تفسیر "فصل الخطاب" سے اقتباسات (حصہ سوم)
  • عنوان: تفسیر "فصل الخطاب" سے اقتباسات (حصہ سوم)
  • مصنف: سید العلماء آیت اللہ سید علی نقی نقن (رحمۃ اللہ علیہ)
  • ذریعہ: ترتیب وتنظیم و پیشکش :- سید مون کاظمی(کونوا مع الصادقین گروپ)
  • رہائی کی تاریخ: 20:54:24 1-10-1403


قرآن کی امتیازی خصوصیات


(بحیثیت اسناد واعتبار)

جتنی کتابیں اس وقت الہامی سمجہتی جاتی ہیں اور وحئ آسمانی کی طرف منسوب کی جاتی ہیں انکےمتعلق اگرخود انکےماننے والوں کی تحریرات کی روشنی میں نظرڈالی جائےتو انکی تاریخ زندگی ایسےحوادث وانقلابات کامجموعہ نظرآتی ہےجن کی بناء پر وثوق کےساتہہ نہیں کہاجاسکتاکہ انکےکسی جزء کابہی دنیامیں وجود باقی ہےاور جسےاب اسکے متبعین سراور آنکہوں پر رکہہ رہےہیں اور خدا کا کلام سمجہتےہیں اسمیں کوئی آدہایا پاؤ یاچوتہائی جز بہی ایساہےجو اسکی حقیقی روح سے بعینہ اسکے مطابق ہوجو پیغمبروں پرنازل ہوئی.
اسکےبرعکس جب ہم اسلامی کتاب "قرآن کریم" پرنظر ڈالتے ہیں تو وہ ایسی تمام کمزوریوں سے بلند نظرآتی ہےاور اسکی تاریخ ایسے واقعات پر مشتمل ملتی ہےجو اسکے اسناد و اعتبار کے ضامن ہیں.
یہاں ہم قرآن مجید کی نو(9) مختلف خصوصیات کا جایزہ لیتےہیں.


- پہلی خصوصیت

امت اسلامیہ کہ جو قرآن مجید کی امانتدار اور اسکی حفاظت و نگہداشت کی براہ فاست ضامن سمجہی جاسکتی ہےوہ حقیقی معانی میں با ختلاف زمانہ اسکی صحیح تعلیمات سےکتنی ہی دور جاپڑی ہواور اسکی بناء پر اہل معانی اسپر ارتداد کا حکم لگادیں لیکن ایساکوئی وقت نہیں آیاکہ اس نے قرآن کادامن ہاتہہ سے چہوڑنے کا معاذاللہ اعلان کیاہو اور برملا کفروشرک اختیار کیا ہو بلکہ جس وقت سےمسلمانوں نے دنیائےوجود میں قدم رکہا انکی تعداد زیادہ سےزیادہ ہوتی رہی اور برابر اسلام کو اپنا بسان قومیت اور قرآن کو اپنا طرہ امتیاز بنائےرکہا.


- دوسری جصوصیت

قرآن مجید کےمتعلق کبہی کوئی پاببدی عاید نہیں کی گئی کہ اسکا نسخہ کسی خاص فرد یا جماعت کےپاس نحدود رہے بلکہ عام طور پر مسلمانوں کو یہ حق حاصل رہاکہ وہ اسے لکہیں، نقل کریں اور ازبر یاد کریں.


- تیسری خصوصیت

قرآن اپنی اصلی زبان یعنی عربی میں موجودہےاور صرف اتنا نہیں بلکہ ہر مسلمان اسی کو سمجہتاہے جو خاص الفاظ پر مشتمل ہے انکے شرعی احکام بہی اسی کتاب سے تعلق رکہتے ہیں. نماز میں اسکاپڑہنا لازم اور دوسرے اوقات میں اسکی تلاوت باعث اجر و ثواب ہے.یہ احکام تراجم قرآن پر مرتب نہیں ہیں ترجمہ جس زبان کابہی ہو وہ ترجمہ ہی کہلاتاہے کوئی مسلمان اسے قرآن نہیں سمجہتا.


