قرآن مجیداور حضرت علی علیہ السلام کی خدمات
  • عنوان: قرآن مجیداور حضرت علی علیہ السلام کی خدمات
  • مصنف:
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 12:10:50 1-9-1403

اگر کوئی تاریخ اسلام پر صرف ایک سرسری سی نگاہ ڈالے تو اسے علی علیہ السلام اور قرآن مجید کے درمیان گہرے ربط کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ قرآن کی جمع آوری سے لیکر اسکی تفسیر وتاویل تک اور اعراب گذرای سے لیکر آج کی رائج قراٴت تک، ہر جگہ علی علیہ السلام کا نام ما ہ کامل کی مانند روشن و منور نظر آتا ہے۔

قرآن کی جمع آوری:

یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ قرآن کی جمع آوری سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں ہوئی۔
ابن ابی الحدیدمعتزلی نے شرح نہج البلاغہ میں یوں تحریر کیا ہے کہ ,, سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ امام علی علیہ السلام (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں) قرآن حفظ کیا کرتے تھے (جبکہ کوئی دوسرا یہ کام نہیں کرتا تھا) اور امام علی علیہ السلام سب سے پہلے وہ شخص ہیں جس نے قرآن کی جمع آوری کی‘ ‘ ۱
ابوالعلا و الموفق، خطیب خوارزمی نے علی بن رباح سے نقل کیا ہے کہ,, پیامبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کو قران کی تالیف کا حکم دیا اور علی علیہ السلام نے بھی قرآن کو لکھا اور اس کی تالیف کی ۲#یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں قرآن کی تالیف ،اسلام میںسب سے پہلی تالیف ہے۔ ۲#خود مولائے کائنات فرماتے ہیںکہ,, رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کوئی آیت نازل نہیں ہوئی مگر یہ کہ اس کو آپ نے مجھے سکھایا اور لکھوایا اور میں نے اسے اپنے ہاتھوں سے لکھا اور آپ نے اس کی تاویل و تفسیر و ناسخ و منسوخ مجھے بتایا “ ۳

مصحف علی علیہ السلام کے خصوصیات:

الف) یہ مصحف آیات کی تاریخ نزول کے اعتبار سے لکھا گیا تھا۔
ب) اس میں آیات منسوخہ کو آیا ت ناسخہ سے پہلے رکھا گیا تھا۔
ج) بعض آیات کی تاویل و تفصیلات اس میں بیان کی گئی ہیں۔
د) بعض آیات کی وہ تفسیر اس میں موجود تھیں جو خداوندعالم کی طرف سے ناز ل ہوئی تھیں۔
ہ) آیات محکم و متشابہ کو اچھی طرح واضح کیا گیا تھا۔
و) موجودہ قرآن سے ایک بھی حرف کم نہیں تھا اور ایک حرف بھی زیادہ نہیں تھا۔
ز) تفسیر میں حق و باطل کے پیروان کے نام اس میں ذکر ہوئے تھے۔
ح)یہ مصحف پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے املاء اور حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ سے لکھا گیا تھا۔
ط)تفسیر میں ان مہاجرین و انصار کی نصیحتیں اورعیوب اس میں بیان کئے گئے تھے جن کا کردار اسلام پر منطبق نہیں تھا۔
مصحف علی علیہ السلام میں مذکورہ موارد علاوہ کسی اور چیز میں موجودہ قرآن سے فرق نہیں تھا۔

مصحف علی علیہ السلام کہاں ہے؟

بعض روایا ت میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ مصحف علی علیہ السلام حضرت امام منتظر علیہ السلام کے پاس موجود ہے اور امام علیہ السلام ظہور کے وقت اس قرآن کو ظاہر کریں گے۔ ۵ ہوسکتا ہے یہ وہی مصحف ہو جس کے بارے میں روایات بیان کرتی ہیں کہ امام منتظر علیہ السلام کے مصحف کی ترتیب موجودہ قرآن کی ترتیب سے الگ ہے اور امام علیہ السلام لوگوں کواس کی تعلیم دیںگے۔

