شاعری، اسلام کی نظر میں
  • عنوان: شاعری، اسلام کی نظر میں
  • مصنف: غلام قاسم تسنیمی
  • ذریعہ: امام حسنین فاونڈیشن
  • رہائی کی تاریخ: 11:49:56 14-9-1403

شاعری، اسلام کی نظر میں
غلام قاسم تسنیمی

امام حسین ع فاونڈیشن


مقدمہ
زندگی میں انسان مختلف اسباب کے ذریعہ سے اپنے پیغام کو منتقل کرتا ہے، کبھی کس ہنر کے ذریعہ سے اور کبھی اپنا ما فی الضمیر سیدہے سادے جملوں سے مخاطب کی طرف منتقل کرتا ہے ، اور کبھی اسے منظم اور مرتب کر کے شاعری کی صور ت میں پیش کرتا ہے، کبھی اسے داستان کے عنوان سے پیش کرتا ہے اور کبھی آرٹ کے ذریعہ۔ آج کی دنیا میں ہنر کی بہت ہی زیادہ ہے ۔ سادے طریقہ سے دئے گئے پیغام کی اتنی تاثیر نہیں ہوتی لیکن اگر اس کو ہنر اور آرٹ کی صور میں پیش کریں تو اس کی تاثیر زیادہ ہوتی ہے۔ آج کل پوری دنیا میں تبلیغات کے لئے مختلف طریقے ہیں مثلا فیلم کے ذریعہ سے اپنا پیغام منتقل کیا جاتا ہے اور اپنی باطل فکر کو اتنا جذاب اور دلچسپ کر کے پیش کرتے ہیں کہ ہمارے نوجوان بھی ان کی طرف کھنچے چلے جا رہے ہیں، عام دنیا میں ان کی بہت بڑی ڈیمانڈ ہو رہی ہے، یہ لوگوں کو گمراہ کرنے کا ایک طریقہ ہے، لوگوں کو معنویت اور دین سے دور کرنے کا  ایک راستہ ہے۔
 آج اگر ہمارے نوجوان دین گریز ہیں تو اس وجہ سے ہیں کہ ہم نے دینی تعلیمات کو ہنر اور فن کے ذریعہ سے ان کے اذہان میں منتقل نہیں کیا، اگر یہ دینی تعلیمات اگر یہ اسلامی مفاہیم ہنر کی صورت میں، نوجوان نسل تک منتقل ہوتے اور ان کے اذہان میں راسخ ہو جاتے تو آج ہمیں دنیا میں یہ بی دینی نظر نہیں آتی۔اس لادینی کا اہم تعلق اس سے ہے کہ اس لا دینی نے نوجوانوں کو نئی نسل کو، بلکہ تمام انسانوں کو اپنی طرف جذب کر لیا ہے۔
اپنے پیغام کومنتقل کرنے کے لئے، شاعری بہترین طریقہ ہے۔ایک بات جو نثر کی صورت میں کی جائے شاید اثر کرے یا نہ کرے، شاید اس کی تاثیر چند دنوں تک رہے لیکن اس پیغام کو اگر شاعری کے انداز میں پیش کریں تو اس کی تاثیر کا دائرہ بھی زیادہ ہوگا اور بڑی مدت تک تاثیر رہی گی، اور احسن طریقہ سے آپ کے مفہوم کومخاطب تک منتقل کردے گی۔
شاعری کی اہمیت آج کسی پر مخفی نہیں ہے،تمام اقوام کو تمام ممالک کو دیکھیں کہ ان کے جتنے بھی قومی ترانے ہیں ، وہ سب شاعری کی صورت میں ہیں،  سب نے محسوس کر لیا ہے کہ سادہ نثر میں اتنی تاثیر نہیں ہے جتنی شاعری میں ہے،جو پیغام آپ شاعری کی صورت میں بہترین طریقہ سے منتقل کر سکتے ہیں وہ نثر میں نہیں ہو سکتا۔
امام صادق ؑ ارشاد فرماتے ہیں
من قال فينا بيت شعر بنى اللَّه له بيتا فى الجنة:  (الغدیر، ج۲، و۳۔)