- چوتہی خصوصیت

قرآن مجید کی آیات کو متفرق طور پر خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم بوقت ورود ہی قلمبند کرالیا کرتے تہےاور پہر ان متفرق آیات کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے تقریبا فورا بعد ہی کتابی شکل میں جمع کرلیاگیا جسکی تصدیق وقتا فوقتا ان ہستیوں نے کی جنہیں قران کا ذمہ دار بنایاگیاتہا.


- پانچویں خصوصیت

قرآن میں خود قدم قدم پر اسکے 'منزل من للہ' ہونے کا اعلان ہے اور کسی دوسرے شخص کاکیا ذکر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کےذاتی کلام ہونےکی نفی کی گئی ہے.


- چہٹی خصوصیت

قرآن کی اصلیت و حقانیت کےبارے میں مسلمانوں میں باوجود (آپس کے سینکڑوں) اختلاف کے کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ سب اسے متفقہ حیثیت سے کلام الہی سمجہتے ہیں.


- ساتویں خصوصیت

قرآن کے متعلق اسکے ماننےوالے اس نقطہ پر متفق ہیں کہ وہ دنیا کے آخری دور تک رہنمابنا کر بہیجاگیاہے اور اسکی تعلیمات کسی خاص زمانہ سے مخصوص نہیں ہیں.


- آٹہویں خصوصیت

قرآن جب سے کتابی شکل میں مدون ہوکر تمام مسلمانوں میں منتشر ہوااسکے ایک ایک لفظ کی ہردور میں جانچ پڑتال ہوتی رہی اور تمام مسلمان بلاتفریق فرقہ اسکی کتابت ، قراءت اور تفسیر وتشریح کی طرف متوجہ رہےجس سے قرآن مجید میں اب کسی دور میں 'تصرف اور تحریف' کا امکان باقی نہیں رہا.


- نویں خصوصیت

قرآن مجید کا انداز بیان خود ہی اپنا معیار ہے جسکا نتیجہ یہ ہے کہ کسی بڑے سے بڑے فصیح کلام میں بہی قرآن کا ایک جملہ آجاتاہے تو وہ اس طرح نمایاں ہوتاہے جیسے سنگریزوں میں موتی اور ستاروں میں ماہتاب.


قرآن مجید کی معجزانہ حیثیت کاایک خاص پہلو

معجزہ قرآنی کی ایک اہم خصوصیت جودنیاکےکسی دوسرے معجزے میں نہیں پائی جاتی یہ ہےکہ اعجازکےجتنے ارکان ہیں ان سبکو وہ خود اپنےدامن میں لئےہوئےہےاور وہ مقدمات و قرائن خارجیہ یاصرف عقل پرمنحصرنہیں ہیں.
دوسرےمعجزات کی یہ صورت ہےکہ خارق عادت آنکہوں کے سامنے پیش ہو لیکن اسکےمعجزہ ہونےمیں جتنی باتوں کی ضرورت ہےوہ خود اسمیں مضمرنہیں ہیں.
وہ ایک خاموش مشاہدہ غیبی ہوتاہے جو اپنی زبان سے یہ اعلان نہیں کرتاکہ میرا ظاہر کرنےوالا مدعئ نبوت وغیرہ بہی ہے جو ایک خارق عادت کےمعجزہ ہونےکا رکن اعظم ہےاس کےلئے ضرورت ہوگی کہ علیحدہ سے اس شخص کےدعوی کو دیکہا جائے تاکہ معلوم ہوکہ وہ مدعی کسی منصب کاہےیانہیں.
پہراس مظاہرہ سےاستدلال کی بنیاد سمجہہ میں نہیں آتی کہ خارق عادت امرکےظاہر کرنےسے اسکے مظہر اور دعویدار نبوت کی سچائی کیونکر ثابت ہوتی ہے؟ اس کےلئے پہر عقل کو سامنے لانےکی ضرورت ہےکہ وہ دلیل کو ترتیب دے اور بتلائے کہ خارق عادت کا ظاہر ہوناکس طرح دعویدار منصب کی سچائی کا ثبوت ہوتا ہے؟
پہر وہ خرق عادت کامظاہرہ یہ بہی نہیں بتاتا کہ میرا ظاہر کرنے والا اپنی سیرت و کردار کےلحاظ سے کیساآدمی ہے اور یہ بہی ثبوت اعجاز کابڑا رکن ہے کیونکہ اگر مدعئ نبوت ایک ایسا شخص ہےجسکی سابقہ زندگی اور افعال واعمال کی گندگی یہ خود اسکے دعوے کو رد کرنے کےلئے کافی ہےتو اس صورت میں وہ لاکہہ غیرمعمولی کرتب دکہلائے کسی طرح خدا پرذمہ داری عائد نہ ہوگی اور اسے ان عجیب وغریب مظاہرات کو باطل کرنے کی ضرورت نہ ہوگی.لہذا خوارق عادات کےساتہہ یہ الگ سےاس مدعئ منصب کی سیرت سابق وحال زندگی میں دیکہنے کی ضرورت ہوگی کہ اسکے افعال کسے ہیں اور وہ اسکوخدا کی طرف کےکسی منصب کے لائق ثابت کرتےہیں.
یقیناوہ تمام معجزات ان تمام اعتبارات سے بالکل گنگ اور خارجی تحقیقات اور عقلی غوروفکر کےدست نگر اور ممنون احسان ہوتے ہیں لیکن یہ قرآن مجید کی خصوصیت ہےکہ وہ معجزہ ہے اور اعجاز کے جتنے ارکان وخصوصیات ہیں وہ سب اسی میں موجود ہیں اور کہیں اس سے علیحدہ جانے کی ضرورت نہیں ہے.


