نور علی نور ، قرآن اورنماز کا باہمی رابطہ
  • عنوان: نور علی نور ، قرآن اورنماز کا باہمی رابطہ
  • مصنف: ابوالفضل خوش منش
  • ذریعہ: www.altanzeel.com
  • رہائی کی تاریخ: 12:19:10 1-9-1403


قرآن اورنماز کا باہمی رابطہ ، ایک ایسا نکتہ ہے جس پر قرآن اور اہلبیت نے بہت تاکید کی ہے ۔ جب ہم اس موضوع سے متعلق احادیث پر ایک نگاہ ڈالیں تو بہت سے اہم تربیتی نکات ہمارے سامنے آئیں گے ۔ قرآن اور نماز کا رابطہ ، قرآن کو دل میں اس کی شان کے مطابق جگہ دینے کے لئے مطمئن ترین راستہ ہے ۔ قرآن اور روان شناسی نامی کتاب میں عنوان '' فعالانہ مشارکت '' کے ذیل میں یہ ذکر ہوا ہے کہ :
کسی کام کو ماہرانہ طور پر صحیح انداز میں انجام دینے کے لئے یہ لازم ہے کہ زیادہ سے زیادہ تمرین کی جائے اور عملی طور پر اس کی تکرار جاری رکھی جائے ۔ عملی تمرین نہ فقط تجربی مہارت کو حاصل کرنے کے لئے مہم ہے، بلکہ علوم نظری ، اخلاقی رفتار و کردار ، فضائل معاشرتی اقدار اور آداب کے سیکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے ۔اس لئے کہ انسان اگر سیکھنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس کو عملی طور پر انجام دے ،جب تک عمل کے سانچے میں وہ تھیوری نہیں ڈھلے گی ذہن میں محفوظ نہیں ہو گی۔
ایک تجربی تحقیق کے نتائج نے اس مسئلہ کو واضح کیا ہے کہ جو لوگ کتاب کو سامنے رکھ کر مطالب کو حل کرنے اور ذہن نشین کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ان لوگوں کی بنسبت جلدی یاد کرتے ہیں نیز ان کے یاد کیئے گئے مطالب دیر پا ہوتے ہیں ، جو لوگ اپنی یادداشت کو استاد کے حوالے کر دیتے ہیں تاکہ جو مطالب استاد بورڈ پر لکھے گا وہ اس کو یاد کریں گے ، استاد کے حل کیئے گئے مطالب جلدی ذہن سے نکل جاتے ہیں اس آزمائش اور تجربہ کا نتیجہ '' حفظ کرنے میں فعالانہ شرکت'' کی اہمیت کو واضح کرتاہے ۔
قرآن کریم میں بھی فعالانہ شرکت کے اساسی قانون کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ یہ مسئلہ قرآن کے اس طریقۂ کار سے ماخوذ ہے جو اس نے نفسانی ، اخلاقی اور اجتماعی میدانوں میں پسندیدہ عادات کو تعلیم دینے کے لئے اپنا یا ہے ۔ واضح ہے کہ یہ طورطریقہ در حقیقت وہی عملی تمرین ہے جو قرآن کے نور ہدایت ہونے کی مظہرہے، اور قرآنی تہذیب کو انسان کی روح اور جان کی گہرائی تک لے جاتی ہے۔ اس مقالہ میں ہمارا مقصد قرآن اور نماز کے باہمی رابطہ کو مختلف عناوین میں بیان کرنا ہے ۔


١) نماز اور قرآن دونوں '' ذکر '' ہیں ۔

قرآن کریم نے اپنے آپ کو تحریف و تغییر سے محفوظ رہنے کے لئے ، ذکر سے تعبیر کیا ہے '' انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون'' حجر ٩ ( ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں )۔عظیم مفسرعلامہ طباطبائی اس آیہ کے ذیل میںفرماتے ہیں:قرآن اپنے آپ کو پاک اورخوبصورت اوصاف سے توصیف سے فرما رہا ہے، جیساکہ اپنے آپ کو''نور،صراط مستقیم کی ہدایت کرنے والاہے،محکم،اوراستوارآئین کی طرف ہدایت کرنے والاو''....سے توصیف کیاہے ۔قرآن کریم نے اگرچہ ہدایت انسانی کاکوئی بھی پہلو تاریک نہیںرکھا۔لیکن جامع ترین عنوان ''ذکر'' بیان کیاہے ۔
قرآن مجید اﷲکی طرف سے ''مذکّر''(یادآوری کرنے والا)بن کرآیاہے ۔لہٰذاقرآن ایک زندہ اورجاویدآیت الہٰی ہے ۔اﷲتعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اورصفات کو مظہر اور شاہکار خلقت بیان کررہاہے ۔ سعادت اورشقاوت،جنت اورجہنم کے راستے کو بیان کررہاہے ۔قرآن کریم ان سب موارد میں ذکر اﷲہے ۔اورقابل توجہ بات یہ ہے کہ نماز کے بارے میںبھی لفظ ''ذکر''بیان کیاگیاہے ''اتل ما اوحی الیک من الکتاب واقم الصلوٰةان الصلوة تنهیٰ عن الفحشاء والمنکر و لذکر اﷲ اکبر واﷲ یعلم وانتم لاتعلمون' (سوره عنکبوت٤٥) (آسمانی کتاب میںسے جوتم پرنازل کیا گیا ہے، اس کی تلاوت کرو۔اورنمازقائم کرو،بے شک نماز فحشاء اوربرائی سے روکتی ہے ۔بے شک اﷲ تعالیٰ کاذکربہت بڑاہے اورجوکچھ تم کرتے ہواﷲ اس پرگہری نظررکھے ہے)اس آیہ کریمہ سے ملنے والے درسی نکات یہ ہیں۔
الف)قرآن کریم کی تلاوت (ب)نمازپڑھنا۔ چونکہ نمازفحشا اوربرائی سے روکتی ہے (ج) اﷲ کا ذکر سب سے بلنداورپرثمرہے (د) خداوندمتعال انسان کے افعال اورکردارپرگہری نظررکھے ہے(ھ) تلاوت قرآن اورنماز میںباہمی رابطہ ہے۔


