خدا کی بارگاہ میں مناجات کا کیا فلسفہ ہے؟
  • عنوان: خدا کی بارگاہ میں مناجات کا کیا فلسفہ ہے؟
  • مصنف: علی اصغر رضوانی
  • ذریعہ: شیعہ اسٹیڈیز ڈاٹ کام
  • رہائی کی تاریخ: 20:13:45 1-9-1403


دعا اور مناجات بہت ہی قیمتی سرمایہ اور اسلام اورقرآن کے مسلم حقائق میں سے ہے کہ جس کے صحیح طریقے سے استفادہ کرنے سے روح و جسم کی پرورش ہوتی ہے۔ الکسیس کارل (مشہور انسان شناس) کہتا ہے: ""کوئی بھی اور قوم نابود نہیں ہوئی مگر اس نے دعا کو ترک کیا ہواور اپنے آپ کو موت کیلئے تیار کیا ہو"" (یعنی جس قوم نے بھی دعا کو ترک کیا ہو اس کا زوال اور نابودی قطعی اور یقینی ہے) دعا انسان کی روح اور فطرت پر بہت ہی عمیق اور گہرے آثار مترتب کرتی ہے اور اس کی اس طرح تربیت کرتی ہے کہ اس معاشرے، ماحول اور وراثت کو وہ اپنے لئے محدود سمجھتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر دعا ومناجات کرنے والا تمام شرائط کے ساتھ دعا مانگے تو وہ جو کچھ بھی طلب کرے اسے مل سکتا ہے اور جس دروازے کو بھی کھٹکھٹائے وہ اس پر کھل جاتاہے"" 1
مناجات، کمال، سعادت، مقام اور حیثیت کیلئے درخواست ہے بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو دعا کرنے والے کی لیاقت اور شائستگی سے حاصل ہوتی ہے اور دعا ومناجات کی تکرار ایسا شیوہ اور فریاد ہے کہ جس سے انسان کے روح پہ اثر ہوتا ہے اور اس کے وجود میں امید، عشق اور محبت کی قوت و طاقت پیدا ہوتی ہے جو اسے ہدف کو پانے اور اس تک پہنچانے کیلئے حرکت میں لاتی ہے۔
جو انسان یہ درک کرلے اور جان لے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے، اس کیلئے کافی نہیں ہے اور اسے قانع نہیں کرسکتا، دعا کرتا ہے تا کہ جو اس کچھ اس کے پاس ہونا چاہیے اسے مل جائے اور جیسا اسے ہونا چاہیے، اس مقام تک پہنچ جائے۔ ایسا ہی انسان ہمیشہ ایک بہتر مستقبل اور آئیڈیل کیلئے تمنا کرتا ہے اور اس تک پہنچنے کیلئے دعا کرتا ہے۔ یہ ہے دعا اور اس کے فلفسہ کے بارے میں مختصر سا خلاصہ، اب ہم تفصیل سے اس کے بارے میں گفتگو کریں گے۔

دعا کا مفہوم

لغت میں دعا، بلانے، سوال کرنے، کسی کو پکارنے اور کسی چیز کو کسی چاہنے یا مانگنے کو کہا جاتا ہے۔ 2
اصطلاح میں دعا یعنی خدا وند متعال سے اس کے فضل وعنایت کی درخواست اور اسی سے مدد مانگنا اور سرانجام اس کی بارگاہ میں نیازمندی اور عجز وانکساری کا اظہار کرنا اور انسان کے خالق کائنات سے معنوی رابطہ اور مناجات کا نام دعا ہے۔

قرآن اور مناجات

قرآن بعض آیات میں صریح طور پہ دعا اور مناجات کی دعوت دیتا ہے اور اجابت کا وعدہ بھی کرتا ہے۔ خدا وند متعال فرماتا ہے: ""واذا سئالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فلیستجیبوا لی۔۔۔"" (بقرۃ:۱۸۶) اور جب میرا بندہ تجھ سے میری دوری اور نزدیکی کے بارے میں سوال کرے تو جان لیں کہ میں ان سے نزدیک ہوں جو بھی مجھے پکارے میں اس کی دعا کو مستجاب کروں گا۔
دوسری جگہ دعا کے بارے میں امر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ""ادعونی اسستجب لکم ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جهنم داخرین"" (غافر:۶۲) تمھارے پروردگار نے فرمایا کہ مجھے پکارو تاکہ میں تمھاری دعا مستجاب کروں اور وہ لوگ جو مجھ سے دعا اور میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں اور بغاوت کرتے ہیں بہت ہی جلد ذلت کے ساتھ جہنم میں ہوں گے۔