- پہلا امر

قرآن مجید میں صاف صاف اپنےحامل حضرت محمد .صطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کےدعوئ نبوت ورسالت کااظہار موجود ہے.آیات ذیل ملاحطہ ہوں


نمبر1

"قل یآایهاالناس انی رسول الله الیکم جمیعا" کہیئے کہ اے گروہ مردم! میں خداکا رسول ہوں تم سبکی طرف" (اعراف#158)


نمبر 2

"ما ضل صاحبکم وماغوی وما ینطق عن الهوی ان هو الا وحی یوحی" کہ تمہاری ہدائت کرنےوالا شخص نہ تو گمراہ ہےاور نہ ہی سرگشتہ وہ اپنی خواہش دل سےکلام نہیں کرتا بلکہ وہ وحی ہوتی ہے جو اسپراتاری جاتی ہے" (نجم#2/4)


نمبر3

"محمدرسول الله والذین معه اشدآء علی الکفار" کہ محمد'ص' خدا کے رسول ہیں اورجو لوگ انکےساتہہ ہیں کافروں کے مقابلہ میں بڑےسخت ہیں" (فتح#29)


نمبر4

"ما کان محمد ابااحد من رجالکم ولکن الله رسول الله وخاتم النبیین" کہ محمد'ص' نہیں ہیں تمہارے مردوں میں سے کسی کےباپ لیکن خدا کے رسول اور فہرست انبیاء کےختم کرنےوالےہیں" (احزاب#40)


- دوسرا امر

اسنے اپنےغیرمعمولی درجہ اعجاز کو آپ'ص' کی نبوت ورسالت کی دلیل بتلایا اور کہاکہ اگر تم کو انکی سچائی اور حقانیت میں شک ہو تو اسکے مثل پیش کرو اور اگر ایسانہ کرسکو "فاعلموا انما انزل بعلم اللہ" تو سمجہہ لوکہ وہ خدا کی طرف سے نازل ہواہے" (ہود#14) اس طرح اعجاز کی وجہ استدلال عقلی کو اہل عقل کے متنبہ کرنے کے لئے ذکر کیا.


- تیسرا امر

اسنے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اخلاق کی پاکیزگی اور کمال طہارت کو متعدد آیات میں ظاہر کرتےہوئے یہ ثابت کیاکہ آپ 'ص' کی زندگی اخلاق حسنہ سچائی اور پاکیزگی کا نمونہ رہی ہےجسکی بناء پر آپ 'ص' کی سیرت آپ 'ص' کے بلند دعوے کے شایان شان ہے.ارشاد ہوا


نمبر1

"وانک لعلی خلق عظیم" یقینا آپ ع'ص' بڑے اخلاق کے درجہ پر فائزہیں" (قلم#4)


نمبر2

"ودوا لو تدهن فیدهنون" ان لوگوں کی یہ آرزو ہےکہ آپ 'ص' سے کسی دورنگی کاظہور ہوتویہ بہی دورنگی سےکام لیں" (قلم#9)


