تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 21 تا 25)
  • عنوان: تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 21 تا 25)
  • مصنف: سید مون کاظمی
  • ذریعہ: ماخوذ از" تفسیر فصل الخطاب"
  • رہائی کی تاریخ: 13:21:45 3-9-1403

 

"یٰآَیُهاالنَاسُ اعْبُدُوا رَبَکُمُ  الِذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَکُمْ تَتَقُوْنَ (21)
اے انسانو ! عبادت کرو اپنے پروردگار کی جس نے تمہیں بھی پیداکیا اورانہیں بھی جو تمہارےپہلے تھے عجیب نہیں کہ تم اپنے بچاؤ کاسامان کرسکو"
؛؛؛
مخصوص طریق عبادت جیسے روزہ وغیرہ کا جہاں قرآن میں حکم دیا ھے وھاں "یاایهاالذین اٰمنوا" کہہ کر پکارا ھے اس لیے کہ جنہوں نے اصل رسالت و شریعت کو تسلیم ھی نہیں ان سے جزئیات احکام اور طریق عبادت کے بتانے کا کوئی محل نہیں.مگر مطلق عبادت یعنی خدا کی بارگاھ میں احساس بندگی کی پیش کش کی طرف توجہ دلائی جارھی ھے یہاں "یایھاالناس" کہہ کر مخاطب کیا جارھا ھے اس لیے کہ خالق کی عبودیت کا جب احساس پیدا ھوگا اسی وقت تو وہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہنے اور کم از کم اس پیام پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کریں گے.اور اسی لیے یہ احساس عبودیت جس کی دعوت دی گئی ھے اس کا نتیجہ بتایا ھے "لعلکم تتقون" : "اتقاء" کے معانی ھیں کسی خطرہ سے بچنے کا سامان کرنا.چونکہ خالق کی طرف ذھن کی توجہ ھونے کے ساتھ انسان کو یہ فکر ھونی چاھیئے کہ اس کے مجھ پر کچھ حقوق ھیں اور اُن حقوق کے ادا نہ کرنے سے میں مستحق سزا ھوں گا.اسی سے خطرہ کا احساس پیدا ھوتا ھے اور اسی خطرہ سے تحفظ کےلیے اس کی طرف سے رسالت کا ادعاء رکھنے والے کی باتوں پر کان لگانے اور انکی سچائی پر غور کرنے کی ضرورت پیدا ھوتی ھے جس پر آئندہ کے تمام ذرائع نجات کا انحصار ھے.
**


"اَلَذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الاَرْضَ فِرَاشًا وَالسَمَآءَ بِنَآءً وَاَنْزَلَ مِنَ السَمَآءِ  مَآءًفَاَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَمَرَاتِ رِزْقًا  لَکُمْ^فَلاَ تَجْعَلُوْا لِلهِ اَنْدَادًاوَاَنْتُمْ  تَعْلَمُونَ (22)
جس نےتمہارے لیے زمین کو بچھونا اورآسمان کو چھت بنایا اور اوپر سے پانی برسایا تو اس سے پھلوں کے قبیل سے
تمہاری غذا برآمد کی. اب اس کے بعد جان بوجھ کر اللہ کے لیے برابردار نہ بناؤ"
؛؛؛
قرآن مجید میں زمین آسمان اور دیگر کائناتِ عالم جو ذکر ھے وہ اس مقصد کےلیے نہیں ھے کہ انکی حقیقتوں اور ماھیتوں کو بیان کیا جائے بلکہ ایک تو ان کے افادی پہلوؤں کو جو بنی آدم سے متعلق ھیں نمایاں کرکے اللہ کی نعمتوں کا احساس کرانا منظور ھے اور دوسرے انکی عظمت اور حیرت انگیز خلقت کی طرف توجہ دلاکر خالق کی عظمت و قدرت کی طرف توجہ دلانا مطلوب ھے.زمین چاھے کُروی ھو اور چاھے مسطح بہرحال جہاں تک ھمارے لیے کارآمد اور محسوس پہلو کا تعلق ھے وہ ایک بچھونے ھی کی حیثیت رکھتی ھے(2) اور اس میں خاص توجہ دلانے والا جزء یہ ھے کہ یہ بچھونا کس نے قرار دیا.ظاھر ھے کہ اسی نے جس نے اس زمین کو خلق فرمایا.اسی طرح آسمان ، وہ کوئی ٹھوس جسم ھے یا سیال مادہ ھے اسے قرآن کچھ نہیں بتاتا.بےشک اس کی محسوس شکل جو ھر آنکھ کے سامنے ھے وہ یہی کہ وہ ھمارے سروں پر ایک چھت کی طرح بلند ھے.بس اسی کو سامنے رکھ کر اس کے خالق کی جانب توجہ دلائی گئی ھے.
