تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 6تا 10)
  • عنوان: تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 6تا 10)
  • مصنف: سید مون کاظمی
  • ذریعہ: ماخوز از تفسیر فصل الخطاب
  • رہائی کی تاریخ: 16:9:14 1-10-1403


"اِنَ الَذِیْنَ کَفَرُوْاسَوَآءّ عَلَیْهم  ءَاَنْذَرْتَهمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ 6
بلاشبہ جن لوگوں نےکفراختیار کیا اُن کے حق میں یکساں ھے  خواہ آپ (ص) انہیں ڈرائیے یا  اُنہیں نہ ڈرائیےبہرحال وہ ایمان  لائیں گے نہیں"

حقیقتوں کا انکار کبھی نادانستہ یا کوششِ طلب کے ساتھ عبوری دور کے طور پر ھوتا ھے.یہ چاھے اصطلاحی طور پر کافر سمجھے جائیں مگر فعلِ ارادی کے طور پر ان الفاظ سے کہ "جن لوگوں نے کفر اختیار کیا" یہ جماعت سمجھ میں نہیں آتی.ایسی جماعت وہ ھوسکتی ھے جس کا کفر تمہیدِ ایمان بن سکے اور عمومًا یہی وہ افراد ھوتے ھیں جو آنکھوں سے پردہ ھٹنے کے بعد اور طلب کی راہ کے منزل تک پہنچ جانے کے بعد حق کو اختیار کرلیتے اور ایمان کے درجہ پر فائز ھوجاتے ھیں.ان ھی کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعوت و تبلیغ اور تنشیر و انذار کے فوائد مترتب ھوتے ھیں اور انہی کو کارگاھِ اصلاح و ارشاد کا ماحصل سمجھنا چاھیئے.
"الذین کفروا" سے یہ جماعت مراد نہیں ھے بلکہ ایسے لوگ مراد ھیں جو حق کو حق سمجھنے کے بعد باطل کو اس پر ترجیح دیتے ھیں جس کے لحاظ سے قرآن مجید نے قوم ثمود کے باب میں کہا ھے :
"فاستحبواالعمٰی علی الهدٰی"
انہوں نے اندھے پن کو ھدایت پر ترجیح دی" (حم سجدہ#17(
اور کہیں کسی جماعت کے بارے میں :
"اولئكً الذین اشترواالضللة بالهدٰی والعذاب بالمغفرة"
یہ وہ ھیں جنہوں نےھدایت کے بدلے میں گمراھی اور بخشش الہی کےعوض عذاب کو مول لیا ھے" (البقرہ#175(
ایسے لوگ وہ ھوتے ھیں جن کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ھدایتیں بیکار ھوا کرتی ھیں، اس لیے کہ آنکھوں پر پردہ ھو تو ھٹے اور راہ طلب میں قدم زنی ھوتو کسی رھبر کی دست گیری سہارا دے.ایسے ھی گروہ کے متعلق اس آیت میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مخاطب کرکے ارشاد ھوا ھے کہ "چاھے آپ ڈرایئے اور چاھے نہ ڈرایئے یہ ایمان نہیں لائیں گے"
اب اگر یہ آیت یہود یا مشرکین کے ایک خاص طبقہ کے متعلق ھے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ھے (1) اور اسے حافظ ابن جریر طبری نے اختیار کیا ھے (2) تو اسے خالق کی طرف سے وقوع میں آنے والے غیب کی اطلاع سمجھا جاسکتا ھے.لیکن اگر اسے ایک عام حکم سمجھا جائے جیسا کہ ظاھرِ آیت ھے تو یہ کوئی پیشین گوئی نہیں ھے بلکہ ان کے کفر اختیاری کے مقتضائے طبیعت کا بیان ھے اور اُن کے راہِ ایمان پر نہ آنے سے جو رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ذرا رنج پہنچتا ھے اس کی تسکین ھے کہ اگر یہ راہِ حق پر نہیں آتے تو اس میں آپ کا قصور تھوڑی ھے.یہ تو ان کے کفر اختیاری کا نتیجہ ھے جس کی وجہ سے ان کےلیے ھدایت اور عدم ھدایت یکساں ھوگئی ھے.
