صحاح ستہ میں اہل بیت(ع) کی مخالفت کا ظہور ہے
  • عنوان: صحاح ستہ میں اہل بیت(ع) کی مخالفت کا ظہور ہے
  • مصنف: آیت اللہ العظمی سعید طباطبائی
  • ذریعہ: اقتباس از کتاب عقائد فریقین کا تحلیلی جائزہ
  • رہائی کی تاریخ: 21:36:15 10-10-1403

اصول ستہ میں اہل بیت اطہار(ع) کے خلاف بہت سی روایتیں ہیں بلکہ اصول ستہ کا رجحان فکر اہل بیت(ع) کی مخالفت کی طرف ہے.

۱. اس حقیقت کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ ان کتابوں میں اہل بیت اطہار(ع) سے روایتیں نہیں لی گئی ہیں حالانکہ افراد اہل بیت اپنی صداقت اور اپنے تقدس میں لاثانی اور لا جواب تھے جیسے حضرت صادق آل محمد جعفر صادق(ع) اور دوسرے وہ افراد بھی جو اہل بیت(ع) کے خانوادہ سے تھے دوسری طرف ان کتابوں میں ایسے لوگوں سے روایتیں بھری پڑی ہیں جن کی بد کرداری جھوٹ اور فریب کاری نوشتہ دیوار اور اہل بیت(ع) سے دشمنی ظاہر ہے جیسے مروان بن حکم، سمرہ بن جندب اور عمران ابن حطان وغیرہ.

۲. دوسری بات یہ ہے کہ ان کتابوں میں فضائل اہل بیت(ع) میں کم سے کم حدیثیں بیان کی گئی ہیں جو تھوڑی بہت حدیثیں اس موضوع پر پائی جاتی ہیں وہ شدید حذف و ترمیم کا شکار ہیں فضائل اہل بیت(ع) میں جو حدیثیں ہیں ان میں کوشش یہ کی جاتی ہے کہ تخفیف کر کے یا تضعیف کر کے اہل بیت(ع) کے مرتبہ کو کم کیا جائے یا کم کر کے پیش کیا جائے اسی طرح دشمنان اہل بیت(ع) کے بارے میں جو حدیثیں ہیں اور ان حدیثوں سے دشمنوں کی تخفیف ہوتی ہے تو یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ان حدیثوں کو تضعیف قرار دیا جائے خاص طور سے مسلم اور بخاری میں یہ حرکت زیادہ کی گئی ہے ان کتابوں میں حقیقت بہت صاف جھلکتی ہے چند مثالیں ملاحظہ ہوں.

۱. بخاری نے حدیث غدیر کو اپنی کتاب میں جگہ نہیں دی ہے حالانکہ حدیث غدیر کی شہرت تواتر سے کہیں زیادہ ہے.

۲. حدیث غدیر کے ساتھ مسلم کا رویہ منافقانہ ہے انہوں نے حدیث غدیر میں سرکار دو عالم(ص) کے خطبہ میں سے اس خطبے کو اڑا ہی دیا ہے جس میں ولایت امیرالمومنین(ع) کا ذکر ہے حالانکہ ولایت امیرالمومنین(ع) ہی اس خطبے کا مقصد ہے.

۳. حدیث ثقلین ایک ایسی حدیث ہے جو تواتر کی حدوں سے کہیں آگے ہے لیکن بخاری نے اس حدیث کو جگہ نہیں دی ہے.

۴. بخاری اور مسلم نے اسود سے روایت کی ہے: لوگوں نے عائشہ سے کہا کہ علی نبی کے وصی ہیں عائشہ نے کہا پیغمبر(ص) نے ان کو وصی کب بنایا  آپ آخر وقت میں میرے سینے پر تکیہ کر کے لیٹے تھے یا یہ کہا کہ میری گود میں تھے پس آپ نے طشت مانگا پھر آپ میری گود ہی میں پیٹ کے بل ہوگئے میں تو یہ بھی نہ سمجھ سکی کہ آپ وفات پاچکے ہیں پھر آپ نے علی کو وصی کب بنایا؟(2)

لیکن ام سلمہ سے ایک روایت پائی جاتی ہے جو عائشہ کی روایت کے بالکل برعکس ہے فرماتی ہیں: اس ذات کس قسم

