قرآن فہمی
  • عنوان: قرآن فہمی
  • مصنف: آیت اللہ شہید مرتضی مطہری
  • ذریعہ: شیعہ اسٹیڈیز ڈاٹ کام
  • رہائی کی تاریخ: 6:52:4 13-7-1403


بِسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰن الرَّحِیْمِ

پہلی تقریر

سُوْرۃ اَنْزَلْنَا ها وَفَرَضْنَا ها وَاَنْزَلْنَا فِیْهآ اٰیَاتٍمبِیّنَاتٍ لَّعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ۔اَلزَّانِیَة فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْ همَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِهمَا رَأفَة فِیْ دِیْنِ اللّٰه اِنْ کُنتُمْ تُوٴْمِنُوْنَ بِاللّٰه وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْیَشْهدْ عَذَابَهمَا طَآئِفَة مِّنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ اَلزَّانِیْ لاَیَنْکِحُ اِلاَّ زَانِیَةً اَوْمُشْرِکَةً وَّالزَّانِیَةُ لاَ یَنْکِحُهآ اِلاَّ زَانٍ اَوْ مُشْرِکُ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُوٴْمِنِیْنَ۔ (سُورہٴ نُور، آیت ۱ تا ۳)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے اس سورت میں واضح آیات نازل کی ہیں تاکہ تمہاری یاددہانی ہو جائے اور تم بیدار و آگاہ ہو جاؤ۔ اس سورت کے آغاز میں یہ جو فرمایا جا رہا ہے: ”یہ ایک سورت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے“ تو قرآن مجید میں فقط یہی ایک سورت ہے جس کا آغاز اس آیت سے ہوا ہے جبکہ وسری بہت سی سورتوں کا آغاز اس آیت ”ہم نے کتاب نازل کی“ سے ہوا ہے۔ یعنی ان آیات میں تمام قرآن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت میں بیان کردہ مفاہیم و مطالب کی جانب خدا کی خصوصی توجہ ہے۔ آپ سورت کے معنی کو جانتے ہیں۔ قرآنی آیات کا وہ مجموعہ جوایک ”بسم اللہ“ سے شروع ہو کر دوسری ”بسم اللہ“ سے پہلے ختم ہو جاتا ہے، اسے سورت کہتے ہیں۔ قرآن کا شمار ان کتابوں میں ہوتا ہے جن میں فصل، باب او رحصے نہیں ہوتے۔ قرآن کو مختلف سورتوں کے اعتبار سے ہی تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر سورت کا آغاز ایک ”بسم اللہ“ سے ہوتا ہے اور بعد والے مجموعہ کے آغاز میں جو بسم اللہ ہے وہ اس بات کی علامت ہے کہ پہلی صورت ختم ہو گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ لفظ ”سورة“ اس لفظ سے مشتق ہوا ہے جس سے لفظ ”سور“ مشتق ہوا ہے۔ شہروں کے گرد بنائی جانے والی فصیل جو شہروں کو گھیرے رہتی، وہ ایک دیوار کی صورت میں ہوتی اور پورے شہر یا قصبہ یا دیہات پر احاطہ کئے ہوئے ہوتی تھی۔ اسے عربی زبان میں ”سور“ کہا جاتا تھا۔ ”سورہ البلد“ ایک بلند دیوار ہوتی جسے کسی شہر کے گردبناتے تھے۔ گویا ہر سورت ایک حصار کے اندر واقع ہے۔ اسی لئے اسے سورہ کہا جاتا ہے۔ پیغمبرِ اکرم نے بنفس نفیس قرآن کو سورتوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایسا نہیں کہ آپ کے بعد دوسرے مسلمانوں نے قرآن کو سورتوں میں تقسیم کیا ہو، بلکہ شروع سے ہی قرآن سورتوں کی صورت میں نازل ہوا۔
اس سورت کی پہلی آیت خصوصاً سورة انزلنا ھا“ اور ا س کے بعد کے الفاظ ”فرضناھا“ اس مطلب کو ادا کر رہے ہیں کہ عفت و پاکدامنی سے متعلق مسائل بہت اہمیت کے حامل ہیں، یعنی دورِ حاضر کے انسان کی سوچ کے بالکل برعکس جو جنسی تعلقات کو سہل و آسان بنانے اور انہیں کم اہمیت شمار کرنے کی سمت بڑھ رہا ہے۔ اس نے غلط طور پر اس کا نام آزادی رکھا ہوا ہے اور وہ اپنی اصطلاح میں ”جنسی آزادی“ کی جانب گامزن ہے۔ قرآن پاکدامنی کے حریموں، بے عفتی کی سزاؤں کے عنوان سے جو مسائل بیان کرتا ہے اور جو کچھ وہ ایسی پاکدامن عورتوں کے دامن کو داغدار کرنے کی سزاؤں کے عنوان سے بیان کرتا ہے جن پر ناروا تہمتیں لگائی گئی ہوں اور جو احکام وہ شادی کرنے کی ترغیب دینے کے باب میں بیان کرتا ہے، الغرض پاکدامنی سے مربوط مسائل کے بارے میں اسلام جو کچھ بیان کرتا ہے تو وہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ مسائل بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ مسائل بہت ضروری ہیں۔ انہیں کم اہم نہیں سمجھنا چاہئے جبکہ عصرِ حاضر کی آفتوں میں سے ایک آفت یہی ہے کہ پاکدامنی کے اصول اور جنسی امور میں تقویٰ کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی جسے ہم بعد میں بیان کریں گے۔
”سُوْرَة اَنْزَلْنَا ها“ یہ ایک سورت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے اور اس میں بیان شدہ احکام کی مراعات کو واجب قرار دیا ہے، یعنی ہم ان کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔ انہیں کم اہم نہیں سمجھتے۔ ”وَاَنْزَلْنَا فِیهآ اٰیَاتٍمبیِّنَاتٍ“ اور ہم نے اس سورت میں واضح آیات نازل کی ہیں۔ اس آیت میں جو لفظ ”آیات“ آیا ہے تو ممکن ہے اس سے سورہ نور کی تمام آیات مراد ہوں، یا جیسا کہ علامہ طباطبائی نے تفسیرالمیزان میں تحریر کیا ہے، ان سے مراد وہ آیات ہیں جو اس سورت کے وسط میں واقع ہیں اور حقیقت میں یہ آیات اس سورہ کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس سورت کی دوسری آیات جنسی آداب و اخلاق کے متعلق ہیں جبکہ وہ آیات اصولِ عقائد کے متعلق ہیں۔ ہم ان کے درمیان پائی جانے والی مناسبت کو بعد میں بیان کریں گے۔ بہرحال قرآن کہتا ہے کہ ہم نے اس سورت کونازل کیا ہے اور اس میں بیان کردہ احکام جو کہ جنسی اخلاق و آداب کے متعلق ہیں، لازم قرار دیئے ہیں۔
