اسلامی قوانین چاھے جتنے بھی روشن و واضح ھوں پھر بھی ان کی توضیح و تفسیر ضروری ھے بالکل یوں ھی جیسے آج ملکوں کے قوانین چاھے جس قدر روز مرہ کی زبان میں تنظیم کئے جائیں پھر بھی ان کی وضاحت کے لئے زبر دست قسم کے ماھروں کی ضرورت ھوتی ھے جو ان کے اھم پھلوؤں کو واضح کر سکیں ۔ اور اسلامی قوانین بھی حتیٰ وہ بھی جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی زبان سے نقل ھوئے ھیں توضیح و تفسیر سے مستثنٰی اور بے نیاز نھیں ھیں ۔اس کے گواہ مسلمانوں کے درمیان وہ سیکڑوں اختلافات ھیں جو قرآنی آیات اور اسلامی احادیث کے سلسلہ میں نظر آتے ھیں۔
کیا اسلام کے ابدی و جاودانی قوانین کو ایسے کسی پیشوا کی ضرورت نھیںھے جوپیغمبر اکرم کے علوم کا وارث ھو اور اختلاف کے موارد میں سب کے لئے حجت ھو ؟اور کیا اختلافات دور کرنے فاصلوں کو کم کرنے اور اسلامی اتحاد بر قرار کرنے کے لئے ایسے جانشین کا تعین لازم و ضروری نھیں تھا؟
حضرت عمر کی خلافت کے دوران ایک شخص نے اسلامی عدالت میں شکایت کی کہ میری بیوی کے یھاں چھ ہی مھینہ میں بچہ پیدا ھو گیا ھے ۔ قاضی نے حکم دے دیا کہ لے جاؤ اس عورت کو سنگسار کر دو ۔راستہ میں اس عورت کی نگاہ حضرت علی علیہ السلام پر پڑی اس نے چیخ کر کھا :اے ابو الحسن میری فریاد کو پھنچئے ۔
میں ایک پاک دامن عورت ھوں اور میں نے اپنے شوھر کے علاوہ کسی سے قربت نھیں کی ھے ۔ حضرت علی علیہ السلام جب واقعہ سے آگاہ ھوئے تو انھیں یہ سمجھنے میں دیر نھیں لگی کہ قاضی نے فیصلہ کرنے میں غلطی کی ھے ۔ آپ(ۡع) نے ماموروں سے مسجد واپس چلنے کو کھا اور مسجد میں جا کر خلیفہ سے پوچھا کہ تم نے یہ کیسا فیصلہ کیا ھے ؟خلیفہ نے کھا کہ شوھر سے اس عورت کی قربت کو صرف چہ ماہ گزرے ھیں ۔ کیا کھیں چہ مھینے میں بچہ پیدا ھوتا ھے ؟ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نے قرآن نھیں پڑھا جس میں آیا ھے ” وحملہ و فصالہ ثلاثون شھرا“ (1) یعنی اس کا حمل اور دودہ پلانے کا زمانہ تیس ماہ ھے۔خلیفہ نے جواب دیا درست ھے ۔ پھر حضرت علی ںنے فرمایا: کیا قرآن نے دودہ پلانے کا زمانہ دو سال نھیں معین کیا ھے کہ ارشاد ھوتا ھے: ” والولدات یرضعن اولادھن حولین کاملین“ (2) یعنی مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودہ پلائیں ۔خلیفہ نے جواب دیا :سچ فرمایا: اس پر حضرت علی ںنے فرمایا : کہ اگر دودہ پلانے کے چوبیس مھینوں کو تیس مھینوں سے کم کرو توچہ ھی ماہ باقی رھتے ھیں ۔ اس سے معلوم ھوتا ھے کہ حاملگی کی کم سے کم مدت چہ ماہ ھے اور عورت اس مدت میں سالم بچہ پیدا کر سکتی ھے۔
حضرت امیر الموٴمنین علی ںنے دو آیتوں کو باھم ضمیمہ کرکے ایسا قرآنی حکم استنباط کیا جس سے اصحاب واقف نھیں تھے اب کیا یہ کھا جا سکتا ھے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس الٰھی کتاب قرآن مجید کی وضاحت کے لئے جو ایک جاوید رھنما اور ابدی قانون کی حیثیت رکھتی ھے اپنے بعد کوئی اقدام نھیں فرمایا ھے؟
