۱۔ تکبر اور خود بینی
قرآن مجید وہ نکات جو منافقین کی نفسیاتی شناخت کے سلسلہ میں، روحی و نفسیاتی خصائص کے عنوان سے بیان کر رھا ھے، پھلی خصوصیت تکبر و خود محوری ھے۔
کبر کے معنی اپنے کو بلند اور دوسروں کو پست تصور کرنا، تکبر پرستی ایک اھم نفسیاتی مرض ھے جس کی بنا پر بھت زیادہ ھی اخلاقی انحرافات پیش آتے ھیں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں۔
((ایاک والکبر فانه اعظم الذنوب والئم العیوب))[1]
تکبر سے پرھیز کرو اس لئے کہ عظیم ترین معصیت اور پست ترین عیب ھے۔
کبر، اعظم الذنوب ھے یعنی عظیم ترین معصیت ھے کیونکہ تکبر ھی کے ذریعہ کفر نشو و نما پاتا ھے، ابلیس کا کفر اسی کبر سے وجود میں آیا تھا، جس وقت اسے آدم(ع) کے سجدہ کا حکم دیا گیا، اس نے خود کو آدم علیہ السلام سے بزرگ و برتر تصور کرتے ھوئے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور اس فعل کی بنا پر کفر کے راستہ پر چل پڑا۔
(ابیٰ واستکبر و کان من الکافرین)[2]
اس نے انکار و غرور سے کام لیا اور کافرین میں ھوگیا۔
انبیاء حضرات کے مخالفین، تکبر فطرت ھونے ھی کی بنا پر پیامبروں کے مقابلہ میں قد علم کرتے تھے، اور انبیاء حضرات کی تحقیر و تکفیر کرتے ھوئے آزار و اذیت دیا کرتے تھے، جب ان کو ایمان کے لئے دعوت دی جاتی تھی وہ اپنی تکبری فکر و فطرت کی بنا پر انکار کرتے ھوئے کھتے تھے۔
(قالوا ما انتم اِلّا بشر مثلنا)[3]
ان لوگوں نے کھا تم سب ھمارے ھی جیسے بشر ھو۔
کبر، الئم العیوب، ھے یعنی تکبر پست ترین عیب ھے اس لئے کہ متکبر فرد کی نفسیاتی حقارت و پستی کی نشان دھی ھوتی ھے، وہ فرد جو خود کو بزرگ تصور کرتا ھے وہ احساس کمتری کا شکار رھتا ھے، لھذا چاھتا ھے کہ تکبر کے ذریعہ اس کمی کا مداوا کرسکے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
((مامن رجل تکبّر او تجبّر اِلا لذلّة و جدها فی نفسه))[4]
کوئی فرد نھیں، جو تکبر یا ظالمانہ گفتگو کرتا ھو، اور پست طبیعت و حقیر نفس کا حامل نہ ھو۔
احادیث و روایات کے مطابق تکبر میں دو اھم بنیادی عنصر پائے جاتے ھیں، افراد کو پست و حقیر سمجھنا اور حق کے مقابلہ میں سر تسلیم خم نہ کرنا۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
((الکبر ان تغمص الناس و تسفه الحق))[5]
تکبر یہ ھے کہ لوگوں کی تحقیر کرو اور حق کو بے مقدار تصور کرو۔
اسلامی اخلاق کے پیش نظر تکبر کے دونوں عنصر شدید مذموم ھیں اس لئے کہ اشخاص کی تحقیر کرنا خواہ وہ ظاھراً کسی جرم کے مرتکب بھی ھوئے ھوں محرمات میں شمار ھوتا ھے، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
((ان الله تبارک و تعالی ……اخفی ولیّه فی عبادہ فلا تستصغرون عبدا من عبید الله فربما یکون ولیّه وانت لا تعلم))[6]
خداوند عالم نے اپنے خاص افراد کو اپنے بندوں کے درمیان پھیلا رکھا ھے، بندگان خدا میں کسی کی تحقیر و بے احترامی نہ کرو، شاید وہ اللہ کے دوستوں میں سے ھوں اور تمھیں علم نہ ھو۔
ایک دوسری روایت میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا گیا ھے کہ خدا فرماتا ھے:
((لیأذن بحرب منی من اذلّ عبدی المؤمن))[7] جو بھی کسی بندۂ مومن کی تحقیر و تذلیل کرے ھم سے جنگ کے لئے آمادہ ھوجائے۔
جمھوری اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی (رح) کتاب تحریر الوسیلہ کے امر بالمعروف والے باب میں تحریر فرماتے ھیں۔
معروف کے حکم دینے اور برائی سے روکنے والے خود کو مرتکب گناہ فرد سے برتر و بغیر عیب کے نہ جانیں، شاید ھوسکتا ھے کہ مرتکب گناہ (خواہ کبیرہ) اچھے صفات کا حامل ھو اور خدا اس کو دوست بھی رکھتا ھو لیکن تکبر و خود بینی کے گناہ کی وجہ سے امر بالمعروف کرنے والا سقوط کرجائے اور شاید ھوسکتا ھے کہ آمر معروف و ناھی منکر ایسے برے صفات کے حامل ھوں کہ خداوند متعال کی نگاہ میں مبغوض ھوں چاھے خود انسان اپنے اس برے صفت کا علم نہ رکھتا ھو۔