انسان کی آگاہی و بیداری کی خاطر ہم نے اس میں واضح آیات نازل کی ہیں، ”لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ“ تاکہ تمہاری یاددہانی ہو جائے۔ تم آگاہی حاصل کرو اور غفلت سے نکل جاؤ۔
شاید آپ جانتے ہوں کہ تفکر اور تذکر کے مابین فرق ہے۔ تفکراس جگہ ہوتا ہے جہاں انسان کسی مسئلے کو بالکل ہی نہ جانتا ہو، اسے سرے سے ہی نہ جانتا ہو او روہ مسئلہ اسے سمجھا دیا جائے۔ قرآن نے متعدد مقامات پر تفکر کی بات کی ہے۔ تذکر ان مسائل میں ہے جن مسائل کے صحیح ہونے کو انسان کی فطرت جانتی ہو لیکن اسے یاد اور توجہ دلانے کی ضرورت ہو۔ قرآن کو خصوصاً ”تذکر“ کے عنوان سے بیان کرتا ہے۔ شاید اس سے انسان کا احترام مقصود ہے۔ ہم تمہیں ان مسائل کی جانب متوجہ کرتے ہیں، یعنی یہ ایسے مسائل ہیں کہ اگر آپ خود بھی غور کریں تو انہیں سمجھ لیں گے۔ لیکن ہم آپ کو یاد دلاتے ہیں اور ان کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔
بعد والی آیت فحشاء یعنی زنا کی سزا سے متعلق ہے۔ خدا کا فرمان ہے۔
اَلزَّانِیَةُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِهمَارَاْفَة فِیْ دِیْنِ اللّٓه اِنْ کُنْتُمْ تُوٴْمِنُوْنَ بِاللّٰه وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْیَشْهدْ عَذَابَهمَا طَآئِفة مِّنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ۔“ (سُورہٴ نُور، آیت ۲)
ان آیات میں تین مطالب بیان کئے گئے ہیں۔ اول یہ کہ جو بھی زنا کرے، خواہ مرد ہو خواہ عورت، اسے سزا ملے گی اور اس کی سزا قرآن نے ”ایک سو کوڑے“ معین کر دی ہے۔ سو کوڑے زانی مرد اور سو کوڑے زنا کرنے والی عورت کومارے جانے چاہئیں۔
دوم یہ کہ مومنین کو آگاہ کر رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سزا کے وقت تم پر احساسات غالب آ جایں۔ مباوا تمہیں ان پر رحم آئے اور تم کہو کہ سو کوڑے لگنے سے انہیں تکلیف پہنچے گی، لہٰذا انہیں پوری سزا نہ دی جائے۔ کیونکہ یہ ترس کھانے کا مقام نہیں ہے قرآن کہتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر جذبات غالب آ جائیں اور تم اللہ کی اس حد کو جاری کرنے میں سستی سے کام لینے لگو۔ عصرِ حاضر کی اصطلاح کے مطابق تم یہ نہ سمجھو کہ یہ ایک ”غیرانسانی“ کام ہے۔ نہیں، بلکہ یہ ایک ”انسانی“ عمل ہے۔
سوم یہ کہ سزا مخفیانہ طور پر نہ دی جائے کیونکہ اس سزا کا مقصد یہ ہے کہ دوسرے لوگ عبرت پکڑیں۔ مومنین کا ایک گروہ سزا کے وقت لازمی طور پر حاضر و ناظر ہونا چاہئے جو اسے دیکھے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ جب اس حکم کو نافذ کیا جائے تو اسے اس طور پر نافذ کرنا چاہئے کہ تمام لوگوں کو پہت چل جائے کہ فلاں عورت یا فلاں مرد پر زنا کی حد جاری ہوئی ہے۔ اس حکم کو مخفی طور پر نہیں بلکہ اعلانیہ طور پر نافذ کرنا چاہئے۔
اب ہم پہلے مطلب کے متعلق چند باتیں بیان کرتے ہیں جو زنا کی سزا کے حکم کے بارے میں ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ زنا کی سزا کی وجہ کیا ہے؟ اگر آپ ان کتابوں کا مطالعہ کریں جن میں اس موضوع کے متعلق بحث کی گئی ہے تو آپ دیکھیں گے گے کہ وہ لوگ یوں اظہار خیال کرتے ہیں کہ زنا کی سزا دینے کی وجہ…ان کی اصطلاح میں…”مرد کی حکمرانی“ ہے۔
۔ جن زمانوں میں مرد کو خاندان کا حاکم سمجھا جاتا رہا، یعنی مرد گھر کا مالک ہوتا جبکہ عورت کو کوئی حق حاصل نہ ہوتا۔ وہ مرد کے پاس بہرہ برداری کا ایک ذریعہ سمجھی جاتی۔ مرد اپنے آپ کو بیوی کا مالک جانتا تھا۔ جب کوئی عورت زنا کرتی تو اس کا شوہر یہ سمجھتا کہ اس نے ایک ایسی چیز دوسرے مرد کی تحویل میں دی ہے جو اس کا حق تھا۔ پس اس بناء پر زنا کی سزا برقرار ہوئی۔ واضح سی بات ہے کہ اسلامی قانون کی رو سے یہ ایک بے بنیاد اور من گھڑت بات ہے۔ اسلام میں زنا کی سزا عورت کے ساتھ مختص نہیں ہے، مرد کو بھی اپنے کئے کی سزا ملنی چاہئے اور عورت کو بھی۔ ”اَلزَّانِیةُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ۔“ صراحت کے ساتھ یہ آیت بیان کر رہی ہے کہ زناکار مرد اور زنارکار عورت دونوں کو سزا ملنی چاہئے۔ اگر مرد کو زنا سے نہ روکا گیا ہوتا اور فقط عورت کو روکا گیا ہوتا۔ شاید دنیا کے بعض علاقوں میں ایسے قوانین موجود تھے جن کی رو سے فقط عورت کو زنا کرنے کا حق حاصل نہیں تھا…تو اس صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ زنا کی سزا کی وجہ ”مرد کی حکمرانی“ ہے۔ لیکن اسلام نے مرد اور عورت دونوں کو زنا سے منع کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد اپنی نفسانی خواہشات کو فقط شادی کے ذریعے ہی پورا کر سکتا ہے۔ شادی نام ہے بعض فرائض کے ادائیگی کے پابند ہونے اور ذمہ داریوں کو سنبھالنے ک ۔ عورت بھی اپنی جنسی خواہش کو فقط شادی کے ذریعے ہی پورا کر سکتی ہے، البتہ بعض فرائض کی ادائیگی کی پابندی اور بعض ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ۔ پس مرد کو شادی کے بغیر اپنی جنسی جبلت کو پورا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، اور عورت کو بھی ایسا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ بنا بریں زنا کے حرام ہونے کا مسئلہ عورت کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ عورت اور مرد دونوں پر یکساں طور پر حرام ہے۔