قرآن میں علی علیہ السلام کانام تھا یا نہیں؟

بعض ورایات سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کا نام قرآن میں آیا ہے ۔ اور ان روایات کو صحیح ماننے سے یہ لازم نہیں آتا کہ موجودہ قرآن تحریف شدہ ہے ۔ اس لئے کہ اس سے مراد وہ اضافات ہیں جو تفسیر مزجی کی صورت بعض آیات کے ساتھ بنی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا ائمہ طاہرین علیہم السلام کی طرف سے بیان ہوئے ہیں۔ یا اس سے مراد,, تنزیل غیر قرآنی“ (حدیث قدسی ) ہے۔ یعنی خدائے متعال کا وہ کلام جوجبرئیل امین علیہ السلام لے کر آئے لیکن جز و قرآن نہیں ہے۔ چونکہ ,, تنزیل “ کبھی خود قرآن ہے کبھی تفسیر قرآن ہے اور کبھی حدیث قدسی۔ قرآن کے اندر نام علی علیہ السلام نہ آنے کے بارے میں مندرجہ ذیل امور پیش کیے جاسکتے ہیں۔


۱۔ امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں اس بات پر دلیل دی گئی ہے کہ حضرت علیہ علیہ السلام کا نام قرآن میںکیوں نہیں آیا؟ آپ نے اس موقع پر فرمایا تھا کہ,, ان (مخالفین) سے کہو کہ نماز کا حکم قرآن میں موجود ہے لیکن نماز کی رکعتوں کی تعداد قرآن بیان نہیںکی گئی ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جو نماز کی رکعتوں کی تعداد بتاتے ہیں اور آیت صلاہ کی تفسیر کرتے ہیں․․․“ ۶اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ امام علی علیہ السلام کے نام کا قرآن میں ذکر نہ ہونا مسلمات میں سے تھا۔


۲۔۔ امام باقر علیہ السلام نے محمد بن مسلم سے فرمایا : ,, اے محمد! اگر تم سنو کہ خدا نے قرآ ن میں اس امت کے کسی فرد کی نیکی کے ساتھ یاد کیا ہے تو مقصود ہم ہیں۔ اور اگر دیکھو کہ کسی گروہ کو برائی کے ساتھ یاد کیا ہے تو اس سے ہمارے دشمن مراد ہیں“ ۷ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام اور ان کے دشمنوں کے صفات قرآن میں آئے ہیں نہ کہ ان کے نام ۔


۳۔۔ محمد بن بن فضیل ابوالحسن الماضی سے نقل کرتے ہیںکہ میں نے پوچھا کہ ,, انا لما سمعنا الهدیٰ آمنا به“ کس معنی میں ہے تو امام علیہ السلام نے فرمایا : الهدیٰ یعنی ولایت ,,آمنا بمولٰینا فمن آمن بولایة مولاه فلا یخاف بخسا ولا رهقا “ میں نے پوچھا کہ کیا یہ قراٴت نص قرآن اور تنزیل ہے؟ آپ نے فرما یا نہیں، بلکہ تاویل ہے ۸

علم نحو کی ایجاد اور قرآن کی اعراب گذاری:

علم نحو ایسا علم ہے جس کے بغیر قرآن کوسمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ قرآن اور حدیث کو سمجھنے کے لئے خود عرب زبان کو بھی علم نحو کی تعلیم دی جاتی ہے۔اس علم کے ایجادکے بارے میں تمام لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ اما علی علیہ السلام نے علم نحو کی تاسیس کی اور پھر ابو الاسود دویلی کو اس کی تعلیم دی۔ ۹ ابوالاسود دویلی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ کسی گہری سوچ میں غرق ہیں میں نے اس کا سبب پوچھا آپ نے کہا کہ تمھارے شہر کے (غیر عرب) لوگ قرآن کو غلط پڑھتے ہیں اس لئے میں عربی زبان کے اصول کو غیر عرب کے لئے لکھنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ میں نے کہا اگر آپ ایسا کریں تو یقینا عربی زبان ہم میںمحفوظ ہو جائے گی ۔پھر کچھ دنوں بعد میں دوبارہ مولا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے میری طرف ایک صحیفہ بڑھایا جس میں تحریر تھا:
,, بسم الله الرحمٰن الرحیم الکلام کله اسم و فعل و حرف فالاسم ما انباٴ عن المسمیٰ والفعل ما انباٴ عن حرکة المسمی والحرف ماانباٴ عن معنی لیس باسم ولا فعل “ آپ نے مجھ سے کہا کہ تم اس کام کو آگے بڑھاؤ او رجان لو کہ ,, الاسماء ثلاثة ظاہر و مضمر وشی, لیس بظاہر ولا مضمر وانما یتفاضل العلماء فی معرفة ما لیس بمضمر ولا ظاہر “ اس کے بعد میں نے ذکر نہیں کیا تھا آپ نے پوچھا کہ تم نے ,,لکن“ کو کیوں نہیں ذکرکیا میں نے کہا کہ اسے میں نے نواصب میں سے نہیں سمجھا آپ نے فرمایا کہ یہ نواصب میں سے ہے اس لئے اسے بھی ان میں بڑھالو۔
اس کے بعد ایک دن جب ابوالاسود دویلی نے ایک شخص کو اس طرح قرآن پڑھتے دیکھا ,, ان اللہ بری من المشرکین و رسولہ“ (رسولہ لام کو زیر کےساتھ) تو انھوں نے قرآن کے حروف پر اعراب لگائے اس طرح سے کہ زبر کی جگہ حرف کے اوپر ایک نقطہ زیر کی جگہ حرف کے نیچے ایک نقطہ اور پیش کی جگہ حر ف کے سامنے ایک نقطہلگایا تا کہ قرآن پڑھنے میں آسانی ہو ۱۰