لیکن اس بات کو عرض کرنے کا مطلب یہ نھیں کہ امر بالمعروف اور حدود الھی کا اجرا ترک کردیا جائے بلکہ انسان و اشخاص کی کرامت و حرمت اور ایمانی منزلت کو حفظ کرتے ھوئے امر بالمعروف اور حدود کا اجرا کرنا چاھیے۔
پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ھیں:
((اذا زنت خادم احدکم فلیجلدها الحدو لا یعیّرها))[8]
اگر تمھاری کسی کنیز نے زنا کا ارتکاب کیا ھے تو اس پر زنا کی حد جاری کرو مگر اس کی عیب جوئی و طعنہ زنی کا تم کو حق نھیں۔
اسی بنا پر بارھا دیکھا گیا کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین نے زناء محصنہ کے مرتکب افراد پر حد جاری کرنے کے بعد خود با احترام اس کے جنازہ پر نماز میت پڑھی ھے اور ان کی حرمت و آبرو کو حفظ کیا ھے [9]
اکثر روایات اور احادیث میں حق کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے، نزاع اور جدال غیر احسن کے عنوان سے اس کی مذمت کی گئی ھے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام کا قول ھے:
((ما الجدال الذی بغیر التی هی احسن ان تجادل مبطلا فیورد علیک مبطلا فلا تردّه بحجة قد نصبها الله ولکن تحجد قوله او تحجد حقا یرید ذالک المبطل ان یعین به باطله فتجحد ذلک الحق مخافة ان یکون علیک فیه حجة))[10]
جدال غیر احسن یہ ھے کہ کسی ایسے فرد سے بحث کیا جائے جا ناحق ھے اور اس کے ساتھ حجت و منطق نیز شرعی دلیل کے ذریعہ وارد بحث نہ ھوا جائے اور اس کے قول یا اس کے حق کو انکار کردیا جائے اس خوف کی بنا پر کہ خدا ناخواستہ (حق) کے ذریعہ اپنے باطل کے لئے مدد لے۔
قرآن و روایات میں تسلیم حق کے سلسلہ میں زیادہ تاکید کی گئی ھے حق پذیری بندگان خدا اور مومنین کے صفات میں بیان کیا گیا ھے۔
(فبشّر عباد الذین یستمعون القول فیتّبعون احسنه،)[11]
اے پیغمبر! آپ میرے بندوں کو بشارت دے دیجئے جو باتوں کو سنتے ھیں اور جو بات اچھی ھوتی ھیں اس کا اتباع کرتے ھیں،
حق کے مقابلہ سر تسلیم خم کرنا مومنین کے صفات و خصائص میں سے ھے اور کبر کا نکتۂ مقابل ھے۔
(طلبت الخضوع فما وجدت الا بقبول الحق، اقبلوا الحق فان قبول الحق یبعد من الکبر)[12]
میں نے خضوع کو طلب کیا اور اس کو صرف تسلیم حق میں پایا حق کے مقابل تسلیم پزیر رھو کہ یہ حالت تم کو کبر سے دور رکھتی ھے۔
آیات قرآن کی بنا پر تکبر منافقین کی صفات میں سے ھے۔
(و اذا قیل لهم تعالوا یستغفر لکم رسول الله لوّوا رئوسهم ورایتهم یصدون وهم مستکبرون)[13]
اور جب ان سے کھا جاتا ھے کہ آؤ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمھارے حق میں استغفار کریں گے تو یہ سر پھرا لیتے ھیں اور تم دیکھو گے کہ استکبار کی بنا پر منھ بھی موڑ لیتے ھیں۔
(و اذا قیل له اتّق الله اخذته العزّة بالاثم)[14]
جب ان سے کھا جاتا ھے کہ تقوائے الھی اختیار کرو تو وہ تکبر کے ذریعہ گناہ پر اتر آتے ھیں۔
(و اذا قیل لهم لا تفسدوا فی الارض قالوا انّما نحن مصلحون)[15]
جب ان سے کھا جاتا ھے کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو کھتے ھیں کہ ھم تو صرف اصلاح کرنے والے ھیں۔
قرآن کریم منافقین کے سلسلہ میں دونوں مناظر (تحقیر افراد اور عدم تسلیم حق) کی تصریح کررھا ھے کہ وہ خود کو اھل فھم و فراست اور دیگر افراد کو سفیہ (احمق) سمجھتے ھیں اور اس وسیلہ سے اشخاص کی تحقیر کرتے ھیں۔
(و اذا قیل لهم آمنو کما آمن الناس قالوا أنؤمن کما آمن السفهاء)[16]
جب ان سے کھا جاتا ھے کہ دوسرے مومنین کی طرح ایمان لے آؤ تو کھتے ھیں کہ کیا ھم بے وقوفوں کی طرح ایمان اختیار کرلیں؟
منافقین کے بارے میں عدم تسلیم حق کی تصویر کشی کرتے ھوئے خدا ان کو خشک لکڑیوں سے تشبیہ دے رھا ھے۔
(کأنّهم خشب مسنّدة)[17]
