برکتوں سے مالا مال مہینہ، یا ربی یا ربی کی گونج کا مہینہ، رحمتوں، بخششوں اور آگ سے رہائی کا مہینہ ہمارے رو برو ہے۔ لفظ ”رمضان “کااصلی منبع (ریشہ) ”رَمَضَ“ ہے بمعنی خزاں میں برسنے والی وہ بارش جو فضا کو گرمیوں کی خاک اور غبار سے پاک کرتی ہے [عرب علاقوں میں ساون کا موسم، موسمِ گرما اور موسمِ خزاں کے درمیان حائل نہیں ہوتا جو کہ دنیا بھر میں صرف برِ صغیر کا طرّہ امتیا ز ہے] لہٰذا صحرا کی گرمی اور فضا میں معلق گرد و غبار خزاں کے شروع میں ہونے والی بارش سے مکمل پاک ہو جاتی ہے، یا دوسرا معنی سورج کی تپش سے پتھر پر پڑنے والا داغ ہے۔ (تفسیرِ فخرالرازی، ج۵، ص89/العین، ص327)
لیکن یہ نام کیوں سال کے مہینوں میں سے ایک مہینے کا رکھا گیا ہے؟
زمحشری (الکشاف، ج۱، ص113 میں) کہتے ہیں: اگر پوچھیں کیوں ماہِ رمضان کو یہ نام دیا گیا ہے؟ تو کہوں گا”ماہِ رمضان میں روزہ رکھنا، ایک پرانی عبادت ہے اور گویا کہ عربوں نے یہ نام بھوک کی حرارت سے گرم ہونے اور اسکی سختی سے پیٹ کے چکھنے کی وجہ سے رکھا ہے۔ اسی طرح اس ماہ کو ”ناتق (رنج لانے والا)“ بھی کہتے ہیں، چونکہ روزے کی سختی انہیں رنج و زحمت میں ڈالتی ہے۔“
اور کہا جاتا ہے: ”چونکہ مہینوں کے نام قدیم زبان سے نقل کئے گئے ہیں اور وہ لوگ جس زمانے میں موجود تھے اس وقت کی مناسبت سے مہینوں کے نام مقرر کرتے تھے اور یہ مہینہ نام گذاری کے وقت سخت گرم دنوں میں تھا۔
کچھ اور روایات یہ نام رکھنے کی وجہ ماہِ رمضان کے انسانی جان کے آئینے کو، گناہوں کی آلودگی سے اور ضمیر کو، لغزشوں سے پاک کرنے والے کردار کی صلاحیّت قرار دیتے ہیں۔ پیامبر اکرم(ص) سے روایت ہے:بے شک اس مہینہ کا رمضان نام رکھا گیا ہے چونکہ یہ گناہوں کو پاک کرتا ہے۔ (کنز العمال: ج۸، ص466، ح 23688)
نام رکھنے کی یہ وجہ ایک طرف تو لغت کے اصل منبع (ریشہ) ”رَمَضَ“اور دوسری طرف برکتوں، موجود مغفرتوں اور ان کے آثار سے ہم آہنگ اور متناسب بھی ہے۔
اس مہینے کو کئی دیگرناموں سے بھی پکارا گیا ہے مثلاً
1۔ ماہِ خدا
2۔ خداکی مہمانی کا مہینہ
3۔ ماہِ نزولِ قرآن
4۔ ماہِ تلاوتِ قرآن
5۔ ماہِ مسلمانان
6۔ ماہِ نماز
7۔ آزادی کا مہینہ
8۔ صبر کا مہینہ
9۔ استغفار کا مہینہ
10۔ دعا کا مہینہ
11۔ ماہِ مبارک
12۔ اولیائِ خدا کا مہینہ
13۔ فقیروں کی بہار
14۔ مومنوں کی بہار وغیرہ
ماہِ رمضان کی خصوصیات اور برکتیں
ماہِ رمضان کی انتہائی اہم خصوصیات ہیں جو کہ بیش بہا برکتوں کی بنیاد اور بے شمار نعمتوں کی اسا س ہیں۔ حدیثِ پیامبر(ص) ہے: اگر لوگوںکو یہ معلوم ہو جائے کہ رمضان کیا (نعمتیں اور اثرات لاتا) ہے تو آرزو کرتے کہ رمضان پورا سال باقی رہے۔ (فضائل الاشھر الثلاثة: ص140، ح151)