جو بھی ہماری فضیلت ایک شعر کہے گا خالق کائنات جنت میں اس کے لئے ایک گھر بنائے گا ، شاعری کی اہمیت اور فضیلت ہے۔ آپ ویسے فضائل پڑہیں اس کی بھی فضیلت ہے لیکن اگر شاعری کی صورت میں تو کیونکہ اس کا اثر مخالطب کی نفیسات اور احساسات پر ہوتا ہے اس لئے اس کی فضیلت بھی زیادہ ہے،
امام رضاؑ نے اسی مطلب کو اور زیادہ واضح کیا ہے فرمایا کہ :
من انشا فینا شعرا بنی الله له بیتا فی الجنة اوسع من الدنیا بسبع مرات۔
جو ہماری شان میں ایک شعر کہے گا خداوند متعال اس کے لئے جنت میں ایسا محل بنائے گا جو اس پوری دنیا سے سات گنا زیادہ وسیع ہوگا، اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ وسیع محل چند ہزار گز کا ہوتا ہے، خدا چاہتا ہے کہ فضائل اہلبیت ؑ زیادہ سے زیادہ عام ہوں، کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اتنا وسیع محل کیا کریں گے شاید وہاں تنہائی ہو اور انسان بور ہو جائے فرمایا:
 یزوره فیها کل ملک مقرب و نبی مرسل۔
 اس کی زیارت کو آئیں گے اس کے محل میں اللہ مقرب ملائکہ اور فرستادہ رسول۔وہ اس کی زیارت کو آئیں گے۔
یہ بھی شاعری کی فضیلت ہے کہ قرآن کی ایک سورہ کا نام شعرا ہے، قرآن کا اپنا ہی انداز ہے کہیں گائے پر سورہ ہوتی ہے اور کہیں ہاتھ پری، گائے کی سورہ قرآن کی سب سے طولانی سورہ ہے، لیکن فیل اور ہاتھی کی سورہ فقط چند آیتوں پرمشتمل ہے۔ سور بقرہ کے بعد قرآن مجید کی سب سے بڑی سورہ شعرا ہے، جس میں ۲۲۷ آیتیں ہیں، اس سورہ کا  وجہ تسمیہ کیاہے؟ کیوں اس سورہ کا نام شعرا ہے؟ یہ سورہ کی آخری چند آیتوں میں ذکر ہوا ہے۔ سورہ شعرا آخری چار آیتیں یعنی ۲۲۴ سے آخر تک۔
مذموم شاعری
البتہ شاعری جہاں ممدوح اور پسندیدہ چیز ہے وہاں کچھ جہات سے مذموم بھی ہے، دینی متون قرآن و روایات میں کچھ مقامات پر ہمیں شاعری کی مذمت بھی ملتی ہے؛
سورہ شعراء میں ارشاد ہوتا ہے :
وَ الشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ (224) أَ لَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وادٍ يَهِيمُونَ (225) وَ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ ما لا يَفْعَلُونَ (226) ؛
شعرا کی پیروی وہی کرتے ہیں جو گمراہ ہوں، ان کے پیچھے وہی جاتے ہیں جو گمراہ ہوں، شاعر کی پیروی کرنے  والے گمراہ ہوتے ہیں لیکن کونسے شاعر؟ وہ شاعر جو ہر وادی سرگردان رہتے ہیں یہاں سے وہاں سے ، جہاں سے جو مل جائے وہاں چلے جاتے ہیں، کلام کو کافیہ اور وزن دینے کے لئے، تشبیہ اور استعارہ کے لئے خیالی دنیا میں سرگردان ہو جاتے ہیں؛ کسی سے راضی ہو جائیں تو اسکی  فضیلت بیان کرنےزمین و آسمان ایک کر دیتے ہیں، اگرچہ حقیقت میں وہ ایک کوڑی کا بھی نہ ہو،  اگر کسی سے ہمفکر نہ ہوں تو اس کے خلاف شاعری کرتے ہیں اس کی عزت اور آبرو خاک میں ملا دیتے ہیں اگر چہ وہ یگانہ دہر ہو۔ وہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں ، جو کہتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے۔ شاعر گمراہوں کے بھی امام ہیں، خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں،۔
