امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی منزلت اور شرائط
  • عنوان: امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی منزلت اور شرائط
  • مصنف:
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 12:1:7 14-9-1403

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلامی قوانین میں سے دو اہم قانون اور فروع دین میں سے ہیں ۔قرآن کریم اور معصوم راہنماؤں نے فریضہ کے بارے میں کافی تاکید کی ہے ۔ صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دوسر ے ادیان آسمانی نے بھی اپنے تربیتی احکام کو جاری کرنے کے لئے ان کا سہارا لیا ہے ۔لہٰذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : امر بالمعروف اور نہی عن المنکرانبیاء کی روش اور نیک کردار افراد کا شیوہ اور طریقۂ کار ہے ۔
(وسائل الشیعہ ۱!۳۹۵)

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا معنی

امر یعنی فرمان اور حکم دینا ۔نہی یعنی روکنا اور منع کرنا۔
معروف یعنی پہچانا ہوا، نیک ، اچھا ۔منکر یعنی ناپسند ، ناروا اوربد ۔
اصطلاح میں معروف ہر اسچیز کو کہا جاتا ہے جو اطاعت پروردگار اور اس سے قربت اور لوگوں کے ساتھ نیکی کےعنوان سے پہچانی جائے ۔اور ہر وہ کام جسے شارع مقدس (خدا)نے برا جانا ہے اور اسے حرام قراردیا ہے اسے منکر کہتے ہیں ۔(مجمع البحرین کلمۂمعروف اور منکر )

معروف اور منکر کے وسیع دائرے

معروف اور منکر صرف جزئی امور ہی میں محدود نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ بہت وسیع ہے معروف ہر اچھے اور پسندیدہ کام اور منکر ہر برے اور ناپسند کام کو شامل ہے ۔
دین اور عقل کی نظر میں بہت سے کام معروف اور پسندیدہ ہیں جیسے نماز اور دوسرے فروع دین، سچ بولنا، وعدہ کو وفا کرنا، صبر و استقامت ، فقراء اور ناداروں کی مدد، عفو و گذشت ، امید و رجاء ، راہ خدا میں انفاق ، صلۂ رحم ، والدین کا احترام، سلام کرنا ، حسن خلق اور اچھا برتاؤ، علم کو اہمیت دینا، ہمنوع ، پڑ وسیوں اور دوستوں کے حقوق کی رعایت، حجاب اسلامی کی رعایت ، طہارت و پاکیزگی ، ہر کام میں اعتدال اور میانہ روی اور سیکڑ وں نمونے ۔
اس کے مقابلہ میں بہت سے ایسے امور پائے جاتے ہیں جنہیں دین اور عقل نے منکر اور ناپسند شمار کیا ہے ، جیسے :ترک نماز ، روزہ نہ رکھنا، حسد ، کنجوسی ، جھوٹ ، تکبر ، غرور ، منافقت ، عیب جوئی او ر تجسس، افواہ پھیلانا، چغلخوری ، ہوا پرستی ، برا کہنا، جھگڑ ا کرنا، نا امنی پیدا کرنا، اندھی تقلید ، یتیم کامال کھا جانا، ظلم اور ظالم کی حمایت کرنا، مہنگا بیچنا، سود خوری ، رشوت لینا ، انفرادی اور اجتماعی حقوق کو پامال کرناوغیرہ وغیرہ۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی اہمیت

