اس پہلی رات سے جب قرآن رسول اکرم(ص) پر نازل ھوا معنویت کی پیاسی سرزمین "حجاز" رحمت الھی کا مرکز قرارپائی اور اس چشمہ فیض الھی سے ارتباط کے راستے ھموار ھوگئے اور قرآن زمین وآسمان کوملانے کی کڑی ھوگیا۔کلام الھی سے انس اور چوبیس گھنٹے اس کی آیتوں کی تلاوت کی سرگوشی اس طرح سے تھی کہ رسول اسلام(ص) گھروں کے افراد کوان کی آواز قرآن کے ذریعہ پہچانتے تھے۔ 1کچھ لوگ قرأت اور کچھ حفظ اور کچھ افراد آیات الھی میں غوروخوض کیاکرتے تھے اور اسلامی معاشرہ بھی تعلیمات قرآن پرعمل پیراتھا۔
اسکے باجود کیوں قرآن یہ کھتاھے کہ رسول اسلام(ص) قیامت کے دن قرآن کی مجھوریت کا شکوہ کریں گے؟ کیا آنحضرت(ص) اپنے زمانے کی امت سے نالاں ھیں یااس دور کے بعد والے مسلمانوں سے؟ اگر اس زمانہ میں صحابہ اور رسول اسلام(ص) کے درمیان ارتباط کو مدنظر رکھاجائے توظاھراً ایسا لگتاھے کہ یہ شکایت رسول کے بعد والی امت سے مربوط ھے۔
آیٔہ شریفہ (رب ان قومی اتخذوا هذ القرآن مهجورا) 2 کے ذیل میں ایسی کوئی معتبر روایت نھیں پائی جاتی جس کے ذریعہ صحیح فیصلہ ھو سکے لیکن مزکورہ باتوں کو مد نظر رکھتے ھوئے بھت محتمل ھے کہ یہ شکایت پیغمبر اسلام(ص) کے بعدآنے والی امتوں سے مربوط ھے۔
مقاله حاضر کا ھدف یہ ھے کہ قرآن کے سلسلہ میں موجود روایتوں کی رتبہ بندی کرسکے تا کہ قرآن مھجوریت سے نکل آئے البتہ یہ رتبہ بندی پیغمبر(ص) اور معصومین(ع) کےتمام نورانی اقوال میں پائی جاتی ھے۔ھم نے فقط اس رتبہ بندی کوآشکار کیاھے۔قرآن سے مربوط روایتوں میں سیرطولی کاماحصل یہ ھوگا کہ ھرکوئی اپنے ظرف کی وسعت اور اپنی قدرت کے برابر قرآن سے بھرہ مند ھوسکے اور ایک مرحلہ کی ناتوانی اسے قبل کے مراحل سے محروم نہ کردے ۔ جیسے نماز پڑھنے کے سلسلے میں موجود روایتوں سے فقھاء نے ایک قاعدہ اخذ کیا ہے کہ جس قاعدہ کے تحت کوئی شخص ترک نماز کاعذر نھیں رکھتا اور کھاگیا "الصلوة لایترک بحال" نماز کسی حال میں بھی ترک نھیں ھونی چاھئیے۔
اسی طرح سے قرآن کے سلسلہ میں بھی اگر ھم چاھتے ھیں اسے مہجوریت سے خارج کریں تو کوئی شخص کسی بھی حال میں قرآن سے اپنا رابطہ قطع نہ کرے۔ ھاں نماز کے لئے ایک حکم الزامی ھے لیکن قرآن کے سلسلہ میں کوئی الزام وتکلیف نھیں پائی جاتی اگر قرآن سے متعلق روایتوں کو اس طرح رتبہ بندی نہ کریں توان کے درمیان سخت تعارض واقع ھوگا۔ مثال کے طور پربعض ایسی روایتیں ھیں جو صرف تلاوت کاحکم دیتی ھیں اور اس بات کی تاکید کرتی ھیں یھاں تک کہ پیغمبراسلام(ص) سے مروی ھے کہ: "اگرکوئی قرآن کو غلط پڑھے اور اصلاح کرنے پرقادرنہ ھو، تو ایک فرشتہ مامور ھوگاجواسے صحیح طریقہ سے اوپرلے جائے" 3 یا بعض دوسری روایتوں میں قرآن سننے کے لئے ثواب ذکر کیا گیا ھے یھاں تک کہ غیرارادی طور پر بھی سننا مستحق اجر و جزا جانا گیا ھے۔
اس کے مقابل میں پیغمبر(ص) اور آئمہ(ع)سے بھت سی ایسی روایتیں پائی جاتی ھیں جو اشارہ کرتی ھیں کہ تدبر اور تفکر کے بغیر قرائت میں کوئی خیر و برکت نھیں ھے یا وہ روایتیں جو صرف قرآن پرعمل پیرا ھونے کے ارزش کی قائل ھیں۔ یہ تعارض برطرف ھونا چاہئیے اور تعارض برطرف کرنے کاصرف ایک طریقہ یہ ھے کہ کھا جائے یہ تمام روایتیں اپنے اپنے طبقہ کے مخاطبین سے مربوط ھیں، بعض فقط قرآن کو گھر میں رکھ سکتے ھیں حتیٰ کہ قرائت سے بھی عاجز ھیں بعض فقط اس کی طرف دیکھ سکتے ھیں، بعض اس میں غور و فکر کرتے ھیں اور بعض اس پرعمل کرتے ھیں اور جو ان تمام مراتب کو جمع کرلے " طوبیٰ لہ وحسن مآب " ۔
اس تقسیم بندی کی تائید امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت بھی کرتی ھے آپ(ع) فرماتے ھیں: " کتاب الله علیٰ اربعة: العبارة للعوام، الاشارة للخواص، اللطائف للاولیاء والحقائق للانبیاء " ۔ 4
بعض لوگوں کا قرآن سے بھرہ مند ھونا عبارات وظواھر تک ھے بعض کے لئے وھی ظواھر اشارہ ھیں معنیٰ خاص کی طرف۔ اولیاء الھی قرآنی آیتوں سے لطائف تک پھنچتے ھیں اور انبیاء آیات الھی کے بطون اور اپنے اپنے مراتب درک کے پیش نظرحقائق کے اس اعلی مراتب پر پھنچ جاتے ھیں جھاں دوسرے پھنچنے سے عاجز ھیں ۔