زمانہ جاہلیت میں کس طرح کی شاعری تھی، سب سے بہترین شاعر وہی ہواکرتا تھا جو زیادہ سے زیادہ جاہلیت کی باتوں کو اچھے انداز میں پیش کرے، وہ شاعر ہے، یعنی زمان نزول کی فضا میں، ان حالات و شرائط میں شاعری یہ تھی کہ آپ بیہودہ باتوں کو اچھے قالب میں ڈہال کر کے پیش کریں تو آپ اچھے شاعر ہیں، قرآن مجید اگر یہ فرمایا ہے کہ  شاعر گمراہوں کا امام ہوتا ہے، کیوں کہ اس وقت شاعری کا تصور ہی جاہلانہ تھی۔ جس میں واہیات اور بیہودہ گفتگو ہوتی تھی۔ جنس مخالف کی شکل و صورت کو بیان کیا جاتا تھا، جنسی جذبات کو ابھارا جاتا تھا، معاشرے میں ہوا و ہوس  کو رواج دیا جاتا تھا۔
شعر تو اچھی چیز ہے  پھریہ مذمت کیسی تھی؟ اس  مذمت نے بہت بڑے شاعروں کو پریشان کردیا، صدر اسلام کے شعرا ، حسان بن ثابت جب شعر کہتا تھا تو رسول اللہ (ص)ارشاد فرماتے ہیں :
    یویدک روح القدس،  (تفسیر نور، ج۸، و۳۸۲)
اے حسان تمہاری تایید روح قدس کر رہاہے، خاص طور پر جب غدیر خم میں من کنت مولاہ کے بعد حسان نے شاعری کی تو فرمایا کہ تم شعر کہتے جا رہے ہو روح قدس تمہاری تایید کرتا جا رہا ہے، جب یہ مذمت وارد ہوئی تو پریشان ہو گئے اورآئے رسول اللہ(ص) کے پاس،  یا رسول اللہ! اب ہمارا کیا ہوگا؟ ہم تو شاعری کرتے ہیں، جب کہ آیت یہ فرما رہی ہے کہ شاعر ، گمراہوں کا امام ہے۔ تو رسول اللہ (ص)نے فرمایا: نہیں! یہ آیت تمہارے لئے نہیں ہے،؛ کیونکہ :
ان المؤمن يجاهد بنفسه و سيفه و لسانه ،  تفسیر قرطبی، ج۴، و۴۸۶۹۔
مومن جس طرح تلوار کے ذریعہ سے جہاد کرتا ہے دین کی حفاظت کرتا ہے اس طرح زبان کے ذریعہ سے دین کی حفاظت کرتا ہے، میدان کا جہاد تلوار کے ذریعہ سے ہوتا ہے جبکہ ثقافتی جہاد زبان سے ہوتا ہے، فرمانا یہ چاہتے ہیں جس طرح میدان میں تلوار چلانا جہاد ہے اسی طرح دینی مفاہیم کو شعر کی صورت میں پیش کرنا جہاد ہے۔
یہ دونوں باتیں کیسے جمع ہوں، ایک طرف شاعری کی اتنی فضیلت کہ ایک شعر کے بدلے میں جنت میں محل جائے اور دوسری طرف رسول شاعر نہیں ہے، رسالت کے لئے شاعری مناسب نہیں ہے اور کبھی فرمایا کہ شاعر تو گمراہوں کا امام ہوا کرتا ہے۔
ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل بات شاعری یا شعر کی نہیں ہے بلکہ اصل بات شاعر کی طبیعت، صفات، عادات، میلانات، جذبات اور احساسات کی ہے، اگر کوئی اچھی شاعری کرے، با مقصد شاعری کرے، لوگوں کو حق کی طرف دعوت دے، قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرے تو یہ ایک ممدوح امر ہے۔ لیکن اگر خود عیش عشرت میں غرق ہو، فقط حیوانی اور جنسی جذبات کو ہوا دینے، ظالم فاسق اور فاجر حکمرانوں کی تعریف کرنے، حق کی مخالفت اور باطل کی ترویج کے لئے شاعری کرے تو یہ مذموم ہے۔