جس کی قسم میں کھاتی ہوں کہ پیغمبر(ص) سے علی(ع) سے زیادہ قریب تھے جب ہم دوسرے دن حضرت کی خدمت میں پہونچے تو آپ بار بار پوچھ رہے تھے علی(ع) آئے؟ علی آئے؟ صدیقہ طاہرہ(ع) نے کہا بابا آپ ہی نے تو انہیں کسی کام سے بھیجا ہے ام سلمہ کہتی ہیں اس کے بعد علی(ع) آگئے ہم نے سمجھا نبی(ص) علی(ع) سے کوئی راز کی بات کہنا چاہتے ہیں اس لئے ہم لوگ حجرے سے باہر نکل گئے اور دروازے پر بیٹھ گئے میں دروازے سے زیادہ قریب تھی پھر رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کو خود سے لپٹا لیا اور علی(ع) کو اپنے داہنے طرف لیٹا کے راز کی باتیں کرتے رہے آپ کا انتقال ہوگیا پس علی(ع) پیغمبر(ص) سے سب سے زیادہ قریب تھے.(3)

ام المومنین ام سلمہ کی اس روایت کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہیں جو امیرالمومنین(ع) اور آپ کی اولاد طاہرہ سے مروی ہےجس میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضور سرور کائنات(ص) نے امیرالمومنین(ع) کی گود میں وفات پائی اور صرف علی(ع) ہی تھے جو آخری وقت میں پیغمبر(ص) کے پاس موجود تھے.(4)

مندرجہ بالاروایت کی ابن عباس کی گفتگو سے مزید تاکید ہو جاتی ہے کیونکہ ابن عباس نے عائشہ کے بیان کا انکار کیا ہے روایت یوں ہے ابو عطفان کہتے ہیں میں نے ابن عباس سے پوچھا آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا وفات پیغمبر(ص) کے وقت آپ کا سر اقدس کسی کی گود میں تھا؟ ابن عباس نے کہا ہاں اس وقت آپ علی(ع) کے سینے سے تکیہ لگائے ہوئے تھے میں(ابو غلطان) نے کہا عروہ نے مجھے بتایا کہ ان سے عائشہ نے کہا پیغمبر(ص) نے میری ٹھڈی اور گردن کے درمیان وفات پائی ابن عباس نے کہا کیا تمہاری عقل میں بھی یہی بات آتی ہے نہیں خدا کی قسم پیغمبر(ص) نے

وقت وفات علی(ع) کے سینے پر تکیہ کیا تھا علی(ع) ہی نے آپ کو غسل دیا میرے بھائی فضل بن عباس نے علی(ع) کی غسل دینے میں مدد کی تھی.(5)‌

اس طرح کی ایک اور روایت جابر ابن عبداللہ انصاری سے بھی ہے کہتے ہیں ہم لوگ عمر کے زمانہ خلافت میں عمر کے پاس بیٹھے تھے کعب احبار کھڑے ہوئے اور عمر سے پوچھا کہ امیرالمومنین(ع) بتائیے رسول(ص) کا آخر کلام کیا تھا عمر کہنے لگے علی(ع) سے پوچھو کعب احبار نے پوچھا علی(ع) کہاں ہیں؟ کہا وہاں بیٹھے ہوئے ہیں کعب احبار علی(ع) کے پاس گئے اور وہی سوال کیا علی(ع) نے فرمایا: اس وقت نبی میرے سینے کا سہارا لئے ہوئے کاندھے سے تکیہ کر کے بیٹھے فرما رہے تھے الصلاة الصلاة کعب نے کہا اس طرح انبیاء کی آخری وصیت ہوتی ہے اور اسی کا انہیں حکم دیا گیا ہے اس بات پر وہ مبعوث بھی ہوتے ہیں کعب نے عمر سے پوچھا اے امیرالمومنین نبی کو غسل کس نے دیا تھا کہنے لگے علی(ع) سے پوچھو کعب نے علی(ع) سے پوچھا تو فرمایا: میں نے غسل دیا تھا اور عباس بیٹھے ہوئے تھے.(6)

خود عائشہ سے مروی ہے ایک روایت مندرجہ بالا حقیقت کی تائید کرتی ہے عائشہ سے دو عورتوں نے پوچھا کہ ہمیں غسل کے بارے میں بتائیے کہنے لگیں اس شخص کے بارے میں میں کیا بتائوں جس نے وقت وفات نبی(ص) کے دہن اقدس پر ہاتھ رکھا اور نبی کی جان اس کے ہاتھ میں نکلی پھر اس نے اپنے اسی ہاتھ کو اپنے چہرے پر مل لیا جب لوگوں نے پیغمبر(ص) کے دفن کرنے میں اختلاف کیا تو علی(ع) نے کہا کہ زمین کا وہ ٹکڑا جس پر اللہ کے انبیاء وفات پاتے

