قرآن اور دیگر آسمانی کتابیں
  • عنوان: قرآن اور دیگر آسمانی کتابیں
  • مصنف:
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 21:2:4 13-9-1403

آسمانی کتابوں کے نزول کا فلسفہ:

ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ نے عالم انسانیت کی ہدایت کے لئے بہت سی آسمانی کتابیں بھیجیں جیسے صحف ابراہیم ،صحف نوح،توریت،انجیل اور ان میں سب سے جامع قرآن کریم ہے ۔اگر یہ کتابیں ناز ل نہ ہوتیں تو انسان اللہ کی معرفت اور عبادت میں بہت سے غلطیوں کا شکار ہو جاتا اور اصول تقویٰ ،اخلاق وتربیت اور سماجی قانون جیسی چیزوں سے دور ہی رہتا ۔
یہ آسمانی کتابیں دل کی سرزمین پر باران رحمت کی طرح برسیں اور دل میں پڑے ہوئے اللہ کی معرفت ،تقویٰ،اخلاق و علم وحکمت کے بیج کو نمو عطا کیا آمن الرسول بما انزل الیہ من ربہ والمومنون کل آمن باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ یعنی پیغمبر وںپر جو کچھ اللہ کی طرف سے نازل ہواوہ اس پر ایمان لائے اور مومنین بھی اللہ ،اس کے رسول، اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں پر ایمان لائے۔
افسوس ہے کہ زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اور جاہل و نااہل افراد کی دخالت کی بنا پر بہت سی آسمانی کتابیں تحریف کاشکا ر ہوگئیں اوران میں بہت سی غلط فکریںداخل کردی گئیں۔لیکن قرآن کریم اس تحریف سے محفوظ رہتے ہوئے ہر زمانہ میں چمکتے ہوئے آفتاب کی طرح دلوں کو روشن کررتا رہاقد جائکم من اللہ نوروکتاب مبین یہدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام> یعنی اللہ کی طرف سے تمھارے پاس نور اور روشن کتاب آچکی ہے جس کے ذریعہ خدا اپنی خوشنودی کا اتباع کرنے والوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے ۔

قرآن کریم پیغمبر اسلام کا سب سے بڑا معجزہ ہے:

ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم پیغمبر اسلام کا سب سے بڑا معجزہ ہے اور یہ فقط فصاحت و بلاغت ،شیریںبیا نی اور معنی کے رسا ہونے کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ دیگرپہلوؤں سے بھی معجزہ ہے ۔ ان تمام پہلوؤں کی شرح عقائدوکلام کی کتابوں میں مفصل طریقہ سے بیان کردی گئی ہے۔
اسی وجہ سے ہمارا عقیدہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی قرآن کا جواب نہیں لاسکتا یہاں تک کہ لوگ اس کے ایک سورہ کے مثل سورہ نہیں لاسکتے۔قرآن کریم نے ان لوگوں کو جو اس کے کلام خدا ہونے کے بارے میں شک و تردد میں مبتلاتھے کئی مرتبہ اپنے مقابلہ کی دعوت دی مگر وہ ا س کے مقابلہ کی ہمت نہ کرسکےقل لئن اجتمعت الانس والجن علیٰ یاٴتوا بمثل ہٰذا القرآن لا یاٴتون بمثلہ ولوکان بعضہم لبعض ظہیراً یعنی اے رسول کہہ دو کہ اگر جن وانس مل کراس بات پر متفق ہو جائیں کہ قرآن کے مانند کوئی کتاب لے آئیں تو بھی اس کے مثل نہیں لاسکتے ،چاہے وہ اس کام میں ایک دوسرے کی مدد ہی کیوں نہ کریں وان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاٴتوا بسورة من مثلہ وادعوا شہدائکم من دون اللہ ان کنتم صادقین یعنی اگر تمھیں اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جس کو ہم نے اپنے بندے (رسول)پر نازل کیا ہے تو اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ اور اللہ کے علاوہ تمھارے جتنے بھی مددگار ہیں سب کو بلا لو اگر تم سچے ہو۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جارہا ہے ویسے ویسے قرآن کے اعجاز کے نکات پرانے ہونے کے بجائے اور زیادہ روشن ہوتے جارہے ہیں اور قران کی عظمت تمام دنیا کے سامنے روشن و آشکار ہورہی ہے۔
امام صادق علیہ السلام نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ ” ان اللہ تبارک وتعالیٰ لم یجعلہ لزمان دون زمان ولناس دون ناس فہو فی کل زمان جدید وعند کل قوم غض الیٰ یوم القیامة“ یعنی اللہ نے قرآن کریم کو کسی خاص زمانہ یا کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں کیا ہے اسی وجہ سے یہ ہرزمانہ میں نیا اور قیامت تک ہر قوم کے لئے تزوتازہ رہے گا۔