پروردگار عالم فرماتا ہے :مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے ولی اور مدد گار ہیں کہ ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں ۔(سورہ توبہ ۔!۷۱)
مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام ان دو واجب الٰہی کا دوسرے اسلامی احکام سے مقایسہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :یاد رکھو کہ جملہ اعمال خیر مع جہاد راہ خدا ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلہ میں وہی حیثیت رکھتے ہیں جو گہرے سمندرمیں لعاب دہن کے ذرات کی حیثیت ہوتی ہے ۔(نہج البلاغہ کلمہ !۳۷۴)
رسول خدا (ص) ایک خوبصورت مثال میں معاشرے کو ایک کشتی سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں :اگر کشتی میں سوار افراد میں سے کوئی یہ کہے کہ کشتی میں میرا بھی حق ہے لہٰذا میں اس میں سوراخ کر سکتا ہوں ، اور دوسرے مسافرین ا سکو اس کام سے نہ روکیں تو اس کا یہ کام سارے مسافروں کی ہلاکت کا سبب بنے گا ۔اس لئے کہ کشتی کے غرق ہونے سے سب کے سب غرق اور ہلاک ہوجائیں گے اور اگر دوسرے افراد اس شخص کو اس کام سے روک دیں تو وہ خود بھی نجات پاجائے گا اور دوسرے مسافرین بھی ۔(صحیح بخاری ۲!۸۸۷)
اسلام صرف انسانوں کے متعلقہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا حکم نہیں دیتاہے بلکہ جانوروں کے سلسلہ میں بھی ا سکو اہمیت دی ہے۔ امام جعفر صادق۔ فرماتے ہیں :بنی اسرائیل میں ایک بوڑ ھا عابد نماز میں مشغول تھا کہ اس کی نگاہ دو بچوں پر پڑ ی جو ایک مرغے کے پر کو اکھاڑ رہے تھے عابد ان بچوں کو اس کام سے روکے بغیر اپنی عبادت میں مصروف رہا ، خدا وند عالم نے اسی وقت زمین کو حکم دیا کہ میرے اس بندے کو نگل جا۔(بحار الانوار ۹۷!۸۸)

شرائط امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

علماء اور مراجع کرام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے کچھ شرائط بیان کئے ہیں جن کو خلاصہ کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے :

۱۔معروف اور منکر کی شناخت

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو صحیح طریقہ سے انجام دینے کی سب سے اہم شرط معروف اورمنکر ، ان کے شرائط اور ان کے طریقہ کار کو جاننا ہے ، لہٰذا اگر کوئی شخص معروف اور منکر کو نہ جانتا ہو تو وہ کس طرح ا سکو انجام دینے کی دعوت دے سکتا ہے یا اس سے روک سکتا ہے ؟!!!ایک ڈاکٹر اور طبیب اسی وقت بیمار کا صحیح علاج کر سکتا ہے جب وہ درد ، ا سکی نوعیت اور اس کے اسباب و عوامل سے آگاہ ہو ۔

۲۔تاثیر کا احتمال اور امکان

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی دوسری شرط امر و نہی کی تاثیر کا احتمال اور امکان پایا جاتا ہو ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرایک بیکار اور بے مقصد کام نہیں ہے بلکہ ایک عمل ہے حساب و کتاب اور خاص قوانین و شرائط کے ساتھ ۔ اس فریضہ کی اہمیت اس حد تک ہے کہ خدا وند عالم نے تاثیر نہ رکھنے کے قوی گمان کے باوجود بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکو واجب قرار دیا ہے ۔اسی بنا پر مراجع تقلید فرماتے ہیں : یہاں تک کہ اگر ہم بہت زیادہ احتمال دیں کہ فلاں مقام پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا اثر نہ ہو گا اس کا وجوب انسان کی گردن سے ساقط نہیں ہو گا ۔لہٰذا اگر گمان رکھتے ہوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا اثر انداز ہو گا تو ایسی صورت میں اس پر عمل کرنا واجب ہے ۔

۳۔ ضر ر اور نقصان کا خطرہ نہ ہو

امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی تیسری شر ط یہ ہے کہ امر و نہی کرنے کی وجہ سے ضر ر اور نقصان کا خطرہ نہ ہو ۔اس فریضہ الٰہی کے بہت اہم اور قیمتی نتائج سامنے آتے ہیں ۔لہٰذا اگر یہ کام صحیح اور اچھے طریقہ سے انجام نہ پائے پائے یا نقصان دہ ہو جائے ایسی صورت میں ایک امر الٰہی نہیں ہو سکتا اس لئے کہ اپنے ہدف اور مقصد سے مناسبت نہیں رکھتا