البتہ اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ھے کہ شیعہ ائمہ بھی حقیقت قرآن سے آگاہ ھیں اور عوام جس چیز کو سمجھنے سے عاجز ھے اس کا علم رکھتے ھیں۔ یھاں بطون قرآن سے مربوط چندروایت کی طرف اشارہ کریں گے۔ 5 چونکہ قرآن کے لئے بطن کا ثابت کرنا در واقع تاکید ھے اس بات پرکہ اولاً قرآن کے سلسلے میں سب کی سمجھ ایک جیسی نھیں ھے، ثانیاً ظاھر و باطن ایک امر نسبی ھے ممکن ھے کوئی چیز کسی شخص کے لئے باطن آیت ھو لیکن دوسرے کے لئے وہ ظاھر ھو یااس کے برعکس اور یہ ایک مھم بحث ھے۔ 6
بطون قرآن سے متعلق دو سوال مطرح ھیں ایک یہ کہ آیا قرآن بطن رکھتا ھے؟ دوسرے یہ کہ ان بطون کی تعداد کتنی ھے؟
پھلے سوال کے جواب میں کھناچاھئیے: قرآن ظاھر کے علاوہ باطن بھی رکھتا ھے اور روایات اس بات کو ثابت کرتی ھیں .امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: "ان للقرآن ظھراًو بطناً" 7 یہ روایت "اصول کافی" کے علاوہ "من لایحضرہ الفقیہ"، "محاسن برقی" اور "تفسیر عیاشی" میں مختلف سند کے ذریعہ نقل کی گئی ھے۔
دوسری حدیث میں جابر نقل کرتے ھیں کہ میں نے امام باقر علیہ السلام سے ایک آیت کی تفسیر پوچھی آپ نے جواب دیا: دوبارہ دریافت کیا تو آپ نے دوسرا جواب فرمایا دونوں جوابوں کے اختلاف کے بارے میں عرض کیا تو فرمایا: "یا جابر! ان للقرآن بطناً وللبطن ظھراً" 8 کتاب محاسن میں اس روایت کو دوسری طرح پیش کیا گیا ھے اور "للبطن ظهراً" کی جگہ "للبطن بطناً" آیا ھے لیکن یہ اختلاف ھمارے مدعیٰ (بطن قرآن)کے اثبات میں مانع نھیں ھے۔
اب رھا دوسرا سوال کہ قرآن کے کتنے بطن ھیں؟ مشھور ھے کہ قرآن کے لئے ستّر بطن ذکر کئے گئے ھیں لیکن نہ تو عدد سات اور نہ ھی ستر معتبر روایت رکھتے ھیں اور اگر یہ عدد درست بھی ھوں تب بھی صرف کثرت کو ثابت کرتے ھیں، چونکہ عرف میں مخصوصاً اس زمانہ کی لغت میں ان اعداد کو اسی مقصود کے لئے استفادہ کیا جاتا تھا۔
اس تمھید کے بعد روایات میں موجود دو مطلب کی تحقیق کریں گے۔
1۔ قرآن کے ساتھ انس کی تعریف
2۔ قرآن سے انس کے متعلق روایت کے رتبہ کو پھچاننا اس طرح کہ ھر کوئی اپنے ظرف کی وسعت کے مطابق اس منبع فیض الھی سے بھرہ مند ھوسکتا ھے ۔ یہ تقسیم بندی طولی گھر میں قرآن رکھنے سے شروع ھوتی ھے اور اس کا سب سے اونچا مرتبہ یعنی اس پر عمل پیراھونے تک پائی جاتی ھے۔
اگر یہ تقسیم بندی قبول کرلی جائے تو "اخلاق تبلیغ" کا حصول اس کے فائدوں میں سے ھے۔ لوگوں کو اسلام کی طرف جذب کرنے میں پیغمبر اسلام (ص) کی سیرت یہ ھوا کرتی تھی کہ سب کو ایک نظر سے نھیں دیکھتے تھے چاھے وہ افراد تعلیمات اسلامی کو قبول کرنے میں برابر ھی کیوں نہ ھوں؛ ایک بیک انھیں کسی حکم کے اونچے مرتبے پر پھنچنے کی دعوت نھیں دیتے تھے یہ آپ کی کامیابی کا راز تھا جو معاشرہ کے مربیوں کے لئے سبق واقع ھو سکتی ھے دوسرا فائدہ اس کا یہ ھے کہ قرآن مھجوریت سے خارج ھوجائے گااور ھرکوئی اپنی حیثیت کے مطابق اس سے بھرہ مند ھوگا، ممکن ھے ایک صرف اس کی تلاوت کرسکتاھے لیکن دوسرا اس کی آیات میں غور و فکر کرسکتا ھے اور کوئی اسے اپنا راھنما بنا کر اس پر عمل کرسکتا ھے ۔
1) قرآن سے انسیت
"انس" لغت میں وحشت کے مقابل میں استعمال ھوتا ھے۔ 9 اور انسان کا کسی چیز سے مانوس ھونے کا یہ معنی ھے کہ اسے اس چیز سے کوئی خوف و اضطراب نھیں ھے اور اس کے ساتھ اسے سکون حاصل ھوتا ھے۔ کمال طلب انسان فقط مادی امور پر اکتفا نھیں کرتا عالی اھداف کی طرف قدم بڑھاتا ھے لہذااپنی وحشت اور تنھائی کو معنوی امور کے حصار میں زائل کردیتا ھے ۔روایات میں علم سے انسیت، قرآن اور ذکر خدا کی معرفت کی تاکید کی گئی ھے۔