ممکن ھے یہ کھا جائے کہ ایسے نادر مسئلہ میں اختلاف سے جو انسانی زندگی میں بھت کم پیش آتا ھے پورے اسلامی معاشرہ کے اتحاد کو خطرہ لاحق نھیں ھو سکتا ،تو اس کے جواب میں یہ کھا جائے گا کہ اختلاف اس طرح کے نادر مسائل سے مخصوص نھیں ھے بلکہ یہ اختلاف مسلمانوں کے روز مرہ اور بنیادی فرائض و وظائف سے بھی تعلق رکھتا ھے اور ظاھر ھے کہ ھر روز کے مسائل میں مسلمانوں کے اختلاف و تفرقہ سے آنکھیں بند نھیں کی جا سکتیں اور یہ تصور نھیں کیا جا سکتا کہ اتنے سارے مسائل میں اختلافات سے مسلمانوں کے اتحاد و یکجھتی پر کوئی ضرب نھیں پڑتی ھے۔
قرآن مجید نے اپنے سورہ مائدہ آیت /6 میں وضو کرنے کی کیفیت مسلمانوں سے بیان کی ھے اور صدر اسلام میں مسلمان ھر روز اپنی آنکھوں سے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو وضو کرتے ھوئے دیکھتے تھے ، لیکن پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد قرآن مجید دنیا کے دور دراز کے علاقوں میں پھیلا اور علماء کے اوپر قرآنی آیات میں اجتھاد و تفکر کا دروازہ کھلا اور فقھی احکام سے متعلق آیات پر رفتھ رفتھ بحث و تحقیق ھوئی لیکن سر انجام کیفیت وضو سے متعلق آیت کو سمجھنے میں اختلاف پیدا ھوگیا اور آج یہ اختلاف باقی اور رائج ھے کیوں کہ شیعہ علماء اپنے ھاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوتے ھیں اور پیروں کا مسح کرتے ھیں لیکن علمائے اھل سنت ان کے بالکل بر خلاف عمل کرتے ھیں۔
اگر امت کے درمیان ایک ایسا معصوم اور تمام اصول و فروع سے آگاہ رھبر موجود ھو کہ سب کے سب اس کی بات تسلیم اور اس کی پیروی کرتے ھوں تو ھر گز ایسا اختلاف جو مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دے پیش نھیں آئے گا اور پورا اسلامی معاشرہ اپنے روز مرہ کے فرائض کی انجام دھی میں یک رنگ و یک شکل ھوگا۔
قرآن کی تفسیر میں اختلاف
اسلام کے جزا و سزا کے قوانین میں ایک چور کے ھاتھ کاٹنے کا قانون ھے جو اپنے شرائط و خصوصیات کے ساتھ فقھی کتابوں میں درج ھے ابھی ابھی دو تین صدی پھلے تک جبکہ اسلام ایک طاقت کی شکل میں حاکم تھا اسلامی حکومتیں اپنے قوانین قرآن سے حاصل کرتی تھیں اور جبکہ مغربی قوانین ابھی اسلامی سرزمینوں تک نھیں پھنچے تھے چور کی تنھا سزا اس کاھاتھ کاٹنا تھی ۔لیکن افسوس کہ یہ ایک چھوٹا سا اور تقریبا روز مرہ کا مورد بھی ان موارد میں سے ھے کہ اسلام کی چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کی حد معین کرنے کے سلسلہ میں ایک نقطہ پر متحد نھیں ھو سکے
معتصم عباسی کے زمانہ میں جبکہ ھجرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دو سو سال سے زیادہ گزر چکے تھے ،علماء نے اسلام کے درمیان ھاتھ کاٹنے سے متعلق آیت کی تفسیرمیں اختلاف پیدا ھوگیا ۔وہ لوگ یہ طے نھیں کر پارھے تھے کہ چور کا ھاتھ کھاں سے کاٹنا چاھئے ۔ایک کھتا تھا :ھاتھ کلائی سے کاٹا جائے گا۔ دوسرا کھتا تھا : ھاتھ کھنی سے کاٹا جائے گا ۔تیسرا کھتا تھا : ۔۔۔۔۔ ۔ ۔ آخر کار خلیفہ ٴ وقت نے شیعوں کے نویں امام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے بھی دریافت کیا۔ آپ(ۡع) نے فرمایا: چور کے ھاتھ کی صرف چار انگلیاں کاٹی جائیں گی ۔ جب آپ(ع) سے پوچھا گیا کہ اس کی دلیل کیا ھے تو آپ(ۡع)نے فرمایاکہ خدا وند عالم قرآن مجید میں فرمایا ھے:” و ان المساجد اللہ “ سجدہ کی جگھیں خدا کے لئے ھیں اور اس سے متعلق ھیں ۔ آپ(ۡع) نے فرمایا: ان میں سے ایک ھتھیلی بھی ھے جسے سجدہ کے وقت زمین پر ٹکانا ضروری ھے اور جو چیز خدا سے متعلق ھو اسے کاٹا نھیں جا سکتا ۔
