سکیولریزم قرآن کی نظر میں
  • عنوان: سکیولریزم قرآن کی نظر میں
  • مصنف: علی کریم پور قراملکی
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 6:29:9 13-7-1403

بسم اللہ الرحمن الرحیم


قرآں کے نقطہ نگاہ سے سکیولریزم پر ایک نظر

سکیولریزم آج کی دنیا میں بحث کا ایک نہایت اھم موضوع بنا ہوا ہے مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس مادی مکتب فکر کی حمایت میں عالمی سطح پر پروپگینڈا کیا

مقدمہ اول :

سکیولریزم آج کی دنیا میں بحث کا ایک نہایت اھم موضوع بنا ہوا ہے مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس مادی مکتب فکر کی حمایت میں عالمی سطح پر پروپگینڈا کیا جارہا ہے اور دیگر قوموں سمیت مسلمانوں کو بھی اس کی طرف متوجہ کیا جارہا ہے جبکہ یہ ایک اسلام مخالف مکتب فکر اور قرآنی تعلیمات کے سراسر منافی ہے ۔

مقدمہ دوم :

تاریخ گواہ ہے کہ انسان ،خدا ،اور معاشرہ ،پر سب سے زیادہ بحثیں ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں صدیوں سے دانشور اور مفکرین ان تینوں عناصر کے درمیان رابطے کی وضاحت کرنے میں مشغول ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ،البتہ مغرب میں آنے والی ھمہ گیر تبدیلیوں نے سکیولریزم پر سوچنے ،تحقیقات کرنے اور اسے ایک مکتب فکر کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کۓ جانے کا مزید موقع فراھم کیا کیونکہ ایک طرف مغرب میں استبدادی حکومتوں ان کے ذمہ داروں کے مظالم ،دوسری طرف سے علمی و صنعتی انقلاب ،اور تیسری طرف سے معاشرہ پر متضاد و ناپختہ افکارو نظریات کا ھجوم ،اس بات کا باعث بنا کہ خدا، انسان اور معاشرہ کے بارے میں خاص نظریات سامنے آئیں ،ان میں ایک نظریہ یہ ہے کہ اگر فرض کرلیں کے خدا خالق ھستی ہے تو اسی خدا نے انسانی امور اور معاشرہ کے انتظام کی ذمہ داری خود انسان کو سونپی ہے بنابریں معاشرہ پر حاکم قانون انسانی قانون ہوگا جو اسی کی فکر کا نتیجہ ہے اب دین کے لۓ صرف انسان کی نجی زندگی کا میدان بچ جاے گا ۔
یاد رہے سرزمیں مشرق اور عالم اسلام میں یہ نظریہ ناقابل قبول ہے بلکہ پوری طرح سے قرآن و سنت کے برخلاف ہے زیر نظر مقالہ میں ہم اسی موضوع کو ثابت کرنے کی کوشش کریں گے اور قرآنی آیات سے سیکیولریزم کی نفی کریں گے ۔
مغربی دانشوروں اور اسلامی علماء نے سکیولریزم اس کے وجود میں آنے کے اسباب و علل پر بحث کرتے ہوے مختلف نکات کی طرف اشارہ کیا ہے ان نکات میں یہ بھی ہیں کہ مغرب میں کلیساکی غلط کارکردگی ،مختلف انجیلوں میں موجود بعض ضعیف و غلط تعلیمات ، ناگھانی سائینسی و صنعتی ترقی کی بناپر عوام کا دنیا پرست ہوجانا ،بعض فلسفیوں کی جانب سے انسان و عالم ھستی کے بارے میں ناپختہ نظریات کا پیش کیا جانا ،یہ سارے نظریات مغربی انسان کے دنیا پرست اور انسان محور ہونے میں بے حد موثر ثابت ہوے اور اس کے نتیجے میں دین معاشرے سے ختم ہوتا گیا بلکہ فرد کے ذاتی ذوق و جذبات کا تابع ہوگیا ،یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ صورتحال عالم اسلام کے لۓ بھی قابل قبول ہے ؟اور اسلامی ملکوں میں اس کا کوئی مقام ہے ؟اور کیا دینی تعلیمات میں اس طرح کے نظریات کی کوئی جگہ ہے ؟قرآن کریم اس بارےمیں کیا کہتاہے ؟ہم ان سوالوں کا جواب دینے کے لۓ سب سے پہلے دیکھیں گے کہ قرآن کی نظر میں انسان کی کیا منزلت ہے ،اس کے بعد قرآن کی نگاہ میں انسان کی اجتماعی زندگی کا جائزہ لیں گے تاکہ معلوم ہوجاے کہ اسلامی و قرآنی تعلیمات کیا صرف فردی اور ذاتی امور سے مختص ہیں یا اجتماعی مسائل کو بھی شامل ہیں ۔

سکیولریزم کے معنی

آکسفورڈ لغت میں سکیولریزم کے معنی اس طرح بیان کۓ گۓ ہیں خدا و آخرت پر توجہ کۓ بغیرانسان کے معاشی امورجیسے تعلیم و تربیت سیاست اخلاق وغیرہ کو منظم کرنا ۔
یہ لفظ، دین کی مخالفت کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا ،بہرحال سکیولریزم کے مندرجہ ذیل معنی رائج ہیں ۔
دنیا پسندی ،بے دینی ،لادینیت ،دین سے گریز ،دنیوی اور عرفی اصولوں کی طرفداری ،ماوراء الطبیعی نظریات کا انکار، کلیسا پر حکومت کی فرمانروائی ،حذف و تحریف دین