گویا سوکھی لکڑیاں ھیں جو دیوار سے لگادی گئی ھیں۔
۲۔ خوف و ھراس
قرآن کریم منافقین کی نفسیاتی خصوصیت کے سلسلہ میں دوسری صفت خوف و ھراس کو بتا رھا ھے، قرآن ان کو بے حد درجہ ھراساں و خوف زدہ بیان کررھا ھے، اصول کی بنا پر شجاعت و شھامت، خوف وحشت کا ریشہ ایمان ھوتا ھے، جھاں ایمان کا وجود ھے دلیری و شجاعت کا بھی وجود ھے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:
((لایکون المومن جبانا))[18]
مومن بزدل و خائف نھیں ھوتا ھے۔
قرآن مومنین کی تعریف و توصیف کرتے ھوئے ان کی شجاعت اور مادی قدرت و قوت سے خوف زدہ نہ ھونے کی تصریح کر رھا ھے۔
(…… وانّ الله لا یضیع اجر المؤمنین الذین استجابوا لِلّٰه والرسول من بعد مَا اصابهم القرح للّذین احسنوا منهم واتقوا اجر عظیم الذین قال لهم النّاس ان النّاس قد جمعوا لکم فاخشوهم فزادهم ایمانا و قالوا حسبنا لله و نعم الوکیل)[19]
خداوند عالم صاحبان ایمان کے اجر کو ضائع نھیں کرتا (خواہ شھیدوں کے اجر کو اور نہ ھی مجاھدوں کے اجر کو جو شھید نھیں ھوئے ھیں) یہ صاحبان ایمان ھیں جنھوں نے زخمی ھونے کے بعد بھی خدا اور رسول کی دعوت پر لبیک کھا (میدان احد کے زخم بھبود بھی نہ ھونے پائے تھے کہ حمراء الاسد میدان کی طرف حرکت کرنے لگے) ان کے نیک کردار اور متقی افراد کے لئے نھایت درجہ عظیم اجر ھے، یہ وہ ایمان والے ھیں کہ جب ان سے بعض لوگوں نے کھا کہ لوگوں نے تمھارے لئے عظیم لشکر جمع کرلیا ھے لھذا ان سے ڈرو تو ان کے ایمان میں اور اضافہ ھوگیا اور انھوں نے کھا کہ ھمارے لئے خدا کافی ھے اور وھی ھمارا ذمہ دار ھے۔
حقیقی صاحبان ایمان کی صفت شجاعت ھے لیکن چونکہ منافقین ایمان سے بالکل بے بھرہ مند ھیں، ان کے نزدیک خدا کی قوت لایزال وبی حساب پر اعتماد و توکل کوئی مفھوم و معنا نھیں رکھتا ھے لھذا ھمیشہ موجودہ قدرت سے خائف و ھراساں ھیں خصوصاً میدان جنگ کہ جھاں شھامت، سرفروشی، ایثار ھی والوں کا گذر ھے، وھاں سے ھمیشہ فرار اور دور ھی سے جنگ کا نظارہ کرتے ھیں اور نتیجہ کے منتظر ھوتے ھیں۔
(فاذا جاء الخوف رأیتهم ینظرون الیک تدور أعینهم کا الذی یغشی علیه من الموت)[20]
جب خوف سامنے آجائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے ان کی آنکھیں یوں پھر رھی جیسے موت کی غشی طاری ھو۔
سورہ احزاب کی آٹھویں آیت سے پینتیسویں آیت، جنگ خندق کے سخت حالات و مسائل سے مخصوص ھے، ان آیات کے ضمن میں چھ مرتبہ صداقت کا ذکر کیا گیا ھے اور اسی کے ساتھ بعض افراد کے خوف و ھراس کو بھی بیان کیا گیا ھے، جنگ احزاب اپنے خاص شرائط (زمانی و مکانی) کی بنا پر مومنین کی ایمانی صداقت اور منافقین کے جھوٹے دعوے کو پرکھنے کے لئے بھترین کسوٹی و محک ھے۔
ایمان میں صادق افراد کا ذکر آیت نمبر تئیس اور چوبیس میں ھورھا ھے:
(من المؤمنین رجال صدقوا ما عاهدوا الله علیه فمنهم من قضی نحبه و منهم من ینتظرو ما بدّلوا تبدیلا لیجزی الله الصادقین بصدقهم و یعذب المنافقین ان شاء او یتوب علیهم ان الله کان غفورا رحیما) ([21])
مومنین میں ایسے بھی مرد میدان ھے جنھوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دیکھایا ھے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ھیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررھے ھیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نھیں کی ھے تا کہ خدا صادقین کو ان کی صداقت کا بدلہ دے اور منافقین کو چاھے تو ان پر عذاب نازل کرے یا ان کی توبہ قبول کرے اللہ یقیناً بھت بخشنے والا اور مھربان ھے۔
ان آیات سے استفادہ ھوتا ھے کہ ایمان میں صادق سے مراد دین کی راہ میں جھاد و شھادت ھے بعض افراد نے شھادت کے رفیع مقام کو حاصل کرلیا ھے اور بعض اگر چہ ابھی اس عظیم مرتبہ پر فائز نھیں ھوئے ھیں لیکن شجاعت و شھامت کے ساتھ ویسے ھی منتظر و آمادہ ھیں، اسی سورہ کی آیت نمبر بیس میں خوبصورتی کے ساتھ منافقین کے اضطراب و خوف کو میدان جنگ کے سلسلہ میں بیان کیا گیا ھے، آیت اور اس کا ترجمہ اس سے قبل پیش کیا جاچکا ھے۔
