اہلِ سنَت کے ائمہ کا تعارف
  • عنوان: اہلِ سنَت کے ائمہ کا تعارف
  • مصنف: ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی
  • ذریعہ: اقتباس از کتاب شیعہ ہی اہل سنت ہے
  • رہائی کی تاریخ: 4:57:16 2-10-1403


اہلِ سنت والجماعت  فروع دین میں ائمہ اربعہ " ابو حنیفہ، مالک ، شافعی اور احمد بن حنبل کی تقلید کرتے ہیں۔
یہ ائمہ اربعہ کے صحابی نہیں ہیں اور نہ ہی تابعین میں ان کا شمار ہوتا ہے، نہ انھیں رسول(ص) جانتے ہیں اور نہ انھوں نے آپ(ص) کو دیکھا ہے۔ عمر کے لحاظ سے ان میں سب سے بزرگ ابوحنیفہ ہیں ، ابوحنیفہ اور نبی(ص) کے درمیان سو (۱۰۰)  سال سے زائد کافاصلہ ہے کیوں کہ ابوحنیفہ    ۸۰؁ھ میں  پیدا ہوئے اور   ۱۵۰؁ھ  میں  انتقال کیا، اور ان (ائمہ اربعہ) میں سب سے بعد میں احمد بن حنبل ہیں جو کہ سنہ ۱۶۵ھ  میں پیدا ہوئے اور سنہ ۲۴۱ھ  میں انتقال کرگئے۔
اصول دین میں اہلِ سنت والجماعت امام ابوالحسن بن اسماعیل ، اشعری کے تابع ہیں جو کہ سنہ۲۷۰ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ ۳۳۵ھ میں انتقال کرگئے۔
ان ائمہ میں نہ آپ کو کوئی اہلِ بیت(ع) میں سے نظر آئےگا اور نہ اصحابِ رسول(ص) میں سے کوئی ملے گا کہ جس کے بارے میں رسول(ص)  نے کچھ فرمایا ہو یا اس کی طرف امَت کی ہدایت کی ہو ؟
ہرگز ایسی کوئی چیز نہیں ملے گی یہ کام بڑی مشکل ہی ہو سکتا تھا۔
اور جب اہلِ سنت والجماعت یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم نے سنت نبی(ص) کا دامن تھام رکھا ہے تو پھر یہ مذاہب اربعہ اتنی تاخیر سے کیوں وجود میں آئے ہیں؟ اور اس سے قبل اہلِ سنت والجماعت کہاں تھے؟ کسی کی بات تسلیم کرتے تھے؟ احکام کے سلسلہ میں کس سے رجوع کرتے تھے؟
اور ان لوگوں کی تقلید پر کیسے اکتفا کرلی جو کہ نبی(ص) کے زمانہ میں نہیں تھے اور آپ کو جانتے بھی نہیں تھے ، یہ ائمہ اربعہ تو پیدا بھی اس وقت ہوئے ہیں جب فتنے پھوٹ پڑے تھے، صحابہ ایک دوسرے کو قتل کرچکے تھے اور بعض ، بعض کو کافر کہتے تھے، جبکہ خلفاء قرآن و سنت میں اپنی من مانی کرچکے تھے اور ان میں اجتہاد سے کام لے چکے تھے، جبکہ یزید بن معاویہ  کی خلافت  کا دور گذر چکا تھا۔ کہ جس نے اپنے لشکر کے لئے مدینہ رسول(ص) کو مباح قرار دیدیا تھا وہ جو چاہے کرے۔ چنانچہ ایک مدت تک فوجِ یزید  نے فساد برپا رکھا اور ان صحاب اخیار کو تہہ تیغ کردیا  جنھوں نے یزید کی بیعت بہیں کی تھی، عورتوں کو مباح سمجھ لیا، اور کسی کا کوئی  پاس و لحاظ نہ رکھا یہاں تک بے شمار عورتیں حاملہ ہوگئیں۔
ایک عقلمند ان ائمہ پر کیسے اعتماد کرسکتا ہے کہ جن کا تعلق بشریت کے اس طبقہ سے تھا جو فتنوں میں لتھڑا ہوا ہے جس کی غذا رنگ برنگ کا دودھ ہے مکر و فریب کی بنیاد پر پڑی ہو اور پلی بڑھی ہے اور اس کا ہر کام جعلی علم پر قرار ہے۔ پس ان سے وہی لوگ وجود  میں آئے جن سے حکومت راضی تھی اور وہ حکومت سے خوش تھے۔ ( آنے  والی بحثوں میں یہ بیان ہوگا اموی اور عباسی حکام ہی نے ان مذاہب کو وجود دیا اور لوگوں پر تھوپا ہے)