قرآن میں تحریف نہیں ہوئی :

ہمارا عقیدہ ہے کہ آج جو قرآن کریم امت مسلمہ کے ہاتھوں میں ہے یہ وہی قرآن ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہواتھا ،نہ اس میں سے کچھ کم ہوا ہے اور نہ ہی اس میںکچھ اضافہ کیاگیا ہے۔
پہلے دن سے ہی کاتبان وحی کے ایک بڑے گروہ کا آیتوں کے نزول کے بعد ان کو لکھناا اور مسلمانوں کا ذمہ داری کے ساتھ رات دن ان کی تکرار کرنا اور اپنی پنجگانہ نمازوں میں ان کی تلاوت کرنا،اصحاب کے ایک بڑے گروہ کا آیات قرآن کو حفظ کرنا ،یہ سب باتیں اس بات کا سبب بنیں کہ قرآن کریم میں کوئی معمولی سی بھی تحریف واقع نہ ہوسکی ، الحمد للہحافظان وقاریان قرآن کا اسلامی سماج میں ہمیشہ سے ہی ایک اہم مقام رہا ہے اور آج بھی ہے ۔
اس کے علاوہ اللہ نے اس کی حفاظت کی خود ضمانت لی ہے۔ لہٰذا اللہ کی ضمانت کے بعد اس میں تحریف نہ ممکن ہے یعنی ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرتے ہیں۔
تمام علماء اسلام چاہے وہ سنی ہوںیاشیعہ اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کریم میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے ۔دونوں طرف کے صرف چند افراد ہی ایسے ہیں جنھوں نے قرآن کریم میں تحریف کے وجود کو روایتوں کے ذریعہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن دونوں گروہ کے جید علماء نے اس نظریہ کی تردید کی ہے اور تحریف سے متعلق روایات کو جعلی یا پھر تحریف معنوی سے منسوب مانا ہے۔تحریف معنوی یعنی قرآن کریم کی آیات کی غلط تفسیر ۔
وہ کوتاہ فکر افراد جو قرآن کریم کی تحریف کے سلسلہ میںمصر ہیں اور شیعہ یا سنی مذہب کی طرف تحریف کی نسبت دیتے ہیں ان کا نظریہ دونوں مذہبوں کے مشہور وبزرگ علماء کے نظریوں کے خلاف ہے۔یہ لوگ نادانی میں قرآن کریم پر وار کرتے ہیں اور نا روا تعصب کی بنا پر اس عظیم آسمانی کتاب کے اعتبار کو ہی زیر سوال لے آتے ہیںاور اپنے اس عمل کے ذریعہ دشمن کو تقویت پہونچاتے ہیں ۔
قرآن کریم کی جمع آوری کی تاریخ کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے ہی مسلمانوں نے قرآن کریم کی کتابت ،حفظ،تلاوت اور حفاظت کے فوق العادہ انتظامات کئے تھے۔خاص طور پر پہلے دن سے ہی کاتبان وحی کاوجود ہمارے لئے اس بات کو روشن کردیتا ہے کہ قرآن کریم میں تحریف ناممکن ہے ۔
ہمارا عقید ہے کہ اس مشہور قرآن کے علاوہ کسی دوسرے قرآن کا وجود نہیں ہے ۔اس کی دلیل بہت ہی روشن ہے سب کے لئے تحقیق کا دروازہ کھلا ہوا ہے ،جس کا دل چاہے آکر تحقیق کرے آج ہمارے گھروں میں ،مسجدوں میں اور ہمارے عمومی کتاب خانوں میں قرآن کریم موجود ہے۔یہاںتک کہ قرآن کریم کے کئی کئی سو سال پرانے خطی نسخے بھی ہمارے عجائب گھروں میں موجودہیں جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ وہی قرآن ہے جو آج تمام اسلامی ممالک میں رائج ہے۔اگر ماضی میں ان مسائل پر تحقیق ممکن نہیںتھی تو آج تو سب کے لئے تحقیق کا دروازہ کھلا ہوا ہے ایک مختصر سی تحقیق کے بعد اس ناروا نسبت کا بے اساس ہونا ظاہر ہو جائے گا۔
< فبشر عبادی الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ> یعنی میرے بندوں کو خوش خبری دو ، ان بندوں کو جو باتوں کو سن کر ان میں سے نیک باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔آج کل ہمارے حوزات علمیہ میں علوم قرآن کی وسیع پیمانہ پر تدریس ہورہی ہے اور ان دروس میں سب سے اہم بحث عدم تحریف قرآن کریم ہے ۔