اختصار کی خاطر ان خصوصیات میں سے دو کا جو کہ زیادہ اہمیّت کی حامل ہیں کا یہاں ذکر کریں گے۔ در واقع یہاں اِن دو خصوصیات میں موجود چند ابہامات اورکچھ فوائد کی مختصر سی تفصیل بتانا مقصود ہے۔
۱۔ آغازِ سال:
ماہِ رمضان کی اہم خصوصیات میں سے ایک کہ جس پر روایاتِ اہلِ بیتؑ کی طرف سے تاکیدملتی ہے یہ ہے کہ یہ مہینہ سال کا آغاز ہے اس تناظر میں دو سوال ذہن میں ابھرتے ہیں؛
اوّل:
آغازِ سال کا معنی اور اس سے مقصود کیا ہے؟
دوّم:
عربوں نے ”محرّم“ کو سال کا آغاز قرار دیا ہے جو اب بھی باقی ہے تو اسلامی روایات میں ماہِ رمضان کو کیوں سال کا آغاز قرار دیا گیا ہے؟
علامہ مجلسی نے اس اختلاف کا جواب آغازِ سال کے معنی کے روشن ہونے سے مربوط فرماتے ہیں۔
آغازِ سال کا معنی
ظاہراً آغازِ سال کا کوئی حقیقی معنی نہیں ہے کہ صرف کسی ایک خاص لمحے کو آغازِ سال قرار دیا جائے نہ کہ دیگر لمحات کو ،بلکہ لگتا یوںہے کہ یہ ”آغاز“ قراردادی امور میں سے ہے اور قراردادوں کے اختلاف اور تنوّع سے اسکے معانی بھی مختلف ہوتے جاتے ہیں۔ اس حساب سے ہر دن کسی خاص قرارداد کے تحت سال کا آغاز یا سال کا اختتام قرار پا سکتا ہے۔ مثلاً عرب محرّم کو سال کا آغاز سمجھتے ہیں، ایرانی فروردین کا پہلا دن (نوروز 21 مارچ)، جبکہ یورپی حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے دن کو سال کا آغاز قرار دیتے ہیں۔
آغازِ سال اور معنوی زندگی کی تجدید
جب اسلامی ثقافت کے تناظر میں ”آغازِ سال“ کے مفہوم کو دیکھا جائے تو مختلف قراردادوں کے اعتبار سے اس سے مختلف معنی وابستہ ہیں۔ بعض روایات ماہِ رمضان کے آغازِ سال ہونے پر تاکید کرتی ہیں بعض شبِ قدر کو آغازِ سال قرار دیتی ہیںاوربعض عید فطر کو۔
جیسے بہار کا آغاز ( ”نوروز“ جو ایرانی سال کا پہلا دن ہے) طبیعت کا ”آغازِ سال“ ہے کیونکہ اس وقت زمین نیا لباس زیبِ تن کرتی ہے اور درخت سر سبز ہوتے ہیں، ماہِ رمضان بھی اسلامی نقطہ نظر سے انسانیّت کا ”آغازِ سال“ ہے کیونکہ اس ماہِ مبارک میں اہلِ سیر و سلوک کی معنوی زندگی کی تجدید ہوتی ہے اور جو لوگ کمالِ مطلق کی راہ پر سفر کر رہے ہیں اُن کی جانیں کھل اٹھتی ہیں اور دیدارِ خداوند کے لئے تیار ہو جاتی ہیں۔اسی لئے اگر ”نوروز“ گیاہ و گل اور دنیائے طبیعت کی مادّی زندگی کی تجدید کا آغاز ہے تو ”ماہِ رمضان“ عالمِ انسانیّت کی معنوی زندگی کی تجدید کا آغاز قرار ہے۔