امام علی(ع) فرماتے ھیں: "جو کوئی قرآن سے مانوس ھوگا وہ دوستوں کی جدائی سے وحشت زدہ نھیں ھوگا" ۔ 10 اسی طرح سے آپ ان افراد کے جواب میں جو وقت سفر آپ سے نصیحت کی درخواست کی تھی فرماتے ھیں: "اگر کسی مونس کی تلاش میں ھو تو قرآن تمھارے لئے کافی ھے۔" 11 آپ(ع) اپنی مناجات میں خدا سے اس طرح فرماتے ھیں:
"الّلٰهم انّک آنَسُ الآنِسین لاولیائِک۔۔۔ ان اَوحَشَتهم الغُربة آنَسَهم ذِکرُک"۔ 12
پروردگارا! تو اپنے دوستوں کے لئے مانوس ترین مونس ھے اور اگر غربت انھیں وحشت زدہ کرتی ھے تو تیری یاد کنج تنھائی میں ان کی مونس ھے۔
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ھیں: " اگر روئے زمیں پر کوئی زندہ نہ رھے اور میں تنھارہ رہ جاؤں جب تک قرآن میرے ساتھ ھے مجھے وحشت نھیں ھوگی" 13
کلام ائمہ میں اس طرح کی تعبیرات فراوان پائی جاتی ھے اور معمولاً! مھم موضوعات کی تاکیدات کے لئے اس طرح کے کلام ارشاد ھوتاھے خصوصاً قرآن کے سلسلے میں جو کہ: "تبیاناً لکل شیٔ" 14 ھے راہ ھدایت میں انسان جس چیزکا محتاج ھے اسے قرآن میں پاسکتاھے۔ یھاں تک انسان آیات الھی کو ترنم کے ساتھ غورسے سنے اور لذت معنوی کاقصد نہ رکھتا ھو تب بھی اس کے ایمان میں اضافہ ھوگا اور سکون محسوس کرے گا "انّما المومنون اذاذکر الله وجلت قلوبهم واذاتُلیت علیهم آیاته زادتهم ایماناً " 15 وہ افراد جوقرآنی محافل میں جاتے ھیں اور جو کچھ حد تک معانی قرآن سے بھی آشنا ھیں آیات رحمت سنکر وجد میں آجاتےھیں اور آیات عزاب سنکر کانپ اٹھتے ھیں اور محزون ھوجاتے ھیں۔ خلاصہ یہ کہ انکا ایمان اور محکم ھوگیا ھے کیونکہ قرآن جھاں لذت معنوی کو فراھم کرسکتا ھے وھیں کتاب عمل بھی ھے امام صادق(ع) فرماتے ھیں: "کسی مونس کی تلاش میں تھا تا کہ اس کی پناہ میں آرام و سکون کا احساس کروں اسے قرآن کی تلاوت میں پایا۔" 16
2) قرآن سے انسیت کے مراتب
جیسا کہ بیان کیا جا چکا هی قرآن کے سلسلہ میں مجموعۂ روایات 17 سے جو درجہ بندی سامنے آٓئی ھے وہ گھر میں قرآن رکھنے سے شروع ھو کر بالاترین درجہ یعنی اس پر عمل کرنے پر جاکر ختم ھوتی ھے۔ قرآن کے علم کے مراتب اور اس کے بطون (جیسا کہ تفصیلی طور پر اس کے بارے میں گفتگو ھوگی) مندرجہ ذیل ھیں:
الف) گھروں میں قرآن رکھنا
ب) قرآنی آیتوں کی طرف دیکھنا
ج) آیات قرآنی کو غور سے سننا
د) تلاوت قرآن
ھ) قرآن میں غور و فکر کرنا
و) قرآن پر عمل کرنا 18
مذکورہ بالا مرحلوں کے سلسلوں میں بھت سی احادیث پائی جاتی ھیں کہ ان میں سے ھر مرحلہ کے لئے چند روایت کو بطور نمونہ پیش کیا جائے گا اور کوشش ھوگی کہ روایت کے انتخاب میں معتبر سند کاخاص خیال رکھا جائے البتہ ھر مرحلہ میں اتنی روایتیں پائی جاتی ھیں کہ ان کا معصوم سے صادر ھونے کا احتمال تقویت پاتاھے۔ 19
الف) قرآن گھروں میں رکھنا پرانے زمانے سے کسی مخصوص چیز کو متبرک جاننا اور اسے گھروں میں رکھنا ھمارے معاشرہ میں مرسوم ھے۔ قرآن کو گھروں میں رکھنے کی جو سفارش ھماری روایتوں میں ملتی ھے شاید اس کی ایک علت یہ ھوکہ کسی خرافاتی چیز کو متبرک جاننے کے بجائے لوگ کلام الھی سے متبرک ھوں اس لئے امام صادق(ع) فرماتے ھیں:
"انه لیعجبنی ان یکون فی البیت مصحف یطرد الله عزوجل به الشیاطین"۔ 20 مجھے تعجب ھوتاھے کہ گھر میں قرآن ھو اور اس کے ذریعے خداوند شیاطین کو دور کرتاھے۔
قرآن سے انسیت کا سب سے نچلا درجہ جیساکہ بیان کیا جا چکا یہ ھے کہ اس کو گھروں میں رکھا جائے تا کہ اگر کوئی اپنے آپ کو کسی بھی طرح سے قرآن سے مرتبط نھیں رکھ سکتاھے توحداقل اسے گھر میں رکھے۔حتی اگر یہ معنی بھی امام کے ملحوظ نظرنہ ھو تو تب بھی قرآن کا گھروں میں رکھنا انسان کی مصلحت کے تحت ھے جیسا کہ روایت میں اشارہ ھواھے۔
بعض روایتیں ایسی بھی پائی جاتی ھیں جواس روایت سے تعارض رکھتی ھیں جس میں قرآن کو دیکھے بغیریا اس کی تلاوت کئے بغیر گھروں میں رکھنے سے مذمت کی گئی ھے۔ لیکن جیسا کہ بیان کیا جا چکا هی اس تعارض کا حل لوگوں کے مراتب مختلف ھونے کی وجہ سے ھے۔ مشخص ھے اگر کوئی شخص قرآن کو دیکھنے یا اس کی تلاوت کی قدرت نھیں رکھتا تو حداقل جو کام وہ کرسکتاھے وہ یہ ھے کہ اس کو گھر میں رکھے اور اس طرح کے نمونہ معاشرہ میں پائے جاتے ھیں عین نماز کی طرح کہ اگر کوئی پڑھنے سے عاجز ھے تو کم سے کم اشارہ کے ذریعہ بجالائے۔