قرآن کی رائج قرائتیں:


یوں تو پہلے قرآن کی بہت سی قرائتیں تھیں لیکن اس وقت مشہور قرائتیں صرف ساتھ ہیں۔ ان ساتوں میںسب سے زیادہ مشہور رائج اور دقیق ،قراٴت عاصم ہے، اس قراٴت کو تمام مسلمین نے صحیح ترین اور معتبر ترین قراٴت مانا ہے۔اس صحیح ترین اور معتبر ترین قراٴت کا سلسلہ مولا علی علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ اس لئے کہ عاصم نے یہ قراٴت ابوعبد الرحمٰن سے سیکھی اور ابوعبدالرحمٰن نے اس کے لئے امیر المومنین علیہ السلام کے سامنے زانو ادب تہہ کئے۔ اس طرح قرآن کی قراٴت کے بارے میں بھی مولا علی علیہ السلام نے اپنا فرض نبھایا تھا۔ اور یہی نہیں بلکہ ان مشہور سات قرائتوں میں سے چار قرائتیں شیعہ قراء کی طرف منسوب ہیں اور بقیہ تین قرائتیں بھی شیعہ قراء کی کہی جاتی ہیں یعنی آج کی مشہور سات قرائتوں میں سے صرف ایک قرائت غیر شیعہ کی طرف منسوب ہے۔مذکورہ امور کی وضاحت کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول کی سچائی کا پتہ چلتا ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ ,, علی مع القرآن والقرآن مع علی“ یعنی علی علیہ السلام قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی علیہ السلام کے ساتھ ہے۔


حوالہ جات:


۱۔۔ج/ ۱ص/ ۲۷
۲۔۔ مناقبات الاابیطالب علیہ السلام ج/۲ص/۴۱
۳۔۔ اعیان الشیعہ ج/۱ص/۸۹ و معالم العلماء ص/ ۲
۴۔۔ سلیم بن قیس ص/۹۹، بصائر الدرجات ص/ ۱۹۸ و کمال الدین ج/ ۱ ص/۲۸۴ احتجاج ص/ ۲۲۳ ابرہا ن فی تفسیر القرآن ج/۱ ص/۱۶،التمہید فی علوم القرآن ج/ ۱ ص/۲۲۹
۵۔۔ الکافی ج/ ۲/ ص/۴۶۲، بصائر الدرجات ص/ ۱۹۳احتجاج ج/۱ص/۲۲۸،بحار ج/۸۹ص/۴۲،۴۳ المحجة البیضاء ج/۲ ص/۲۶۳ ،مصباح الفقیہ (کتاب الصلوٰة ) ص/ ۲۷۵
۶۔۔ الکافی ج/۱ص/۲۲۶ ،۲۶۷،الوافی ج/۲ص / ۶۳
۷۔۔الوافی ج/۵ص/۲۷۲،تفسیر البرہان ج/۱ص/۲۱،۲۲-تفسیر عیاشی ج/۱ ص/ ۱۳،تفسیر صافی ج/۱ص/۱۴،۱۵
۸۔۔ البرہان بحرانی ج/ ۱ ص/ ۳۹۲ نقل از کلینی
۹۔۔ بقات ترجمہ ابی الاسود ص/ ۱۳ الفہرست للتذیم طبعہ جدید ص/ ۴۵
۱۰۔۔ تاریخ ابن عساکر ترجمہ ابی الاسود الدویلی
۱۱۔۔التمہید برہانی ج/ ۲ ص/۲۴۰