پس وہ روایات جو ”شبِ قدر“ کو سال کا آغاز قرار دیتی ہیں اس اعتبار سے کہ وہ رات پورے سال کی تقدیر کا آغاز ہے اور سارے سال کے مقدّرات اسی رات میں لکھے جاتے ہیں۔ اور وہ روایات جو ”عیدِ فطر“ کو سال کاآغاز شمار کرتی ہیں اس اعتبار سے کہ وہ دن سال کا پہلا دن ہے جب کھانا پینا حلال ہوتا ہے جیسا کہ روایات کے متن میں صراحت کی گئی ہے اور یا اس لئے کہ انسان اپنے گناہوں کو روزے کی بھٹی میں پگھلا کر اور اپنے اعمال کو صاف کرواکر اپنی زندگی کے تازہ دور کا آغاز کرتا ہے۔
۲۔ خدا وند کی مہمانی
دوسری اہم خصوصیّت جو اس پُر فضیلت مہینے میں جلوہ گر ہوتی ہے وہ کچھ عوامل اور کرامتیںہیں جو کہ خداوند ِ سبحان کی مہمانی کے لئے اس ماہ میں فراہم ہوتی ہیں، اس طرح کہ پیامبرِ خد(ص) اس خاصیّت کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’وہ مہینہ ہے کہ اس میں خدا وند کی مہمانی کی طرف دعوت کئے گئے ہو اور خداوند کے اہلِ کرامت بندوں میں قرار دیے گئے ہو۔ (ماہِ مہمانی خدا، ص29)
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس مہینے میں خدا وند ِ تعالیٰ کی مہمانی اور اپنے دوستوں کی میزبانی کا معنی کیاہے ؟ کیا تمام افراد تما م اوقات میںخداوندِ تعالیٰ کے مہمان نہیں ہیں ،جو خدائی دسترخوان پر اکھٹے ہوتے ہیں؟علاوہ بریں مہمانی کی بنیاد وہی کھانا پینا ہے جو کہ میزبان اپنے مہمانوںکے لئے فراہم کرتا ہے ،پس یہ کیسی دعوت ہے کہ کھانے پینے سے پرہیز اس کی پہلی شرط ہے؟
اس سوال کا جواب انسان کی حقیقت اور اس کی وجود کی بنیادوںکی واقعیّت پر مبنی تحلیل سے واضح ہوتا ہے۔ اسلامی نظر سے انسان جسم و جان کا مرکب ہے جیسے انسانی جسم کو اپنے وجود کی بقاءکےلئے مادّی غذا کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی انسانی حقیقت اور ہویت (شخصیّت) بھی اپنے اسی تناسب سے معنوی غذا کی محتاج ہوتی ہے۔
یہاں واضح ہوتا ہے کہ خدا وندِ تعالیٰ نے رمضان کی دعوت اپنے دوستوں کے جسموں او مادّی وجودوں کے لئے بر پا نہیں کی چونکہ ُان کے بدن، دوسروں کی طرح، خداوند کی دائمی دعوت میں سب کے ساتھ شریک رہتے ہیں۔ حتّی اس پہناور (چھناور) مادّی دسترخوان پر زیادہ تر خداوندِ کریم کے دشمن دوسروں سے زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ جسموں کو جذب کرنے اور مادّی خواہشوں کی تکمیل، معنوی نیازمندی کی تکمیل جیسی قیمتی اور برترضرورت کی گرد تک کو بھی نہیں چھو سکتی۔ قرآن ِ کریم میں واضح طور سے بیان کیا گیا ہے: ”اگر اس بات کا ڈر کہ لوگ کفر کی طرف متوجّہ ہو جائیں گے نہ ہوتا تو کافر مادّی لحاظ سے بر ترین امکانات کے حامل قرار دیے جاتے۔