اس کو سائنس اور ریاضی کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ھے.انکی حقیقتوں کو معلوم کرنے کے میدان میں فہم بشری کو تگ و دو کی پوری آزادی حاصل ھے.(3)
"السمآء" کا لفظ جو پہلی دفعہ ھے وہ تو آسمان کے معنی میں ھے اور دوسری جگہ اس کی سمت یعنی اوپر کا رخ مقصود ھے.عربی میں بلندی کے رُخ کی ھر شے کو "سماء" کہتے ھیں.(4)
زمین اور آسمان کے تذکرہ کے بعد ان دونوں کے مابین جس نعمتِ الہی کا ظہور ھوتا ھے وہ بارانِ رحمت ھے.اس کا اتارنے والا بھی وھی اللہ ھے جس نے آسمان اور زمین پیدا کیے.
جاھلیت والے عرب چاھے پرستش کتنے اصنام کی کرتے ھوں اور اللہ کو بالکل بھول گئے ھوں مگر تحت الشعوری طور پر یہ اُن سب کو احساس تھا کہ پیدا کرنے والا آسمان و زمین وغیرہ کا ان میں سے کوئی بھی نہیں ھے.خود قرآن مجید میں ھے :
"ولئن سألتهم من خلق السموات والارض ليقولن الله"
اوراگر ان سےپوچہو کہ آسمان اورزمین کو کس نے پیدا کیا تو وہ ضرور یہی کہیں گے کہ اللہ نے")لقمان#38)
دوسری جگہ ہے :
"ولئن سألتهم من خلق السموات والارض و سخرالشمس والقمر لیقولن الله" (العنکبوت#61)
اور اگر ان سے پوچہو کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور آفتاب وماہتاب کس کےقبضہ میں ہیں تو کہیں گے اللہ کے"
مگر عبادت کے محل پر وہ اللہ کے علاوہ دوسری چیزوں کے سامنے بہی جہکتے تہے اور اس وقت عملی طور پر یہ چیز بھول جاتے تھے کہ اصل جو ھے وہ اللہ ھے.یہ چیزیں کچھ بھی نہیں ھیں.قرآن نے اُن کے اسی تحت الشعوری احساس کو اُبھارتے ھوئے ان کو ان کے عمل کی غلطی کا احساس پیدا کردیا ھے اور اسی لیے کہا گیا :"یہ جانتے ھوئے اب تو اللہ کےلیے ھمسر نہ تیار کرو"
غالبًا دوسری قومیں جنہوں نے بےشمار دیوی دیوتا قرار دے لیے ھیں وہ بھی تحت الشعوری طبقاتِ نفس میں کسی ایک واحد ذات کو مانتی ھیں جو ان سب سے بالاتر ھے.اس کے بعد قرآن کی یہ آیت ان کے لیے بھی ایک لمحہ فکر پیدا کرنے کے لیے کافی ھے کہ اگر ایک ذات اس تمام کائنات کے لیے کافی ھے تو اس کے مقابل میں ان تمام دیویوں ، دیوتاؤں کے ماننے کی کیا ضرورت ھے.
**


"وَاِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَا نَزَلْنَا  عَلٰی عَبْدِنَا فَاتُوْا بِسوُرَةٍ مِنْ  مِثلِہ وَادَعُوْاشُھَدَآءَکُمْ مِنْ دُوْنِ  الله اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ (23).
اوراگر تم اس کی طرف سے جوھم نےاپنےبندہ پراتارا شک میں مبتلا ھو تواس قبیل کاایک سورہ لے آؤ اور جو اللہ کو
چھوڑ کے حامی تمہارے ھیں انہیں بلا لو اگر تم سچے ھو"
؛؛؛
پہلے جو کہا گیا تھا کہ اس کتاب میں کوئی شک نہیں اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ اس میں کوئی شک کرنے والا نہیں بلکہ مقصود اس سے یہ تھا کہ اس کتاب کی اولہ حقانیت ایسے نمایاں ھیں جو شک کی گنجائش نہیں رکھتے اب اگر شک ھوگا تو ان دلائل سے بے توجہی کی بنا پر یا شک کا اظہار ھوگا تو بر بنائے عناد ان دلائل سے چشم پوشی کی بنا پر.دونوں صورتوں میں بالمقابل اُن خصوصیات کی طرف ذھن کا متوجہ کرنا کافی ھے جس کا نتیجہ پہلی صورت میں ازالہ غفلت ھوگا اور دوسری صورت میں اتمامِ حجت.