دینی تعلیمات کی مخالفت ۔

مغربی دنیا میں بھی سکیولریزم دین و دنیا میں جدائی کا قائل ہونا ،دین کو سیاست سے الگ سمجھنا ،غیر مقدس ،غیر روحانی ،عقلانیت پسند ،جدت پسندی اور ماڈرن افکار و نظریات کے حامل ہونے کے معنی میں آیاہے ۔
محققین کے مطابق سکیولر فرانسیسی میں seculier اور لاطینی میں secularis ہے یہ لفظ seculum سے نکلا ہے جس کے معنی زمین کے ہیں جو آسمان کے مقابل ہے اس کے معنی عصر ،دور ،زمانہ ،روح زمانہ ۔اور دنیا کے بھی ہیں بنابریں سکیولریزم کے معنی زمین پرستی (یعنی جو چیز زمین پر ہے ) یادنیا پرستی کے ہونگے ۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ لفظ سکیولریزم نے تاریخی لحاظ سے دو مرحلے طے کۓ ہیں ،پہلے مرحلے میں یہ لفظ خاص و عدالتی مفاھیم میں استعمال ہواہے، 1648 میں وسٹفالی westphalie معاھدہ میں اس کا استعمال ہوا یہ معاھدہ کلیسا کی زمینوں کو غیر مذھبی سیاسی اقتدار کے تحت دینے کے لۓ کیا گیا تھا اسی بناپر لوگ اس کلیسایا زمین کو جوکلیسا کے تسلط سے نکل گئی ہو سکیولر کلیسا یا زمین کہتے تھے ۔
دوسرے مرحلےمیں عام اور اجتماعی معنی میں استعمال ہواہے البتہ صنعتی انفلاب کے بعد کچھ نۓ معنی بھی سامنے آۓ جیسے کہ وہ پادری جو کلیسا کے قوانین کی پیروی نہیں کرتے تھے انہیں سکیولر کہا جاتا تھا ۔
یہاں ایک اھم نکتہ کی طرف اشارہ کیا جانا ضروری ہے وہ یہ کہ گرچہ سکیولریزم یورپ میں وجود میں آیا ہے لیکن اس کے بعض پہلو اسلامی ملکوں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں جیسے دین و سیاست میں جدائی اور دین و دنیا کا الگ ہونا ، لھذا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ صرف مغربی ممالک ہی سکیولریزم کے قائل ہیں اس کے علاوہ سیاست میں دین کی عدم مداخلت کا نظریہ دین کے خاتمے کے نظریے کے منافی نہیں ہے بلکہ یہ دونوں نظریات دنیا پرستی کے دودرجے ہیں ایک ضعیف ہے دوسرا شدید ہے ،دنیا پرستی کبھی دین وسیاست میں جدائی کے عنوان سے اور کبھی دین کو پوری طرح سے معاشرے سے نکالنے کے عنوان سے سامنے آتی ہے اور ماورالطبیعی تعلیمات کو غیر عقلانی قرار دے کر انہیں انسانی زندگی سے بے دخل کرنے کام مطالبہ کرتی ہے ۔
بنابریں اگر ھم سکیولریزم کو دنیا پرستی سے تعبیر کریں تو یہ تعبیر جامع ہوگی کیونکہ سکیولرسٹ دین سے گریز کرنے کے لۓ ان امور کا سہارہ لیتے ہیں جیسے انسان محوری ،عقلیت پسندی ،علم پسندی محض ،فھم بشری محض ،اور انسانی آزادی وغیرہ ،یہ سارے امور دنیا پسندی کے تحت آتے ہیں لھذا سکیولریزم کی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے
"دنیوی نقطہ نظر سے انسانی حیات کو دیکھنا "اب اس میں حیات انسانی کے تمام شعبے شامل ہیں ۔

آئیے سکیولریزم کی بعض تعریفوں کا جائزہ لیتے ہیں
شایزنے سکیولریزم کی مختلف تعریفیں پیش کی ہیں ہم ان میں سے بعض کا نچوڑ آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں ۔
1 – جب دین اپنی تمام صورتوں میں یعنی اس کی تعلیمات ،اس کی علامتیں ،اور اس کے ادارے اور تنظیمیں معاشرے سے ختم ہوجائیں اور ان کی حیثیت و اعتبار بھی زائل ہوجاۓ تو معاشرے پر سکیولریزم کا اطلاق ہوگا ۔
2-جب انسان کی توجہ معنوی امور سے ھٹ جاۓ اور وہ اپنی دنیوی زندگی کی ضرورتیں اور مسائل حل کرنے میں لگ جاے تو سکیولریزم ظہورپذیر ہوگیا ہے ۔
3-جب بھی دین فردی اور ذاتی حد تک باقی رہ جاے اور اجتماعی زندگی سے بے دخل ہوجاے اور معاشرتی سطح پر بے اثر بن جاے تو سکیولریزم حاصل ہوگیا ہے ۔
4-جب علوم اور وہ ادارے جو خدا کی قدرت کا مظہر سمجھے جاتے تھے انسان کے بناے ہوۓ امور اور اس کے قبضہ قدرت میں آجائیں تو سمجھہ لیں کہ سکیولریزم تحقق پذیر ہوگیا ہے ۔
5- جب اس مادی دنیا میں روحانی اشیاء کا تقدس ختم ہوجاے تو اس کے معنی ہیں کہ سکیولریزم وجود میں آچکا ہے ۔
6- جب معاشرہ روایتی اقدار و آداب سے کنارہ کسی اختیار کرلے اور تبدیلیوں کو اپناتے ہوۓ عقلیت پسندی اور منفعت پرستی کے مطابق زندگی گذارنے لگے تو سکیولریزم وجود میں آجاے گا ۔


البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلی اور دوسری تعریف اور تیسری تعریف میں کوئی فرق نہیں ہے اسی بناپر یہ مستقل تعریفیں نہیں کہلائیں گی اسی طرح بقیہ پانچوں تعریفیں بھی پہلی تعریف ہی کی طرف لوٹتی ہیں لھذا انہیں جداکرنے کا کوئی جواز دکھائی نہیں دیتا،لیکن یہ کہنا صحیح نہیں لگتا کیونکہ ہوسکتا ہے شایز نے ہرتعریف میں حقیقت سکیولریزم کے ایک درجے و مرتبہ کی طرف اشارہ کیا ہو بہرحال اگر ہم مذکورہ تعریفوں کا خلاصہ کرنا چاھیں تو یہ تعریفیں مندرجہ ذیل امور کو شامل ہونگی ۔
الف :معاشرہ سے دین کا خاتمہ
ب:انسان کی توجہ صرف انسانی مسائل پر مرکوز کرنا
ج:دین کو اجتماعی امر میں تبدیل ہونے سے روکنا
د:انسانی افعال و اعمال کا جواز انسانی صلاحیتوں کے مطابق پیش کرنا نہ کہ خدا کی طاقت کے مطابق ۔
ھ:غیبی امور کی نفی اور ان کے تقدس کا انکار۔
و:عقلیت پسندی اور منفعت پرستی کو روز مرہ کی زندگی کی اساس قرار دینا ۔
یہاں پر ہم سکیولریزم کی اپنی تعریف بھی ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ سکیولریزم دنیوی نقطہ نظر سے انسانی حیات کو دیکھنا ہے ۔
قرآن کی روسے سکیولریزم کی نفی کرنے سے قبل آئیے قرآن کی نظر میں انسان کے مقام ومنزلت کاجائزہ لیتے ہیں تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ اسلام معرفت و حقیقت اشیاء کی شناخت پر تاکید کرتا ہے اس کے بعد ہم معاشرے کے بارے میں اسلام کے نظریات کا جائزہ لیں گے تاکہ یہ واضح کرسکیں کہ قرآنی تعلیمات کی روسے سکیولریزم کے وجود میں آنے کا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ یہ مکتب فکر اسلام و قرآن کے عین مخالف ہے ۔


انسان، قرآن کی نظر میں ۔


قرآن کریم کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جب بھی قرآن میں کسی شیئ کا ذکر کیا جاتاہے اس کے تمام پہلووں پر روشنی ڈالی جاتی ہے یعنی مادی، معنوی اور فطری لحاظ سے نیز یہ کہ اس کا خود اپنے بنی نوع اور خدا سے کیا ربط ہے ،انسان بھی اس قاعدے سے مستثنی نہیں ہے خدا نے قرآن میں انسان کے مختلف پہلووں کی طرف اشارہ فرمایاہے کہ انسان کیا ہے ؟کہاں سے آیا ہے ؟اور اسے کہاں جانا ہے ؟اپنے خالق اور دیگر مخلوقات سے اس کا کیا تعلق ہے اور ان سے اس کا رابطہ کیسا ہونا چاھیے ؟بنابریں قرآنی انسان شناسی انسانی مکاتب فکر اور مقدس کتب کی انسان شناسی سے مختلف اور ممتازہے انسان کے بارے میں نازل ہونے والی آیات پر غور کرنے سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجاتی ہے اس سلسلے میں آئیے بعض آیات قرآنی کا جائزہ لیتے ہیں ۔
قرآن کی روسے سکیولریزم کی نفی کرنے سے قبل آئیے قرآن کی نظر میں انسان کے مقام ومنزلت کاجائزہ لیتے ہیں تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ اسلام معرفت و حقیقت اشیاء کی شناخت پر تاکید کرتا ہے اس کے بعد ہم معاشرے کے بارے میں اسلام کے نظریات کا جائزہ لیں گے تاکہ یہ واضح کرسکیں کہ قرآنی تعلیمات کی روسے سکیولریزم کے وجود میں آنے کا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ یہ مکتب فکر اسلام و قرآن کے عین مخالف ہے ۔


 

قرآن کے معرفتی یا شناختی پہلو۔

1 ۔انسان ازلی گنہگار نہیں ہے


دین مبین اسلام عیسائیت کے برخلاف ابن آدم کو فطری گناہ میں شریک و یکسان نہیں سمجھتا اور نہ اسے ابدی گناہ گار سمجھتا ہے بلکہ انسان کو اشرف المخلوقات قراردیکر اپنے الفاظ میں اس کی تعریف اس طرح کرتا ہے ۔

 

الف ۔انسان اللہ کی مخلوق ہے جس میں اللہ نے اپنی روح پھونکی ہے

ارشاد ہوتا ہے۔ اذقال ربک للملائکة انی خالق بشرا من طین فاذا سویته و نفخت فیه من روحی فقعواله ساجدین (الحجر 29 )
اے رسول وہ وقت یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک آدمی کو خمیر دی ہوئی مٹی سے جو سوکھ کر کھنکھن بولنے لگے پیدا کرنے والا ہوں تو جس وقت میں اس کو ہرطرح سے درست کرچکوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں تو سب کے سب اس کے سامنے سجدہ میں گرپڑنا ۔