رسول اللہ سے شاعری کی نفی
ایک اشکال یہ ہوتا ہے کہ کیا شاعری فضیلت نہیں ہے ؟  آئمہ اور انبیا شاعری کرتے تھے یا نہیں؟ اگر شاعری اچھی چیز ہے اور ایک ممتاز صفت شمار ہوتی ہے تو کیوں  قرآن فرما رہا ہے کہ ہم نےرسول کائنات کو شاعر نہیں بنایا، اس کو شعر کی تعلیم نہیں دی:
 وَ ما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَ ما يَنْبَغِي لَهُ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَ قُرْآنٌ مُبِين؛  سورہ یس، آیہ۶۹۔
ہم نے شعر کی تعلیم نہیں دی اور نہ ہی  شعر کی تعلیم مقام نبوت سے سازگاری رکھتی ہے،کیا رسول شاعری کر سکتے تھے یا  نہیں؟
 ثانیا: اللہ نے کیوں فرمایا کہ وما علمناہ الشعر ہم نے انہیں شعر کی تعلیم نہیں دی، اس لئے کہا جاتا ہے کہ آیات کو سمجھنے کے لئے شان نزول کی ضرورت ہوتی ہے، جس ماحول میں آیت میں نازل ہو رہی ہے، جن حالات میں آیت نازل ہو رہی ہے ان کا ملاحظہ کرنا، بہت لازمی ہے، اس کے بغیر آیت سمجھ میں نہیں آئے گی،  آپ دیکھیے کہ کافروں کا رسول اللہ پر سب سے بڑا اشکال کیا تھا ؟ ان کا سب سے بڑا اعتراض رسول اللہ پر یہ تھا کہ یہ جو کلام لا رہے ہیں یا تو خود بنا رہے ہیں یا ان کا کوئی دوسرا انسانی استاد ہے، جو انہیں تعلیم دے رہا ہے، خدا کی طرف سے کوئی وحی ان پر نازل نہیں ہوتی، اگر مثال دینا چاہیں تو اس طرح دی جا سکتی ہے، ایک نہایت ہی اہم مسئلہ ہے سیرت پیغمبر میں، کہ کیا رسول اللہ لکھنا جانتے تھے یانہیں؟ فرمایا گیا کہ رسول اللہ امی تھے، نہیں لکھا زندگی میں، محققین یہ کہتے ہیں کہ لکھنا جانتے تھے، لیکن لکھا نہیں،  استعداد اور صلاحیت تھی اظہار نہیں کیا، اس لئے اظہار نہیں کہ اگر اظہار کردیتے تو کافروں کو بہانا بنانے کا موقعہ مل جائے گا، اگر کبھی لکھتے کبھی ان کے سامنے پڑہتے تو وہ کہتے کہ یہ تو پڑہا لکھا ہے اس نے فلاں سے درس لیا ہے لہذا آج جو قرآن کی صورت میں پیش کر رہا ہے یہ وہی ہے۔
امامیہ کا نظریہ یہ ہے کہ لکھنا جانتے تھے لیکن اظہار نہیں کیا، صلح حدیبیہ میں جب کافروں نے کہا کہ محمد(ص) کے ساتھ رسول اللہ نہ لکھا جائے تو آپ نے علی ؑکو فرمایا کہ رسول اللہ کو مٹا دو، جب امام علی ؑ نےنہیں مٹایا تو خود ہی مٹا دیا، یہ آپ کے لکھ سکنے کی دلیل تھی۔