اس ذھن کے متوجہ کرنے کے لیے قرآن کریم نے یہ نفسیاتی طریقہ اختیار کیا کہ گرم سے گرم الفاظ اور تیز سے تیزتر انداز میں انہیں اس کا مثل لانے اور اس کے جواب میں دوسری کتاب تیار کرنے کی دعوت دی جائے.وہ غیور، باحمیت اور پرجوش عرب جو بات پر جان دینے تک کے لیے تیار ھوجاتے ھیں.ان طعنوں ، سرزنشوں ، ان مبارز طلبیوں کو سُنکر ضرور اپنی پوری غوروفکر کی طاقتوں سے اس کا جواب تیار کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ یقینی ھے کہ وہ ناکام اور عاجز رھیں گے.اس عاجزی کے بعد اگر وہ بےھوش ھیں تو ھوش میں آئیں گے اور ضرور اُن خصوصیات کی طرف متوجہ ھونگے جو اس قرآن میں مافوق البشر درجہ تک مضمر ھیں تب انہیں ایمان لانے کے سوا کوئی چارہ کار نہ ھوگا اور اگر وہ بربنائے عناد انکار کرتے رھیں تب بھی کم از کم اس کے بعد انکی پیشانی پر عرقِ انفعال محسوس ھوگا اور اب زبان کھولنے کا موقع نہ رھے گا.
یہ خاص بات ھے کہ اس عظیم اور پُرجلال تحدی کو رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبانی پیش نہیں کیاگیا تاکہ اس میں انانیت کا پہلو پیدا نہ ھو بلکہ اسے براہ راست خالق نے اپنی ذات و جلال کی شان کے ساتھ "ھم" کے لفظ سے یاد کرکے یوں پیش کیا ھے کہ اگر تمہیں اس میں جو ھم نے اپنے "بندہ" پر نازل کیا ھے کوئی شک ھو.اس سے صاف ظاھر ھے کہ اس میں خود رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذاتی اقتدار اور ھنر آفرینی کو کوئی دخل نہیں ھے بلکہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے اظہار کا صرف ایک واسطہ ھیں اور کچھ نہیں.اور یہی درحقیقت وہ نقطہ شک ھے جس کے بالمقابل یہ دعوت دی گئی ھے یعنی مشرکین اسے خود رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذاتی کلام کہتے تھے.قرآن اسی کے بالمقابل میں جہاد کرنا چاہ رھا ھے اور انہیں متنبہ کرتا ھے کہ اگر رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذاتی کلام ھوتا تو کوئی وجہ نہیں کہ تم باوجود فصاحت و بلاغت میں انتہائی کمال رکھنے کے اس کا مثل نہ لا سکو.
اب اگر موجودہ زمانے کے بعض تجدد پسند افراد اُسے خود رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دماغی پیداوار قرار دیتے ھیں اور "من اللہ" ھونے کا مفہوم صرف یہ قرار دیتے ھیں کہ وہ خداداد طاقتوں کا نتیجہ ھے تو یہ حقیقت میں اسی مقابل نقطہ کی صدائے بازگشت ھے جس کے خلاف اس آیت اور ایسی ھی متعدد آیتوں میں قرآنِ کریم نے ایک مستقل محاذ قائم کررکھا ھے.
مقابل والے کھلم کھلا شک کیسا انکار کا اظہار کررھے تھے.مگر چونکہ قرآنی آیات میں حقانیت واعجاز کے ایسے نمایاں آثار موجود ھیں کہ یہ شک ھونا نہ چاھیئے اس لیے قرآن گویا اسے باور نہیں کرنا چاھتا کہ انہیں واقعی شک ھے.اس لیے کہا کہ "اگر واقعی تم کو شک ھے" یہ چونکانے کا پہلا تازیانہ ھے.
"تو اس کے ایسے کلام میں سے (پوری کتاب نہ سہی) ایک سورہ ھی لے آؤ" یہ دوسرا تازیانہ ھے.اس میں یہ امر ھے کہ وہ پوری کتاب پیش کردیں ، اسے تو از اول ان کے حوصلہ اور ھمت ھی سے بلند قرار دیدیا گیا.اس کے بعد تو اگر انہیں ممکن ھوتا تو ضد ھوجاتی کہ اچھا تو سہی جو ھم پوری کتاب ھی لے آئیں.مگر قرآن نے تو بہت تخفیف کے ساتھ پیش کیا ھے کہ تم ایک سورہ ھی پیش کردو.اس میں قید نہیں کہ طویل سورہ یا مختصر.
یہ تیسرا تازیانہ ھے "اگر تم سچے ھو" سچے کس بات میں ! اسی میں کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں ھے.اس سے انہیں نتیجہ کی طرف توجہ دلائی گئی ھے کہ اگر تم اجتماعی طاقت سے بھی ایسا نہ کرسکو تو تمہیں سمجھنا چاھیئے کہ تمہارا خیال غلط ھے.یہ حقیقۃً کسی انسانی طاقت کا نتیجہ ھے ھی نہیں بلکہ یہ بذاتِ خاص اللہ کا نازل کردہ ھے اور اسی کا کلام ھے.کسی آدمی کا کلام نہیں ھے.
