انسان کی روح پر روزے کے اثرات
  • عنوان: انسان کی روح پر روزے کے اثرات
  • مصنف: آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی
  • ذریعہ: اقتباس از : کتاب " ماہ مبارک رمضان؛ مکتب عالی اخلاق و تربیت "
  • رہائی کی تاریخ: 19:14:14 1-9-1403

 انسان اپنی زندگی کے راستے میں ترقی اور تکامل کی منزلوں کو طے کرنے کے لئے بہت سی دشواریوں سے روبرو ہوتا ہے اور خطرناک راستوں سے گزرتا ہے اور اس کے لئے بڑی زحمتیں اورمشقتیں تحمل کرتا ہے تاکہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکے ۔ لیکن جب تک وہ ان مشکلات کا سامنا نہ کرے گا ان خطرناک راستوں سے نہیں گزرے گا انسانی کمال کی منزلوں تک بھی نہیں پہنچ سکتا ہے ۔
مصائب مشکلات اور خطرے ہی انسان کو خالص اور پختہ بناتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ انسان صبر و حوصلے کے ساتھ ان کا سامنا کرے اپنے ارادوں کو مستحکم رکھے اور درمیان راہ سے فرار اختیار نہ کرے ۔
انسان کے نفس کو صبر و تحمل کا عادی اور مستحکم بنانے کے لئے اسلام نے بہت ہی عالی اور موثر نظام تجویز کیا ہے اسی نظام کا ایک حصہ "روزہ" ہے ۔
روزہ انسان کو صبر و تحمل کا عادی بناتا ہے اس کی روح کو مستحکم و مضبوط بناتا ہے اور اسے ایک خاص سنگینی عطا کرتا ہے جس کے ذریعہ انسان مصائب و شدائد میں پیچھے نہ ہٹ کر اپنے اہداف کی جانب گامزن رہتا ہے ۔
دوسری طرف سے انسان کے اندر متضاد غرائز و احساسات پائے جاتے ہیں جن کو قابو میں رکھنا انسان کے لئے بہت ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ ان غرائز کو معقول طریقہ پورا کیا جائے اور ان پر سخت نظر رکھی جائے ۔
انسانی وجود بہت ساری خواہشات کا مجموعہ ہے جن میں سے ہر خواہش انسان کے کمال کے راستے میں دخالت رکھتی ہے اور اس کے لئے کمال و سعادت کی راہ ہموار کرتی ہے ۔
اگر ان غرائز کی صحیح راہنمائی نہ کی جائے تو یہ غرائز انسان کے لئے بہت ساری مشکلات پیدا کرتی ہیں اور انسان کے باطن میں وحشت و اضطراب کا طوفان پیدا کر دیتی ہیں اس کی زندگی کو تلخ بنا کر عذاب سے بھر دیتی ہیں ۔ حسد ، تکبر ، لالچ ، شہوت ، نفسانی خواہشات ، ظلم و بربریت ، چاپلوسی ،تملق، پستی ، مال و مقام کی محبت دوسروں پر حکمرانی کا شوق ، یہ ساری چیزیں انسان کے اندر پیدا ہوجاتی ہیں ۔ لیکن اگران غرائز کی معقول طریقہ سے راہنمائی جائے اور دین و قرآن کے سایہ میں ان کی ہدایت کی جائے تو یہی غرائز انسان کی فلاح و سعادت کا باعث بن جاتی ہیں اور انسان کے اندر تواضع ، حلم ،قناعت ، تقویٰ ،عفت، عدالت ، شرافت ، استقامت و شجاعت جیسے اچھے صفات کو ایجاد کرتی ہیں ۔
انسان اپنے غرائز پر قابو پانے ، ان میں نظم پیدا کرنے ، ان کے درمیان اعتدال برقرار کرنے اور ان کی رہبری کے لئے صبر و تحمل کا محتاج ہے تاکہ حسد ،شہوت ، مال و مقام کی محبت ، کھانے کی چاہت اور دیگر برے صفات کی یلغار انسان کے ارادے کو متزلزل نہ کر سکے اور ان غرائز میں رخنہ پیدا نہ کر سکے ۔ چونکہ ان کے حملے انسان کے لئے خطرناک ہیں ان حملوں سے نفس کی حفاظت اور ان حملوں سے دفاع ان کے مقابلے میں خود کو تسلیم کرنے اور صلح کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتا ہے چونکہ ان خواہشات کی کوئی حد نہیں ہے ۔