ب:اللہ نے انسان کو سارے اسماء سکھاے ہیں ۔

ارشاد ہوتاہے و علم آدم الاسماء کلهاثم عرضهم علی الملائکة فقال انبئونی باسماء هؤلاء ان کنتم صادقین (بقرہ 31 )
اور آدم کی حقیقت ظاہر کرنے کی غرض سے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھادیئے پھر ان فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہوتو مجھے ان چیزونکے نام بتاؤ ۔


ج:اللہ نے انسان کو قلم کے ذریعے تعلیم دی اور اسے علم عطا کیا ۔

ارشاد ہوتا ہے الذی علم بالقلم ۔علم الانسان مالم یعلم (سورہ علق 4۔5 )
جس نے قلم کے ذریعے سے تعلیم دی اسی نے انسان کو وہ باتیں بتائیں جو وہ نہیں جانتاتھا۔


د:اللہ نے انسان کو عقل عطا کی

جس سے اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوئی ارشاد ہوتا ہے والله اخرجکم من بطون امهاتکم لا تعلمون شیئاو جعل لکم السمع و الابصار والافئدة لعلکم تشکرون ۔سورہ نحل 78 ۔
اور خدا ہی نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ سے نکالا جب تم بالکل نا سمجھ تھے اور تم کو کان دیۓ اور آنکھیں عطا کیں دل عنایت کۓ تاکہ تم شکر کرو۔


ھ:اللہ نے انسان کو آزادی کی نعمت اور زمین سے استفادہ کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے ۔

ارشاد باری تعالی ہے و سخر لکم مافی السماوات و ما فی الارض جمیعا منه(سورہ غافر 64 )
اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنے حکم سے تمہارے کام میں لگادیا ہے ۔


و:اللہ نے انسان کے سب سے پہلے گناہ کو بھی بخش دیا ۔

ارشاد ہوتاہے فتلقی آدم من ربه کلمات فتاب علیه انه ھوالتواب الرحیم ۔(سورہ بقرہ 37)
پھر آدم نے اپنے پروردگار سے چند الفاظ سیکھے پس خدا نے آدم کی توبہ قبول کرلی بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا مہربان ہے ۔


ز:قرآن کریم کی نظر میں گناہ کرنے والا ہی اس کا ذمہ دار ہے ارشاد باری تعالی ہے ومن اهتدی فانما یهتدی لنفسه و من ضل فانما یضل علیها و لا تزرو وازرة وزراخری و ماکنا معذبین حتی نبعث رسولا(سورہ اسراء15)
جو شخص گمراہ ہوتا ہےتو اس نے بھٹک کر اپنا آپ بگاڑا اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ اپنے سرنہیں لے گا اور ہم جب تک رسول کو بھیج کراتمام حجت نہیں کرلیں کسی پر عذاب نہیں کیاکرتے ۔


ح:اللہ نے انسان کو تمام مخلوقات سے افضل خلق فرمایا ہے اور اسے ساری مخلوق پر برتری عطاکی ہے ،ارشاد ہوتاہے ولقد کرمنا بنی آدم و حملناهم فی البر والبحر و رزقناهم من الطیبات و فضلناهم علی کثیر ممن خلقناتفضیلا (سورہ اسراء70 )
اور ہم نے یقینا آدم کی اولاد کو عزت دی اور خشکی اور تری میں لۓ پھرے اور انہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں اور اپنے بہتیرے مخلوقات پر ان کو اچھی خاصی فضیلت دی ۔
ان تمام آیات سے واضح ہوتاہےکہ قرآن نے جس انسان کامل کی شناخت کروائی ہے وہ ایک پاک اور الھی مخلوق ہے ایسا انسان جس کے وجود میں کسی طرح کی آلودگی نہیں پائی جاتی ،انسان کی یہ شناخت عقل سے ھماھنگ ہے اور جذبات کے ساتھ بھی اس میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا یہ نکتہ انسان کے بارے میں قرآن اور اناجیل مقدسہ کے نظریات میں امتیاز پیدا کرتا ہے اور ظاہر سی بات ہے قرآن کے اس نظریے کا بڑی آسانی کے ساتھ دفاع کیا جاسکتا ہےاور معاشرہ میں اس کی افادیت بھی ثابت کی جاسکتی ہے ۔

2 قرآن کریم انسان کے مقام و منزلت پر تاکید کرتاہے ۔

قرآن کریم کے مطابق خدا وند کریم نے انسان کے لۓ صرف اور صرف مقام بندگی اور خلافت الھی کو منظور فرمایا ہے اور اس سے بڑھکر انسان کے دعوے کو قبول نہیں کیا ہے اسی بناپر ہم قرآن مجید میں جگہ جگہ پر دیکھتے ہیں کہ انسان کے خدائی کے دعوے کو سختی سے مسترد کیا گیا ہے ۔