مولوی عبدالماجد صاحب دریابادی اس ذیل میں رقم طراز ھیں "قرآن مجید اپنی فصاحت اور حسنِ انساء کے لحاظ سے بھی یقینًا بےنظیر ھے.جیسا کہ عرب کے بڑے بڑے ماھرین ادب تسلیم کر چکے ھیں لیکن یہاں جو تحدی کی جارھی ھے اس کا مخاطب "یاایھاالناس" کے ماتحت سارا عالم ھے صرف قریش یا اھل عرب نہیں.اس لیے قرآن مجید کو یہاں صرف انشاء و فصاحت تک محدود رکھنا اس کے عام و عالمگیر چیلنج کو محدود کردینا ھے.
قرآن نے اپنی حقیقت خود یہ بیان کردی ھے کہ وہ "ھدی للمتقین" کتابِ ھدٰی" ھے.یعنی انفرادی و اجتماعی دونوں زندگیوں کا جامع نظام ، مکمل ، ھمہ گیر و ھرجہتی دستورالعمل.اس کے علاوہ اس کی اور جتنی حیثیتیں ھیں تبعی و ضمنی ھیں.وہ یہاں پیش اپنے سب سے بڑے وصف کو کررھا ھے اور پکار کے کہہ رھا ھے کہ جو ھدایتیں اور بصیرتیں میرے ایک سورہ کے اندر موجود ھیں اب اگر تم اپنی متحدہ کوشش اور جدوجہد سے بھی اس کے مقابلہ میں کوئی چیز پیش کرسکتے ھو تو لاؤ دکھاؤ.
"من مثلہ" میں مثلیت کی تفسیر پر بہترین روشنی خود قرآن مجید ھی سے پڑتی ھے.
"قل فأتوا بکتاب من عندالله هواهدی منهمااتبعه ان کنتم  صادقین" (القصص#49)
اھدی کے ایجاز میں سب کچھ آگیا.
یہ امر کہ قرآن مجید بحیثیت فصاحت و بلاغت ھی نہیں بلکہ اور دیگر حیثیتوں سے بھی معجزہ ھے.علامہ بلاغی (رح) کی عربی تفسیر "آلاءالرحمن" کے مقدمہ اور پھر اُردو میں ھمارے "مقدمہ تفسیر" میں کافی بسط و تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ھے لیکن یہ امر کہ اس آیت میں مخاطب "یاایهاالناس" کے ماتحت سارا عالم ھے.اس صورت میں پایہ ثبوت کو پہنچ سکتا ھے کہ جب موجودہ نظم قرآنی ھی کی مطابقت سے یہ مان لیاجائے کہ یہ آیت تنزیل میں بھی گزشتہ آیات سے مرتبط ھے.
دوسری صورت میں جبکہ اس کا مخاطب براہ راست قومِ عرب اور بالخصوص قریش کو مانا جائے تو پھر دوسرے افراد کے مقابلہ میں عنوانِ استدلال دوسرا ھوجائیگا.یعنی قوم عرب اور قریش کی اس کے اس تحدی اور دعوت مقابلہ کے سامنے سپرانداختگی خود تمام عالم سے اس کی حقانیت تسلیم کرانے کےلیے حجت ھوگی.اس لیے چاھے چیلنج کا رخ ایک محدود سمت کے ساتھ مخصوص ھو مگر نتیجہ اس کا تمام عالم کےلیے مشترک حیثیت رکھتا ھے اور وہ کسی جماعت میں محدود نہیں ھے.
**

"فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُوْاوَلَن تَفْعَلُوْا  فَاتَقُوا النَارَ الَتِیْ وَ قُوْدُها النَاسُ وَ الْحِجآرَةُ ^ اُعِدَتْ  لِلْکَافِرِیْنَ(24)
اب اگرتم نےایسانہ کیا اور ھرگزنہ کروگےتوپہربچنے کا سامان کرو اس آگ سے جس کاایندھن آدمی اورپتہر ھیں اوروہ کافروں کےلیے  مہیا ھے"
؛؛؛
یہ گزشتہ تازیانوں کے بعد ایک نہیں بلکہ ایک ساتھ متعدد تازیانے ھیں جنکی چوٹ سے اگر ذرہ برابر بھی امکان ھوتا تو وہ بلبلا کر بغیر جواب لائے ھوئے قرار نہ لیتے.
سچائی پر اعتماد تو دیکھئے کہ ایسے مخالف ماحول میں دشمنوں کی اس کثرت کے درمیان داعی حق حتم و جزم ، سکون و اطمینان بلکہ یقین کے ساتھ کہہ رھا ھے "تم ھرگز ھرگز اس کا مثل نہیں لاؤگے"
ذمہ دار انسان کےلیے اتنے حتم و جزم اور یقین کے ساتھ اپنے مستقبل کے کسی فعل کے اعلان میں دشواری ھوتی ھے چہ جائیکہ دوسرے کا عمل اور وہ بھی مخاطب جماعت کا.