۳۔ تشویش و اضطراب
منافقین کی نفسیاتی خصوصیت میں سے، تشویش و اضطراب بھی ھے چونکہ ان کا باطن ظاھر کے بر خلاف ھے لھذا ھمیشہ اضطراب کی حالت میں رھتے ھیں کھیں ان کے باطن کے اسرار افشانہ ھوجائیں اور اصل چھرہ کی شناسائی نہ ھوجائے جس شخص نے بھی خیانت کی ھے یا خلافِ امر شی کا مرتکب ھوا ھے اس کے افشا سے ڈرتا ھے اور تشویش و اضطراب میں رھتا ھے عربی کی مثل مشھور ھے "الخائن خائف" خائن خوف زدہ رھتا ھے، دوسرے یہ کہ منافقین نعمت ایمان سے محروم ھونے کی بنا پر مستقبل کے سلسلہ میں کبھی بھی امید واری و در خشندگی کا اعتقاد نھیں رکھتے ھیں اور اپنے انجام کار سے خائف اور ھراساں رھتے ھیں اس کے برخلاف صاحبان ایمان یاد الھی اور اپنے ایمان کی بنا پر اطمینان و سکون سے ھمکنار رھتے ھیں۔
(ألا بذکر اللة تطمئن القلوب) ([22])
آگاہ ھوجاؤ کہ ذکر خدا ھی سے دلوں کو سکون ملتا ھے۔
منافقین اپنی خیانت کارانہ حرکات کی وجہ سے اضطراب و تشویش کی وادی میں پڑے رھتے ھیں لھذا ھر قسم کی افشا گری و تھدید کی آواز کو اپنے خلاف ھی تصور کرتے ھیں۔
(یحسبون کل صیحة علیهم) ([23])
یہ ھر فریاد کو اپنے خلاف ھی گمان کرتے ھیں۔
منافقین کی دائمی کوشش یہ رھتی ھے کہ جس طرح سے بھی ھو خود کو مومنین کی صفوں میں داخل کریں اور صاحبان ایمان کو مطمئن کرادیں کہ ھم بھی ایمان والے ھیں لیکن ھمیشہ پریشان خیال رھتے ھیں کہ کھیں رسوا و ذلیل نہ ھوجائیں۔
(و یحلفون بالله انهم لمنکم و ماهم منکم و لکنهم قوم یفرقون)[24]
اور یہ اللہ کی قسم کھاتے ھیں کہ یہ تم ھی میں سے ھیں حالانکہ یہ تم میں سے نھیں ھیں یہ لوگ بزدل ھیں۔
ان کے ھراسان و پریشان رھنے کی کیفیت یہ ھے کہ جب بھی کوئی جدید آیت کا نزول ھوتا ھے تو ڈرتے ھیں کہ کھیں وحی کے ذریعہ ھمارے اسرار فاش نہ ھوجائیں، اس نکتہ کو قرآن کریم صراحت سے بیان کررھا ھے اور تاکید کررھا ھے کہ راہ نفاق کا انجام خیر نھیں ھوسکتا، اگر چہ چند روز اپنے باطن کو چھپانے میں کامیاب ھوجائیں لیکن سر انجام رسوا و ذلیل ھوکر رھیں گے۔
(یحذر المنافقون ان تنزل علیهم سورۃ تنبّئهم بما فی قلوبهم قل استهزئوا ان الله مخرج ما تحذرون)[25]
منافقین کو یہ خوف بھی ھے کہ کھیں کوئی سورہ نازل ھوکر مسلمانوں کو ان کے دل کے حالات سے باخبر نہ کردے تو آپ کہہ دیجئے کہ تم اور مزاق اڑاؤ اللہ بھر حال اس چیز کو منظر عام پر لے آئے گا جس کا تمھیں خطرہ ھے۔
سورہ بقرہ کی آیات نمبر سترہ سے بیس تک میں منافقین کی کشمکش، ترس و اضطراب کی حالت، کو دو معنی خیز تشبیھوں کے ذریعہ بیان کیا گیا ھے۔
۴۔ لجاجت گری
منافقین کی چوتھی نفسیاتی خصوصیت لجاجت گری ھے لجاجت ایک روحی و نفسانی مرض ھے جو صحیح معرفت کے حصول میں اساسی مانع ھے معرفت شناسی میں اس نکتہ کو بیان کیا گیا ھے کہ بعض اخلاقی رذائل سبب ھوتے ھیں کہ انسان حقیقت تک نہ پھونچ سکے، جیسے بیھودہ تعصب، بغیر دلیل خاص، نظریہ پر اصرار، غلط آرزو اور خواھشات وغیرہ……([26])
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام دو حدیث میں اس مطلب کو صراحتاً بیان فرما رھے ھیں:
((اللجاجة تسل الرای)) ([27])
لجاجت صحیح و مستحکم رای کو فنا کردیتی ھے۔
((اللجوج لا رای له)) ([28])
لجاجت گر فرد صحیح فکر و نظر کا مالک نھیں ھوتا۔
جو فرد لجاجت گری کی وادی میں سر گردان ھو وہ صاحب رای و نظر نھیں ھوسکتا ھے کیوں کہ لجاجت اس کی بینائی و دانائی پر ایک ضخیم پردہ ڈال دیتی ھے جس کی بنا پر لجاجت گر فرد تمام حقائق کو اپنی خاص نظر سے دیکھتا ھے لھذا ایسا فرد حق شناسی کے وسائل و نور حق کو اختیار میں رکھتے ھوئے بھی حقیقت تک نھیں پھونچ سکتا ھے چونکہ منافقین کا بنیادی منشا اپنی آمال و خواھشات کی تکمیل اور باطل راہ میں قدم رکھنا ھے لھذا کبھی بھی حق کو حاصل نھیں کرسکتا ھے، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