الف:فرعون کی داستان میں فرعون کی کارکردگی اس کی اخلاقی ،روحی ،اور نظریاتی خصوصیتوں کو رد کیاگیا ہے ارشاد ہوتا ہے واستکبر هو و جنودہ فی الارض بغیرالحق و ظنوا انهم الینا لا یرجعون،فرعون اور اسکے لشکر نے روے زمین پر ناحق سراٹھایا تھا اور ان لوگوں نے سمجھ لیا تھاکہ ہماری بارگاہ میں وہ کبھی پلٹ کرنہیں آئیں گے ۔(قصص39 )
حضرت موسی علیہ السلام کی داستان میں بھی انہیں یعنی انسان کو خدا ماننے والوں کی سخت سرزنش کی گئی ہے ،ارشاد ہوتاہے لقد کفر الذین قالوا ان الله هو المسیح ابن مریم ،جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ مریم کے بیٹے مسیح بس خدا ہیں وہ ضرورکافر ہوگۓ ۔(مائدہ 17 )
ایک اور آیت میں ارشاد ہوتاہے کہ لقد کفر الذین قالواان الله ثالث ثلاثة و مامن الة الااله واحد،جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ خدا تین میں کا تیسرا ہے وہ یقینا کافر ہوگۓ (یاد رکھو کہ ) خداۓ یکتا کے سواکوئی معبود نہیں ہے ۔(سورہ مائدہ 77 )
قرآن مجید اس بات پر بھی تاکید کرتا ہے کہ معجزے انبیاء علیھم السلام کی ذاتی طاقت سے نہیں بلکہ اللہ کی دی ہوئی طاقت سے رونما ہوتے ہیں ارشاد باری تعالی ہے کہ وما کان لرسول ان یاتی بآیة الا باذن الله فاذاجاء امرالله قضی بالحق ۔اور کسی پیغمبر کی یہ مجال نہ تھی کہ خدا کے اختیار دیۓ بغیر کوئی معجزہ دکھا سکے پھر جب خدا کا عذاب آپہنچا تو ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا گیا ۔(سورہ غافر 78 )
حاصل سخن یہ کہ قرآن یہ کہتا ہےکہ انسان خدائی کا دعوی نہیں کرسکتا اسی وجہ سے مسلمان شہادتین میں کہتے ہیں کہ اشھد ان محمد عبدہ ورسولہ ،میں گواھی دیتا ہوں کہ محمد خدا کے بندے اور رسول ہیں ،رسول و آل رسول علیھم السلام نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ وہ سب خدا کے بندے اور انسان ہیں گرچہ الھی ذمہ داریوں کی بنا پر ان کا مقام ومنزلت نھایت برتر و بالا ہے ۔
قرآن نے جو انسان کی شناخت کرائی ہے وہ انسان کی عقل نقاد سے ہرگز تضاد نہیں رکھتی کیونکہ افراط و تفریط سے پرھیز کرنا ایک نھایت ضروری امر ہے اور دانشوروں کے اذھان کو اپنی طرف موڑسکتا ہے اور بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ کردیتا ہے بنابریں ایسی سوچ سے دین اسلام کا دفاع اور شبہات کا مقابلہ کیا جاسکتاہے ۔

3 :قرآن کی نظر میں انسان عقل و فکر کا حامل ہے ۔

عیسائیت نے ایمان کو فکر کی جگہ دیدی اور اور دین کو حیرت کے معنی سے تعبیر کیا اور اس سے معرفتی پہلو سلب کرلۓ اور گوشہ نشین ہوگیئ لیکن اس کے برخلاف اسلام نے یعقلون ،یعلمون ،یشعرون ،اور یفقہون جیسے الفاظ استعمال کرکے دین کو سمجھنے کی ترغیب دلائی اسلام کا اعلان ہے کہ ایمان صرف فکر و تدبر و تعقل سے ہی حاصل ہوتاہے اسی بناپر اسلام کی نظر میں دین اختیار کرنے میں کسی طرح کاجبر و اکراہ نہیں ہے کیونکہ راہ گمراہی و راہ نجات واضح و روشن ہے اور انسان کو اپنی عقل و فکر سے ان میں سے کسی راہ کا انتخاب کرنا ہوتاہے لھذا اسلام میں تفکر و تعقل کی کوئی حد نہیں ہے البتہ روایات میں جو ذات خداوندی کے بارے میں سوچنے سے منع کیا گیا ہے اس کی وجہ خود انسان کو انحراف سے بچانا ہے اسلام کی نظر میں انسان کو ہرشئ کے بارےمیں سوال کرنے کا حق حاصل ہے کیونکہ اسلام کے نزدیک عقل و تدبر کا نھایت اعلی مقام اور اھمیت ہے ۔
ان امور سے معلوم ہوتاہے کہ مخالفین دین کا یہ دعوی کہ دینی معارف و تعلیمات غیر عقلانی اور باطل ہیں خود ایک باطل دعوی ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات "راز"پر استوار نہیں ہیں ۔

4 ۔قرآن کی نظر میں انسان اخروی مقامات کا حامل ہے ۔

قرآن نے جس انسان کی شناخت کرائی ہے وہ صرف دنیوی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک ھمہ گیر انسان ہے مادی وپست زندگی (الحیاۃالدنیا ) کے علاوہ وہ برتر و اعلی زندگی یعنی (الحیاۃ الآخرہ )میں بھی بھرپور طرح سے وجود رکھتا ہے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر دنیا اور آخرت کا ذکر ساتھ ساتھ کیا گیاہے اور اخروی زندگی پر تاکید کی گئی ہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہےکہ مسلمان دنیوی زندگی سے غافل ہوجائیں اور کوئی سروکارنہ رکھیں بلکہ مراد یہ ہے کہ دنیا کے بندے نہ بن جائیں اوردنیا ہی کو اپنا مقصود نہ سمجھ لیں اور آخرت کو بھلا بیٹھیں ۔