اب یہاں ایک اور مسئلہ درپیش ہے، وہ یہ کہ آج کے یورپی معاشرے میں عورت اور مرد کو فقط اس وقت زنا سے منع کیا گیا ہے جب وہ قرآنی اصطلاح کے مطابق ”محصن“ یا محصنہ“ ہوں۔ یعنی شوہر والی عورت اور شادی شدہ مرد کو زنا کا حق نہیں پہنچتا۔ لیکن جس مرد کی بیوی نہ ہو یا جس عورت کا شوہر نہ ہو ان کے لئے زنا کرنے پر پابندی نہیں ہے۔ جس مرد کی بیوی نہ ہو فطرتاً اسے شوہر والی عورت کے ساتھ زنا کرنے کا حق نہیں پہنچتا اور جس عورت کا شوہر نہ ہو اسے شادی شدہ مرد سے زنا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ لیکن جس عورت کا شوہر نہ ہو اور جس مرد کی بیوی نہ ہو ان کے لئے کوئی ممانعت نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس کے کیوں قائل ہیں؟ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ شادی شدہ مرد کے لئے زنا حرام ہونے کا فلسفہ یہ ہے کہ اس نے اس فعل کے ذریعہ اپنی بیوی سے خیانت کی ہے اور اس کی حق تلفی کی ہے۔
اس لئے جس مرد کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی اس پر کسی عورت کا حق نہیں۔ اسی طرح جس عورت کا شوہر نہ ہو اس پر بھی کسی مرد کا حق نہیں ہے۔ اس لئے ان کے لئے زنا کرنا جائز ہے۔
لیکن اسلام نے اس حوالے سے دو باتیں کی ہیں۔ پہلی یہ کہ کسی عورت اور کسی مرد کو نکاح کے بغیر جنسی عمل انجام دینے کا حق حاصل نہیں ہے، چاہے مرد بیوی والا ہو یا نہ ہو، چاہے عورت شوہر والی ہو یا نہ ہو۔ اسلام خاندان کی اہمیت کا اس حد تک قائل ہے کہ وہ نکاح کے بغیر جنسی عمل انجام دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ فقط گھریلو زندگی کی صورت میں ہی جنسی خواہش کی تسکین کی اجازت دیتا ہے اور گھریلو زندگی تشکیل دیئے بغیر کسی صورت میں بھی عورت و مرد کو ایک دوسرے سے لذت اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا۔
دوسری بات شادی شدہ عورت اور شادی شدہ مرد کی سزا سے متعلق ہے۔ اسلام اس مقام پر دو سزاؤں کا قائل ہے۔ اس کی سزا زیادہ شدید ہے۔ ایک کلی سزا یعنی سو کوڑے اور دوسری رجم یعنی سنگساری ہے۔
خاندان کی اساس اور خاندانی ماحول کو مستحکم کرنے والے عوامل میں سے ایک یہی مسئلہ ہے اور موجودہ یورپی دنیا میں گھریلو زندگی کی اساس متزلزل و کمزور ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ دورِ حاضر میں ہم اپنے معاشرے میں یورپین باشندوں کی جتنی زیادہ پیروی کریں گے اسی قدر ہماری گھریلو زندگی متزلزل ہو گی۔ ہمارا معاشرہ جب تک صحیح معنوں میں اسلام پر عمل کرتا رہا یعنی شادی سے قبل واقعاً لڑکوں کے لڑکی یا عورت کے ساتھ تعلقات نہیں ہوا کرتے تھے۔ عصر حاضر کے یورپین لوگوں کی اصطلاح میں جب تک لڑکوں کی کوئی گرل فرینڈ نہیں ہوا کرتی تھی اور لڑکیوں کے بوائے فرینڈز نہیں ہوا کرتے تھے، اس وقت شادی لڑکیوں اور لڑکوں کی ایک آرزو شمار ہوتی تھی۔ لڑکا جب پندرہ سال کا ہو جاتا ہے تو اسے شادی کرنے کا فطری احساس ہوتا اور لڑکی کے دل میں بھی شادی کی آرزو جنم لیتی۔ لڑکے کا شادی کی آرزو کرنا ایک فطری بات تھی کیونکہ وہ عورت سے لذت حاصل کرنے کی پابندی سے شادی کے ذریعہ ہی نجات حاصل کرکے عورت سے لذت حاصل کرنے کی آزادی پاتا تھا۔ اس وقت ”شبِ زفاف کم از صبح پادشاہی بنود“ یعنی سہاگ رات پادشاہت کی صبح سے کمتر نہیں تھی کیونکہ نفسیاتی طور پر لڑکے کو اس لذت سے ہمکنار کرنے والی سب سے پہلی عورت اس کی بیوی ہوتی تھی اور لڑکی کو بھی اس کا شوہر ہی پابندی سے نکال کر آزادی سے ہمکنار کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لڑکی اور لڑکا جنہوں نے شادی سے قبل ایک دوسرے کو دیکھا تک نہ ہوتا اور دیکھنے کے بغیر آپس میں شادی کر لیتے وہ آپس میں بہت زیادہ محبت کرنے لگتے۔
(میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ شادی سے قبل ایک دوسرے کو نہ دیکھنا کوئی درست بات ہے۔ نہیں۔ اسلام نے دیکھنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن اگر انہوں نے نہ بھی دیکھا ہوتا اور ان کو ایک دوسرے کا وصال نصیب ہوا تب بھی وہ مرتے دم تک آپس میں محبت کرتے تھے)۔
لیکن یورپین تہذیب لڑکے کو اجازت دیتی ہے کہ جب تک کنوارا ہے تب تک وہ جنسی تعلقات قائم کر سکتا ہے اور لڑکی بھی جب تک کنواری ہے تب تک اسے جنسی تعلقات قائم کرنے کی آزادی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لڑکا شادی کے بعد اپنے آپ کو پابند محسوس کرتا ہے اور لڑکی بھی محسوس کرتی ہے کہ وہ شادی کے بعد آزادی سے محروم ہو چکی ہے۔ شادی سے قبل اسے آزادی تھی۔ وہ جس سے چاہتی تعلقات قائم کر سکتی تھی۔ اب شادی کے بعد وہ فقط ایک مرد تک محدود ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی لڑکا شادی کرنا چاہتا ہے تو کہتا ہے: ”میں نے آج سے اپنا ایک نگہبان مقرر کر لیا ہے“۔ لڑکی کا شوہر اس کا چوکیدار بن جاتا ہے یعنی وہ آزادی سے پابندی کی جانب آتے ہیں۔