ہیں اللہ کے نزدیک سب سے محبوب ہوتا ہے دونوں عورتیں کہنے لگیں( کہ جب آپ یہ سب جانتی تھیں) تو آپ نے علی(ع)پر خروج کیوں کیا؟ عائشہ نے کہا یہ تو مقدر کی بات اور تقدیر کا فیصلہ تھا مگر مجھے افسوس اتنا ہے کہ اگر میرے لئے ممکن ہوتا تو زمین پر جو کچھ ہے اس کو میں اس گناہ کا فدیہ بنا دیتی.(7)

عائشہ سے دوسری حدیث بھی ملاحظہ ہو کہتی ہیں پیغمبر(ص) نے فرمایا جب آپ میرے گھر میں عالم احتضار میں تھے میرے حبیب کو بلائو میں نے کہا تم پروائے ہو علی بن ابی طالب(ع) کو بلائو وہ پیغمبر(ص) سوائے ان کے کسی کو نہیں بلا رہے ہیں جب علی(ع) آئے تو نبی(ص) سنبھل کے بیٹھ گئے اور اپنی چادر پھیلا کے علی(ع) کو اس میں داخل کر لیا پھر علی(ع) لیٹے رہے یہاں تک کے آپ کی وفات ہوگئی.(8)

ایک ہی واقعہ کے بارے میں عائشہ کا در نظریہ دیکھ کے آپ کو تعجب نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ یہ اختلاف نظر اصل میں اختلاف حالات کی دین ہے خصوصا عثمان کے بارے میں جو ان کا رویہ تھا اس کی وجہ سے اس نظریہ پر خاصہ اثر پڑا ہے.

میرا خیال ہے کہ مذکورہ بالا حدیثیں جن میں نبی کے آخری وقت میں علی(ع) کو آپ کے پاس دکھایا گیا ہے مزاج نبوت کے زیادہ مناسب اور شان رسالت کے شایان شان ہے اس لئے ان کی صحت میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے یہ بات بالکل بعید از قیاس اور بعید از عقل ہےکہ کائنات آدم و عالم کا آخری نبی اور عالم انسانیت کا قیامت تک کے لئے ہادی اعظم اپنا آخری وقت کسی عورت کی گود میں گذارے جب کہ آخری وقت وہ اہم ترین لمحہ ہوتا ہے جس میں کوئی بھی ناظم اور مدبر اپنے مشن کی کامیابی کا انتظام  کرتا ہے اور اپنے مشن کو کامیابی سے چلانے والوں کی محبت میں گذارتا تاکہ اس کو ایک مکمل  پروگرام دے سکے، اسی لئے پہلی حدیث میں جب  ابن عباس نے راوی سے سنا کہ عائشہ کہتی ہیں نبی نے میں گود میں جان دی تو فورا پوچھا کیا تم کو یہ بات معقول لگتی ہے بہر حال ان تمام باتوں کے با وجود بخاری اور مسلم نے عائشہ کی پہلی حدیث پر اعتبار کیا ہے اور ام سلمہ کی حدیث کو اس کی صحت اور قرین قیاس و عقل ہونے کے باوجود مہمل قرار دیا ہے اور اپنی کتاب میں نہیں لکھا یہاں تک کہ حاکم کو اس بات کا احساس ہوا اور انہوں نے اپنی مستدرک میں اس حدیث ک شامل کر لیا تاکہ سمجھ میں آئے کہ بخاری اور مسلم سے یہ حدیث چھوٹ گئی ہے پھر اس حدیث کو دوسری حدیثوں سے تقویت بھی دی.

۵.بخاری اور مسلم نے پنجشنبہ کی مصیبت کے نام جو واقعہ مشہور ہے اس کا تذکرہ کیا ہے پنچشنبہ اپنی زندگی کے آخری پنجشنبہ کو جب پیغمبر(ص) نے چاہا تھا کہ ایسی تحریر و حوالے کر دیں کہ آپ کی امت قیامت تک گمراہی سے محفوظ ہوجائے پیغمبر(ص) کے اس ارادے کو رد کر دیا گیا تھا دونوں محدثین  یعنی بخاری اور مسلم نے اس واقعہ کو تو لکھا ہے لیکن اس جسور کا نام گول کر گئے ہیں جس نے نبی(ص) کو رد کیا تھا اسی طرح رد کرنے والے کا یہ جملہ نہیں لکھا ہے کہ پیغمبر(ص) ہذیان بک رہے ہیں.(9) لیکن جب کسی مجبوری کے تحت رد کرنے والے کا نام بتانا ہی پڑتا ہے تو پھر بڑی ذہانت سے عمر کی زبان سے نکلے ہوئے جملے میں تحریف کر دی اور یہ لکھا کہ قول پیغمبر(ص) کو رد کرنے والے تو عمر ہی تھے اور انہوں نے یہ کہہ کے پیغمبر(ص) کی تردید کردی کہ نبی(ص) پر درد کا غلبہ ہے.(10)