ب) قرآن کی طرف دیکھنا
قرآن کی طرف دیکھنے کے سلسلہ میں بعض ایسی روایتیں پائی جاتی ھیں جو اسے ایک طرح کی عبادت شمار کرتی ھیں ۔حضرت ابوذر(رح) رسول خدا(ص) سے نقل کرتے ھیں کہ آپ نے فرمایا: "قرآن مجید کی طرف دیکھنا عبادت ھے" 21
پیغمبر اکرم(ص) سے منقول دوسری روایتوں میں ملتا ھے "اعطوا اعینکم حظها من العبادة قالوا: و ماحظها من العبادة؟ قال: النظر فی المصحف و التفکر فیه و الاعتبار عند عجائبه" 22
تمھاری آنکھیں عبادت میں کچھ حصہ رکھتی ھیں اسے ادا کرو سوال کیا گیا: عبادت میں ان کا حصہ کیا ھے؟ فرمایا: قرآن کی طرف دیکھنا اس مین تدبر کرنا اور اس کے عجائب سے عبرت حاصل کرنا۔ البتہ دوسری روایت میں قرآن میں غور و خوض پر بھی دلالت کرتی ھے جو مراحل بالاتر میں سے ھے لیکن روایت ابوذر(رح) کے پیش نظر اگر کوئی صرف قرآن کی طرف دیکھے بھی تو ایک طرح کی عبادت ھے اور دوسری روایت پھلی روایت کے اطلاق کو مقید نھیں کر رھی ھے، چونکہ خارجی موجود ھے۔جب قرآن کو گھر میں رکنھے کی سفارش کی گئی ھے تو لامحالہ اسکی آیات کی طرف دیکھنا بھی اھمیت فراواں رکھتا ھے۔
ج) قرآن کو غور سے سننا
قرائت قرآن سے پھلے اس کو غورسے سننے کا مرتبہ ھے۔اگر کوئی کسی بھی وجہ سے قرآن نھیں پڑھ سکتا ھے تو اسے چاہئیے کہ اسے غور سے سنے۔
پیغمبراکرم(ص) غور سے سننے اور قرائت کی اس رتبہ کو ایک روایت میں اس طرح بیان کرتے ھیں: "من استمع الی آیة من کتاب الله تعالی کتب له حسنة مضاعفة و من تلاها کانت له نوراً یوم القیامة" 23 جو کوئی کتاب خدا کی ایک آیت کو غور سے سنے خداوند اس کے لئے کئی گنا نیکیاں اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دیتا ھے اور جو اس کی تلاوت کرے تو اس کے لئے قیامت کے دن ایک نور ھوگا۔
کلینی "اصول کافی" میں امام سجاد اور امام صادق(ع) سے نقل کرتے ھیں: "من استمع حرفا من کتاب الله عزوجل من غیر قرائة کتب الله له حسنة و محا عنه سیئة و رفع له درجة" 24
اگر کوئی کتاب خدا کے فقط ایک حرف کو فقط سنے اور اس کی تلاوت نہ کرے توخداوند اس کے لئے ایک نیکی لکھتا ھے، اس کے ایک گناہ کو مٹا دیتاھے اور اس کا ایک درجہ بڑھاتاھے۔ اس روایت کا مضمون ایسا نھیں ھے جس کو قبول کرنادشوار ھو۔ بعض روایتوں میں چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے ثواب وافر کاوعدہ کیا گیاھے۔
قرآن کریم کو غور سے سننے کے سلسلہ میں جو روایت بیان کی گئی ھے اسے کسی بھی طرح کی توجیہ کی ضرورت نھیں ھے اگرچہ امام (ع) مقام تاکید سے دور نھیں ھیں قرآن کے ایک حرف کی تلاوت کے بدلے ثواب لکھا جانا اور گناہ کا مٹنا طبیعی و عادی ھے۔ 25
د) قرآن کی تلاوت
قرآن مجید میں آیا ھے کہ جو کوئی کتاب خدا کی تلاوت کرے شامل اجر و فضل خداوند ھوگا۔
"ان الذین یتلون کتاب الله و اقاموا الصلٰوة و انفقوا مما رزقناهم سرّ اً و علانیة یرجون تجارة لن تبور لیوفّیهم اجورهم و یزیدهم من فضله انّه غفور شکور" 26 اس آیت کے علاوہ بھی دوسری آیات جوقرآن اور اس کے فوائد کو بیان کرتی ھیں قرآن کریم میں موجود ھے۔
گھر میں قرآن رکھنے، اور اس کی طرف دیکھنے اور اس کو غور سے سننے کے بعد تلاوت قرآن کا مرتبہ آتاھے۔ جو افراد قرآن کی تلاوت کرسکتے ھیں انھیں چاھئیے کہ گھر میں اسے خاک پڑتا نہ چھوڑیں۔ اس سے پھلے بھی ایک فوائد میں بیان کیا گیا ھے کہ گھر میں قرآن کی وجہ سے شیاطین دور ھوتے ھیں اور گھروں کی تاریکی دور ھوتی ھے۔ مندرجہ ذیل روایت میں اشارہ ھوا ھے کہ گھر میں قرآن کی تلاوت کی جائے تو گھر نورانی ھوگا، نیکی بکثرت ھوگی اور اھل خانہ کے لئے گشائش حاصل ھوگی اور جس طرح سے ستارے زمین کو روشن کرتے ھیں جس گھر میں قرآن پڑھاجائے اھل آسمان کے لئے نورانی جلوہ گر ھوگا۔ اگر چہ مسجدوں اور دوسری جگہ پربھی قرآن کی تلاوت کی جاسکتی ھے لیکن کیوں نہ گھر کو اس رحمت الھی کامرکز قراردیں۔ پیغمبراسلام(ص) فرماتے ھیں: "انّ البیت اذا کثرفیہ تلاوة القرآن کثر خیرہ والتّسع اھلہ واضاء لاھل السماء کما تضیء نجوم السماء لأھل الدنیا" 27 دوسری روایت میں امام صادق(ع) فرماتے ھیں: "القران عھد اللہ الی خلقہ ینبغی للمرء المسلم ان ینظر فی عھدہ وان یقرأ منہ فی کل یوم خمسین آیۃ" 28