مغربی تہذیب میں آزاد کو پابند بنانے کا نام شادی ہے۔ شادی نام ہے آزادی سے پابندی کی جانب آنے کا۔ جبکہ اسلامی تہذیب میں شادی نام ہے پابندی سے آزادی کی جانب آنے کا۔ جس شادی کی بنیاد نفسیاتی طور پر پابندی سے نجات پا کر آزادی سے ہمکنار ہونے پر ہو وہ اپنے دامن میں استحکام لئے ہوتی ہے اور جس کی اساس آزادی سے پابندی کی جانب آنے پر استوار ہو اس میں استحکام نہیں ہوتا۔ یعنی جلدی ہی اس شادی کی نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ اور دوسرے یہ کہ جس لڑکے نے بیسیوں بلکہ سینکڑوں لڑکیوں کا تجربہ کیا ہو اور جس لڑکیوں نے بیسیوں اور سینکڑوں لڑکوں کا تجربہ کیا ہو تو کیا وہ لڑکی یا لڑکا کسی ایک کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے؟ کیا انہیں پابند کیا جاسکتا ہے؟ اس لئے اسلام میں زنا حرام ہونے کی وجہ فقط یہی نہیں کہ ہے کہ یہ صرف مرد کا حق ہے اور وہ فقط عورت کا حق ہے کہ آپ کہیں کہ غیرشادی شدہ مرد پر ابھی تک کسی عورت کا حق نہیں ہے اور کنواری لڑکی پر بھی کسی مرد کا حق نہیں ہے۔ لہٰذا جو آدمی مرتے دم تک شادی نہیں کرنا چاہتا وہ مطلق العنان ہو اور جو عورت عمر بھر شادی نہیں کرنا چاہتی وہ بھی مطلق العنان ہو۔ اسلام ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ وہ کہتا ہے کہ یا تو سرے سے ہی لذت حاصل کرنے کا خیال دل سے نکال دو یا شادی کی ذمہ داریاں قبول کرو۔ اس لئے اسلام زنا کی سزا پر بہت زور دیتا ہے۔ اور جس زنا میں فقط زنا کا پہلو ہو اور اس کے علاوہ اس میں بیوی یا شوہر کے حقوق پائمال نہ ہوتے ہوں تو ایسا زنا کرنے پر بھی کوڑوں کی سزا دیتا ہے۔ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت جو طبعاً جنسی خواہش کے دباؤ کا شکار بھی نہیں ہوتے اور فقط ہوسبازی کی خاطر زنا کا ارتکاب کرتے ہیں، اسلام ان کو بھی سنگسار کرنے کا حکم دیتا ہے۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اسلام کس حد تک ان مسائل کو اہمیت دیتا ہے۔ یورپین لوگ پہلے تو یہ کہتے تھے کہ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت کے علاوہ دوسروں کے لئے زنا پر پابندی نہیں ہے۔ مگر ”رسل“ کا کہنا ہے کہ اگر زنا زخم کا موجب ہو تو اس صورت میں اسے جرم شمار کیا جائے گا۔ اگر زخم کا باعث نہ ہو تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی تدریجاً یہ لوگ اس مقام تک پہنچ گئے کہ ”رسل“ نے صراحت کے ساتھ کہہ دیا کہ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت کے لئے بھی زنا کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے کہ شادی شدہ عورت کا ایک دوست بھی ہو جس سے وہ محبت کرتی ہو، یعنی ایک مرد اس کا شوہر ہو اور دوسرا اس کا محبوب؟ محبت اس کے ساتھ کرے اور بچے شوہر کے گھر میں جنم دے۔ لیکن اس بات کا عہد کرے کہ اپنے محبوب کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے وقت مانع حمل دوائیاں استعمال کرے گی۔
فقط خود ”رسل“ کو ہی اس بات پر یقین آتا ہو گا! وگرنہ ذرا سی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ جو عورت کسی دوسرے مرد سے محبت کرتی ہو وہ اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے فقط اپنے شوہر سے حاملہ ہو گی اور صرف اپنے شوہر ہی کے بچے کو جنم دے گی، کیونکہ ہر عورت کا دل چاہتا ہے کہ وہ ایسا بچہ پیدا کرے اور اس کی آنکھوں کے سامنے رہنے والا بچہ جو ہو وہ اس مرد کی نشانی ہو جس سے وہ محبت کرتی ہے، اس مرد کی نشانی نہ ہو جس سے اسے نفرت ہے۔ تو ایسی صورتِ حال میں اس بات کی کیا ضمانت ہو سکتی ہے کہ جس مرد سے اسے محبت ہے اس سے حاملہ نہیں ہو گیاور اس کے نطفہ سے پیدا ہونے والے بچے کو شوہر کا بچہ نہیں کہے گی۔
گویا قرآن نے اس جانب خصوصی توجہ فرمائی ہے۔ وہ کہتا ہے ۔ ”اَنْزَلْنَا ها وَفَرَضْنَا ها“ ، ہم نے ان کو لازم قرار دیا ہے۔ یہ اٹل قوانین ہیں۔ زمانہ کے تقاضے ان کو بدل نہیں سکتے۔ یہ انسانی زندگی کے تغیر ناپذیر اصول ہیں اور انسانی زندگی کے اصولوں کا ایک حصہ ہیں۔ اس کے بعد قرآن کہتا ہے: وَلاَ تَاْخُذْکُمْ بِهمَا رَاْفَة فِیْ دِیْنِ اللّٰه“۔ دوبارہ یہاں قرآن زور دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ نرمی و درگزر کرنے کا مقام نہیں ہے۔ جب زنا ثابت ہو جائے تو پھر تمہیں درگزر کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ بعد والے جملہ میں خصوصی طور پر فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ زناکار مرد اور عورت پر حد جاری کرنے کے حکم کو بند کوٹھڑیوں میں اور مخفی طور پر انجام دو۔ ضروری ہے کہ لوگوں کی موجودگی میں اور ان کی آنکھوں کے سامنے اس حکم کو نافذ کیا جائے، اور اس کی خبر ہر طرف پھیل جائے تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ اسلام پاکدامنی کے مسئلہ کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔ تعزیرات کا نفاذ معاشرے کی تربیت اور اسے ادب سکھانے کے لئے ہوتا ہے۔
اگر کوئی عورت زنا کرے اور اسے مخفی طور پرچاہے تختہ دار پر ہی کیوں نہ چڑھا دیا جائے، تب بھی معاشرے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اگرچہ صدر اسلام میں ایسے واقعات بہت کم پیش آئے۔ چونکہ ان قوانین کو عملی جامہ پہنایا جاتا تھا اس لئے زنا بہت کم ہوتا تھا…تاہم اگر کبھی ایسا ہوتا تو اعلانِ عام کیا جاتا۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ یہ کہا جائے کہ ”اَلْجَاهلُ اِمَّا مُفْرِط اَوْ مُفَرِّط“ کے مطابق مغربی دنیا میں ان آخری دو تین صدیوں سے قبل کہ جب اس میں کلیسا کا قانون حکم فرما تھا تو جنسی تعلقات کو کم کرنے میں افراط سے کام لینے کی کوشش کی گئی۔ مغربی دنیا بعض مسائل میں اسلام پر اعتراضات کرتی تھی۔ کلیسیا کے قانون کے مطابق جنسی تعلقات چاہے اپنی بیوی سے ہی کیوں نہ برقرار کئے جائیں ان کو ایک پلید کام سمجھا جاتا تھا۔ ان کی نظر میں عورت ذاتاً ہی ایک پلید چیز تھی اور اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے کو بھی ایک کثیف عمل گردانا جاتا تھا۔ اس لئے پارسا، پاک و منزہ افراد اور وہ افراد جو بلند روحانی مقامات تک پہنچنے کی لیاقت و صلاحیت رکھتے تھے ایسے افراد ہوتے تھے جنہوں نے عمر بھر کسی عورت کالمس نہ کیا ہوتا اور کسی عورت سے ہمبستری نہ کی ہوتی۔
