امام حسن عسکری علیہ السلام
  • عنوان: امام حسن عسکری علیہ السلام
  • مصنف:
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 20:55:36 13-9-1403

حالات زندگی

امام حسن عسکری کی ولادت اور بچپن کے بعض حالات علماء فریقین کی اکثریت کااتفاق ہے کہ آپ بتاریخ ۱۰/ ربیع الثانی ۲۳۲ ہجری یوم جمعہ بوقت صبح بطن جناب حدیثہ خاتون سے بمقام مدینہ منورہ متولدہوئے ہیں ملاحظہ ہوشواہدالنبوت ص ۲۱۰ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ، نورالابصارص ۱۱۰ ، جلاء العیون ص ۲۹۵ ، ارشادمفید ص ۵۰۲ ، دمعہ ساکبہ ص ۱۶۳ ۔
آپ کی ولادت کے بعد حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے حضرت محمدمصطفی (ص) کے رکھے ہوئے ”نام حسن بن علی“ سے موسوم کیا (ینابع المودة)۔


آپ کی کنیت اور آپ کے القاب

آپ کی کنیت ”ابومحمد“ تھی اورآپ کے القاب بے شمارتھے جن میں عسکری، ہادی، زکی خالص، سراج اورابن الرضا زیادہ مشہورہیں (نورالابصار ص ۱۵۰ ،شواہدالنبوت ص ۲۱۰ ،دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۲۲ ،مناقب ابن شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۲۵) ۔
آپ کالقب عسکری اس لئے زیادہ مشہور ہوا کہ آپ جس محلہ میں بمقام ”سرمن رائے“ رہتے تھے اسے عسکرکہاجاتاتھا اوربظاہراس کی وجہ یہ تھی کہ جب خلیفہ معتصم باللہ نے اس مقام پرلشکرجمع کیاتھا اورخو دب ھی قیام پذیرتھاتواسے ”عسکر“ کہنے لگے تھے، اورخلیفہ متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کومدینہ سے بلواکریہیں مقیم رہنے پرمجبورکیاتھا نیزیہ بھی تھا کہ ایک مرتبہ خلیفہ وقت نے امام زمانہ کواسی مقام پرنوے ہزار لشکر کامعائنہ کرایاتھا اورآپ نے اپنی دوانگلیوں کے درمیان سے اسے اپنے خدائی لشکر کا مطالعہ کرادیاتھا انہیں وجوہ کی بناپراس مقام کانام عسکر ہوگیاتھا جہاں امام علی نقی اورامام حسن عسکری علیہماالسلام مدتوں مقیم رہ کرعسکری مشہورہوگئے (بحارالانوارجلد ۱۲ ص ۱۵۴ ،وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۱۳۵ ،مجمع البحرین ص ۳۲۲ ،دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۶۳ ، تذکرة ا لمعصومین ص ۲۲۲) ۔


آپ کا عہد حیات اور بادشاہان وقت

آپ کی ولادت ۲۳۲ ہجر ی میں اس وقت ہوئی جبکہ واثق باللہ بن معتصم بادشاہ وقت تھا جو ۲۲۷ ہجری میں خلیفہ بناتھا (تاریخ ابوالفداء) پھر ۲۳۳ ہجری میں متوکل خلیفہ ہوا(تاریخ ابن الوردی) جوحضرت علی اوران کی اولادسے سخت بغض وعنادرکھتاتھا، اوران کی منقصت کیاکرتا تھا (حیواة الحیوان وتاریخ کامل) اسی نے ۲۳۶ ہجری میں امام حسین کی زیارت جرم قراردی اوران کے مزارکوختم کرنے کی سعی کی (تاریخ کامل) اوراسی نے امام علی نقی علیہ السلام کوجبرامدینہ سے رمن رائے میں طلب کرالیا، (صواعق محرقہ) اورآپ کوگرفتارکراکے آپ کے مکان کی تلاشی کرائی (وفیات الاعیان) پھر ۲۴۷ ہجری میں مستنصربن متوکل خلیفہ وقت ہوا۔(تاریخ ابوالفداء)پھر ۲۴۸ ہجری میں مستعین خلیفہ بنا(ابوالفداء) پھر ۲۵۲ ہجری میں معتزباللہ خلیفہ ہوا(ابوالفداء) اسی زمانے میں امام علیہ السلام کو زہرسے شہیدکردیاگیا (نورالابصار) پھر ۲۵۵ ہجری میں مہدی باللہ خلیفہ بنا(تاریخ ابن الوردی) پھر ۲۵۶ ہجری میں معتمدعلی اللہ خلیفہ ہوا(تاریخ ابوالفداء) اسی زمانہ میں ۲۶۰ ہجری میں امام علیہ السلام زہرسے شہیدہوئے (تاریخ کامل) ان تمام خلفاء نے آپ کے ساتھ وہی برتاؤکیا جوآل محمدکے ساتھ برتاؤکئے جانے کادستورچلاآرہاتھا۔


چارماہ کی عمر اور منصب امامت

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی عمرجب چارماہ کے قریب ہوئی توآپ کے والدامام علی نقی علیہ السلام نے اپنے بعدکے لیے منصب امامت کی وصیت کی اور فرمایا کہ میرے بعدیہی میرے جانشین ہوں گے اوراس پربہت سے لوگوں کوگواہ کردیا(ارشادمفید ۵۰۲ ، دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۶۳ بحوالہ اصول کافی)۔
علامہ ابن حجرمکی کاکہناہے کہ امام حسن عسکری، امام علی نقی کی اولادمیں سب سے زیادہ اجل وارفع اعلی وافضل تھے۔


چارسال کی عمرمیں آپ کاسفر

عراق متوکل عباسی جوآل محمدکاہمیشہ سے دشمن تھا اس نے امام حسن عسکری کے والدبزرگوارامام علی نقی علیہ السلام کوجبرا ۲۳۶ ہجری میں مدینہ سے ”سرمن رائے“ بلالیا آپ ہی کے ہمراہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کوبھی جاناپڑااس وقت آپ کی عمرچارسال چندماہ کی تھی(دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۶۲) ۔


یوسف آل محمدکنوئیں میں

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نہ جانے کس طرح اپنے گھرکے کنوئیں میں گرگئے، آپ کے گرنے سے عورتوں میں کہرام عظیم برپاہوگیا سب چیخنے اورچلانے لگیں ، مگرامام علی نقی علیہ السلام جومحونمازتھے، مطلق متاثرنہ ہوئے اوراطمینان سے نمازکااختتام کیا، اس کے بعدآ پ نے فرمایا کہ گھبراؤنہیں حجت خداکوکوئی گزندنہ پہنچے گی، اسی دوران میںدیکھاکہ پانی بلندہورہاہے اورامام حسن عسکری پانی میں کھیل رہے ہیں(معہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۷۹) ۔


امام حسن عسکری اور کمسنی میں

عروج فکر آل محمدجوتدبرقرآنی اورعروج فکرمیں خاص مقام رکھتے ہیں ان میں سے ایک بلند مقام بزرگ حضرت امام حسن عسکری ہیں، علماء فریقین نے لکھاہے کہ ایک دن آپ ایک ایسی جگہ کھڑے رہے جس جگہ کچھ بچے کھیل میں مصروف تھے اتفاقا ادھرسے عارف آل محمدجناب بہلول داناگزرے، انہوں نے یہ دیکھ کرکہ سب بچے کھیل رہے ہیں اورایک خوبصورت سرخ وسفیدبچہ کھڑارورہاہے ادھرمتوجہ ہوئے اورکہاکہ اے نونہال مجھے بڑاافسوس ہے کہ تم اس لیے رورہے رہو کہ تمہارے پاس وہ کھلونے نہیں ہیں جوان بچوں کے پاس ہیں سنو! میں ابھی ابھی تمہارے لیے کھلونے لے کرآتاہوں یہ کہناتھا کہ اس کمسنی کے باوجودبولے، انانہ سمجھ ہم کھیلنے کے لیے نہیں پیداکئے گئے ہم علم وعبادت کے لیے پیداکئے گئے ہیں انہوں نے پوچھاکہ تمہیں یہ کیونکرمعلوم ہواکہ غرض خلقت علم وعبادت ہے، آپ نے فرمایاکہ اس کی طرف قرآن مجید رہبری کرتاہے،کیاتم نے نہیں پڑھاکہ خدافرماتاہے ”افحسبتم انماخلقناکم عبثا“ الخ(پ ۱۸ رکوع ۶) ۔

