سبق آموز شادی
  • عنوان: سبق آموز شادی
  • مصنف: پیغمبر نوگانوی
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 0:42:1 4-9-1403



صاحبان ِ اقتدار کے یہاں جب کوئی خوشی کی تقریب ہوتی ہے تو تمام ضابطوں کو بالائے تاق رکھ دیا جاتا ہے اور فضول خرچی کے ریکارڈ قائم کردیئے جاتے ہیں ،سرکاری سازو سامان کے ساتھ ساتھ خزانے تک کو استعمال میں لایا جاتا ہے اور اس طرح اپنی پوری شان و شوکت دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے ،جس کی مثالوں سے تاریخی کتابیں بھری پڑی ہیں ،متوکل نے اپنے بیٹے ’’معتز‘‘کی ذرا سی ختنہ کرائی تھیں تو 8کروڑ 60لاکھ درہم خرچ کر ڈالے تھے ﴿1﴾ہارون رشید کی شادی ہوئی تو طرفین کے 5کروڑ درہم خرچ ہوئے ﴿2﴾ اور مامون رشید کی شادی میں طرفین کے 7کروڑ 60لاکھ درہم خرچ ہوگئے ﴿3﴾ یہ حال اکثر صاحبان اقتدارکے یہاں شادیوں میں ہوتا ہے جس کو دیکھ کر معاشرے کے غریب لوگ اپنی بے بضاعتی پر کف افسوس مل کر رہ جاتے ہیں ،بزرگان اسلام نے غریبوں سے اسی احساس کو ختم کرانے کے لئے حکم دیا ہے کہ صاحبان اقتدار اپنے معاشرے کے غریبوں جیسی زندگی گزاریں کیونکہ جب وہ اپنے حاکم کو اپنی جیسی زندگی گزارتے ہوئے دیکھیں گے تو انہیں اپنی ناداری پر غصہ نہیں آئے گا،حضرت علی (ع) نے بصرہ کے عامل ’’عثمان بن حُنیف‘‘ کے نام مکتوب میں اس بات کی جانب اشارہ فرمایا ہے ﴿4﴾ اور رسول اسلام (ص) نے اپنی لخت جگر ،خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا (ع) کی شادی جس سادگی سے کی تھی اس کا مقصد بھی یہی ہوسکتا ہے تاکہ اس شادی کو نظر میں رکھتے ہوئے ایک غریب مسلمان بھی اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر پریشان و شرمندہ نہ ہو ،لیکن افسوس! جب ہم جناب فاطمہ (ع)زہراو علی (ع)مرتضیٰ کی شادی کی مثال ہندوستان کے مسلم معاشرے میں پیش کرتے ہیں تو لوگ ماننے کو تیار نہیں ہوتے ،کوئی کہتا ہے کہ میاں!وہ زمانہ اور تھا یہ زمانہ اور ہے ،زمانے کے ساتھ چلنا چاہئے ،اِس زمانے کا اسٹینڈرڈ اس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ اتنی سادگی سے شادی کی جائے ،کوئی کہتا ہے کہ شادی روز روز تو ہوتی نہیں کیوں نہ ایک بار دل کھول کر خرچ کرلیاجائے ،کوئی کہتا ہے کہ وہ نوری بندے تھے ہم خاکی بندے ہیں ،ہم سے اُن کی پیروی نہ ہوسکے گی . آیئے ہم اِس زمانے کے تہران جیسے ہائی اسٹینڈرڈشہر میں ہونے والی ایک ایسی شادی کا تذکرہ کرتے ہیں جو 10سال پہلے ہوئی تھی،میں اُس وقت ایران کے مقدس شہر ’’قم ‘‘میں تھا اور اِس شادی کو ایران کی اکثر نیوز ایجنسیوں اور روزناموں نے نشرکیا تھا .ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مدظلہ کے بیٹے ’’آقای مجتبیٰ‘‘ کی یہ شادی ایرانی پارلمنٹ کے سابق اسپیکر ’’آقای حداد عادل‘‘کی بیٹی کے ہمراہ ہوئی تھی ،اگرچہ اس شادی کو 10سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر اس سے سبق آموزی تو سیکڑوں سال تک باقی رہے گی ،اسی لئے یہ شادی قابل تذکرہ ہے.
ہمارے سماج میں لڑکیوں کی دل شکنی کا قطعاً خیال نہیں رکھا جاتا حتی کہ بعض ناسمجھ اور تعلیمات اسلامی سے بے گانہ افراد تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر رشتہ توڑڈالتے ہیں اور لڑکی کادل ٹوٹنے کی انہیں پرواہ بھی نہیں ہوتی ،اور بعض افراد ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں کو اَنا اور وقار کا مسئلہ بنالیتے ہیں اور بیٹی کا رشتہ خود ہی توڑ ڈالتے ہیں اور ایسے مواقع پر بیٹیوں کے دل کس طرح چکنا چور ہوتے ہیں اس کا خیال بھی انہیں نہیں آتا،اس شادی سے ہمیں سب سے بڑا درس یہی ملتا ہے کہ بیٹیوں کے احساسات و جذبات کا طرفین کو خیال رکھنا چاہئے جو کہ ایران میں اکثر رکھا جاتا ہے ،آقای حداد عادل کی بیٹی کے رشتے کی بات جب آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کے بیٹے سے چلی تو دونوں طرف کے بزرگوں نے یہ طے کیا کہ لڑکی کو غیر محسوس طریقے سے اُس کے اسکول میں دیکھ کر پسند کیا جائے تاکہ اگر کسی وجہ سے رشتہ نا منظور ہوجائے تو لڑکی کو صدمہ نہ ہو ،لہٰذا جب لڑکے والوں نے اپنی منظوری دے دی اُسی وقت لڑکی سے بتایا گیا اور اُس کی مرضی دریافت کی گئی.