نمبر3

"یامرکم بالمعروف وینهاهم عن المنکر" کہ وہ انہیں اچہی باتوں کاحکم دیتے اور بری باتوں سےمنع کرتےہیں" (اعراف#157)
اور خود اپنی تعلیمات پراہل نظر کو سنجیدگی سےغور کرنے کا موقع دیتےہوئے ارشاد کیا "ان هذا القران یهدی للتی هی اقوم" کہ یقین جانو کہ قرآن دعوت دیتاہے ایسی باتوں کی طرف جو بالکل سیدہی سیدہی اور صحیح ہیں" (بنی اسرائیل#9)
اسطرح قرآن مجید نےتمام وہ پہلو جو ایک معجزہ کی صحت کے سلسلہ میں غور کےقابل ہواکرتےہیں سب خود ہی پیش کردئیے اور اہل نظر کےسامنے رکہہ دئیے جسکے بعد غور کرنا نہ کرنا خود ان اشخاص کے حسن اختیار اور سوء اختیار کا نتیجہ ہوگیا اور حجت پوری قوت کےساتہہ تمام ہوگئی.

 

قرآن میں معجزات انبیاءکاذکر

بہت سےافرادجنہوں نےاپنےدل خواستہ اورماختہ وپرداختہ انبیاءکاحلقہ اطاعت زیب تن کیاھےاورزمانہ کےموجودہ دور سےقریب ھونےکی وجہ سےانکےلئےوہ کچھہ معجزات اور خوارق عادات کےظہورکےادعاکی جرءات نہیں رکھتے.وہ اپنی اس کمزوری اورسرمایہ اعجاز سےبےمائگی وتہی دستی کومعجزات انبیاءکےانکارسےچھپانےکی کوشش کرتے ھیں اوریہ خیال ظاھرکرتےھیں کہ انبیاءعجیب وغریب مظاھرات پیش کرکےاپنی نبوت تسلیم نہیں کراتےتھےبلکہ صرف انکی روحانیت تھی جوانکےلئےقلوب کوجذب کرتی اور لوگوں کوانکاگرویدہ بناتی تھی.
وہ اس سلسلہ میں قرآن کےاندر معجزات انبیاءکےتذکرہ کے وجود کابھی انکارکردیتےھیں اور یہ کہتےھیں کہ قرآن میں کہیں معجزہ کودلیل نبوت نہیں بتایاگیاھےاورنہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیلئےقرآن نےمعجزات کاادعاء کیا ھے.
یہ خیال بالکل غلط ھے.قرآن مجیدنےاکثرانبیاءکے معجزات کاتذکرہ صاف اور صریحی الفاظ میں درج کیاھے.بےشک اس کو "معجزہ" کےنام سےیاد نہیں کیاھےبلکہ "آیت" اور "بینہ" کےالفاظ سےیادکیاھے.اسی کو متکلمین اپنی اصطلاح میں "معجزہ" کہتےھیں.
الفاظ کےگورکھہ دھندےمیں پھنس کرمعانی سےکنارہ کشی کرناصحیح نہیں ھے.ھمکو لفظ معجزہ پرایمان لانا ضروری نہیں ھےکہ ھم آپکےاس لفظ کوقرآن میں تلاش کریں اور اسکی تعریف تلاشکریں.قرآن کوئی فدھنگ یا مجموعہ مصطلحات نہیں ھےکہ اسمیں لفظ معجزہ اوراسکی تعریف مذکورھو.بےشک ھمکو اس قسم کی دلیل نبوت کاجسے متکلمین اپنی اصطلاح میں معجزہ کہتےھیں اور جسکے وجود کو ثبوت نبوت کیلئےضروری سمجھتےھیں قرآن میں پتہ لگاناچاھیئےاگر اسکا پتہ لگ جائےتو الفاظ میں اختیار ھےاور نام رکھناآپکےھاتھہ میں ھےکہ آپ اسکو معجزہ کہیں جیساکہ اس لفظ کےلغوی معانی (عاجزکردینےوالی چیز) کی مناسبت سے متکلمین کی اصطلاح ھےیا جس لفظ سے قرآن نےان دلائل کی تعبیر کی ھو اس لفظ سےتعبیر کیجئے یاکوئی نام اپنے دل سے تجویز کرلیجئےکم سےکم ھمیں اسپر کوئی اعتراض نہ ھوگا. اب دیکھتےھیں کہ قرآن مجید میں اس قسم کی دلیل نبوت کاپتہ ھےیا نہیں اور اسی ذیل میں معلوم ھوگاکہ قرآن مجید نےکسطرح صداقت نبی کی دلیل عقلی طرف اشارہ کیاھے.
