قرآن اور فقہ
  • عنوان: قرآن اور فقہ
  • مصنف: محمد باقر رضا
  • ذریعہ: www.altanzeel.com
  • رہائی کی تاریخ: 18:40:9 1-10-1403


مقدمہ :

قرآن اور فقہ ایک ایساموضوع ہے جس کی افادیت کے پیش نظرجہاںاس پربحث بہت ضروری ہے، وہیںموجودہ دور کے مطابق اتنی باریکیوں والے اور بے شماردقتوں اور نزاکتوںپر مشتمل موضوع کو جوان اور نو جوان نسل کے لئے پیش کرنا نہایت ضروری ہونے کے ساتھ ساتھ بے انتہا سخت بھی ہے ۔ چونکہ اس نسل کے تخاطب کی زبان ایک الگ ہی رنگ رکھتی ہے۔البتہ یہ ناممکن بھی نہیں ہے۔لیکن اس کے باوجود کچھ جگہیں ایسی آتی ہیں، جن کو آسان اور جوانوں کی زبان میں ڈھالنا ،نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن بھی ہوجاتا ہے۔


ابتدائی کلمات

اصل بحث سے پہلے ضروری ہے کہ فقہ اور قرآن کے معانی کو سمجھ لیا جائے اور یہ بات واضح ہو جائے کہ ان کے کیا معنیٰ ہیں اور ان الفاظ سے ہماری مراد کیا ہے۔


لغت میں فقہ:

اچھی طرح سمجھنے کو لغت میں'' فقہ ''کہتے ہیں۔ (فَقِه الاَمرَاَی اَحسَنَ اِدرَاکَه)(١)


اصطلاح میں فقہ:

فقہ کی متعدد اصطلاحیںپائی جاتی ہیںجن میں سے تین مندرجہ ذیل ہیں:
الف: علم اصول دین اور علم شریعت۔(٢)
ب: جو قرآن پڑھتا ہے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیتا ہے اسے فقیہ کہتے ہیں۔(٣)
ج : احکام اسلامی کا اس کے منابع اور مصادر سے استنباط واستخراج کرنا۔اسی کو آج کی اصطلاح میں اجتہاد کہتے ہیں(٤)


لغت اور اصطلاح میں قرآن:

قرائت اور پڑھنے کو عربی میں قرآن کہتے ہیں۔اور اصطلاح کے اعتبار سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ خدا کی طرف سے اس کے آخری رسولۖپر نازل ہونے والی کتاب کو قرآن کہتے ہیں۔


فقہ اور قرآن سے ہماری مراد:

ہماری اس بحث میں فقہ سے مراد اصطلاحی معانی میں سے تیسرے معنیٰ ہیں۔یعنی احکام اسلامی کا اس کے منابع اور مآخذسے استنباط کرنا۔جس کو آج اجتہاد بھی کہتے ہیں۔
اسی طرح قرآن سے ہماری مراد وہی اصطلاحی قرآن ہے جس کے نام سے دنیا کا بچہ بچہ آشنا ہے۔


فقہ میں قرآن:

جیسا کہ فقہ کے اصطلاحی معانی میں ہم نے ذکر کیاکہ معتبر اور موثق منابع ومآخذ سے احکام اسلامی کے استنباط کو فقہ کہتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ منابع ومآخذمیںکونسی چیزیں آتی ہیں؟کیا جس سے دل چاہے احکام اسلامی کا استنباط ہو سکتا ہے؟ اس کے منابع اور اس کی اساس کا کوئی معیار ہے یا نہیں؟ اس سوال کے جواب میںعلماء شیعہ نے چار منابع کو پیش کیا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:
الف:قرآن کریم۔
ب:سنت(معصوم کا قول،معصوم کا عمل اورکسی عمل کے مقابل معصوم کا سکوت)۔
ج:اجماع۔
د:عقل۔
یعنی استنباط اور اجتہاد کا پہلا مصدر اور منبع قرآن ہے جس سے احکام اسلامی کو سمجھا جاتا ہے۔البتہ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ہر حکم اسلامی کو قرآن سے نہیں نکالا جا سکتا ،چونکہ قرآن میں ہر چیز کے جزئی اور چھوٹے چھوٹے احکام بیان نہیں کئے گئے ہیںبلکہ قرآن کسی ملک کے" قانون اساسی" کی طرح ہے ،جس میں ہر چیز کے جزئیات بیان نہیں کئے جاتے، بلکہ صرف کلی اور بنیادی باتیں ذکر کی جاتی ہیں۔جس طرح ہر ملک کا قانون اساسی ایک مرجع عام ہوتا ہے اور کسی بات کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کے لئے قانون اساسی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح پارلیمنٹ میں بننے والا کوئی بھی قانون ملک کے قانون اساسی کے خلاف نہیں ہو سکتا ۔ہاں یہ ممکن ہے کہ اگر قانون اساسی میں کسی چیز کا ذکر نہ ہو تو بعد میں اس سلسلہ کے وضع شدہ قانون کو قانون اساسی کے خلاف نہیں کہا جاسکتا،چونکہ مخالفت اس چیز کی ہو سکتی ہے جو موجود، ہو لیکن اگر کوئی چیز موجود ہی نہ ہو تو اس کی مخالفت کیسے کی جاسکتی ہے؟
اسی طرح قرآن میں ہر چیز کے جزئیات موجود نہیں ہیں، بلکہ دنیا کے بنیادی احکام اس میں ذکر کئے گئے ہیں اور ان احکام سے فرار نہیں کیا جاسکتا یعنی جس طرح کسی ملک کے قانون اساسی میں اس ملک کاہر مسئلہ نہیں ہوتا، بلکہ صرف کلی اور بنیادی باتیں بیان کی جاتی ہیں اور اسکے باوجود ملک میں بننے والا کوئی بھی قانون ،ملک کے قانون اساسی کے مخالف نہیں بن سکتا۔اسی طرح قرآن مجید اسلامی قوانین کی اساس ہے اور سنت ،اجماع وعقل سے استنباط کیا گیا کوئی بھی حکم، قرآن کے مخالف نہ ہونا چاہئے۔ہاں اگر کوئی حکم قرآن میں موجود نہ ہولیکن سنت میں موجود ہو تو اسے مخالف قرآن نہیں کہا جائے گا۔اس لئے کہ مخالفت اس جگہ ثابت ہوگی کہ قرآن میں کوئی حکم موجود ہواور سنت کاکوئی حکم اس کے برخلاف آجائے۔مثلاً قرآن میںخنزیر کے گوشت کو حرام قرار دیا گیا ہے۔اب ا گر سنت آکر یہ کہے کہ خنزیر کا گوشت حلال ہے تو اسے قرآن کے مخالف کہا جائے گا ۔لیکن کتے کے گوشت کے حرام یا حلال ہونے کے سلسلہ میں قرآن کے اندر کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ اس لئے اگر سنت کہے کہ کتے کا گوشت حرام ہے تویہ مخالف قرآن نہیں ہوگا، چونکہ اس کا تذکرہ قرآن میں نہیں ہے۔


قرآن میں فقہ:

قرآن میں بیس مورد ایسے ہیں جہاں لفظ فقہ یا اس سے ساختہ شدہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔(٥)


مختصر تاریخ فقہ و اجتہاد:

اگر کسی کو فقہ و قرآن کے موضوع پر بحث کرنا ہو تو ضروری ہے کہ فقہ کی تاریخ پر کم از کم ایک سرسری نظر ضرور ڈال لے،چونکہ ایک طرف فقہ کے لئے لفظ اجتہاد بھی استعمال ہوتا ہے اور دوسری طرف لفظ اجتہاد ائمہ کے زمانے میں بدنام زمانہ بھی رہا ہے۔
در اصل ائمہ کے زمانے سے ہجری کی چھٹی صدی کے آخر تک لفظ اجتہاد صرف اہل سنت کی اصطلاحات میں پایا جاتا تھا اور اجتہاد سے اہل سنت کی مراد یہ تھی کہ جب اہل سنت کے علما کو کسی مسئلہ پر قرآن و سنت سے دلیل نہیں ملتی تھی اور کسی چیز کو قرآن و سنت سے ثابت نہیں کر پاتے تھے تو وہ اپنی ذاتی فکر، ذاتی رائے، شخصی سوچ اور اپنے دل و دماغ کی طرف رجوع کرتے تھے اور دیکھتے تھے کہ ان کی فکر کیا کہتی ہے۔یعنی اگر کل خدا یا کوئی اور ان سے پوچھتا کہ اس مسئلہ میں آپکی دلیل کیا ہے تو ان کا جواب یہ ہوتا کہ میرا اجتہاد یہی کہتا ہے اور میری ذاتی فکر اس بات تک پہنچاتی ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ نظریہ صحیح نہیں تھا، اس لئے کہ احکام اسلامی تک پہنچنے کے لئے آدمی کی ذاتی فکر اور شخصی سوچ حجت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ تھی کہ ائمہ نے اس کی مخالفت کی۔اور چونکہ اہل سنت اس روش کو اجتہاد کہتے تھے، اس لئے ائمہ نے اجتہاد کے نام سے اس فکر اور اس نظریہ کی مذمت کی۔ اس کے بعد چھٹی ہجری تک مختلف علمااس نظریہ کو اجتہاد کہہ کر غلط ثابت کرتے رہے اور اس کی مخالفت اجتہاد کے عنوان سے ہوتی رہی۔
لیکن ساتویں ہجری میں محقق حلی نے اجتہاد کے ایک دوسرے معنیٰ کئے۔ چونکہ لغت میں اجتہاد کا مطلب کوشش کرنا تھا اس لئے محقق حلی نے اجتہاد کے معنیٰ یہ کئے کہ کوئی عالم دین، احکام اسلامی کے استنباط و استخراج کے لئے اپنی کوششیں صرف کرے۔ اگرچہ اس تعریف میں خود قیاس والا اجتہاد بھی آتا ہے لیکن ہم قیاس کو اس سے مستثنیٰ کرتے ہیں اور اسکے علاوہ دوسرے اجتہاد کو مانتے ہیں۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس طرح شیعہ بھی اجتہاد کو ماننے لگے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ہم اجتہاد کو مانتے ہیں لیکن اجتہاد کی ایک قسم یعنی قیاس کو نہیں مانتے۔
اس کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ حکومت کی دو قسمیں ہیں، ایک دنیاوی حکومت اور ایک اسلامی حکومت۔اب حضرت علی حکومت کو چاہتے تھے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر طرح کی حکومت کو چاہتے تھے، بلکہ عدل وعدالت قائم کرنے کے لئے اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے نہ کہ دنیاوی حکومت۔ اسی طرح محقق حلی نے کہا کہ اجتہاد کی دو قسمیں ہیں ایک قیاس والا اجتہاد اور ایک غیر قیاس والا اجتہاد۔ اور ہم اجتہاد کو مانتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ہر طرح کے اجتہاد کو مانتے ہیں بلکہ غیر قیاس والے اجتہاد کو مانتے ہیں۔
اس طرح محقق حلی نے اجتہاد جیسے بدنام لفظ کو ایک حسن عطا کیا۔چونکہ الفاظ اور کلمات میں کوئی عیب نہیں ہوا کرتا بلکہ اگر نقص ہوتا ہے تو اس کے مفہوم اور معنیٰ میں ہوتا ہے۔
یوں لفظ اجتہاداصطلاح کے اعتبار سے ایک معقول معنیٰ میں استعمال ہونے لگا۔ اس کے بعد جب یہ لفظ شیعہ فقہا کے ادبیات میں آگیا تو اس کے معنیٰ کچھ اور وسیع بھی ہوئے ،لیکن بہر حال وہ اجتہاد پھر بھی مستثنیٰ رہا، جس کی ائمہ /مذمت کرتے تھے(٦)


حوالے :

(١)معجم الوسیط،مادہ فقہ
(٣٢)ایضاً
(٤)دروس فی علم الاصول،حلقہ اولیٰ شہید صدر ،
(٥)اسراء ٤٤ ٤٦، ہود ٩١، طٰہٰ ٢٨، نساء ٧٨، انعام ٦٥ ٢٥٩٨، اعراف ١٧٩ ،انفال ٦٥،توبہ ٨١ ٨٧ ١٣٧ ١٢٢، کہف ٩٣ ٥٧، فتح ١٥، حشر٣، منافقون٣ ٧ (٦)دروس فی علم الاصول،حلقہ اولیٰ شہید صد ر ،