((من کان غرضه الباطل لم یدرک الحق ولو کان اشهر من الشمس)) ([29])
جس کا بنیادی ھدف باطل ھو کبھی بھی حق کو درک نھیں کرسکتا ھے خواہ حق آفتاب سے روشن ترھی کیوں نہ ھو
قرآن مجید منافقین کی حالت لجاجت کو بیان کرتے ھوئے ان کی یوں توصیف کر رکھا ھے:
(صم بکم عمی فهم لا یرجعون) ([30])
یہ سب بہرے، گونگے اور اندھے ھوگئے ھیں اور پلٹ کر آنے والے نھیں ھیں۔
منافقین کی لجاجت سبب بن گئی کہ وہ نہ سن سکے جو سننا چاھئے تھا، نہ دیکھ سکے جو دیکھنا چاھئے تھا، نہ کہہ سکے جو کھنا چاھئے تھا، باوجودیکہ آنکھ، کان، زبان جو ایک انسانِ بااعتدال کے لئے صحیح ادراک کے وسائل ھیں، یہ بھی اختیار میں رکھتے ھیں لیکن ان کی لجاجت گری سبب ھوئی کہ عظیم نعمات سے محروم، اور جھالت کی وادی میں سر گرداں ھیں۔
منافقین کا بھرہ، اندھا، گونگا ھونا آخرت سے مخصوص نھیں بلکہ اس دنیا میں بھی ایسے ھی ھیں، ان کا قیامت میں بھرہ، اندھا، گونگا ھونا ان کے حالات سے اسی دنیا میں مجسم ھے۔
(لهم قلوب لا یفقهون بها ولهم اعین لا یبصرون بها ولهم آذان لا یسمعون بها)([31])
ان کے پاس دل ھے مگر سمجھتے نھیں ھیں، آنکھیں ھیں مگر دیکھتے نھیں ھیں، کان ھیں مگر سنتے نھیں۔
مذکورہ آیت سے استناد کرتے ھوئے کھا جاسکتا ھے منافقین اسی دنیا میں اپنی لجاجت کی بنا پر صحیح سماعت و بصارت، زبان گویا، حق کو درک اور بیان کرنے کے لئے نھیں رکھتے ھیں، اور مدام باطل کے گرداب میں غوطہ زن ھیں۔
ماحصل یہ ھے کہ منافقین کے فھم و شعور کے منافذ و مسلمات لجاجت پسندی کی بنا پر بند ھوچکے ھیں۔
قرآن مجید نفاق کی اس حالت کو (طبع قلوب) سے یاد کررھا ھے۔
(طبع الله علی قلوبهم فهم لا یعلمون) ([32])
خدا نے ان کے دلوں پر مھر لگادی ھے اور اب وہ لوگ کچھ جاننے والے نھیں۔
(فطبع علی قلوبهم فهم لا یفقهون) ([33])
ان کے دلوں پر مھر لگادی گئی ھے تو اب کچھ نھیں سمجھ رھے ھیں۔
جو مھر ان کے دلوں پر لگائی گئی ھے اس کا سبب یہ ھوگا کہ حق کی گفتگو سماعت نہ کرسکیں اور حق کی عدم قبولیت ان کی ھمیشہ کی روش بن جائے، البتہ یہ بات واضح ھے کہ طبع قلوب (دلوں پر مھر لگانا) کے اسباب خود انھوں نے فراھم کئے ھیں اور ان کے دلوں پر مھر لگنا خود ان کے افعال و کردار کا نتیجہ ھے۔
۵۔ ضعف معنویت
منافقین کی پانچویں نفسیاتی و نفسانی صفت جسے قرآن مجید بیان کررھا ھے معنویت میں ضعف و سستی کا وجود ھے، یہ گروہ ضعف بصارت کی بنا پر خدا سے زیادہ عوام اور لوگوں کے لئے حرمت و عزت کا قائل ھے۔
منافقین محکم و راسخ ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے غیبی و معنوی قدرت پر بھی محکم و کامل ایمان نھیں رکھتے، ان کی ساری غیرت اور خوف فقط ظاھری ھے، عوام سے حیا کرتے ھیں، لیکن خدا کے محضر میں بے حیا ھیں چونکہ خود کو الھی محضر میں سمجھتے ھی نھیں اور خدا کو فراموش کر بیٹھے ھیں۔
(یستخفون من الناس ولا یستخفون من الله وهو معهم اذ یبیتون مالا یرضی من القول وکان الله بما یعلمون محیطاً) ([34])
یہ لوگ انسانوں کی نظروں سے اپنے کو چھپاتے ھیں اور خدا سے نھیں چھپ سکتے ھیں جب کہ وہ اس وقت بھی ان کے ساتھ رھتا ھے جب وہ ناپسندیدہ باتوں کی سازش کرتے ھیں اور خدا ان کے تمام اعمال کا احاطہ کئے ھوئے ھے۔
اگر ظاھر میں ایک عبادت انجام دیں یا ظواھر اسلامی کی رعایت کریں تو صرف عوام نیز لوگوں کی توجہ و اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے ھوتی ھے ورنہ ان کی عبادتیں ھر قسم کے مفھوم اور معنویت سے خالی ھیں۔
(ان المنافقین… اذا قاموا الی الصلوٰة قاموا کسالیٰ یرائون الناس ولا یذکرون الله الا قلیلا) ([35])
