قرآن امام سجاد (ع) کے کلام میں
  • عنوان: قرآن امام سجاد (ع) کے کلام میں
  • مصنف:
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 21:30:23 10-10-1403

قرآن ایک ایسی گرانقدر اور ارزشمند کتاب ہے جو تمام انسانوں کے لیے نمونہ عمل ہے۔ جس پر عمل پیرا ہوکر ہدایت کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ قرآن کے مطابق تا روز قیامت نہ ایسی کوئی کتاب پیدا ہوسکتی ہے اور نہ اس سے بہتر۔ قرآن کی حکمت تمام دانشمندوں کو اپنے سامنے تعظیم سے سر خم کرواتی ہے۔ جتنا بھی انسان پاک فطرت صفای روح و قلب اور طھارت ظاہری و باطنی سے بہرہ مند ہو اتنا ہی وہ اس نورانی کتاب سے فیضیاب ہوسکتا ہے اور اس کے جمال کو اپنی بصیرت سے مشاہدہ کرسکتا ہے جیسا کہ قرآن فرماتا ہے :«لايمسُّهُ الاّ المطهّرون.»(1)
جہاں تک پیغمبراکرم(ص) اور اس کے اہل بیت(ع) کا تعلق ہے وہ خدا کے طرف سے منتخب ہوئے ہیں اور آیت تطہیر کے مطابق وہ پاکیزگی اور قداست سے بہرہ مند ہیں اور ہر پلیدی و برائی سے مبرا ہیں یہی قرآن کے حقیقی مفسر ہیں انکی عصمت کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ انہی نورانی چہروں میں ایک تابناک چہرہ جناب سید الساجدین حضرت امام زين العابدین کا ہے اس مقالہ میں قرآن کو امام زین العابدین کی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کی گئی آو! امام کے ہاتھوں معارف قرآنی کاجام نوش کریں۔


عظمت قرآن

امام زین العابدین ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ وہ فرماتے تھے"من اعطاه الله القرآن فَرَأى‏ انّ احداً اُعطى افضل ممّا اُعطى فقد صغّر عظيما و عظّم صغيراً"؛جس آدمی کو خداتعالیٰ نے قرآن کا علم عطا کیا ہو اگر وہ یہ تصور کرے کہ کسی کو اس سے بہتر الہی ہدیہ عطا کیا گیا ہے ۔ حقیقت میں اس نے عظیم کو پست اور پست کو عظیم سمجھا ہے۔ (2)


خصوصیات قرآن

امام زین العابدین اپنے نورانی دعاؤں میں قرآن کی اس طرح توصیف کرتے ہیں
الف) نور ہدایت قرآن مجید نے اپنی صفت کلمہ نور سے بیان کی ہے جیسے اس آیۃ شریفہ میں ذکر ہوا ہے « و انزلنا اليكم نوراً مبينا»(3) لیکن یہ نورانیت کن افراد کے لیے ہے؟ امام اس کا جواب یوں بیان کرتے ہیں :« و جَعَلْتَهُ نوراً نَهتَدِى مِن ظُلَمِ الضَّلالَة والجَهالة باتّباعه» خدایا تم نے قرآن کو نور قرار دیا جس کی پیروی سے ہم ظلمت کے اندھیرے اور جہالت سے نجات حاصل کرسکیں۔ (4)
قرآن کے نہ بجھ نے والے نور کی تشریح امام سجاد کچھ اس طرح کرتے ہیں « و نور هُدىً لايُطْفَأ عَنِ الشّاهِدين برهانه؛ اور اس کو ہدایت کا نور قرار دیا جو مشاہدہ کرنے والوں کے لیے کبھی خاموش نہ ہونے والی دلیل ہے۔(5)

ب)مرض کی دوا اللہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے و َنُنَزِّلُ مِنَ القرآن ما ھو شفاءٌ و رحمةٌ للمؤمنين»اور ہم قرآن میں وہ سب کچھ نازل کررہے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے (۶)۔لیکن سوال یہ ہے کہ کب اور کن لوگوں کے لئے؟ امام زین العابدین اس سوال کا جواب اپنے پربرکت الفاظ سے کچھ اس طرح دیتے ہیں۔«و شفاءً لِمَنْ اَنْصَتَ بِفهم التّصديق الى اسْتماعه؛ قرآن شفا ہے اس شخص کے لئے جو اِس کو یقین اور تصدیق کے ساتھ سمجھنا چاہتا ہے اور اس کے سننے کے لیے خاموش رہتا ہے۔