یہ اعلان خود اس کا سب سے بڑا محرک ھوسکتا ھے کہ وہ اب اپنی پوری طاقت صرف کرکے اسے غلط ثابت کرنے کی کوشش کریں.اب اگر ایسا نہ ھوا اور قرآن کی سچائی پورے طور پر ثابت ھوئی تو ھر کھلے ھوئے دل سے غور کرنے والے کو ماننا پڑے گا کہ قرآن کا مثل لانا یقینًا طاقتِ بشری سے باھر تھا.
بقول عبدالماجد صاحب "قرآن کے چیلنج کو ساڑھے تیرہ سو سال سے اوپر ھی ھوچکے ھیں اور دنیا کے کتب خانے اس کتاب سازی کے عہد میں، قرآن کے برابر کیا معنی تقریبًا برابر کتاب سے بھی یکسر خالی ھیں"
"ھرگز نہیں کروگے" یعنی قیامت تک ، اللہ اکبر! کس زور کی تحدی ھے اور وہ بھی ایک "امی" کی زبان سے! اپنی عقل وحکمت، اپنے علوم و فنون پر ناز رکھنے والوں کو کیسا جوش اس وقت آیا ھوگا اور آج بھی آرھا ھے لیکن خدا کی بات جہاں تھی وھیں رھی.
"اگر ایسا نہ کیا اور ھرگز نہ کروگے" یعنی اگر تم مثل اس کا نہ لائے اور ھرگز نہ لاسکو گے اس کی جزا یعنی اس "اگر" کا نتیجہ درحقیقت یہ ھے کہ "پھر ایمان لے آؤ ، تسلیم کرلو کہ یہ بےشک اللہ کا کلام ھے اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے رسول ھیں.لیکن اس کے بعد بھی اگر تم نے نہ مانا اور اپنے عناد پر اصرار قائم رکھا تو پھر اس کا نتیجہ وہ آخرت کا عذاب ھے جسے "آتشِ جہنم" کہتے ھیں ، کیونکہ وہ کافرین "یعنی جان بوجھ کر انکار کرنے والوں" ھی کےلیے مہیا ھے.اس دعوتِ ایمان کو جو تمامیتِ حجت کا لازمی نتیجہ ھونا چاھیئے اور پھر اس دعوت کو قبول نہ کرکے کفر پر قائم رھنے کی پاداش ، ان دونوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ "فاتقواالنارالتی الخ" کے الفاظ میں کہہ دیا گیا ھے.یعنی اب اس حجت کے قائم ھوجانے کے بعد انکار کا نتیجہ اس قسم کی آگ ھے جس کے بصورت بقائے انکار تم یقینی مستحق قرار پاؤگے اس سے بچاؤ کا سامان صرف یہ ھے کہ کھلے دل سے حقیت جا اعتراف کرلو اور کفر سے ھٹ کر ایمان کا راستہ اختیار کرلو.
آتشِ جہنم کا عذاب تو درحقیقت نافرمان آدمیوں کےلیے ھے مگر ان آدمیوں ھی کےلیے اس سے بڑھ کر توھین یا سزا کیا ھوگی کہ اُن کے وہ معبود بھی جنکی وہ پرستش کرتے تھے اسی آگ میں جھونک دیئے جائیں.یہ ان پتھروں کو سزا دینا نہیں ھے بلکہ ان آدمیوں ھی کے عذاب کی تکمیل ھے.اس اعتبار سے کہا گیا ھے کہ اس آگ کا ایندھن یہ آدمی بھی ھیں اور وہ پتھر بھی جو اُن کے معبود تھے.(5) اور پھر چونکہ وہ انہیں تصور کرتے تھے کہ یہ اللہ کے یہاں ھماری سفارش کریں گے تو آج انہیں بھی انہی کے ساتھ جھونک کر دکھادیا گیا کہ یہ سفارش کیا کریں گے ، یہ اللہ کے مقابلہ میں بےبس ھیں.(6)
"اعدت" یعنی مہیا کی گئی ھے، کے لفظ سے ظاھر ھے کہ دوزخ خلق ھوچکا ھے اور موجود ھے مگر پردہ غیب میں ھے جس پر "ایمان بالغیب" کا شعار رکھنے والوں کو کسی قسم کے شک و تردد کا محل نہیں ھے.