5- قرآن انسان کی مادی ضرورتوں پر بھی توجہ رکھتا ہے ۔

دین اسلام انسان کی روحانی اور معنوی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ اس کی جسمانی اور مادی ضرورتوں پر بھی مکمل توجہ رکھتاہے ارشاد ہوتاہے قل من حرم زینة الله التی اخرج لعبادہ والطیبات من الرزق قل هی للذین امنوا فی الحیاة الدنیا خالصة یوم القیامة (اعراف 32 )اے رسول ان سے پوچھو تو کہ جو زینت کے سازوسامان اور کھانے کی صاف ستھری چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے لۓ پیدا کی ہیں کس نے حرام کردیں ،تم خود کھ دو کہ یہ سب پاکیزہ چیزیں ان لوگوں کے لۓ خاص ہیں جو دنیا کی (ذرا سی زندگی ) میں ایمان لاۓ تھے ۔
ایک اور آیت میں ارشاد ہوتاہے کہ ولاتنس نصیبک من الدنیا و احسن کمااحسن الله الیک ولا تبغ الفساد فی الارض ان الله لایحب المفسدین ۔اور دنیا سے جس قدر تیراحصہ ہے مت بھول جا اور جس طرح خدا نے تیرے ساتھ احسان کیا تو بھی اوروں کے ساتھ احسان کر اور روۓ زمین میں فساد کا خواھان مت ہو اس میں شک نہیں کہ خدا فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔(سورہ قصص77 )
انبیاء الھی اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ حضرات دنیوی اور مادی امور سے غافل نہیں تھے آیت اللہ جواد آملی اپنی کتاب" نسبت دین و دنیا" میں کہتے ہیں کہ اسلامی متون کے مطالعہ سے پتہ چلتاہےکہ نہ صرف پغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیوی امور پر تاکید فرمایا کرتے تھے بلکہ یہ تمام انبیاء الھی کی سیرت و سنت رہی ہے
شایان توجہ ہے کہ اگر قرآن و آحادیث میں بعض مقامات پر دولت ،اولاد ،مقام و منصب ،کی مذمت کی گئی ہے تو یہ مذمت کلی طور پر نہیں ہے بلکہ انتباہ وتوجہ دلانے کے لۓ ہےکہ انسان دنیا کا غلام نہ بن جاۓ اور کوئی مسلمان ان آیات وروایات سے یہ معنی نہیں نکالتا کہ آخرت میں کامیاب ہونے کے لۓ دنیوی زندگی کو بالکل ترک کردیا جاۓ اور آزادی روح کے لۓ جسم کو فنا کردیا جاۓ،اسی طرح مسلمانوں کے ذھن میں یہ معنی بھی نہیں آتے کہ دین اسلام انہیں حصول بہشت کے لۓ دنیوی زندگی میں ظلم برداشت کرنے کی تلقین کرتاہے ۔
حاصل سخن یہ کہ اگر دین اسلام صرف انسان کی آخرت پر تاکید کرتا ہوتاتو دنیوی زندگی کے بارےمیں کوئی بات نہ کہتا لیکن اسلام نے دنیوی زندگی کے ہرشعبہ میں انسان کی رہنمائی کی ہے اسلام کی یہ تعلیمات سکیولرفکر پر خط بطلان کھینچ دیتی ہیں ۔

قرآن انسان کے اجتماعی مقام پر تاکید کرتا ہے ۔

اسلام کی نظر میں انسان فردی اور ذاتی دائرہ میں محدود نہیں ہےبلکہ اسلام اجتماعی زندگی پر تاکید کرتاہے اسلام کی نظر میں انسان معاشرے میں ہی کمال کی منزلیں طے کرتاہے اور اسلام کی نظر میں گوشہ نشینی اور رھبانیت مذموم ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں جس قدر زور روحانی اور معنوی امور پر دیا گیا ہے اتنا ہی زور اجتماعی امور پر بھی دیا گیا ہے اسلام میں رھبانیت اور گوشہ نشینی سے سختی سے منع کیا گیا ہے اور دنیوی زندگی کو سدھارنے کی کوشش کرنے پر تاکید کی گئی ہے بنابریں قرآن کی نظر میں انسان معاشرے میں بھر پور کردار کا حامل ہے اور معاشرے پر اثر انداز بھی ہوتاہے ،آیۃ اللہ جواد آملی اپنی کتاب نسبت دین و دنیا میں لکھتے ہیں کہ فردی اور اجتماعی ضرورتوں میں عدم امتیاز کی بناپر یہ ثابت ہوتاہے کہ دین انسانی زندگی کے تمام امور پر محیط ہے اور دین کو محض فردی امور میں محدود سمجھنا عقل سے مطابقت نہیں رکھتا آیت اللہ جواد آملی لکھتے ہیں کہ فردی و اجتماعی ضرورتیں عقل سے تشخیص دی جاسکتی ہیں ۔

قرآن معاشرے کی ہرضرورت پر نظر رکھتاہے

1۔ اقتصادی امور ۔

اسلام کی نظر میں الناس مسلطون علی اموالهم ایک معتبر قانون ہے اس کے مطابق اسلام عوام کو ان کے مال و دولت پر صاحب اختیار سمجھتاہے اور تمام مسلمین سے اس قاعدہ پر عمل کرنے کا طالب ہے اسی طرح سے کسی کے مال و دولت پر حملے کو حرام قراردیتاہے نیز ایک دوسرے کی رضایت سے تجارت کرنے کا حکم دیتاہے ،قرآن مجید میں سود خوری ،باطل معاملات ،کم فروشی،اور رشوت سے سختی سے منع کیا گیا ہے اس کے علاوہ معاشرے کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لۓ اسلام نے مختلف اجتماعی منصوبے پیش کۓ ہیں جیسے مزارعہ ،مساقات ،مضاربہ ،مشارکت وغیرہ ۔