قرآن اورانسان کی مادی ومعنوی ضرورتیں:

وہ تمام چیزیں جن کی انسان کو اپنی مادی ومعنوی زندگی میں ضرورت ہے ان کے اصول قرآن کریم میںبیان کردئیے گئے ہیں چاہے وہ حکومت چلانے کے قوانین ہوں یا سیاسی مسائل ،دوسری اقوام سے رابطہ کے معاملات ہوں یا باہم زندگی بسر کرنے کے اصول، جنگ و صلح کے مسائل ہوں یا قضاوت اقتصاد کے اصول یا ان کے علاوہ اور کوئی معاملات تمام کے قواعد کلی کو اس طرح بیان کردیا گیا ہے کہ ان پر عمل پیرا ہونے سے ہماری زندگی کی فضا روشن ہو جاتی ہے یعنی ہم نے اس کتاب کو آپ پر نازل کیا جو تمام چیزوں کو بیان کرنے والی ہے اور مسلمانوں کے لئے رحمت، ہدایت اور بشارت ہے ۔
اسی بنا پر ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ” اسلام “ ”حکومت وسیاست“سے ہرگز جدا نہیں ہے۔بلکہ مسلمانوں کو فرمان دیتا ہے کہ زمام حکومت کو اپنے ہاتھوں میں سنبھالو اور اس کی مدد سے اسلام کی ارزشوں زندہ کرو اور اسلامی سماج کی اس طرح تربیت کرو کہ عام لوگ قسط و عدل کی راہ پر گامزن ہوجائےں، یہاں تک کہ دوست و دشمن دونوں کے ساتھ عدالت سے کام لیں یعنی اے ایمان لانے والو عد ل وانصاف کے ساتھ قیام کرو اور اللہ کے لئے گواہی دو چاہے وہ گواہی خود تمھارے یا تمھارے والدین کے یا تمھارے اقرباء کے ہی خلاف کیوں نہ ہو خبردار کسی گروہ کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف کو ترک کردو ،انصاف کرو کہ یہی تقویٰ سے قریب تر ہے۔

قران کریم کی تلاوت ،تدبر اورعمل:

قرآن کریم کی تلاوت افضل ترین عبادتوں میں سے ایک ہے اور بہت کم عبادتیں ایسی ہیں جو اس کے پایہ کو پہونچتی ہیں ۔کیونکہ یہ الہام بخش تلاوت قرآن کریم میں غوروفکر کا سبب بنتی ہے اور غوروفکر نیک اعمال کا سرچشمہ ہے ۔
قرآن کریم پیغمبر اسلام کو مخاطب قراردیتے ہوئے فرماتا ہے کہ یعنی رات کو اٹھومگرذرا کم،آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم یا کچھ زیادہ کردو اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر غور کے ساتھ پڑھو۔
اور قرآن کریم تمام مسلمانوںکو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یعنی جس قدر ممکن ہو قرآن پڑھا کرو۔
لیکن اسی طرح جس طرح اوپر کہا گیا ہے کہ قرآن کی تلاوت اس کے معنی میں غوروفکر کا سبب بنے اور یہ غوروفکر قرآن کریم کے احکام پر عمل پیرا ہونے کا سبب بنے کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں یعنی اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کردیا تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے یعنی ہم نے جو یہ کتاب نازل کی ہے بڑی برکت والی ہے لہٰذااس کی پیروی کرو ۔لہذا جو لوگ صرف تلاوت وحفظ پر ہی قناعت کرتے ہیں اور قرآن پر ”تدبر “ و”عمل“ نہیں کرتے اگرچہ وہ تین رکنوں میں سے ایک رکن کو تو انجام دیتے ہیں لیکن دو اہم رکنوں کو چھوڑدیتے ہیں جس کے سبب انھیں بہت بڑا نقصان برداشت کرنا پڑتاہے۔