پوپ کا انتخاب ایسے افراد میں سے ہوتا (اور اب بھی اسی طرح کیا جاتا ہے) جو شادی کے بغیر عمر بسر کرتے…وہ لوگ درحقیقت تجرد کو مقدس خیال کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مقدس منصب کی اہلیت فقط ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جنہوں نے عمر بھر کسی عورت سے تعلقات قائم نہ کئے ہوں۔ البتہ ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔
یہی افراد بعد میں کشیش وکارڈینل کا رتبہ پاتے ہیں اور بعض پوپ کے منصب تک پہنچ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اکثر لوگ تو شادی کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اگر ہم اکثریت سے کہیں کہ تجرد کی زندگی بسر کریں تو وہ زنا جو کہ زیادہ پلید ہے، کے مرتکب ہوں گے اور جنسی عمل کا زیادہ ارتکاب کریں گے۔ اس لئے وہ ”دفع افسد بہ فاسد“ یعنی زیادہ پلید سے بچنے کے لئے کم پلید کے ارتکاب کے عنوان سے شادی کی اجازت دیتے تھے۔
اس کے برعکس اسلام تجرد کو برا سمجھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ”جب غیرشادی شدہ پیشاب کرتا ہے تو زمین اس پر لعنت بھیجی ہے۔“ اسلام شادی کو مقدس قرار دیتا ہے۔
قرآن میں لفظ ”محصِن“ اور ”محصَن“ دو معنوں میں استعمال ہواہے۔ بعض مقامات پر شادی شدہ عورت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی وہ عورت جو حصار کے اندر واقع ہو اور بعض مقامات پر اس لفظ کو پاکدامن عورت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے چاہے وہ عورت کنواری ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہاں اسے دوسرے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔
جو لوگ رمی یعنی تیراندازی کرتے ہیں، پاکدامن عورتوں کو تہمت کے تیر کا نشانہ بناتے ہیں، بے عفتی کی باتیں ان سے منسوب کرتے ہیں اور چار گواہ بھی پیش نہیں کرتے، ان پر حد جاری کی جانی چاہئے۔
اسلام کسی بھی دعوے کو بدونِ دلیل قبول نہیں کرتا۔ لیکن بعض دعوے ایسے ہوتے ہیں جن کو فقط ایک شخص کے کہنے سے ہی قبول کر لیتا ہے چاہے وہ ایک فرد عورت ہی کیوں نہ ہو، مثلاً کسی عورت کے اپنے بارے میں بیان کردہ زنانہ مسائل۔ جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو چونکہ ایامِ حیض میں طلاق دینا جائز نہیں ہے اس لئے عورت سے پوچھا جاتا ہے کہ تم حیض کی حالت میں ہو یا حیض سے پاک ہو؟ اگر کہے کہ حیض سے پاک ہوں تو اس کی بات قبول کی جاتی ہے اور اگر کہے کہ یہ اس کے حیض کے ایام ہیں تب بھی اس کی بات تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ اسے گواہ پیش کرنے کو نہیں کہا جاتا بلکہ اس کی اپنی بات ہی قبول کی جاتی ہے۔ بعض مقامات پر مثلاً مال کے متعلق لڑائی جھگڑوں میں ضروری ہے کہ دو مردوں کو گواہ کے طور پر پیش کیا جائے۔ لیکن جہاں ناموس کے احترام کا مسئلہ ہو، جہاں عزت و ناموس کے داغدار ہونے کی بات ہو، وہاں اسلام کہتا ہے کہ دو عادل گواہ بھی کافی نہیں ہیں۔ اگر دو ایسے عادل گواہ جن کے پیچھے لوگ نما زپڑھتے ہیں، حتیٰ کہ اگر ایسے دو گواہ جن کی لوگ تقلید کرتے ہیں، وہ بھی گواہی دیں کہ ہم نے فلاں عورت کو اپنی آنکھوں سے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے تو اسلام کہتا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔ تم دو فرد ہو۔ اگر تین افراد بھی اس بات کی گواہی دیں تب بھی اسلام اس گواہی کو کافی نہیں سمجھتا۔ اگر چار گواہ حاضر ہو کرگواہی دیں تو اس وقت اسلام عورت کو مجرم قرار دیتا ہے اور اس گواہی کو کافی جانتا ہے۔
ممکن ہے آ پ کہیں کہ اگر امرِ واقعہ یہی ہو تو پھر زنا ثابت ہی نہیں ہو گا۔ چار عادل گواہ کہاں سے آئیں جو گواہی دیں کہ فلاں عورت نے زنا کیا ہے؟ کیا زنا کے مسئلہ میں اسلام کی بنیاد تجسس و تحقیق اور تفتیش پر استوار ہے؟ جب اسلام کہتا ہے چار شاہد، تو اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ تجسس و تحقیق کی جائے تاکہ آپ کہیں کہ ان دشوار شرائط کی وجہ سے تو ایک لاکھ واقعات میں سے ایک مرتبہ بھی اس طرح نہیں ہو گا کہ چار عادل گواہی دیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ زنا بہت کم ثابت ہو، اگر گواہ نہیں آتا تو نہ آئے۔ اگر ہزار زنا کئے جائیں اور وہ مخفی رہیں تو اسلام ان کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ لیکن اگر کسی پاکدامن عورت پر زنا کی تہمت لگائی جائے تو اسلام ہرگز اسے برداشت نہیں کرتا اور اس مسئلہ کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اسلام ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ زنا واقع ہو اور اس مقصد کو وہ گواہی اور سزا کے ذریعے حاصل نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس نے اس مقصد کے حصول کے لئے دوسرے ذرائع استعمال کئے ہیں۔ اگر اسلام کی فردی تربیت اور معاشرتی قوانین پر عمل کیا جائے تو زنا کبھی بھی رونما نہ ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ جب زنا واقع ہو جائے تو اس کی سزا دی جائے اور سزا کے ذریعے اسے روکا جائے۔