قرآن خالق و مخلوق کے درمیان ایک عھد و پیمان ھے اور سزاوار ھے ایک مسلمان کے لئے کہ ھر روز اس عھد وپیمان پر نظر کرے اور (کم سے کم) اس کی پچاس آیت تلاوت کرے۔
ھ) قرآن میں غور و فکر
قرآن سے ارتباط کا ایک عالی ترین مرحلہ آیات الھی میں غور و فکر کرنا ھے۔ "افلا یتدبرون فی القرآن و لو کان من عند غیرالله لوجدوا فیه اختلافاً کثیراً" 29 قرآن مین تدبر کے ذریعہ اس نتیجہ تک پھنچا جا سکتا ھے کہ انسان اور کائنات میں موجود تمام چیزوں کے لئے قاعدہ کلی "بے ثباتی و دگرگونی" ھے، قول میں بھی اور فعل میں بھی، لیکن قرآن اس طرح نھیں ھے علامہ طباطبائی کے بقول: " قرآن وہ کتاب ھے جس میں تمام انفرادی و معاشرتی قوانین پائے جاتے ھیں، مبدا و معاد سے مربوط مسائل، قصہ، عبرتیں و نصیحتیں وغیرہ جو تدریجاً نازل ھوئی ھیں اور گذرزمان کے ساتھ جس میں کسی بھی طرح کی تغییر وتبدیلی نھیں پائی جائے گی" 30
قرآن میں غور و فکر، علمی فوائد کے علاوہ شخصی ثمرہ رکھتا ھے مذکورہ بالا آیت کے تحت آیات قرآن میں غور وفکر کے ذریعہ پتہ چلتاھے کہ اس کی آیتیں کسی بھی طرح کا آپس میں اختلاف نھیں رکھتی ھیں۔لہذا آیتیں ایک دوسرے کی مفسر واقع ھوسکتی ھیں اور یہ بھت مھم فائدہ تھا کہ علامہ طباطبائی اسی کے سایہ تلے قرآن سے قرآن کی تفسیر تک پھنچے۔ آپ اس آیت کے ذیل میں، قرآن کے ذریعہ قرآن کی تفسیر کا نتیجہ اخذ کرتے ھیں۔ "صاحب مجمع البیان" بھی آیٔہ "افلا یتدبرون القران۔۔۔" کے ذریعہ اس نتیجہ تک پھنچے ھیں 31
دوسرا مھم فائدہ یہ ھے کہ چونکہ احکام قرآنی میں تغییر وتبدیلی نھیں ھوگی لہذا یہ شریعت بھی قیامت تک مستمر رھے گی 32
انفرادی لحاظ سے بھی انسان آیات قرآن میں غور و فکر اور مبدأ ومعاد کو اپنے ذھن مین مجسم کرکے داستان خلقت انسان کو یاد کرسکتا ھے اور آئندہ کو پیش نظررکھ سکتاھے۔ کچھ ایسی روایتیں پائی جاتی ھیں جس میں آیات رحمت کی تلاوت پرمسروراور آیات غضب کی تلاوت پر محزون ھونے کی سفارش کی گئی ھے۔غزالی کتاب "کیمیای سعادت" میں حضرت ابوذر(رح) سے نقل کرتے ھیں کہ پیغمبراسلام(ص) رات کے ایک تھائی حصہ میں اس آیت کی تکرار فرماتے تھے: "ان تعذبهم فانهم عبادک وان تغفر لهم فانک انت العزیز الحکیم" 33
امام علی علیہ السلام سے منقول ھے کہ" قرآن کو جلدی جلدی نہ پڑھو اور اس فکر میں نہ رھو کہ سورہ کو جلد ختم کرلو، اپنے دلوں میں خشوع پیداکرو" 34 آپ دوسرے بیان میں فرماتے ھیں: قرآن سیکھو کیونکہ وہ بھترین کلام ھے اور اس میں غور و فکر کرو چونکہ وہ بھار ھے ۔ 35 حضرت کے اس کلام کا اھم نکتہ یہ ھے کہ سیکھنے کے مرحلے میں فرمایاھے "بھترین کلام" لیکن غور و فکر کے مرحلے میں اسے "بھار" سے تشبیہ کرتے ھیں؛ ایسی بھار جو کہ زندگی اور اگنے کی فصل ھے۔
و) قرآن پرعمل اور اس سے متمسک ھونا
پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ(ع) سے قرآن پر عمل کے سلسلہ میں مختلف تعبیرات پائی جاتی ھیں"اتّباع" "تمسّک" اور "حق تلاوت" 36 جیسی تعبیر بھی قرآن پرعمل کے سلسلہ میں وارد ھوئی ھیں۔ ان میں سے بعض روایات کی طرف اشارہ کریں گے۔ 37
پیغمبراسلام(ص) فرماتے ھیں: "اعملوا بالقرآن احلوا حلاله وحرموا حرامه ولاتکفروا بشی منه" 38 قرآن (اس کےدستورات) پر عمل کرو اس کے حلال کو حلال جانو اور اس کے حرام سے پرھیز کرو اور اس کی کسی بھی چیز کا انکار نہ کرو۔