2 ۔قانونی امور۔

اسلام نے خاص طور سے معاشرتی قوانین بیان کۓ ہیں جیسے گھرانے کے قوانین ،خواتین کے حقوق اور تمام ارکان معاشرے کے حقوق ،اسلام نے احکام نکاح ،طلاق،نفقہ ،سکونت و حضانت کے احکام بیان کرکے سماجی انصاف کی راہ ہموار کردی ہے اسی طرح اجارہ ،صلح ،رھن و ضمان جیسے امور پر بھی واضح طریقے سے روشنی ڈالی ہے ۔

3 ۔ثقافتی امور

اسلام معاشرے کی ثقافتی ضرورتوں سے بھی غافل نہیں ہے ،اسلام اخلاقی لحاظ سے معاشرےکو صحت مند دیکھنا چاھتاہے اسی بناپر اس نے وہ تمام چیزیں حرام کردی ہیں جن سے انسان کے گمراہ ہونے کا امکان ہو اسلام ایسے کھیل کود اور ورزشوں کی اجازت دیتا ہے جو انسان کی ذھنی اور جسمانی صلاحیتوں میں نکھار پیداکرتی ہیں اور اخلاق کو تقویت پہنچاتی ہیں ۔
اسلام ثقافتی لحاظ سے صحت مند معاشرے کا خواھان ہے اسی بناپر اس نے اسراف وتبذیر کو حرام قراردیا ہے ،اسلام نے مادہ پرستی کو بھی ناپسند کیا ہے لیکن جمود وٹہراؤ سے بھی دور رہنے کی تعلیم دی ہے ،سچائی پر زور دیتے ہوۓ غیبت نمامی اور ایک دوسرے کی برائی کرنے سے منع کیا ہے اس کے علاوہ اندھی تقلید اور افسانہ پرستی سے بھی منع کیا ہے البتہ نیک اور پاکیزہ لوگوں کو نمونہ عمل بنانے پر تاکید کی ہے ۔

4 ۔اسلام میں سیاسی اور انتظامی امور ۔

اس مسئلہ پر ذرا تفصیل سے روشنی ڈالیں گے اور اس کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیں گے ۔

الف:حاکمیت اللہ ۔

اسلام کی نظر میں حکومت کرنے کا حق صرف اللہ کو ہے اور حکومت اسی کی ذات میں منحصر ہے ،واضح سی بات ہے کہ اللہ کی حکومت کا مطلب اس کاجسمانی لحاظ سے ظاہرہونا نہیں ہے کہ اس سے ذات خدا مبراہے ،بلکہ بدن پر روح کی حاکمیت کی طرح ہے جس طرح سے روح تمام افعال بدنی کا سرچشمہ ہے اسی طرح ذات احدیت تمام قوانین عالم کون کا سرچشمہ ہے لھذا عالم ھستی نہ صرف وجودی اور تکوینی لحاظ سے اللہ کی محتاج ہے بلکہ اس کے قانونی اور انتظامی امور بھی اللہ ہی معین کرتاہے اسی بناپر خدا خلاف ورزی کرنے والوں کے لۓ ظالم فاسق اور کافر کے الفاظ استعمال کرتاہے ۔

ب :حاکمیت نمائندہ خدا (فرد معصوم )

خدا نے روی زمین پر انسان کو اپنا جانشین معین فرمایا ہے اس سے پتہ چلتاہے کہ ایک انسان کو دوسرے پر فضیلت و برتری حاصل نہیں ہے یہ وہی قانون ہے جسے "نفی سلطنت غیر بر بشر "سے تعبیر کیا جاتاہے ،لیکن انسان کو زندگی میں نظم ونسق قائم کرنے اور زندگی کے اھداف تک پہنچنے کے لۓ حکومت اور منظم منصوبوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ خدا کا لطف ہے کہ اس نے ان دونوں موضوعات کو واضح کرکے انسان کی ھدایت کا انتظام کردیا ہے ۔
خدانے انسان کی سعادت کے لۓ اسے دوحکمرانوں کے تحت زندگی گذارنے کی ھدایت کی ہے پہلے حکمران ہیں انبیاء الھی اور ائمہ معصومین اور دوسرا حاکم ہے عقل جسے رسول باطنی بھی کہا جاتاہے عقل آخری لمحوں تک انسان کے ساتھ رہتی ہے اور اسکی ھدایت کرتی رہتی ہے ۔