کیاتم نے یہ سمجھ لیاہے کہ ہم نے تم کوعبث (کھیل وکود) کے لیے پیداکیاہے؟ اورکیاتم ہماری طرف پلٹ کرنہ آؤگے یہ سن کربہلول حیران رہ گئے، اورکہنے پرمجبورہوگئے کہ اے فرزندتمہیں کیاہوگیاتھا کہ تم رورہے تھے گناہ کاتصورتوہونہیں سکتا کیونکہ تم بہت کم سن ہو، آپ نے فرمایاکہ کمسنی سے کیاہوتاہے میں نے اپنی والدہ کودیکھاہے کہ بڑی لکڑیوں کوجلانے کے لیے چھوٹی لکڑیاں استعمال کرتی ہیں میں ڈرتاہوں کہ کہیں جہنم کے بڑے ایندھن کے لیے ہم چھوٹے اورکمسن لوگ استعمال نہ کئے جائیں (صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ، نورالابصار ص ۱۵۰ ،تذکرة المعصومین ص ۲۳۰) ۔


امام حسن عسکری علیہ السلام کے ساتھ بادشاہان وقت کاسلوک اور طرز عمل

جس طرح آپ کے آباؤ اجداد کے وجودکوان کے عہدکے بادشاہ اپنی سلطنت اورحکمرانی کی راہ میں روڑاسمجھتے رہے ان کایہ خیال رہاکہ دنیاکے قلوب ان کی طرف مائل ہیں کیونکہ یہ فرندرسول اوراعمال صالح کے تاجدارہیں لہذا ان کوانظارعامہ سے دوررکھاجائے ورنہ امکان قوی ہے کہ لوگ انہیں اپنا بادشاہ وقت تسلیم کرلیں گے اس کے علاوہ یہ بغض وحسدبھی تھا کہ ان کی عزت بادشاہ وقت کے مقابلہ میں زیادہ کی جاتی ہے اوریہ کہ امام مہدی انہیں کی نسل سے ہوں گے جوسلطنتوں کا انقلاب لائیں گے انہیں تصورات نے جس طرح آپ کے بزرگوں کو چین نہ لینے دیا اورہمیشہ مصائب کی آماجگاہ بنائے رکھااسی طرح آپ کے عہد کے بادشاہوں نے بھی آپ کے ساتھ کیا عہدواثق میں آپ کی ولادت ہوئی اورعہدمتوکل کے کچھ ایام میں بچپناگزرا،متوکل جوآل محمدکا جانی دشمن تھا اس نے صرف اس جرم میں کہ آل محمدکی تعریف کی ہے ابن سکیت شاعرکی زبان گدی سے کھنچوالی (ابوالفداء جلد ۲ ص ۱۴) ۔
اس نے سب سے پہلے توآپ پریہ ظلم کیاکہ چارسال کی عمرمیں ترک وطن کرنے پرمجبورکیا یعنی امام علی نقی علیہ السلام کوجبرا مدینہ سے سامرہ بلوالیا جن کے ہمراہ امام حسن عسکری علیہ السلام کولازماجاناتھا پھروہاں آپ کے گھرکی لوگوں کے کہنے سننے سے تلاشی کرائی اوراپ کے والدماجدکو جانوروں سے پھڑوا ڈالنے کی کوشش کی ، غرضکہ جوجوسعی آل محمدکوستانے کی ممکن تھی وہ سب اس نے اپنے عہدحیات میں کرڈالی اس کے بعداس کابیٹا مستنصرخلیفہ ہوا یہ بھی اپنے پاپ کے نقش قدم پرچل کرآل محمدکوستانے کی سنت اداکرتارہا اوراس کی مسلسل کوشش یہی رہی کہ ان لوگوں کوسکون نصیب نہ ہونے پائے اس کے بعدمستعین کاجب عہدآیاتواس نے آپ کے والدماجدکوقیدخانہ میں رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی سعی پیہم کی کہ کسی صورت سے امام حسن عسکری کوقتل کرادے اوراس کے لیے اس نے مختلف راستے تلاش کیے۔
ملاجامی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ اس نے اپنے شوق کے مطابق ایک نہایت زبردست گھوڑاخریدا، لیکن اتفاق سے وہ کچھ اس درجہ سرکش نکلاکہ اس نے بڑے بڑے لوگوں کوسواری نہ دی اورجواس کے قریب گیا اس کوزمین پردے مارکرٹاپوں سے کچل ڈالا،ایک دن خلیفہ مستعین باللہ کے ایک دوست نے رائے دی کہ امام حسن عسکری کوبلاکرحکم دیاجائے کہ وہ اس پرسواری کریں، اگروہ اس پرکامیاب ہوگئے توگھوڑارام ہوجائے گا اوراگرکامیاب نہ ہوئے اورکچل ڈالے گئے تو تیرامقصدحل ہوجائے گا چنانچہ اس نے ایساہی کیا لیکن اللہ رے شان امامت جب آپ اس کے قریب پہنچے تووہ اس طرح بھیگی بلی بن گیاکہ جیسے کچھ جانتاہی نہیں بادشاہ یہ دیکھ کرحیران رہ گیا اوراس کے پاس اس کے سواکوئی اورچارہ نہ تھا کہ گھوڑاحضرت ہی کے حوالے کردے (شواہدالنبوت ص ۲۱۰) ۔
پھرمستعین کے بعدجب معتزباللہ خلیفہ ہواتواس نے بھی آل محمدکوستانے کی سنت جاری رکھی اوراس کی کوشش کرتارہا کہ عہدحاضرکے امام زمانہ اورفرزندرسول امام علی نقی علیہ السلام کودرجہ شہادت پرفائزکردے چنانچہ ایساہی ہوا اوراس نے ۲۵۴ ہجری میں آپ کے والدبزرگوارکوزہرسے شہیدکرادیا، یہ ایک ایسی مصیبت تھی کہ جس نے امام حسن عسکری علیہ السلام کوبے انتہامایوس کردیا امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت کے بعدامام حسن عسکری علیہ السلام خطرات میں محصور ہوگئے کیونکہ حکومت کارخ اب آپ ہی کی طرف رہ گیا آپ کوکھٹکالگاہی تھا کہ حکومت کی طرف سے عمل درآمدشروع ہوگیا معتزنے ایک شقی ازلی اورناصب ابدی ابن یارش کی حراست اورنظربندی میں امام حسن عسکری کودیدیا اس نے آپ کوستانے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا لیکن آخرمیں وہ آپ کامعتقدبن گیا،آپ کی عبادت گزاری اورروزہ داری نے اس پرایساگہرااثرکیا کہ اس نے آپ کی خدمت میں حاضرہوکرمعافی مانگ لی اورآپ کودولت سراتک پہنچادیا۔
علی بن محمد زیاد کابیان ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے مجھے ایک خط تحریرفرمایاجس میں لکھاتھا کہ تم خانہ نشین ہوجاؤ کیونکہ ایک بہت بڑافتنہ اٹھنے والاہے غرضکہ تھوڑے دنوں کے بعد ایک عظیم ہنگامہ برپاہوااورحجاج بن سفیان نے معتزکوقتل کردیا(کشف الغمہ ص ۱۲۷) ۔
پھرجب مہدی باللہ کاعہدآیا تواس نے بھی بدستوراپناعمل جاری رکھا اورحضرت کوستانے میں ہرقسم کی کوشش کرتارہا ایک دن اس نے صالح بن وصیف نامی ناصبی کے حوالہ آپ کوکردیااورحکم دیا کہ ہرممکن طریقہ سے آپ کوستائے، صالح کے مکان کے قریب ایک بدترین حجرہ تھا جس میں آپ قیدکئے گئے صالح بدبخت نے جہاں اورطریقہ سے ستایا ایک طریقہ یہ بھی تھاکہ آپ کوکھانا اورپانی سے بھی حیران اورتنگ رکھتاتھا آخرایساہوتارہاکہ آپ تیمم سے نمازادا فرماتے رہے ایک دن اس کی بیوی نے کہاکہ اے دشمن خدایہ فرزندرسول ہیں ان کے ساتھ رحم کابرتاؤ کر، اس نے کوئی توجہ نہ کی ایک دن کاذکرہے کہ بنی عباسیہ کے ایک گروہ نے صالح سے جاکردرخواست کی کہ حسن عسکری پرزیادہ ظلم کیاجاناچاہئے اس نے جواب دیاکہ میں نے ان کے اوپردوایسے شخصوں کومسلط کردیاہے جن کاظلم وتشدد میں جواب نہیں ہے، لیکن میں کیاکروں، کہ ان کے تقوی اوران کی عبادت گذاری سے وہ اس درجہ متاثرہوگئے ہیں کہ جس کی کوئی حدنہیں، میں نے ان سے جواب طلبی کی توانہوں نے قلبی مجبوری ظاہرکی یہ سن کروہ لوگ مایوس واپس گئے (تذکرة المعصومین ص ۲۲۳) ۔
غرضکہ مہدی کاظلم وتشددزوروں پرتھا اوریہی نہیں کہ وہ امام علیہ السلام پرسختی کرتاتھا بلکہ یہ کہ وہ ان کے ماننے والوں کوبرابرقتل کررہاتھا ایک دن آپ کے ایک صحابی احمدبن محمدنے ایک عریضہ کے ذریعہ سے اس کے ظلم کی شکایت کی، توآپ نے تحریرفرمایاکہ گھبراؤنہیں کہ مہدی کی عمراب صرف پانچ یوم باقی رہ گئی ہے چنانچہ چھٹے دن اسے کمال ذلت وخواری کے ساتھ قتل کردیاگیا(کشف الغمہ ص ۱۲۶) ۔اسی کے عہدمیں جب آپ قیدخانہ میں پہنچے توعیسی بن فتح سے فرمایاکہ تمہاری عمراس وقت ۶۵ سال ایک ماہ دویوم کی ہے اس نے نوٹ بک نکال کراس کی تصدیق کی پھرآپ نے فرمایا کہ خداتمہیں اولادنرینہ عطاکرے گا وہ خوش ہوکرکہنے لگا مولا!کیاآپ کوخدافرزندنہ دے گا آپ نے فرمایاکہ خداکی قسم عنقریب مجھے مالک ایسافرزندعطاکرے گا جوساری کائنات پرحکومت کرے گا اوردنیاکو عدل وانصاف سے بھردے گا (نورالابصارص ۱۰۱) پھرجب اس کے بعدمعتمدخلیفہ ہواتواس نے امام علیہ السلام پرظلم وتشدد واستبدادکا خاتمہ کردیا۔


امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت اور امام حسن عسکری کا آغاز امامت

حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے فرزندامام حسن عسکری علیہ السلام کی شادی جناب نرجس خاتون سے کردی جوقیصرروم کی پوتی اورشمعون وصی عیسی کی نسل سے تھیں (جلاء العیون ص ۲۹۸) ۔
اس کے بعدآپ ۳/ رجب ۲۵۴ ہجری کودرجہ شہادت پرفائزہوئے۔
آپ کی شہادت کے بعدحضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی امامت کاآغازہوا آپ کے تمام معتقدین نے آپ کومبارک باددی اورآپ سے ہرقسم کااستفادہ شروع کردیا آپ کی خدمت میں آمدورفت اورسوالات وجوابات کاسلسلہ جاری ہوگیا آپ نے جوابات میں ایسے حیرت انگیزمعلومات کاانکشاف فرمایاکہ لوگ دنگ رہ گئے آپ نے علم غیب اورعلم بالموت تک کاثبوت پیش فرمایا اوراس کی بھی وضاحت کی کہ فلاں شخص کواتنے دنوں میں موت آجائے گی۔
علامہ ملاجامی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے والدسمیت حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی راہ میں بیٹھ کریہ سوال کرناچاہاکہ باپ کوپانچ سو درہم اوربیٹے کو تین سوردرہم اگرامام دیدیں توتوسارے کام ہوجائیں، یہاں تک امام علیہ السلام اس راستے پرآپہنچے ،اتفاقا یہ دونوں امام کوپہچانتے نہ تھے امام خودان کے قریب گئے اوران سے کہاکہ تمہیں آٹھ سودرہم کی ضرورت ہے آؤتمہیں دیدوں دونوں ہمراہ ہولیے اوررقم معہودحاصل کرلی اسی طرح ایک اورشخص قیدخانہ میں تھا اس نے قیدکی پریشانی کی شکایت امام علیہ السلام کولکھ کربھیجی اورتنگ دستی کا ذکرشرم کی وجہ سے نہ کیا آپ نے تحریرفرمایاکہ تم آج ہی قید سے رہاہوجاؤگے اورتم نے جوشرم سے تنگدستی کاتذکرہ نہیں کیا اس کے متعلق معلوم کروکہ میں اپنے مقام پرپہنچتے ہی سودیناربھیج دوں گا۔
چنانچہ ایساہی ہوا اسی طرح ایک شخص نے آپ سے اپنی تندستی کاکی شکایت کی آپ نے زمین کریدکرایک اشرفی کی تھیلی نکالی اوراس کے حوالہ کردی اس میں سودینارتھے۔
اسی طرح ایک شخص نے آپ کوتحریرکیاکہ مشکوة کے معنی کیاہیں؟ نیزیہ کہ میری بیوی حاملہ ہے اس سے جوفرزندپیداہوگا اس کانام رکھ دیجیے آپ نے جواب میں تحریرفرمایاکہ مشکوة سے مراد قلب محمدمصطفی صلعم ہے اورآخرمیں لکھ دیا ”اعظم اللہ اجرک واخلف علیک“ خداتمہیں جزائے خیردے اورنعم البدل عطاکرے چنانچہ ایساہی ہوا کہ اس کے یہاں مردہ بیٹاپیداہوا۔
اس کے بعداس کی بیوی حاملہ ہوئی ، فرزندنرینہ متولدہوا، ملاحظہ ہو(شواہدالنبوت ص ۲۱۱) ۔
علامہ ارلی لکھتے ہیں کہ حسن ابن ظریف نامی ایک شخص نے حضرت سے لکھ کردریافت کیاکہ قائم آل محمدپوشیدہ ہونے کے بعدکب ظہورکریں گے آپ نے تحریرفرمایا جب خداکی مصلحت ہوگی اس کے بعدلکھا کہ تم تپ ربع کاسوال کرنابھول گئے جسے تم مجھ سے پوچھناچاہتے تھے ، تودیکھوایساکروکہ جواس میں مبتلاہواس کے گلے میں ایة ”یانارکونی برداولاما علی ابراہیم“ لکھ کرلٹکادوشفایاب ہوجائے گاعلی بن زیدابن حسین کاکہناہے کہ میں ایک گھوڑاپرسوارہوکرحضرت کی خدمت میں حاضرہواتوآپ نے فرمایاکہ اس گھوڑے کی عمرصرف ایک رات باقی رہ گئی ہے چنانچہ وہ صبح ہونے سے پہلے مرگیا اسماعیل بن محمدکاکہناہے کہ میں حضرت کی خدمت میں حاضرہوا، اورمیں نے ان سے قسم کھاکرکہاکہ میرے پاس ایک درہم بھی نہیں ہے آپ نے مسکراکر فرمایا کہ قسم مت کھاؤ تمہارے گھردوسودینار مدفون ہیں یہ سن کروہ حیران رہ گیا پھرحضرت نے غلام کوحکم دیاکہ انہیں سواشرفیاں دیدو عبدی روایت کرتاہے کہ میں اپنے فرزندکو بصرہ میں بیمار چھوڑکرسامرہ گیااوروہاں حضرت کوتحریرکیاکہ میرے فرزندکے لیے دعائے شفاء فرمائیں آپ نے جواب میں تحریرفرمایاکہ ”خدااس پررحمت نازل فرمائے“ جس دن یہ خط اسے ملااسی دن اس کافرزندانتقال کرچکاتھا محمدبن افرغ کہتاہے کہ میں نے حضرت کی خدمت میں ایک عریضہ کے ذریعہ سے سوال کیاکہ ”آئمہ کوبھی احتلام ہوتاہے“ جب خط روانہ کرچکاتو خیال ہواکہ احتلام تووسوسہ شیطانی سے ہواکرتاہے اورامام تک شیطان پہنچ نہیں سکتا بہرحال جواب آیاکہ امام نوم اوربیداری دونوں حالتوں میں وسوسہ شیطانی سے دورہوتے ہیں جیساکہ تمہارے دل میں بھی خیال پیداہواہے پھراحتلام کیونکرہوسکتاہے جعفربن محمدکاکہناہے کہ میں ایک دن حضرت کی خدمت میں حاضرتھا، دل میں خیال آیا کہ میری عورت جوحاملہ ہے اگراس سے فرزندنرینہ پیداہوتوبہت اچھاہوآپ نے فرمایاکہ اے جعفرلڑکانہیں لڑکی ہوگی چنانچہ ایساہی ہوا(کشف الغمہ ص ۱۲۸) ۔