جناب عبدالماجد صاحب نے یہاں حقیقت کی ترجمانی اچھے عنوان سے کی ھے.وہ کہتے ھیں :
"طبیب حاذق اپنے علم کی رو سے مدتوں پیشتر خبر دے دیتا ھے کہ فلاں بدپرھیز، خودرائےمریض اچھانہ ھوگا.کیااس پیشین گوئی ، اس اخبار غیب میں اُس طبیب کی خواھش و مرضی کو بھی کچھ دخل ھوتاھے"
بقول مفسر تھانوی صاحب اس کا کافر کا ناقابل ایمان ھونا اللہ کے اس خبر دینے کی وجہ سے نہیں ھے بلکہ خود اللہ تعالٰی کا یہ خبر دینا اس کافر کے ناقابلِ ایمان ھونے کی وجہ سے ھوا ھے اور ناقابل ھونے کی صفت خود اس کی شرارت و عناد و مخالفتِ حق کے سبب سے پیدا ھوئی ھے.اللہ تعالی نے ھر شخص میں اس کی پیدائش کے ساتھ استعداد قبولِ حق کی رکھی ھے جیسا حدیث میں آگیا ھے مگر یہ شخص خود اپنی ھوائے نفسانی اور خود غرضی کی وجہ سے حق کی مخالفت کرتا ھے یہاں تک کہ ایک روز وہ استعداد فنا ھوجاتی ھے.
اسی کو بہت پہلے امین الاسلام طبرسی (رح) نے ان الفاظ میں کہا ھے :
"الصحیح ان نقول ان العلم یتناول  الشئ علٰی ماهوبه يجعله علٰی ما هو به فلا يمتنع ان بعلم حصول  شئ بعیینه وان کان غیرہ مقدورا"
یہ کہنا صحیح ھوگا کہ علم کس  چیزپر حاوی ھوتا ھے جس طرح  پر وہ ھوگی اور وہ اس طرح پر  اُسے کر نہیں دیتا لہذا یہ امر غیر ممکن نہیں ھے کہ کسی معین  چیز کے ھونے کا اُسے علم ھو اگرچہ اس شخص کواسکےخلاف پر قدرت حاصل ھو" (مجمع البیان)
**
"خَتَمَ الله عَلٰی قُلُوْبِهم وَعَلٰی  سَمْعِهمْ ^ وَ عَلٰی اَبْصَارِهمْ  غِشَاوَةّ وَلَهمْ عَذَابّ عَظِیْمّ 7
مہر کردی ھے اللہ نےاُن کے دلوں پر اور اُن کے سننے کی  طاقت پراور اُن کی نگاھوں پر  پردہ پڑاھوا ھےاوراُن کےلیے
بہت دردناک عذاب ھے"

قلب سے مراد یہ "جسمانی عضو" نہیں ھے جسے فن تشریح میں قلب کہا جاتا ھے بلکہ مرکز تعقل و شعور مراد (3) ھے جو اس لفظ کے عرفی معانی ھیں.اور خدا کا مہر کردینا کنایہ ھے اس بات سے کہ اس نے نیک توفیق سلب کرلی ھے بوجہ ان کی ھٹ دھرمی کے اور یہ مطلب نہیں ھے کہ بندوں کو مجبور کرکے ان سے گناہ کرواتا ھے.(تاج العلماء)
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ھے :
"الختم هوالطبع علٰی قلوب  الکفار عقوبة علٰی کفرهم"
ختم سےمراد ھے کافروں کے  دلوں پر مہر لگا دینا ان کےکفر کی سزا میں" (صافی(
اس کی شاھد دوسری آیتِ قرآن ھے :
"بل طبع الله علیها بکفرهم"
اللہ نے ان پر مہر کردی ھے ان  کےکفر کے سبب سے" (النساء#155(
ھمیشہ سے علمائے امامیہ کا یہی مسلک رھا ھے.اس کے برخلاف مسلم اکثریت کے علماء زور و شور سے اس کو شیعوں کے عقیدہ عدل کے خلاف ثبوت میں پیش کرتے رھے چنانچہ ابن جریر طبری ایسا قد آور عالم اس آیت کے تحت لکھتا ھے کہ :
"هذه الاٰیة من اوضح الاقلة علٰی  فساد قول المنکرین تکلیف ما لایطاق"