دوسری روایت میں امام علی علیہ السلام فرماتے ھیں: "یا حملة القران! اعملوا فان العالم من عمل بما علم و وافق عمله علمه و سیکون اقوام یحملون العلم لایجاوز تراقیهم، یخالف سریرتهم علانیة" 39 اے وہ لوگ جو قرآن کاعلم رکھتے ھیں! اس پر عمل کرو، چونکہ عالم وہ ھے جو اپنی معلومات پر عمل کرے اور اس کاعمل اس کے علم کے مطابق ھو۔ بھت جلد ایسے لوگ آئیں گے جن کا علم حلقوم سے نیچے نھیں اترے گا اور ان کا باطن ان کی ظاھری رفتار سے مخالف ھوگا۔
جب تک پیغمبر اسلام(ص)امت کے درمیان تھے لوگ مکلّف تھے کہ آنحضرت(ص) جس چیز کاامر کریں اس پرعمل کریں اور جس چیز سے منع کریں اس سے دوری اختیار کریں، چونکہ آپ احکام الھی کو بیان فرماتے تھے اور آپ کا کلام، کلام وحی تھا اور اپنے بعد امت کو بھی قرآن وعترت کی طرف رجوع کرنے کاحکم دیا 40 اس کی بھی علت یہ تھی کہ چونکہ عترت قرآن کے علاوہ کچھ اور نھیں بیان کرتے تھے وہ بھی کلام خداکی تفسیر وتبیین فرماتے تھے۔
امام علی علیہ السلام بھت خوبصورت تعبیر کے ذریعہ فرماتے ھیں: "قرآن کو چاھیے کہ اندر کے لباس کی طرح ھمیشہ انسان کے ساتھ رھے "البتہ اس خصوصیت کے افراد کم نظر آتے ھیں: "طوبی للزاھدین فی الدنیا الراغبین فی الآخرة، اولئک قوم اتخذوا القرآن شعاراً " 41
زھے نصیب زاھدان دنیا! جو آخرت کے خواھاں ھیںوہ ایسی قوم ھیں جو قرآن کو اپنے لئے اندر کے لباس کی طرح قراردیتے ھیں۔ قرآن پر عمل کے سلسلہ میں جوالفاظ قرآن مجید میں ذکر ھوئے ھیں ان میں سے ایک لفظ "حق تلاوت" ھے "الذین آتیناهم الکتاب یتلونه حق تلاوته اولئک یومنون به ومن یکفر به فاولئک هم الخاسرون" 42 اور جن لوگوں کوھم نے قرآن دیاھے وہ اس کی باقاعدہ تلاوت کرتے ھیں اور انھیں کااس پرایمان بھی ھے اور جو اس کا انکار کرے گا اس کاشمار خسارہ والوں میں ھوگا۔
کتاب آسمانی سے مراد توریت، انجیل بھی ھوسکتی ھے اور قرآن بھی۔ ھرحال میں ''حق التلاوۃ'' سے مراد قرآن پرعمل ھے۔ 43 امام صادق(ع) اس آیت کے بارے میں فرماتے ھیں: "یعنی قرآنی آیات کو ترتیل سے پڑھیں، اس میں غور و فکر کریں، اس کے احکام پر عمل کریں اس کے وعدوں سے پرامید اور اس کے عذاب سے ڈریں، اس کے قصوں سے عبرت حاصل کریں اور جس چیز کا اس میں حکم دیا گیا ھے اس پر عمل کریں اور جس چیز سے روکا گیاھے اس سے پرھیز کریں۔ خداکی قسم ''حق تلاوت''کامعنیٰ اس کی آیات کوحفظ اور اس کوپڑھنے کانھیں ھے ۔۔۔، بلکہ اس کی آیات میں غور و فکر کرکے اس پرعمل کریں۔ خداوند متعال فرما تاھے: اے پیغمبر! قرآن، مبارک کتاب ھے جسے آپ کے پاس بھیجا تاکہ لوگ اس کی آیات میں تدبر کریں۔" 44
قرآن، پر عمل کے سلسلہ میں آیات وروایات کو آپ نے ملاحظہ فرمایا اس کے علاوہ ایسی روایات بھی پائی جاتی ھیں جوقرآن پرعمل نہ کرنے کی مذمت کرتی ھیں۔
تائید اور تاکید مطلب کے لئے ان کی طرف اشارہ کرتے ھیں۔ رسول خدا(ص) فرماتے ھیں:
"یأتی علی الناس زمانٌ، القرآن فی وادٍ وهم فی وادٍ غیه" 45 ایک زمانہ ایسا آئے گا جب لوگ اور قرآن دو مختلف وادی میں ھونگے(جوقرآن کھتا ھے اس پرعمل نھیں کریں گے)۔
دوسری روایت میں پیغمبر اسلام(ص) فرماتے ھیں: "جو کوئی قرآن سیکھے لیکن اس پرعمل نہ کرے اور دنیا کی محبت اور اس کی زینت اس پر غالب ھوجائے، ایسا شخص عذاب الھی کا مستحق ھے اور یھود و نصاری کاھم مرتبہ ھے جنھوں نے کتاب(خدا) سے روگردانی کی۔" 46
مذکورہ بالا روایات کے علاوہ اور بھی روایات پائی جاتی ھیں جوقرآن پر عمل نہ کرنے سے روکتی ھیں۔ 47 اس بخش کو، ختم قرآن کے سلسلہ میں موجود دعائے امام سجاد(ع) کے کچھ برگزیدہ فراز سے ختم کرتے ھیں۔
"اے اللہ! محمد(ص) اور ان کی آل پررحمت نازل فرما اور ھمیں ان لوگوں میں سے قراردے جو قرآن کے عھد و پیمان کی ریسمان سے وابستہ اور مشتبہ امور میں اس کی محکم پناہ گاہ کا سھارا لیتے ھیں اور اس کے پروں کے زیر سایہ منزل کرتے ھیں اس کی صبح درخشاں کی روشنی میں سے ھدایت پاتے اور اس کے نور ھدایت کی درخشندگی کی پیروی کرتے اور اس کے چراغ سے چراغ جلاتے ھیں اور اس کے علاوہ کسی سے ھدایت کے طالب نھیں ھوتے"۔ 48