اگر امت کے درمیان ایک ایسا قرآن شناس موجود ھو جو قرآن کے اسرار و رموز سے پوری طرح آگاھی رکھتا ھو اور فکری اعتبار سے مسلمانوں کا ملجاو مرکز قرار پائے اور تمام مسلمان اس کی طرف رجوع کریں تو ظاھر ھے کہ بھت سے اختلافات آسانی سے دور ھو جائیں گے اور امت ایک ھی سمت میں ایک ھی مقصد کے ساتھ قدم بڑھائے گی۔نہ مسلمانوں کاقیمتی وقت ضائع ھوگا اور نہ ان میں خطرناک اور خونریزاختلاف ٹکراؤ پایاجائے گا۔
قرآن مجید ھر طرح کے استنباط اور صحیح اسلام کو سمجھنے کے لئے اساسی و بنیادی ماخذ ھے اور کوئی چیز اس عظیم کتاب کی برابری نھیں کر سکتی ۔اگر دوسرے ماٴخذ میں باھم اختلاف نظر آئے مثلا اگر پیغمبر اکرم کی دو حدیثیں باھم ٹکراو ٴرکھتی ھوں تو ھم اس حدیث کو اپنائیں گے جو قرآن کے مطابق ھوگی۔
لیکن کیا دلالت اور بیان کے اعتبار سے قرآن کی تمام آئتیں ایک جیسی ھیں اور کیا قرآن میں سرے سے کوئی ایسی آیت ھے ھی نھیں جس کے لئے کسی معصوم مفسر کی ضرورت ھو ؟ یہ دعویٰ وھی کر سکتا ھے جو قرآن سے زیادہ لگاؤ نھیں رکھتا اور اس کی روح و فکر قرآن سے ھم آھنگ نھیں ھے ۔صحیح ھے کہ قرآن کی بھت سی آیتیں دلالت کے اعتبار سے روشن و واضح ھیں اور اس کی محکم آیات میں شمار ھوتی ھیںاور وہ قرآنی آیات بھی جومبھم ھیں دوسری آیتوں کے ذریعہ روشن و واضح ھو جاتی ھیں ۔ (3) اس کے باوجود قرآن میں ایسی آیتیں موجود ھیں جو یا نزول کے وقت سے ھی مبھم ھیں یا زمانہٴ وحی سے دوری کی وجہ سے مبھم ھوگئی ھیں۔ اس قسم کی آیات چاھے ان کی تعداد کم ھی کیوں نہ ھو کیسے حل کی جا سکتی ھیں؟
کیا امت کے درمیان کوئی ایسی مرکز ی شخصیت موجود نھیں ھونی چاھئے جو اس قسم کی آیات کا ابھام دور کرکے ان کی صحیح تفسیر کر سکے جن میں سے بعض کے نمونے آپ اوپر ملاحظہ کر چکے ھیں؟
حضرت علی علیہ السلام نے جب ابن عباس کو خوارج سے مناظرہ کے لئے روانہ کیا تو انھیں یہ حکم دیا تھا کہ :”لاتخا صمھم بالقرآن فان القرآن حمال ذو وجوہ تقول و یقولون“ یعنی ان سے ھرگز قرآن سے بحث و مباحثہ نہ کرنا ،کیوں کہ قرآن کی آیاتیں کئی احتمالات اور کئی معانی رکھتی ھیں ۔تم ان سے بعض آیات سے استدلال کروگے اور وہ تمھیں بعض دوسری آیات سے جواب دیں گے۔
یہ مسلم ھے کہ امام کی یہ گفتگو قرآن کی تمام آیات سے متعلق نھیں تھی بلکہ آپ کی گفتگو ان آیات سے متعلق تھی جو دو پھلووالی ھیں ،بظاھرروشن و واضح نھیں ھیں اور ان کا مفھوم و مفاد قطعی نھیں ھے۔
اس اعتبار سے امت کے درمیان ایک امام معصوم کا وجود جو اسلام کے اصول و فروع سے پوری طرح آگاہ ھو ،قرآن کریم کے علوم پر کامل تسلط رکھتا ھو اور امت کے درمیان ایک علمی و فکری پناھگاہ ھو۔ اختلافات دور کرے اور اس کی بات فیصلہ کن ھو، لازم و ضروری ھے ورنہ دوسری صورت میں اختلافات بڑھتے جائیں گے بلکہ بعض احکام اور قرآنی آیات کی تفسیرغلط کی جائے گی جو مسلمانوں کے قرآنی حقائق سے دور ھو جانے کا باعث ھوگی۔
ھشام ابن حکم ھشام
،امام جعفر صادقںکے زبردست شاگرد اور دوسری صدی ھجری میں علم مناظرہ اور علم کلام کے استاد تھے انھوں نے امت کے درمیان اختلاف دور کرنے اور صحیح فیصلہ کے لئے امام کے وجود کی ضرورت پر روشنی ڈالی ھے کہ آپ نے ایک روز فرقہ معتزلہ کے سردار اور بصرہ کے پیشوا عمر وبن عبید سے امت کے درمیان امام معصوم کے وجود کی ضرورت پر بحث کی شروع اور اس سے درخواست کی کہ میرے سوالوں کے جواب دو ۔ عمر و بن عبید نے بھی قبول کیا۔ ھشام نے پوچھا:
تمھارے آنکھ ھے ؟
ھاں
اس سے کیا کام لیتے ھو ؟
اس سے لوگوں اور چیزوں کو دیکھتاھوں اور رنگوں کی تشخیص دیتا ھوں۔
تمھارے کان ھے؟
ھاں؟
اس سے کیا کام لیتے ھو؟
اس سے آواز سنتا ھوں ۔
تمھارے ناک ھے ؟
ھاں۔
اس سے کیا کام لیتے ھو؟
اس سے بو سونگھتا ھوں۔
اس کے بعد ھشام نے دوسرے حواس یعنی قوت ذائقہ و لامسہ اور بدن کے دوسرے اعضاء مثلا انسان کے جسم میں ھاتھ اور پاؤں وغیرہ کے بارے میں سوال کیا اور عمر وبن عبید نے ان سب کا صحیح جواب دیا۔ پھر ھشام نے پوچھا : تمھارے دل ھے ؟ ھاں ۔انسان کے بدن میں اس کا کیا کام ھے ؟ عمرو نے جواب دیا کہ جو کچہ بدن کے تمام اعضاء و جوارح انجام دیتے ھیں قلب کے ذریعہ انھیں تشخیص دیتا ھوں ۔ اور جب بھی انسانی حواس میں سے کوئی خطا کرتا ھے یا بدن کا کوئی حصہ شک میں مبتلا ھوتا ھے تو قلب و دل کی طرف رجوع کرتا ھے اور اپنے شک کو دور کردیتا ھے۔
اس وقت ھشام نے اس بحث سے نتیجہ حاصل کرتے ھوئے کھا کہ جس خدا نے جسم کے حواس اور اعضا ء کی شک و تردید دور کرنے کے لئے بدن میں ایک ایسی پناھگاہ اور مرکزی چیز پیدا کی ھے کیا یہ ممکن ھے کہ انسانی معاشرہ کو یوں ھی اس کے حال پر جھوڑ دے اور اس کے لئے کوئی پیشوا و رھبر معین نہ کرے کہ انسانی معاشرہ اپنے شک ،حیرانی اور خطا کو اس کے ذریعہ دور کرے اور صحیح راہ اختیار کر سکے ! (4)
امام جعفر صادق(ع)،جانشین پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مرتبہ اور اس کی حیثیت کو یوں بیان فرماتے ھیں: پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد ایسے امام کا وجود لازم و ضروری ھے جو الٰھی احکام کو ھر طرح کی گزند اور کمی و زیادتی سے محفوظ رکھے اور ان کی حفاظت کرے ۔ (5) ھشام ابن حکم نے ایک روز حضرت امام جعفر صادق ںکی موجودگی میں شام کے ایک عالم سے مناظرہ کیا اور اس تفصیلی مناظرہ کے دوران اس سے پوچھا کہ کیا خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے درمیان ھر طرح کے اختلافات دور کرنے کے لئے کوئی دلیل و حجت ان کے حوالے کی ھے ؟ اس نے کھا: ھاں اور وہ دلیل و حجت قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سنت یعنی ان کی احادیث ھیں ۔ ھشام نے پوچھا : کیا قرآن و احادیث اختلافات دور کرنے کے لئے کافی ھیں ۔اس نے جواب دیا ھاں ۔تو ھشام نے کھا اگر کافی ھیں تو پھر ھم دونوں جو ایک مذھب رکھتے ھیں اور ایک ھی درخت کی شاخیں ھیں آپس میں اختلاف کیوں رکھتے ھیں؟ اور ھم میں سے ھر ایک نے ایسی راہ کیوں اختیار کر رکھی ھے جو دوسرے کے خلاف ھے ؟! اس پر اس شامی عالم کو خاموشی اختیار کرنے اور حقانیت کا اعتراف کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ (6)
حوالہ جات
(۱) سورہ احقاف/15
(۲) سورہ بقرہ /232
(۳)۔ حضرت امیر المومنین علی اس قسم کی آیات کے بارے میں فرماتے ھیں :”کتاب اللہ تبصرون بہ ،وتسمعون بہ و ینطق بعضہ ببعض و یشھد بعضہ علی بعض“
(۴) اصول کافی ،ج/1ص/170
(۵) اصول کافی ،ج/1ص/172
(۶) اصول کافی ،ج/1ص/17۸