 

"وَ بَشِرِالَذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُواالصٰلِحٰتِ اَنَ لَهم جَنٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهاالاَنْهارُ کَلَمَارُزِقُوْا مِنْها مِن ثَمَرَةٍ رِزْقًاقَالُوْا هذَا الَذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَ اُتُوْا بِها مُتَشَابِها ^وَلَهمْ فِیْهآاَزْوَجّ مُطَهرَةّ وَ همْ فِیْها خَالِدُوْنَ  (25)

اور مژدہ دو ان کو جو ایمان لائے اورجنہوں نےاچھےکام کیےکہ ان کےلیے بہشت کے گھنے باغ ھیں جن کےنیچےنہریں جاری ھیں.جب بھی انہیں ان میں سے کوئی پھل کھانےکو ملیگا تو وہ کہیں گےکہ یہ تو وھی ھے جو پہلے ھمیں کھانےکومل چکاھے حالانکہ انہیں وہ ملتا جلتا ھوا دیا گیا ھے اور ان کے لیے ان بہشتوں میں پاک بیویاں ھون گی اور وہ ان میں ھمیشہ ھمیشہ رھیں گے"
؛؛؛
"بشر" (مژدہ دو) کا مخاطب رسول صلی اللہ علیہ ولہ وسلم بہی ہوسکتے ہیں اور مخاطب غیرمعین کی حیثیت سے یہ مقصود بہی ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ اس خوشخبری کے قابل ہیں.لہذا کوئی بہی ہو اسے حق ہے کہ وہ انہیں یہ مژدہ پہنچادے.
قرآنِ کریم میں اکثر مقامات جہاں اس قسم کا مفرد تخاطب ھے جیسے :
"اریت الذی یکذب بالدین"
"الم تر کیف"

وغیرہ ان میں یہ دونوں احتمال ھیں مگر میرے نزدیک ان میں سے اکثر مقاماتِ ترجیح دوسرے ہی پہلو کو ھے جیسے آجکل کے طرزِ تحریر میں "ذرا دیکھو تو" یا "ملاحظہ کیجئے" کہا جاتا ھے اور اس سے مقصود کوئی خاص شخص نہیں ھوتا.
مژدہ کے مستحق کون ھیں؟وہ جو ایمان لائیں اور اچھے عمل کریں ، یہ یاد رکھنے کے قابل بات ھے کہ قرآنِ کریم میں کسی ایک جگہ بھی جنت اور نعیمِ آخرت کی بشارت صرف ایمان پر مرتب نہیں کی گئی ھے بلکہ ھر جگہ ایمان کے ساتھ ساتھ اعمالِ صالحہ کا ذکر ضروری سمجھا ھے.اس کے بعد کاش انکی آنکھیں کھلیں جو صرف "جماعت مومنین" کا لقب اختیار کرکے اپنے کو اعمالِ صالحہ سے بےنیاز سمجھ لیتے ھیں اور "مومن" ھونے کے بعد
"حقوق اللہ"اور"حقوق العباد"کی پابندی کے بغیر ھی نعماتِ بہشت کے خوابِ خوشگوار میں مست ھیں.اسی طرح یہ بھی حقیقت ھے کہ صرف اعمال کی پابندی کرنا اور اصول عقائد کی خبر نہ رکھنا بھی نجات کے لیے ھرگز کافی نہیں ھے.
مولوی عبدالماجد صاحب نے بالکل درست لکھا ھے :"نیک عمل کے سمجھنے میں بہتوں کو دھوکا ھوا ھے اور یہ مغالطہ آجکل بہت عام ھوگیا ھے.سمجھا یہ جانے لگا ھے کہ نیکی اور ایمان ایک دوسرے سے بالکل الگ اور بےتعلق چیزیں ھیں اور پھر اس مفروض کی ایک فرع یہ قائم کی گئی ھے کہ کوئی شخص ممکن ھے کہ بہت صالح اعمال کا ھو لیکن ایمان سے یک لخت محروم ھے.حالانکہ یہ تخیل ھی سرتاسر غلط ھے.نیکی ایمان سے الگ نہیں. ایمان ھی کی عملی شکل کا نام ھے.ایمان جب تک قلبی ھے ایمان ھے.اگر قولی و لسانی ھے تو اسلام ھے اور وھی ایمان جب عمل سے ظاھر ھونے لگتا ھے تو اس کا نام حسنِ عمل ، حسنِ کردار یا عمل صالح پڑجاتا ھے اور حسنِ عمل کے معنی ھی یہی ھیں کہ وہ عمل رضائے الٰہی کے مطابق ھو،کوئی نیکی اگر پیش کی جاتی ھے جس کی تہہ میں جذبہ ایمانی خفیف سا بھی موجود نہیں تو وہ نیکی نہیں نیکی کی صورت ھے، نیکی کی نقل ھے.اور جس طرح نماز کی نقل محض نماز نہیں، اسی طرح کسی نیکی کی نقل پر اطلاق نیکی کا نہیں ھوسکتا.عمل نیک کی تو تعریف ھی یہ ھے کہ وہ عمل ضابطہ شریعت کے مطابق ھو"
اس میں صرف یہ جزو قابل ترمیم ھے کہ "ایمان قولی و لسانی ھو تو اسلام ھے" ایسا ھی نہیں بلکہ عملی بھی بایں معنی کہ اعمال صالحہ کے مطابق شریعتِ اسلام ظاھری طور پر پابندی ھے مگر اصولِ اعتقاد قلبی طور پر مستحکم نہیں ھیں تو وہ بھی اسلام ھی ھوگا.