سورہ زحرف: ترجمہ: اور اگر اس بات کا ڈرنہ ہوتا کہ لوگ (گمراہی میں) ایک قوم ہو جائیں گے تو ہم خداوندِ رحمان کا انکار کرنے والوں کے لئے ان کے گھر کی چھتیں اور اوپر چڑھنے کے لئے سیڑھیاں چاند ی کی قرار دیتے (33)اور انکے گھر کے دروازے اور وہ تخت جن پر وہ تکیہ لگا کر بیٹھتے ہیں (34) اور سونے کے بھی لیکن یہ سب صرف زندگانی دنیا کی لذّت کا سامان ہے اور آخرت پروردگار کے نزدیک صرف صاحبانِ تقویٰ کے لئے ہے (35)۔
حدیثِ پیامبر اکرم(ص) میں بھی آیا ہے: اگر دنیا کی اہمیّت خداوند کے نزدیک مچھر کے پر جتنی بھی ہوتی تو ہر گز کافر اور فاجر اس میں سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پی سکتے۔
خداوندِ متعال نے رمضان کے مہمان سرا میں اپنے دوستوں کی جانوں اور روحوں کو دعوت کے لئے مدعو کیا ہے نہ کہ ان کے بدنوں اور مادّی وجودوں کو اور یہ ایسی دعوت ہے کہ اس کے سوا کوئی بھی اس کی قیمت کو نہیں جانتا۔ اس لئے فرمانِ خداوند ہے۔روزہ میرے لئے اور فقط میں اس کی جزا دوں گا۔
دوسری طرف اس دعوت پر جانے کے لئے کچھ شرائط اور آداب بھی ہیںجو کہ جان کی دعوت سے ہم آہنگ ہونے چاہئیں اور اس کی خورد و نوش روح کی دعوت سے ہم آہنگ اور اس کا ہدف بھی روح میں تغیر لانا اور انسان کی معنوی زندگی کی تجدید او راس کے ضمیر کو قوّت بخشنا ہونا چاہیے۔
اس سلسلے میں شیخ محمد حسین اصفہانی (اپنے زمانے کے مشہور فقیہ، عارف اور فلاسفر) کے فرزند عالمِ ربّانی مرحوم شیخ رضا الرسالة المجدیہ میں پیامبر اکرم(ص) کے فرمان کہ ”اس مہینے میں خداوندکی مہمانی کی طرف دعوت کئے گئے ہو اور خدا تعالیٰ کے اہلِ کرامت بندوں میں قرار دیے گئے ہو“ کی شرح میںکیا خوبصورت لکھتے ہیں کہ: جان لو! یہ مہمانی، جسم کی تقویّت کے لئے نہیں ہے اور تیرا بدن اس مہمانی میں مدعو نہیں ہے کیونکہ تو ماہِ رمضان میں اسی گھر میں ساکن ہے کہ جس گھرمیں ماہِ شعبان میں ساکن تھا اور تیری غذا وہی روٹی اور بوٹی ہے جو کہ سال کے دوسرے مہینوں میں کھاتاتھا (اس فرق سے کہ) اس مہینے کے دنوںمیں اس کھانے سے منع کر دیا گیا ہے بلکہ یہ تیری روح ہے جو اس دعوت کی مہمان ہے اور ایک دوسری جگہ اوردوسری غذا کے لئے دعوت کی گئی ہے ،جو کہ روحانی اور روح سے ہم آہنگ ہے۔
ماہِ رمضان کی دعوت، بہشت کی طرف دعوت ہے، اور اس دعوت کی غذائیں بھی بہشت کی غذا کی مانند ہیں۔ ہر دو طرف، خدا کے گھر کے مہمان ہیں۔لیکن یہاں اس مہمان سرا کا نام ”ماہِ رمضان“ ہے اور وہاں اس کا نام ”بہشتی محل“ ، یہاں غیب ہے اور وہاں مشہود اور ظاہر؛ یہاں تسبیح و تحلیل ہے اور وہاں سلسبیل کے چشمے؛یہاں نعمتیں چھپے ہوئے ذخیرے میں ہیں اور وہاںان کی پسند کے میوے لئے ہوں گے٭اور ان پرندوں کا گوشت جس کی انہیں خواہش ہو گی(سورہ واقعہ آیت 21 ،22)۔ لہٰذا نعمتیں ہر جہان میں اپنے مخصوص لبادے میں ظاہر ہوتی ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اسی دنیا میں نعمتیں پیامبران اور معصومان کے لئے اس جہان کی شکل میں ظاہر ہو جاتی ہیں چنانچہ کئی روایات میں آیا ہے کہ پیامبرِ خد ا (ص) حضرت زہراءسلام اللہ علیھا یا امام حسن اور مام حسین علیھما السلام کے لئے بہشتی پھل اور لباس لائے ، اس مطلب پر گواہ ہیں۔ حتی بعض اوقات یہ امور شیعوں کے لئے بھی فراہم ہوئے ہیں۔اس نقطہ کے تناظر میں ماہِ مبارک رمضان کی دعوت اور خدا وند کی مہمانی کے سلسلے میں درج ذیل مباحث اہمیّت کی حامل ہیں۔
اوّل: خدائی مہمانی کی اہمیّت یعنی اس ماہ کے خواص اور ا س کی برکتیں اور اس سے محرومیّت کے منفی آثار ہیں۔
دوّم : خدائی مہمانی کے لئے داخل ہونے کی تیاری یعنی جب تک انسان صحیح طور سے آگاہ نہیں ہو گا تب تک مکمل تیاری بھی نہیں کر سکے گا اور یہ ہی وجہ ہے اعمال کے ساتھ کئی دعائیں اور اذکار ذکر کئے گئے ہیں۔ آگاہی کی کمی اس کے مانع ہوتی ہے۔
سوّم: خدائی مہمانی کے آداب جس میں شرائطِ لازمِ مبطلات ِ روزہ سے پرہیز (احکامِ فقہی) اور ضروری شرائط جو فائدہ حاصل کرنے کے لئے ہیں وہ گناہوں سے پرہیز اور تکاملِ روحی ہیں جو اس ساری محفل کی رونق اور اصل و اساس ہیں۔
چہارم: خدائی مہمانی کی بہترین راہیں جس میں ان خاص راتوں سے متعلق معرفت اور آداب شامل ہیں۔
پنجم: مہمان سرائے خداوند سے خارج ہونے کے آداب یعنی وداعِ ماہِ مبارک جس پر معصومین کی طرف سے کافی تاکید ہے تا کہ ماہِ مبارک میں کوشش کے باوجود اگر کوئی کمی رہ جائے تو اس کا سدِّ باب کیا جا سکے۔
ان مباحث کے عناوین کو اختصار کی خاطر بغیر شرح اور تفصیل سے ذکرکر دیا گیا ہے اہلِ معرفت و کرامت، اہلِ سیر و سلوک کی راہ پر گامزن خداوندِ تعالی کے عاشقان اس پر ضرور توجّہ دیں گے اور ان مباحث کی گہرائی تک جائیںگے۔ یہاں صرف ایک شبہ کی طرف خدائی مہمانی کی اہمیّت والی بحث کے ضمن میں ذکرکر کے اس بحث کو سمیٹنا چاہوں گا۔پیامبر اکرم(ص) سے مروی ہے: پیامبراکرم(ص) : جب ماہِ رمضان آتا ہے تو رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں۔ (فجائل الاشھر الثلاثة: ص 124، ح 135) اس قسم کی کئی احادیث میں اسی نکتہ یعنی ماہِ رمضان میں شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں کچھ سوالات ابھرتے ہیں جیسے: شیطان کون ہے؟ خلقت کے اس حکیمانہ نظام میں شیطان کو کیوں انسان کو گمراہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے؟ انسان پر شیطان کے قبضے کی حد کہاں تک ہے؟ خداوند متعال رمضان کے مہینے میں کیوں شیاطین کو باندھ دیتے ہیں اور ان کے گمراہی کے اثرات کے مانع ہوتے ہیں ،لیکن دوسرے مہینوں میں انہیں اپنے کام مین آزاد چھوڑدیتے ہیں؟ اور آخرکار اگر اس قسم کی روایات درست ہیں تو اس مہینے میں کیوں بعض لوگ گناہ کرتے نظر آتے ہیں؟