اور سنت سے تمسک رکھنے والا، باب مدینہ علم، علی(ع) اور جو انان جنت  کے سردار حسن(ع) و حسین(ع) اور عترت نبی(ص) سے دیگر ائمہ طاہرین کو کیونکر چھوڑا جاسکتا ہے کہ جنھوں نے اپنے جد رسول اللہ(ص) کے علوم ہیراث میں پائے ہیں اور کوئی شخص ان ائمہ کا کیونکر اتباع کرسکتا ہے۔ جنھیں سنتِ نبی(ص) کی خبر تک نہیں ہے بلکہ اموی سیاست سے وجود میں آئے ہیں؟
اور اہلِ سنت والجماعت یہ دعوی کیسے کرسکتے ہیں کہ ہم سنتِ نبی(ص) کا اتباع کرتے ہیں جب کہ انھوں نے اسے چھوڑ دیا اور اس کے خلاف محاذ بنایا ؟ اور نبی(ص) کے ان اوامر اور  وصیتوں کو پسِ پشت ڈال دیاجنمیں آپ(ص)  نے عترت طاہرہ سے تمسک رکھنے کے لئے  فرمایا تھا۔ پھر بھی دعوی ہے کہ ہم اہلِ سنت ہیں؟
کیا کسی تاریخِ اسلام کے ماہر اور قرآن و سنت کا مطالعہ رکھنے والے مسلمان کو اس بات میں کوئی شک ہوگا کہ اہلِ سنت بنی امیہ و بنی عباس کا اتباع نہیں کرتے ہیں؟ اور کیا تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والا اور قرآن و سنت سے آگہی رکھنے والا کوئی مسلمان اس بات میں شک کرے گا کہ شیعہ عترتِ نبی(ص) کے مقلد اور ان کے محب نہیں ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ شیعہ ہی سنتِ نبی(ص) کا اتباع کرتے ہیں کسی اور کو یہ دعوی کرنے کا حق نہیں ہے کہ وہ سنتِ نبی(ص) کا اتباع کرتا ہے۔
قارئین محترم ! کیا آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ سیاسی امور کیسے بدل جاتے ہیں اور وہ باطل کو حق اور حق کو باطل کیسے بنادیتے ہیں۔! پس جب نبی(ص) اور ان کی عترت سے محبت رکھنے والوں کو رافضی اور بدعت کار کہا جانے لگا اور بدعت گذاروں ، سنت و عترت نبی(ص) کو چھوڑنے والوں اور ظالم حکام کے اجتہاد پر عمل کرنے والوں کو اہلِ سنت  والجماعت  کہا جانے  لگا ، تو اس سے زیادہ اور تعجب خیز بات کیا ہوسکتی ہے؟
لیکن میں تو یقین کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ ایسے  لوگوں کو اہلِ سنت کا نام دینے میں قریش کا ہاتھ ہے کیونکہ اس کام میں ان (قریش) کی کامیابی تھی۔
یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ قریش نے عبداللہ ابن عمرو کو احادیثِ رسول(ص) لکھنے سے منع کردیا تھا اور اس دلیل کے ساتھ کہ نبی(ص) معصوم نہیں ہیں۔
در حقیقت قریش وہ لوگ تھے جن کا عرب کے قبائل میں خاندانی اورمعنوی اثر و رسوخ تھااسی لئے بعض مورخین نے انھیں " دھاۃ العرب" (یعنی عرب کے زیرک اور چالاک ترین اشخاص ) لکھا  ہے۔ کیونکہ مکر و فریب زیرکی اور امور کے انتظام  میں فوقیت طلبی میں وہ مشہور تھے۔ ان ہی لوگوں کو بعض حضرات نے اہلِ حلَ و عقد بھی کہا ہے۔
اور ان ہی میں سے ابوبکر ، عمر ، عثمان، ابوسفیان ، معاویہ، عمرو عاص، مغیرہ بن شعبہ، مران بن الحکم ، طلحہ بن عبداللہ، عبد الرحمن بن عوف اور ابو عبیدہ عامر بن جراح وغیرہ ہیں۔