اپنے عقیدت مندوں میں حضرت کادورہ

جعفربن شریف جرجانی بیان کرتے ہیں کہ میں حج سے فراغت کے بعدحضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں حاضرہوا ،اوران سے عرض کی کہ مولا! اہل جرجان آپ کی تشریف آوری کے خواستگارہیں آپ نے فرمایاکہ تم آج سے ایک سونوے دن کے بعدواپس جرجان پہنچوگے اورجس دن تم پہچوگے اسی دن شام کو میں بھی پہنچ جاؤں گا تم انہیں باخبرکردینا، چنانچہ ایساہی ہوا میں وطن پہنچ کرلوگوں کوآگاہ کرچکاتھا کہ امام علیہ السلام کی تشریف آوری ہوئی آپ نے سب سے ملاقات کی اورسب نے شرف زیارت حاصل کیا، پھرلوگوں نے اپنی مشکلات پیش کیں امام علیہ السلام نے سب کومطمئن کردیا اسی سلسلہ میں نصربن جابرنے اپنے فرزندکوپیش کیا، جونابیناتھا حضرت نے اس کے چہرہ پردست مبارک پھیرکراسے بینائی عطاکی پھرآپ اسی روزواپس تشریف لے گئے (کشف الغمہ ص ۱۲۸) ۔
ایک شخص نے آپ کوایک خط بلاروشنائی کے قلم سے لکھا آپ نے اس کاجواب مرحمت فرمایااورساتھ ہی لکھنے والے کا اوراس کے باپ کانام بھی تحریرفرمادیا یہ کرامت دیکھ کروہ شخص حیران ہوگیااوراسلام لایا اورآپ کی امامت کامعتقدبن گیا(دمعہ ساکبہ ص ۱۷۲) ۔


امام حسن عسکری علیہ السلام کاپتھرپر مہر لگانا

ثقة الاسلام علامہ کلینی اورامام اہلسنت علامہ جامی رقمطرازہیں کہ ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں ایک خوبصورت سایمنی آیا اوراس نے ایک سنگ پارہ یعنی پتھرکاٹکڑا پیش کرکے خواہش کی کہ آپ اس پراپنی امامت کی تصدیق میں مہرکردیں حضرت نے مہرنکالی اوراس پرلگادی آپ کااسم گرامی اس طرح کندہ ہوگیاجس طرح موم پرلگانے سے کندہ ہوتاہے ایک سوال کے جواب میں کہاگیاکہ آنے والامجمع ابن صلت بن عقبہ بن سمعان ابن غانم ابن ام غانم تھا یہ وہی سنگ پارہ لایاتھا جس پراس کے خاندان کی ایک عورت ام غانم نے تمام آئمہ طاہرین سے مہرلگوارکھی تھی اس کاطریقہ یہ تھا کہ جب کوئی امامت کادعوی کرتاتھا تووہ اس کولے کراس کے پاس چلی جاتی تھی اگراس مدعی نے پتھرپرمہرلگادی تواس نے سمجھ لیاکہ یہ امام زمانہ ہیں اوراگروہ اس عمل سے عاجزرہاتووہ اسے نظراندازکردیتی تھی چونکہ اس نے اسی سنگ پارہ پرکئی اماموں کی مہرلگوائی تھی ، اس لیے اس کالقب (صاحبةالحصاة) ہوگیاتھا ۔
علامہ جامی لکھتے ہیں کہ جب مجمع بن صلت نے مہرلگوائی تواس سے پوچھاگیاکہ تم حضرت امام حسن عسکری کوپہلے سے پہچانتے تھے اس نے کہانہیں، واقعہ یہ ہواکہ میں ان کاانتظارکرہی رہاتھا کہ کہ آپ تشریف لائے میں لیکن پہچانتانہ تھا اس لیے خاموش ہوگیا اتنے میں ایک ناشناس نوجوان نے میری نظروں کے سامنے آکرکہاکہ یہی حسن بن علی ہیں ۔
راوی ابوہاشم کہتاہے کہ جب وہ جوان آپ کے دربارمیں آیاتومیرے دل میں یہ آیاکہ کاش مجھے معلوم ہوتاکہ یہ کون ہے، دل میں اس کاخیال آناتھا کہ امام علیہ السلام نے فرمایاکہ مہرلگوانے کے لیے وہ سنگ پارہ لایاہے ، جس پرمیرے باپ داداکی مہریں لگی ہوئی ہیں چنانچہ اس نے پیش کیا اورآپ نے مہرلگادی وہ شخص آیة ”ذریة بعضہامن بعض“ پڑھتاہواچلاگیا (اصول کافی ،دمعہ ساکبہ ص ۱۶۴ ،شواہدالنبوت ص ۲۱۱ ،طبع لکھنو ۱۹۰۵ ء اعلام الوری ۲۱۴) ۔