۶. اس جھوٹی عمر ابن عاص کی یہ حدیث بھی آپ کی نظروں سے گذر چکی ہے جس میں حضور(ص) نے فرمایا کہ آل ابوطالب میرے اولیا نہیں ہیں بلکہ میرا ولی اللہ اور صالح المومنین ہے(11) اس حدیث کو مسلم اور بخاری دونوں نے لکھا ہے.

۷. اس جھوٹی اور نا معقول حدیث کو بھی بخاری اور مسلم نے لکھنا بہت ضروری سمجھا ہے جو ابھی گذر چکی ہےکہ مسلمانوں نے ابوسفیان سے معاملہ کر لیا اور وہ نبی کے پاس اپنی گذارشات لے کے آیا تھا حالانکہ وہ مورخین کے اجماع کے صریحا خلاف ہے مورخین کا اس بات پر اجماع ہے کہ نیی(ص) نے ابوسفیان کے اسلام لانے کے پہلے ام حبیبہ سے عقد کیا تھا.

نمونے کے طور پر چند حدیثیں دونوں حضرات کی کتاب سے پیش کی گئی ہیں تاکہ ثابت ہوسکے کہ یہ لوگ دشمنان اہل بیت(ع) کو حدیثوں کے اندر کتنا اوپر اٹھاتے ہیں اور اہل بیت(ع) کی کتنی تخفیف اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی

ہے کہ جمہور اہل سنت کی صحاح خصوصا اصح الکتب صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں رجحان فکر اہل بیت کے خلاف ہے اور ترجیحات اہل بیت(ع) کی ضد میں ہیں.
......................................

1.سنن ابن دائود پر ابن قسیم کا حاشیہ، ج۶، ص۷۵.۷۶، اور اس سے ملتی جلتی زاد الہاد، ج۱، ص۱۰۹.۱۱۲، پر ہے فصل ازدواج نبی(ص) سے متعلق، جلاء الافہام، ص۲۴۸.

2.صحیح بخاری، ج۳، ص۱۰۰۶، کتاب الوصایا.

3.المستدرک علی الصحیحین، ج۳، کتاب معرفتہ الصحابہ، مجمع الزوائد،ج۹، ص۱۱۲، المصنف لابن ابی شیبہ، ج۶، ص۳۵۶، مسند اسحاق بن راہویہ، ج۱، ص۱۲۹. ۱۳۰. مسند احمد ج۶، ص۳۰۰. مسند ابی لیلی، ج۱۲، ص۳۶۴.۴۰۴ فضائل الصحابہ لابن حنبل، ج۲، ص۶۸۶. البدایہ والنہایہ، ج۷، ص۳۶۰.

4.الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۶۳. فتح الباری، ج۸، ص۱۳۹.

5.الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۶۳. فتح الباری، ج۸، ص۱۳۹. کنزالعمال، ج۷، ص۲۵۳.۲۵۴. حدیث۱۸۷۹۱.

6.الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۶۳. فتح الباری، ج۸، ص۱۳۹.

7.مسند ابی یعلی، ج۸، ص۲۷۹. مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۱۲. تاریخ دمشق، ج۴۲، ص۳۹۴. البدایہ والنہایہ، ج۷، ص۳۶۰.۳۶۱.

8.المناقب للخوارزمی، ص۶۸. تاریخ دمشق، ج۴۲، ص۳۹۳. ینابیع المودة، ج۲، ص۱۶۳. ذخائر العقبی، ص۷۲.

9.صحیح بخاری، ج۳، ص۱۱۱. کتاب الجہاد والسیر، صحیح مسلم، ج۳، ص۱۲۵۹.

10.صحیح بخاری، ج۵، ص۲۱۴۶، صحیح مسلم، ج۳، ص۱۲۵۹.

11.پہلے سوال کے جواب میں ان کے مصادر کی طرف اشارہ ہوچکا ہے، ج۲، ص۵۹.