روایات اور مناجات

۱۔ امام باقر(ع) سے پوچھا گیا: کون سی عبادت افضل ہے؟ حضرت نے فرمایا: کوئی بھی چیز خدا کے نزدیک اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ اس کی ذات پاک سے مانگا جائے اور دعا کی جائے اور جو کچھ اس کے پاس ہے طلب کیا جائے، اور جوانسان اس کی عبادت ودعا میں تکبر کرے اور نہ مانگے تو اس سے بڑھ کر کوئی بھی چیز اس کے پاس مبغوض نہیں ہے۔ 3
۲۔ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: عاجز ترین انسان وہ لوگ ہیں جو دعا نہ کرتے ہوں اور اس سے محروم ہوں۔ 4
۳۔ امام علی (ع) فرماتے ہیں: خدا کے نزدیک سب سے محبوب اور پسندیدہ عمل دعا اور مناجات ہے۔ 5

قرآن می انبیاء (ع) کی مناجات

۱ ۔حضرت آدم(ع) کی دعا:
جب حضرت آدم(ع) کو جنت سے باہر نکال دیا گیاتو آپ نے عرض کیا: ""ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین"" (اعراف:۲۳) خدایا! ہم نے خود پر ظلم کیا ہے اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور رحم نہیں کرے گا تو ہم زیانکاروں میں سے ہوجائیں گے۔

۲ ۔ حضرت نوح(ع) کی دعا:
حضرت نوح(ع) اپنی دعا میں فرماتے ہیں: رب اغفر لی ولوالدی ولمن دخل بیتی مؤمناً۔۔۔"" (نوح:۳۰) پروردگارا! مجھے، میرے والدین اور مومن کو بخش دے۔۔۔

۳ ۔ حضرت ابراہیم (ع) کی دعا:
حضرت ابراہیم اپنے فرزند اور بیوی کو مکہ کی خشک، بے آب و علف سرزمین پر چھوڑ کر خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: ""ربنا انی اسکنت من ذریتی بوادٍ غیر ذی زرع ً عند بیتک المحرم"" (ابراہیم: ۴۰) پروردگارا! میں نے اپنی ذریت (اولاد) کو بیابان (بغیر کھیتی کے زمین) میں تیرے بیت الحرام کے پاس گھر دیا۔دوسری جگہ اس طرح دعا کرتے ہیں: ""رب اجعلنی مقیم الصلوٰۃ ومن ذریتی ربنا وتقبل دعاء"" (ابراہیم: ۴۲) پروردگارا! مجھے اور میری ذریت کو نماز گزاروں میں سے قرار دے اور ہماری دعا قبول فرما۔

۴ ۔ حضرت سلیمان(ع) کی دعا:
خدائے متعال نے حضرت سلیمان کی دعا کو اس طرح نقل کیا ہے: ""قال رب لو اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علی و علی والدی و ان اعمل صالحاً ترضانی وادخلنی برحمتک فی الصالحین"" (نمل: ۱۹) اس نے کہا: پروردگارا! مجبور کرتا کہ جو نعمت تونے مجھے اور میرے ماں باپ کو عطا فرمائی ہے اس کا شکر ادا کروں اور عمل صالح انجام دوں کہ جسے تو پسند کرے اور مجھے اپنی رحمت کے واسطے اپنے صالح بندوں میں شامل فرما۔

۵ ۔ حضرت یونس(ع) کی مناجات:
خدا وند عالم حضرت یونس کی مناجات کو مچھلی کے پیٹ میں اس طرح سے بیان کرتا ہے: ""۔۔ ۔ فنادی فی الظلمات ان لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین فاستجبنا له ونجیناه من الغم وکذلک ننجی المؤمنین"" (انبیاء:۸۷۔۸۸)۔۔۔ اندھیروں اور تاریکیوں میں اس نے ندا کی: تیرے بغیر کوئی معبود نہیں، تیری ذات منزہ اور پاک ہے اور میں ظلم کرنے والوں میں سے ہوں، پس ہم نے اس کی دعا کو مستجاب کیا اور اسے غم سے نجات دی۔

۶ ۔ حضرت یوسف(ع) کی دعا:
خدائے متعال حضرت یوسف کی دعا کو حضرت زلیخا کے سلسلے میں اس طرح ذکر کرتا ہے: ""رب السجن احب الی مما یدعوننی الیہ"" (یوسف: ۲۲) پروردگارا! یہ زندان بہتر ہے اس چیز سے جس کی طرف یہ مجھے دعوت دیتے ہیں۔

۷ ۔ حضرت موسی(ع) کی دعا:
قرآن کریم حضرت موسی کی خدا سے دعا کو اس طرح نقل کرتا ہے: رب انی لما انزلت الی من خیرٍ فقیر"" (قصص: ۲۴) پروردگارا! تونے جو برکت میری طرف نازل کی ، میں اس کا محتاج ہوں۔

۸ ۔ حضرت زکریا(ع) کی دعا:
حضرت زکریا نے خدا سے صالح اولاد کیلئے اس طرح دعا کی: ""رب هب لی من لدنک ذریة طیبة انک سمیع الدعاء"" (آل عمران: ۳۸) پروردگارا! مجھے اپنی طرف سے پاک اولاد و ذریت عطا فرما، بے شک دعا کا سننے والا ہے۔
خدا وند متعال پیغمبر اسلام (ص) سے خطاب فرماتا ہے: قل انما ادعوا ربی ولا اشرک به احداً"" (جن:۲۰) کہوبتحقیق میں اپنے پروردگار کو پکارتا ہوں اور کسی اس کا شریک قرار نہیں دیتا۔