یہ آیت سب سےزیادہ واضح دلیل هے اُن لوگوں کےقول کے غلط هونےکی جو یہ کہتے ھیں کہ ایسی باتوں کا
حکم نہیں ھوسکتا جو بندہ کی طاقت  سے باھر ھیں" (جامع البیان # ج1)
مگر کبھی ضمیر کا دباؤ اسلاف کی تقلید پر بھی غالب آجاتا ھے چنانچہ دور حاضر میں مولانا عبدالماجد دریابادی نے اس کی تشریح وھی کی ھے جو ھمیشہ سے علمائے شیعہ کرتے رھے ھیں.وہ لکھتے ھیں :
"اللہ کی طرف سے مہر لگ جانے کا یہ فعل بندہ کے کفرِ اختیاری کے بعد ھوتا ھے نہ کہ اس کے قبل.اس کا نتیجہ ھوتا ھے نہ کہ اس کا سبب. فطرت سلیم ھر انسان کو عطا ھوئی ھے اور اس میں دلائل حق پر غوروفکر کی استعداد بھی شامل ھے.لیکن انسان جب اپنے ارادہ و عقل کا غلط استعمال کرنے لگتا ھے اور آسمانی ھدایتوں اور خداوندی نشانیوں سے مسلسل موڑے ھوئے قانونِ شیطانی پر چلنے کی ٹھان لیتا ھے تو سلسلہ غصبی کے ماتحت آجاتا ھے انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ رحمت سے خارج ھوجاتا ھے اور نصرتِ الہی اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ھے.اب ھر روشنی اُسے تاریکی اور ھر تاریکی اُسے روشنی نظر آنے لگتی ھے چنانچہ کھلے ھوئے دلائلِ حق اور روشن سے روشن آیاتِ الہی بھی انہیں نظر نہیں آتے.یہ سب ثمرہ ھے ان کافروں کے ارادی اغراض عن الحق اور دانستہ کج روی کا"
اس طرز بیان کی اور فہم ، سماعت و بصارت کی قوتوں سے سزا کے طور پر محرومی کی مثالیں قدیم صحیفوں میں بھی کثرت سے ملتی ھیں.
"تم سنا کرو پر سمجھو نہیں.تم دیکھا کرو پر بوجھو نہیں.تو ان لوگوں کے دلوں کو چرباوےاور ان کے کانوں کو بھاری کر" (اسعیا : 9-10)
"وہ نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے کہ آنکھیں لیپی گیئں.سو وہ دیکھتے نہیں اور ان کے دل بھی سو وہ سمجھتے نہیں" (اسعیا 18:24)
"تمہاری آنکھیں جو کہ بنی ھیں موندی ھیں اور تمہارے سروں پر جو کہ غیب میں حجاب ڈالا ھے" (اسعیا 10:29)
"میں نے انہیں ان کے دلوں کی سرکشی کے بس میں چھوڑ دیا" (زبور 11:1 و 12)
انجیل میں اس قسم کی مثالوں کےلیے ملاحظہ ھو رومیوں 7:11 ، 18 و 20 تھسلنیکیون 11:2)


"وَمِنَ النَاسِ مَنْ یَقُوْلُ اٰمَنَا بِالله وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ 8
اور لوگوں میں بعض ایسے  ھیں جو کہتے ھیں کہ ھم  اللہ اور روز آخرت پر ایمان  لائے حالانکہ وہ مومن ھیں  نہیں"

اس سے پہلے اس سورہ میں دو قسم کے افراد کا ذکر ھوچکا ھے.ایک مومن یعنی وہ جنہوں نے دل سے اسلام قبول کیا ھے.دوسرے وہ جو کھلے ھوئے کافر ھیں.اب تیسری جماعت کا ذکر شروع ھوتا ھے یہ ھیں زبان سے اظہارِ اسلام کرنے اور دل میں کفر کو رکھنے والے.ان کو اصطلاحی طور پر "منافق" کہتے ھیں.