اِن سوالات کے تفصیلی اور مکمل جوابات اس مختصر سی فرصت میں نہیں دیے جا سکتے لیکن جو کچھ مختصراًکہا جاسکتا ہے وہ اس طرح ہے: اسلامی نکتہ نظر سے شیاطین، جن کی جنس سے نامرئی موجودات ہیں جو شعور، آگاہی، آزادی اور انتخاب کی قدرت رکھتے ہیں لیکن اپنی اس آزادی سے سوئِ استفادہ کرتے ہوئے برائیوں کو خوبیوں کی صورت میں جلوہ گر کر کے انسان کی نا مشروع ہوس کو اکساتے ہیں اور اسے فریب دینے اور گمراہ کرنے کے در پے رہتے ہیں۔
لیکن اس نظامِ خلقت میں شیاطین کے اغوا کرنے والے کردار سے ہٹ کر دوسری طرف انسان کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کے پھلنے پھولنے، انسانِ کامل کی حدتک اس کی تربیّت اور اسے مقابلے اور صبر کے سائے تلے ان لغزشوں اور فریب کے مقابلے میں تیار کرنے کی حکمت پوشیدہ ہے۔
یہ اس حال میں ہے کہ انسان پر شیطان کے قبضے اور قدرت کی حد وسوسے اور اسے اکسانے سے زیادہ نہیں ہے۔ اس لحاظ سے انسان کو برائیوں کی طرف صرف دعوت دیتے ہیں لیکن اس برائی کو عملی کروانے کی قدرت نہیں رکھتے۔ (سورہ ابراہیم 22
اس تفصیل کے ساتھ اس سلسلے میں درج ذیل دو مسئلوں کی طرف توجّہ کرنی چاہیے:
اوّل: ماہِ رمضان میں شیاطین کا باندھا جانا۔
دوّم: ان پوشیدہ عوامل کی تحلیل جو اس مہینے میں شیاطین کے باندھ دیے جانے اور ان کے گمراہ کرنے والے کردار کی مخالفت کے باوجود گناہوں کا باعث بنتے ہیں۔
ماہِ رمضان میں شیاطین کے باندھے جانے کی وجہ
وہ دینی روایات جن میں شیاطین کے باندھے جانے اور اس ماہ میں ان کی ممانعت کا موضوع زیرِ بحث آیا ہے ان کے تجزیے اور تحلیل سے دو وجوہات سامنے آتی ہیں اس توضیح کے ساتھ کہ دوسری وجہ پہلی کے ساتھ وابستہ ہے (یعنی دوسری وجہ پہلی وجہ کے طول میں ہے)
1۔ روزے کی مقابلہ وارانہ طبیعت:
روزہ طبیعی طور پر ان عوامل کو جن کے زور پر شیطان انسان کو گمراہی کی طرف کھینچتا ہے ختم کر دیتا ہے۔ اگر دقیق تعبیر کی جائے تو وہ زنجیر جو شیطان کو ماہِ رمضان میں باندھ کر رکھتی ہے وہ چیز خود روزہ ہے ۔
اس حساب سے پیامبرِ خد(ص) کی حدیث میں آیا ہے: شیطان انسان میں ایسے ہی جاری رہتا ہے جیسے حرکتِ خون، پس بھوک کے ذریعے اس کے راستون کو تنگ کرو۔ (بحار الانوار ، ج70، ص42/ صحیح البخاری ، ج6، ص24،26)