ہاں اسلام بھی سزا کا قائل ہے جن لوگوں پر تربیت کا اثر نہیں ہوتا انہیں جان لینا چاہئے کہ ان کے لئے کوڑے کھانے، بعض صورتوں میں قتل ہونے اور بعض صورتوں میں سنگساری کے ذریعے قتل ہونے کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ الغرض ہم نے کہا ہے کہ چار گواہوں کا ہونا ضروری ہے اور گواہ کے لئے گواہی دینا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اگر کوئی آدمی کسی عورت کو زنا کرتے ہوئے دیکھے لیکن باقی تین آدمی موجود نہ ہوں جو اس کے ساتھ گواہی دیں تو اسے خاموش ہی رہنا چاہئے اور اگر دو آدمی بھی دیکھیں تو انہیں بھی کسی کے سامنے اس واقعہ کا ذکر نہیں کرنا چاہئے۔ اگر تین آدمی بھی دیکھیں تو ان کو بھی اپنا منہ بند کرکے رکھنا چاہئے۔ اور یہ جو میں کہہ رہا ہوں کہ ”وہ اپنا منہ بند کرکے رکھیں“ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ اگر وہ گواہی دیں تو ان سے فقط یہ کہا جائے گا کہ تمہاری گواہی کافی نہیں، اور چونکہ تم نے گواہی دی ہے لیکن اسے تم ثابت نہیں کر سکے، اس لئے تم قاذف (تہمت لگانے والے ہو)، تم میں سے ہر ایک پر لازم ہے کہ وہ اسی کوڑے کھائے۔ اسی لئے قرآن کہتا ہے کہ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں اور چار گواہ پیش نہ کریں تو وہ اگرچہ سچے ہی کیوں نہ ہوں ان کو اسی کوڑے مارے جائیں کیونکہ یہ کہہ کر انہوں نے ایک عورت پر تہمت لگائی ہے۔ کیا یہ ایک جسمانی سزا ہے؟ نہیں! یہ ایک معاشرتی سزا بھی ہے۔ ”وَلاَ تَقْبَلُوْا لَهمْ شَهادَةً اَبَدًا“ اور پھر ان کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کرو۔ پھر ان کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے، ان کو معاشرتی سزا بھی ملنی چاہئے یعنی اس دن سے ہی معاشرے میں ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ کیوں؟ کیونکہ انہوں نے ایک پاکدامن عورت پر زنا کی تہمت لگائی ہے، جسے وہ ثابت نہیں کر سکے۔
تیسری سزا ”اُولٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ“ یہ فاسق ہیں۔ اس مقام پر مفسرین کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا ”اُولٰئِکَ همُ الْفَاسِقُوْنَ“ وَلاَ تَقْبَلُوْا لَهمْ شَهادَة اَبَدًا“ سے الگ کوئی سزا ہے یا وہی ہے، یعنی یہ دونوں ایک ہی سزا ہیں؟ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ دونوں مجموعاً ایک ہی سزا ہے۔ یعنی ”اُولٰئِکَ همُ الْفَاسِقُوْنَ“ علت ہے ”وَلاَ تَقْبَلُوْا لَهمْ شَهادَة اَبَدًا“ کی۔ یعنی یہ اس تہمت کی وجہ سے فاسق ہو گئے ہیں۔ اور چونکہ فاسق ہو گئے ہیں اس لئے ان کی شہادت قابل قبول نہیں ہے، اور اس کے علاوہ بھی جس چیز میں عدالت شرط ہے وہ ان سے قابلِ قبول نہیں ہے، اور اس کے علاوہ بھی جس چیز میں عدالت شرط ہے وہ ان سے قابلِ قبول نہیں ہے۔ مثلاً اب طلاق کا صیغہ ان کے پاس نہیں پڑھا جا سکتا۔ ان کی اقتداء میں نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ اگر وہ مجتہد ہوں تو ان کی تقلید جائز نہیں کیونکہ ان سب کاموں میں عدالت شرط ہے۔ اس بناء پر ان دونوں کا مجموعہ ایک ہی سزا ہے۔
لیکن بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہ دو سزائیں ہیں، ایک سزا تو یہ ہے کہ ان کی گواہی قبول نہیں اور دوسری سزا یہ ہے کہ یہ لوگ فاسق ہو گئے ہیں۔ او رچونکہ فاسق ہیں اس لئے فسق کے تمام آثار ان پر مترتب ہوں گے اور یہ قابل تفکیک ہیں۔
جو گواہ اپنے دعوے کو ثابت نہیں کر سکا اگر وہ توبہ کر لے تو اس کا فسق ختم ہو جاتا ہے۔ یعنی پھر ہم اس کو عادل قرار دیں گے، اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز ہے، اگر وہ مجتہد ہو اور علمی اعتبار سے اس کی تقلید جائز ہو تو اس کی تقلید کی جا سکتی ہے۔ اگر وہ مجتہد ہو تو قاضی بن سکتا ہے (کیونکہ قاضی بھی عادل ہونا چاہئے) لیکن اس کی شہادت قبول نہیں ہو گی کیونکہ وہ ایک الگ سزا ہے اسی لئے بعض مفسرین کی رائے میں ایسے شخص کی گواہی قبول نہ ہونے کی وجہ اس کا فسق نہیں ہے۔ یہ ایک جداگانہ سزا ہے۔ اس کا فاسق قرار دیا جانا اسلام کی نظر میں ایک سزا ہے اور اس کی گواہی کا قبول نہ کیا جانا دوسری سزا ہے۔
بعد والی آیت کا معنی بھی اسی سے واضح ہو جاتا ہے۔ جس میں اللہ کا فرمان ہے کہ ”اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْمبَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا فَاِنَّ اللّٰه غَفُوْرُ رَّحِیْمُ “ سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کر لیں اور (اپنی) اصلاح کر لیں پس اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ ”اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا“ کے استثناء کے متعلق پہلی نظر میں تین احتمالات دکھائی دیتے ہیں۔
ایک یہ کہ اگر کوئی گواہ کسی عورت پر تہمت لگانے کے بعد اس کو ثابت نہ کر سکے اور توبہ کرے تو ہم کہیں کہ چونکہ اس نے توبہ کر لی ہے اس لئے اسے کوڑے نہ لگائے جائیں، اس کی گواہی بھی قبول کی جائے اور وہ فاسق بھی نہیں ہے لیکن کسی نے بھی اس احتمال کو ذکر نہیں کیا۔ بلکہ اگر کسی شخص نے کسی عورت پر فقط تہمت لگائی ہو اور پھر اسے ثابت نہ کر سکا ہو تو یہی بات اسے کوڑے لگائے جانے کے لئے کافی ہے۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ اگر کوئی توبہ کرے تو اس کی گواہی بھی قبول کی جائے گی اور اسے فاسق بھی شمار نہیں کیا جائے گا، یعنی تمام معاشرتی پابندیاں اس پر سے اٹھا لی جائیں گی اور اس کی سابقہ حیثیت برقرار رہے گی۔