پہلی جماعتوں کا ذکر چار آیتوں میں ھوگیا.دوسری کا دو آیتوں میں مگر تیسری جماعت کا ذکر یہاں سے شروع ھوا ھے تو تیرہ آیتوں تک مسلسل چلا گیا ھے. (4) بات یہ ھے کہ ان "مارِآستین" (آستین کے سانپ) طرح کے افراد اور نمائشی دوستوں سے اسلام کو جتنے نقصان پہنچ سکتے تھے اور پہنچنے والے تھے وہ اس کے کھلے دشمنوں سے نہیں پہنچ سکتے تھے اور نہ پہنچنے والے تھے لہذا ضرورت تھی کہ اس جماعت کے افعال و اعمال اور اُن کے کردار کی نوعیت اور اُن کی سیرت کے خط و خال کے متعلق مسلمانوں کو سختی سے متنبہ کیا جائے.اب اگر سیرتِ اسلاف سے آئندہ مسلمانوں کا کسی قسم کا واسطہ نہ ھوتا تو ضرورت صرف صدرِاسلام میں ھی ختم ھوجاتی مگر چونکہ یہ کھلی ھوئی حقیقت ھے کہ قیامت تک کے مسلمانوں کی "سیرت سازی" میں "گزشتگان" کے "نقوشِ پا' کو بہت بڑا دخل ھے اس لیے اس جماعت کے کردار پر نظر اور قرآنی بیانات کی کسوٹی پر رسولِ اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور کی مسلمان شخصیتوں کے کردار کو جانچنے اور پرکھنے کی مہم قیامت تک کے مسلمانوں کی ایمانی زندگی کی تشکیل کےلیے ایک لازمی جزو بن گئی اور یہ ایک ایسی "اھم ضرورتِ دینی" ھے جس کے مقابل میں "اذکرواموتاکم بخیر" کا اخلاقی قانون استثناء کے رخنہ سے شکستہ ھوئے بغیر نہیں رہ سکتا.
قرآن مجید کے اتنے شدید اھتمام سے یہ بھی ظاھر ھے کہ یہ جماعت صرف چند "سرپھرے" عبداللہ بن اُبی کے اصحاب ھی میں محدود نہ تھی جن کا نفاق نام بنام طشت از بام (ظاھر) ھوچکا تھا بلکہ اس جماعت میں ایسے افراد بھی ھوسکتے تھے جن کے باطن پر "سیاست" کا بہت گہرا پردہ پڑا ھوا تھا اور جن کے نام عام طور پر مسلمانوں کو معلوم نہ تھے جن پر متنبہ کرنے کےلیے دوسری جگہ خود رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ارشاد فرمایا ھے کہ "ان میں بعض ایسے ھیں جنہیں آپ (ص) بھی نہیں جانتے
"لاَ تعلمھم نحن نعلمھم" (التوبہ#101(

 

یَخَادِعُوْنَ الله وَالَذِیْنَ اٰمَنُوْا° وَمَا یَخْدَعَوْنَ اِلآَ اَنْفُسَهمْ وَ  مَا یَشْعُرُوْنَ 9
وہ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاھتے ھیں  حالانکہ حقیقۃً وہ خود اپنے
سوا کسی کو دھوکا نہیں  دیتےاورانہیں اس کااحساس  نہیں ھے"