دانشوروں کی نظر میں دعا

دعا، مناجات اور راز و نیازاس قدر ضروری ہے کہ سیکولوجسٹ، اسکالر اورسیاست دان لوگ اس کو ضروری سمجھتے ہیں۔
۱ ۔ ڈاکٹر الکسیس کارل کہتا ہے: دعا کے موقع پہ انسان نہ صرف ایک مخصوص شکل میں دعا مانگتا ہے بلکہ اس کا وجد ان اس طرح عالم تجرد میں محو ہوجاتا ہے کہ خود بھی اس کا تصور نہیں کرسکتا۔ اس حالت کو انسان کے روحی احساس کی ترقی اور پیشرفت کی نسبت نہیں دینا چاہیے۔۔۔ دعا اور مناجات ہمارے اعضاء بدن میں ایسی حالت وجود میں لاتی ہے جس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ ابتدائی دنوں میں انسان اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا لیکن ب آہستہ آہستہ اس کا عادی بن جاتا ہے تو کوئی بھی لذت اس کا مقابلہ نہیں کرتی۔ انسان اس حالت میں اپنے آپ کو ایک طر"ح سے خدا کے سپرد کرتا ہے۔ جس طرح سے سنگ مرمر، سنگتراش کے سامنے بے اختیار ہوتا ہے اس کی بھی یہی حالت ہوتی ہے اور اس حالت میں خدا سے رحمت ومغفرت کیدعا مانگتا ہے۔ 6
۲ ۔ ڈیل کارنگی کہتا ہے: آج کے دور میں سیکولوجسٹ بھی ایک طرح سے نئے مذہب کے مبلغ بنچکے ہیں۔ امریکہ میں متوسط طور پہ ہر پانچ منٹ میں ایک آدمی خود کشی کرتا ہے اور ہر دو منٹ میں ایک آدمی پاگل ہوجاتا ہے۔ اگر لوگ اس آرام اور سکون کی طرف جاتے جو مذہب اور مذہبی دعاؤں میں پوشیدہ ہے تو خود کشی اور پاگل پن کے اکثر موارد منتفی ہوجاتے۔ 7
۳ ۔ مہاتما گاندی کا قول ہے: میں نے اپنی زندگی کے عمومی وخصوصی تجربوں میں کافی سختیاں اٹھائی ہیں جو مجھے ناامید کردیتی تھیں اور اگر میں نے ان ناامیدیوں پرکامیابیاورفتح پائی بھی ہے تو فقط دعاؤں اور عبادت کے ذریعہ۔ جوں جوں زمانہ گزرتا گیا میرا خدا پر اعتقاد بڑھتاگیا اور مجھے نماز و دعا کی ضرورت بھیزیادہ محسوس ہوئی اوریہ دعا میرے لئے ایسی شکل اختیار کرگئی کہ اس کے بغیر مجھے اپنی زندگی بے اور بے مقصد محسوس ہونے لگی۔ 8
گاندھی دوسری جگہ پہ کہتا ہے: اگر میں خدا کے وجود کا اپنے اندر احساس نہ کرتا تو ان سختیوں اور مصیبتوں سے پاگلہوجاتا اور میرا انجام یہ ہوتا کہ میں اپنے آپ کو دریائے ""ہگلی"" میں پھینک دیتا۔ 9

کمسنی میں دعا

کمسنی اور بچپنے میں دعااور مناجات بچے کی روح پہ ایک شاندار اثر چھوڑتی ہے۔ ممکن ہے کہ بچہ دعا اور مناجات کے الفاظ اور جملوں کو نہ سمجھے لیکن خدا کی طرف توجہ، خدا سے راز و نیاز، استمداد، اس کی بارگاہ میں محتاج ہونے کے اظہار وغیرہ اس بچپنے کے عالم میں درک کرتا ہے اور سمجھتا ہے اور خدا سے امید لگائے رہتا ہے اور اس کا دل خدا وند کی لا محدود ذات سے مطمئن ہوجاتا ہے۔ اپنے باطن میں ایسے سہارے کا احسساس کرتا ہے جو اس کی تمام زندگی کیلئے سعادت اور نجات کا سرمایہ بنتا ہے اور سخت مواقع اور حوادث پر اسی قدرت پہ تکیہ کرتا ہے اور اسی سے مدد لیتا ہے۔ جو اس کی ذات پہ متکی ہو اور اس سے مطمئن ہو تو نہایت ہی آرام سے زندگی کے جوار بھاٹا میں اپنی شخصیت کی حفاظت کرسکتا ہے۔
اسی بناپر روایات میں آیا ہ کہ بچے کو بچپنے سے ہی نماز سے آشنا کیا جائے۔ پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں: ""اپنے بچوں کو سات سال کی عمر سے نماز کی ترغیب دو"" 10
ایک دانشور کا کہنا ہے: کتنا اچھا ہوگا کہ ہماپنے بچوں کو سکھائیں کہ وہ ہر روز مختصر طور پہ دعا پڑھیں کیونکہ دعا ہر حاجت اور جیاز کے رفع ہونے کیلئے ایک بہترین موقع ہے۔ 11

