اس سلسلہ میں ایک واقعہ نقل ھوا ھے جو افسانہ ”غرانیق“ کے نام سے مشھور ھے، افسانہ یہ (گڑھاگیا) ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)مشرکین کے سامنے سورہ ”نجم “کی تلاوت فرمارھے تھے،اور جس وقت اس آیت پر پھنچے:
< اٴَفَرَاٴَیْتُمْ اللاَّتَ وَالْعُزَّی وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْاٴُخْرَی>[1]
اس موقع پر شیطان نے آنحضرت (ص)کی زبان پر یہ دو جملہ جاری کردئے: ”تِلکَ الغَرَانیقُ العُلیٰ وَاٴنَّ شَفَاعَتَهنَّ لَتُرتَجیٰ“ ”وہ بلند مقام پرندے ھیں اور ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ھے“۔[2] جیسے ھی مشرکین نے یہ دو جملے سنے تو خوشی میں پھولے نہ سمائے، اور ان لوگوں نے کھا: ”محمد“ نے اب تک ھمارے خداؤں کا نام خیر ونیکی سے نھیں لیا، اسی موقع پر رسول خدا (ص)نے سجدہ کیا تو ان لوگوں نے بھی سجدہ کیا، سب مشرکین قریش بہت خوش ھوگئے، اور وھاں سے متفرق ھوگئے، لیکن کچھ دیر نہ گزری تھی کہ جناب جبرئیل امین نازل ھوئے اور پیغمبر اکرم (ص)کو خبر دی کہ یہ دو جملہ میں آپ کے لئے لے کر نازل نھیں ھواتھا! بلکہ یہ شیطان کی طرف سے القا کئے گئے تھے! اور اس وقت یہ آیت نازل ھوئی:
[3]
” اور ھم نے آپ سے پھلے کوئی ایسا رسول یا نبی نھیں بھیجا ھے کہ جب بھی اس نے کوئی نیک آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی تو پھر خدا نے شیطان کی ڈالی ھوئی رکاوٹ کو مٹا دیا اور پھر اپنی آیات کو مستحکم بنا دیا کہ وہ بہت زیادہ جاننے والا اور صاحب حکمت ھے“، اور پیغمبر اور دوسرے مومنین کو تاکید کی گئی ھے۔[4]
اگر اس حدیث کو قبول کرلیا جائے تو انبیاء علیھم السلام کی عصمت یھاں تک کہ وحی دریافت کرنے کے سلسلہ میںبھی مخدوش ھوجاتی ھے، اور انبیاء علیھم السلام کا اعتماد ختم ھوجاتا ھے۔
ھم یھاں پر پھلے سورہ حج کی آیت نمبر ۵۲ کو ان جعلی روایات سے جدا کرتے ھیں اور یہ دیکھتے ھیں کہ آیت کیا کہتی ھے، اور پھر اس طرح کی روایات کی تنقید اور تردید کریں گے: روایت کے جعلی اور جھوٹی ھونے سے قطع نظر اس آیت کے الفاظ اور مفھوم انبیاء علیھم السلام کی عصمت پر کوئی خدشہ وارد نھیں کرتے، بلکہ انبیاء علیھم السلام کی عصمت کی دلیل ھیں، کیونکہ آیت کہتی ھے کہ جس وقت انبیاء کوئی مثبت آرزو کرتے ھیں (قرآن مجید میں ”اُمنیہ “ کا لفظ آیاھے جو ھر طرح کی آروز کے لئے بولا جاتا ھے، لیکن یھاں انبیاء علیھم السلام کے مقصد کو آگے بڑھانے کے لئے ایک مثبت آرزو کے معنی ھيں ، کیونکہ اگر مثبت آرزو نھیں تھی تو پھر شیطان ایسے جملے کیوں القا کرتا) ، لہٰذا جب وہ کوئی مثبت آرزو کرتے ھیں تو شیطان ان پر حملہ آور ھوتا ھے، لیکن ارادہ و عمل میں تاثیر سے پھلے خداوندعالم شیطانی الھامات کو نابود کردیتا ھے، اور اپنی آیات کو استحکام بخشتا ھے۔