قرآن مجید نےان حیرت انگیز مظاھرات قدرت اور دلائل نبوت کو جنہیں انبیاء پیش کیاکرتےتھے "آیات" اور "بینات" کے نام سےپیش کیاھے.ملاحظہ ھو "والی ثموداخاهم صالحا قال یاقوم اعبدواالله مالکم من اله غیره قدجآءتکم بینة من ربکم هذه ناقة الله لکم ایة فذروهاتاکل فی ارض الله ولاتمسوها بسوء فیاخذکم عذاب علیم" قبیلہ ثمود کی طرف ھم نےبھیجاانکےبھائی صالح'ع' کو انہوں نےکہااےقوم والو! عبادت کرواللہ کی اس کے سواکوئی تمہاراکوئی خدا نہیں ھےتمہارےپاس تمہارے رب کی طرف سے "بینہ" آگیاھے.یہ خدا کا خاص (پیداکردہ) ناقہ جوتمہارے لئے "آیت" (نشانی) ھےتواسکو چھوڑےرکھناکہ یہ خداکی زمین میں اپنی غذا حاصل کرے اورتم اسےکوئی برائی نہ پہنچانا جس سے تم دردناک عذاب میں مبتلاھو." (الاعراف#3) اس آیت مبارکہ میں ناقہ صالح علیہ السلام کو "بینہ" کہا گیا ھے. "ثم بعثنامن بعدهم موسی بایتنا الی فرعون وملائه فظلموابها، فانظر کیف کان عاقبة المفسدین.وقال موسی یافرعون انی رسول من رب العلمین, حقیق علی ان لا اقول علی الله الاالحق, قدجئتکم بینة من ربکم فارسل معی بنی اسرآئیل, قال ان کنت جئت باية فاتبه بهاان کنت من الصادقین ° فالقی عصاه فاذاهی ثعبان مبین, ونزع یده فاذا هی بیضآءللناظرین." پھر ھمنے ان انبیاءکےبعد مبعوث کیاموسی کواپنی "آیتوں" کےساتھہ فرعون اوراسکےگروہ کی طرف توان لوگوں نےان آیتوں پرظلم کیا.اب ذرادیکھو کہ فسادکرنےوالوں کاکیاانجام ھےاور موسی نےکہاتھاکہ اےفرعون!یقینا میں خداوند عالم کی طرف سےفرستادہ ھوں اورمیرےاوپرلازم ھےکہ میں سوا سچی بات کےخدا کی طرف کسی بات کی نسبت نہ دوں.میں تمہاری طرف "بینۃ" لےکر آیاھوں.بنی اسرائیل کومیرے ساتھہ روانہ کردے.فرعون نےکہااگر تم کوئی "آیت" لائےھوتواسےپیش کرو اگرسچےھو. یہ سنکر موسی نےاپناعصاپھینک دیاجوایک مرتبہ صاف اژدھے کی شکل میں نمودار ھو گیااور انہوں نےاپناھاتھہ نکالا جوتمام دیکھنے والوں کی نظرمیں چمکدارنظرآیا" (الاعراف#103/108)
یہاں عصائے حضرت موسی علیہ السلام اور یدبیضاء کو "بینۃ" اور "آیت" قرار دیاگیاھےاسکےبعد ساحران فرعون کی آواز نقل کی گئی ھےکہ انہوں نےمعجزات کےسامنے اپنی شکست کا اعتراف کرتےھوئےفرعون سےکہا"وماتنقم مناالاان امنابایت ربنالماجآءتنا,ربناافرغ علیناصبراو توفنامسلمین." توھم سے کس بات پرناراض ھوتاھےسوائےاسکےکہ ھم اپنےپروردگارکی آیتوں پرایمان لائےجبکہ وہ ھمارےپاس آئیں پروردگار! ھم پرصبر