اس کے ساتھ یہ بھی قابل لحاظ ھے کہ جب خوشخبری ، نوید اور مژدہ جہاں بھی ھے اس میں جس طرح ایمان تنہا نہیں ھے اسی طرح "عملِ صالح" بھی.تو اب اس بحث کی اھمیت ھی نہیں رھتی کہ بغیر ایمان عملِ صالح ھوسکتا ھے یا نہیں ، جبکہ قرآن کریم نے عمل صالح کو ایمان کے ساتھ مشروط کیا ھے تو بغیر ایمان تنہا اعمالِ صالحہ ھوں بھی تو نجات کا استحقاق سمجھنا قرآن کریم کی رو سے غلط ھی قرار پائیگا.
اس کے ساتھ ساتھ ایمان اور اعمالِ صالحہ میں ایک فرق بھی قرآن کریم سے ثابت ھے اور وہ یہ کہ استحقاق اور وعدہ جنت میں ھیں تو دونوں ضروری، لیکن اگر ایمان ھے اور اعمالِ صالحہ میں کمزوری ھے تو بطور "عفو و کرم" مغفرت کا امکان ھے لیکن اگر ایمان ھی نہیں ھے تو پھر مغفرت کا کوئی سوال ھی پیدا نہیں ھوتا جیسا کہ قرآن کریم میں ھے :
"ان الله لا یغفر ان یشرك به و یغفر مادون ذٰلك لمن یشآء"
یقینًا اللہ اسے کبھی نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اوراس کےعلاوہ جوگناہ ھواسے جس کےلیے چاھتا ھے بخش دیتا
ھے"
آخری لفظ "لمن یشاء" سے ظاھر ھے کہ یہ مغفرت بطور وجوب اور بحیثیت عموم نہیں ھے بلکہ بطور امکان اور بطور ایجاب جزائی ھے.لہذا اس کے بالمقابل حکم جو نفیِ ایمان کی صورت میں "لایغفر" کے لفظ سے دیاگیا ھے وہ بطور امتناع اور بطورِ سلب کلی ھوگا اور اس کے بعد ان دونوں کی مقابل جماعت یعنی ایمان اور عملِ صالح دونوں درجوں پر فائز افراد کے لیے جو مژدہ نجات اور نعیمِ جنت کا ھے وہ بطور وجوب اور بطور ایجاب کلی ھے جس میں کسی استثنا کی گنجائش نہیں ھے اور یہی وہ ھے جس کا عقلی طور پر عدلِ الٰہی بھی متقاضی ھے.
باغ کا یہ وصف کہ اس کے نیچے سے نہریں جاری ھیں اس لحاظ سے لایا گیا ھے کہ باغ اصل میں زمین نہیں بلکہ درختوں کا نام ھوتا ھے، اس لیے نہیریں اگرچہ زمین کے اوپر ھیں مگر باغوں کے لحاظ سے انہیں نیچے ھی کہنا درست ھے.(7)
جب بھی انہیں کھانے کو ملے گا وہ کہیں گے کہ یہ تو وھی ھے جو ھم دنیا میں کھا چکے ھیں" اس سے ظاھر ھوتا ھے کہ آخرت کے پھل جنس کے اعتبار سے وھی ھونگے جو دنیا میں ھوا کرتے ھیں اور "جب بھی" کے الفاظ جو بطور کلیہ ھیں ان سے ظاھر ھوتا ھے کہ آخرت کے میوے محدود اُن ھی اقسام میں نہیں ھیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ھے اس لیے کہ عرب اُن سے واقف تھے.کیونکہ اھل جنت کا دائرہ کسی خاص قوم و ملک والوں سے مخصوص نہیں ھے بلکہ ھر ملک کے ایمان و عمل صالح اختیار کرنے والے اس "مژدہ" کے عموم میں برابر کا حصہ رکھتے ھیں اور ظاھر ھے کہ پھل ھر ملک کے مختلف ھوتے ھیں.بہت ممکن ھے کہ وہ میوے جن کا ذکر قرآن میں نام کے ساتھ ھے بعض ممالک میں پیدا ھی نہ ھوتے ھوں لیکن قرآن اُن میں سے ھر شخص کا ھر ایک میوہ کے ملنے کے وقت یہ قول بیان کررھا ھے کہ یہ وھی ھے جو دنیا میں ھمیں ملا تھا.اس سے ظاھر ھوتا ھے کہ ھر ایک کو وھی پھل ملیں گے جنہیں وہ دنیا میں شوق سے کھاتا رھا ھے.جب ھی تو وہ یہ کہے گا کہ ارے یہ تو وھی ھے جو دنیا میں ھم کھا چکے ھیں.(8)
قرآن کریم نے انکے اس قول کو حق بجانب بھی قرار دیا ھے اور واقعہ کے اعتبار سے کسی حد تک غلط بھی.یعنی انکا یہ کہنا اس لیے حق بجانب ھے کہ شکل و صورت اور شمائل میں وہ اس دنیا ھی کے پھلوں کی طرح ھیں لہذ اُنہیں یہ کہنا چاھیئے کہ یہ وھی ھیں مگر واقعہ یہ ھے کہ اُن پھلوں سے حقیقت کے لحاظ سے بالکل مختلف ھیں.یہ دونوں باتیں ایک ھی ساتھ ایک لفظ "متشابها" سے ظاھر کی گئی ھیں کیونکہ مشابہت ھمیشہ دو ایسی ھی چیزوں میں ھوتی ھے جو ذاتًا مغایرت رکھتی ھوں لیکن کسی صفت یا صورت میں ملتی جلتی ھوں.