یہاں یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ ایران میں رہبر اعلیٰ سید علی خامنہ ای سب سے زیادہ محترم ،سب سے زیادہ با اختیار اور سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں ،آپ زمینی، ہوائی اور بحری افواج کے کمانڈر ان چیف ہیں اور ایران کے گیس ،تیل اور پیٹرول کی آمدنی کا خمس ﴿پانچواں حصہ﴾ بھی آپ کے اختیار میں ہوتا ہے جسے آپ مذہبی امور پر خرچ کرتے ہیں ،چونکہ آپ ’’ولی فقیہ‘‘ ہیں اس لئے آپ کا حکم ماننا پورے ایران پر واجب ہے،اگر آپ اپنے بیٹے کی شادی میں شان و شوکت دکھانا چاہتے تو سب سے اچھی دکھا سکتے تھے لیکن آپ چونکہ امام علی (ع) کے حقیقی پیروکار ہیں اور حکومت ایران کو حکومت علی (ع) سے تعبیر فرماتے ہیں تو پھر کس طرح ایسا کرسکتے تھے ،آپ بیت المال اور اس طاقت و اختیار کو اپنی ذات کے لئے استعمال نہیں فرماتے بلکہ اس طاقت و اختیار کے ذریعہ ایران اور ایرانی عوام کی ترقی و فلاح و بہبودکے لئے کوشاں رہتے ہیں.
آپ کے سمدھی آقای حداد عادل کا بیان ہے کہ جب منگنی و خواستگاری کے مراحل طے ہورہے تھے تو آیت اللہ خامنہ ای نے مجھے بلاکر فرمایا: ’’تمہاری مالی حالت مجھ سے بہتر ہے ،میرے پاس مال دنیا سے صرف ایک گاڑی کتابیں ہیں اور جس گھر میں رہتا ہوں اُس میں تین کمرے ہیں دو میرے استعمال میں ہیں اور ایک کمرہ ارکان حکومت سے میٹنگ کے لئے مخصوص ہے اور میرے پاس اتنا روپیہ پیسہ بھی نہیں ہے کہ مکان خرید کر بیٹے کو دے سکوں ،البتہ ایک مکان دو منزلہ کرائے پر لے لیا ہے ایک طبقہ میں ﴿ایک بیٹا ﴾مصطفی اور دوسرے طبقے میں ﴿یہ دوسرا بیٹا ﴾مجتبیٰ رہیں گے ﴿ایران میں اسلامی اخلاق کا لحاظ رکھتے ہوئے ماں باپ بیٹے کے لئے شادی کے بعدعلیحدہ مکان کا انتظام کردیتے ہیں ﴾آپ اپنی بیٹی سے یہ سب بتادیجئے وہ یہ خیال نہ کرے کہ رہبر کی بہو بننے جا رہی ہے،ہمارا طرز زندگی آپ سے بھی سادہ ہے .میرا بیٹا مجتبیٰ قم جاکر حوزۂ علمیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرے گااور ﴿طالب علموں کی طرح ﴾زندگی گزارے گا ،یہ تمام باتیں آپ اپنی بیٹی سے بتا دیجئے تاکہ کوئی بات اس سے پوشیدہ نہ رہ جائے ﴿5﴾یہاں یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای کا آبائی مکان جنوبی تہران میں ہے جس میں آپ سیکورٹی کے مد نظر نہیں رہتے اور مجبوراً سرکاری مکان میں رہتے ہیں لہٰذا آبائی مکان کو کرایئے پر دے رکھا ہے اور جو کرایہ آتا ہے اُسی میں اپنے گھر کے اخراجات پورے کرتے ہیں ایران گورنمنٹ سے نہ تنخواہ لیتے ہیں اور نہ ہی بیت المال و رقومات شرعیہ ﴿خمس وغیرہ ﴾ سے اپنے اوپر خرچ کرتے ہیں .آقای حداد عادل مزید کہتے ہیں کہ : ﴿میری بیٹی سے آقای مجتبیٰ کی شادی کے لئے﴾ جب مہر کی بات چیت ہونے لگی تو آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا :مہر کا اختیار آپ کی بیٹی کو ہے وہ جتنا چاہے طے کرسکتی ہے لیکن 14سونے کے سکوں سے زیادہ ہوگا تو میں نکاح نہیں پڑھوں گا کیوں کہ میں 14سکوں سے زیادہ مہر کا نکاح نہیں پڑھتا ہوں اور ابھی تک ایسا نکاح پڑھا بھی نہیں ہے ،اگر آپ لوگ اس سے زیادہ مہر رکھنا چاہیں تو رکھ سکتے ہیں مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا مگر صیغۂ عقد جاری کرانے کے لئے کسی اور عالم کو بلا لیجئے گا ﴿6﴾.یہ ہے امام علی (ع) کی پیروی کہ جو ضابطہ عوام کے لئے ہے وہی اپنے بیٹے کے لئے ہے ،جب کہ بیٹے یا بیٹی کی شادی میں اکثر لوگ کسی بھی ضابطے کے پابند نہیں رہ پاتے ہیں .