قرآن نے یہ نہیں فرمایا کہ کافیہ نہ بنائو، تمہارا کلام وزن و کافیہ کے مطابق نہ ہو، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔جس طرح نثر کی صورت میں جملہ کہہ سکتے ہو، منظم کرکے کافیہ بنا کر بھی کہہ سکتے ہو، دیکھنا یہ ہے کہ مضمون جملہ کیا ہے۔ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ اگر بات حق کی ہو تو پھر کائی فرق نہیں کہ نثر کی صورت میں کریں یا پھر نظم کی صورت میں کریں۔
شاعری کی مذمت کا سبب
اگر ممانعت کی گئی ہے تو اس وقت کی شاعری سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ اس وقت فقط جاہلانہ شاعری تھی۔ ان لوگوں کی فکری سطح کچھ زیادہ بلند نہیں تھی، ان کی پوری زندگی ان کے ذاتی مفادات، عادات و رسوم، بت پرستی وغیرہ میں گذرتی تھی، ان کی شاعری بھی ان ہی چیزوں کے حوالہ سے ہوا کرتی تھی۔ آج بھی اگر ان کی اشعار پڑہے جائیں تو ان کے فکر کی عکاسی ہو جاتی ہے، ان کی ذہنیت کا پتا چل جاتا ہے۔
امام صادق ؑ اسی آیت کے ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں ، جس سے آیت کی تفسیر روشن ہو جاتی ہے جو بھی باطل قصہ بیان کرے، افسانہ سازی کرے، بیہودہ قصہ گوئی کرےجس کا سوائے گمراہ کرنے کے کوئی مقصد نہ ہو ، وہ بھی اس شاعر کی طرح ہے جس کے لئے خدا نے فرمایا ہے
والشعراء یتبع هم الغاون۔  تفسیر نور الثقلین، ج۴، و۷۱۔
اگرچہ منظم کلام نہ ہو، کافیہ دار نہ ہو،  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذمت گمراہی کی جا رہی ہے ، قرآن یہ چاہتا ہے کہ گمراہی کی باتیں شاعری کی صورت میں نہ ہوں ، کما اینکہ گمراہی کی باتیں داستان کی صورت میں نہ ہوں،در حقیقت گمراہ کرنے سے منع کیا جائے، شاعری سے منع نہیں کیا جا رہا۔
 اس کی بہترین دلیل یہ ہے کہ آئمہ نے خود مختلف مواقع اور مناسبتوں پر شاعری کی ہے۔ امام علی ؑکا تو پورا دیوان موجود ہے، شاعری کا پورا مجموعہ موجود ہے، یاد رہے کہ امام حسین کے لئے بھی دیوان ملتا ہے یہ اور بات ہے کہ اس کی سند کے بارے میں تحقیق کی مجال ہے لیکن یہ مسلم ہے کہ آئمہ نے شاعری کی ہے۔شعر پڑہے ہیں، اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ جو مذمت کی جارہی ہے ، یہ اس شاعری کی مذمت کی جا رہی ہے جو گمراہ کرنے والی ہو، ہدایت کی طرف لانے والی نہ ہو، وگرنہ خود آئمہ قرآن کی مخالفت نہیں کرسکتے تھے، ان کی شاعری، ان کا عمل بہترین گواہ ہے کہ شاعری اسلام میں مذموم نہیں ہے۔
اسلام نے مطلق شاعری کی نفی نہیں ہے بلکہ صفات بتا کر مخصوص شاعری کی مذمت کی ہے وہ شاعر جو ہر وادی میں قدم رکھتا ہو اور سرگردان رہتا ہو، یعنی جس کی شاعری کا کوئی مقصد نہ ہو، بے مقصد شاعری کی مذمت کی جا رہی ہے با مقصد کی ممانعت نہیں کی جا رہی۔
 انهم یقولون ما لا یفعلون؛
 اس شاعر کی مذمت کی جارہی ہے جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں، جن کے عمل اور قول میں تضاد ہو، جن کی شاعری عمل سے دور کردے، خیالی دنیا میں پہنچا دے اس کی مذمت کی جا رہی ہے