حقیقت میں جو اللہ کو اس کی صفات جلال و کمال کے ساتھ مانتا ھو وہ اُسے دھوکا دینے کا تصور ھی نہیں کرسکتا مگر چونکہ منافقین کے دل میں اللہ کی معرفت ھے ھی نہیں. اُن کا اقرار اللہ کے متعلق صرف زبانی ھے اس لیے وہ ایسے طریقے اختیار کرتے ھیں کہ اُن کے کفر باطنی پر پردہ پڑا رھے.وہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صاحبانِ ایمان کو اپنی خیرخواھی کا یقین دلاتے رھتے ھیں تاکہ وہ منافع جو ایمان کے ساتھ وابستہ ھیں حاصل ھوسکیں.اس طرح براہ راست تو رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اھل ایمان کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ھیں مگر چونکہ بمقتضائے اسلام رسول (ص) کو رسول (ص) کہنے کے معانی یہ ھیں کہ اس کے پس پشت اللہ کی طاقت ھے اس لیے نتیجۃً یہ انکا عمل اللہ کو فریب دینے کی کوشش بن جاتا ھے.(5)
اب اس کوشش کا انجام کیا ھوتا ھے؟اُسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ھے کہ "حقیقۃً وہ سوا خود اپنے ھی کسی کو دھوکا نہیں دیتے" یعنی مضرت (نقصان) اس دھوکا دینے کی خود انہی تک پہنچتی ھے.(6)، اس بنا پر کہ اصل ایمان کا نتیجہ جو نجات آخرت ھے اُس سے یہ ان تمام کوششوں کے بعد بھی محروم رھتے ھیں بلکہ اس فریب دھی کی وجہ سے اُن کا عذاب صریحی کفار کے عذاب سے بھی زیادہ ھوتا ھے
"ان المنافقین فی الدرك الاسفلمن النار" (النساء#145)
مگر انہیں اس کا احساس نہیں اس لیے کہ وہ آخرت کے دل سے قائل ھی نہیں.وہ تو بس مادی منافع ھی کو سب کچھ سمجھتے ھیں اور ان منافع کو حاصل کرکے بس اپنے کو فریب دھی میں کامیاب سمجھ لیتے ھیں.انہیں کیا خبر کہ اس کے پس پشت کیا برا انجام پوشیدہ ھے.
چھوٹے پیمانے پر عبادات و فرائض میں ریاکاری کرنے والا اسی حکم میں ھے بڑے خضوع و خشوع کے ساتھ نمازیں ادا کرتا ھے خلق خدا میں مرجعت حاصل کرنے کے لیے پھر اس پر اللہ سے ثواب کا امیدوار بھی ھے.یہ کیا اللہ کو فریب دینے کی کوشش نہیں ھے؟ نتیجہ میں جب یہ سب عبادتیں رد ھونگی اور ثواب کی دنیا سنسان نظر آئیگی تو محسوس ھوگا کہ اُس نے دھوکا حقیقت میں خود اپنے آپ ھی کو دیا تھا.اسی لیے رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث ھے کہ جسے امام جعفرالصادق علیہ السلام نے روایت کیا ھے :
"انماالنجاة ان لاتخادعواالله فیخدعکم فان من یخادع الله  یخدعه ویخلع منه الايمان و نفسه يخدع لو يشعر"
نجات اس میں مضمر ھے کہ  اللہ کودھوکادینےکی کوشش  نہ کرو نہیں تووہ ایساکرے گا  کہ تم خود دھوکے میں پڑجاؤ
گے اس لیے کہ جو اللہ کو  دھوکادینے کی کوشش کریگا  نتیجہ میں یہ خود دھوکاکھائے گااور وہ اس سےایمان کالباس
اتارلیگا اوریہ خود اپنے آپ کو  دھوکادیگااگراس کو شعورھو" کسی نے پوچھا  "وکیف یخادع الله"  یہ اللہ کو کیونکر فریب دینا  چاھے گا"
حضرت علیہ السلام نے فرمایا "یعمل ماامرہ اللہ عزوجل ثم  یرید به غیرہ" جن باتوں کا حکم اللہ نے دیا
ھےانہیں انجام دیگا مگر اس  کامقصدرضائےالہی نہ ھوگا  کچھ اور ھوگا" (صافی)

