر دیا ہے کہ ہر آسمان اپنی زمین کے ساتھ یا ہر آسمان و زمین دوسرے آسمانوں اور زمینوں کے ساتھ مادہ اور طبیعت میں اتحاد رکھتے ہیں۔ فضا کے بدل جانے آثار میں فرق ہوسکتا ہے لیکن اصلی مادہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس لےے کہ جب دو چیزوں کو ایک ہی چیز سے الگ کیا جاتا ہے تو دونوں کے طبیعی مادہ میں اتحاد ہوا کرتا ہے۔ آپ ایک لوٹے پانی کو دو گلاسوں میں تقسیم کر دیجئے ایک کو آگ کے پاس رکھ دیجئے اور ایک کو برف کے پاس۔ ظاہر ہے کہ جگہ بدل جانے سے دونوں کے آثار میں فرق ہو جائے گا، ایک گلاس کا پانی ٹھنڈا ہوگا اور ایک کاگرم۔ لیکن اصلی طبیعت کے اعتبار سے دونوں پانی رہیںگے اور پانی کے طبیعی اور ذاتی آثارکے اعتبار سے دونوں میں اتحاد رہے گا۔

 

۳۔ جغرافیہ:

”ارسلنا الریاح لواقح فانزلنا من السماء ماء ًا فاسقینا کموها وما انتم له بخازنین“(ہم نے ذریعہ تخم ریزی بنا کرآزاد کردیااور اس کے بعد پانی برسا دیا، پھرتم کو اس پانی سے سیراب کردیا حالانکہ تمہارے پاس اس کا خزانہ نہیں تھا۔)
دور قدیم کے اہل جغرافیہ اس بات سے قطعی طور پر ناواقف تھے کہ ہواوٴں کے مصرف کیا کیا ہیں اور ان کا اثر کہاں کیا ہوتا ہے لیکن قرآن نے عرب کو اس کے ذوق کے مطابق اس امر کی طرف متوجہ کیا کہ ان ہواوٴں سے تمہارے نرخرمے کا مادّہ، مادہ خرمے تک پہونچ جاتا ہے اور پھر بارش کے اثر سے پیداوارشروع ہوجاتی ہے اور دور حاضر کو یہ سبق دیا ہے کہ ہوا بادلوں کی دونوںبرقی طاقتوں کو جمع کرتی ہے اور اس کے بعد پانی اسے زمین تک پہونچا دیتا ہے۔

 

۴۔علم نبات:

”هو الذی انزل من السماء ماءً ا فاخرجنا به نبات کل شئی۔“ (وہی خدا وہ ہے جس نے آسمان سے نازل کیا ہے اور اس کے بعد ہم نے اس پانی سے ہر نبات کو زمین سے نکال دیا ہے۔
آیت کا کھلا ہوا اشارہ ہے کہ نبات کی پیداوار میں پانی کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے اور پانی کے آسمان سے نازل ہونے کی بھی پیداوار میں بڑی اہمیت ہے اس لےے کہ شدید گرمی سے فضا میں پیدا ہو جانے والی سمّیت اور بجلیوں کی چمک سے پیدا ہونے والے نیٹروجن کو پانی زمین کے اندر پہونچا دیتا ہے تو زمین کی طاقتوں میں ایک قسم کا ابال آجاتا ہے اور اس نبات کو طاقت ملنے کا بہترین ذریعہ نکل آتا ہے۔ اسی لےے آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو اثر بارش کے پہلے پانی میں ہوتا ہے وہ بعد کے سیلاب میں بھی نہیں ہوتا اس لےے کہ پہلا پانی اپنے ساتھ فضا کے تمام اثرات کولےکر آتا ہے اور بعد کے پانی کو اس قدر اثرات میسّر رنہیں ہوتے۔

 

۵۔علم الحیوان:

”افلا ينظرون الی الابل کیف خلقت“(آخر یہ لوگ اونٹ کو کیوں نہیں دیکھتے کہ اسے کیسے پےدا کیا گےا ہے؟)
”ان اللّٰه لایستحيٖ ان یضرب مثلاًمابعوضةفمافوقها“(اللہ کو چھوٹی سے چھوٹی مثال کے بےان میں شرم نہیں ہے چاہے وہ مچّھر ہی کیوں نہ ہو۔
”فبعث اللّٰه غراباًےبحث فی الارض“ (اللہ نے کوّے کو بھےجا تاکہ زمین کھود کر قابےل کو دفن کا طرےقہ سکھائے
”یا ایتهاالنمل ادخلوامساکنکم لا یحطمنکم سلیمان وجنوده“ (اے چیونٹےو!اپنے اپنے سوراخ میں چلی جاوٴکہیں سلیمان کا لشکرتمہیں پامال نہ کردے۔
”و اوحيٰ ربک الی النحل ان اتخذی من الجبال بیوتاً“ (اللہ نے شہد کی مکھی کو تعلیم دی کہ وہ پہاڑوں میں گھر بنائے۔
”الم تر کیف فعل ربک باصحاب الفیل“ (کیا تم نے اصحاب فیل کی حالت نہیں دیکھی کہ ان کے ہاتھی بھوسا ہو کر رہ گئے۔
”وارسل علیهم طیراً ابابیل“ (اللہ نے اڑتے ہوئے ابابیل کو بھیج دیا کہ ہاتھیوں کو تباہ کردےں۔
”وان اوهن البیوت لبیت العنکبوت“ (سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے۔)
مذکورہ بالا آیات میں مختلف مواقع پر یہ بتایا گیا ہے کہ اونٹ کی خلقت میں ایک خصوصیت پائی جاتی ہے جو دوسرے حیوانوں میں نہیں ہے۔ مچھر میں ایک خصوصیت ہے جو ہاتھی میں نہیں ہے۔ کوّا چیزوں کو چھپانے کے فن میں ماہر ہو تا ہے اسی لئے کسی نے کوے کو اپنی مادہ سے جوڑا کھاتے نہیں دیکھا ہے۔ چیونٹی سیاست کے فن سے واقف ہوتی ہے اور وہ کمزوری کے مواقع پر محاذ چھوڑ دینے ہی کو مناسب سمجھتی ہے۔ شہد کی مکھی پہاڑوں میں رہ کر اپنے کام کو بہتر انجام دے سکتی ہے۔ ہاتھی میں کوئی ایسا جزء بھی ہو تا ہے جو ایک کنکری سے اسے ہلاک کر سکتا ہے۔ ابابیل میں سنگباری کی بہتر صلاحیت ہوتی ہے۔ مکڑی ظاہری حسن کے اعتبار سے بہترین گھر بناتی ہے لیکن اس کا باطن بہت کمزور ہوتا ہے۔
قرآن مجید نے ان آیتوں میں عالم بشریت کو تنبیہ کی تھی کہ جانور کو حقیر نہ سمجھیں اس کی قوت برداشت انسان سے زیادہ ہوتی ہے۔ چھوٹے افراد کو ذلیل نہ سمجھو اس لےے کہ مچھر کی طاقت ہاتھی سے زیادہ ہوتی ہے۔ اپنی سیاست اور اپنے مقابلے پر ناز نہ کرو کہ تم سے بہتر سیاست جانور جانتے ہیں، اپنی صنعت پر نازاں نہ ہو کہ شہد کی مکھی جو شہد بنا لیتی ہے وہ تم نہیں بنا سکتے ہو، اپنے جثہ پر ناز نہ کرو کہ ہاتھی ابابیل سے ہلاک ہو سکتا ہے۔ اپنے دشمن کو کمزور نہ سمجھو کہ ابابیل ہاتھیوں کے لشکر کو تباہ کر سکتے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ علم الحیوان کے عظیم نکتوں سے بھی آگاہ کر دیا اوردر حقیقت یہی قرآن کا اعجاز بیان ہے کہ وہ ایک بات کہتے کہتے ضمناً دوسرے اہم نکتہ کی طرف اشارہ کر دیتاہے اور مخاطب کا ذہن ادھر متوجہ بھی نہیں ہونے پاتا، پھر جب بعد کے زمانے میں وہ اس بات پر غور کرتا ہے تو اس کی عظمتوں کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتاہے۔!