اعتراضات اور ان کے جوابات

پہلا سوال:
خدا وند متعال نے ہر چیز کو حکمت اور نظم کے مطابق خلق کیا ہے لہٰذا دعا ومناجات کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے؟

جواب:
اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا نے تقدیر کو اپنی حکمت اورعلم کی بنیاد پر خلق کیا ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ تقدیر میں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جو ایک یا کئی شرطوں کے وجود یا عدم پر منحصر ہیں یعنی اگر وہ شرط حاصل ہوجائے تو تقدیر بھی متحقق ہوجائے گی ورنہ نہیں اوردعا بھیان ہی شرائط میںسے ایک ہے۔ دوسسری عبارت میں دعا بھی تقدیر الٰہی کا ایک حصہ ہے مثلاً ایک مریض کی تقدیر یہ ہے کہ اگر اس کا علاج کیا جائے تو وہ صحت یاب ہوسکتا ہے اور اگر علاج نہ کریں تو وہ اس مرض سے مرجائے گا۔

دوسرا سوال:
خدا وند متعال ظاہر وباطن سے باخبر ہے اور انسانوں کی مصلحتوں کے بارے میں علم رکھتا ہے لہٰذا خاموش اور اس کے آگے تسلیم رہنا چاہیےاور دعا کی کوئی ضرورت نہیں؟

جواب:
بے شک خدا وند ہر چیز سے با خبر ہے، ہر چیزچاہے وہ مخفی ہو یا آشکار، ظاہر ہو یا باطن، بلکہ ہمارے افکار سے بھی آگاہ ہے اور جو چیز انسان کیلئے مصلحت رکھتی ہو کو انجام دیتا ہے لیکن ممکن ہے کہ ایک چیز کی مصلحت دعا ہو یعنی اس چیز کی مصلحت دعا سے مشروط ہو۔ جب دعا کرے گا اسے وہ چیز ملے گی۔
میسر بن عبد العزیزامام صادق(ع) سے نقل کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا: اے میسر! خدا سے مناجات کرو اور یہ نہ کہوکہ جو کچھ لوح تقدیر میں ہے اور خدا کی مشیت ہے وہی ہوگا کیونکہ خدا کے پاس ایک مقام اور منزلت ہے کہ جسے دعا اور درخواست کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا اور اگر ایک شخص اپنا منہ بند کرلے اور دعا نہ کرے تو اسے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ پس دعا کرو تا کہ اس کی عطا اور بخشش کے مستحق قرار پاؤ۔ اے میسر! کوئی بھی دروازہ کھٹکھٹایا نہیں جاتا مگریہ کہ بالآخر وہ اس کیلئے کھل جاتا ہے۔ 12

تیسرا سوال:
بعض لوگ دعا کو خدا کی بارگاہ میں جسارت اور گستاخی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں: دعا یعنی خدا کا مذاق کرنا اور یہ ایک شرم آور عمل ہےَ؟ 13

جواب:
ان لوگوں کا جواب یہ ہے کہاگر ایک انسان خدا کی بارگاہ میں خضوع اور خشوع کے ساتھ روتے ہوئے دعا کرے تو کیا یہ گستاخی اور بے ادبی ہے؟ اگر کوئی اپنےآپ کو اس کے سامنے حقیر سمجھ کر خود کو اس کا محتاج سمجھے اور اس سے مدد مانگے، کیا یہ خدا کیلئے کسی غرض کو معین کرتا ہے؟ یا برعکس، ایک فرض شناس آدمی کا کام یہ ہے کہ ایک بے نیاز شخصیت خاص کر رب العالمین سےدرخواست کرے!
اگر بنا بر فرض محال دعا انسان کی بیماری یا افراد اور اجتماعی امور کی اصلاح میں کسی قسم کی تاثیر نہ رکھتی ہو ، کیا پھر بھی اسے خدا وند متعال کی بارگاہ میں وسیلہ اور رابطہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس کے ذریعہ خدا سے ہم صحیح اور مستقیم راستے کیلئے مدد نہیں لے سکتے؟ یعنی اس کے ذریعہ ہم زندگی کے پیچیدہ مراحل کو خدا سے مدد مانگ کر صحیح طرح سے تشخیص دے کر کشف کرسکتے ہیں؟ اور پھر اپنے اہداف کو تکمیل تک پہنچانے اور اس نہائی کمال تک پہنچنے کیلئے نہایت ہی سکون سے قدم اٹھا سکتے ہیں۔ہاں، دعا اور مناجات انسان کی فکر سے مخفی اور پوشیدہ راستوں کو آشکار کرتی ہے اور انسان ہر قسم کے انحراف اور فکر وعمل میں ڈگمگانے سے بچاتی ہے۔