انحرافی بحثیں :

ہمارا ماننا ہے کہ مسلمانوں کو قرآن کریم کی آیتوں پر عمل اور تدبر سے روکنے کے لئے ہمیشہ ہی سازشیں ہوتی رہی ہیں ان سازشوں کے تحت ہی بنی امیہ وبنی عباس کے دور حکومت میں اللہ کے کلام کے قدیم یاحادث ہونے کی بحثوں کو ہوا دے کر مسلمانوں کو دو گروہ میں تقسیم کیا گیا جس کے سبب بہت سی خونریزیاں ہوئیں۔جب کہ آج ہم سب جانتے ہیںکہ ان بحثوں میں نزع اصلاً مناسب نہیں ہے کیونکہ اگر اللہ کے کلام سے حروف ،نقوش، کتابت وکاغذ مراد ہے تو بیشک یہ سب چیزیں حادث ہیں اور اگر اس سے علم پروردگار مراد ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی ذات کی طرح یہ بھی قدیم ہے۔ لیکن ستم گر حکام اور ظالم خلفاء نے مسلمانوں کو برسوں تک اس مسئلہ میں الجھائے رکھا اور آج بھی مسلمانوں کو قرآنی آیات پر تدبر وعمل سے روکنے کے لئے ایسی ہی سازشیں ہورہی ہیں اورحصول مقصد کے لئے مختلف طریقے اپنائے جارہے ہیں۔

قرآن کریم کی تفسیر کے ضوابط:

ہمارا مانناہے کہ جب تک آیت میں مجازی معنی کے لئے کوئی عقلی یا نقلی قرینہ موجود نہ ہوتو قرآن کریم کے الفاظ کو ان کے لغوی اور عرفی معنی میں ہی استعمال کرنا چاہئے(لیکن مشکوک قرینوں کا سہارا لینے سے بچنا چاہئے اور قرآن کریم کی آیات کی تفسیر حدس یا گمام کی بنا پر نہیں کرنی چاہئے۔
جیسے قرآن کریم فرماتا ہے کہ یعنی جو اس دنیا میں نابینا رہا وہ آخرت میں بھی نابینا ہی رہے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ یہاں پر”اعمیٰ“ کے لغوی معنی نابینا مراد نہیں ہوسکتے اس لئے کہ بہت سے نیک لوگ ظاہراً نابیناتھے بلکہ یہاں پر باطنی کور دلی ونابینائی ہی مراد ہے۔یہاں پر عقلی قرینہ کا وجود اس تفسیر کا سبب ہے ۔
اسی طرح قرآن کریم اسلام دشمن ایک گروہ کے بارے میں فرمارہا ہے یعنی وہ بہرے ،گونگے اور اندھے ہیں ،اس وجہ سے کوئی بات نہیں سمجھ پاتے ۔یہ بات روز روشن کی طرح آشکار ہے کہ وہ ظاہری طورپر اندھے ،بہرے اورگونگے نہیں تھے۔ بلکہ یہ ان کے باطنی صفات تھے (ہم یہ تفسیر قرینہ حالیہ کے موجود ہونے کی وجہ سے کرتے ہیں)

اسی بنا پر قرآن کریم کی وہ آیتیں جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں فرماتی ہیں کہ یعنی اللہ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں ۔یا یعنی اے نوح ہمارے آنکھوں کے سامنے کشتی بناؤ۔ان آیات کا مفہوم یہ ہرگز نہیں ہے کہ اللہ کے آنکھ،کان اور ہاتھ پائے جاتے ہیں اور وہ مجسم ہے ۔کیونکہ ہر جسم میں اجزاء پائے جاتے ہیں اور اس کو زمان،مکان وجہت کی ضرورت ہوتی ہے اور آخرکار وہ فناہوجاتاہے، اللہ اس سے برترو بالا ہے کہ اس میں یہ صفات پائے جائیں۔لہٰذا ”یداہ “یعنی ہاتھوں سے مراد اللہ کی وہ قدرت کاملہ ہے جو پورے جہان میں نافذ ہے اور ”اعین“ یعنی آنکھوں سے مراد اس کا علم ہے ہرچیز کی نسبت۔اس بنا پر ہم اوپربیان کی گئتعبیرات کو چاہے وہ اللہ کے صفات کے بارے میں ہو یا غیر صفات کے بارے میں عقلی یا نقلی قرینوں کے بغیر قبول نہیں کرتے ۔کیونکہ تمام دنیا کے سخنوروں کی روش انھیں دو قرینوں پر منحصر رہی ہے اور قرآن کریم نے بھی اس روش کو قبول کیا ہے یعنی ہم نے جن قوموں میں رسولوں کو بھیجا انھیں قوموں کی زبان عطا کرکے بھیجا۔لیکن یہ بات یادر ہے کہ یہ قرینے روشن ویقنی ہونے چاہئے جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا جاچکا ہے ۔

