تفسیر بیان کرنے کی روش اور کچھ اصول
  • عنوان: تفسیر بیان کرنے کی روش اور کچھ اصول
  • مصنف: محسن قرائتی
  • ذریعہ: امام حسین فاونڈیشن
  • رہائی کی تاریخ: 19:8:26 1-9-1403

تفسیر بیان کرنے کی روش اور کچھ اصول
تحریر: محسن قرائتی
ترجمہ: احسان علی دانش 

               ذرائع:  امام حسین فاونڈیشن

 

    خدائے متعال کا شکر گزار ہوں جس نے مجھ بندہ کو کئی سالوں سے قرآن کی خدمت کرنے اور مختلف طبقات کے لوگوں کے لئے معارف قرآن اور اہل بیت علیہم السلام  بیان کرنے کی توفیق دی۔ ان کچھ سالوں میں جو تجربے حاصل ہوئے اور جن طریقوں کو اپنایا ان کو دوسروں کے لئے بیان کرنا مفید سمجھتا ہوں شاید کوئی اس سے استفادہ کرے۔
تفسیر بیان کرنے کے طریقے:
1)    عام لوگوں کے لئے کسی مختصر تفسیر سے مطلب بیان کیا جائے، مثل؛ تفسیر صافی، تفسیر شبر یا تفسیر نمونہ کے خلاصہ سے۔ ( ترجمہ سے دو، تین گنا زیا دہ ہو نا چاہئے)
2)    نئی نسل کے لیے ایسی آیات بیان کی جائیں  جن  میں شأن نزول اور داستان ہو، مثل؛ (اَلَم یَأنِ،  لَیلَة المَبِیت، اَجَعَلتُم سِقَایَة، وَیُطعِمُونَ الطَعَام و۔۔۔)
3)    نماز کے بعد عام لوگوں کے لیےچند  منٹ تفسیر بیان کی جائے:  اس حوالے سے مناسب ہے کسی آیت کو پہلے سے مشخص کرکے رکھے پھر سب اس آیت کو مل کر پڑھیں اس کے بعد دونوں نمازوں کے درمیان کچھ منٹ اس کی تفسیر بیان کرے۔
4)    ابتدائی طلاب کے لیے مشابہ اور سادہ آیتوں کو ایک ساتھ ملا کر ان آیتوں سے نتیجہ گیری کرے، مثلاْ؛ (کُلُوا وَعَمِلُوا صَالِحا)، (کُلُوا مِنها وَاَطْعِمُوا)، (کُلُوا وَلَا تَطْغَوا) یا (قَوْلا لَیِّنَا)، (قَوْلا بَلِیْغا)،  (قُولُوا لِلنّاسِ حُسنَا)، (لَا یَقُولُ الّتِی ھِیَ اَحْسَن)، (قَولا سَدِیدا) مجموعی طور پر ان جیسی آیتوں  سے ابتدائی طلاب کے ذہن میں کھانے پینے کے آداب کی منظر کشی ہوتی ہے اور پھر  وہ  دوسروں  تک منتقل بھی کرتے ہیں۔
5)    بڑی سطح  کے طلاب اور اساتید کے لئے  آیتوں کا موازنہ کر کے ان سے کچھ مطلب اخذ کرنے کی کوشش کرے،مثل؛(تَعَاوَنُواعَلَی البِرّ)، (وَلَکِن البِرّمَن آمَن) یا (خُذُوا زِینَتَکُم عِندَ کُلِّ مَسْجِد)، ( اَلمَالُ وَالْبَنُونَ زِینَة الحَیاۃ الدُنیَا) یا (صِرَاطَ الَّذِینَ اَنعَمتَ عَلَیهم)، (اُولٰیکَ الذِینَ اَنعَمَ الله عَلیهم مِنَ النَّبِیِّینَ) یا (لَا یَنَالُ عَهدِ الظَّالِمِین)، (اَوفُوا بِعَهدِی)۔
6)    وہ روش تفسیر جس میں سوال جواب، گفتگو اور بحث و مباحثہ ہو ایسی محافل میں صرف خواص کو ہونا چاہئے اس محفل میں کچھ سوال اٹھائے جائیں  پھر ان سوالوں کا جواب قرآن سے دیا جائے۔
7)    جو لوگ درس خارج سے آشنائی رکھتے ہوں وہ احکام کو بیان کرنے کے لئے آیات اور روایات کے ذریعے احکام   کے دروازے کھولیں ، یعنی ایسی آیات اور روایات پڑھیں اور  ان کی تفسیربیان  کریں جس سے استنباط اور استخراج ہو اور مسٔلے کو بھی  بیان کریں۔( یہ روش صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو درس خارج سے آشنا ہوں) مثلا ؛ (فَتَیَمّمُوا صَعِیدا طَیِّبَا)، (فَاغْسِلُوا وُجُوهکُم)، (وَاَن تَجْمَعُوا بَینَ الاُخْتَیَن)، (حُرِّمَت عَلَیکُمُ المَیتَة  وَالدَّم)
8)    ایسی آیات کا انتخاب کیا جائے جو اجتماعی ضرورت اور روز مرہ مسائل سے مربوط ہوں،  مثلا؛ شریک حیا ت کا انتخاب؛ (وَلَاَمَة مُومِنَة مِن مُشرِکَة) ، مشورہ کرنا؛ ( وَاَمرهم شُورٰی بَینَهم) لیکن نبوت اور امامت مشورہ میں نہیں آتی ہے بلکہ یہ خدا کا کام ہے
9)    عقائد کے عنوان  سے تفسیر؛ توحید کی آیتیں، نبوت سے مربوط آیات، اور آیات معادکا بیان ۔
10)    قرآنی امثال اور قرآنی داستانوں کا بیان۔