"فِیْ قُلُوْبِهمْ مَرَضّ فَزَادَهمُ الله مَرَضًا^وَلَهمْ عَذَابّ اَلِیْمّ م بِمَاکَانُوْا یَکْذِبُوْنَ 10
ان کےدلوں میں ایک خاص طرح کی بیماری ھے(1) تو الله نے ان کی بیماری اور بڑھادی اور  انہیں ایک دردناک عذاب اس وجہ
سے ھوگا کہ وہ جھوٹ بولا  کرتے تھے"
مرض کیا ھوتا ھے؟ اعتدال طبعی سے ھٹ جانا، دل میں اگر ھٹ دھرمی، تعصب اور ماحول کے جراثیم وغیرہ کے اثرات نہ ھوں تو طبعًا وہ حق کے قبول کرنے پر مائل ھوگا (کل مولود یولد علٰی فطرة الاسلام) اب اس کے خلاف شک ، کفر یا نفاق یہ سب باتیں غیر طبعی اسباب سے پیدا ھوتی ھیں جو قلب کے لیے ایک بیماری کی حیثیت رکھتی ھیں.اب اس بیماری کا جو کسی دل میں پیدا ھوچکی ھے نتیجہ یہ ھے کہ جو ھدایت کے پیام ، جو وعظ و نصیحت کی آیات اس کے سامنے آتی ھیں وہ بجائے اس کو فائدہ پہنچانے کے اس کے عناد و تعصب اور جوشِ انکار میں اور اضافہ کرتی ھیں جس کی ذمہ دسری خود اس کے سوء مزاجِ ذاتی پر ھے ، اس ھدایت و ارشاد پر نہیں جس کا اصلی مقصد حقیقۃً ارشاد و ھدایت بھی ھے.
اب یہ ایک انداز تکلم ھے کہ جو قہری نتیجہ کسی امر پر مرتب ھو اس کو استعارةً بطورِ غرض مقصد ذکر کردیا جاتا ھے.جیسے
"فالتقطه اٰل فرعون لیکون لهم عدواوحزنا" (القصص#08)
فرعون کےگھر والوں نےموسی (ع)کواٹھالیاتاکہ یہ انکے دشمن جان اور سرمایہ رنج وملال ثابت  ھوں"
ظاھر ھے آلِ فرعون کا مقصد موسی علیہ السلام کے اٹھانے سے دشمنِ جان اور سرمایہ ملال فراھم کرنا نہ تھا مگر چونکہ خارج میں نتیجہ یہی مترتب ھوا اور اس لیے کہہ دیا گیا کہ آلِ فرعون نے اُنہیں اس کے لیے اٹھایا تھا.بس اسی طرح خالق کا مقصود اپنی آیات سے یہ نہیں ھے کہ ان کے مرض میں اضافہ کیا جائے مگر چونکہ ھوتا یہی ھے جو قرآن کی آیت اترتی ھے، جو معجزہ ظاھر ھوتا ھے، جو رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو فتح حاصل ھوتی ھے، جو اللہ کی جانب سے اپنے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر انعام و اکرام ھوتا ھے ، ھر ایک سے منافقین کی عداوت ، ان کے اختلاف اور منافقت میں اضافہ ھی ھوتا ھے.اس لیے یہ کہہ دیا گیا کہ "اللہ نے ان کے مرض میں اضافہ کردیا" اس کا عقیدہ جبر سے قطعًا کوئی تعلق نہیں ھے.اسی بنا پر اس "فعلِ الہی زادھم" سے پہلے آیا ھے "فی قلوبهم مرض" درمیان میں فائے تفریع لاکر "زادھم اللہ مرضا" کہا گیا ھے جس سے صاف ظاھر ھے کہ وہ پہلا مرض از جانبِ خدا نہیں ھے اور اس زیادتی مرض کا اصل سبب ھی ذاتی علت ھے لہذا اس کا سبب راجعِ خردان افراد کے نفوس کی طرف ھے نہ کہ اللہ کے جبر و قہر کی طرف.
