انسانی تربیت کی اہمیت اور آداب
  • عنوان: انسانی تربیت کی اہمیت اور آداب
  • مصنف: نذر حافی
  • ذریعہ: مؤسسہ امام حسین علیہ السلام
  • رہائی کی تاریخ: 12:8:36 14-9-1403

انسانی تربیت کی اہمیت اور آداب 
 نذر حافی


   دنیا میں کوئی بھی دین یا مکتبِ فکر اس وقت موضوعِ بحث بنتا ہے اور کھل کر منظرِ عام پر آتا ہے جب  اس کی  آغوشِ تربیّت میں پرورش پانے والے افراد اپنے مخصوص افکارو عقائد کی روشنی میں ایک مخصوص نظریاتی معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج دنیا میں جتنے بھی ادیان ومذاہب اور مکاتب موجود ہیں وہ اپنی اپنی توانائی اور صلاحیّت کے مطابق معاشرہ سازی میں مشغول ہیں ۔
آج ایک مخصوص اسلامی معاشرے کی تشکیل کےلیےضروری ہے کہ لوگوں کے سامنے''اسلامی عقائدو افکار''کو خالص اوربہترین انداز میں اس طرح پیش کیا جائے کہ لوگ خود بخود ان کی طرف کھچے چلے آئیں اور مل کر ایک معاشرہ تشکیل دیں۔اگر کسی دین یا مکتب کے پاس پُرکشش عقائد نہ ہوں یا اگرعقائدتو پُرکشش ہوں لیکن بہترین انداز میں پیش نہ کئےجائیں توایسا دین نہ ہی توعوام کےدلوں میں اپنی جگہ بناسکتاہےاورنہ ہی کوئی معاشرہ تشکیل دےسکتاہے۔
عقائدوافکارکی حقیقی معنوں میں ترویج واشاعت،نشوونمااورفروغ کےلئےعلمی ونظریاتی بنیادوں پرافرادسازی کی ضرورت ہے۔کسی بھی دین یامکتب کاتربیّتی نظام جتنا معیاری ہوگا،معاشرےکےاندراسکااثرورسوخ بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔
دنیاکےدیگرادیان ومکاتب کی ماننددینِ اسلام بھی ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کےلئےکوشاں ہے۔یہی وجہ کہ دینِ اسلام بھی اپنے پیروکاروں کوتعلیم وتبلیغ کےساتھ ساتھ تربیّت کی دعوت بھی دیتاہے۔
مسلمانوں کوحصول علم کےحوالےسے اگرپیغمبراسلام(صلعم)یہ فرماتے ہیں کہ''علم حاصل کرنا ہرمسلمان مرداورعورت پرفرض ہے
''تودوسری طرف صاحبان علم یاعلماءکےبارےمیں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام یہ فرماتےہوئےنظرآتےہیں کہ''خدانےجاہلوں سےعلم حاصل کرنےکاعہد لینےسےپہلےعالموں سےیہ عہدلیاہےکہ وہ جاہلوں تک علم پہنچائیں''۔ 
مذکورہ دونوں حدیثوں سےیہ پتہ چلتاہےکہ تعلیم وتبلیغِ کا چولی دامن کاساتھ ہےیعنی تبلیغ کےبغیرتعلیم اورتعلیم کےبغیر تبلیغ ناقص ہے۔قرآنی آیات وروایات کی روشنی میں تحقیق کرنےنیزاسلامی مفکرین کےنظریات وافکارکےمطالعےسے پتہ چلتاہے کہ جسطرح تعلیم وتبلیغ کاآپس میں گہراتعلق ہےاسی طرح تربیّت کا بھی تعلیم و تبلیغ سے گہراناطہ ہے۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نہ صرف یہ کہ تربیّت کےبغیر تعلیم وتبلیغ ناقص ہے بلکہ مضراورنقصان دہ بھی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انبیاءکرام اورمعصومین تربیّت پربہت زیادہ توجہ دیتےتھے۔آئیے لغت واصطلاح ،اسلامی مفکرین نیز قرآن وسنّت کی روشنی میں تربیّت کےحقیقی مفہوم اورتربیّت کرنےکےآداب کوجاننےسمجھنےاوران پرعمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لغت میں تربیّت لغتِ عرب میں لفظِ تربیّت کےکئی معانی ذکرکئےگئےہیں جن میں سےچنداہم درج ذیل ہیں:مکمل کرنا، اصلاح کرنا، پرورش کرنا۔
راغب اصفہانی نے مفردات میں لکھا ہے کہ تربیّت کا مصدر''ربّ''ہے اور اس کا مطلب کسی چیز کو مرحلہ وار اگانا،نشو نما دینا اوراس طرح اس کی پرورش کرنا ہے کہ وہ چیز اپنے کمال کو پہنچ جائے۔یادرہے کہ کلمہ رب قرآن مجید میں ٩٦٠ مرتبہ استعمال ہوا ہے اورکلمہ ''رب العالمین''٤٦ بار۔ 
     اصطلاح میں تربیّت اصطلاح میں اس عمل کو تربیّت کہتے ہیں کہ انسان میں پائی جانے والی لاتعداد صلاحیّتیں اس طرح سے پرورش پائیں اورنکھریں کہ وہ کمال تک پہنچ جائے۔مندرجہ بالا تعریف سے یہ پتہ چلتاہے کہ انسانی تربیّت سے مراد یہ ہے کہ کسی انسان کو ایسے ماحول اور ایسے حالات میں رکھا جائے کہ اس کی قابلیت نکھر کر سامنے آئے اور اس کی صلاحیّتوں کی اس قدر پرورش ہو کہ وہ انسان کامل بن جائے۔ 
 شہیدمرتضیٰ مطہری کی نگاہ میں  تربیّت شہید مطہری کے نزدیک معدنیات کو کسی سانچے میں ڈھال کر ایک خاص شکل دینے کا نام تربیّت { XE "} تربیّت :" }نہیں ہے۔مثلاً جب زرگر سونے کو تراش کر انگوٹھی بناتا ہے تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ زرگر نے سونے کی تربیّت کرکے انگوٹھی بنائی ہے۔
 اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ انگوٹھی بنانے کا سارا عمل سونے کی بیرونی سطح پر واقع ہوا ہے جبکہ تربیّت اندونی صلاحیّتوں کو نکھارنے کا نام ہے۔ شہید مطہری کے مطابق تربیّت صرف اور صرف جانداروں کی ممکن ہے جبکہ بے جان اشیاء کے لئے اگر ہم کہیں تربیّت کا لفظ استعمال ہوتے ہوئے دیکھیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مجازاً استعمال ہوا ہے۔
    شہیدمطہری کےبقول تربیّت چونکہ فطری صلاحیّتوں کوبروئےکارلانےکانام ہےاورتربیّت کامقصد فطری صلاحیّتوں کو اجاگر کرناہے   اس لئے تربیّت فطری تقاضوں کے عین مطابق ہونی چاہیے اورطاقت و زبردستی کے ساتھ یہ کام ممکن نہیں ۔مثلاً ہم ایک''کلی''کو یعنی غنچے کو طاقت اورجبرکےساتھ پھول نہیں بناسکتے چونکہ پھول بننا ایک فطری عمل ہے جبکہ طاقت اور جبر کا استعمال خلافِ فطرت ہے۔  
    شہیدمطہری یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی جاندار کی اپنی صلاحیّتوں کو اجاگر کرنے کا نام  تربیّت ہے چنانچہ اگر کسی جانور کو اس کی اپنی فطرت سے ہٹ کرکسی دوسرے جانور کی فطرت سکھائی جائے تو اس کا نام بھی تربیّت نہیںیعنی اگر ایک جاندار کی صلاحیّتیں کسی دوسرے جاندار پر ٹھونسی جائیں تو اس ٹھونسنے کا نام تربیّت نہیں۔ 
صلاحیّتیں ٹھونسنے کے عمل کو ہم اس سادہ سی مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ جب مداری ایک ریچھ کو کچھ کرتب سکھاتاہےتوریچھ مختلف طرح کی اداکاری(Acting)کرنے لگتا ہے۔ وہ کبھی اچھے شوہر کی اداکاری کرتا ہے،کبھی اچھےبچےکی نقلیں اتارتاہےلیکن اچھابچہ یا اچھا شوہر بننے کی صلاحیّت اس کے اندر موجودنہ ہونے کے باعث اداکاری کےبعد ریچھ نہ ہی تواچھا شوہربنتاہےاورنہ ہی اچھا بچہ، وہ بالاخر ریچھ کا ریچھ ہی رہتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ جو چیز کسی جاندار کے صرف ظاہر تک محدود ہو وہ اداکاری تو ہے لیکن تربیّت نہیں۔
تعلیم وتربیّت علامہ طباطبائی کی نگاہ میں علامہ طباطبائی کے نزدیک تعلیم و تربیّت دو الگ الگ اصطلاحیں ہیں اور دونوں کا مفہوم جدا جدا ہے۔ علامہ نے تربیّت کو تزکیہ اور ہدایت کے مترادف قرار دیا ہے جبکہ تعلیم کو انگریزی کے لفظEducationکے مترادف لیا ہے، جس سے مراد سکولوں اورتعلیمی اداروں میں سیکھنے سکھانے کی سرگرمی ہے۔
  آپ نے المیزان جلد٣،صفحہ٨٥ پر اس ضمن میں لکھا ہے کہ طالب علم جن مشکل مطالب کو نہیں حاصل کرسکتا، انہیں حاصل کرنے کے لئے ایک دانا استاد کے ذریعے ذہن کی ہدایت کرنے کے عمل کو تعلیم کہتے ہیں ۔ اس طرح تعلیم راستے کو آسان کرنے اور منزل کو نزدیک کرنے کا نام تو ہے لیکن منزل کاراستہ ڈھونڈنے یاعلم کو بامقصد بنانے کا نام نہیں۔ 
(المیزان جلد٣،صفحه ٨٥)
مذکورہ تعریف سے تعلیم وتربیّت کا فرق بھی بخوبی سمجھاجاسکتا ہے۔ تعلیم حصولِ علم کے لئے انسان کی ذہنی و دماغی رہنمائی کا نام ہے۔ اس دماغی رہنمائی سے طالب علم کے لئے حصول علم کا راستہ آسان ہوجاتا ہے اور وہ جس چیز کے بارے میں علم حاصل کرنا چاہتا ہے بہت جلد اس کے نزدیک ہوجاتا ہے جبکہ تربیّت کے ذریعے انسان اپنے علم کو بامقصد بناتا ہے اور ا سے بامقصد بنانے کے لئے راستہ ڈھونڈتا ہے۔   
تعلیم وتربیّت حضرت امام خمینی کی نگاہ میں خدا کی طرف سے جتنے بھی انبیاء  ٪آئے ہیں وہ انسان کی تربیّت اور انسان سازی کے لئے آئے ہیں۔ تمام الٰہی کتابیں خصوصًا قرآن مجید کی یہ کوشش ہے کہ انسان کی تربیّت کرئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی تربیّت سے پورے عالم(جہان) کی تربّیت ہوسکتی ہے اور ایک تربیّت شدہ انسان جس قدر معاشرے کے لئے مفیدہے اتنا کوئی فرشتہ یا کوئی اور مخلوق مفید نہیں ہے۔ پوری دنیا کا انحصار انسان کی تربیّت پر ہے۔
 ساری موجودات کانچوڑ اور پوری کائنات کا خلاصہ انسان ہے۔ انبیاء  ٪ اس لئے آئے ہیں کہ اس خلاصہ کائنات کو ویسا ہی(باکمال) بنا دیں جیسا یہ بن سکتا ہے۔
(صحیفہ نور،ج٢١،صفحه  ١١٠) 
اسی طرح صحیفہ نور میں ہی ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ اگر علم کے ساتھ تربیّت نہ ہو تو نقصان دہ ہے۔ تربیّت کریں، تربیّت بہت ضروری ہے۔ صرف علم کا کوئی فائدہ نہیں ہے، صرف علم نقصان دہ ہے۔
(صحیفه نور،ج١٤،ص١٠٣) 
مندرجہ ذیل بالا بحث کے بعد ہمارے لئے ''تربیّت''کی اہمیّت کو سمجھنا کافی حد تک آسان ہوگیا ہے۔ 