منافقین… جب نماز کے لئے اٹھتے بھی ھیں تو سستی کے ساتھ، لوگوں کو دکھانے کے لئے عمل کرتے ھیں، اور اللہ کو بھت کم یاد کرتے ھیں۔
(ولا یأتون الصلوٰۃ الا وهم کسالیٰ) ([36])
اور یہ نماز بھی سستی اور تساھلی کے ساتھ بجالاتے ھیں۔
اگر چہ مذکورہ دونوں آیات میں منافقین کی ریا و کسالت (سستی) نماز کے موقع کے لئے بیان کی گئی ھے، لیکن علامہ طباطبائی (رح) تفسیر المیزان میں فرماتے ھیں نماز، قرآن میں تمام معنویت کا محور و مرکز ھے لھذا اس نکتہ پر توجہ کرتے ھوئے دونوں آیت کا مفھوم یہ ھے کے منافقین تمام عبادت و معنویت میں بے حال و سست ھیں اور صاحبان ایمان کے جیسی نشاط و فرحت، سرور و شادمانی نھیں رکھتے ھیں۔
البتہ قرآن مجید کی بعض دوسری آیات میں بھی منافقین کی عبادات کو بے معنویت اور سستی سے تعبیر کیا گیا ھے۔
(ولا ینفقون الا وهم کارهون) ([37])
اور راہ خدا میں کراھت و ناگواری کے ساتھ خرچ کرتے ھیں۔
یہ آیت صراحتاً بیان کررھی ھے کہ ان کے انفاق کی بنا اخلاص و خلوص پر نھیں ھے، سورہ انفال میں بھی مسلمانوں کے مبارزہ و جھاد کی صف میں ان کی حرکات کو ریا سے تعبیر کیا گیا ھے اور مسلمانوں کو اس منافقانہ عمل سے دور رھنے کے لئے کھا گیا ھے:
(ولا تکونوا کالذین خرجوا من دیارهم بطرا و رئاء الناس) ([38])
اور ان لوگوں کے جیسے نہ ھوجاؤ جو اپنے گھروں سے اتراتے ھوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے نکلتے ھیں۔
بھر حال جن اشخاص نے دین کے اظھار کو قدرت طلبی، شیطانی خواھشات کے حصول کے لئے وسیلہ قرار دیا ھے، ان کی رفتار و گفتار میں دین داری کی حقیقی روح نھیں ملتی ھے وہ عبادت کو خود نمائی کے لئے اور سستی سے انجام دیتے ھیں۔
۶۔ خواھشات نفس کی پیروی
منافقین کی چھٹی نفسیاتی خصوصیت، خواھشات نفسانی کی پیروی اور اطاعت ھے، منافقین حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور عقل و نقل کی پیروی اور اطاعت کرنے کے بجائے، امیال و خواھشات نفسانی کے تابع و پیروکار ھیں، صعیف اعتقاد نیز باطل اور نحس مقاصد کی بنا پر خدا پرستی و حق محوری ان کے لئے کوئی مفھوم و معنی نھیں رکھتا ھے وہ خواھشات نفسانی کے مطیع و خود محوری کے تابع ھیں۔
(اولئک الذین طبع الله علی قلوبهم واتبعوا اهوائهم) ([39])
یھی وہ لوگ ھیں جن کے دلوں پر خدا نے مھر لگادی ھے اور انھوں نے اپنی خواھشات کا اتباع کرلیا ھے۔
تکبر اور برتر بینی خواھشات نفسانی کی نمائش و علامت میں سے ایک ھے، خواھشات نفسانی کے دو آشکار نمونے، ریاست و منصب کی طلب اور دنیا پرستی ھے جو منافقین میں پائی جاتی ھے، مال و منصب کی محبت، نفاق کی جڑوں کو دلوں میں رشد اور مستحکم کرنے کے عوامل میں سے ھیں۔
پیامبر عظیم الشان فرماتے ھیں:
((حب الجاه و المال ینبتان النفاق کما ینبت الماء البقل)) ([40])
مال دنیا اور مقام و منصب کی محبت، نفاق کو دل میں یوں رشد دیتی ھے جیسے پانی سبزے کو نشو نما دیتا ھے۔
ظاھر ھے کہ وہ ریاست و منصب قابل مذمت ھے جس کا مقصد و ھدف انسان ھو یہ وھی مقام پرستی ھے جو لوگوں کے دین کے لئے بھت بڑا خطرہ ھے۔
نقل کیا جاتا ھے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کے محضر میں کسی کا نام لیتے ھوئے کھا گیا وہ منصب و مقام پرست ھے، آپ نے فرمایا:
((ما ذئبان ضاریان فی غنم قد تفرق رعاؤهابأ ضرّ فی دین المسلم من الریاسة)) ([41])
دو خونخوار بھیڑیوں کا خطرہ ایسے گلہ کے لئے جو بغیر چوپان کے ھو اس خطرہ سے زیادہ نھیں، جو خطرہ مسلمان کے دین کو ریاست طلبی و مقام پرستی سے ھے۔