مولانا عبدالماجد صاحب لکھتے ھیں : "فزادھم" میں حرف "ف" بہت اھم ھے.یہ گویا اس کا اعلان ھے کہ آگے جس فعل کا ذکر آرھا ھے وہ محض بطور ثمرہ یا نتیجہ کے پیدا ھوا ھے "والفاء للدلالة علٰی ترتب مضمونها عليه (ابوسعود) حق تعالٰی کی جانب اس قسم کے افعال کا انتساب صرف مجازی حیثیت رکھتا ھے یعنی یہ نہیں کہ اللہ نے خواہ مخواہ اُن سے یہ افعال کرائے.اس نے تو صرف وہ حالات و اسباب پیدا کردٰیئے جن سے ان بدنصیبوں نے خود اپنے مرض کے بڑھانے کا کام لیا ورنہ اگر وہ اپنی عقل و ارادہ کا صحیح استعمال کرتے تو انہی اسباب و حالات سے ھدایت بھی پاسکتے تھے"
اس قسم کے افعال کا حق تعالٰی کی طرف انتساب قدیم صحیفوں کا بھی ایک محاورہ عام ھے
اسرائیل نے مجھے نہ چاھا تب میں نے انہیں دلوں کی سرکشی کے بس میں چھوڑ دیا. (زبور 10:08 و 11)
بس خدا نے منھ موڑ کر انہیں چھوڑ دیا کہ آسمانی فوج کو پوجیں. (اعمال 42:7)
خدا نے ان کے دلوں کی خواھش کے مطابق انہیں ناپاکی میں چھوڑ دیا کہ ان کے بدن آپس میں بے حرمت کیے جائیں. (رومیوں 24:1)
آخر میں علاوہ اس عذاب کے جو منافقین کے لیے پہلے "ولھم عذاب عظیم" کے الفاظ میں بتایا جا چکا ھے ان کےلیے ایک مزید عذاب کی خبر دی گئی ھے کہ "سن کےلیے ایک عذابِ دردناک اس لیے ھے کہ یہ غلط بیانی سے کام لیتے تھے" اور اسی بنا پر مجموعی طور سے ان کا عذاب صریحی کافروں کے عذاب سے شدید تر ھوگیا جس کا ذکر پہلے ھوچکا ھے.

_____________________________________
(1). قال قائلون انهم رؤساء الیهود المعاندون الذین وصفهم الله تعالی بانهم یکتمون الحق وهم یعلمون وهو قول ابن عباس رضی الله عنهما (رازی)
(2). اولی هذه التأویلات بالایة تاویل ابن عباس رضی الله عنهما (جامع البیان)
(3). اللطیفة الربانیة التی بها یکون الانسان انسانا (نیشاپوری) فانقلب المعنوی هو العقل (شرح اصول کافی ملا صدرا)
(4). وصف حال الکفار فی اٰیتین وحال المنافقین فی ثلٰث عشرة اٰیة فعٰی علیهم خبثم ونکرهم وفضحهم وسفهم وتهکم بفعلهم وستجل طغیانهم وعمهم ودعاهم صمابکما وعمیا وضرب بهم الامثال الشنبعة. (نیشاپوری)
(5). والتجوز باعتبار ان الجرأة علٰی مخادعة الرسول فی مقدمة الذین اٰمنوا من حیث انه رسول اللہ بمنزلة الجرأة علٰی مخادمة اللہ. (البلاغی)
(6). فوبال خداعهم راجع الٰی انفسهم. (مجمع البیان)