تیسرا احتمال یہ ہے کہ اس کی دوسری سزا ہمیشہ کے لئے ہے، یعنی اس کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے اور ”اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا“ دوسری عبارت سے استثناء ہے۔ یعنی اسے دوبارہ یہ حیثیت مل جاتی ہے کہ اس کی اقتداء میں نماز پڑھی جا سکتی ہے، وہ قاضی بھی بن سکتا ہے لیکن اس کی گواہی کبھی بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ اور بعید نہیں کہ یہ تیسرا احتمال ہی درست ہو یعنی ”اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْم بَعْدَ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا“ استثناء ہے ” اُولٰئِکَ ھُمُ الْفَسِقُوْنَ “ کا۔ اس کے بعد آیت ہے۔
وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهمْ وَلَمْ یَکُنْ لَّهمْ شُهدَآءُ اِلاَّ اَنْفُسُهمْ فَشَهادَة اَحَدِهمْ اَرْبَعُ شَهادَاتٍمبِاللّٰه اِنَّه لَمِنَ الصَّادِقِیْنَ وَالْخَامِسَة اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰه عَلَیه اِنْ کَانَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ۔ (سُورہٴ نُور، آیت ۶، ۷)
یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ آپ نے کہا ہے کہ اگر کوئی مرد کسی عورت پر زنا کی تہمت لگائے تو اس پر لازم ہے کہ چار گواہ پیش کرے۔ لیکن اگر وہ چار گواہ پیش نہ کر سکے تو اس صورت میں اسے کیا کرنا چاہئے؟ اسے معلوم ہونا چاہئے کہ چونکہ وہ گواہ پیش نہیں کر سکتا اس لئے اگر وہ خود گواہی دے گا تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ چونکہ وہ گواہ پیش نہیں کر سکتا اس لئے اگر وہ خود گواہی دے گا تو اسے کوڑے لگائے جائیں گے۔ اس لئے اسے چاہئے کہ چپ رہے۔ اب یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو زنا کرتے ہوئے دیکھ لے تو اسے کیا کرنا چاہئے؟ کیا اگر چار گواہ موجود ہوں تو پھر وہ عدالت میں آ کر گواہی دے کہ میری بیوی نے زنا کیا ہے؟ جب تک وہ چار گواہ تلاش کرے گا تب تک وہ اپنے کام سے فارغ ہو چکے ہوں گے۔ اگر شوہر کے علاوہ کوئی اور گواہ ہوتا تو اس سے کہا جاتا کہ چونکہ اس واقعہ کے چار گواہ نہیں ہیں اس لئے خاموشی اختیار کرو، کوئی بات نہ کرو، تمہارا اس سے کیا واسطہ ہے؟ اگر کہو گے تو خود کوڑے کھاؤ گے۔
اگر شوہر جج کے پاس جا کر گواہی دے کہ اس کی بیوی نے زنا کیا ہے تو شوہر پر لازم ہے کہ چار مرتبہ خدا کی قسم کھائے اور خدا کو اس بات پر گواہ بنائے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے سچ ہے، جھوٹ نہیں ہے۔ یعنی فقط ایک مرتبہ گواہی دینا کافی نہیں ہے بلکہ چار مرتبہ گواہی دے گا اور ہر مرتبہ اللہ کی قسم بھی کھائے گا، کیا یہ کافی ہے؟ نہیں یہ بھی کافی نہیں ہے۔ بلکہ پانچویں مرتبہ اسے چاہئے کہ اپنے اوپر لعنت بھیجے اور کہے ”اگر میں جھوٹ بولوں تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو۔“ کیا بات اسی پر ختم ہو جاتی ہے اور عورت سے کہا جاتا ہے کہ تمہارا زنا ثابت ہو گیا ہے؟ نہیں، عورت کے ذمہ بھی ایک کام لگایا جاتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ تیرے شوہر نے ”لعان“ کیا ہے۔ یعنی اس نے چار مرتبہ قسم کھائی ہے اور ایک مرتبہ کہا ہے کہ اگر اس نے جھوٹ بولا ہو تو اس پر خدا کی لعنت ہو۔ اب تم کیا کہتی ہو؟ اگر عورت اعتراف کرے تو اسے سزا ملے گی اور اگر خاموشی اختیار کرے اور اپنا دفاع نہ کرے تو یہ بھی اعتراف کی طرح ہی ہے۔ لیکن عورت کے سامنے ایک اور راستہ بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس سے کہتے ہیں کہ تم بھی اس کی طرح قسم کھاؤ کہ تمہارا شوہر جھوٹ بولا رہا ہے اور پانچویں مرتبہ کہو: اگر میرا شوہر سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو۔“ اگر وہ ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہو تو اس سے کہتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم نے زنا کیا ہے اور پھر اسے سزا دی جائے گی۔ لیکن اگر وہ بھی اپنا دفاع کرنے پر آمادہ ہو جائے تو پھر اسلام اس کے بارے میں کیا حکم جاری کرتا ہے؟ مرد نے چار مرتبہ گواہی دی ہے اور کہا ہے کہ اگر اس نے جھوٹ بولا ہو تو اس پر خدا کی لعنت ہو اور عورت نے بھی چار مرتبہ قسم کھا کر کہا ہے کہ اس کا شوہر جھوٹ بول رہا ہے اور پانچویں مرتبہ اس نے کہا ہے کہ ”اگر میرا شوہر سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو“ تو اس صورت میں اسلام کیا حکم دیتا ہے؟ کیا وہ مرد کو قاذف (تہمت لگانے والا) قرار دیتا ہے اور اسے کوڑے لگاتا ہے؟ کیا اسلام عورت کو گناہ گار قرار دے کر اسے کوڑے مارتا ہے؟ کیا اس جگہ اس کی سزا رجم و سنگساری ہے؟ نہیں، پھر وہ کیا حکم دیتا ہے؟ اسلام کہتا ہے کہ اب جب کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے تو اب تمہارے درمیان مکمل طور پر جدائی ہونی چاہئے اور طلاق کی بھی حاجت نہیں۔ آپ لوگوں کا یہی عمل طلاق کے مترادف ہے۔ اب تم ایک دوسرے سے جدا ہو۔ اس کا اپنا راستہ، اس کا اپنا راستہ۔ اب سے تمہارے درمیاں میاں بیوی کا رشتہ ختم۔ اس فعل کو اسلامی فقہ میں ”لعان“ اور ”ملاعنہ“ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ نبی اکرم کے زمانہ میں اور آپ کی موجودگی میں یہ عمل انجام دیا گیا اور مفسرین کے بقول یہی اس آیت کی شانِ نزول ہے۔