تفسیر بالرای کے خطرات:

ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کے لئے سب سے خطرناک کام اپنی رائے کے مطابق تفسیر کرناہے ۔اسلامی روایات میں جہاں اس کام کو گناہ کبیرہ سے تعبیرکیاگیا ہے وہیں یہ کام اللہ کی بارگاہ سے دوری کا سبب بھی بنتا ہے۔ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ اللہ نے فرمایا”ما آمن بی من فسر برائیہ کلامی“ یعنی جو میرے کلام کی تفسیر اپنی رائے کے مطابق کرتا ہے وہ مجھ پر ایمان نہیں لایا ہے۔ظاہر ہے کہ اگر ایمان پختہ ہو تو انسان کلام خدا کو اسی حالت میں قبول کرے گا جس حالت میں ہے نہ یہ کہ اسے اپنی رائے کے مطابق ڈھالے گا۔
صحیح بخاری ،ترمذی،نسائی اور سنن داؤد جیسی مشہور کتابوں میں بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی یہ حدیث موجود ہے کہ”من قال فی القرآن برائیہ اوبما لایعلم فلیتبوء مقعدہ من النار“ یعنی جو قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے یا علم نہ ہوتے بھی قرآن کے بارے میںکچھ کہے تووہ جہنم میں اپنے ٹھکانے کے لئے تیار رہے ۔
تفسیر بالرای یعنی اپنے شخصی یا گروہی عقیدہ یانظریہ کے مطابق قرآن کریم کے معنی کرنا اور اس عقیدہ کو قرآن کریم سے تطابق دینا جب کہ اس کے لئے کوئی قرینہ یا شاہد موجود نہ ہو ۔ایسے افراد درواقع قرآن کریم کے تابع نہیں ہیں بلکہ وہ قرآن کریم کو اپنا تابع بنانا چاہتے ہیں ۔ اگر قرآن کریم پر مکمل طور پرایمان ہو تو ہر گز ایسانہ کریں ۔اگر قرآن کریم میں تفسیربالرای کا باب کھل جائے تو یقین ہے کہ قرآن کریم کا اعتبار کلی طورپر ختم ہوجائے گا ، جس کا بھی دل چاہے گا وہ اپنی پسند سے قرآن کریم کے معنی کرے گااور اپنے باطل عقیدوں کو قرآن کریم سے تطبیق دے گا۔ اس بنا پر تفسیر بالرای یعنی علم لغت ،ادبیات عرب واہل زبان کے فہم کے خلاف قرآن کریم کی تفسیر کرنا اور اپنے باطل خیالات و گروہی یا شخصی خواہشات کو قرآن سے تطابق دینا ،قرآن کریم کی معنوی تحریف کا سبب ہے ۔
تفسیر بالرای کی بہت سی قسمیں ہیں ان میں سے ایک قسم یہ ہے کہ انسان کسی موضوع پر جیسے ” شفاعت“ ” توحید“ ”امامت“ وغیرہ کے لئے قرآن کریم سے صرف ان آیتوں کا انتخاب کرے جو اس کی فکر سے میل کھاتی ہوں اور ان آیتوں کو نظر انداز کردے جو اس کی فکر سے ہماہنگ نہ ہوں جب کہ وہ دوسری آیات کی تفسیر بھی کرسکتی ہوں۔
خلاصہ یہ کہ جس طرح قرآن کریم کے الفاظ پر جمود ،عقلی ونقلی قرینوں پر توجہ نہ دینا ایک طرح کا انحراف ہے اسی طرح تفسیر بالرای بھی انحراف کی ایک قسم کا ہے اور یہ دونوں قرآن کریم کی عظیم تعلیمات سے دوری کا سبب ہے۔اس مسئلہ پر توجہ دینا نہایت ضروری ہے ۔