دعا اور مناجات کے انفرادی اور اجتماعی آثار

1۔ خدا کے ساتھ رابطہ
دعا اور مناجات کا ایک اثر یہ ہے کہ انسان کا خدا سے ہر پہلو میں نزدیک رابطہ ہوتا ہے۔ اس مطلب کو سمجھنے کیلئے ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ایک صحرا میں، سمندر کے نزدیک ہی ایک چھوٹا سا حوض ہے، اگر اس کا پانی اسی طرح رہے اور اسے کسی بھی طرح استعمال نہ کیا جائے تو تھوڑی ہی مدت کے بعد کیڑے مکوڑوں کی وجہ سے خراب اور بدبو دارہوجائے گا یا گرمی کی وجہ سے بخار بن کر اڑ جائے گا، ختم ہو جائے گا لیکن اگر اسے سمندر سے ملادیا جائے (یعنی وہ حوض سمندر سے مل جائے اور اپنی ہستی کو ناچیز سمجھے) تو آہستہ آہستہ وہ دریائے بیکران سے مل جائے گا اور جب اس سمندر سے مل کر اس میں فانی ہوجائے گا تو پھر وہ حوض نہیں رہے گا بلکہ اب جو کچھ بھی دریائے بیکران ہے اور وہ اس میں فنا ہوگیا ہے۔ اب اسے کوئی حوض نہیں کہہ سکتا بلکہ وب وہ حوض اس دریائے بیکران کا ایک حصہ ہے اور اب اسے کوئی چیز نجس بھی نہیں کرسکتی بلکہ سمندر کے پانی کی طرح وہ بھی پاک و طاہر ہوگا اور۔۔۔
اسی طرح معنوی امور میں بھی کہ جسے دعا اور مناجات کہہ سکتے ہیں کے ذریعہ انسان اپنے آپ کو خدا کی نامحدود ذات سے متصل کرے تو اس میں بھی اس نامحدود ذات کی صفات جلوہ پیدا کریں گی۔ وہ اس کی ذات با برکت کے کمال و جمال کا مظہر بنے گا اور زمانے کی متلاطم موجیں اسے مضطرب نہیں کرسکتیں۔