تفسیر کہتے ہوئے ان امور پر توجہ رکھید چاہئے:
1)    مخاطبین کی طاقت، حوصلے اور وقت  پر توجہ رکھنی  چاہئے؛ (عَلِمَ الله اَنَّ فِیکُم ضعْفَا۔۔۔خَفَّفَ الله)
2)    جسمی حالات کا خیال رکھا جائے، ( جیسے کہ خدا نے افطار کی دعا کو ایک سطر سے زیادہ نہیں رکھا ہے)
3)    مخاطب کی فہم اور سمجھ کا خیال رکھنا چاہئے ، (بِلِسَان قَومه)، (اَفَلَا یَنظُرُون اَلَی الاِبِلِ)، (وَاِلَی السَّمَاء)
4)    مخاطبین کی ضرورت کا خیال رکھنا اور غیر ضروری مطالب اور معلومات کو نہ کہنا، (قُل الله اَعلَم بِمَا لَبِثُوا)
5)    خاص اصطلاحات اور ادبی نکات سے پرہیز کرنا۔
6)    غیر ضروری حاشیہ  لگانے سے پرہیز کرنا تا کہ اصل مطلب بھول نہ جائیں۔
7)    اپنے اور مخاطب کے درمیان عمودی (بلند منبر پر جانا) یا افقی زیادہ فاصلہ ڈالنے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔
8)    چیخ چیخ کر تقریر کرنے اور مکمل ایک انداز میں تقریر (جس میں اونچ نیچ نہ ہو)کرنے سے پرہیز کرنا۔
9)    جسم کو بے حرکت رکھنے  سے اجتناب کرے  مثل مجسمہ نہ ہو( آپ کچھ لمحے کی نماز میں کتنی حرکات انجام دیتے ہیں، رجب کی دعا میں(حَرِّمْ شَیْبَتِی) کی مناسبت سے ہاتھ کو داڑھی سے لگاتے ہیں)
10)    دوسروں کی کلاس کو دیکھنا اور ان کے تجربے سے استفادہ کرنا چاہئے ۔
11)    کلاس کے وقت اور طریقے کے حوالے سے سامعین سے سوال کرنا چاہئے ۔
12)    تحریری اور زبانی تنقیدوں کا جایٔزہ لینا۔
13)    گذشتہ کلاسوں کے تکرار کے لیے قابل مخاطبین سے رضاکارانہ مدد لینا۔
14)    ایک آیت کو بلیک بورڈ یا وایٔٹ بورڈ پر لکھنا کہ سب مخاطبین اس سے آشنا ہو جائیں۔
15)    تفسیر کا وقت  پانچ منٹ سے بیس منٹ ہو اس سے زیادہ  نہ ہو، یہ بات واضح ہے کہ خطابت اور جذباتی تقریری  اندازاور تفسیر بیان کرنے  میں فرق ہوتا ہے۔
16)    ایسی آیتوں سے تفسیر شروع کرے جس سے اکثر مخاطب آشنا ہوں، مثلا؛ قرآن کریم کے  آخری سورے۔
17)    ایسی آیتوں کا انتخاب کرے جو روز مرہ کی ضرورت ہوں ، مثلا؛ غیبت، رشوت، ازدواج، شادی بیاہ، تہذیبی یلغار و۔۔۔۔
18)    تفسیر کہنے میں آیتوں کو ترتیب سے تفسیر کرنا لازم نہیں ہے کسی بھی آیت کو انتخاب کر کے اس کی تفسیر کی جا سکتی ہے، جتنا اپنی باتیں کم کرکے   قرآنی اور روائی مطلب بیان کرے اس بحث  میں نورانیت زیادہ ہو گی۔ کسی بھی علاقے میں ممکن ہے کچھ علماء کسی تفسیر کا مباحثہ کرتے ہوں تو  لوگوں کے لئے  اسی کا خلاصہ بیان کریں، اگر نئی تحقیق اور تفکر کا وقت نہ ہو تو کسی بھی موجودہ تفسیر سے مطالب بیان کرلے۔ اگر کسی علاقے میں مخاطب مختلف ہوں تو علماء مختلف زاویوں سے تفسیر بیان کریں، مثلا؛ ایک عالم قرآن کی داستان کو بیان کرے دوسرا  عالم قرآن سے معاد کو بیان کرے اور تیسرا  اخلاقیات کو، یا جن آیتوں کو حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں  بیان فرمایا ہیں ان کو موضوع قرار دیا جاسکتا ہے(حضرت علی علیہ السلام   نے نہج البلاغہ میں 150 سے زیادہ آیتوں سے استدلال فرمایا ہیں۔)سی طرح ان آیتوں کو بھی موضوع قرار دیا جاسکتا ہے جو حضرت علی علیہ السلام   کے بارے میں ہیں۔