(توجہ رھے کہ ”فَیَنْسَخُ اللهُ “ میں لفظ ”فا“ بلا فاصلہ ترتیب کے لئے ھے یعنی خداوندعالم بلافاصلہ فوری طور پر شیطانی الھامات کو ختم کردیتا ھے)، اس بات پر گواہ قرآن مجید کی دیگر آیات ھیں جو صراحت کے ساتھ کہتی ھیں:
< وَلَوْلاَاٴَنْ ثَبَّتْنَاکَ لَقَدْ کِدْتَ تَرْکَنُ إِلَیْهمْ شَیْئًا قَلِیلاً>[5]
” اور اگر ھماری توفیق خاص نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ھوتا تو آپ (بشری طور پر) کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ضرور ھوجاتے“۔
سورہ اسراء کی بہترویں آیت اس بات کی نشاندھی کرتی ھے کہ کفار و مشرکین یہ کوشش کرتے تھے کہ پیغمبر اکرم (ص)کو آسمانی وحی سے منحرف کردیں، لیکن خداوندعالم کبھی بھی اس بات کی اجازت نھیں دیتا کہ یہ لوگ اپنے وسوسوں میں کامیاب ھوجائیں۔(غور کیجئے )
اسی طرح سورہ نساء میں بیان ھوتا ھے:
< وَلَوْلاَفَضْلُ اللهِ عَلَیْکَ وَرَحْمَتُه لَهمَّتْ طَائِفَةٌ مِنْهمْ اٴَنْ یُضِلُّوکَ وَمَا یُضِلُّونَ إِلاَّ اٴَنفُسَهمْ وَمَا یَضُرُّونَکَ مِنْ شَیْءٍ>[6]
”اور اگر آپ پر فضل خدا اور رحمت پروردگار کا سایہ نہ ھوتا تو ان کی ایک جماعت نے آپ کو بھکانے کا ارادہ کرلیا تھا اور یہ اپنے علاوہ کسی کو گمراہ نھیں کرسکتے اور آپ کو کوئی تکلیف نھیں پھنچا سکتے“۔
یہ باتیں اس بات کی نشاندھی کرتی ھیں کہ خدا وندعالم اپنی تائیدات اور امداد کے ذریعہ پیغمبر اکرم (ص)پر جن و انس کے شیطانوں کے وسوسوں کا اثر نھیں ھونے دیتا، اور ان کو ھر طرح کے انحراف سے محفوظ رکھتا ھے۔
یہ بات اس صورت میں ھے کہ جب ”اُمنیہ“ کے معنی ”آروز“ ”منصوبہ “اور ”نقشہ“ مراد لیں (کیونکہ اس لفظ کی باز گشت تقدیر ، تصویر اور فرض کی طرف ھے) لیکن اگر ”اُمنیہ“ کے تلاوت کے معنی مراد ھوں جیسا کہ بہت سے مفسرین نے احتمال دیا ھے، یھاں تک کہ بعض افراد نے ”حسان بن ثابت“ کے اشعار کو اسی مدعا کے اثبات کے لئے شاھد قرار دیا ھے[7]اسی طرح فخر رازی نے اپنی تفسیر میں بھی کھا ھے: لغوی اعتبار سے ”تمنی“ دو معنی کے لئے آیا ھے، ایک ”منی“ قلبی آرزو کے معنی میں اور دوسرے ”تمنی“ تلاوت اور قرائت کے معنی میںھے۔[8]
اس صورت میں آیت کا مفھوم یہ ھوگا کہ جس وقت خدا کی طرف سے بھیجے ھوئے انبیاء ؛کفار و مشرکین کے سامنے آیات کی تلاوت کرتے ھیں اور ان کو وعظ و نصیحت کرتے ھیں تو شیطان (اور شیطان صفت لوگ) ان کی باتوں کے ساتھ میں اپنی باتوں کو بھی القاء کرتے ھیں، جیسا کہ خود رسول اسلام (ص)کے ساتھ بھی ایسا ھوا ھے،سورہ فصلت کی آیت نمبر ۲۶ میں ارشاد ھے:
[9]
” اور کفار آپس میں کہتے ھیں کہ اس قرآن کو ھر گز مت سنواور اس کی تلاوت کے وقت ھنگامہ کرو شاید اسی طرح ان پر غالب آجاؤ“۔
اس معنی کے لحاظ سے سورہ حج آیت نمبر ۵۳ کا مفھوم بھی واضح و روشن ھوجاتا ھے جیسا کہ ارشاد ھے:
< لِیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشَّیْطَانُ فِتْنَةً لِلَّذِینَ فِی قُلُوبِهمْ مَرَضٌ وَالْقَاسِیَةِ قُلُوبُهمْ>
”تاکہ وہ شیطانی القا کو ان لوگوں کے لئے آزمائش بنادے جن کے قلوب میں مرض ھے اور جن کے دل سخت ھوگئے ھیں“۔[10]
ایساتو آج کل بھی ھوتا ھے کہ جب قوم وملت کی اصلاح کرنے والے علمااور واعظین معاشرہ کے لئے مفید باتیں پیش کرتے ھیں تو کج فکر اور منحرف افراد اپنی شیطانی حرکتوں ،غلط پروپیگنڈوں اور بیھودہ نعروں کے ذریعہ ان مفید باتوں کے اثر کو ختم کردینا چا ہتے ھیں، یہ در اصل معاشرہ کے تمام لوگوں کے لئے امتحان ھے، اور اسی موقع پر سنگدل اور بیمار دل لوگ جادّہ حق سے منحرف ھوجاتے ھیں، جبکہ مومنین انبیاء علیھم السلام کی حقانیت کو بہتر طریقہ سے پہچان لیتے ھیں اور انبیاء علیھم السلام کی دعوت کے سامنے تسلیم ھوجاتے ھیں:
[11]
”اور اس لئے بھی کہ صاحبان علم کو معلوم ھوجائے کہ یہ وحی پروردگار کی طرف سے برحق ھے اور اس طرح وہ ایمان لے آئیں، اور پھر ان کے دل اس کی بارگاہ میں عاجزی کا اظھار کریں “۔
ھماری مذکورہ گفتگو سے یہ واضح ھوجاتا ھے کہ محل بحث آیت میں انبیاء علیھم السلام کی عصمت کے برخلاف کوئی چیز نھیں پائی جاتی، بلکہ جیسا کہ ھم نے اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا ھے کہ یہ آیت عصمت پر مزید تاکید کرتی ھے، کیونکہ خداوندعالم اس آیت میں فرماتا ھے کہ جب انبیاء وحی کو حاصل کرتے ھیں یا اپنے مقاصد کے لئے دوسرا قدم اٹھاتے ھیں تو ان کی شیطانی وسوسوں سے محافظت فرماتا ھے،(قارئین کرام!) اب ھم اس سلسلہ میں گڑھے گئے افسانہ کی طرف پلٹتے ھیں آخر کار نوبت یہ پھنچ گئی کہ بعض شیطان صفت افراد نے پیغمبر اکرم (ص)کی عظمت کو گھٹانے کے لئے کتاب ”شیطانی آیات“ لکھ ڈالی اور اس طرح کے جعلی افسانوں کا سھارا لیا ۔
افسانہ غرانیق کی رواتیوں پر تنقید اور تردید
جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ گزشتہ آیات میں نہ صرف یہ کہ عصمت انبیاء کے برخلاف کوئی چیز نھیں پائی جاتی بلکہ یہ آیات خود عصمت انبیاء پر دلیل ھیں، لیکن اھل سنت کی دوسرے درجہ کی کتابوں میں کچھ ایسی روایات ھيں جو ھر لحاظ سے عجیب ھیں،لہٰذا ان کی الگ سے بحث ھونا چاہئے، جن روایات کی طرف ھم نے آغاز کلام میں اشارہ کیا ھے یہ کبھی ابن عباس سے اور کبھی سعید بن جبیر اور کبھی بعض دیگر صحابہ و تابعین سے نقل کی جاتی ھیں۔[12]
