محتاجوں کی مدد انسانی عمل اور شرعی حکم ہے اور بزرگان دین نے بھی رسول اللہ (ص) اور آل رسول اللہ (ص) کی سنت پر چل کر اس امر کی طرف خصوصی توجہ دی ہے اور معصومین کے اقوال میں بھی محتاجوں کی مدد کرنے پر تاکید ہوئی ہے اور اس عمل کا ثواب بیان کیا گیا ہے۔
امام حسن عسکری (ع) اور شیعیان آل محمد (ص) کی حاجت برآریاصول کافی میں "مؤمن کی حاجت برآری" کے باب میں منقول ہے:
"مفضل کہتے ہیں: امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: اے مفضل جو تم سے کہتا ہوں سن لو اور جان لو کہ حق ہے اور اس پر عمل کرو اور اپنے بزرگوار برادران کو بھی بتاؤ۔
میں نے عرض کیا: مولا! میرے بزرگوار برادران کون ہیں؟
فرمایا: وہ افراد جو اپنے بھائیوں کے حوائج پورے کرنے میں رغبت رکھتے ہیں۔
اور پھر فرمایا: جو شخص اپنے مؤمن بھائی کی ایک حاجت پوری کرے، خداوند متعال روز قیامت اس کی ایک لاکھ حاجتیں پوری کرے گا جن میں سب سے پہلی حاجت جنت ہے اور دوسری یہ کہ وہ اپنے اقرباء، دوستوں اور بھائیوں کو بھی جنت لے کر جاسکے گا چاہے وہ ناصبی اور اہل بیت (ع) کے دشمن ہی کیوں نہ ہوں۔
اس روایت کے مطابق، مفضل بن عمر کی رسم کچھ یوں تھی کہ جب اپنے کسی بھائی سے حاجت مانگتے، تو اس سے کہتے کہ "کیا تم میرے بزرگوار برادران کے زمرے میں شمار نہیں ہونا چاہے ہو؟"،
مفضل بن عمر کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: بے شک خداوند متعال نے اپنی مخلوقات میں ایک گروہ پیدا کیا ہے اور انہیں ہمارے فقیر شیعوں کی حاجت برآری کے لئے منتخب کیا ہے تا کہ (خدا) اس کے بدلے انہیں جنت عطا فرمائے پس اگر ہو سکو تو ان ہی میں سے ہوجاؤ ...
اور فرمایا: مؤمن کی حاجت پوری کرنا ایک ہزار غلام آزاد کرنے، جہاد کے لئے ایک ہزار گھوڑے لاد کر روانہ کرنے سے بہتر ہے۔ ایک مؤمن کی حاجت پوری کرنا ایسے 20 حجوں سے بہتر ہے جن میں ایک لاکھ (دینار یا درہم) خرچ اٹھایا جائے۔ (1)
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو بھی اپنے مؤمن بھائی کی حاجت پوری کرنے کی غرض سے ایک قدم اٹھائے اور اس کا مقصود ثواب الہی ہو خداوند متعال اس کے لئے ایک حج قبول اور عمرۂ عمرہ اور دو حرام مہینوں کا روزہ ـ مسجد الحرام میں اعتکاف کے ساتھ ـ لکھ دیتا ہے۔ اور جو شخص کسی مؤمن کی حاجت پوری کرنے کے لئے قدم اٹھائے لیکن حاجت پوری نہ ہو تو خداوند متعال اس کے لئے ایک حج قبول کا ثواب لکھت ہے؛ چنانچہ کارخیر کی طرف رغبت برتو۔ (2)
کلام امام عسکری عليہ السلام:
ابو ہاشم کہتے ہیں: میں نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ "جننت میں ایک دروازہ ہے جس کو "باب المعروف" کہا جاتا ہے اور احسان اور نیکی کرنے والوں کے سوا کوئی اور اس دروازے سے داخل نہیں ہوسکتا" میں نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا اس لئے کہ، میں لوگوں کی حاجتیں پوری کرنے کے لئے مشقتیں اٹھاتا ہوں، خوش ہوا۔
امام علیہ السلام مر ی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ہاں! میں تمہارے حالات سے آگاہ ہوں، اور جو لوگ اس دنیا میں نیکی، احسان اور معروف والے ہیں وہ آخرت میں بھی محسنین میں سے ہوں گے۔
اے ابا ہاشم! اب جان لو کہ اللہ تعالی نے تمہیں ان ہی کے زمرے میں قرار دیا ہے اور اپنی رحمت تم پر نچھاور کردی ہے۔ (3)
امام حسن عسکری علیہ السلام کا عمل
