دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت (حصّہ سوّم )
  • عنوان: دکن میں اردو مرثیہ گوئی کی روایت (حصّہ سوّم )
  • مصنف: حامد حسن سید پروفیسر
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 12:13:55 14-9-1403


خواص و عوام کے لئے دکنی مراثی خون جگر کی تحریر سمجھے سمجھائے جاتے تھے مگر دکنی مراثی خالص فکروفن کے حوالے سے نہیں مصائب اہل بیت-ع- و اصحاب و امام-ع- کے پیش نظر انشاء کئے جاتے تھے شعری محاسن‘ نمود فن استادانہ کمال کا جسے بعدازاں لکھنو میں عرض ہنر کہا جاتا تھا دکھنی مرثیہ گو خیال نہیں کرتے تھے۔
مراثی میں ہیئت غزل اپنائی گئی تھی اس لئے تسلسل مضامین موجود نہیں تھا۔
محمد قلی قطب شاہ نے سب سے پہلے حدیث کربلا نظم کی پھر عابد گجراتی نے اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کی احمد گجراتی نے ساتھ ہی سراپا‘ رخصت جنگ و شہادت کے عناصر ابھارنے کی کوشش کی اگرچہ اشرف کے نوسرہار میں کسی حد تک یہ عناصر دریافت ہوئے ہیں مرزا بیجاپوری بھی مراثی ہیں۔ ان مضامین کے اضافہ سے مطمئن تھے جو مرثیہ سے بطور سنت ہم آہنگ ہیں یہ کوشش دکنی مرثیہ کو ادبیت کے دائرہ میں لانے کی سعی مشکور سمجھی جا سکتی ہیں۔
بیدر‘ بیجاپور‘ گوالکنڈہ میں شعرا نے غزل کی ہیت کو منسوخ نہیں کیا۔ مرثیہ لحن سے پڑھا جاتا تھا۔ سینہ کوبی میں یوں مرثیہ نوحہ بن جاتا تھا۔ سینہ کوبی کے ماتمی جلوس میں مسلسل واقعات کربلا بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ایک جدت یہ کی گئی کہ اندازغزل میں مطلع کی بجائے کسی اور شعر سے ابتدا کرکے ہیئت غزل میں مرثیہ لکھا جاتا تھا ۔ خوشنود ملک نے اس ابتدائی شعر کے دونوں مصرعوں کے درمیاں ”آہ“ کا اضافہ کیا۔۔۔۔ خوشنود ملک نے حضرت حر ریاحی ؑ کا مرثیہ بشکل قصیدہ انشاء کیا ۔۔۔۔ متاخرین مراثی نگاروں خصوصاً میسور میں مرثیہ کی ایک اور صورت رواج پا گئی ماتمی دستہ سینہ کوبی میں مصروف رہتا پیش خوان ۳ مصرعے ہم قافیہ و ردیف پڑھتے چوتھا مصرع ماتمی دستہ پیش خوانوں کے ساتھ مل کر دہراتا ”نوحہ“ کے ہر بند پر شربت نذر مولا نیاز حسین پلایا جاتا اور ماتمی دستہ آگے بڑھ جاتا تھا اس دکنی مرثیہ کو سبیل کہتے تھے۔
دکنی مراثی ترجیع بند و ترکیب بند کی صورت میں لکھے جاتے تھے ان کے علاوہ مراثی مربع شکل میں بھی دستیاب ہیں۔
مجلس عزا میں مصائب اہل بیت اطہار و اصحاب امام حسین ع کے ساتھ فضائل کا بیان ہوتا تھا یہاں شعرانے پندو نصائح اخلاق آموزی کے تجربات کرکے مرثیہ کی روایات کو توسیع دینے کی کوششیں فرمائیں۔
اورنگ زیب بہادر نے بالاخر مغلوں کی دکنی پالیسی کو کامیابی سے ہم کنار کیا قطب شاہیہ اور عادل شاہیہ خاندانوں کا خاتمہ ہوا ۔۔۔
اورنگ آباد صدر مقام ہوا۔ گولکنڈہ‘ بیجاپور‘ گلبرگ‘ بیدر کی رونقیں ادھر سمٹ آئیں نتیجہ یہ بھی ہوا کہ بادشاہ ‘ مغل گورنر‘ جلوس علم‘ تعزیہ ذوالجناح میں شریک نہیں ہوسکتے تھے شاہی ذاکر‘ مرثیہ خواں موقوف کردیئے گئے عزا خانوں کے خادموں کی مدد معاش بند کر دی گئی۔
مگر چند در چند شعرا درباری سرپرستی سے محروم ہو کر بھی توشہ آخرت کی فراہمی کے لئے مرثیہ گوئی اور مدحت اہل بیت میں مصروف رہے۔ ذوقی‘ اشرف‘ ندیم‘ نسیم‘ نے مراثی غزل و قصیدہ کی ہیئت میں انشاء کئے اشرف ‘ندیم ‘و نسیم‘ زبان صاف ستھری لکھتے تھے۔ سید اشرف بڑے خلوص و پیار سے مرثیہ انشاء کرتے تھے‘ ندیم سید تھے جن کا تعلق عادل شاہی دور سے تھا۔ عادل شاہی‘ قطب شاہی حکومتیں ختم ہوگئیں لیکن دور دراز علاقوں میں حکام اور رعایا پرانی روش سے ہٹنے کے واسطے تیار نہیں تھے اسی زمانہ میں فیاض ولی نے شہادت نامہ لکھا یہ مرثیہ بصورت مثنوی بڑا مقبول ہوا۔