جبکہ اس طرح کی روایات مکتب اھل بیت علیھم السلام میں موجود نھیں ھے، اور بعض اھل سنت کے علماکے بقول صحاح ستہ میں بھی اس طرح کی روایات نھیں ھیں، لیکن ”تفسیر مراغی“ میں بیان ھوا ھے: ”بے شک یہ احادیث ملحدین اور اسلامی دشمنوں کی طرف سے گڑھی گئی ھیں، کیونکہ ایسی روایات کسی بھی معتبر کتاب میں نھیں ملتیں، اور دین اسلام کے اصول اور تعلیمات اسلام ان کی تکذیب اور تردید کرتی ھیں، عقل سلیم بھی ان کے باطل ھونے پر گواھی دیتی ھے، لہٰذاتمام علمائے اسلام پر ان کی تردید کرنا واجب ھے ، اور اپنے (قیمتی) وقت کو ان کی تفسیر و تاویل میں صرف نہ کریں، خصوصاً جبکہ موثق راویوں نے ان کے جعلی اور جھوٹے ھونے پر صریح الفاظ میں بیان کیاھے۔[13]
یھی معنی ایک دوسری طرح تفسیر ”جواھر“ (مولفہ طنطاوی) میں بیان ھوئے ھیں: ”اس طرح کی احادیث صحاح ستہ ”صحیح بخاری، صحیح مسلم، موطاٴ بن مالک، جامع ترمذی، سنن نسائی اور سنن ابن داؤد“ میں نھیں آئی ھیں[14] لہٰذا کتاب ”تیسیر الوصول لجامع الاصول“ جس میں صحاح ستہ کی تفسیری روایات کو جمع کیا گیا ھے، اس روایت کو سورہ نجم کی آیات میں بیان نھیں کیا ھے، لہٰذا اس طرح کی احادیث کے لئے اھمیت کاقائل ھونا مناسب نھیں ھے، اور نہ ھی ان کا ذکر نا مناسب ھے، ان پر اعتراض کرنا اور جواب دینا تو دور کی بات ھے۔۔۔ یہ احادیث جھوٹی اور جعلی ھیں“![15]
علامہ فخر الدین رازی ان روایات کے جعلی ھونے کے سلسلہ میں اس طرح کہتے ھیں: صحیح بخاری میں پیغمبر اکرم (ص)سے نقل ھوا کہ جس وقت سورہ نجم کی تلاوت فرمائی تو جن و انس ،مسلمان اور مشرکین نے سجدہ کیا، لیکن اس حدیث میں ”غرانیق“ کی کوئی بات نھیں ھے، اسی طرح یہ حدیث (جو صحیح بخاری سے نقل ھوئی ھے) دوسرے متعدد طریقوں سے نقل ھوئی ھے لیکن ان میں سے کسی میں بھی ”غرانیق“ کا لفظ نھیں آیا ھے۔[16]
نہ صرف مذکورہ مفسرین بلکہ دیگر علماو مفسرین جیسے ”قرطبی“ نے اپنی تفسیر ”الجامع“ میں اور سید قطب نے ”فی ظلال“ وغیرہ میں اسی طرح تمام شیعہ بزرگ علمانے بھی اس طرح کی روایات کو خرافات قرار دیتے ھوئے جعلی مانا ھے اور ان کی نسبت دشمنان اسلام کی طرف دی ھے۔