2۔ روح روان میں سکون اور چین
دعا اور مناجات کا ایک اور مہم ترین اثر، روحی سکون اور قلبی اطمئنان ہے۔ بے شک آج کا یہ متمدن دور، زندگی کے ہر پہلو میں تعجب انگیز اور قابل ملاحظہ ترقی کر چکا ہے لیکن اس کے باوجود معنوی پہلوؤں میں اس نے نہ صرف ترقی نہیں کی ہے بلکہ برعکس تنزل اور پستی کی راہ کو اختیار کرچکا ہے ۔ آج کا ہر انسان بے چین اور مضطرب ہے، اسے اطمئنان قلب اور سکون ہی نہیں ملتا۔
لہٰذا دعا اور مناجات خدا سے راز و نیاز، روحی علاج اور اضطراب کو دور کرنے کیلئے ہے۔ تسکین روح اور اطمئنان قلب کیلئے ایک بہترین اور مؤثر ترین راستہ ہے۔ راز ونیاز کرنے والا کسی بھی صورت میں اپنے آپ کو تنہا محسوس نہیں کرتا اور شگفت انگیز صبر واستقامت کے ذریعہ غم و اندوہ کو خود سے دور کرتا ہے اور اپنے آپ کو ہر گز پریشان اور ناامید نہیں ہونے دیتا ہے۔
جب مذہب پہ ایمان اس قدر صبر اور استقامت عطا کرتا ہے تو اضطراب اور پریشانی کے وقت ہم کیوں خدا کی طرف رجوع نہیں کرتے؟ ہم کیوں جرمنی کے فلسفی ""کنٹ"" کی فرمائش پہ توجہ نہیں کرتےجس کا کہنا ہے: ""خدا سے توسل کرو کیونکہ تمہیں ایسی چیز کی ضرورت ہے اور اگر تم فطری یا تربیتی اثر کے نتیجے میں ایک دین آدمی ہو تو بھی دعا تمہارے لئے مفید ہے۔ میری دعا کے عملی اثرات سے کیا مراد ہے؟ میری مراد یہ ہے کہ خدا کی طرف جانا اور دعا سیکولوجی کے تین اصولوں کو (کہ جس میں سب چاہے وہ مشرک ہوں دین دار یا خدا شناس؛ اسی کے نیاز مند ہیں) زندہ کرتی ہے۔
الف) دعا اور مناجات ہماری پریشانیوں اور سختیوں میں مدد کرتی ہے۔
ب) مناجات کی صورت میں انسان یہ احساس کرتا ہے کہ تن وتنہا نہیں ہے اور کوئی اس کے غم میں شریک ہے۔
ج) دعا انسان کو سعی وتلاش کیلئے مجبور کرتی ہے اور یہ عمل کی طرف پہلا قدم ہے، میں قبول نہیں کرسکتا کہ کوئی خدا کی بارگاہ میں کسی خاص مقصد کے حصول کیلئے آئے اور اس کی مراد بر نہ آئے۔ دوسری عبارت میں اپنے ہدف کیلئے قدم نہ اٹھائے۔ الکسیس کارل کہتا ہے: مناجات بہت بڑی طاقت ہے جسے انسان اپنے اندر پیدا کرلیتا ہے پس کیوں ہم اس سے فائدہ نہ اٹھائیں؟ (آئین زندگی: ص۱۹۸ڈاکٹر الکسیس کارل کہتا ہے: کچھ ایسی عبادتیں ہیں کہ جو خاص طریقے سے انجام دی جاتی ہیں لیکن دعاجہاں بھی ہو، خدا انسان کے ساتھ صرف اسوقت کلام کرتا ہے جب سکون اور چین اس کے اندرون پر غلبہ حاصل کرلیتا ہے۔ اس سکوت، سکون اور آرام کی پناہ گاہ میں جب کہ اس کی روح فکر خدا کی طرف پرواز کی حالت میں ہے، انسان اپنے اعضٓء و جوارح کو بھی آرام اور سکون دے سکتاہے۔ روح کو سبک اور فکر و تعقل کو خالص اور پرنور بنا دیتا ہے اور اس دشوار زندگی کو جو نئے کلچر کی بنا پر اس کیلئے سنگین ہوگئی ہے ہے اور اسے لاچار وبےکس بنا گئی ہے آسان بنادیتی ہے اور اس کے مقابلے میں اس کوصبر تحمل کی طاقت دیتی ہے۔ 14
دعا اور مناجات اپنی خصوصیات کو خاص علامتوں اور اپنی منحصر نشانیوں کے ذریعہ معین کرتی ہے۔ نگاہ میں صفا وجلوہ، رفتار میں سنجیدگی، خوشی و سرور، مصمم اور پریقین صورت، ہدایت کی صلاحیت، وقائع اور حوادث کااستقبال، ایک سپاہی یا شہید کا سادگی سے موت کے گلے لگ جانا؛ ایسا لگتا ہے کہ دعا انسان کی ایسی تربیت کرتی ہے کہ یہ معاشرہ اور زندگی کا ماحول وغیرہ لباس کی صورت میں اس کے تن پہ تنگ ہوجاتا ہے۔
خدا سے ملاقات ان کے باطن کو صلح اور آشتی سے اس طرح لبریز کردیتی ہے کہ اس کے نور کی کرنیں اس کے چہرے سے نمایاں ہوتی ہیں اور یہ لوگ جہاں بھی جائیں ان خصوصیات کو اپنے ساتھ لیتے ہیں۔ 15

3۔ جنون سے نجات
مناجات کا تیسرا اثر یہ ہے کہ انسان کو جنون اور دیوانے پن سے بچاتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ آج کل کےدور میں ذہنی پریشانیاں،ذہنی دباؤ اور وغیرہ انسان کی روحی اور روانی حالت کو تہس نہس کردیتی ہیں لیکن سیکولوجی کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا بہترین علاج خدا کی طرف رجوع کرنا اور اس کی بارگاہ میں راز ونیاز ہے۔ مشہور سیکولوجسٹ ""ڈیل کارنگی"" کہتا ہے: آج کل ہزاروں افراد جو پاگل خانوں میں زندگی بسر کررہے ہیں اگر انھوں نے اس بالائی طاقت ""خدا"" کی طرف رجوع کر کے اس سے راز ونیاز کیا ہوتااور تن وتنہا اس میدان میں پریشانیوں اور سختیوں کا مقابلہ نہ کرتے تو اس وقت ان کی یہ حالت ہوتی۔ 16

4۔ خود کشی سے نجات
دعا اور مناجات کا ایک فائدہ اور اثر یہ ہے کہ انسان کو خودکشی سے نجات دیتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا رنج وغم، سختیوں اور پریشانیوں نے اس زندگی کے میدان جنگ میں آج تک بہت نقصان پہنچایا ہے اور بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اس دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہے ہیں اور اس کے سامنے مغلوب نہیں ہوئے اوراس سے ہار نہیں مانی۔ دانشوروں نے اس دشمن سے بچنے کیلئے بہت سارے طریقے اور راستے دکھائے ہیں لیکن سب نے دعا کا ایک تعجب انگیز، مضبوط اور قوی تکیہ گاہ اور سہارے کے طور پہ تعارف کروایا ہےاور ان کی نظر میں یہ بہترین راستہ ہے۔ ڈیل کارنگی کہتا ہے: ہم جب اپنے مشکلات اور مصائب کو خدا کے سامنے رکھ سکتے ہیں اور اس کے ذریعہ حل بھی کرواسکتے ہیں تو پھر کیا ضروری ہے کہ ہم اپنی مشکلوں سے ڈریں اور پریشان ہوجائیں۔۔۔ 17