 

۶۔ تاریخ طبیعی:

”ما من دابّةٍ فی الارض ولا طائر یطیر بجناحیہ علی اٴممٍ امثالکم“ (زمین کا کوئی چلنے والا یا ہوا کا کوئی اڑنے والا ایسا نہیں ہے جس میں تم جیسی قومیت اور اجتماعیت نہ پائی جاتی ہو
دنیائے فلسفہ حیوانات میں اجتماعی شعور کی قائل ہو نہ ہو، وہ عقل و ادراک کو انسان سے مخصوص کہے یا عام لیکن قرآن مجید کھلے الفاظ میں اعلان کرتا ہے کہ اجتماعی شعور صرف انسان کا حصہ نہیں ہے بلکہ اس میں جملہ حیوانات اور پرندے شامل ہیں سب کے مشترک مسائل ہیں اور سب کی ایک اجتماعی سیاست ہے جس کے تحت ان مسائل کو حل کیا جاتا ہے۔ آپ صبح و شام دیکھا کرتے ہیں کہ اگر محلہ کے ایک کتے پر حملہ کر دیا جائے تو سارے کتے بیک آواز جواب دیتے ہیں۔ ایک جانور مر جائے تو سارے جانور اس کے غم میں نوحہ و زاری کرتے ہیں۔ ایک بھیڑ آگے چلتی ہے تو ساری بھیڑیں اس کے پیچھے چلتی ہیں۔ ایک چیونٹی کسی مٹھاس کی طرف جاتی ہے توایک قطار لگ جاتی ہے، ایک پرندہ آشیانہ بناتا ہے تو سارے پرندے اسی مرکز کی طرف سمٹ آتے ہیں، اور اس طرح کے بے شمار واقعات مشاہدہ میں آتے رہتے ہیں۔ خود قرآن مجید نے چیونٹیوں کی اجتماعی دفاعی سیاست کا تذکرہ کیا ہے اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) نے اس کے زراعتی شعور کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

 

۷۔کیمیا گری:

”ان لکم فی الانعام لعبرة“ (تمہارے لۓ جانوروں میں عبرت کے سامان مہیا ہیں۔)
ہرن کے نافے میں مشک کیڑے کے منھ میں ریشم اور مکھی کے منھ میں مختلف پھولوں کے رس سے شہد کا تیار ہو جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ حیوانات میں کیمیا گری کا شعور انسان سے زیادہ ہوتا ہے اور ان باتوں انسان کے لئے عبرت کا سامان مہیا ہے۔

 

۸۔ زراعت:

”کمثل حبة بربوةٍ اصابها و ابل فآتت اکلها ضعفین“ (اس کی مثال اس بلندی پر واقع باغ کی ہے جس پر تیز بارش ہو جائے اور اس کی پیداوار دگنی ہو جائے۔)
آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بلندی کے باغ کو مناسب پانی مل جائے تو پیداوار کے زیادہ ہونے کے امکانات قوی ہیں اور عجب نہیں کہ اس کا راز یہ ہو کہ پست زمینوں تک بارش کا پانی پہونچتے پہونچتے اپنی اصلی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے اور اس میں زمینوں کے اثرات شامل ہو جاتے ہیں لیکن بلند زمینوں کو یہ اثرات براہ راست ملتے ہیںاس لےے پیداوار کے امکانات زیادہ رہتے ہیں۔
”قال تزرعون سبع سنین داباً فما حصدتم فزروه فی سنبله“
جناب یوسف نے تعبیر خواب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ سات برس تک مسلسل زراعت کرو اور جو کچھ پیداوار ہو اس کا زیادہ حصہ بالیوں سمیت محفوظ کر لو اس لےے کہ اس کے بعد سات سال بہت سخت آنے والے ہیں۔
اس واقعہ نے صاحبان زراعت کو اس امر کی طرف متوجہ کیا کہ غلہ بالیوں سے الگ کرکے رکھا جائے تو اس کے خراب ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور بالیوں سمیت رکھا جائے تواس کی زندگی بڑھ جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ علم زراعت کا اہم ترین نکتہ ہے جس سے ہر دور میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

 

۹۔ علم ولادت:

”یخلقکم فی بطون امهاتکم خلقاً من بعد خلقٍ فی ظلماتٍ ثلٰث“ (اللہ تم کو شکم مادر میں مسلسل بناتا رہتاہے اور یہ کام تین تاریکیوں میں انجام پاتا ہے۔)
دور حاضر کی تحقیقات نے واضح کردیا ہے کہ انسانی تخلیق کاسلسلہ نطفہ سے لے کر بشریت تک برابر جاری رہتا ہے اور یہ کام تین پردوں منباری، خوربون، لفائفی کے اندر ہوتا ہے جس کی وجہ سے نر اور مادہ کا امتیاز مشکل ہو جاتا ہے۔