میزان عدالت :

قرآن مجید کا ارشاد ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّهِ شُهَدَاء بِالْقِسْطِ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿8﴾اے ایمان والو خدا کے لئے قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو اور خبردار کسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف کو ترک کردو -انصاف کرو کہ یہی تقوٰی سے قریب تر ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے ﴿8﴾ قرآن پیغمبر اکرم کو مخاطب قرار دے کر فرماتا ہے۔ وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِن كِتَابٍ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ اور یہ کہیں کہ میرا ایمان اس کتاب پر ہے جو خدا نے نازل کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں۔(۹) اور عدالت خانوادہ تشکیل دینے کے لیے پایہ و کرسی جانتے ہوئے فرماتا ہے « فَاِنْ خفتم الاّ تعدلوا فواحدة»(10)(آیت ۳) اور اسی طرح اقتصادی روابط کے لئے بھی بنیاد قراردیا ہے:« و اوفوا الكيل و الميزان بالقسط» اور ناپ تول میں انصاف سے پورا پورا دینا (۱۱) اور اسی طرح اختلافات کا حل بھی عدالت کے مطابق ہی چاہتا ہے۔« فاصلحوا بينهما بالعدل و اقسطوا اِنّ الله يُحِبُّ المُقْسطين» ان میں عدل کے ساتھ اصلاح کردو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے(۱۲)۔ لیکن عدالت کو یقینی بنانے کے لئے کن قوانین و ضوابط اور معیاروں کی ضرورت ہے ؟ امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں :« و ميزان عدلٍ لايَحيفُ عن الحقّ لسانه» قرآن عدالت کی ترازو ہے اس کی زبان حق گوئی سے باز نہیں رہتی ہے۔ (۱۳)


زیبا تلاوت

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک حدیث شریف میں ارشاد فرماتے ہیں « لكلّ شى‏ء حِلية و حِيلة القرآن الصّوتُ الحسن» ہر چیز کے لئے زینت ہوتی ہے اور قرآن کی زینت اچھی آواز ہے.»(14) امام صادق علیہ السلام ترتیل کے بارے میں اس طرح تفسیر کرتے ہیں «آن است كه در آن درنگ كنى و صداى خويش را زيبا سازى.»(15) اس جھت بھی امام سجاد نصب العین ہیں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں «كان علىّ ابن الحسين صلوات الله عليه احسن الناس صوتاً بالقرآن و كان السّقّاؤون يمرّون فيقفون ببابه يسمعون قرائتَه و كان ابو جعفرعليه السلام احسن الناس صوتاً» على بن الحسين‏ عليه السلام خوش صداترين افراد در خواندن قرآن بود. افراد سقا همواره به هنگام عبور، بر در خانه‏اش مى‏ايستادند و به قرائت او گوش مى‏دادند. و ابوجعفر(امام باقرعليه السلام) نيز نيكوترين صدا را در خواندن قرآن داشت.»(17)


قرآن سے الفت:

زہری کہتا ہے میں نے امام علی بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا :« لو مات مَنْ بين المشرق و المغرب لما استوحشتُ بعد اَنْ يكون القرآن معى» اگر تمام لوگ مشرق سے مغرب تک مر جائے، چونکہ قرآن میرے ساتھ ہے؛ مجھے کوئی وحشت نہیں ہوگی۔(۱۹)


قرآن اور آخری زمانے کے لوگ :

امام سجاد علیہ السلام سے توحید کے بارے میں سوال پوچھا گیا آپ نے فرمایا " خداوند جانتا تھا کہ آخر زمانے میں لوگ زیادہ تفکر کرتے ہونگے اس لیے خداوند نے سورہ توحید اور سورہ حدید تا (علیم بذات الصدور ) نازل فرمایا۔ ۔۔۔۔(۲۰)


قرآن میں تفکر :