آخر میں چند نکتہ کا ذکر کرنا لازم ھے۔
1۔ اس سلسلہ میں جوتقسیم بندی کی گئی ھے وہ معاشرہ کے اکثریت کو دیکھ کر کی گئی ھے لیکن ھر زمانہ اور ھر معاشرہ میں کچھ لوگ ایسے پائے جاتے ھیں جو دوسروں سے متفاوت ھیں وہ لوگ کمی یاکیفی لحاظ سے حد اقل اور حد اکثر کے کسی ایک رتبہ پر ھوتے ھیں، مثال کے طورپر زیادہ ترلوگ قد کے لحاظ سے زیادہ متفاوت نھیں ھیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی مل جائیں گے جن کا قد بھت چھوٹا ھے یابھت بڑا ھے۔کیفی صفات جیسے ذھانت کے لئے بھی یھی قانون نافذ ھے۔
زیادہ تر لوگ ایک جیسی ذھانت رکھتے ھیں اور ایک مرتبہ پر پائے جاتے ھیں لیکن کچھ کند ذھن بھی ھیں تو کچھ نابغہ بھی۔اگر معاشرہ اس طرح سے نہ ھو تو حالت طبیعی سے خارج ھے۔ ایک کلاس روم میں بھی اگرسب کے سب ذھین ھوں یاسب کے سب کند ذھن ھوں تو یہ کلاس حالت طبیعی سے خارج ھے اور زیادہ تر ایسے اجتماعات خاص مشکلات سے دوچار ھوتے ھیں۔ 49
مقالہ حاضر میں جو رتبہ بندی پیش کی گئی ھے معاشرہ کے اکثرافراد اس میں شامل ھیں اور بھت کم ایسے لوگ ھیں جوذکرکئے گئے کسی بھی رتبہ پرنھیں آتے ھیں۔ مقام عمل سے گزرنے کے بعد بھت کم ایسے لوگ ھیں جو اس رتبہ بندی کے نقطہ کمال تک پھنچے ھیں کہ دوسرے ان تک پھنچنے سے عاجز ھیں وہ "راسخین فی العلم" ھیں کہ جن کی تعداد بھت کم ھے اور وہ پیغمبر(ص) ائمہ معصومین(ع) اور بعض علماء ھیں۔ یہ بطن قرآن سے آگاہ ھیں البتہ سب سے اونچے درجہ پر پیغمبر(ص) ھیں چونکہ حقیقت قرآن آپ کے قلب مبارک پرنازل ھوئی ھے۔ "نزل به الروح الامین علی قلبک لتکون من المنذرین"۔
علامہ طباطبائی علم اھل بیت(ع) کے سلسلہ میں ایک آیت کی تفسیر میں لکھتے ھیں کہ اھل بیت ان علوم کو حاصل کرسکتے ھیں دوسرے جس کے حصول سے عاجز ھیں، مثلاًآیت "لایمسہ الا المطھرون" میں ''مس قرآن" کے بارے میں علامہ طباطبائی چند مقدمہ کے ذریعہ اس طرح نتیجہ گیری کرتے ھیں۔
1۔ "مس" سے مراد علم قرآن ھے۔
2۔ مصداق "مطھرون" مقربون ھیں(اس آیت کے ذیل میں روایت نبوی کے پیش نظر، کہ آنحضرت (ص) نے اسی طرح تفسیر فرمائی ھے۔)۔
3۔ مقربون فرشتوں سے اعم ھے اور اھل بیت کو بھی شامل ھوگا۔
4۔ طھارت سے مراد صرف طھارت ظاھری وباطنی نھیں ھے بلکہ مراد، دلوں کو تمام وابستگی غیر خدا سے پاک کرنا ھے۔
نتیجہ:
قرآن کا علم، صرف ملائکہ کے شامل حال نھیں ھے اور اھل بیت بھی اس میں شامل ھیں ۔
امام محمد باقر علیہ السلام آیت "قل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب" کے ذیل میں فرماتے ھیں: "آیت سے مراد ھم اھل بیت(ع) ھیں اور ھم میں سب سے پھلے و سب سے برتر علی علیہ السلام ھیں"۔
یھاں تک یہ بات روشن ھوگئی کہ علم قرآن "راسخین فی العلم" سے مخصوص ھے جو پیغمبر(ص) ائمہ معصومین(ع) اور بعض علماء کو شامل ھے البتہ ان سب میں بالا اور کامل ترین راسخ شخص پیغمبراکرم(ص) ھیں۔ امام صادق(ع) فرماتے ھیں: "فرسول الله افضل الراسخین فی العلم قد علّمه جمیع ماانزل علیه من التنزیل و التاویل و ما کان الله لینزل علیه شیئا لم یُعلّمه تاویله و اوصیاء من بعده یعلمونه کلّه"۔ رسول خدا(ص) سب سے برتر راسخ فی العلم ھیں کہ خداوند عالم نے سارے قرآن کی تفسیر و تاویل سے آپ کو آگاہ کیا ھے اور کوئی آیت نازل نھیں ھوئی مگریہ کہ آنحضرت(ص) اس کی تفسیر و تاویل کو نہ جانتے ھوں اور آپ کے جانشین بھی تمام قرآن کا علم رکھتے ھیں۔
2۔ مذکورہ رتبہ بندی میں قرآن سے انسیت کا بالا ترین رتبہ قرآن پرعمل ھے لیکن روایات میں علم و عمل کا رابطہ ھے اور عمل کے آثار میں سے بھی ھے اور علم کے لئے اسے مقدمہ بھی بیان کیا گیا ھے۔ پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ھیں: "ان العالم من یعمل وان کان قلیل العمل" عالم وہ ھے جو اپنے علم کے مطابق عمل کرے اگرچہ عمل کی مقدار کم ھی کیوں نہ ھو ۔