ہلال بن امیہ نامی ایک صحابی نے نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ: ”یارسول اللہ میں نے اپنی آنکھوں سے اپنی بیوی کو فلاں مرد کے ساتھ زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔“ آپ نے یہ سن کر اپنا رخِ مبارک دوسری جانب پھیر لیا۔ اس نے دوسری مرتبہ اور پھر تیسری مرتبہ اپنی بات کو دہرایا اور کہا: یا رسول اللہ خدا جانتا ہے کہ میں سچ بول رہا ہوں، جھوٹ نہیں بول رہا۔“ اس وقت یہی آیات نازل ہوئیں اور نزولِ آیات کے بعد نبی اکرم نے ہلال بن امیہ اور اس کی بیوی کو بلا بھیجا۔ اس کی بیوی مدینہ کے امرأ میں سے تھی۔
ہلال بھی اپنے خاندان اور قبیلے کے ہمراہ آیا۔ پیغمبر اکرم نے اس موقع پر پہلی دفعہ ”لعان“ کی رسوم کو جاری کیا۔ اس مرد سے کہا کہ چار مرتبہ قسم کھاؤ اور خدا کو اس بات پر گواہ بناؤ کہ تم سچ بول رہے ہوں اور پانچویں مرتبہ کہو کہ اگر میں نے جھوٹ بولا ہو تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو۔ اس نے بڑی جرأت کے ساتھ کہہ دیا۔ پھر عورت سے کہا کہ چار مرتبہ قسم کھا کر کہو کہ تمہارا شوہر جھوٹ بول رہا ہے۔ پہلے تو عورت نے خاموشی اختیار کی اور اس کی زبان تقریباً گنگ ہو گئی۔ وہ اعتراف کرنے کو ہی تھی کہ اس کی نگاہ اس کے رشتہ داروں کے چہروں پر پڑی اور (اس نے اپنے جی میں) کہا نہیں۔ میں ان کو ہرگز رسوا نہیں ہونے دوں گی اور ان کی شرمندگی کا موجب نہیں بنوں گی۔ پھر اس نے کہا کہ میں یہ کام کرتی ہوں (یعنی چار مرتبہ قسم کھاؤں گی اور کہوں گی کہ اگر میرا شوہر سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو) ہلال بن امیہ نے چار مرتبہ قسم کھائی اور پانچویں مرتبہ جب وہ اپنے اوپر لعنت کرنے لگا تو پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ یہ جان لو کہ آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے بہت زیادہ دردناک ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنی بیوی پر جھوٹی تہمت لگاؤ؟ خدا کا خوف کھاؤ! اس نے کہا: ”نہیں یا رسول اللہ خدا جانتا ہے کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا۔“ عورت نے بھی جب چار مرتبہ قسم کھانے کے بعد کہنا چاہا ”اگر میرا شوہر سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو“ تو اس سے بھی نبی اکرم نے فرمایا کہ خدا کے غضب سے ڈرو جو کچھ آخرت میں ہے وہ اس سے بہت زیادہ سخت ہے جو دنیا میں ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے شوہر کی بات درست ہو اور تم اس جھٹلا دو! یہ سنتے ہی عورت کی زبان رکنے لگی اس نے کچھ دیر تک خاموشی اختیا رکی وہ اعتراف کیا چاہتی تھی لیکن آخری لمحہ میں اس نے مذکورہ جملہ کہہ دیا۔ پھر نبی اکرم نے فرمایا کہ اب سے تم آپس میں میاں بیوی نہیں ہو۔
اس کے بعد خدا فرماتا ہے کہ ”وَلوْ لاَ فَضْلُ اللّٰه عَلَیکُمْ وَرَحْمَتُه وَ اَنَّ اللّٰه تَوَّابُ حَکیْمُ “ اگر تم پر خدا کا فضل او راس رحمت نہ ہوتی اور یہ کہ بے شک خدا توبہ قبول کرنے والا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ تم پر سخت احکام نازل فرماتا۔ ممکن ہے تم خیال کرو کہ اس سلسلے میں جو احکام ہم نے نازل کئے ہیں وہ سخت ہیں۔ لیکن جان لو کہ یہ تو اللہ کا فضل، اس کی رحمت اور اللہ تعالیٰ کے توبہ قبول کرنے کا مظہر ہے۔ تمہاری مصلحت اسی کا تقاضا کرتی ہے۔
اس کے بعد جو آیات ہیں انہیں آیاتِ ”افک“ کا نام دیا گیا ہے۔ افک یعنی تہمت جس کا تعلق ایک تاریخی واقعے کے ساتھ ہے۔ منافقین نے ایک واقعہ کے دوران نبی اکرم کی ایک زوجہ پر تہمت لگائی۔ اہل سنت کے عقیدے کے مطابق وہ عورت حضرت عائشہ تھیں۔ بعض اہلِ تشیع کہتے ہیں کہ وہ ماریہ قبطیہ تھیں لیکن بعض اہلِ تشیع قائل ہیں کہ وہ عائشہ تھیں۔ شاید آپ خیال کریں کہ معاملہ تو اس کے برعکس ہونا چاہئے تھا۔ اہلِ تشیع کو کہنا چاہئے تھا کہ جس عورت پر تہمت لگی تھی وہ عائشہ تھیں اور اہلِ تسنن کہتے کہ وہ ماریہ قبطیہ تھیں۔ اہلِ تسنن اس بات پر کیوں مصر ہیں کہ وہ عائشہ تھیں اور متعصب شیعہ کیوں اصرار کرتے ہیں کہ وہ ماریہ قبطیہ تھیں: اس اصرار کی وجہ یہ ہے کہ اس تہمت نے بعد میں ایسی صورتِ حال اختیا رکر لی کہ معاشرتی لحاظ سے بھی اور اس عورت کی شان میں نازل ہونے والی قرآنی آیات کے لحاظ سے بھی، جو اس مہتم عورت کے لئے وجہ افتخار بن گئی، یعنی پھر اس تہمت کے دروغ ہونے میں ذرہ برابر شک باقی نہ رہا، اس عورت کی پاکدامنی ثابت ہو گئی اور سب کو معلوم ہوگیا کہ یہ سراسر ایک جھوٹا قصہ تھا۔
اسی لئے اہلِ سنت مصر ہیں کہ وہ مہتم عورت جس کی پاکدامنی کی تصدیق کامل طور پر ہوئی ہے عائشہ تھیں اور بعض شیعہ حضرات یہ افتخار ماریہ قبطیہ کے نام ثبت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن امر واقعہ کیا تھا، آیاتِ افک کو اس کی داستان جو کہ تفصیلی بھی ہے، کے ساتھ بعد والی تقریر میں انشاء اللہ عرض کروں گا۔
وَصَلَّی اللّٰه عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِه وَّاٰلِه الطَّاهرِیْنَ