زہری کہتا ہے : میں نے امام علی بن الحسین علیہ السلام سے سنا کہ :« آيات القرآن خزائن فكلما فتحت خزانةٌ ينبغى لك ان تنظر ما فيها» قرآن مخفی خزانہ ہے پس جب بھی اس خزانے کا دروازہ کھولا جائے بہتر ہے کہ جوکچھ بھی اس میں ہے اس پر نظر ڈالو۔ (۲۱)


حروف مقطعہ کی تفسیر :

قرآن مجید کے انتیس سورے حروف مقطعہ سے آغاز ہوتے ہیں مفسروں نے ان کے مختلف معنی ذکر کئے ہیں مھمترین تفسیروں میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن کریم انہی حروفوں کا نمونہ ہے جو تمام انسانوں کے اختیار میں ہیں اگرتونائی رکھتے ہو تو اس جیسا اختراع کرو۔
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں " قریش اور یھود قرآن کو بے جا نسبت دیتے تھے۔ اور کہتے تھے قرآن سحر ہے اس کو(پیغمبر نے) خود ایجاد کیا ہے اور خدا سے منسوب کیا ہے خدا نے انکو اعلان فرمایا (الم۔۔۔) یعنی اے محمد! یہ کتاب جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے انہی حروف مقطعہ (الف۔لام۔میم) میں سے ہیں جو آپکی زبان اور آپکے ہی حروف ہیں۔( انکو کہو) اگر اپنے مطالبے میں سچے ہو تو اس جیسا لاو۔(۲۲)


خدا کے خاص بندوں کی خصوصیتیں

قرآن کریم کا ارشاد ہےأَلا إِنَّ أَوْلِيَاء اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ ۔آگاہ ہوجاؤ کہ اولیائ خدا پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ وہ محزون اور رنجیدہ ہوتے (۲۳)اولیاء خدا کی خصوصیتیں کیا ہوتی ہیں؟ عیاشی امام باقرعلیہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ میں نے علی بن الحسین علیہ السلام کی کتاب میں یہ دریافت کیا کہ اولیاء خدا کو نہ خوف ہوتا ہے اور نہ ہی غم و بریشانی چونکہ واجب الٰہی کو انجام دیتے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو پکڑا ہے(پر عمل کرتے ہیں)۔جو کچھ خدا نے حرام قرار دیا ہے اس سے پرہیز کرتے ہیں اوردنیا میں جلد فانی ہونے والی زندگی کی زینت سے زھد اختیار کیا ہے اور جوکچہ خدا کے پاس ہے اس کی طرف رغبت رکھتے ہیں اور پاک رزق کے تلاش میں رہتے ہیں اور فخرفروشی اور زیادہ طلبی کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں اور اس کے بعد اپنے واجب حقوق انجام دینے کےلئے انفاق کرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جنکی آمدنی میں اللہ تعالٰی نے برکت عطا کی ہے اور جو کچھ آخرت کیلئے پہلے سے ہی بیجتے ہیں اس کا ثواب انکو دیا جائےگا۔(۲۴)


حقیقی سپاہی

مکہ کے راستے میں عباد بصری امام زین العابدین علیہ السلام سے ملاقات کرتا ہے۔اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے: جہاد اور اسکی سختی کو چھوڑدیا اور حج اور اسائش کی طرف آئے ہو؟ اس کے بعد آیہ کریمہ «اِنّ الله اشترى من المؤمنين انفسهم و اموالهم بأنّ لهم الجنّة» کی تلاوت کی۔ امام نے فرمایا: آیت کا اگلا حصہ بھی بڑھ لو! عباد بصری نے دوسری آیت کی تلاوت کی «التّائبون العابدون السّائحون الرّاكعون السّاجدون الآمرون بالمعروف و النّاهون عن المنكر و الحافظون لحدود الله و بشّر المؤمنين»(25)؛ یہ لوگ توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے ، حمد پروردگار کرنے والے، راس خدا میں سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے، سجدے کرنے والے، نیکیوں کا حکم دینے والے، برائیوں سے روکنے والے اور حدود الٰہیہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اے پیغمبر آپ انہیں جنت کی بشارت دیدیں۔اس وقت امام نے فرمایا: جب بھی ایسے افراد پاؤں جن میں یہ اوصاف ہو انکے ہمراہ جھاد حج سے افضل ہے۔