ممدوح شاعری
بامقصد شاعری اور با عمل شاعری کی بہت بڑی فضیلت ہے کہ ایک شعر کے بدلے جنت میں ایک محل ملتا ہے۔ سورہ شعراء کی آخری آیت اسی مطلب اور مضمون کو بیان کر رہی ہے۔ ارشاد رب العزت ہے:
  إِلاَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ وَ ذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيراً وَ انْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ ما ظُلِمُوا وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ (227)  
 یہاں سے ممدوح شاعری کا بیان کیا جا رہا ہےمگر وہ جو مومن ہیں ان کی زندگی کا کوئی مقصد ہو،ان کی شاعری با مقصد ہو، ان کی شاعری ذکر خدا کی طرف بلائے، خدا کی یاد دلائے، جن کے قول اور عمل میں تناسب ہو وہ شاعری ممدوح ہے۔
اس بنیاد پر سورہ شعرا، شاعری کی فضیلت بیان کررہی ہے، شاعری بہترین طریقہ ہے مفاہیم کومنتقل کرنےکا،  آئمہ نے بہت زیادہ انعام دئے مرثیہ گویوں کو،کبھی اپنا پیراہن دے دیا۔حسان بن ثابت کےلئے مسجدمیں مخصوص جگہ تھی، مسجد جو کہ محل عبادت الہی ہے اس میں شاعر کےلئے مخصوص جگہ کا ہونا بتا تا ہے کہ شاعری کی بہت بڑی فضیلت ہے۔
رسول اکرم (ص) ارشاد فرماتے ہیں:
 ان من الشعر لحكمة، و ان من البيان لسحرا؛  الغدیر، ج۲، و۹۔
کچھ اشعار حکمت بھرے ہوتے ہیں جبکہ کوئی کلام سحراورجادوہوتا ہے۔
امام صادق ؑایک معروف شاعرعبدی کی شاعری اپنی اولادکوسکھانے کی تاکید فرماتے ہیں، یہ بھی اچھی اوردینی شاعری کی فضیلت پر ایک دلیل ہے۔ امام کا فرمان ہے:
 يا معشر الشيعة علموا اولادكم شعر العبدى، فانه على دين اللَّه؛ تفسیر نور الثقلین، ج۴، و۷۱۔
 اے شیعو! اپنی اولادکوعبدی کے اشعارسکھائو کیونکہ وہ دین خدا پر قائم رہا۔
حق گوئی اور حق کو بیان کرنا ایک اہم کارنامہ ہے جس کےلئے بھی توفیق الہی درکار ہے، آئمہ کی فضیلت اور ان کے مقام کو بیان کرنے سے بڑہ کرکونسا حق ہوسکتا ہے بنا بر این اس کےلئے تو خدا کی خصوصی عنایت اور نظر لطف کی ضرورت ہوتی ہے۔ امام صادق اسی مطلب کو اس طرح بیان فرما رہے ہیں:
ما قال فينا قائل بيت شعر حتى يؤيد بروح القدس؛ عيون اخبار الرضا
ہماری فضیلت میں کوئی بھی اس وقت تک شعر نہیں کہہ سکتا جب تک روح قدس اس کی تایید نہ کرے۔
مرثیہ گوئی کی فضیلت
شاعری کی اسی فطری تاثیر اورلوگوں کے احساسات اور جذبات کو بیدار کرنے کی وجہ سے آئمہ ؑنے امام حسین ؑ کی مظلومیت بیان کرنے اور لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا کرنے اور ظالم سے نفرت پیدا کرنے کے لئے مرثیہ کی فضیلت بیان کی ہے۔ امام صادق ؑ فرماتے ہیں:
 مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ بَيْتَ شِعْرٍ فَبَكَى وَ أَبْكَى‏ عَشَرَةً فَلَهُ وَ لَهُمُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ بَيْتاً فَبَكَى وَ أَبْكَى‏ تِسْعَةً فَلَهُ وَ لَهُمُ الْجَنَّةُ فَلَمْ يَزَلْ حَتَّى قَالَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ بَيْتاً فَبَكَى وَ أَظُنُّهُ قَالَ أَوْ تَبَاكَى فَلَهُ الْجَنَّة؛     (کامل الزیارات، و۱۰۶)
جو بھی مولا حسین کے غم میں ایک شعر کہے جس سے وہ بھی روئے اور دس دوسرے مومنین کو بھی رلائے تو اس کے لئے اور ان مومنین کے لئے جنت ہے۔ جو بھی مولا حسین کے غم میں ایک شعر کہے جس سے وہ بھی روئے اور  نو دوسرے مومنین کو بھی رلائے تو اس کے لئے اور ان مومنین کے لئے جنت ہے، یہ فرماتے رہے یہاں تک کہ فرمایا جو بھی مولا حسین کے غم میں ایک شعر کہے جس سے وہ  روئے بلکہ شاید فرمایا یا رونے کی شکل بنائے تواس کے لئے بھی جنت ہے۔
پہلا شعر
شاعری کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ پہلا شعر کس نے کہا؟ یہ روایت متعدد کتب میں منقول ہے علل الشرائع میں عیو ن اخبار الرضا میں خصال میں، لیکن مختلف آئمہ سے منقول ہے کبھی امام علی رضاؑ سے منقول ہوئی ہے اور کبھی امیر المومنین ؑسے بھی کیا گیا تھا کہ مولا سب سے پہلا شعر کس نے کہا تھا اور کیا کہا؟
فرمایا کہ پہلا شعرحضرت آدم ؑنے کہا جب زمین پر آئے، اس سے پہلے جنت میں سکھ ہی سکھ تھا تو طبیعت اکتا گئی، جب زمین پر آئے اولاد بھی ہوئی اور پھرحب نفس اورحب جاہ نے بھائی کو بھائی کا قاتل بنا دیا، اب حضرت آدمؑ کو احساس ہوا کہ میں نے غلطی کی، اس وقت کی شاعری کی۔
کہا جاتا ہے کہ شاعری اس وقت کی جاتی ہے کہ جس وقت انسان میں غم کی وہ مخصوس کیفیت پیدا ہو اوروہ غم میں محوہو جائے، اورکبھی کبھی توبے اختیار شاعری ہوہی جاتی ہے، حضرت نے اس وقت شاعری کی جب دیکھا کہ ایک بیٹا قاتل بن گیا ہے اور دوسرا مقتول، تو فرمایا:
قد تغیرت البلاد و من علیها و وجه الارض غبرقبیح،
قد تغیر کل لون و طعم، و قل البشابة الوجه الملیح

فرمایا یہ زمین اور زمین والے کتنا تبدیل ہو چکے ہیں، اب تو زمین کا چہرا گندہ اور قبیح بن چکا ہے، ہررنگ اور ذائقہ بدل چکا ہے، چہرے کی رونق اور بشاشت ختم ہوچکی ہے۔
یہ حضرت آدمؑ کی شاعری تھی روایت میں بیان ہوا ہے کہ اس کے بعد شیطان نے شاعری کی اورحضرت آدمؑ کا جواب دیا۔ جنت سے بھی ساتھ نکلے اور شاعری بھی ایک ساتھ کی۔
تنح عن البلاد و ساکنیها، ففی الخلد ضاق لک الفسیح
کنت بها و زوجک فی قرار، و قلبک من اذی الدنیا مریح
فلم تنفک من قیدی و مکری حتی فاتک الثمن الربیع

احتجاجات-ترجمه جلد چهارم بحار الانوار، ج‏2، ص: 74