5۔ دعا اور تہذیب اخلاق
دعا اور مناجات کا ایک اور اثر تہذیب اخلاق اور نفس کا تزکیہ ہے۔ دعا انسان کے دل و روح کو پاک اور خالص کرتی ہے اور اسے ناپاکی اور انحراف وگمراہی سے نجات دیتیہے۔ اگر اپنے خاص شرائط کے تحت دعا کی جائے اور خدا سے رابطہ بقرار کیا جائے اوراسی طرح سب اس حیات بخش اور زندگی ساز عمل کی طرف توجہ کریں اور ہمیشہ خدا سے رابطہ قائم رکھ کر دعا کریں اور خدا ہی سے اپنے فرائض اور واجبات کو اخذ کریں تو مدینہ فاضلہ کہ جس کی آرزو سقراط، ارسطو اور دوسرے دانشمند اور دینی رہنما کرتے آئے ہیں وجود میں آئے گا اور اس کے برعکس یعنی خدا سے رابطہ ختم کردینے اور دعا ترک کرنے سے فقط انحراف، گمراہی اور فساد کی دلدل میں پھنس جائے گا اور معاشرے میں پستی، ذلت، بد گمانی، حسد اور بد اخلاقی کی دوسری ہزاروں مشکلات وجود میں آئیں گی۔
واقعاً کیوں زلیخا اس خوبصورت اور جوان یوسف کو اپنے قابو میں لاسکی؟ کیا ہویٰ وہوس اور شہوت نفس فقط زلیخا کے وجود میں تھی اور بس؟ نہیں، حضرت یوسف کے وجود میں بھی دوسروں کی طرح یہ سر کش نفس، جنسی غریزہ اور شہوت تھی لیکن ان کے پاس ایک اور طاقت تھی۔ وہ خدا کی پناہ میں اس سے لو لگائے ہوئے تھے اور دعا مانگ رہے تھے، مناجات کررہے تھے اور اس طرح سے انھوں نے اپنے نفس کو کنٹرول کر رکھا تھا، انھوں نے نفس کی اطاعت نہیں کی لیکن کئی سال جیل میں تنہا رہے اور مصیبتیں برداشت کیں ، اس راستے سے نفس کو اپنے قابو میں لے لیا اور اس پر کامیابی حاصل کر لی۔

6۔ دعا اور فکری تبدیلی
دعا اور مناجات کا اہم اور ضروری اثر یا فائدہ یہ ہے کہ مناجات کرنے والے کی فکر کا اس ازلی و ابدی قدرت اور خالق عقل سے مستقیم رابطہ برقرارہوجاتا ہے۔ یہ دعا ہی ہے کہ جس کے ذریعہ ہم صحیح اور دقیق طور پہفکر کرسکتے ہیں اور ہر قسم کی خطا، غلطی اور شک وتردید سے بچ سکتے ہیں۔اور صحیح کو غلط سے تشخیص دے سکتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں انفرادی اور اجتماعی مشکلات کو حل کرسکتے ہیں۔
ایک عیسائی دانشور ""کلن گلارک"" لکھتا ہے: دعا کے عمل کی سطح فکر سے بھی گہری ہے یعنی دعا کی سطح اتنی گہری ہے کہ وہاں سے ہم سب اپنے باپ ""خدا"" کی آواز کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں اور اس کی طرف رغبت پیدا کرسکتے ہیں۔ 18
اس بنا پر دعا انسان کیلئے فکر کے دروازے کھول کر اس کے دل کو صاحب بصیرت بنا دیتی ہے اور اسے نئی اور تازہ فکر عطا کرتی ہے۔ پھر وہ انسان حوادث، امراض، علمی مشکلات اور ان کے جواب اور راہ حل کو بڑی آسانی اور مفید طریقے سے حاصل کر لیتا ہے اور اصلاً اس کے مقابلے میں لاچار و بیکس نہیں ہوتا۔ اور فکری انحراف و گمراہی سے محفوظ رہتا ہے۔
ڈاکٹر لاباخ کہتے ہیں: جب دعا کرتے ہو تو قلم اور کاغذ ہاتھ میں رکھو، جب خدا تمہارے ذہن میں کوئی فکر ڈال دے تو اسے لکھو اور اپنی نظروں کے سامنے رکھو تا کہ اسے عملی طور پہ انجام دے سکو۔ 19