دوسری روایت میں فرماتے ھیں: "لاتکون عالما حتی تکون بالعلم عاملاً" (اس وقت تک) عالم نھیں ھوگے جب تک اپنے علم پرعمل نہ کرو۔
علم کے لئے عمل مقدمہ ھے اس بارے میں پیغمبراکرم (ص) فرماتے ھیں: "من عمل بما یعلم ورثہ اللہ علم مالم یعلم" جو کوئی اپنی معلومات پرعمل کرے خداوند متعال اسے مجھولات کا علم عطا کرے گا۔
ان روایتوں کا اطلاق جو علم و عمل کے رابطہ کو دوطرفہ بیان کرتی ھیں قرآن پر علم و عمل کو بھی شامل ھے قرآن مقدمہ ھے اس پر عمل کا اور قرآن پر عمل مقدمہ ھے قرآن کے علم کا۔ لہذا کچھ قرآنی معارف ایسے ھیں جو مخصوص ھیں "راسخین فی العلم" سے اور افراد عادی کی سمجھ سے باھر ھے اور کوئی اس تک نھیں پھنچ سکتا، لیکن اس معارف کے علاوہ کو دوسرے بھی درک کرسکتے ھیں۔ ان کاعلم عمل کاباعث ھوگا اور ان کاعمل علم میں زیادتی کاسبب ھے۔
-----------------------------------------------
1. صحیح بخاری، ج4، ص1547(ح3991)، صحیح مسلم، ج4، ص1944(ح2499)
2. سورۂ فرقان، آیہ 30
3. ان الرجل الاعجمی من امتی لیقرا القرآن بعجمیتہ فتعرفہ الملائکہ علی عربیۃ(الکافی، ج2، ص619)
4. بحارالانوار، ج76، ص287(ح113)وج92، ص20(ح18)
5. ان للقرآن ظاھراً وباطناً۔(الکافی، ج4، ص549، من لایحضرہ الفقیہ، ج2، ص486)
6. المیزان، محمد حسین الطباطبائی(رح)، ج3، ص72۔
7. الکافی، ج4، ص549 و ج1، ص374، من لایحضرہ الفقیہ، ج2، ص486 (ح3036)، المحاسن، ج1 ص421(ح964)، تفسیر العیاشی، ج2، ص16، (ح36)
8. تفسیرالعیاشی، ج1، ص12(ح8)، المحاسن، ج2، ص7و300۔
9. معجم مقاییس اللغۃ، ابن فارس، ج1، ص145، تاج العروس، جلال الدین السیوطی، ج8 ص188۔
10. غرر الحکم ودرر الکلم، عبدالواحد الامدی، ح8790۔
11. جامع الاخبار، محمد بن محمد الشعیری، ص511(ح1431)۔
12. نھج البلاغہ، خطبہ227۔
13. تفسیر العیاشی، ج1، ص123(ح23)
14. سورہ نحل، آیہ 89 ۔
15. سورہ انفال، آیہ 2 ۔
16. مستدرک الوسائل، مرزا حسین النوری، ج12، ص174 ۔
17. الکافی، ج4، ص613، ثواب الاعمال، الصدوق، ص129۔
18. الامالی، الطوسی، ص450(ح1016)؛ بحارالانوار، ج38، ص196۔
19. کنز العمال، علی المتقی الھندی، ح5662۔
20. مسنداحمدبن حنبل، ج2، ح8502 ۔
21. الکافی، ج2، ص612؛ کنزالعمال، ج1ص535(ح2396)۔
22. سورہ فاطر، آیہ29۔30
23. الکافی، ج2، ص610
24. گزشتہ ایڈریس، اس کے رجوع ھومن لایحضرہ الفقیہ، ج2، ص628(ح3215)۔
25. سورہ نساء آیہ2
26. المیزان، ج5، ص20۔
27. رک گزشتہ ایڈریس ج18، ص241۔
28. نقل از: اسرارقرآن، حسین خدیوجم، ص26۔
29. الکافی، ج2، ص614۔
30. نھج البلاغہ، خطبہ110۔
31. تحف العقول، ص50۔
32. المستدرک علی الصحیحین، الحاکم النیشابوری، ج1، ص757(ح2087)؛ السنن الکبریٰ، احمد بن حسین البیہقی، ج10، ص15(ح19706)۔
33. کنزالعمال، ج9، ص294۔
34. صحیح مسلم، ج4، ص1874(ح2408)۔
35. نھج البلاغہ، حکمت104؛ امالی المفید، ج1، ص133۔
36. سورہ بقرہ، آیہ121۔
37. المیزان، ج1، ص266۔
38. گزشتہ ایڈریس(بحوالہ: ارشاد القلوب دیلمی)۔
39. نوادر الاصول، الترمذی، ج2، ص338؛ کنزالعمال، ح2911۔
40. ثواب الاعمال، ص332؛ بحارالانوار، ج76، ص36(ح30)۔
41. الکافی، ج8، ص52؛ صحیح البخاری، ج6، (ح5836، 6640)؛ مسنداحمد بن حنبل، ج7،
ص251 (ح20115)؛ صحیح مسلم، ج4، ص1874(ح2408)؛ سنن الترمذی، ج5، ص663
(ح3788)؛ سنن الدارمی، ج2، ص889(ح3198)۔
42. الصحیفۃ السجادیۃ، الدعاء 42۔
43. مزکورہ بالا قانون کے بارے میں آموزش کتب آمار میں بحث توزیع بیت المال کی طرف رجوع کریں۔
44. سورہ شعراء، آیہ 193۔194
45. الدررالمنصور، جلال الدین السیوطی، ج8، ص27۔
46. المیزان، ج19، ص127۔
47. الکافی، ج1، ص213۔
48. ثواب الاعمال، ص436۔
49. حلیۃ الاولیاء، ابونعیم الاصفھانی، ج10، ص15؛ الجامع الصغیر، جلال الدین السیوطی، ج2، ص192(ح5711)؛ غرر الحکم ودرر الکلم، ح9569؛ مشکوٰۃ الانوار، ابوالفضل علی الطبرسی، ص139؛ التوحید، الصدوق، ص416؛ ثواب الاعمال، ص161؛ اعلام الدین، الدیلمی، ص96۔