حضرت امام حسن عسکری کاعراق کے ایک عظیم فلسفی کوشکست دینا

مورخین کابیان ہے کہ عراق کے ایک عظیم فلسفی اسحاق کندی کویہ خبط سوارہواکہ قرآن مجیدمیں تناقض ثابت کرے اوریہ بتادے کہ قرآن مجیدکی ایک آیت دوسری آیت سے، اورایک مضمون دوسرے مضمون سے ٹکراتاہے اس نے اس مقصدکی تکمیل کے لیے ”تناقض القرآن“ لکھناشروع کی اوراس درجہ منہمک ہوگیا کہ لوگوں سے ملناجلنا اورکہیں آناجانا سب ترک کردیا حضرت امام حسن عسکر ی علیہ السلام کوجب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اس کے خبط کو دور کرنے کاارادہ فرمایا، آپ کاخیال تھا کہ اس پرکوئی ایسااعتراض کردیاجائے کہ جس کا وہ جواب نہ دے سے اورمجبورااپنے ارادہ سے بازآئے ۔
اتفاقا ایک دن آپ کی خدمت میں اس کاایک شاگرد حاضرہوا، حضرت نے اس سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسانہیں ہے جواسحاق کندی کو ”تناقض القرآن“ سے لکھنے سے بازرکھے اس نے عرض کی مولا! میں اس کاشاگردہوں، بھلااس کے سامنے لب کشائی کرسکتاہوں، آپ نے فرمایاکہ اچھایہ توکرسکتے ہو کہ جومیں کہوں وہ اس تک پہنچادو، اس نے کہاکرسکتاہوں، حضرت نے فرمایاکہ پہلے توتم اس سے موانست پیداکرو، اوراس پراعتبارجماؤ جب وہ تم سے مانوس ہوجائے اورتمہاری بات توجہ سے سننے لگے تواس سے کہناکہ مجھے ایک شبہ پیداہوگیاہے آپ اس کودورفرمادیں، جب وہ کہے کہ بیان کروتوکہناکہ ”ان اتاک ہذالمتکلم بہذاالقرآن ہل یجوزمرادہ بماتکلم منہ عن المعانی التی قدظننتہا انک ذہبتھا الیہا“
اگراس کتاب یعنی قرآن کامالک تمہارے پاس اسے لائے توکیاہوسکتاہے کہ اس کلام سے جومطلب اس کاہو، وہ تمہارے سمجھے ہوئے معانی ومطالب کے خلاف ہو، جب وہ تمہارا یہ اعتراض سنے گا توچونکہ ذہین آدمی ہے فوراکہے گا کہ بے شک ایساہوسکتاہے جب وہ یہ کہے توتم اس سے کہناکہ پھرکتاب ”تناقض القرآن“ لکھنے سے کیافائدہ؟ کیونکہ تم اس کے جومعنی سمجھ کراس پراعتراض کررہے ہو ،ہوسکتاہے کہ وہ خدائی مقصودکے خلاف ہو، ایسی صورت میں تمہاری محنت ضائع اوربرباد ہوجائے گی کیونکہ تناقض توجب ہوسکتاہے کہ تمہارا سمجھاہوا مطلب صحیح اورمقصود خداوندی کے مطابق ہو اورایسا یقینی طورپرنہیں توتناقض کہاں رہا؟ ۔
لغرض وہ شاگرد ،اسحاق کندی کے پاس گیا اوراس نے امام کے بتائے ہوئے اصول پر اس سے مذکورہ سوال کیا اسحاق کندی یہ اعتراض سن کر حیران رہ گیا اورکہنے لگا کہ پھرسوال کودہراؤ اس نے پھراعادہ کیا اسحاق تھوڑی دیرکے لیے محو تفکرہوگیا اورکہنے لگا کہ بے شک اس قسم کااحتمال باعتبار لغت اوربلحاظ فکروتدبرممکن ہے پھراپنے شاگرد کی طرف متوجہ ہواکربولا! میں تمہیں قسم دیتاہوں تم مجھے صحیح صحیح بتاؤ کہ تمہیں یہ اعتراض کس نے بتایاہے اس نے جواب دیا کہ میرے شفیق استاد یہ میرے ہی ذہن کی پیداوارہے اسحاق نے کہاہرگزنہیں ، یہ تمہارے جیسے علم والے کے بس کی چیزنہیں ہے، تم سچ بتاؤ کہ تمہیں کس نے بتایا اوراس اعتراض کی طرف کس نے رہبری کی ہے شاگرد نے کہا کہ سچ تویہ ہے کہ مجھے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایاتھا اورمیں نے انھیں کے بتائے ہوئے اصول پرآپ سے سوال کیاہے اسحاق کندی بولا ”ان جئت بہ “ اب تم نے سچ کہاہے ایسے اعتراضات اورایسی اہم باتیں خاندان رسالت ہی سے برآمدہوسکتی ہیں ”ثم انہ دعا بالنا رواحرق جمیع ماکان الفہ“ پھراس نے آگ منگائی اورکتاب تناقض القرآن کاسارامسودہ نذرآتش کردیا (مناقب ابن شہرآشوب مازندرانی جلد ۵ ص ۱۲۷ ،بحارالانوار جلد ۱۲ ص ۱۷۲ ،دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۸۳) ۔


حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اورخصوصیات مذہب

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کاارشادہے کہ ہمارے مذہب میں ان لوگوں کاشمارہوگا جواصول وفروع اور دیگر لوزم کے ساتھ ساتھ ان دس چیزوں کے قائل ہوں بلکہ ان پرعامل ہوں گے۔:
۱ ۔ شب و روز میں ۵۱/ رکعت نماز پڑھنا۔
۲ ۔سجدگاہ کربلا پرسجدہ کرنا۔
۳ ۔ داہنے ہاتھ میں انگھوٹھی پہننا۔
۴ ۔اذان و اقامت کے جملے دودو مرتبہ کہنا۔
۵ ۔ اذان و اقامت میں حی علی خیرالعمل کہنا۔
۶ ۔ نماز میں بسم اللہ زور سے پڑھنا۔
۷ ۔ ہردوسری رکعت میں قنوت پڑھنا۔
۸ ۔ آفتاب کی زردی سے پہلے نماز عصر اورتاروں کے ڈوب جانے سے پہلے نماز صبح پڑھنا۔
۹ ۔سراورڈاڑھی میں وسمہ کاخضاب کرنا۔
۱۰ ۔ نماز میت میں پانچ تکبر کہنا (دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۷۲) ۔


حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اور عید نہم ربیع الاول

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام چندعظیم اصحاب جن میں احمدبن اسحاق قمی بھی تھے، ایک دن محمدبن ابی علاء ہمدانی اوریحی بن محمدبن جریح بغدادی کے درمیان ۹/ ربیع الاول کے یوم عیدہونے پرگفتگوہورہی تھی، بات چیت کی تکمیل کے لیے یہ دونوں احمدبن اسحاق کے مکان پرگئے، دق الباب کیا،ایک عراقی لڑکی نکلی، آنے کاسبب پوچھا کہا، احمدسے ملناہے اس نے کہاوہ اعمال کررہے ہیں انہوں نے کہا کیساعمل ہے ؟ لڑکی نے کہاکہ احمدبن اسحاق نے حضرت امام علی نقی سے روایت کی ہے کہ ۹/ ربیع الاول یوم عیدہے اورہماری بڑی عیدہے اورہمارے دوستوں کی عیدہے الغرض وہ احمدسے ملے، انہوں نے کہا میں ابھی غسل عیدسے فارغ ہواہوں اورآج عیدنہم ہے پھرانہوں نے کہاکہ میں آج حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہواہوں، ان کے یہاں انگیٹھی سلگ رہی تھی اورتمام گھرکے لوگ اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے خوشبولگائے ہوئے تھے میں نے عرض کی ابن رسول اللہ آج کیاکوئی تازہ یوم مسرت ہے فرمایاہاں آج ۹/ ربیع الاول ہے، ہم اہلبیت اورہمارے ماننے والوں کے لیے یوم عیدہے پھرامام علیہ السلام نے اس دن کے یوم عیدہونے اوررسول خدا اورامیرالمومنین کے طرزعمل کی نشان دہی فرمائی ۔


حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے پندسودمند

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے پندونصائح حکم اورمواعظ میں سے مشتی نمونہ ازخرواری یہ ہیں:
۱ ۔ دوبہترین عادتیں یہ ہیں کہ اللہ پرایمان رکھے اورلوگوں کوفائدے پہنچائے۔
۲ ۔ اچھوں کودوست رکھنے میں ثواب ہے۔
۳ ۔ تواضع اورفروتنی یہ ہے کہ جب کسی کے پاس سے گزرے توسلام کرے اورمجلس میں معمولی جگہ بیٹھے۔
۴ ۔بلاوجہ ہنسنا جہالت کی دلیل ہے۔
۵ ۔پڑوسیوں کی نیکی کوچھپانا، اوربرائیوں کواچھالناہرشخص کے لیے کمرتوڑدینے والی مصیبت اوربے چارگی ہے۔
۶ ۔ یہی عبادت نہیں ہے کہ نماز،روزے کواداکرتارہے، بلکہ یہ بھی اہم عبادت ہے کہ خداکے بارے میں سوچ وبچارکرے۔
۷ ۔ وہ شخص بدترین ہے جودومونہااوردوزباناہو، جب دوست سامنے آئے تواپنی زبان سے خوش کردے اورجب وہ چلاجائے تو اسے کھاجانے کی تدبیرسوچے ،جب اسے کچھ ملے تویہ حسدکرے اورجب اس پرکوئی مصیبت آئے توقریب نہ پھٹکے۔
۸ ۔ غصہ ہربرائی کی کنجی ہے۔
۹ ۔ حسدکرنے اورکینہ رکھنے والے کوکبھی سکون قلب نصیب نہیں ہوتا۔
۱۰ ۔ پرہیزگاروہ ہے کہ جوشب کے وقت توقف وتدبرسے کام لے اورہرامرمیں محتاط رہے۔
۱۱ ۔ بہترین عبادت گزاروہ ہے جوفرائض اداکرتارہے۔
۱۲ ۔بہترین متقی اورزاہدوہ ہے جوگناہ مطلقا چھوڑدے۔
۱۳ ۔ جودنیامیں بوئے گا وہی آخرت میں کاٹے گا۔
۱۴ ۔ موت تمہارے پیچھے لگی ہوئی ہے اچھابوگے تواچھاکاٹوگے، برا بوگے توندامت ہوگی۔
۱۵ ۔ حرص اورلالچ سے کوئی فائدہ نہیں جوملناہے وہی ملے گا ۔
۱۶ ۔ ایک مومن دوسرے مون کے لیے برکت ہے۔
۱۷ ۔ بیوقوف کادل اس کے منہ میں ہوتاہے اورعقلمندکامنہ اس کے دل میں ہوتاہے ۔ ۱۸ ۔ دنیاکی تلاش میں کوئی فریضہ نہ گنوادینا۔
۱۹ ۔ طہارت میں شک کی وجہ سے زیادتی کرناغیرممدوح ہے۔
۲۰ ۔ کوئی کتناہی بڑاآدمی کیوں نہ ہو جب وہ حق کوچھوڑدے گاذلیل ترہوجائے گا۔
۲۱ ۔ معمولی آدمی کے ساتھ اگرحق ہوتووہی بڑاہے۔
۲۲ ۔ جاہل کی دوستی مصیبت ہے۔
۲۳ ۔ غمگین کے سامنے ہنسنا بے ادبی اوربدعملی ہے۔
۲۴ ۔ وہ چیزموت سے بدترہے جوتمہیں موت سے بہترنظرآئے۔
۲۵ ۔ وہ چیز زندگی سے بہترہے جس کی وجہ سے تم زندگی کوبراسمجھو۔
۲۶ ۔ جاہل کی دوستی اوراس کے ساتھ گزاراکرنا معجزہ کے مانندہے۔
۲۷ ۔ کسی کی پڑی ہوئی عادت کو چھڑانا اعجاز کی حیثیت رکھتاہے
۲۸ ۔ تواضع ایسی نعمت ہے جس پرحسدنہیں کیاجاسکتا۔
29 ۔ اس اندازسے کسی کی تعظیم نہ کروجسے وہ براسمجھے۔
۳۰ ۔ اپنے بھائی کی پوشیدہ نصیحت کرنی اس کی زینت کاسبب ہوتا۔
۳۱ ۔ کسی کی علانیہ نصیحت کرنابرائی کاپیش خیمہ ہے۔
۳۲ ۔ ہربلااورمصیبت کے پس منظرمیں رحمت اورنعمت ہوتی ہے۔
۳۳ ۔ میں اپنے و الوں کووصیت کرتاہوں کہ اللہ سے ڈریں دین کے بارے میں پرہیزگاری کوشعاربنالیں خداکے متعلق پوری سعی کریں اوراس کے احکام کی پیروی میں کمی نہ کریں، سچ بولیں، امانتیں چاہے مون کی ہوں یاکافرکی ،اداکریں، اوراپنے سجدوں کوطول دیں اورسوالات کے شیریں جواب دیں تلاوت قرآن مجیدکیاکریں موت اورخداکے ذکرسے کبھی غافل نہ ہوں۔
۳۴ ۔ جوشخص دنیاسے دل کااندھااٹھے گا، آخرت میں بھی اندھارہے گا،دل کااندھاہونا ہماری مودت سے غافل رہناہے قرآن مجیدمیں ہے کہ قیامت کے دن ظالم کہیں گے ”رب لماحشرتنی اعمی وکنت بصیرا“ میرے پالنے والے ہم تودنیامیں بیناتھے ہمیں یہاں اندھاکیوں اٹھایاہے جواب ملے گا ہم نے جونشانیاں بھیجی تھیں تم نے انھیں نظراندازکیاتھا۔ ”لوگو! اللہ کی نعمت اللہ کی نشانیاں ہم آل محمدہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے دوشنبہ کے شرونحوست سے بچنے کے لیے ارشادفرمایاہے کہ نمازصبح کی رکعت اولی میں سوہ ”ہل اتی“ پڑھنا چاہئے،نیزیہ فرمایاہے کہ نہارمنہ خربوزہ نہیں کھاناچاہئے کیونکہ اس سے فالج کااندیشہ ہے (بحارالانوارجلد ۱۴) ۔


معتمدعباسی کی خلافت اورامام حسن عسکری علیہ السلام کی گرفتاری

۲۵۶ ہجری میں معتدعباسی خلافت مقبوضہ کے تخت پرمتمکن ہوا، اس نے حکومت کی عنان سنبھالتے ہی اپنے آبائی طرزعمل کواختیارکرنا اورجدی کردارکوپیش کرناشروع کردیا اوردل سے اس کی سعی شروع کردی کہ آل محمدکے وجودسے زمین خالی ہوجائے، یہ اگرچہ حکومت کی باگ ڈوراپنے ہاتھوں میں لیتے ہی ملکی بغاوت کاشکارہوگیاتھا لیکن پھربھی اپنے وظیفے اوراپنے مشن سے غافل نہیں رہا” اس نے حکم دیاکہ عہدحاضرمیں خاندان رسالت کی یادگار،امام حسن عسکری کوقیدکردیاجائے اورانہیں قیدمیں کسی قسم کاسکون نہ دیاجائے حکم حاکم مرگ مفاجات آخرامام علیہ السلام بلاجرم وخطاآزادوفضاسے قیدخانہ میں پہنچادئیے گئے اورآپ پرعلی بن اوتاش نامی ایک ناصبی مسلط کردیاگیا جوآل محمداورال ابی طالب کاسخت ترین دشمن تھا اوراس سے کہہ دیاگیاکہ جوجی چاہے کرو، تم سے کوئی پوچھنے والانہیں ہے ابن اوتاش نے حسب ہدایت آپ پرطرح طرح کی سختیاں شروع کردیں اس نے نہ خداکاخوف کیانہ پیغمبرکی اولادہونے کا لحاظ کیا۔
لیکن اللہ رے آپ کا زہدوتقوی کہ دوچارہی یوم میں دشمن کادل موم ہوگیا اوروہ حضرت کے پیروں پرپڑگیا، آپ کی عبادت گذاری اورتقوی وطہارت دیکھ کر وہ اتنامتاثرہواکہ حضرت کی طرف نظراٹھاکردیکھ نہ سکتاتھا، آپ کی عظمت وجلالت کی وجہ سے سرجھکاکرآتااورچلاجاتا، یہاں تک کہ وہ وقت آگیاکہ دشمن بصیرت آگیں بن کرآپ کامعترف اورماننے والاہوگیا(اعلام الوری ص ۲۱۸) ۔
ابوہاشم داؤدبن قاسم کابیان ہے کہ میں اورمیرے ہمراہ حسن بن محمد القتفی ومحمدبن ابراہیم عمری اوردیگربہت سے حضرات اس قیدخانہ میں آل محمد کی محبت کے جرم کی سزابھگت رہے تھے کہ ناگاہ ہمیں معلوم ہواکہ ہمارے امام زمانہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام بھی تشریف لارہے ہیں ہم نے ان کااستقبال کیاوہ تشریف لاکرقیدخانہ میں ہمارے پاس بیٹھ گئے، اوربیٹھتے ہی ایک اندھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ اگریہ شخص نہ ہوتاتو میں تمہیں یہ بتادیتاکہ اندرونی معاملہ کیاہے اورتم کب رہاہوگے لوگوں نے یہ سن کراس اندھے سے کہا کہ تم ذراہمارے پاس سے چندمنٹ کے لیے ہٹ جاؤ، چنانچہ وہ ہٹ گیا اس کے چلے جانے کے بعدآپ نے فرمایاکہ یہ نابیناقیدی نہیں ہے بلکہ تمہارے لیے حکومت کاجاسوس ہے اس کی جیب میں ایسے کاغذات موجودہیں جواس کی جاسوسی کاثبوت دیتے ہیں یہ سن کرلوگوں نے اس کی تلاشی لی اورواقعہ بالکل صحیح نکلاابوہاشم کہتے ہیں کہ ہم قیدکے ایام گذاررہے تھے کہ ایک دن غلام کھانالایا حضرت نے شام کا لیے کھانانہ لوں گا چنانچہ ایساہی ہواکہ آپ عصرکے وقت قیدخانہ سے برآمدہوگئے۔ (اعلام الوری ص ۲۱۴) ۔