مسلم ماہرین تعلیم و تربیّت کے مطابق تعلیم کے ذریعے حقیقت کو جانا چاہتا ہے اور تربیّت کے ذریعے حقیقت سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔ آقای مرتضیٰ زاہدی نے اپنی کتاب''نظریہ تربیّتی اسلام'' کے صفحہ نمبر ١٤٥ پریہ لکھا ہے کہ علم کے ذریعے انسان صحیح فیصلے تک پہنچتا ہے جب کہ تربیّت کی بدولت انسان صحیح فیصلہ کرتا ہے۔   
اسی طرح شہید مطہری کے نزدیک بغیر تربیّت کے علم صرف معلومات کا انبار ہوتا ہے اگر ان معلومات کو تجزیہ و تحلیل کے ذریعے کار آمد اور مفید نہ بنایاجائے تو یہ کسی کام کی نہیں۔ یعنی علم کو عملی طور پر مفید بنانے کی صلاحیّت کا نام تربیّت ہے۔   
    تربیّت کی اہمیّت کو ہم اس مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ایک شخص مسلسل سولہ سال تک مختلف تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرتا رہا ہے اور سولہ سال بعد اس نے ایک یونیورسٹی سے ایم۔اے اسلامیات کی سند بھی حاصل کرلی ہے لیکن اس کے باوجود اس کی عملی زندگی میں اس کی تعلیم کا کوئی اثر نظرنہیں آتا۔ایسے شخص کوایم۔اے اسلامیات کرنے کے باعث بہت سارے اسلامی حقائق و واقعات کا تو علم ہوجاتاہے لیکن اسلامی اصولوں پر تربیت نہ ہونے کے باعث اپنی روز مرّہ زندگی میں سچ کو جھوٹ سے اور حق کو باطل سے جدا نہیں کرپاتا۔
 اب آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن و سنّت میں انسانی تربیّت کا کیا طریقہ بتایاگیاہے۔ قرآن و سنّت کی روشنی میں تربیّت کرنے کا طریقہ قرآن و سنّت کی روشنی میں انسان کی تربیّت کے لئے مربّی کے اوصاف نیز تربیّت کے مختلف انداز بھی بیان کئے گئے ہیں جنہیں بطورِ خلاصہ ہم یہاں پر بیان کر رہے ہیں:
مربّی (تربیّت کرنے والے )کی خصوصیات اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
تربیّت پانے والے یعنی متربّی کے مقابلے میں تربیّت کرنے والے یعنی مربّی کے اندر غروروتکبّر نہیں ہونا چاہیے،اسے یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میں تربیّت کرنے پر مامور ہوں اس لئے میرامقام اور مرتبہ اس شخص سے یعنی متربّی سے بلند ہے۔اگر مربّی اس طرح سے سوچے گا تو مربّی اور متربّی کے درمیان فاصلہ پڑ جائے گا۔مربّی کو چاہیے کہ وہ متربّی کو اپنا ہم نفس ور اپنے جیسا محترم سمجھے  چنانچہ اللہ نے حضوراکرم   ۖ کے بارے میں فرمایا ہے :     
رسول مِن انفسکم:
تمہارے نفوس میں سے رسول بھیجا   
جب مربّی اپنے آپ کو متربّی کا ہم نفس سمجھتاہے تو پھروہ اس کی ہدایت اور تربیّت کے لئے اپنی جان تک لڑا دیتاہے۔جیساکہ رسول اکرم  ۖ کی ہی ایک اور صفت یہ بیان کی گئی ہے:   
عزیز علیہ  ما عنتم:تم پر جو تکلیف آتی ہے وہ ان کے لئے بہت سنگین ہوتی ہے۔ ایک مربّی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تعلیم و تربیّت سے بھی غافل نہ ہو اور ہمیشہ اپنی تربیّت اور علم  میں بھی اضافے کے لئے کوشاں رہے جیساکہ خود  پیغمبراکرم کے بارے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے:
 قل رب زدنی علما:
اے رب میرے علم میں اضافہ فرما 
اسی طرح ایک مربّی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے کردار اور گفتار میں تضاد نہ ہو اوروہ جو کچھ متربّی سے کہے خود بھی اس پر عمل کرے اور وہ متربّی کی جن صلاحیتوں کو نکھارنا چاہتاہو خود اس کی وہ صلاحیتیں نکھر کر سامنے آچکی ہوں۔
جیساکہ نہج البلاغہ میں امیرالمومنین ارشاد فرماتے ہیں:
 من نصبَ نفسَه للناسِ اماماً فعلیهِ اَن یَبدَئَ بتعلیمِ نفسِهِ قبلَ تعلیمِ غیرِه۔۔۔۔ تادیبُه بسیرَتِهِ قبل تادِیبِهِ بِلِسَانِهِ:
 جوشخص بھی اپنے آپکو لوگوں کےلئے امام(نمونہ عمل)بناناچاہےتواسےچاہیےکہ دوسروں کوتعلیم دینےسےپہلےاپنی تعلیم کاآغازکرےاوراپنی زبان کےبجائےاپنی سیرت سےدوسروں کی تربیّت کرے۔ 
 نهج البلاغه کلمات قصار٧٣ 
انبیاءکرام زبان کےبجائے عملی طورپراپنےکردارکےساتھ لوگوں کی تربیّت کرتےتھےاسی لئےدین اسلام نےانبیاءکرام کوعوام النّاس کےلئےنمونہ عمل قراردیاہےاورقرآن مجیدنےحضور(صلعم)کےبارے میں ارشاد فرمایاہے:
 لقدکان لکم فی رسول الله اسوة حسنه 
بے شک نبی اکرم  ۖ تمہارے لئے بہترین نمونہ عمل ہیں۔
 اس کے علاوہ قرآن و سنّت میں تربیّت کے مختلف اسلوب بھی بیان کیے گئے ہیں جن میں سے چندایک درج زیل ہیں:
(الف)اسلوب ِوعظ و نصیحت:

قرآن مجید میں ارشاد پروردگار ہے:         
 اُدعُ اِلیٰ سبِیلِ رَبِّکَ بِالحکِمةِ والموعِظةِ الحسنَةِ                    
 دعوت دیجیے اپنے ربّ کے راستے کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ لغت میں موعظہ سے مراد ایسی چیز ہے جو انسان کو گناہ سے ڈراتی اور روکتی ہے اور انسان کے دل کو نرم کرتی ہے۔
یہ موعظہ ممکن ہےایک تقریرسے،ایک شعرسے،ایک کہانی یاپھرایک فلم یا ڈرامےسےہی انجام پاجائے۔
 ب)امتحان وآزمائش:

قرآن مجیدنےانسانی تربیّت کا ایک اہم اسلوب امتحان وآزمائش کو قراردیاہے۔امتحان وآزمائش کے موقع پر انسان کا باطن کھل کرسامنےآجاتاہےاوراس کی مخفی صلاحیتیں ایک دم منظرِعام پرآجاتی ہیں۔
جیساکہ ارشاد پروردگارہے:        
اِنّا خَلَقنا الانسان مِن نطفةٍ امشاجٍ نبتلِیه            
ہم نے انسان کو آبِ مخلوط سے خلق کیا ہے تاکہ اس کی آزمائش کریں۔(سورہ دہر) 
مربّی کو چاہیے کہ وہ مناسب اوقات میں متربّی کاامتحان لے اور اسے آزمائش و امتحان کے مختلف مراحل سے گزارے۔ اس کے علاوہ قرآن نے انسان کی تربیّت کےلئےغوروفکراوردعوتِ تفکر کا اسلوب بھی بیان کیا ہے۔
 ج)دعوتِ فکر

دین اسلام یہ چاہتاہے کہ انسان غوروفکر کرے اورتحقیق کی روشنی میں اپنا عقیدہ خود بنائے ۔جیساکہ ارشادِ پرور دگار ہے:
 ان فی خلق السماوات و الارض و اختلاف الیل و النهار لآیات لاولی الالباب 
بے شک آسمانوں اور زمین کی خلقت میں اور دن اور رات کے مختلف ہونے میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔
 اسلام یہ نہیں چاہتاکہ کوئی بھی شخص آنکھیں بند کرکے اپنی زندگی گزارے اور بے جا تعصب کے پردوں میں اپنی شخصیّت کو لپیٹے رکھے چنانچہ قرآن مجید میں سات سوسے زائد مقامات پرانسان کو غوروفکر اور تفکّر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
پس مربّی کو چاہیے کہ وہ بھی متربّی پر اپنی رائے مسلط کرنے کے بجائے اسے غوروفکر کرنے کی ترغیب دے تاکہ متربّی کی باطنی صلاحیتیں ،تحقیق و جستجو کی روشنی میں نکھرنے پائیں۔  

       د)انفرادی  یا خصوصی تربیّت:    
دینِ اسلام میں افراد کی انفرادی اور خصوصی تربیّت کی روش بھی بیان کی گئی ہے جیسا کہ امیرالمومنین کو پیغمبرِ اسلام  ۖ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے اور انہیں معارف نبوی اور علوم الٰہیہ سے مستفید کرتے تھے۔ اسی طرح معصومین  بھی اگر کسی شخص میں تربیّت پانے کی خاص استعداد دیکھتے تھے تو اس کو علیحدہ سے وقت دیتے تھے جیسے امیرالمومنین  نے عبداللہ ابن عباس کی بطور مفسِّرِ قرآن تربیّت کی۔
 پس مربّی کو چاہیے کہ وہ سب کے ساتھ ایک ہی روش نہ اپنائے،افراد کے ساتھ ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام کیا جائے اور معیاری  طور پر تربیّت کے عمل کو انجام دینے کے لئے ضروری ہے کہ ان میں سے خصوصی افراد کو الگ کیا جائے اور ان پر خاص توجہ دی جائے۔   
ر)امید وخوف:

دینِ اسلام میں انسان کی تربیّت کے لئے امید اور خوف دونوں کو استعمال کیا گیاہے۔اگر انسان کو صرف اور صرف ا نعامات کی امید دلائی جائے اور اسے ناکامی کے نتائج سے نہ ڈرایاجائے تو وہ سستی کا شکار ہو جاتاہے ۔اسی طرح اگر انسان کو صرف اورصرف ناکامی سے ڈرایا اور اسے کامیابی کے نتائج و ثمرات سے آگاہ نہ کیا جائے تو بھی وہ پست ہمتی،بزدلی اورسستی کاشکار ہوجاتاہے۔
 نمونے کے طور پر چند ایسی قرآنی آیات ملاحظہ فرمائیں جن میںانذار یعنی خوف اور ڈر کاعنصرپایاجاتاہے:
 انذار یعنی۔۔۔
 نَزَلَ بهِ الرّوح ُ الامینُ علیٰ قَلبِکَ لِتَکونَ مِنَ المُنذِرینَ     
    روح الامین نےیہ قرآن آپ کے قلبِ مقدس پراس لئے نازل کیا ہے تاکہ آپ خوف دلانے والوں میں سے ہوجائیں۔
(شعرا١٩٣تا١٩٤)    
کذَّبَت عادَفَکَیفَ کانَ عذابِی ونذُر 
قومِ عادنےجھٹلایا(پھردیکھو)میراعذاب کیساتھا!
(قمر١٨)
اب کچھ ایسی آیات ملاحظہ فرمائیں جن میں امید،بشارت اورخوشخبری کاعنصرموجودہے:
امیدیعنی۔۔۔)
انَّ اﷲَ اشْتَرَی مِنْ الْمُؤْمِنِینَ َنفُسَهُمْ وَامْوَالَهُمْ بِانَّ لَهُمْ الْجَنَّةَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اﷲِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرَاةِ وَالْانجِیلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ َوْفَی بِعَهْدِهِ مِنْ اﷲِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیْعِکُمْ الَّذِی بَایَعْتُمْ بِهِ وَذَلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ۔ 
بیشک اللہ نے صاحبانِ ایمان سے ان کے جان و مال کو جنت کے عوض خریدلیا ہے کہ یہ لوگ راہ ہخدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر خود بھی قتل ہوجاتے ہیں یہ وعدئہ برحق توریت ,انجیل اور قرآن ہر جگہ ذکر ہوا ہے اور خدا سے زیادہ اپنی عہد کا پورا کرنے والا کون ہوگا تو اب تم لوگ اپنی اس تجارت پر خوشیاں منا و جو تم نے خدا سے کی ہے کہ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے 
(توبه ١١١)
  یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْانْهَارُ وَمَسَاکِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ (١٢) وَاخْرَی تُحِبُّونَهَا نَصْر مِنَ اﷲِ وَفَتْح قَرِیب وَبَشِّرْ الْمُؤْمِنِینَ (١٣)
وہ تمہارے گناہوں کو بھی بخش دے گا اور تمہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور اس ہمیشہ رہنے والی جنت میں پاکیزہ مکانات ہوں گے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے 
اور ایک چیز اور بھی ہے جسے تم پسند کرتے ہواور وہ ہے اللہ کی طرف سے مدد اور قریبی فتح اور آپ مومنین کو بشارت دے دیجئے۔
(صف ١٢تا١٣)
 پس مربّی کو چاہیے کہ وہ امید اور خوف دونوں کو بروئے کارلاکر متربّی کی حقیقی قابلیّت اورباطنی صلاحیتوں کے نکھار اور پرورش کو یقینی بنائے۔
 مذکورہ بحث:
گذشتہ مثالوں سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ انسان کی تربیّت سے مراد یہ ہے کہ انسان کی اندرونی صلاحیّتوں کی اس طرح سے پرورش  کی جائے کہ انسان مرحلہ وار معراج بشریت کو پہنچے۔ ظاہر ہے کہ انسان اپنے کمال اور معراج تک Actingاور اداکاری کے ذریعے نہیں پہنچ سکتا اور یہ ترقی صرف اور صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب انسان اپنے باطن کی پرورش بالکل فطری طریقے سے کرئے۔ 
فطری طریقے پر اپنی پوشیدہ صلاحیّتوں کی پرورش کے لئے ضروری ہے کہ انسان سب سے پہلے اپنے اندر پرورش اور ترقی کی ضرورت کو محسوس کرے اور وہ یہ جان لے کہ خدا نے مجھے اشرف المخلوقات خلق کیا ہے اور اگرمیں اپنے آپ کو دینِ فطرت یعنی دین اسلام کے ساتھ ہم آہنگ کرلوں تو انسانِ کامل بن سکتاہوں۔
مفکرین اسلامی نے تربیّت کے لئے مندرجہ ذیل بنیادی عناصر بیان کئے ہیں، جنہیں کسی طور بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ 
 ١۔ وراثت   