لیکن وہ مال و مقام جو اپنی اور اپنے خانوادے کی زندگی کی بھتری نیز مخلوق خدا کی خدمت اور پرچم حق کو بلند و قائم کرنے اور باطل کو ختم کرنے کے لئے ھو، وہ قابل مذمت نھیں ھے بلکہ عین آخرت اور حق کی راہ میں قدم بڑھانا ھے، شاید کبھی واجب بھی ھوسکتا ھے۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اپنی پیوند زدہ اور بے قیمتی نعلین کی طرف اشارہ کرتے ھوئے ابن عباس کو خطاب کرکے فرماتے ھیں:
((والله لهی احب الی من امرتکم الا ان اقیم حقا او ادفع باطل)) ([42])
خدا کی قسم! یہ بی قیمت نعلین مجھے تمھارے اوپر حکومت سے زیادہ عزیز ھے مگر یہ کہ حکومت کے ذریعہ کسی حق کو قائم کرسکوں یا کسی باطل کو دفع کرسکوں۔
اس بنا پر اسلام میں اپنے اور خانوادے کی معاشی زندگی کے لئے کوشش و تلاش کو راہ خدا میں جھاد سے تعبیر کیا گیا ھے۔
((الکاد علی عیاله کالمجاهد فی سبیل الله)) ([43])
جو فرد بھی اپنے خانوادے کی امرار معاش کے لئے کوشش وسعی کرتا ھے وہ مجاھد راہ خدا ھے
دوسرے افراد کی خدمت گذاری کو بھی بھترین افعال میں شمار کیا گیا ھے۔
((خیر الناس انفعهم للناس)) ([44])
بھترین فرد وہ ھے جس سے بیشتر فائدہ لوگوں کو پھنچتا ھے۔
لیکن منافقین کے اھداف فقط دنیا کے اموال، مناصب و اقتدار پر قبضہ کرنا ھے، دوسروں کی خدمت مدنظر نھیں ھے، اور اپنے اس پست و حقیر مقصد کے حصول کی خاطر تمام اسلامی و انسانی اقدار کو پامال کرنے کے لئے حاضر ھیں۔
مدینہ کے منافقین کا سرغنہ، عبد اللہ ابن ابی کا باطنی مرض یہ تھا کہ جب اس نے اپنی ریاست کے دست و بازو قطع ھوتے دیکھے تو تمام خیانت کاری و پست فطرتی کا مظاھرہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و مسلمانوں پر کرنے لگا کہ شاید ھاتھ سے جاچکا مقام و منصب دوبارہ حاصل ھوجائے۔
منافقین کی دنیا طلبی کی شدید خواھش کی کیفیت کو قرآنی آیات نے بخوبی بیان کیا ھے، قرآن کریم اکثر موارد پر اس نکتہ کو بیان کررھا ھے کہ منافقین اگر چہ میدان جنگ میں کوئی فعال کردار ادا نھیں کرتے لیکن جنگ ختم ھوتے ھی غنائم کی تقسیم کے وقت میدان میں حاضر ھوجاتے ھیں، اور اپنے سھم کا مطالبہ کرنے لگتے ھیں اس موضوع سے مربوط بعض آیات کو منافقین کی موقع پرستی کی بحث میں بیان کیا جاچکا ھے۔
۷۔ گناہ کی تاویل گری
منافقین کی نفسیاتی خصوصیت کی ساتویں کڑی، گناہ کی توجیہ و تاویل گری ھے اس سے قبل اشارہ کیا گیا ھے کہ منافقین کی تمام سعی لا حاصل یہ ھے کہ اپنے باطن اور پلید نیت کو مخفی کرکے، اور جھوٹی قسمیں کھاکر، ظواھر کی آراستگی کرتے ھوئے خود کو صاحبان ایمان واقعی کی صفوف میں شامل کرلیں۔
اگر چہ صدر اسلام میں ایسا ممکن ھوسکا ھے لیکن ھمیشہ کے لئے اپنے باطن کو مخفی نھیں رکھ سکتے چونکہ ان سے بعض اوقات ایسے افعال و اعمال صادر ھوجاتے ھیں کہ جس کی وجہ سے مومنین ان کے ایمان میں شک کرنے لگتے ھیں لھذا منافقین، اس لئے کہ مسلمانوں کی نظروں سے نہ گر جائیں، نیز مسلمانوں کا اعتماد ان سے سلب نہ ھوجائے اپنے کردار اور برے افعال کی عام پسند توجیہ و تاویل کرنے لگتے ھیں۔
(فکیف اذا اصابتهم مصیبة بما قدمت ایدیهم ثم جاؤوک یحلفون بالله ان اردنا الا احسانا و توفیقا اولئک الذین یعلم الله ما فی قلوبهم فأعرض عنهم و عظهم و قل لهم فی انفسهم قولا بلیغا) ([45])
پس اس وقت کیا ھوگا جب ان پر ان کے اعمال کی بنا پر مصیبت نازل ھوگی وہ آپ کے پاس آکر خدا کی قسم کھائیں گے کہ ھمارا مقصد صرف نیکی کرنا اور اتحاد پیدا کرنا تھا یھی وہ لوگ ھیں جن کے دل کا حال خدا خوب جانتا ھے لھذا آپ ان سے کنارہ کش رھیں انھیں نصیحت کریں اور ان کے دل پر اثر کرنے والی موقع و محل سے مربوط بات کریں۔
جھاد و معرکہ کا میدان ان مقامات میں سے ھے جھاں منافقین حاضر ھوتے ھوئے بے حد درجہ خائف و ھراساں رھتے ھیں لھذا جھاد میں شریک نہ ھونے کی خاطر (جھاد میں عدم شرکت عظیم گناہ ھے) عذر تراشی کرتے ھوئے تاویل و توجیہ کیا کرتے تھے ذیل کی آیت میں ایک منافق کی جنگ تبوک میں عدم شرکت کی عذر تراشی اور تاویل کو بیان کیا گیا ھے۔