اسلام پرامام حسن عسکری کااحسان عظیم

واقعہ قحط امام علیہ السلام قیدخانہ ہی میں تھے کہ سامرہ میں جوتین سال سے قحط پڑاہواتھا اس نے شدت اختیارکرلی اورلوگون کاحال یہ ہوگیاکہ مرنے کے قریب پہنچ گئے بھوک اورپیاس کی شدت نے زندگی سے عاجزکردیا یہ حال دیکھ خلیفہ معتمدعباسی نے لوگوں کوحکم دیا کہ تین دن تک باہرنکل کر نمازاستسقاء پڑھیں چنانچہ سب نے ایساہی کیا ،مگرپانی نہ برسا، چوتھے روزبغدادکے نصاری کی جماعت صحرا میں آئی اوران میں سے ایک راہب نے آسمان کی طرف اپناہاتھ بلندکیا، اس کاہاتھ بلندہوناتھا کہ بادل چھاگئے اورپانی برسناشروع ہوگیا اسی طرح اس راہب نے دوسرے دن بھی عمل کیا اوربدستوراس دن بھی باران رحمت کانزول ہوا، یہ دیکھ کرسب کونہایت تعجب ہوا حتی کہ بعض جاہلوں کے دلوں میں شک پیداہوگیا، بلکہ ان میں سے اسی وقت مرتدہوگئے، یہ واقعہ خلیفہ پربہت شاق گذرا۔
اس نے امام حسن عسکری کوطلب کرکے کہا کہ ائے ابومحمداپنے جدکے کلمہ گویوں کی خبرلو، اوران کوہلاکت یعنی گمراہی سے بچاؤ، حضرت امام حسن عسکری نے فرمایاکہ اچھاراہبوں کوحکم دیاجائے کہ کل پھروہ میدان میں آکردعائے باران کریں ،انشاء اللہ تعالی میں لوگوں کے شکوک زائل کردوں گا، پھرجب دوسرے دن وہ لوگ میدان میں طلب باران کے لیے جمع ہوئے تواس راہب نے معمول کے مطابق آسمان کی طرف ہاتھ بلندکیا، ناگہاں آسمان پرابرنمودارہوئے اورمینہ برسنے لگا یہ دیکھ کرامام حسن عسکری نے ایک شخص سے کہا کہ راہب کاہاتھ پکڑکر جوچیزراہب کے ہاتھ میں ملے لے لو، اس شخص نے راہب کے ہاتھ میں ایک ہڈی دبی ہوئی پائی اوراس سے لے کرحضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں پیش کی، انہوں نے راہب سے فرمایاکہ اب توہاتھ اٹھاکر بارش کی دعاکراس نے ہاتھ اٹھایاتوبجائے بارش ہونے کے مطلع صاف ہوگیا اوردھوپ نکل آئی، لوگ کمال تعجب ہوئے۔
خلیفہ معتمدنے حضرت امام حسن عسکری سے پوچھا، کہ ائے ابومحمدیہ کیاچیزہے؟ آپ نے فرمایاکہ یہ ایک نبی کی ہڈی ہے جس کی وجہ سے راہب اپنے مدعامیں کامیاب ہوتارہا، کیونکہ نبی کی ہڈی کایہ اثرہے کہ جب وہ زیرآسمان کھولی جائے گی، توباران رحمت ضرورنازل ہوگایہ سن کرلوگوں نے اس ہڈی کاامتحان کیاتواس کی وہی تاثیردیکھی جوحضرت امام حسن عسکری نے بیان کی تھی، اس واقعہ سے لوگوں کے دلوں کے وہ شکوک زائل ہوگئے جوپہلے پیداہوگئے تھے پھرامام حسن عسکری علیہ السلام اس ہڈی کولے کراپنی قیام گاہ پرتشریف لائے(صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ،کشف الغمہ ص ۱۲۹) ۔/
پھرآپ نے اس ہڈی کوکپڑے میں لپیٹ کردفن کردیا (اخبارالدول ص ۱۱۷) ۔
شیخ شہاب الدین قلبونی نے کتاب غرائب وعجائب میں اس واقعہ کوصوفیوں کی کرامات کے سلسلہ میں لکھاہے بعض کتابوں میں ہے کہ ہڈی کی گرفت کے بعدآپ نے نمازاداکی اوردعافرمائی خداوندعالم نے اتنی بارش کی کہ جل تھل ہوگیا اورقحط جاتارہا۔
یہ بھی مرقوم ہے کہ امام علیہ السلام نے قیدسے نکلتے وقت اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ فرمایاتھا جومنظورہوگیاتھا، اوروہ لوگ بھی راہب کی ہوااکھاڑنے کلے ہمراہ تھے (نورالابصار ص ۱۵۱) ۔
ایک روایت میں ہے کہ جب آپ نے دعائے باران کی اورابرآیاتوآپ نے فرمایاکہ فلاں ملک کے لیے ہے اوروہ وہیں چلاگیا، اسی طرح کئی بارہوا پھر وہاں برسا۔