( ہم نے حضرت علی(ع) کی مستثنی کیا ہے کیونکہ حکمت کے لحاظ سے ہوشیار و عقلمند ہونا اور حسن تدبیر  کا حامل ہونا ہے اور دھوکہ دہی والی زیدکی اور نفاق اور ہے۔ اور حضرت علی(ع) نے خود متعدد  بار فرمایا ہے کہ اگر میں فریب و نفاق سے کام لیتا تو عر ب کا زیرک ترین انسان ہوتا۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں بھی بیان ہوا ہے “ويمکرون  ويمکروا الله والله خير الماکرين “مکر خدا حسن تدبیر و حکمت ہے. اور مشرکین  کا مکرو فریب دھوکہ ، نفاق اور بہتان ہے۔)
جیسا کہ کبھی کبھی یہ لوگ کسی امر کے مشورے  اور کسی چیز کو نافذ کرنے کے لئے مٹینگ  کرتے تھے جب اسپر اتفاق ہو جاتا تھا اسے مضبوط ومستحکم بنانے کے لئے لوگو ں کے درمیان پھیلاتے تھے تاکہ کچھ دنوں کے بعد وہ حقیقت کی جامل ہوجائے اور لوگ اس کا راز سمجھے بغیر اس پر عمل پیرا ہوجائیں۔
ان کے مکر اور فریب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ محمد(ص) معصوم نہیں ہیں بلکہ تمام لوگوں کی طرح وہ بھی بشر ہیں ان سے خطا سرزد ہوسکتی ہے۔ اس طرح وہ نبی(ص)  کی تنقیص کرتے تھے اور حق کے سلسلہ میں آپ (ص) سے مجادلہ کرتے تھے جبکہ حق کو جانتے تھے۔
ان ہی چالاکیوں  میں سے ان کا علی(ع)  کو ابو تراب کہہ کر پکارنا، ان پر سب وشتم کرنا اور لوگوں کو یہ باور کرانا بھی کہ علی(ع)  (معاذ اللہ) خدا اور رسول(ص) کے دشمن ہیں۔
ایسی ہی ہوشیاریوں سے میں ، ان کا عمار  یاسر کو عبید اللہ بن سنایا ابن سوداء کے نام سے پکارنا اور ان کی تحقیر کرنا ہے۔ عمار یاسر  کی صرف یہ خطا تھی کہ وہ خلفاء کے موقف کے خلاف تھے اور لوگوں کو علی(ع) کی امامت کی دعوت دیتے تھے۔ ( اس سلسلہ میں ڈاکٹر مصطفی کامل الشببی مصری کی کتاب الصلہ بین التصوف والتشیع ملاحظہ فرمائیں ، مؤلف نے دسیوں دلیلوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ عبد اللہ بن سبا ، یہودی یا ابن سوداء ،عمار یاسر ہی ہیں)
ان کی مکاریوں میں سے شیعیانِ علی(ع) کو رافضی کہنا بھی ہے تاکہ لوگوں کے  ذہنوں میں یہ بات بٹھادیں کہ شیعوں نے  محمد(ص)  کی نبوت  کا انکار کر دیا ہے اور  علی(ع)  کے پیچھے ہولئے۔
خود کو اہلِ سنت والجماعت  کا نام دینا ایک زیرکی ہے تاکہ مخلص مؤمنین فریب کھائیں اور روافض کے عقائد کو سنت نبی(ص)  سے متمسک سمجھنے لگیں اور شیعوں کو سنت  کا منکر سمجھنے   لگیں۔
حقیقت میں ان کے نزدیک سنت وہ بدترین  بدعت ہے جس کا آغاز ہی انھوں نے امیر المؤمنین (ع)اور اہل بیت نبی(ص) پر ہر مسجد کے منبر  سے لعنت سے کیا تھا۔ چنانچہ  ہر شہر و دیہات کی مسجد سے یہ فعل بد انجام  دیا   جاتاتھا ۔ اور یہ بدعت اسی(۸۰) سال تک جاری رہی۔ یہاں تک کہ خطیب جب نماز کے لئے منبر سے علی(ع) پر لعنت کئے بغیر اترتا  تھا تو مسجد میں موجود لوگ چلانے لگتے تھے ۔ " تم نے سنت کو ترک کردیا۔"
اور جب عمر بن عبد العزیز  خداوند عالم کے اس قول کے مطابق " بے شک خداوند عالم عدل و احسان اور قرابت داروں کو ان کا حق دینے کا حکم دیتا ہے۔" ( سورہ نحل، آیت ۹۰)