(٢)نماز سے پہلے اوربعدمیںتلاوت قرآن

نمازسے پہلے اوربعدمیںقرآن کی تلاوت اسی باب میںشامل ہے اوریہ مسئلہ آیات وروایات میںمذکورہے ۔
الف)جب نمازپڑھوتواﷲکو یاد کرو،اٹھتے بیٹھتے ،پہلو بدلتے یادکرو۔(سورہ نساء ١٠٣)
ب) جب نمازپڑھوتوزمین پرپھیل جاؤ اور فضل پروردگار کو تلاش کرواوراﷲکابہت زیادہ ذکر کرو۔(سورہ جمعہ٧)
آیات مذکورہ میںہرنمازکے بعدذکرالہٰی کی تاکیدکی گئی ہے ۔ان آیات میںذکرکامفہوم عام ہے اورتلاوت قرآن کریم اس ذکرکابہترین
مصداق ہے ۔



٣)نمازاورقرآن ۔

نمازکے ایک اہم جزکے عنوان سے حمداورسورہ کا پڑھناواجب ہے۔ فقہی اصولوںکے مطابق سوروں کے چھوٹے اوربڑے ہونے کے اعتبار سے قرآن کو زیادہ یاکم پڑھاجاسکتاہے ۔


٤)نمازکے مقدمات،قرآن کے سمجھنے کامقدمہ ہیں۔

نمازاسلام کابہترین شعارہے۔ اورپیغمبراسلام ۖ کی تعبیرکے مطابق ،نماز،دین کے خیمہ کامرکزی ستون ہے اورایک حساس اوردقیق عبادت ہے جو سارے انسانی کمالات کوعملی طورپراپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔اﷲتعالیٰ کے سامنے خضوع و خشوع اورظاہری اورباطنی طہارت کاپابند،وقت کی پابندی، راہ حلال سے کھانے ،پینے ،لباس ، و . . . کسب کرنا،بارگاہ خالق میںقلبی توجہ سے حاضر ہونا و . ..یہ سب نمازکے انسان سازسبق ہیں۔یہ نکات دل وجان سے پیام الہٰی کوسننے کوتیارکرتے ہیں۔


٥)نمازشب اورقرآن کریم ۔

رات ،فرامین الہٰی پرعمل کرنے اورانسان و خدا کے رابطہ کومضبوط کرنے کابہترین وقت ہوتا ہے۔ رات کاسکوت انسانی افکارکوایک نقطے پرمتمرکز کرسکتا ہے۔یہ مطلب کئی آیات میںبیان کیا گیاہے۔
باقی اوقات کی بہ نسبت ،رات کی تاریکی میں راز و نیازکے آثارزیادہ ہیں،دل کے تالے،رات کی تاریکی میںپڑھی گئی آیات کے ذریعہ بہترکھل سکتے ہیں۔اس تمرین الہٰی پرہمیشہ عمل کرنے سے وہ دل جورئیس اعضاء اورمدیرومدبربدن ہے ،جمال الہٰی کاآئینہ بن جاتاہے ۔

 


٦)قرآن اورنمازروایات کی نظرمیں

نمازاورقرآن کے باہمی رابطہ پرمتعددروایات میں تاکیدکی گئی ہے ،آئمہ /نے نمازکے بارے میں ''افضل الاعمال''جیسی تعبیربیان فرمائی ہے۔ اور مومنین پرتعلیم وتربیت کے دروازے کھول دئیے ہیں۔
نمونہ کے طورپردرج ذیل حدیث کوملاحظہ کیجئے:
امام محمدباقر نے فرمایا:جوبھی کھڑے ہوکر نماز میں قرآن پڑھے گا،اسکوہرحرف کے بدلے سو نیکیاں ملیں گی ۔ جو نماز میں بیٹھ کرقرآن پڑھے گا،اس کوہر حرف کے بدلے پچاس نیکیاںملیںگی اوراگرقرآن کونمازکے علاوہ پڑھاجائے توہرحرف کے بدلے دس،نیکیاںملیںگی۔
(اصول کافی ج٢باب ثواب قرأةالقرآن ح١)
جونکتہ اس حدیث میں واضح طور پر جوبات قابل توجہ ہے وہ یہ کہ تین مرحلہ اور قرآن پڑھنے کے ثواب کی درجہ بندی کی گئی ہے ۔
چنانچہ ہم دیکھیں گے کہ ان مراحل کی فضیلت اور درجہ بندی انسانی توجہ اور خضوع و خشوع کی وجہ سے ہے۔ انسان جتنا اپنے آپ کو خدا کی طرف متوجہ کریگا، الھی برکات اس پر اتنی ہی نازل ہونگی ۔اسی حدیث اور دیگر متعدد احادیث میں ،مختلف لوگوں کے روحی، مکانی وزمانی متغیر حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآن کی تلاوت سے انسان میں بعض اوقات اثر پذیری کا جو جذبہ پیدا ہوتا ہے ان سے ثواب کی درجہ بندی کی مکمل ہماہنگ ہے۔ یہاں تک کہ کسی مقام پر قرأت قرآن کی اہمیت نظر انداز نہیں کی گئی ہے ۔