کو غالب کردےاورھمیں ایمان کی حالت میں دنیاسےاٹھا." (الاعراف#126) اس کے بعد "وقالوامھماتاتنابہ من ایۃ لتسحرنابھافمانحن لک بمؤمنین. فارسلناعلیهم الطوفان والجراد والقمل والضفادع والدم ایت مفصلت فاستکبروا وکانواقوما مجرمین." ان لوگوں نےکہاکہ جوبھی چاھوتم "آیت" ھمارے سامنےپیش کرو کہ ھم پر اسکے ذریعہ سےجادوکرو ھم تم پرایمان لانےوالےنہیں ھیں,تو اس وقت ھم نے ان پربھیجاطوفان اور ٹڈیوں کالشکر اور جوئیں اور مینڈک اور خون کھلی ھوئی "آیتیں" مگر انہوں نے ھٹ دھرمی سےکام لیااور وہ گنہگار لوگ تھے." (الاعراف#132/133)
اسمیں پہلے جزء سےصاف ظاھرھےکہ "آیت" اس نوعیت کی چیز کوکہاگیاھےجن میں کفار جادو کی صورت میں پاتےتھے اور آخر آیت میں طوفان ,جراد, قمل, ضفادع اور دم ان تمام غیرمعمولی درجہ پرآنےوالی آفتوں کو "آیات مفصلات" سے تعبیر کیا گیاھے.
"ثم بعثنامن بَعْدِه رُسُلاًاِلٰی قَوْمِهمْ فَجَآءُوْهمْ بِالْبَیّنٰتِ فَمَاکَانُوْالِیُؤْمِنُوْابِمَاکَذَّبُوْابِه مِنْ قَبْلُ!" پھرھم نےبھیجےانکےبعد کچھہ رسول انکی قوم کی طرف اور وہ رسول انکےسامنےلائے"بینات" مگروہ کب ایمان لانےوالےتھےاس چیزپرجسکی پہلےتکذیب کرچکےتھے" (یونس#74)
اسمیں نوح علیہ السلام کےبعد مبعوث ھونے والے رسولوں کےساتھہ ظاھر ھونے والےامور کو اجمالی طور پر "بینات" سےتعبیرکیا.پھر ارشاد ھوا کہ "ثم بعثنامن بعدھم موسی و هارون الی فرعون وملائه بایتنا فاستکبروا وکانوا قوما مجرمین. فلماجآءهم الحق من عندنا قالوا ان هذالسحرمبین. قال موسی اتقولون للحق لماجآءکم اسحرهذا ولایفلح السحرون. قالوآ اجئتنا لتلفتناعماوجدناعلیه ابآءناوتکون لکماالکبریآء فی الارض, ومانحن لکمابمؤمنین. وقال فرعون ائتونی بکل سحرعلیم. فلماجآءالسحرۃ قال لهم موسی القوامآانتم ملقون. فلماالقوا قال موسی ماجئتم به السحر ان الله سیبطله ان الله لا یصلح عمل المفسدین. ویحق الله الحق بکلمته ولوکره المجرمون." پھر ھم نے بھیجاانکےبعدموسی وھارون کو فرعون اور اسکے گروہ کی طرف اپنی "آیتوں" کےساتھہ توانہوں نےھٹ دھرمی کی اور وہ بڑےگنہگار لوگ تھے.توجب انکےپاس انکےپروردگار کے پاس سےسچی حقیقت پیش ھوئی توانہوں
نےکہاکہ یہ کھلاھوا جادو ھے.موسی نےکہا کیاتم سچی بات کوجوتمہارےپاس آئی ایسا کہتےھو؟کیایہ جادوھوسکتاھے؟حالانکہ جادوگر کامیاب نہیں ھواکرتے انہوں نےکہا کیاتوھمارےپاس اسلئےآیاھےکہ ھمکومنحرف کردےجس پرھم نےاپنےآباؤاجداد کو پایااور تم دونوں کیلئےاس سرزمین پربڑائی ھوجائے اورھم تم دونوں پرایمان لانیولےنہیں. اور فرعون نےکہاکہ میرےپاس ھرکامل جادوگرکو لاؤ تو جب سب جادوگرجمع ھوئےتو موسی نےان سے کہاکہ دکھاؤ جوکرتب تم دکھاسکتے ھو.جب انہوں نےپھینکااپنی رسیوں کوتو موسی نےکہاکہ جوتم نےپیش کیاھےوہ سحر ھے. اللہ یقینااسےابھی باطل کردےگا. اللہ مفسدپردازوں کےکام کوسرسبز نہیں کرتاھے اورجوبات حق ھےاسےوہ اپنےحکم سےپورا کرتاھےاگرچہ گنہگاراسکوبراسمجھیں" (یونس#10)