اسلام وراثت پر خاص توجہ دیتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ انسان پاک و پاکیزہ ارث لے کر اس دنیا میں قدم رکھے۔ چونکہ وراثت کی تشکیل خاندان پر موقوف ہے چنانچہ اسلام نہ صرف یہ کہ خاندان کی تشکیل پر بہت زور دیتا ہے بلکہ خاندان کو تشکیل دیتے وقت بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت کا بھی احساس دلاتا ہے۔   
 اسلام یہ نہیں چاہتا کہ انسان اپنی آنکھیں بند کرکے صرف اور صرف اپنے جنسی غریزے کی تسکین کے لئے ازدواج کرے اور خاندان تشکیل دے۔ خاندان کی تشکیل کے سلسلے میں کتاب وسائل الشیعہ کی جلد ١٤ میں کتاب النکاح کے اندر حضرت امام صادق علیہ السلام کی حضرت امام علی علیہ السلام سے بیان کردہ ایک حدیث نقل کی گئی ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے:
احمق عورتوں سے نکاح نہ کرو، ان کی ہم نشینی ناگوار اور ان کی اولاد نااہل ہوتی ہے۔    
اسی طرح غررالحکم میں سے بھی ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں جس سے خاندان کی تشکیل کے وقت محتاط رہنے کی اہمیّت کا پتہ چلتا ہے۔ 
حُسن الاخلاقِ بُرهانُ کَرَمَ الاعراق
 حسن اخلاق خاندانی پاکیزگی کی دلیل ہے۔ 
اگر ہم ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لئے اپنے معاشرے کاجائزہ لیں اور تحقیق کریںتو آسانی سے اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ خاندان کی تشکیل سے چار طرح کے اوصاف براہ راست آئندہ نسلوں میں منتقل ہوتے ہیں ۔
۱:۔ موروثی طور پر براہ راست منتقل ہونے والے اوصاف  مثلا  خاندانی بیماریاں اور امراض وغیرہ 
۲۔ جسمانی اوصاف۔ جسمانی اوصاف میں رنگ، انداز میل جول اورگفتگو وغیرہ شامل ہیں۔    
۳۔ روحانی اور اخلاقی اوصاف۔ روحانی و اخلاقی اوصاف میں شجاعت،غیرت،سخاوت غضب و برداشت نیز تقویٰ وغیرہ شامل ہیں۔   
۴۔عقلی اوصاف۔عقلی اوصاف میں حافظہ،جنون،وہم، شک،قوت فیصلہ،مکّاری،دانائی اور منصوبہ بندی وغیرہ شامل ہیں۔ چونکہ انسان کی تربیّت میں وراثت کا بنیادی اورکلیدی کردارہے اس لئے معصومین  ؑنے جہاں پربداخلاق اور احمق خواتین کےساتھ شادی کرنےسے منع کیا ہے وہیں یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح کی خواتین سے شادی کی جائے۔   
نمونے کے طور پر چند احادیث ملاحظہ فرمائیں :
حضور اکرم  ۖ نے فرمایا: کسی بھی عورت سے اس کے حسن و جمال کی وجہ سے نکاح نہ کرو چونکہ ممکن ہے کہ اس کا حسن اسے گمراہ کردے اور نہ ہی کسی کے ساتھ اس کے مال کی وجہ سے نکاح کرو چونکہ ممکن ہے کہ اس کا مال اسے باغی اورسرکش بنادے،پس تم خواتین کے ساتھ نکاح ان کی دینداری کی وجہ سے کرو۔ 
آداب النکاح،باب الثانی،ص٨٥۔
اسی ضمن میں کتاب وسائل الشیعہ میں ہی حضور اکرم ۖ کی ایک اور حدیث بھی نقل ہے جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے:   
جس کا اخلاق اور دین تمہیں پسند آئے اس سے ازدواج کرو اگر ایسا نہیں کرو گے تو بہت بڑے فتنے اور فساد میں مبتلا ہوجاؤگے۔ مندرجہ ذیل بالاحدیث میں ازدواج کرنے کے لئے دو چیزوںکا ذکر کیاگیا ایک دین اور دوسرے اخلاق چونکہ ممکن ہے کہ کوئی شخص دیندار تو ہومثلاً نماز کا پابندہو، جھوٹ کبھی نہ بولتا ہو،روزے رکھتا ہولیکن ساتھ ساتھ بداخلاق بھی ہو یعنی دوسروں پر طنز بھی کرتا ہو، چھوٹوں کو پیٹتا ہو اور بڑوں کا احترام نہ کرتا ہو، گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے کا رسیا ہو،چنانچہ حدیث میں دین کے ساتھ ساتھ حُسن اخلاق پر بھی توجہ رکھنے کا کہاگیا ہے۔ 
تربیّت کے لئے دوسرا اہم عنصر ماحول ہے۔
  ٢۔ ماحول:

جس طرح درختوں پر پھل پھول اگنے کے لئے صرف پانی دینا اور کھاد ڈالنا کافی نہیں بلکہ موسم بہار کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح انسان کے باطنی اوصاف کی نشوونما کے لئے مناسب ماحول کی ضرورت ہے۔ایک اچھا خاصا دیندار انسان بھی اگر بے دین ماحول میں آمدورفت رکھے اور لادین لوگوں کا ہم نوالہ و ہم پیالہ بن جائے تو وہ بہت جلد ڈگمگانے لگتاہے اور لغزشوں کا ارتکاب کرنے لگتا ہے اور اگر ایک برا اور بے دین شخص بھی دیندار اور نیک لوگوں کی محافل میں آنے جانے لگے اور متّقی وپرہیزگار افراد کے ساتھ دوستی کرئے تو بہت جلد اس کے افکار و عقائد میں مثبت تبدیلی رونما ہونے لگتی ہے۔
جیسا کہ ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ بہت سارے گنہگار لوگ اچھے دوستوں یا اچھے ماحول کے باعث توبہ کرکے راہِ راست پر آگئے اور اسی طرح بہت سے نیک لوگ برے دوستوں یا بُرے ماحول کے باعث بھٹک گئے۔  تربیّت میں تیسرا موثر عامل''اپنی اصلاح کی ضرورت کو محسوس کرنا''  
  ٣۔اپنی اصلاح کی ضرورت کو محسوس کرنا۔