اس سنتِ بد کو بدل دیتا ہے تو اس کے خلاف شورش ہوجاتی ہے اور مسلمان اسے قتل کردیتے ہیں۔ کیونکہ عمر بن عبد العزیز  نے ان کی سنت کو برباد کردیا تھا اور اسلاف کے اقوال کو باطل قرار دیاتھا کہ جنھوں نے اسے تختِ  خلافت پر بٹھایا تھا، لہذا اسے زہر دیکر قتل کردیا گیا جب کہ اس کی عمر ۳۸ سال تھی۔ اور صرف دو سال تک خلافت ک تھی۔
کیونکہ اس کے چچا زاد بھائی اپنی سنت کادم گھٹتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے اور پھر اس سے ابوتراب اور ان کی اولاد کی شان بڑھ رہی تھی۔
اور جب بنی امیہ کی خلافت کی تباہی کے بعد خلافت  بنی عباس کے ہاتھ آئی ، تو انھوں نے بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور ان کےشیعوں پر مصیتوں  کے پہاڑ توڑے چنانچہ جب جعفر بن معتصم الملقب بہ متوکل  کا زمانہ آیا تو اس نے بھی حضرت علی(ع) اور ان کی اولاد سے بہت زیادہ دشمنی کا اظہار کیا اس کا بغض  و کینہ توزی یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ امام حسین(ع)  کی قبر مبارک کو کھدوا دیا تھا اور لوگوں کو اس کی زیارت سے منع کردیا تھا۔ متوکل اسی کو  عطایا دیتا تھا جو حضرت علی(ع) پر سب وشتم کرتا تھا۔
علم نحو کے  مشہور عالمِ دین ابن سکیت کی زبان صرف اس جرم میں گدی سے کھنچوالی تھی کہ اس نے علی(ع) اور ان کے اہلِ بیت(ع)  سے اس  وقت محبت کا اظہار کردیا تھا جس زمانہ میں متوکل کے بچوں کوپڑھاتاتھا۔
متوکل کی دشمنی و عداوت کی انتہا یہ تھی کہ اس نے بچے کو بھی قتل کرنے کا حکم دیدیا تھا  جس کا نام اس  کے ماں باپ نے علی رکھ دیا تھا کیونکہ متوکل کے نزدیک علی نام بھی مبغوض ترین نام تھا۔ دشمنی کی حد و انتہا ملاحظہ فرمائیں  کہ جب مشہور شاعر  علی بن الجھم  متوکل کے پاس گیا تو کہنے  لگا اے امیر المؤمنین میرے  والدین نے مجھے عاق کردیا متوکل نے پوچھا کیوں ؟
اس نے کہا اس لئے کہ انھوں نے میرا نام علی رکھا تھا اور مجھے یہ نام پسند نہیں ہے اور مجھے یہ بھی گوارا نہیںہے کہ کسی کا یہ نام رکھا جائے ۔ اس بات پر متوکل نے قہقہہ لگایا اور اسے انعام سے نوازا۔
متوکل کی مجلس میں ایک شخص میر المؤمنین  علی ابن ابی طالب(ع) کی شبیہ بنتا ہے۔ اور  لوگ اسے دیکھ کر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں ، گنجا اور پیٹو آرہا ہے (معاذ اللہ ) اہلِ مجلس اس سے مسخراپن کرتے ہیں اور اس سے خلیفہ کو تسلی ہوتی ہے۔
واضح رہے جس متوکل کو علی(ع) سے اتنی عداوت تھی اور یہی چیزیں اس کے نفاق و فسق کا موجب تھیں، وہ اہلِ حدیث کو بہت محبوب اور وہ اسے محی السنۃ کے لقب سے نواز تے ہیں۔ اہلِ حدیث یعنی اہلِ سنت والجماعت۔
یہ بات تو دلیل سے ثابت ہوچکی ہے کہ اہلِ سنت علی بن ابی طالب (ع) سے بغض و عداوت  اور برائت  کو سنت کہتے ہیں؛
اور خوارزمی کایہ قول تو اس کو اور واضح کردیتا ہے کہ ہارون بن خیزران  اور جعفر متوکل " علی الشیطان لا علی الرحمان" اسی کو پیسہ ، کوڑی یا کھانا روٹی دیتے تھے جو آلِ ابی طالب(ع) پر  لعنت کرتا تھا اور نواصب کے مذہب کی مدد کرتا تھا ۔ ( کتاب الخوازرمی،ص۱۳۵)