آخر میں اھل جنت کے لیے "ازواج مطهرة" کا ذکر کیاگیا ھے.اس میں حوریں بھی آسکتی ھیں اور جن نیک شوھروں کی دنیا والی نیک بیویاں اس لائق ھوں کہ وہ بہشت میں اپنے شوھروں کے ساتھ رکھی جائیں وہ بھی داخل ھوسکتی ھیں.
"مطھرة" کے لفظ میں ان جسمانی حدث و خبث والی کثافتوں سے پاکیزگی بھی داخل ھے جو جنت کے لیے موزوں نہیں ھیں اور اخلاقی برائیوں سے بھی.
جبکہ ازواج حوروں کے قبیل سے ھوں تو اس وصف سے متصف ھونا ظاھر ھے اور دنیاوی بیویاں بہشت میں داخل ھونے کے بعد اُن کے طبائع جسمانی و روحانی میں بھی وہ اعتدال پیدا ھوگا کہ جسمانی و روحانی کثافتیں جو دنیا کی مادی آب و ھوا کے لوازم میں سے ھیں وھاں باقی نہ رھیں گی اور اس لیے وھاں وہ "ازواج مطھرة" کے لقب کی مستحق قرار پا سکیں گی.(9)
آخری صفت یہ بیان کی گئی ھے کہ اھل جنت ان نعمات میں ھمیشہ ھمیشہ رھیں گے.یہ وہ خصوصیت ھے جو نعیمِ جنت میں دنیا کی ھر لذت و راحت سے ایک ایسا امتیاز پیدا کرتی ھے کہ وھاں (جنت) کی کوئی ایک چھوٹی سے چھوٹی نعمت دنیا کی تمام نعمتوں کے مجموعہ سے زیادہ بیش قیمت قرار پاجاتی ھے کیونکہ دنیا کی ھر نعمت چاھے کتنی ھی لذیذ کیوں نہ ھو بہرحال فانی ھے اور آخرت کی ھر ھر نعمت ھمیشہ کے لیے باقی ھے اور اسی مفادِ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کا بڑے سے بڑا مفاد بھی نظرانداز کیے جانے کے قابل ھے جس کا نتیجہ یہ ھے کہ ایک مسلمان کو مرضیِ خالق کے مقابلہ میں نہ کسی لالچ میں مبتلا ھونا چاھیئے اور نہ کبھی کسی خوف سے متاثر ھونا.
**

--------------------
(1) چندھیا دے (تاج العلماء)
(2) یکفی فی النعمته علیناان یکون فی الارض بسائط وصواضع صفر وشة ومسطوقه ولیس یحب ان یکون جمیعها کذالك (مجمع البیان)
فسواء کذلك او علی شکل الکرة فالافراش غیر فستنکر ولامدفوع لعظم جرمها وتباعداطراف (نیشاپوری)
(3) ولیس فی ذلك صراحة بموافقة الهیئة القديمة ولاصراحة بمخالفة الہيئة الحديدة (بلاغی)
(4) کل شیء کان فوق شیء اخر فهو لما تحته سماء (طبری)

(5) الظاهر ان کون الناس والحجارة وقودالنار ای حطبها یرید به اصنامهم المنحوتة الحجارة کفرله تعالی انکم وماتعبدون من دون الله حصب جهنم. (مجمع البیان)
(6) لما اعتقد الکفار فی حجارتهم المعبودة من دون الله انها الشفعاء. (رازی)

 (7). اراد الخبر عن ماء انهارها بانهاجاریة تحت الاشجار لان الماء اذا کانت تحت الارض فلاحظه فیها للعیون (مجمع البیان)
(8). معناه هذاالذی رزقنا من قبل فی الدنیا عن ابن عباس وابن مسعود(رضوان الله علیهما) قال الشیخ ابوجعفر واقوی الاقوال قول ابن عباس(رض) (مجمع البیان)
(9). قیل هن الحور العین وقیل هن من نسآء الدنیا قال الحسن هن عجائزکم الغمض الرمض الغمش طهرن من قذرات الدنیا.