انسان ایک پتھر کی مانند نہیں ہے  کہ دوسرے اسے کسی پست جگہ سے اٹھا کر بلند جگہ پر رکھ سکتے ہیں۔انسان کی تربیّت کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کے لئے فکرمند ہو اور اپنے رشد و ارتقاء کی خاطر اقدام کرئے۔ تربیّت کے بنیادی عناصر سے مراد ایسے عناصر ہیں جو تربیّت کے لئے مقدمہ فراہم کرتے ہیں ۔
 اب آئیے دیکھتے ہیں کہ تربیّت کے لئے ماہرین تربیّت نے کیا بنیادی اصول بیان کئے ہیں ۔ یاد رہے کہ تربیّت کے بنیادی اصولوں سے مراد ایسے قواعد و ضوابط ہیں جن کی پابندی کرکے اور جن پر چل کر ہی تربیّت کی جاسکتی ہے۔
  ١۔مربّی خودتربیّت یافتہ ہو۔  :
مربّی سے مرادتربیّت کرنے والا ہے، وہ چاہے باپ ہو،بھائی ہو،ماں یا بہن ہو یا استاد ہو، اسے خود معلوم ہونا چاہیے کہ  
''فَاقِدُالشَّیء لایُعطِی''
یعنی جس کے پاس خود کچھ نہ ہو وہ کسی دوسرے کو بھی کچھ نہیں دے سکتا۔ مثلًا اگر کسی شخص کو خود ڈرائیونگ نہیں آتی ہوتو وہ کسی دوسرے کو بھی ڈرائیونگ نہیں سکھاسکتا۔ یہاں پر یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ تربیّت کاعمل ڈرائیونگ وغیرہ سے کئی گناہ زیادہ حساس ہے۔ پس مربّی یعنی تربیّت کرنے والے کو چاہیے کہ وہ خود ایک مثالی شخص بن کر زندگی گزارے مثلاً باپ اگر بیٹے کی تربیّت کرناچاہتا ہے تو باپ کو چاہیے کہ بیٹے کے سامنے اس طرح قدم جماجما کر چلے کہ بیٹا اس کے نقش قدم پر قدم رکھ کر آگے بڑھے۔    
   ٢۔مقام تربیّت کی شناخت:
  تربیّت کرنےوالے پرواضح ہوناچاہیےکہ اسےکس مقام سےتربیّت کاعمل شروع کرناہےاورکس پہلو پرزیادہ یاکم توجہ دینی ہے۔اس ضمن میں یہ عرض کرناضروری ہےکہ مربّی اس بات کاخاص خیال رکھےکہ خشک اورغیرلچکدار اندازمیں تربیّت کبھی بھی مؤثراورسودمندثابت نہیں ہوتی،تربیّت ہمیشہ موج یالہر(Waveکی صورت میں ہوتی ہے۔
 لہٰذاغیرلچکدار انداز میں تربیّت کرنے کی کوشش میں شدید ردّ عمل سامنے آسکتا ہے جس کا نتیجہ فساد اور بگاڑ کے سوا کچھ اور نہیں نکلے گا۔ یہاںپریہ واضح کرتے چلیں کہ غیر لچکدارانداز تربیّت یہ ہے کہ بچے کو ایک بات بتانے کے بعد اسے فورًا عمل کرنے پر مجبور  کیاجائے۔
 مثلًا اگر باپ ،بیٹے کو سلام کرنے کی عادت ڈالنا چاہتا ہے تو صرف اسے یہ نہ کہے کہ آئندہ جب بھی جس سے ملو اُسے سلام کہو اور پھر اگر بیٹا ایسانہ کرے تو اسے ڈانٹنا شروع کردے یہ غیرلچکدارانداز تربیّت ہے۔ یہ اندازِ تربیّت پولیس،فوج یا اس طرح کے اداروں میں تو مفید ثابت ہوسکتاہے لیکن فکری اور علمی تربیّت کے حوالے سے انتہائی ناقص ہے۔آئیے اب دیکھتے ہیں کہ لچکدار اندازِ تربیّت کیاہے۔ لچکدار اندازِ تربیّت۔ اس اندازِ تربیّت کو ہم پہلے والی مثال سے ہی واضح اور روشن کریں گے۔   
      مثلاً اگر ایک باپ اپنے بیٹے کی تربیّت کی خاطریہ چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا جس سے بھی ملے اُسے سلام کرئے تو اسے چاہیے کہ سب سے پہلے بیٹے کو سلام کرنے کی اہمیّت اور ثواب بتائے اور پھرایک دن میں چند مرتبہ وقفے وقفے سے خود بیٹے کے پاس آئے جائے اور ہر مرتبہ جب بھی بیٹے سے ملے توباآواز بلند سلام کہے اور اسے سلام کہنے کی فضیلت کے بارے میں کوئی اخلاقی نکتہ یا حدیث سنائے ،اس کے بعداگر اس کا بیٹا دن میں ٥مرتبہ لوگوں سے ملتا ہے اور ایک مرتبہ بھی سلام کہتا ہے تو اسے کافی سمجھے اور ایک مرتبہ سلام کہنے پر بیٹے کی ممکنہ حوصلہ افزائی بھی کرئے، پھر ایک یا دودن کے وقفے کے بعد بچے کو بازار یا کسی عمومی تقریب میں اپنے ساتھ لے جائے اور مومنین سے ملاقات اور زیارت کا ثواب بتانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو سلام کہنے اور مصافحہ کرتے ہوئے دکھائے بھی اور خود بھی بچے کے ہمراہ مومنین سے سلام و مصافحہ کرئے۔
  اندازِ تربیّت کے درمیان فرق واضح کرنے کے بعد ضروری ہے کہ انسان تربیّتی پہلو کی صحیح طریقے سے شناخت کرئے اور پھر اسی پہلو پر اپنی توجہ مرکوز کرئے۔ 
تربیت کے ماہرین کانظریہ
  تربیّت اسلامی کے ماہرین کے مطابق ہربچے میں مندرجہ ذیل چھ پہلو اساسی نوعیت کے ہوتے ہیں جن پر توجہ دئیے بغیر تربیّت کاعمل ناقص رہتا ہے۔
١۔خودشناسی         ٢۔اعلیٰ اہداف سے محبت کا پہلو         ٣۔جسمانی صحت کا پہلو         ٤۔اجتماعی پہلو         ٥۔اخلاقی پہلو         ٦۔فنّی و ہنری پہلو   
اب آئیے ان میں ہر پہلو کی کچھ وضاحت کرتے ہیں:
  ١۔خودشناسی کا پہلو:

اس پہلو کے حوالے سے بچے کو یہ باور کرایا جائے کہ خداوند متعال کی مخلوقات کے درمیان انسان اشرف المخلوقات ہے۔ پھر مختلف سوالات کے ساتھ بچے کو اپنے بارے میں،خدا کے بارے میں،انبیاء  ٪کے بارے میں اور کائنات کے بارے میں غور و فکر کرنے کی تمرین اور مشق کرائی جائے اور اسے یہ یقین دلایاجائے کہ وہ  دیگر موجودات سے مختلف ہے اوراشرف المخلوقات ہے۔     
  ٢۔اعلیٰ اہداف سےمحبت کاپہلو