حسین بن ظریف (اور بعض نسخوں کے مطابق حسن بن ظریف) نے روایت کی ہے کہ "میرے سینے میں دو سوالات اٹھے اور میں نے ان دو مسئلوں کا جواب پانے کے لئے امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں خط لکھنے کا ارادہ کیا اور خط میں ان میں سے ایک مسئلہ تحریر کیا: "امام قائم (عج) جب قیام کریں گے تو فیصلے کیسے کریں گے اور احکام کیسے صادر فرمائیں گے؟ اور کہاں صادر فرمائیں گے؟ اور دوسرا مسئلہ تپ نوبہ یا میعادی بخار کے بارے میں تھا جو (جو ایک روز بعد آتا ہے) اور اس کی دوا کے بارے میں پوچھنے کا ارادہ تھا جو میں خط لکھتے ہوئے بھول گیا اور بخار کا نام نہیں لکھ سکا۔
میرے خط کا جواب آیا اور میں نے کھولا تو دیکھا کہ امام علیہ السلام نے تحریر فرمایا تھا: تم نے امام کے قیام کے بارے میں پوچھا ہے، تو جان لو کہ کہ وہ جب قیام کریں اپنے علم کی بنیاد پر لوگوں کے درمیان فیصلے کریں گے حضرت داؤد (ع) کے فیصلوں کی طرح جن کے لئے آپ (ع) گواہ طلب نہيں کریں گے۔ اور تم بخار کے بارے میں پوچھنا چاہتے تھے لیکن بھول گئے؛ اس کے علاج کے لئے اس آیت شریفہ کو کاغذ پر لکھو اور بخار میں مبتلا شخص کے پاس رکھو: "يا نارُ كُونِي بَرْداً وَ سَلاماً عَلى إِبْراهِيمَ" چنانچہ میں نے وہ آیت لکھ کر بیمار کے پاس رکھ اور بیمار صحت مند ہوگیا۔ (4)
ابوہاشم جعفری ہی کہتے ہیں: میں غربت اور تنگدستی سے تنگ آگیا تھا چنانچہ میں نے امام حسن عسکری علیہ السلام سے شکایت کی چنانچہ امام علیہ السلام نے تازیانے سے زمین پر ایک لکیر کھینچی اور لکیر زمین سے سونے ایک اینٹ نکال دی جو 500 اشرفیوں کے برابر تھی اور امام (ع) نے وہ اینٹ مجھے عطا کرتے ہوئے فرمایا: اے اباہاشم! یہ لے لو اور ہمیں معذور رکھو۔ (5)
علی بن زید بن علی بن الحسین کہتے ہیں: میرے پاس ایک گھوڑا تھا جس کو میں بہت چاہتا تھا اور ہر محفل میں اس گھوڑے کے بارے میں بات کیا کرتا تھا۔ ایک روز اسی گھوڑے پر سوار ہوکر امام حسن عسکری علیہ السلام کے دولتکدے پر پہنچا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: تمہارا گھوڑا کہاں ہے؟
میں نے عرض کیا: گھوڑا میرے پاس ہے اور اسی وقت اسی گھوڑے سے اتر کر آپ کی خدمت میں آیا ہوں۔
فرمایا: اگر ہوسکے تو اس گھوڑے کے رات ہونے سے پہلے کسی ایسے شخص کے کے گھوڑے سے تبدیل کرو جو تمہارے گھوڑے کو خریدنا چاہتا ہے۔ اسی حال میں ایک شخص امام (ع) پر وارد ہوا اور آپ (ع) کو کلام کو قطع کردیا۔
میں سراسیمگی اور فکرمندی کی حالت میں گھر چلا گیا اور ماجرا اپنے بھائی کو سنایا۔
بھائی نے کہا: میں نہیں جانتا کہ امام (ع) کا مقصد کیا تھا۔
میں نے بہت سوچا لیکن گھوڑے کو تبدیل کرنا یا بیچنا میرے لئے دشوار تھا چنانچہ مغرب کی نماز کا وقت ہوا اور میں نے نماز ادا کی اور نماز عشاء بھی ادا کی تو مہتر نے آکر بتایا کہ گھوڑا مر گیا اور تب ہی میں، امام علیہ السلام کی بات کا مطلب سمجھا۔
کچھ دن کے بعد میں امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ دل ہی دل میں کہہ رہا تھا کہ "کاش امام (ع) مجھے اس چوپائے کی جگہ کوئی سواری عطا فرمائیں"۔
میں ابھی بیٹھا ہی تھا اور کچھ کہا ہی نہیں تھا کہ امام علیہ السلام نے فرمایا: "ہاں! میں اس کا متبادل تمہیں دے دوں گا"، اور پھر اپنے غلام کو حکم دیا: "جاؤ وہ میرے لال رنگ کا ٹٹو لا کر انہیں دے دو" اور مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "یہ تمہارے گھوڑے بہتر ہے، اس کی پشت ہموار اور عمر طولانی ہے"۔ (6)
حوالہ جات:
1. اصول کافی- ترجمہ مصطفوی، ج3، ص 277 تا ص 278، ناشر اسلامیہ
2. اصول کافی ، ص 280 و 279۔
3. کافی: ج 2 ص 469 کتاب الدعاء.
4. ارشاد- ترجمہ رسولی محلاتی، ج2، ص 307، ناشر اسلامیہ۔
5. ارشاد ، ص 315۔
6. ارشاد ، ص 319 و 318۔