(ومنهم من یقول ائذن لی ولا تفتنی الا فی الفتنة سقطوا وان جهنم لمحیطة بالکافرین) ([46])
ان میں وہ لوگ بھی ھیں جو کھتے ھیں کہ ھم کو اجازت دے دیجئے اور فتنہ میں نہ ڈالیے تو آگاہ ھوجاؤ کہ یہ واقعاً فتنہ میں گر چکے ھیں اور جھنم تو کافرین کو ھر طرف سے احاطہ کئے ھوئے ھے۔
اس آیت کی شان نزول کے لئے بیان کیا گیا ھے کسی قبیلہ کا ایک بزرگ جو منافقین کے ارکان میں تھا رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت چاھی کہ جنگ تبوک میں شرکت نہ کرے اور عدم شرکت کی وجہ اور دلیل یہ بیان کی کہ اگر اس کی نطریں رومی عورتوں پر پڑے گی تو ان پر فریفتہ اور گناھوں میں مبتلا ھوجائے گا، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت فرمادی کہ وہ مدینہ ھی میں رھے، اس واقعہ کے بعد یہ آیت نازل ھوئی جس نے اس کے باطن کو افشا کر کے رکھ دیا اور خداوند عالم نے اسے جنگ میں عدم شرکت کی بنا پر عصیان گر اور فتنہ میں غریق فرد سے تعبیر کیا ھے ([47])، منافقین کے دوسرے وہ افراد جو جنگ احزاب میں شریک نھیں ھوئے تھے ان کا عذر یہ تھا کہ وہ اپنے گھر اور مال و دولت کے تحفظ سے مطمئن نھیں ھیں، ذیل کی آیت ان کی پلید فکر کو فاش کرتے ھوئے ان کی عدم شرکت کے اصل مقصد کو جنگ سے فرار بیان کیا ھے۔
(ویستاذن فریق منهم النبی یقولون ان بیوتنا عورة وما هی بعورة ان یریدون الا فرارا) ([48])
اور ان میں سے ایک گروہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت مانگ رھا تھا کہ ھمارے گھر خالی پڑے ھوئے ھیں حالانکہ وہ گھر خالی نھیں تھے بلکہ یہ لوگ صرف بھاگنے کا ارادہ کررھے تھے۔
بھر حال گناہ کی تاویل و توجیہ خود عظیم گناہ ھے جس کے منافق مرتکب ھوتے رھتے تھے بسا اوقات ممکن ھے منافقین سیدھے، سادے و زور باور و مومنین کو فریب دیدیں، لیکن وہ اس سے غافل ھیں کہ خدا ھر اس شی سے جو وہ اپنے قلب کے اندر مخفی کئے ھوئے ھیں آگاہ ھے ان کو اس دنیا میں ذلیل و رسوا کرے گا اور آخرت میں بھی دوزخ کے عذاب سے ان کا استقبال کیا جائے گا، یہ نکتہ بھی قابل ذکر ھے کہ منافقین کی تاویل و توجیہ کا سلسلہ صرف فردی مسائل سے مختص نھیں بلکہ اجتماعی و معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی مسائل میں بھی تاویل و توجیہ کرتے رھتے ھیں کہ اس موضوع پر بھی بحث ھوگی۔
---------
[1] تصنیف الغرر الحکم، ص۳۰۹۔
[2] سورہ بقرہ/۳۴۔
[3] سورہ یس/۱۵۔
[4] اصول کافی، ج۲، ص۳۱۲۔
[5] میزان الحکمۃ، ج۸، ص۳۰۵، بحارالانوار، ج۷۳، ص۲۱۷۔
[6] بحار الانوار، ج۹۰، ص۲۶۳۔
[7] بحار الانوار، ج۷۵، ص۱۴۵۔
[8] مجموعہ ورام، ج۱، ص۵۷۔
[9] سفینۃ البحار، ج۱، ص۵۱۲، وسائل الشیعہ، ج۱۸، ص۳۷۵، بحار الانوار، ج۲۸ ص۱۲۔
[10] تفسیر نور الثقلین، ج۲، ص۱۶۳۔
[11] سورہ زمر/۱۷، ۱۸۔
[12] بحار الانوار، ج۶۹، ص۳۹۹۔
[13] سورہ منافقون/۵۔
[14] سورہ بقر/ ۲۰۶۔
[15] سورہ بقر/۱۱۔
[16] سورہ بقرہ/۱۳۔
[17] سورہ منافقون/۴۔
[18] بحار الانوار، ج۶۷، ص۳۶۴۔
[19] سورہ آل عمران/ ۱۷۳، ۱۷۱۔
[20] سورہ احزاب/۱۹۔
[21] سورہ احزاب ۳۲، ۲۴۔
[22] سورہ رعد/۲۸۔
[23] سورہ منافقون/۴۔
[24] سورہ توبہ/۵۶۔
[25] سورہ توبہ/۶۴۔
[26] نظریۃ المعرفہ، ص۳۱۹۔
[27] نھج البلاغہ، حکمت، ۱۷۹۔
[28] میزان الحکمۃ، ج۸، ص۴۸۴۔
[29] غرر الحکم، نمبر ۸۸۵۳۔
[30] سورہ بقرہ/۱۸۔
[31] سورہ اعراف/۱۷۹۔
[32] سورہ توبہ/۹۳۔
[33] سورہ منافقون/۳۔
[34] سورہ نساء/۱۰۸۔
[35] سورہ نساء/۱۴۲۔
[36] سورہ توبہ/۵۴۔
[37] سورہ توبہ/۵۴۔
[38] سورہ انفال/۴۷۔
[39] سورہ محمد/۱۶۔
[40] المحجۃ البیضاء، ج،۶، ص، ۱۱۲۔
[41] بحار الانوار، ج۷۳، ص۱۴۵۔
[42] بھج البلاغہ، خطبہ۳۳۔
[43] بحار الانوار، ج۹۶، ص۳۲۴۔
[44] مستدرک الوسایل، ج۱۲،ص۳۹۱۔
[45] سورہ نساء/ ۶۲، ۶۳۔
[46] سورہ توبہ/۴۹۔
[47] مجمع البیان، ج۳، ص۳۶۔
[48] سورہ احزاب/۱۳۔