بچےکےدل میں اعلیٰ اہداف مثلاًعدالتِ اجتماعی،شہادت،ظلم کےخلاف قیام،غریبوں کی مدداورناممکن کوممکن بنانےکی جدوجہدسےمحبت پیداکی جائے۔اسےعظیم شخصیات کےحالات و واقعات اورکارناموں سےآگاہ کیاجائےاوراسےیہ بات ذہن نشین کرائی جائےکہ اس نےحالات سےشکست کھاکرگوشہ نشین ہونےکےبجائےمعصومین ؑ کےنقش قدم پر چلتےہوئےانسانی معاشرےکےدرمیان زندگی گزارکرانسان کامل بننا ہے۔ 
بچے میں انسان کامل بننے کے ہدف کے حوالے سے محبت پیدا کرنے کے پہلو کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے نیز اسے ایسے پست فطرت اور گھٹیا لوگوں سے دور رکھنے کی ہر ممکنہ کوشش کرنی چاہیے جو اپنی پست ذہنیت کے باعث چکنی جپڑی باتیں کرکے یا ادھر اُدھر کی ہانک کر بچے کو علم و معرفت اور رشد دینی و ارتقاء معنوی کے راستے سے منحرف کرسکتے ہیں۔
 بچے کو ایسے لوگوں سے دور رکھنا چاہیے جو اپنی بری عادات کو بہادری اور کارناموں کی صورت میں دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی کو گالی دی تھی یا کسی کےساتھ فراڈ یا دھوکہ کیاتھا یا کسی کی کوئی چیز چرائی تھی یا خود تعلیم ادھوری چھوڑکرسکول سےبھاگ گئےتھے اور اب اپنی ان باتوں کو لچھےدار اندازمیں بڑھاچڑھاکراور بناسنوار کر دوسروں کے سامنے پیش کرتےہیں چونکہ بچے کا ذہن سفید کاغذ کی مانند ہوتا ہے اس پر جو چیز بھی تحریرہوجائے اسے مٹانا بہت مشکل ہوتاہےاس لئے بچوں کو ان صحبت میں اٹھنے بیٹھنے سے روکناچاہیے ۔ اسی طرح جو لوگ دنیا پرست یالالچی ہوتےہیں اورجن کی زندگی کا سارا مقصدکھانا پینااور روپیہ پیسہ ہوتاہے،ایسے لوگوں سےبھی بچوں کو دور رکھناچاہیےچونکہ ایسے لوگوں کے نزدیک اعلیٰ ہدف صرف اور صرف''پیسے کی جمع آوری''ہوتی ہے اور یہ پیسہ جمع کرنے کی خاطر ہرپست کام میں نہ صرف یہ کہ خود ہاتھ ڈالنے پر تیار ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں ۔  خدانخواستہ اگر بچہ ایسے لوگوں کی معاشی پالیسیوں اور اقتصادی  منصوبوںسے فکری طور پر متاثر ہوجائے تو وہ بھی تعلیم و تربیّت کو ٹھوکر مار کر ''پیٹ بھرنے''کو زندگی کا مقصدبنالے گا۔
 ٣۔جسمانی صحت کا پہلو

تربیّت کرنے والے کو بچے کی جسمانی صحت پر بھی خاص توجہ دینی چاہیے چونکہ اگر بچہ بیمار ہوجائے تو تربیّت کا عمل متاثر ہوجائے گا۔ اس ضمن میں بچے کی متوازن غذا،دانتوں کی صفائی ،ورزش، کمرے میں تازہ ہوا کی آمد و رفت نیز سونے اور جاگنے نیز دن میں آرام کے اوقات  کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔
  ٤۔اجتماعی پہلو

جیسا کہ امیرالمومنین ـ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم  ۖ کے پیچھے پیچھے ایسے چلتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ ماں کے پیچھے چلتا ہے۔  تربیّت کرنے والے کو بھی چاہیے کہ وہ بچے کو اپنے ساتھ لے کر تمام اجتماعی پروگراموں میں جائے اور اسے مختلف مجالس و محافل مثلًا شادی بیاہ، اموات،جشن، سیمینارز وغیرہ میں اٹھنے بیٹھنے کے آداب سکھائے نیزمجالس میں آمدورفت کے آداب اور مختلف قوانین و ضوابط سے آگا ہ کرئے۔
٥۔اخلاقی پہلو

تربیّت کرنے والے کو چاہیے کہ وہ تربیّت کے حوالے سے انجام دینے والے تمام تر کاموںکو اپنے قلبی لگاؤ سے انجام دے تاکہ بچہ یہ نہ سمجھے کہ مرّبی اسے سکھانے کی خاطر فقطActingیا اداکاری کررہا ہے۔
مرّبی جس قدر قربة الی اللہ خلوص اور باطنی لگاؤ کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے گا بچہ بھی خودبخود اخلاقی لحاظ سے اتنا ہی مضبوط ہوگا اور قلبی لگاؤ کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کرے گا۔
 نتیجہ: 
ہمارے ہاں تعلیم پر تو کسی نہ کسی حد تک توجہ دی جاتی ہے لیکن تربیّت پر بالکل توجہ نہیں دی جاتی جس کے باعث ہم اپنی اور اپنے خاندان کی تربیّت سے ساری زندگی محروم رہتے ہیں۔ اگر ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں اور اسلامی ماہرینِ تعلیم و تربیّت کے رہنما اصولوں کے مطابق اپنی اور اپنے خاندان کی تربیّت میں مصروف ہو جائیں تو بہت جلد ایک اسلامی نظریاتی معاشرہ تشکیل پاسکتاہے اور ہم اجتماعی طور پر اپنی آئندہ نسلوں کوایک دیندار ماحول اور الٰہی معاشرہ فراہم کرسکتے ہیں۔