اب اس دنیا اور اہل زمین کو چھوڑ کودور چلے جائو (کل جنت کو چھوڑا تھا، اب اس دنیا کو بھی چھوڑ دو) جنت کی وسعت تمہارے لئے تنگ ہوگئی تھی۔ جبکہ وہاں تم اور تمہاری زوجہ مزے میں تھے اور تمہاری دل دنیا کی تکلیفوں سے راحت میں تھی۔ لیکن تو میرے دہوکے میں آگیا اور میرے جال میں پھنس گیا یہاں تک کہ قیمتی سرمایہ تمہارے ہاتھوں سے چلا گیا۔
اس شاعری سے یہ پتا چلتا ہے کہ شاعری کا سابقہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسان کا اس دنیا پر سابقہ ہے، اور ساتھ میں ہی دونوں دنیا کی حقیقت کو بیان کررہے ہیں۔ جو بھی شیطان کے دھوکے میں آجاتا ہے وہ اپنا قیمتی سرمایہ کھو دیتا ہے، آج تک کسی نےبھی شیطان کی پیروی کرکے کچھ بھی نہیں پایا۔
ان روایات کا آئمہ سے منقول ہونا یہ بھی بتاتا ہے کہ حضرت آدم کے حقیقی جانشین یہی ہیں، جو حضرت آدم ؑاور ان کی تاریخ سے واقف ہیں۔
امام حسین ؑکے چند اشعار
جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کر چکے کہ آئمہ ؑ نے شاعری کی ہے، بقیہ اماموں کی طرح مولا امام حسین ؑ نے بھی شاعری کی ہے، جس میں بہت اعلی مفاہیم پائے جاتے ہیں، ہم یہاں فقط ایک نمونہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں
و إن تكن الدنيا تعد نفيسة                       فدار ثواب الله أعلى و أنبل‏
و إن تكن الأبدان للموت أنشئت‏        فقتل امرئ و الله بالسيف‏ أفضل‏
و إن تكن الأرزاق قسما مقدرا        فقلة حرص المرء في الكسب أجمل‏
و إن تكن الأموال للترك جمعها        فما بال متروك به المرء يبخل‏

كشف الغمة في معرفة الأئمة    ج‏2    28
اگر دنیا نفیس شمار کی جائے تو بھی اللہ کا دار جزا اس سے بہتر اورقیمتی ہے۔ اگر بدن مرنے کے لئے ہی بنا ہے تو راہ خدا میں تلوار سے شہیدہونا بہتر ہے۔ اگر روزی سب کی تقسیم ہو چکی ہے تو آدمی کا کمائی میں حرص نہ کرنا اچھا ہے، اگر سب کا سب مال چھوڑ کر جانے کے لئے ہے تو آدمی اس میں بخل ہی کیوں کرتا ہے۔
کتنے معرفت بھرے اشعار ہیں، کس قدر اعلی مضامین پرمشتمل ہیں، واقعا امام کی شاعری کس قدر حقیقت اور واقعیت کے نزدیک ہے، کس طرح امام ؑ نےحقائق کو آشکار فرمایا ہے۔ دنیا اور آخرت میں مقایسہ کیا ہے، اور دنیا پر آخرت کی فضیلت کو بیان کیا ہے، موت اور شہادت کا تقابل کرا کر شہادت کی اہمیت کو بیان کیا ہے، روزی کے مقدر ہونے کا لازمہ لالچ اور حرص سے دوری کو بیان کیا ہے۔ ان اشعار میں انسان کو عمل کی دعوت دی گئی ہے، کسی قسم کا کوئی سبز باغ نہیں دکھایا گیا، کوئی افسانوی اور خیالی بات نہیں کی گئی، کوئی باطل اور ناحق مضمون بیان نہیں ہوا۔
دعا ہے کہ خالق کائنات ہمارے شعرا کو اسلام کی ان گرانقدر تعلیمات پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