اس کے باوجود عجیب نھیں ھے کہ اسلام دشمن خصوصاً معاند مستشرقین نے اس طرح کی روایات کا بہت زیادہ پروپیگنڈا کیا ھے، اور اس کو بہت ھی آب و تاب کے ساتھ نقل کیا ھے، اور ھم دیکھتے ھیں کہ آج کے دور میں شیطان رشدی نے ”آیات شیطانی“ نامی کتاب لکھ ڈالی، خیالی داستان میں بہت ھی نازیبا الفاظ کے ساتھ اسلامی مقدسات کی توھین کی ھے، بلکہ یھاں تک کہ بڑے بڑے انبیاء جن کو سبھی آسمانی ادیان احترام کی نگاہ سے دیکھتے ھیں، (جیسے حضرت ابراھیم علیہ السلام) کی شان میں بھی گستا خی، جسارت اور توھین کی ھے۔
یہ بھی عجیب بات ھے کہ اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ھوا اور دنیا بھر میں نشر کیا گیا،اور جس وقت امام خمینی رحمة اللہ علیہ نے سلمان رشدی کے مرتد ھونے اور اس کے قتل کا تاریخ ساز فتوی صادر کیا، تو استعماری حکومتوں اور اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے ایسی حمایت ھوئی کہ آج تک دیکھنے میں نھیں آئی! چنانچہ اس رویہ سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ اس کام میں صرف سلمان رشد ی ھی نھیں تھا اور نہ ھی اسلام کی مخالفت میں لکھی جانے والی کتاب کا مسئلہ تھا، در اصل مغربی ممالک اور صھیونیزم کی طرف سے اسلام کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تھی، اگرچہ ظاھر میں سلمان رشدی نے کتاب لکھی ھے لیکن اس کے پسِ پردہ اسلام دشمن طاقتیں تھیں۔
لیکن حضرت امام خمینی (علیہ الرحمہ) نے اپنے فتویٰ میں استقامت کی اور پھر ان کے جانشین (حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مد ظلہ العالی) نے اسی فتویٰ کو برقرار رکھا، نیز اس تاریخی فتویٰ کو دنیا بھر کے مسلمانوں نے قبول کیا، جس سے دشمن کی سازش ناکام ھوگئی، اور سلمان رشدی آج تک (کتاب کی اس حصہ کی تالیف تک) روپوش ھے، اور اسلام دشمن طاقتیں اس کی مکمل طور پر حفاظت کررھی ھیں، اور ایسا لگتا ھے کہ آخری عمر تک اسی طرح چھپ کر زندگی بسر کرے گا، اور شاید خود انھیں لوگوں کے ھاتھوں قتل ھوگا تاکہ اس رسوائی سے نجات پاسکے۔
اس بنا پر جو چیز بھی اس طرح کی روایات کی علت ”محدثہ“ یعنی وجود میں لانے والی علت ھے وھی چیزعلت ”مبقیہ“ یعنی باقی رکھنے والی علت بھی ھے، یعنی جو سازش اسلام دشمنوں کی طرف سے شروع ھوئی ہزاروں سال بعد بھی انھیں اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے ایک وسیع پیمانہ پر وھی سازش آج بھی ھورھی ھے۔
لہٰذا اس چیز کی ضرورت نھیں محسوس کی جاتی کہ تفسیر ”روح المعانی“ یا دوسری تفاسیر کی طرح ان روایات کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی جائے، کیونکہ ان روایات کی بنیاد ھی خراب ھے، اور بڑے بڑے علماکرام نے ان کے جعلی ھونے کی تاکید کی ھے، لہٰذا ھم ان روایات کی توجیہ کرنے سے صرف نظر کرتے ھیں،صرف یھاں مزید وضاحت کے لئے چند درج ذیل نکات بیان کرنا ضروری سمجھتے ھیں:
۱۔ یہ بات کسی دوست اور دشمن پر مخفی نھیں ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)نے آغازِ دعوت سے آخرِ عمر تک بت اور بت پرستی کا شدت کے ساتھ مقابلہ کیا، اور یھی وہ مسئلہ ھے کہ جس میں کسی طرح کی مصالحت، سازش اور نرمی نھیں کی گئی، لہٰذا ان تمام چیزوں کے پیش نظر بتوں کی شان میں اس طرح کے الفاظ پیغمبر اکرم (ص)کی زبان پر کس طرح آسکتے ھیں؟
اسلامی تعلیمات کہتی ھيں کہ صرف شرک اور بت پرستی ھی ایک ایسا گناہ ھے جو قابل بخشش نھیں ھے، لہٰذا بت پرستی کے مراکز کو ھر قیمت پر نابود کرنا واجب قرار دیا ھے، اور پورا قرآن اس بات پر گواہ ھے، یہ خود حدیث”غرانیق“ کے جعلی ھونے پر دلیل ھے جن میں بتوں کی مدح و ثنا کی گئی ھے۔
۲۔ اس کے علاوہ ”غرانیق“ افسانہ لکھنے والوں نے اس بات پر توجہ نھیں دی ھے کہ خود سورہ نجم کی آیات پر ایک نظر ڈالنے سے اس خرافی حدیث کی دھجیاں اڑ جاتی ھیں اور معلوم ھوتا ھے کہ بتوں کی مدح و ثنا والے جملے: ”تِلکَ الغَرَانیقُ العُلیٰ وَاٴنَّ شَفَاعَتَهنَّ لَتُرتَجیٰ“ اور آیات ماقبل و مابعد میں کوئی ھم آھنگ نھیں ھے، کیونکہ اسی سورہ کے شروع میں بیان ھوا ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)ھرگز اپنی خواھش کے مطابق کلام ھی نھیں کرتے، اور جو کچھ عقائد اور اسلامی قوانین کے بارے میں کہتے ھیں وہ وحی الٰھی ھوتی ھے: < وَمَا یَنْطِقُ عَنْ الْهوی۔إِنْ هو إِلاَّ وَحْیٌ یُوحَی>[17]”اور وہ اپنی خواھش سے کلام نھیں کرتا ھے اس کا کلام وحی ھے جو مسلسل نازل ھوتی رہتی ھے“۔
اور اس بات کا صاف طور پر اعلان ھوتا ھے کہ پیغمبر اکرم (ص)ھرگز راہ حق سے منحرف نھیں ھوتا، اور اپنے مقصد کو کم نھیں کرتا:
[18]
”تمھارا ساتھی نہ گمراہ ھوا ھے اور نہ بھکا“۔
اس سے زیادہ گمراھی اور انحراف اور کیا ھوگا کہ پیغمبر آیات الٰھی کے درمیان شرک کی باتیں اور بتوں کی تعریفیں کریں؟ اور اپنی خواھش کے مطابق گفتگو اس سے بدتر اور کیا ھوسکتی ھے کہ کلام خدا میں شیطانی الفاظ کا اضافہ کرے اور آیات کے درمیان کھے:”تلک الغرانیق العلی“؟
مزے کی بات یہ ھے کہ محل بحث آیات کے بعد صاف طور پر بت اور بت پرستوں کی مذمت کی گئی ھے، چنانچہ ارشاد ھوتا ھے:
[19]
”یہ سب وہ نام ھیں جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے طے کر لئے ھیں خدا نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نازل نھیں کی ھے درحقیقت یہ لوگ صرف اپنے گناھوں کا اتباع کررھے ھیںاور جو کچھ ان کا دل چاہتا ھے“۔