اگر نفس ان غرائز کے تسلط سے آزاد ہوا اور ان کی باگ ڈور عقل کے سپرد کر دی گئی تو انسان کمال کی جانب بڑھے گا اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا تو اس شیر خوار بچے کی طرح ہوگا جس کا دودھ نہ چھڑایا جائے تو وہ اسی کا عادی بنا رہے گا اسی طرح یہ غرائز اگر غیر عقلانی راستے پر گامزن ہوں تو اسی طرح ان میں رشد و نمو ہوگی اور ان کی سرکشی اور قوت میں اضافہ ہوگا ۔
روزے کا ایک فائدہ یہی ہے کہ انسان کو اس داخلی جنگ میں مقابلے کے لئے آمادہ کرتا ہے اور صبر و تحمل کی قوت کو بڑھاتا ہے ۔
کیا روزہ شہوت ، لذیذ خورد و نوش کو ترک کرنے اور نفسانی غرائز کو کنٹرول کرنے کے علاوہ اور کچھ ہے ؟
جو انسان اس بات پر قادر ہے کہ ایک مہینہ تک تقریباً چودہ گھنٹے کھانا نہ کھائے ، پیاس برداشت کرے ، جنسی غریزہ کو کنٹرول کرے اور ان خواہشات سے آزاد ہو کر زندگی گزارے وہ دیگر مواقع پربھی اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ ناجائز شہوتوں سے پرہیز کرے اور اپنے دامن کو ہر برائی سے پاک رکھے ۔
اکثر برائیاں ،مشکلات اور نفسانی زندان کی گرفتاری انھیں غرائز کی وجہ سے ہیں کہ انسان ان پر کنٹرول نہ رکھ سکا اور شہوت کے مقابلے میں صبر و تحمل کا مظاہرہ نہ کر سکا ۔
روزہ انسان کے اندر یہ جذبہ اور حوصلہ پیدا کرتا ہے کہ انسان غرائز کے حملے کا مقابلہ کر سکے اور انھیں خود سے دور کر سکے ۔
روزہ ہمارا یار و مددگار ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے اوپر ہونے والے بیرونی حملوں کو بھی روک سکتے ہیں اور اندرونی حملوں سے بھی خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔
اسی لئے روزہ کو صبر سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس آیت" وَاستَعِينُوا بِالَّصبرِ وَالصَلوةِ "۱ میں صبر سے مراد روزہ لیا گیا ہے ۔
جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے :
اگر کسی پر کوئی بڑی مشکل آن پڑے تو اسے روزہ رکھنا چاہئے اس لئے کہ خداوند عالم ارشاد فرماتاہے " وَاستَعِينُوا بِالَّصبرِ وَالصَلوةِ" صبر اور نماز سے مدد مانگو، اور صبر سے مراد روزہ ہے ۔
اس سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ روزہ انسان کے اندر صبر پیدا کرنے میں اہم عامل و سبب ہے اسی لئے روزہ کو صبر سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
یقیناً صبر کو قوت بخشنے والی بہترین چیز روزہ ہے اور بہترین یاد خدا نماز ہے ۔ جو بھی ان دو قوی دوستوں سے مدد لے گا بے شک حادثات و مصائب ، نفسانی خواہشات اور شیطانی مکر و حیلہ کے مقابلے میں کامیاب و سرفراز رہے گا ۔
۱۔ سورہ بقرہ،آیت/۴۵