سنت ، اللہ کی کتاب سے نکلی ہے:

ہمارا عقیدہ ہے کہ کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ ” کفانا کتاب اللہ “ یعنی ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے اور حدیث وسنت نبوی (جو کہ قرآن کریم کی تفسیر و اس کے حقائق کو بیان کرنے ،قرآن کریم کے ناسخ ومنسوخ ،عام و خاص کو سمجھنے اور اصول وفروع میں اسلامی تعلیمات کو جاننے کا ذریعہ ہے )کی ضرورت نہیں ہے۔”اس عبارت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تاریخ میں ایساکسی نے نہیںکہا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی سنت کے بغیر تنہا کتاب کے ذریعہ اسلام کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔(مترجم)
کیونکہ قرآن کریم کی آیات نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو چاہے وہ لفظی ہو یا عملی مسلمانوں کے لئے حجت قراردیا ہے اور آپ کی سنت کو احکام کے استنباط و مفہوم اسلام کو سمجھنے کے لئے ایک اصلی منبع مانا ہے رسول جو تمھیں دے لے لو (یعنی جس چیز کا حکم دے اسے انجام دو )اور جس بات سے منع کرے اس سے پرہیز کرو۔
یعنی کسی بھی مومن مرد یا عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جب کسی امر میںاللہ یا اس کا رسول کوئی فیصلہ کردے تو پھر وہ اس امر میں اپنے اختیار سے کا م لے اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہے۔
جوسنت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرواہ نہیں کرتے درحقیقت انھوں نے قرآن کریم کو نظرانداز کردیا ہے ۔لیکن سنت کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ معتبر ذرائع سے ثابت ہو ،ایسا نہیں ہے کہ جس نے بھی حضرت کی سیرت کے متعلق جو کچھ کہہ دیا سب قبول کرلیا جائے ۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ”ولقد کذب علیٰ رسول اللہ (ص) حتیٰ قام خطیباً فقال ‘ من کذب علیّ متعمداً فالیتبوٴ مقعدہ من النار“ یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں بہت سے جھوٹی باتوں کو پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت دی گئتو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ جو عمداً کسی جھوٹی بات کو میری طرف منسوب کرے وہ جہنم میں اپنے ٹھکانے کے لئے آمادہ رہے ۔
اس مفہوم سے ملتی جلتی ایک حدیث صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔

سنت ائمہ اہل بیت علیہم السلام:

ہماراعقیدہ یہ بھی ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث بھی واجب الاطاعت ہے کیونکہ :

الف) مشہور ومعروف و متواتر حدیث جو کہ اہل سنت وشیعہ دونوںمذہبوں کی اکثر کتابوں میںنقل کی گئی ہے اس میں بھی اس معنی کی تصریح ہے ۔صحیح ترمذی میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث موجود ہے کہ آپ نے فرمایا : ” یا ایہا الناس انی قد ترکت فیکم ما ان اخذتم بہ لن تضلوا کتاب اللہ وعترتی واہل بیتی“

ب) ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے اپنی تمام حدیثیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی ہیں اور فرمایا ہے کہ ہم جو کچھ بیان کررہے ہیں یہ پیغمبر اسلام سے ہمارے باپ دادا کے ذریعہ ہم تک پہونچاہے ۔

ہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات طبیہ میں ہی مسلمانوں کے مستقبل و ان کی مشکلات کو اچھی طرح محسوس کرلیا تھا لہٰذا امت کو ان کے حل کا طریقہ بتایا اور فرمایا کہ قیامت تک پیش آنے والی تمام مشکلات کا حل قرآن کریم واہل بیت کی پیروی میں ہے۔
کیا اتنی اہم اور قوی السند حدیث کو نظر انداز کیاجاسکتا ہے؟ اسی لئے ہمار ا عقیدہ ہے کہ اگر قرآن کریم واہل بیت علیہم السلام کے مسئلہ پر توجہ دی جاتی تو آج مسلمان عقائد ،تفسیر اور فقہ کی بعض مشکلوں میں گرفتار نہ ہوتے۔