زھد کی معنی

کچھ لوگ تصور کرتے ہیں کہ زھد کی معنی اجتماع سے دوری اور زندگی کی خوبصورتی سے ہاتھ دو لینا ہے۔جب کہ قرآن مجید فرماتا ہے: ((مَنْ حَرَّمَ زينة الله الّتى اخرج لعباده و الطّيّبات من الرّزق)) کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے آپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ہے۔(27) اور اسی طرح دعا کی صورت میں انسان کو سکھایا کہ خدا سے دنیا اور آخرت کی نیکی طلب کرے «ربّنا آتنا فى الدّنيا حسنة و فى الاخرة حسنة»)28( اس بارے میں امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں۔
«اَلا و انّ الزهد فى آية من كتاب الله لكيلا تأسوا على ما فاتكم ولا تفرحوا بما آتيكم؛ خبردار! زھد جو قرآن کی اس آیت میں ہے فرماتا ہے جو کچھ آپ نے کھویا ہے اس کے بارے میں افسوس نہ کرو اور جو کچھ آپ کے پاس ہے اس سے وابستہ اور خوش نہ ہوجاو(29)
اسی طرح نھج البلاغہ میں پڑھتے ہیں کہ امام فرماتے ہیں: زھد قرآن کے دو کلموں میں ہے جیسے خدا فرماتا ہے لكيلا تأسوا ۔۔۔ جو بھی اپنے گزشتہ پر افسوس نہ کرے اور اپنے مستقبل پر مغرور اور وابستہ نہ ہوجائے اس نے زہد کو دونوں جانب سے حاصل کیا ہے۔(30)


عالم برزخ

امام سجاد علیہ السلام نے اس آیہ کریمہ «وَ مِنْ وَرائهم بَرْزَخٌ الى يوم يُبْعَثُون»؛(31) ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے کی تلاوت کے بعد فرمایا: «هو القبر و انّ لهم فيها معيشةً ضنكا و الله اِنّ القبر لروضةٌ من رياض الجنة او حُفْرَةٌ مِن حُفَرِ النّار؛ بزرخ قبر ہے جس میں انکے لئے زندگی گزارنا سخت ہے خدا کی قسم بہشت کے باغوں میں سے ایک باغ یا جہنم کے گھڈوں میں سے ایک گھڈا۔


پی‏نوشت‏ہا:

1. واقعہ / 79.
2. اصول کافی، ج 2، ص 605، باب فضل حامل القرآن، ح 7.
3. نساء / 174.
4 و 5. صحیفہ سجادیہ، دعای 42.
6. اسراء/ 82 .
7. صحیفہ سجادیہ، دعای 42.
8. مائدہ/ 8.
9. شوری/ 15.
10. نساء/ 4.
11. انعام/ 152.
12. حجرات/ 9.
13. صحیفہ سجادیہ، دعای 42.
14. اصول کافی، ج 2، ص 615، باب ترتیل القرآن بالصوت الحسن، ح 9.
15. تفسیر صافی، ج 1، ص 45، مقدمہ یازدہم .
16. اصول کافی، ج 2، ص 615، ح 4.
17. ہمان، ح 11.
18. ہمان، باب فضل حامل القرآن، ح 7.
19. ہمان، باب فضل القرآن، ح 13.
20. تفسیر صافی، ج 2، ص 866 .
21. اصول کافی، ج 2، ص 609، باب فی قرائتہ، ح 2.
22. تفسیر برہان، ج 1، ص 54.
23. یونس/ 62.
24. تفسیر صافی، ج 2، ص 757.
25. توبہ/ 111 و 112.
26. تفسیر صافی، ج 1، ص 734، ذیل آیہ 111 سورہ توبہ.
27. اعراب/ 32.
28. بقرہ/ 201.
29 و 30. تفسیر صافی، ج 2، ص 665، ذیل آیہ 23 سورہ حدید.
31. مؤمنون/ 100.
32. تفسیر صافی، ج 2، ص 149.