حدیث اس نکتہ پر دلالت کرتی ہے کہ روزہ طبیعی طور پر شیطان کے انسان پر قبضہ میں ممانعت ایجاد کرتا ہے۔ روزہ دار کی زنجیر نہ فقط شیطان کو باندھتی ہے بلکہ نفسِ امّارہ کی کشش کو بھی لگام ڈالتی ہے۔ اسے قید کر کے انسان پر اس کے غلبے میںمانع ہوتی ہے
اور امیر المومنین علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق:بھو ک نفس کو قید کرنے او رعادتوں کو توڑنے کےلئے کتنی اچھی مددگار ہے۔ (عیون الحکم و الحواعظ، ص494/ عزر الحکم، ح9944) اس بنیاد پر تمام روایات جو بھوک کی تعریف اور نفس کی تربیّت کی خود سازی کے بارے میں آئی ہیں ان سب کا ہدف انسان پر شیطان کے قبضے کے خلاف طبیعی مانع ایجاد کرنا اور انسان کو نفس کی اغوا گری اور کششوں سے محفوظ کرنا اور نیز انسان کی عقلی توانائیوں اور صلاحیّتوں کی شکوفائی ہے۔
2۔ خداوندِ تعالیٰ کی خصوصی عنایت:
روزے کا طبیعی طور پر روزے دار پر شیطان کے قبضے اور اس کی اغوا گری کے سامنے بند باندھنے کے ساتھ عبادت کا یہ پروگرام خود بخود روزے داروں کے لئے خداوند کی خصوصی عنایت کا عامل بھی بنتا ہے اور جو کچھ روایات میں شیطان کو اس ماہ میں باندھ دیے جانے کے بارے میں آیا ہے اسی نکتہ کی طرف اشارہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ خدائی عنایت اور لطف کوئی اضافی چیز نہیں ہے کہ سوال کیا جائے کہ خداوندِ تعالیٰ کیوں دوسرے مہینوں میں شیطان کے انسان پر قبضہ کرنے میں ممانعت نہیں کرتا اور فاصلہ نہیں ایجاد کرتا ؟ہرگز نہیں! بلکہ اس خدائی لطف و عنایت اور توفیق کی بنیاد خود انسان کے اختیاری انتخاب او راس کے رمضان کی اس مہمان سرا میں داخل ہونے میں پوشیدہ ہے۔ یعنی انسان اپنے اختیار اور ارادے سے اس خصوصی لطف کا حقدار قرار پاتا ہے۔
شیطان کے باندھ دیے جانے کے باوجود فائدہ نہ ہونے کی وجوہات
پیچھے کئے گئے تجزیہ و تحلیل میں یہ بات گذر چکی ہے کہ اس ماہِ مبارک میں شیاطین انسانوں پر یا کم از کم روزہ داروں پر کسی قسم کا قبضہ یا اثر نہیں کر سکتے۔ دوسرا بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں کئی بار دیکھنے میں آتا ہے کہ روزے دار اس ماہ میں بھی کئی گناہ اور غفلت سے دوچار ہوتے ہیں؟ ان گناہوں کے علاج کے بارے میں ،کفّاروں کی تفصیل اس حالت کی گواہ بھی ہے۔
سیّد ابنِ طاووسؒ اپنی کتاب ”الاقبال“ ج1، ص73 میں ایک زاویے سے اس کے دو جواب دیتے ہیں۔
1۔ شیطان اکیلا گناہوں کے عوامل میں سے نہیں ہے:
یہ جواب اس نکتہ پر استوار ہے کہ انسان جو خطائیں اور گناہ انجام دیتا ہے صرف شیطان کی اغوا گری پر مربوط نہیں ہیں بلکہ اس کی دو اور بنیادی وجوہات بھی ہیں۔ نفسِ امّارہ اور پچھلے گناہوں کے نتیجے میں وہ اکھٹا ہونے والا میل جو دلوں کو آلودہ اور سیاہ کر دیتا ہے۔ در اصل عنایتِ خدا وندی جو ماہِ رمضان میں انسان کے لئے مہیّا ہوتی ہے صرف اس پہلے عامل کی تاثیر ،جو کہ شیطان سے مربوط ہے کو دور کرتی ہے۔ لیکن دوسرے دو عامل اپنا کردار پوری طرح ادا کرتے رہتے ہیں اور انسان کی لغزشوں اور اس کے گناہوں کے انجام دینے اور اس کے غفلت میں پڑے رہنے کے لئے میدان تیار کرنے کے لئے کافی ہیں۔اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ روزہ نفسِ امّارہ کی کشش کو دبانے کے لئے اور اس کے انسان کو لغزشوں اور گناہوں کی طرف راغب کرنے کے اثرا ت بھی ختم کر دیتا ہے، تو پھر بھی پچھلے گناہوں کے نتیجے میں جمع شدہ میل اور آلودگی روزے دار کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اور اسے غفلت اور گناہ کے دہانے پر لا کھڑا کرتی ہے۔
2۔ شیطانوں کا باندھ دیا جانا نسبی ہے:
پچھلی تحلیل اور تجزیے کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ شیطان کو جو زنجیر باندھی ہے وہ خود ماہِ رمضان کے روزے سے حاصل ہوتی ہے۔ پس روزہ جتنا مضبوط اور مکمل ہو گا تو وہ زنجیر جو شیطان کو باندھتی اور نفسِ امّارہ کو پکڑے رکھتی ہے زیادہ مضبوط ہو گی اور ان کے نتیجے میں حاصل ہونے والی غفلت اور لغزشوں کو کم کرے گی۔ اس بنیاد پر یہ کہ سکتے ہیں کہ اُن لوگوں کا روزہ جو ماہِ رمضان میں گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں مکمل روزہ نہیں ہے۔
لہذا روزے کے ہمراہ توبہ اور اپنے اعمال کا ہر لمحہ محاسبہ ،چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے بھی اپنی حفاظت وہ واحد راستہ ہے جو ہمیں غفلت سے بچا سکتا ہے۔اور اگر اس ساری بحث کے آخر میں ہم اپنے معاشروں میں اطراف پر نظر ڈالیں تو کیا ہم روزے کے اہداف اور اس کے کمال کی طرف متوجّہ ہیں؟ اگر ایک سر سری سا جائزہ لیاجائے تو واضح ہوتا ہے کہ ماہِ رمضان میں ہم لوگ دوسرے مہینوں سے اگر مبالغہ نہ کریں تو اکثر افرادد ُگناکھاتے ہیں۔ جو لوگ گھروں میں ہوتے ہیں دوسرے مہینوں کی نسبت اتنا زیادہ سوتے ہیں کہ جاگنے کے بعد کسی کام میں بھی سستی کی وجہ سے دل نہیں لگتا۔ ہماری نمازوں کی کیفیّت اور کمیّت مساجد میں دوسرے ایّام کی نسبت کم ہو جاتی ہے پانچ منٹ والی نماز اب تین منٹ میں اور اکثر مساجد میںنوافل کی چھٹّی ہو جاتی ہے۔ ہر قسم کے کھیلوں کے ٹورنامنٹ راتوںمیں شروع ہو جاتے ہیں۔ راتیں عبادت کی بجائے لغویات میں اور دن سونے میں گذرنے لگتے ہیں
کیا اس کے بعد بھی رمضان کے آنے یا نہ آنے کا ہماری روحوں پرکوئی روحانی اثر ہو سکتا ہے؟ یا یہ ہماری معنوی زندگی میں کوئی جدّت لا سکتاہے؟ کیا ہماراشیطان پابند سلاسل ہوتا ہے؟