کون عقلمند اس بات کا یقین کرسکتا ھے کہ ایک صاحب حکمت اور باھوش نبی مقام نبوت میں پھلے جملوں میں بتوں کی مدح و ثنا کرے اوربعد والے دو جملوں میں بتوں کی مذمت اور ملامت کرے؟لہٰذا! ان دوجملوں کے تناقض اور تضاد کی کس طرح توجیہ اور تاویل کی جاسکتی ھے؟
پس ان تمام باتوں کے پیش نظر اعتراف کرنا پڑے گا کہ قرآن مجید کی آیات میں اس قدر ھم آھنگی پائی جاتی ھے کہ دشمنوں اور بدخواہ غرض رکھنے والوں کی طرف سے کی گئی ملاوٹ کو بالکل باھر نکال دیتی ھے، اور اس بات کی نشاندھی کرتی ھے کہ یہ ایک غیر مرتبط اور جداجملہ ھے، یہ ھے سورہ نجم کی آیات کے درمیان حدیث ”غرانیق“ قرار دینے کی سرگزشت ۔
(قارئین کرام!) یھاں پر ایک یہ سوال باقی رہ جاتا ھے کہ تو پھر اتنی بے بنیاد اور بے سرو پیر چیزیں کیسے اتنی مشھور ھو گئیں؟ اس سوال کا جواب بھی کوئی پیچیدہ نھیں ھے کیونکہ اس حدیث کی شھرت زیادہ تر دشمنانِ اسلام اور بیمار دل لوگوں کی طرف سے ھے جو یہ سوچ رھے تھے کہ یہ حدیث خود پیغمبر اسلام کی عصمت اور قرآن کی حقانیت کو مخدوش کرنے کے لئے بہترین مدرک ھے، لہٰذا دشمنان اسلام کے درمیان اس حدیث کی شھرت کی دلیل معلوم ھے، لیکن اسلامی مورخین کے درمیان شھرت کی وجہ بعض علماکے قول کے مطابق یہ ھے کہ بعض مورخین ھمیشہ سے نئے حادثات اور نئے مطالب کی طرف دوڑتے ھیں نیز کوشش کرتے ھیں کہ اپنی کتابوں میں ھیجان آور اور استثنائی واقعات بیان کریں چا ھے وہ تاریخی حقیقت رکھتے ھوں یا نہ رکھتے ھوں، کیونکہ ان کا مقصد اپنی کتاب کو مقبول بنانا اور ھنگامہ برپا کردےنا ھو تا ھے، اور چونکہ پیغمبر اسلام (ص)کی زندگی میں غرانیق جیسا افسانہ بہت زیادہ بیان ھوا ھے لہٰذا اس کے منبع اور اس کے مفھوم کے بے بنیاد ھونے پر توجہ کئے بغیر بعض تاریخی کتابوں اور بعض حدیث کی کتابوں میں نقل کردیا گیا ھے، جبکہ بعض علمانے اس پر تنقید اور تردید کے لئے بیان کیا ھے۔
نتیجہ
(قارئین کرام!) ھماری مذکورہ بحث سے یہ مسئلہ واضح اور روشن ھوجاتا ھے کہ قرآن مجید میں نہ صرف کوئی ایسی چیز موجود نھیں ھے کہ جو ان کے مقام عصمت کے منافی ھو ؛ بلکہ یھی آیات جن کو عصمت کے منافی سمجھ لیا گیا ھے ، عصمت انبیاء علیھم السلام پر واضح اور بہترین دلیل ھیں۔[20]
________________________________________
[1] سورہ نجم ، آیت ۱۹، ۲۰، ” کیا تم لوگوں نے لات و عزیٰ کو دیکھا ھے اور منات جو ان کا تیسرا ھے اسے بھی دیکھا ھے“۔ (کیا وہ خدا کی بیٹیاں ھیں؟)
[2] ”غرانیق“ ، (مزدور کے وزن پر) ”غرنوق“ کی جمع ھے ، ایک سیاہ اور سفید رنگ کا پرندہ ھے،لیکن اس کے علاوہ دوسرے معنی میں بھی آیا ھے، (نقل از قاموس اللغہ)