ان آیات میں پورےطورپراس دلیل عقلی کاخلاصہ موجودھےجومعجزہ وسحرکے تفرقہ میں ھم نےبیان کی ھے.آیات کےمضمون سےصاف ظاہرہےکہ ظاہری صورت سے جوامر بطور دلیل نبوت نبی کو عطاہواتہا وہ ویسی ہی نوعیت کاتہاجو سحر کی گوتی ہے یعنی غیرمعمولی اور خارق عادت اور خلافت نظام عام.اسی بناء پر لوگوں نےکہا کہ "ان هذا لسحرمبین" اوریہی خیال کرکے فرعون نےمقابلہ کیلئے ساحروں کو دعوت دی لیکن پیغمبر نےاس مختصر سے جملہ سے کہ "ا سحرهذا ولا یفلح الساحرون" فلسفہ اعجازاور آیت الہی اور کرشمہ ساحری کے فرق پرمکمل روشنی ڈال دی.
اسمیں اعجاز اور سحر کے مابین فرق کامعیارجوبتلایاگیاہے
وہ یہی ہےکہ اگریہ سحر ہوگاتو اسکی کامیابی اور سرسبزی باقی نہیں رہ سکتی اسلئےکہ اللہ پر لازم ہےکہ وہ اسکا ابطال کردےاور اگر وہ سرسبزوکامیاب ہوااور اسکا ابطال نہ ہوتو سمجہو کہ حقیقتہ سحر نہیں بلکہ اعجاز ہے اور اس معیار کو اس سےزیادہ واضح الفاظ میں دوسری آیات میں بیان کیاگیاہےکہ جب موسی علیہ السلام نےساحروں کی کارستانی دیکہی توفرمایا "یہ جو تم نےکیا سحرہے یقینا خدا اسکو باطل کردےگا خدا کہی فساد برپاکرنے والوں کےکام کو سرسبز نہیں کرتا"
معلوم ہواکہ معیارسحر یہ ہےکہ اللہ اسکوباطل کردے "ویحق الله الحق بکلماته ولو کره المجرمون" یعنی جو واقعی حق ہےاور سچ مچ خدا کی طرف کی نشانی ہےاسکو وہ اپنےمظاہرات قدرت کےساتہہ برقرار رکہتاہے چاہے گنہگار لوگوں کو یہ کتنا ہی ناگوار گزرے. یہ معیار اعجاز ہے. اس سے بڑہ کر دلیل عقلی کی طرف اشارہ کیاہوگا؟؟؟؟؟
ان آیات سے یہ انر بہی ظاہرہےکہ اس مظاہرہ قدرت کو جسے "آیت" اور "بینہ" کہاگیاہے دلیل نبوت اور معیار حقانیت کی صورت میں پیش کیاگیاہے بلکہ درحقیقت "بینہ" کہنا ان مظاہرات کواسی اعتبار سے ہےکہ وہ کہ وہ کہلی ہوئی سچائی کی دلیل ہیں اور "آیت" کہنا اس لحاظ سے ہے کہ وہ "حقانیت" کی نشانی ہیں.
اسکے علاوہ ملاحظہ ہو"اسلك یدک فی جیبك تخرخ بيضآء من غيرسوء واضمم اليك جناحك من الرهب فذنك برهانان من ربك الى فرعون وملائه " داخل کرو اپنےہاتہہ کو گریبان میں وہ نکلےگاروشن بغیر کسی بری صورت کےاور ملادو اپنی طرف اپنے بازو کو دہشت سے یہ دونوں دلیلیں ہوں گی تمہارے پروردگار کی طرف سے فرعون اور اسکےپاس کے بڑےآدمیوں کی
جانب" (القصص#32)اس آیت میں صاف صاف حضرت موسی علیہ السلام کے معجزات کو "برہان" یعنی "دلیل نبوت" کہا گیاہے.