آج کل ہندوستان کے مسلم سماج میں لڑکا، لڑکی والوں کے مال پر اپنا جائز حق سمجھتا ہے اور جب بات شادی کے وقت خرید و فرخت کی آتی ہے تو لڑکا گھڑی، جوتا، کپڑے ،انگوٹھی وغیرہ کے شوروم میں مہنگے سے مہنگے سامان پر ہاتھ رکھتا ہے ،چاہے اس سے پہلے کبھی یہ سامان اُس نے استعمال بھی نہ کیا ہو. لیکن آقای حداد عادل کے بقول جب آیت اللہ خامنہ ای کے بیٹے آقای مجتبیٰ سے شادی کے لئے خرید و فروخت کی بات آئی تو انہوں نے گھڑی ،انگوٹھی اور دیگر سامان خریدنے سے انکار کردیا ،اس کے بعد آیت اللہ خامنہ ای نے عقیق کی انگوٹھی آقای حداد عادل کو دی اور فرمایا کہ کسی نے مجھے تحفہ میں دی تھی میں آپ کی بیٹی کوتحفہ دیئے دیتا ہوں اور آپ کی بیٹی یہی انگوٹھی ﴿اپنے ہونے والے شوہر ﴾مجتبیٰ کو تحفہ دے سکتی ہے ﴿7﴾﴿ایران میں رواج ہے کہ لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو شادی کے بعد تحفہ دیتے ہیں﴾
اس کے بعد یہ مسئلہ طے ہونا تھا کہ شادی کہاں ہو ، آقای حداد عادل کہتے ہیں کہ : آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا :اگر ہوٹل میں شادی کرنا چاہو تو کر سکتے ہو لیکن میں شرکت نہیں کروں گا ،آقای حداد عادل نے کہا کہ آپ جیسا حکم فرمائیں گے و یسا ہی ہوگاتو آپ نے فرمایا کہ میرے اس مکان کے تینوں کمروں میں جتنے مہمانوں کی گنجائش ہوگی اس سے آدھے مہمان مدعوکئے جائیں ،آقای حداد عادل نے کہا کہ اس مکان میں زیادہ سے زیادہ 200مہمانوں کی گنجائش ہے.شادی کی تقریب میں تقریباً 50اپنے رشتہ دار وں کو آقای حداد عادل نے مدعو کیا اور اتنے ہی قریبی رشتہ داروں کو آیت اللہ خامنہ ای نے مدعو کیا اور ارکان حکومت سے صرف آقای محمد خاتمی ﴿صدر﴾ آقای ہاشمی رفسنجانی،آقای ناطق نوری اور قوۂ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے رئیسوں کے علاوہ ڈاکٹر حبیبی کو مدعو کیا گیا اور صرف ایک ہی قسم کا کھانا تیار کیاگیا اور 2ٹیکسیوں میں بارات لے جائی گئی اور ایک قالین مشین سے بنی ہوئی آیت اللہ خامنہ ای نے دی اور ایک قالین آقای حداد عادل نے د ی،آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے تاکید کردی تھی کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی دفتر کی﴿سرکاری﴾استعمال نہ کی جائے ،اس موقع پر ایک گاڑی کی سخت ضرورت پیش آئی لیکن آپ نے سرکاری گاڑی استعمال کرنے کی قطعاً اجازت نہ دی﴿8﴾ اور اس طرح بہت ہی سادگی سے یہ شادی انجام پائی جو پوری دنیا کے مسلمانوں اور صاحبان اقتدار کے لئے سبق آموز ہے .

منابع
﴿1﴾ الدیارات ، صفحہ 100،تالیف ابی حسن علی بن محمد ،متوفی 388ھ، ناشر دارالمعارف بغداد،1951ئ
﴿2﴾ الدیارات ، صفحہ 101،تالیف ابی حسن علی بن محمد ،متوفی 388ھ، ناشر دارالمعارف بغداد،1951ئ
﴿3﴾ الدیارات ، صفحہ 101،تالیف ابی حسن علی بن محمد ،متوفی 388ھ، ناشر دارالمعارف بغداد،1951ئ
﴿4﴾ نہج البلاغہ، خط 45،صفحہ 557،ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی، ناشر انصاریان پبلیکیشنز، قم
﴿5﴾ ایسنا نیوز ایجنسی
﴿6﴾ ایسنا نیوز ایجنسی
﴿7﴾ ایسنا نیوز ایجنسی
﴿8﴾ ایسنا نیوز ایجنسی