[3] سورہ حج ، آیت ۵۲۔
[4] اس حدیث کو اکثر مفسرین نے مختصر تبدیلی کے ساتھ بیان کیا ھے اور پھر اس واقعہ پر تنقید کی ھے۔
[5] سورہٴ اسراء ، آیت ۷۴۔
[6] سورہٴ نساء ، آیت ۱۱۳۔
[7] شعر یہ ھے :تمنی کتاب الله اٴوّل لیلة وآخرها لاقیٰ حمام المقادر
”تاج العروس“ شرح قاموس اور اسی طرح خود ”قاموس“ میں ”تمنی کتاب “کے معنی تلاوت کتاب کے لئے ھیں، اس کے بعد ”ازھری“ سے نقل کیاھے کہ تلاوت کو اس وجہ سے ”اُمنیہ“ کھا جاتا ھے کیونکہ تلاوت کرنے والا جب ”آیہٴ رحمت“ پر پھنچتا ھے تو رحمت کی آرزو کرتا ھے، اور جب عذاب کی آیت پر پھنچتا ھے تو عذاب سے نجات کی امید کرتا ھے، لیکن صاحب ”مقائیس اللغہ“ کا اس بات پر عقیدہ ھے کہ اس لفظ کا تلاوت پر اطلاق کرنا اس وجہ سے ھے کہ اس میں ایک طرح کی اندازہ گیری اور اس آیت سے گزرنا ھوتا ھے۔
[8] تفسیر فخر رازی ، جلد ۲۳، صفحہ ۵۱۔
[9] سورہٴ فصلت ،آیت۲۶۔
[10] اگرچہ آخری آیت کی تفسیر اس معنی کے لحاظ سے اعتراض سے خالی نھیں ھے، کیونکہ انبیاء پر شیطانی وسوسہ اگرچہ خدائی امداد کے ذریعہ فوراً نیست و نابود ھوجاتا ھے ، لیکن اس کے ذریعہ منافقین اور بیمار دل لوگوں کے لئے باعث امتحان نھیں ھوسکتا، کیونکہ یہ وسوسہ ظاھر نھیں ھوتے بلکہ انبیاء علیھم السلام پر ان وسوسوں کا اثر نھیں ھوتا کیونکہ فوراً ھی خداوندعالم ان کو ختم کردیتا ھے۔
مگر یہ کھا جائے کہ مراد یہ ھے کہ جب انبیائے الٰھی اپنی آرزو اور اھداف کو عملی بنانا چاہتے ھیں تو اس موقع پر شیاطین تخریب اور وسوسوں کے ذریعہ حملہ آور ھوتے ھیںاور اس موقع پر امتحان کی بھٹی گرم ھوجاتی ھے، لہٰذا ان تینوں آیات (سورہ حج آیات نمبر ۵۲، ۵۳ اور ۵۴) میں ھم آھنگی اور انسجام برقرار ھوجاتا ھے۔
عجیب بات تو یہ ھے کہ بعض مفسرین نے پھلی آیت میں مختلف احتمالات ذکر کئے ھیں، جبکہ بعد والی آیات کی ھم آھنگی اور انسجام کو باقی نھیں رکھ پائے ھیں۔ (غور کیجئے )
[11] سورہ حج ، آیت ۵۴۔
[12] اس سلسلہ میں اھل سنت کی روایات سے مزید آگاھی کے لئے کتاب الدر المنثور ، جلد چھارم صفحہ ۳۶۶ تا ۳۶۸ پر سورہ حج ، آیت ۵۲ کے ذیل میں رجوع فرمائیں۔
[13] تفسیر مراغی ، جلد ۱۷، صفحہ ۱۳۰ ، مذکورہ آیات کے ذیل میں۔
[14] توجہ رھے کہ موطا ابن مالک کا شمار صحاح ستہ میں نھیں ھے بلکہ اس کی جگہ پر سنن ابن ماجہ ھے۔
[15] تفسیر جواھر ، جلد ۶، صفحہ ۴۶۔
[16] تفسیر فخر رازی ، جلد ۲۳، صفحہ ۵۰۔
[17] سورہٴ نجم ، آیت ۳و۴۔
[18] سورہٴ نجم ، آیت ۲۔
[19] سورہٴ نجم ، آیت ۲۳۔
[20] تفسیر پیام قرآن ، جلد ۷، صفحہ ۱۶۴۔