7۔ دعا اور مصمم ارادہ
دعا کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ دعا کرنے والے کا ارادہ مستحکم، قوی اور مضبوط ہوتا ہے۔ بنیادی طور پہ جب یہ انسان کسی مقام اور کمال کے درجہ کو پانا چاہتا ہے (چاہے وہ ترقی مادی امور میں ہو یا معنوی امور میں) تو اسے قوی ارادے کی ضرورت ہوتی ہے جو روحی ملکہ کا آخری مرتبہ ہے۔ اور روشن ہے کہ اگر کسی کا ارادہ ضعیف ہو یا ختم ہوگیا ہو تو دن بدن پستی کی طرف تنزل کرتا ہے اور فرصت کے قیمتی لمحے اس کے ہاتھ سے نکل چکے ہوتے ہیں لہٰذا جو قوم بھی اجتماعی طور پہ مضبوط ارادوں، سعی وتلاش اور متانت سے محروم ہوچکی ہو اس کی مثال ایک ایسی کشتی کے مانند ہے جو بادبان اور ناخدا کے بغیر ہو اور حوادث روزگار اور مخالف ہوائیں اسے نابود کرنے پہ تلی ہوں۔
ڈاکٹر الکسیس کارل کہتے ہیں: عبادت ایک بڑی طاقت ہے جسے انسان اپنے وجود میں پیدا کرسکتا ہے۔ علم طب میں قوۂ جاذبہ کے مانند میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے کہ جن کا علاج دوا وغیرہ سے نہیں ہوتا ہے، انھیں دعا ، مناجات اور عبادات کے ذریعہ شفا ملی ہے۔ 20

دعا اور کوشش:

بعض لوگ معتقد ہیں کہ دنیا میں برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور منافع حاصل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ انسان فقط خدا کی رحمت سے امید رکھے اور کوئی بھی کام نہ کرے تا کہ خدا وند اس کی مشکلات کو دفع ورفع کرے۔ اس نظریے کو تحریک ""رفورم"" نے وجود میں لایا ہے اور یہ نظریہ کاملاً باطل ہے کیونکہ اگر تمام کام خدا ہی کے سپرد ہوتے اور انسان کا کام یہ ہوتا کہ صرف بیٹھ کر اس سے مانگ کر کھائے تو اس صورت میں اس دنیا اور زندگی کا کوئی ہدف اور مقصد نہ ہوتا اور معاذ اللہ پروردگار بشریت کے ایک آسمانی خادم کی حیثیت تک محدود رہ جاتا۔
خدا نے ہمیں ہوش اور عقل عطا کی تا کہ ہم فکر کرسکیں اور قوست عطا کی تا مختلف کاموں کے ذریعہ ایک نتیجہ تک پہنچ سکیں اور اگر یہ چیزیں نماز اور دعا کے ذریعہ حاصل ہوتیں تو پھر عقل اور فکر کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ نماز اور دعا کوشش کو تکمیل تک پہنچانے کیلئے لازم اور ضروری ہیں یعنی اگر دعا کو کوشش کی جگہ قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ بہت ہی خطرناک ہوگا۔ 21
اس سلسلے میں امام صادق(ع) کی حدیث ہے: خدا وند متعال نے اپنے بندوں کیلئے معین فرمایا ہے
کہ وہ اپنے مقاصد کو اسباب و وسائل کے ذریعہ اس سے مانگیں کہ جنھیں ان کیلئے قرار دیا ہے اور انھیں اس قانون کی پیروی کا حکم دیا ہے۔ 22
دوسری حدیث میں آیا ہے: سنت الٰہی یہ ہے کہ ہر چیز کو اسباب کے ذریعہ جاری کرے، اس بنیاد پر خدا وند عالم نے ہر چیز کیلئے اس دنیا میں ایک سبب قرار دیا ہے اور ہر سبب کیلئے شرح اور حکمت اور ہر شرح اور حکمت کیلئے علم اور ہر علم کیلئے در ناطق معین فرمایا ہے۔ 23
آخر میں بحث کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دعا واجب اور ضروری ہے لیکن عمل اور حرکت بھی انسان کی طرف سے لازم ہے۔

حوالہ جات
1. الکسیس کارل: نیایش.
2. قاموس المحیط، مادہ دعا.
3. کافی: ج۲، ص۲۶۷.
4. عدۃ الداعی: ص۲۴.
5. کافی: ج۲، ص۲۶۷.
6. انسان موجود ناشناختہ: ص۹۳.
7. علل پیشرفت انسان وانحطاط مسلمین: ص۵۳.
8. وہی مدرک: ص۵۴.
9. وہی مدرک.
10. مستدرک الوسائل: ج۱، ص۱۷۱.
11. دعا بزرگترین نیروھای جہان: ص۸۰.
12. کافی: ج۲، ص۴۶۶.
13. الکسیس کارل، نیایش: ص۲۴۵.
14. نیایش:ص۱۲ .
15. نیایش:ص۲۱.
16. آئین زندگی: ص۱۹۶.
17. وہی مدرک: ص۱۹۵.
18. دعا بزرگترین نیروی جہاں: ص۵۴.
19. وہی مدرک:ص۶۲.
20. انسان موجود ناشناختہ:۱۹۷.
21. ندای سیاہ: ص۲۰۰۔۲۰۳.
22. بحار الانوار:ج۲، ص۹۰.
23. مجمع البحرین:مادہ سبب.