دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت (حصّہ چہارم )
  • عنوان: دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت (حصّہ چہارم )
  • مصنف: حامد حسن سید پروفیسر
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 12:19:26 14-9-1403


اب آصف شاہی حکومت قائم ہوئی اس کی بنیاد رکھنے والا نواب قمرالدین خان‘ نظام الملک تھا جو سادات بارہہ سے دشمنی میں خصوصاً بدنام تھا۔ دوسرے اس کا ذوق دہلی کے مغل امرا سے مختلف نہیں تھا نظام الملک فارسی دان اور فارسی خوان تھا ‘ ناصر جنگ‘ صلابت خان ۔۔۔ نے البتہ اردو کی سرپرستی کی اردو کی سرپرستی غزل کے ساتھ مرثیہ کی سرپرستی سے منسلک تھی آصف جاہ ثانی نے سرکاری زبان فارسی رکھی مگر دکھنی عوام کی ترجیہات کے حوالے سے اردو زبان سے منہ موڑنا بھی ممکن نہیں تھا۔
اردو بدستور بولی اور لکھی جاتی رہی ۔۔۔۔ مرثیہ گو شعرا میں رضی‘ قادر‘ روحی ‘ چندو‘ لال مہاراجہ‘ پیش کار کے دربار سے وابستہ مشہور مراثی نگار تھے دوسرے مرثیہ گو شعرا اس دور میں فدوی‘ کمتر‘ ماکھن‘ عقلان تھے۔
آصف جاہ اول کے زمانہ سے شعرا شمالی ہندوستان سے دکن آنے جانے لگے ارسطو جاہ کے زمانہ میں سکندر اور بیان آئے چند ولال کے زمانہ میں مشتاق ۔۔ آئے‘ سالار جنگ کے زمانہ میں لکھنو سے میر ذکی‘ شاگرد میرزا دبیر آئے پھر‘ انیس اعلی اللہ مقامہ دکن آئے۔ اس دور میں ناجی‘ اشعر‘ دانش‘ مرثیہ گوئی میں زبان‘ محاورہ‘ روزمرہ کا خیال رکھتے تھے۔ میر انس‘ میر نفیس‘ میر سلیس‘ عارف ‘ رشید‘ اوج‘ حیدر آباد آتے رہے مقامی شعرا میں عابد شاگرد انیس ہوئے‘ سرفراز‘ مہدی‘ سفیر‘ الم‘ مرزا علی نے مرثیہ گوئی میں نام پایا۔
سرفراز، میر انیس کے شاگرد تھے واقعات نگاری ان کا میدان تھا‘ میر مہدی منظر نگاری اچھی کرتے تھے‘ الم بسیار گوتھے‘ مراثی میں رزم‘ بین و بکا سے غرض رکھتے تھے سفیر کے دیوان میں نعت سلام اور مراثی موجود ہیں شہر کے صاحب ! زادے نے بچپن سے مرثیہ گوئی کا آغاز کیا تھا۔
حیدر آباد سے عزاداری‘ میسور‘ مدراس‘ بمبئی‘ پہنچی حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے دربار میں ایرانی امراء‘ وزرا تھے ان کی بڑی قدر دانی کی جاتی تھی میسور میں عزاخانے تعمیر ہوئے جہاں باقاعدگی سے مجالس عزا جنہیں ”روضہ خوانی‘ کہتے تھے برپا ہوتی تھیں ”سبیل“ کے مراثی میسور سے خلاص تھے‘ ایرانی شہادت نامے پڑھتے تھے‘ تحفہ درود و سلام کے ساتھ حیدر علی اور ٹیپو سلطان دربارشاہی میں صدر نشین ہوتے تھے۔
مدراس کا مغل گورنر سعادت علی خان دکنی زبان میں مرثیہ لکھتا تھا انور خان صوبیدار کرناٹک کے زمانہ میں ولی‘ سرور‘ مثنوی میں مرثیہ کہتے تھے مدراس کی مجالس میں واعظ کاشفی کی روضتہ الشہداء پڑھی جاتی تھی نواب انور خان کے صاحب زادہ‘ اس کے چار بیٹے اس خاندان سے گورنر مدراس ہوۓ ۔ یہ سب شاعر مرثیہ گو تھے محمد باقر‘ غمگین‘ نامی‘ رفعت ‘ مشتاق‘ خاصے مشہور مرثیہ نگار تھے۔ والد جاہی خاندان ختم ہوا‘ مدراس کے شعرا حیدر آباد آگئے ذکی‘ ولد‘ رونق‘ جوش نواب حیدر حسن ان کے صاحب زادے حسین دوست‘ قدیم جاگیر دار گولکنڈہ کے خاندان سے حیرت شاگرد میرزا دبیر‘ اور رضا شاگرد اوج نے مرثیہ گوئی میں بڑا نام پایا۔