 

۱۰۔ صحت غذائی:

”کلوا واشربوا ولا تسرفوا“ (کھاوٴ پیو اور اسراف نہ کرو)
ان فقرات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کے امراض کا زیادہ حصہ اس کے اسراف سے تعلق رکھتا ہے۔ اسراف کا مطلب مال کو بیکار پھینک دینا نہیں ہے بلکہ ضرورت سے زیادہ کھا لینا بھی اسراف کی حد میں داخل ہے اور اسی لےے اس کا ذکر صرف مال کے بجائے کھانے پینے کے ساتھ ہوا ہے یعنی کھانے میں بےجا زیادتی نہ کرو کہ موجب ہلاکت ہے۔

 

۱۱۔ حفظان صحت:

”حرمت علیکم المیتت والدم ولحم الخنزیر“ (تمہارے اوپر مردار خون اور سور کے گوشت کو حرام کر دیا گیا اس لےے کہ ان چیزوں کے استعمال سے تمہاری صحت پر غلط اثر پڑتا ہے
مردار کا کھانا بے حسی پیدا کرتا ہے، خون کاپینا سنگ دلی کا باعث ہوتا ہے اور سور کا گوشت بے حیائی ایجاد کرتا ہے ، علاوہ اس کے کہ ان چیزوں کے جسم پر طبی اثرات بھی ہوتے ہیں جن کا اندازہ آج کے دور میں دشوار نہیںہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مریض کو خون دیتے وقت ہزاروں قسم کی تحقیق کی جاتی ہے اور جانوروں کا خون پیتے وقت انسان ان تمام باتوں کو نظر انداز کردیتا ہے۔

 

۱۲۔ وراثت:

”یا اخت هارون ماکان ابوک امرء سوء وما کانت امک بغیا“ (ای ہارون کی بہن مریم نہ تمہارا باپ کوئی بدکردار مرد تھا اور نہ تمہاری ماں بد کردار تھی آخر یہ تمہارے یہاں بچہ کیسے ہوگیا؟)
قرآن مجید نے مخالفین کے اس فقرہ کی حکایت کرکے اس نکتہ کی وضاحت کردی کہ انسانی کردارپر ماں باپ کا اثرپڑتا ہے اور سیرت کی تشکیل میںوراثت کا بہر حال ایک حصہ ہوتا ہے۔ اسی لےے جناب مریم نے بھی قانون کی تردید نہیں کی بلکہ یہ ظاہر کر دیا کہ نہ میر اباپ خراب تھا نہ میری ماں بری تھی اور نہ میں نے کوئی غلط اقدام کیا ہے بلکہ یہ سب قدرت کے کرشمے ہیں جس کا زندہ ثبوت خود یہ بچہ ہے تم اس سے سوال کر لو سب خود ہی معلوم ہو جائےگا۔

 

۱۳۔ماوراء الطبیعة:

”انّ الله یتوفی الانفس حین موتها و التی لم تمت فی منامها“ (اللہ ہی وقت موت روح کو لے لیتا ہے اور جس کی موت کا وقت نہیں ہو تا ہے اسے خواب کے بعد بیدار کر دیتا ہے۔)
آیت عالم طبیعت کے علاوہ ایک عالم نفس و روح کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جس کا فائدہ یہ ہے کہ نفس عالم خواب میں جسم کو چھوڑ کر اپنے عالم کی سیر کرتا ہے اگر اس کی موت کا وقت آجاتا ہے تو وہ اپنے عالم میں رہ جاتا ہے اور اگر حیات باقی رہتی ہے تو جسم سے پہلا جیسا رشتہ جوڑ لیتا ہے۔

 

۱۴۔ کہربائی طاقت:

”واذا البحار سجّرت“ (وہ وقت بھی آئے گا جب سمندر بھڑک اٹھےنگے)
آگ کے ساتھ پانی اور پانی کے ساتھ آگ کا تصور آج کی دنیا میں بھی نا ممکن خیال کیا جاتا ہے چہ جائیکہ چودہ صدی قبل عرب کی جاہل دنیا۔۔ لیکن قرآن مجید نے سمندر کے ساتھ بھڑکنے کا لفظ استعمال کرکے علمی دنیا کے ذہنوں کو ان کی کہربائی اور برقی طاقتوں کی طرف موڑ دیا جو آج پانی کے دل اندر موجود ہے۔ فرق یہ ہے کہ آج ان طاقتوں سے استفادہ کرنے کے لےے آلات و اسباب کی ضرورت ہوتی ہے اور کل قیامت کا دن وہ ہوگا جب یہ طاقتیں از خود سامنے آجائیں گی اور سارے سمندر بھڑک اٹھیں گے، واخرجت الارض اثقالہا زمین سارے خزانے اگل دے گی تو پانی بھی اپنی ساری طاقتوں کو سر عام لے آئے گا۔

 

۱۵۔خلاء:

”یا معشر الجن والانس ان استطعتم ان تنفذوا من اقطار السموت و الارض فانفذوا لا تنفذون الا بسلطان“ (اے گروہ جن و انس! اگر تم میں اطراف زمین و آسمان سے نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل جاوٴ لیکن یاد رکھو کہ تم بغیر غیر معمولی طاقت کے نہیں نکل سکتے۔
آیت نے اقطار سماوات و ارض کی وسعتوں کا ذکر کرنے کے باوجود خلاء تک پہونچنے کے امکان پر روشنی ڈالی ہے اور ظاہر ہے کہ جب غیر معمولی طاقت کے سہارے فضائے بسیط کی وسعتوں کو پار کرکے خلائے بسیط تک رسائی ممکن ہے تو چاند سورج تک پہونچنے میں کیا دشواری ہے؟ البتہ بعض سادہ لوح عوام نے اس آیت سے چاند تک جانے کی محالیت پر استدلال کیا ہے لیکن انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ چاند و سورج وغیرہ سماوات و ارض کی وسعتوں میں شامل ہیں اور قرآن مجید نے جس شئی کو تقریباً ناممکن بتایا ہے وہ ان وسعتوں کے باہر نکل جانا ہے نہ کہ ان وسعتوں میں سیر کرنا ۔ ورنہ اگر ایسا ہوتا تو کم از کم جنات کومخاطب نہ کیا جاتا جو اس فضا میں ہمیشہ ہی پرواز کیا کرتے ہیں۔

 

۱۶۔علم الافلاک:

”ثم استوی الی السماء و هی دخان“ (خالق نے آسمان کی طرف توجہ کی جو اس وقت دھواں تھا۔)
آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آغاز خلقت افلاک دھویں سے ہوا ہے۔
”الم تروا کیف خلق الله سبع سمٰوٰت طباقا و جعل القمر فیهن نوراً و جعل الشمس سراجاً“ (کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح ہفت طبق آسمان پیدا کردےے اور ان میں چاند کو روشنی اور سورج کو چراغ بنا دیا۔)
یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ سورج کا نور ذاتی ہے اور چاند کا نور اس سے کسب کیا ہوا ہے۔
”الله الذی رفع السمٰوٰت بغیر عمد ترونها“ (خدا وہ جس نے آسمانوں کو بلند کردیا بغیر کسی ایسے ستون کے جسے تم دیکھ سکو۔)
معلوم ہوتا کہ رفعت سماوات میں کوئی غیر مرئی ستون کام کر رہا ہے جسے آج کی زبان میں قوت جذب و دفع سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
”ومن یرد ان یضله یجعل صدرہ حرجاً کانما یصّعّد فی السماء“ (خدا جس کو اس کی گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اس کے سینے کو اتنا تنگ بنا دیتا ہے جیسے وہ آسمان میں بلند ہو رہاہو۔)
آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آسمان کی بلندی تنگی نفس کا باعث ہے اس لےے کی فضاوٴں میں ہوا کی مقدار زمین سے کہیں زیادہ کم ہے۔
”و من کل شئی خلقنا زوجین“ (ہم نے ہر شئی کا جوڑا اسی کے اندر سے پیدا کیا ہے۔)
معلوم ہوتا ہے کہ عالم وجود میں وحدت اور اکائی صرف خالق ومالک کا حصہ ہے باقی ہر شئی کی ذات میں دوئی اور زوجیت پائی جاتی ہے وہ دوئی ظاہری اعتبار سے نر اور مادہ کی ہو یا حقیقی اعتبار سے کہربائی موجوںکی؟
یاد رہے کہ آیات بالا کے پیش کرنے سے یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دور حاضر نے اپنی تحقیقی منزل کو جس حد تک پہونچایا ہے آیت اسی حد کی طرف اشارہ کر رہی ہے بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ ان آیات میں علم کائنات کی طرف کھلے ہوئے اشارے پائے جاتے ہیں چاہے وہ علم وہی ہے جسے آج کی دنیا میں پیش کیا جارہا ہے یا اس سے بالا تر کوئی منزل ہوجہاں تک آج کا علم نہیں پہونچ سکا ہے۔ اسی لےے میں آیات کی تشریح میں اشارہ کا لفظ استعمال کیا ہے اور اسے تحقیق و تعیین پر محمول نہیں کیا ہے۔
علوم قرآن کے تذکرہ کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ یہ علوم اگر بقائے نوع اور ارتقائے بشر کے ضروری نہ ہوں تو کم سے کم نگاہ قرآن میں جائز ضرور ہیں ورنہ قرآن مجید ان حقائق کی طرف اشارہ کرکے انسانی ذہن کو تحقیق پر آمادہ نہ کرنا لیکن اسے کیا کیا جائے کہ صدر اول کے مسلمانوں نے اس نکتہ سے غفلت برتی اور اسکندرہ کا عظیم کتب خانہ جس سے علوم قرآنی کی تشریح وتفصیل کا کام لیا جاسکتا تھا نذر آتش کردیا گیا اور اس طرح امت اسلامیہ دیگر اقوام سے ہمیشہ ہمیشہ کے لےے پیچھے ہوگئی، اسکندریہ کے کتب خانہکا نذر آتش ہونا اتنا بڑا ہولناک کام نہیں تھا جتنا بڑا ہولناک امر اس کی پشت پر کام کرنے والا نظریہ تھا۔ کہا یہ گیا کہ ان کتابوں میں اگر وہی سب کچھ ہے جو قرآن مجید میں ہے تو ہمیں قرآن کے ہوتے ہوئے ان کتابوں کی ضرورت نہیں ہے اور اگر ان میں قرآن کریم کے علاوہ کوئی شئی ہے تو امت قرآن کو ایسی کتابیں نذر آتش ہی کردینی چاہئےں جو قرآن سے ہٹ کر مطالب بیان کرتی ہوں۔ یہ ایسا خطرناک اور زہریلا نظریہ تھا جس نے ہر موڑ پر بشریت کو گمراہ کرنے کیا فریضہ انجام دیا ہے۔ برہمنوں نے رسالت کے انکار میں یہی طرز استدلال اختیار کیا کہ اگر رسول وہی کچھ کہتا ہے جو عقل کا فیصلہ ہے تو عقل کے ہوتے ہوئے رسول کی ضرورت کیا ہے اور اگر رسول عقل کے خلاف بولتا ہے تو خلاف عقل بات کو تسلیم کرنا انسانیت اور بشریت کے منافی ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کا اسدلال بھی یہی تھا کہ اگر شریعت موسيٰ و عیسيٰ برحق ہے تو اس کے منسوخ ہونے کے کیا معنی ہیں؟ اور اگر غلط ہے تو خدا نے ایسی شریعت اپنے انبیاء کو دی کیوں؟ غرض بشریت کے ہو موڑ پر تباہی کا راز اسی غفلت میںپوشیدہ نظر آتا ہے اور میرا خیال تو یہ ہے کہ مسلمانوں کا یہ انداز فکر بھی اپنے ذہن کی پیداوار نہیں تھا بلکہ انہیں اقوام سے لےے ہوئے سبق کا نتیجہ تھا جنہوں نے ہر دور میں بشریت کو گمراہ کیا ہے۔ اور اس گمراہی کا راز صرف یہ ہے کہ ہر قوم نے اصل مطلب کو یاد رکھا اور تفصیلات کو فراموش کردیا ورنہ برہمنوں کو یہ سوچنا چاہئے تھا کہ نبی کا کام عقل کی مخالفت نہیں ہوتا ہے بلکہ عقلہ کے احکام کی تفصیل ہوا کرتا ہے۔ عقل مالک کی اطاعت کا حکم دیتی ہے اور نبی طریقہ اطاعت کی تعلیم دیتا ہے، عقل برائیوں سے الگ رہنے کا فیصلہ کرتی ہے اور نبی برائیوں کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ اسی طرح یہودیت اور مسیحیت کے پرستاروں کو یہ سوچنا چاہئے تھا کہ کسی قانون کا حق ہونا اسکے ابدی ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ قانون کبھی کبھی قانون ایک محدود وقفہ کے لےے بنایا جاتا ہے اور اس وقفہ میں انتہائی صالح اور صحت مند ہوتا ہے لیکن اس وقفہ کے گذر جانے کے بعدوہ بے کار اور غیر صحت مند ہو جایا کرتا ہے ایسے قانون کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چونکہ ایک وقفہ کے لےے صحت مند تھالیکن ہر دور میں کارگر اور کارآمد ہونا چاہئے۔
مسلمانوں کے اس جاہلانہ طرز فکر کی خرابی کی طرف ایک محقق نے بڑے اچھے انداز سے اشارہ کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر صدر اول کے مسلمانوں کو علوم و معارف سے کوئی بھی را بطہ ہوتا تو وہ یہ سوچتے کہ اگر ان کتابوں میں قرآن کے موافق بیانات ہیں تو انہیں دوسری قوموں کے سامنے بطور استدلال پیش کیا جاسکتا ہے اور اگر قرآن کے مخالف نظریات ہیں تو قرآن کی روشنی میں ان کی تردید کرکے دیگر اقوام پر قرآن کی برتری ثابت کی جاسکتی ہے۔ لیکن افسوس کہ اس دور کے مسلمانوں میںنہ اثبات کی طاقت تھی اور نہ تردید کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکمرانوں نے اپنی جہالت کا پردہ رکھنے کے لئے ایک عظیم علمی سرمایہ کو نذر آتش کردیا اور بشریت منزل معراج سے صدیوں پیچھے ہٹ گئی۔
یاد رکھنے کی بات ہے کہ مسلمانوں کے اس طرز عمل کے پیچھے کوئی مذہبی جذبہ کار فرما نہیں تھا بلکہ یہ در حقیقت اقتدار اور آمریت کے مظاہرے کا جذبہ تھا جو اس شکل میں سامنے آ رہا تھا قرآن کی موافقت اور مخالفت تو صرف بعد کی پیداوار ہے جس کا سب سے اہم ثبوت امام محمد ابن اسماعیل بخاری اور امام مسلم کی وہ روایات ہیں جنہیں ان حضرات نے کتابت حدیث کے ذیل میں درج کیا ہے اور جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ صدر اول کے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ رسول اکرم کی حدیثوں کو لکھنے اور جمع کرنے کا مخالف تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ جو مسلمان اپنے رسول کے اقوال جمع کرنے کو بدعت سمجھتا ہو وہ اسکندریہ کے کتب خانہ کے ساتھ کیا برتاوٴ کرے گا۔ بات یہیں تک محدود نہیں رہتی بلکہ ایک منزل آگے بڑھ جاتی ہے اور صاحب نظر انسان کو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ اسکندریہ کی کتابوں میں تو خیر مخالفت قرآن کا امکان تھا اس لےے انہیں نظر آتش کردیا گیا۔ رسول اکرم کی حدیثوں میں کونسی خاص بات تھی جس کی وجہ سے اس کی کتابت حرام تھی کیا یہاں بھی مخالفت قرآن کے امکانات تھے؟ یا قرآنی اجمال کو حیث کے تفصیلات کی ضرورت نہ تھی؟ یا کوئی اور جذبہ کام کر رہاتھا جس کے اظہار کے سامنے تاریخ کے منھ پر لگام لگی ہوئی ہے اور مورخ کاناطقہ گنگ ہے، بات صرف یہی ہے کہ مسلمان اپنی جہالت کی پردہ پوشی کے لےے ایک پوری امت کو علوم دین و دنیوی سے محروم کر رہے تھے اور اس روشنی میں یہ کہنا پڑے گا کہ آج کا مسلمان جس احساس کمتری کا شکار ہے اور آج کی امت اسلامیہ علمی میدان میں جس قدر پیچھے ہوگئی ہے اس کی ذمہ داری دور حاضر سے زیادہ صدر اول کے ان مسلمانوں پر ہے جنہوں نے ممانعت علم و فن اور پابندی فکر و نظر کی بدعت کاسنگ بنیاد رکھا تھا۔!