ابن حجر نے عبد اللہ بن احمد بن حنبل  سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا : جب نصر بن  علی بن صھبان نے یہ حدیث بیان کی کہ ، رسول اللہ (ص) نے حسن و حسین(ع)  کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :
" جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اور ان دونوں ( حسن و حسین علیہما السلام)  سے
محبت رکھتا ہے اور ان کے والد و  والدہ سے محبت رکھتا
ہے قیامت کے دن وہ اور میں ایک درجے میں ہوں گے۔"
اس پر متوکل نے نصر بن علی بن صھبان کو سو(۱۰۰)  کوڑے لگوائے  تھے ۔ جس سے وہ ہلاکت کے قریب پہنچ گئے تھے پھر جعفر بن عبد الواحد نے کہا : اے امیر المؤمنین یہ تو سنی ہے یہ سنکر متوکل نے اسے چھوڑدیا ۔ ( تہذیب التہذیب ، ابن حجر حالات نصر بن علی بن صھبان)
متوکل سے جعفر عبدالواحد نے جو بات  کہی تھی اس سے ہر ایک عقلممند یہ نتیجہ نکال سکتا ہے نصر سنی تھا۔ اس لئے وہ قتل سے بچ گیا۔ نیز یہ دوسری دلیل ہے کہ اہلِ بیت (ع) کے دشمن ہی اہلِ سنت بن بیٹھے تھے۔ جبکہ متوکل کہ اہل بیت(ع)  سے سخت دشمنی تھی اور ہر اس غیر شیعہ  کو بھی قتل کردیتا تھ جو ان کی کسی فضیلت کو بیان کردیتا تھا۔ ( تہذیب التہذیب ، ج۵، ص۳۴۸)
مشہور ہے کہ عثمانی لوگ حضرت علی (ع) پر لعنت کرتے تھے اور ان پر قتل عثمان بن عفان کا الزام لگاتےتھے۔
ابن حجر لکھتے ہیں کہ کہ عبد اللہ بن ادریس ازدی سنی المسک تھے وہ کٹر عثمانی سنی  عبداللہ بن عون بصری کہتے ہیں!  عبد اللہ بن ازدی موثق ہیں وہ سنت کے معاملہ میں بہت سخت تھے اور اہلِ بدعت کے لئے برہنہ شمشیر تھے۔ ابنِ سعد کہتے ہیں کہ وہ عثمانی تھے۔ ( تہذیب التہذیب ، ج۵، ص۳۴۸)
ابراہیم بن یعقوب  جوزجاتی لکھتے ہیں کہ :
عبد اللہ بن ادریس ازدی " حریزی المذہب" یعنی حریز بن عثمان دمشقی کے پیروکار تھے اور ان کی ناصبیت مشہور تھی، ابن حیان لہتے ہیں کہ او سنت کے سلسلہ میں بڑے سخت تھے۔ ( تہذیب التہذیب ابنِ حجر ، ج۱، ص۸۲)
ان تمام باتوں سے تو  ہماری سمجھ میں یہی آتا ہے کہ علی(ع)  اور اولاد علی(ع)  سے بغض رکھنے والا اور ان پر لعنت  کرنے والا اہلِ سنت کے نزدیک سنت کے معاملہ میں بڑا کٹر آدمی ہو تا ہے  اور یہ بات بھی محتاج بیان نہیں ہے کہ عثمانی اہلِ بیت(ع)  کے جانی دشمن تھے علی(ع) اور ان کے شیعوں کو ایک آنکھ نہیں دیکھ سکتے تھے۔
اہلِ بدعت سے ان کی مراد شیعہ ہیں جو کہ علی(ع) کو امام مانتے ہیں ، کیونکہ علی(ع) کی امامت کے عقیدہ کو اہلِ سنت والجماعت بدعت سمجھتے ہیں اس لئے کہ اس  سے صحابہ اور خلفائے راشدین کی مخالفت ہوتی ہے اور پھر سلفِ صالح نے ان(علی ع)  کی امامت کو تسلیم بھی نہیں کیا  تھا اور نہ انھیں وصی رسول (ص)  مانا تھا۔ اس سلسلہ میں بے پناہ تاریخی شواہد  موجود ہیں ہم نے اتنے ہی بیان کئے ہیں جن کی ضرورت تھی اور پھر اپنی عادت کے مطابق اختصار کو بھی مدِ نظر رکھا ہے۔ شائقین ( کتابوں سے ) مزید تلاش کرسکتے ہیں۔
جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کریں گے ہم ضرور انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے بے شک خدا احسان کرنے والوں کےساتھ ہے۔
( عنکبوت،آیت ۶۹)