امام حسن عسکری اور عبیداللہ وزیر معتمد عباسی

اسی زمانہ میں ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام متوکل کے وزیرفتح ابن خاقان کے بیٹے عبیداللہ ابن خاقان جوکہ معتمدکاوزیرتھا ملنے کے لیے تشریف لے گیے اس نے آپ کی بے انتہا تعظیم کی اورآپ سے اس طرح محوگفتگورہاکہ معتمدکابھائی موفق دربارمیں آیا تواس نے کوئی پرواہ نہ کی یہ حضرت کی جلالت اورخداکی دی ہوئی عزت کانتیجہ تھا۔
ہم اس واقعہ کوعبیداللہ کے بیٹے احمدخاقان کی زبانی بیان کرتے ہیں کتب معتبرہ میں ہے کہ جس زمانہ میں احمدخاقان قم کاوالی تھا اس کے دربارمیں ایک دن علویوں کاتذکرہ چھڑگیا، وہ اگرچہ دشمن آل محمدہونے میں مثالی حیثیت رکھتاتھا لیکن یہ کہنے پرمجبورہوگیا کہ میری نظرمیں امام حسن عسکری سے بہترکوئی نہیں ہے ان کی جووقعت ان کے ماننے والوں اوراراکین دولت کی نظرمیں تھی وہ ان کے عہدمیں کسی کوبھی نصیب نہیں ہوئی ،سنو! ایک مرتبہ میں اپنے والدعبیداللہ ابن خاقان کے پاس کھڑاتھاکہ ناگاہ دربان نے اطلاع دی کہ امام حسن عسکری تشریف لائے ہوئے ہیں وہ اجازت داخل چاہتے ہیں یہ سن کرمیرے والدنے پکارکرکہاکہ حضرت ابن الرضاکوآنے دو، والدنے چونکہ کنیت کے ساتھ نام لیاتھا اس لیے مجھے سخت تعجب ہوا، کیونکہ اس طرح خلیفہ یاولیعہدکے علاوہ کسی کانام نہیں لیاجاتاتھا اس کے بعد ہی میں نے دیکھا کہ ایک صاحب جوسبزرنگ ، خوش قامت، خوب صورت، نازک اندام جوان تھے، داخل ہوگئے جن کے چہرے سے رعب وجلال ہویداتھا میرے والدکی نظرجونہی ان کے اوپرپڑی وہ اٹھ کھڑے ہوئے اوران کے استقبال کے لیے آگے بڑھے اورانھیں سینے سے لگاکر ان کے چہرہ اورسینے کابوسہ دیااوراپنے مصلے پرانہیں بٹھایا اورکمال ادب سے ان کی طرف مخاطب رہے، اورتھوڑی تھوڑی دیرکے بعدکہتے تھے میری جان آپ پرقربان ائے فرزندرسول۔
اسی اثناء میں دربان نے آکراطلاع دی کہ خلیفہ کابھائی موفق آیاہے میرے والدنے کوئی توجہ نہ دی ،حالانکہ اس کاعموما یہ اندازرہتاتھا کہ جب تک واپس نہ چلاجائے دربارکے لوگ دورویہ سر جھکائے کھڑے رہتے تھے یہاں تک کہ موفق کے غلامان خاص کواس نے اپنی نظروں سے دیکھ لیا، انہیں دیکھنے کے بعد میرے والدنے کہایاابن رسول اللہ اگراجازت ہوتو موفق سے کچھ باتیں کرلوں حضرت نے وہاں سے اٹھ کرروانہ ہوجانے کاارادہ کیا میرے والدنے انہیں سینے سے لگایا اوردربانوں کوحکم دیا کہ انہیںدومکمل صفوں کے درمیان سے لے جاؤ کہ موفق کی نظرآپ پرنہ پڑے چنانچہ اسی اندازسے واپس تشریف لے گئے۔
آپ کے جانے کے بعدمیں نے خادموں اورغلاموں سے کہاکہ وائے ہوتم نے کنیت کے ساتھ کس کانام لے کراسے میرے والدکے سامنے پیش کیا تھا جس کی اس نے اس درجہ تعظیم کی جس کی مجھے توقع نہ تھی ان لوگوں نے پھرکہا کہ یہ شخص سادات علویہ میں سے تھا اس کانام حسن بن علی اورکنیت ابن الرضا ہے، یہ سن کرمیرے غم وغصہ کی کوئی انتہانہ رہی اورمیں دن بھراسی غصہ میں بھنتارہا کہ علوی سادات کی میرے والدنے اتنی عزت وتوقیرکیوں کی یہاں تک کہ رات آگئی۔
میرے والدنمازمیں مشغول تھے جب وہ فریضہ عشاء سے فارغ ہوئے تومیں ان کی خدمت میں حاضرہوا انہوں نے پوچھااے احمد اس وقت آنے کاسبب کیاہے ، میں نے عرض کی کہ اجازت دیجیے تو میں کچھ پوچھوں، انہوں نے فرمایاجوجی چاہے پوچھو میں نے کہایہ شخص کون تھا ؟ جوصبح آپ کے پاس آیاتھا جس کی آپ نے زبردست تعظیم کی اورہربات میں اپنے کو اوراپنے ماں باپ کو اس پرسے فداکرتے تھے انہوں نے فرمایاکہ ائے فرزندیہ رافضیوں کے امام ہیں ان کانام حسن بن علی اوران کی مشہورکنیت ابن الرضا ہے یہ فرماکر وہ تھوڑی دیرچپ رہے پھر بولے اے فرزندیہ وہ کامل انسان ہے کہ اگرعباسیوں سے سلطنت چلی جائے تواس وقت دنیا میں اس سے زیادہ اس حکومت کامستحق کوئی نہیں ہے یہ شخص عفت زہد،کثرت عبادت، حسن اخلاق، صلاح، تقوی وغیرہ میں تمام بنی ہاشم سے افضل واعلی ہے اورائے فرزند اگرتوان کے باپ کودیکھتاتوحیران رہ جاتا وہ اتنے صاحب کرم اورفاضل تھے کہ ان کی مثال بھی نہیں تھی یہ سب باتیں سن کر میں خاموش توہوگیا لیکن والدسے حددرجہ ناخوش رہنے لگا اورساتھ ہی ساتھ ابن الرضا کے حالات کاتفحص کرنااپناشیوہ بنالیا۔
اس سلسلہ میں میں نے بنی ہاشم ،امراء لشکر،منشیان دفترقضاة اورفقہاء اورعوام الناس سے حضرت کاحالات کااستفسارکیا سب کے نزدیک حضرت ابن الرضا کوجلیل القدراورعظیم پایا اورسب نے بالاتفاق یہی بیان کیا کہ اس مرتبہ اوران خوبیوں کاکوئی شخص کسی خاندان میں نہیں ہے جب میں نے ہرایک دوست اوردشمن کو حضرت کے بیان اخلاق اور اظہار مکارم اخلاق میں متفق پایاتومیں بھی ان کادل سے ماننے والاہوگیا اوراب ان کی قدرومنزلت میرے نزدیک بے انتہاہے یہ سن کرتمام اہل دربار خاموش ہوگئے البتہ ایک شخص بول اٹھا کہ ائے احمد تمہاری نظر میں ان کے برادرجعفرکی کیاحثیت ہے احمدنے کہاکہ ان کے مقابلہ میں اس کاکیا ذکر کرتے ہو وہ توعلانیہ فسق و فجور کا ارتکاب کرتاتھا، دائم الخمرتھا خفیف العقل تھا، انواع ملاہی ومناہی کامرتکب ہوتاتھا۔
ابن الرضاکے بعد جب خلیفہ معتمدسے اس نے ان کی جانشینی کاسوال کیا تواس نے اس کے کردارکی وجہ سے اسے دربارسے نکلوادیاتھا (مناقب ابن آشوب جلد ۵ ص ۱۲۴ ، ارشادمفید ص ۵۰۵) ۔
بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ گفتگوامام حسن عسکری کی شہادت کے ۱۸/ سال بعد ماہ شعبان ۲۷۸ ہجری کی ہے (دمعہ ساکبہ ص ۱۹۲ جلد ۳ طبع نجف اشرف)۔


امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت

امام یازدہم حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام قیدوبندکی زندکی گزارنے کے دوران میں ایک دن اپنے خادم ابوالادیان سے ارشادفرماتے ہوئے کہ تم جب اپنے سفرمدائن سے ۱۵/ یوم کے بعد پلٹوگے تو میرے گھرسے شیون وبکاکی آواز آتی ہوگی (جلاء العیون ص ۲۹۹) ۔
نیزآپ کایہ فرمانابھی معقول ہے کہ ۲۶۰ ہجری میں میرے ماننے والوں کے درمیان انقلاب عظیم آئے گا (دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۷۷) ۔
الغرض امام حسن عسکری علیہ السلام کوبتاریخ یکم ربیع الاول ۲۶۰ ہجری معتمدعباسی نے زہردلوادیا اورآپ ۸/ ربیع الاول ۲۶۰ ہجری کوجمعہ کے دن بوقت نمازصبح خلعت حیات ظاہری اتارکر بطرف ملک جاودانی رحلت فرماگئے ”اناللہ وانا الیہ راجعون“ (صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ، فصولف المہمہ ،ارجح المطالب ص ۲۶۴ ، جلاء العیون ص ۲۹۶ ،انوارالحسینیہ جلد ۳ ص ۱۲۴) ۔
علماء فریقین کااتفاق ہے کہ آپ نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اولادنہیں چھوڑی (مطالب السول ص ۲۹۲ ، صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ،نورالابصار ارجح المطالب ۴۶۲ ،کشف الغمہ ص ۱۲۶ ، اعلام الوری ص ۲۱۸) ۔