ج:حکومت معصوم کاجواز

معصومین کی بے مثال عظمت و خداسے قربت کی بناپر اللہ نے انہیں انسان پر حاکم قراردیا ہے اور ان کی اطاعت واجب قرارپائی ہے ،خدا کی جانب سے عقل برتر یا معصوم کو حاکم قراردیۓ جانے کی وجہ یہ ہےکہ لوگون کی عقلیں دنیوی آلائشوں سے آلودہ اور وہ اپنے فرائض اداکرنے سے قاصر ہوتی ہیں لھذا اللہ پاک وپاکیزہ اور درجات قرب حق پر فائز عقلوں کو ہی انسانی کاروان کی ھدایت کی ذمہ داری سونپتاہے تاکہ انسان ان کی اتباع کرکے منزل مقصود تک پہنچ جاۓ۔
اللہ ایک طرف اپنے رسول سے فرمارھاہے کہ ان احکم بینھم یعنی لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو دوسری طرف قانون سازی کے بارے میں بھی لازمی ھدایات دے رھاہے اور نھایت اھم نکتہ کی طرف توجہ مبذول کرارھا ہےکہ بما انزل اللہ ولاتتبع اھوائھم یعنی جو کچھ ہم نے نازل کیا ہے اس کے مطابق حکم کرو ،بنابریں اسلام میں نہ زور و طاقت کی حکومت ہے اورنہ مکروفریب و حیلہ گری کی اور نہ کسی عام شخص کی فکر حاکم ہے بلکہ یہ اللہ کا ارادہ اور فرمان ہےجو انبیاء و معصومین کے وجود میں متجلی ہوکر انسانوں پر حکومت کرتاہے ۔
ان تفصیلات کے مد نظر قرآن سکیولر طرز فکر کو مسترد کرتاہے اور جیسا کہ آپ نے دیکھا قرآن میں بارھا انسان کی معاشرتی زندگی پر اس کے تمام پہلووں کے ساتھ تاکید کی گئی ہے لھذا کس بناپر سکیولریزم کو قبول کیا جاسکتاہے ایسا تو ہونہیں سکتاکہ آیت کے ایک حصے کو قبول کریں اوردوسرے کو نظر انداز کردیں۔

د:قیام حکومت اسلامی کا فلسفہ ۔

قرآن میں جب اللہ انبیاء کے فرائض کی وضاحت کرتاہے تو ان سے مطالبہ کرتاہے کہ وہ توحیدی معاشرہ قائم کریں اور انسان کو غیر خدا کی پرستش سے دوررکھیں ،قرآن میں متعدد آیات میں ان امور کی طرف اشارہ کیا گیاہے اس کے علاوہ عدل و انصاف قائم کرنا بھی انبیاء کی بعثت کا بنیادی مقصد قراردیا گیاہے۔
واضح ہےکہ ان اھداف کو حاصل کرنے کے لۓ منصوبہ بندی ،وسائل و ذرائع اور رکاوٹوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے دوسرے الفاظ میں اس کے لۓ حکومتی ادارےاور انتظامی ڈھانچہ نھایت ضروری ہے کیونکہ ان دوامور میں عرفی اور عقلی ملازمہ پایا جاتا ہے ،اس کے علاوہ خود رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اولی الامر کی اطاعت کو واجب قراردیا ہے ،امیرالمومنین علی علیہ السلام ولایت کو دین کی بنیاد قراردیتے ہیں اور امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنے امام کو نہیں پہچانا وہ جاھلیت کی موت مرا ہے ۔

خلاصہ یہ کہ انبیاء بالخصوص رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا مقصد حکومت عدل الھی کا قیام اورائمہ معصومین علھم السلام کے توسط سےکار رسالت یعنی ھدایت انسان کو جاری رکھنا ہے ۔
مذکورہ امور سے ہم یہ نتیجہ نکال سکتےہیں کہ قرآن کریم الھی تعلیمات پر مبنی حکومت کے قیام کا خواھان ہےاور غیر الھی اقدار پر قا‏ئم حکومت کو یک سر مسترد کرتاہے ۔قرآن کی نظر میں مسلمانوں پر واجب ہےکہ وہ قرآنی قوانین کو جامہ عمل پہنانے کے لۓ کوشش کریں اور اسلامی معاشرہ وجود میں لائیں بنابریں اسلام و قرآن اور سکیولر طرز تفکر میں مکمل تضاد پایا جاتاہے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے اسلامی حکومت قائم فرمائی اور آپ نے اسلام کے مطابق حکومت کی آپ کے بعد بھی گرچہ حاکم کے تشخیص و تعیین میں اختلاف ہوگیا لیکن کسی نے اسلامی حکومت کی ضرورت میں شک نہیں کیا اسی بناپر اسلامی سرزمینوں کے حکمران خود کو اسلامی حکمران کہلانا ہی پسند کرتے تھے ۔
قابل توجہ ہے کہ وہ پہلا شخص جس نے دین و سیاست میں جدائی کی کوشش کی اور بغیردین کے حکومت کا نعرہ لگایا معاویہ ابن ابوسفیان تھا ،معاویہ نے تمام وسائل وذرایع سے حکومت بچانے کی کوشش کی اور خلافت کو سلطنت میں تبدیل کردیا اور امت اسلامی میں اشرافیت یا ایرسٹوکریسی کی بنیاد رکھی ۔
حضرت امام خمینی فرماتے ہیں کہ بنی امیہ کے زمانے میں سب سے پہلے دین و سیاست میں جدائی کا نعرہ لگایا گیا اور بنی عباس نے اس کو استحکام بخشا جبکہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر دینی حکومت کو جھنم میں داخل ہونے کا سبب قرادیا تھا اور ائمہ معصومیں علیھم السلام نے بھی عوام کو طاغوتی حکمرانوں کی پیروی کرنےسے منع کیا تھا ان امور سے پتہ چلتاہےکہ رسول اسلام صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم اور ائمہ طاھرین علیھم السلام کا ایک اھم ھدف حکومت الھی تشکیل دینا تھا ان حضرات کی جدوجھد بتاتی ہےکہ غیر دینی حکومت قابل قبول نہیں ہے بلکہ حکومت کی بنیاد دین پراستوار ہونی چاھیے ۔

نتیجہ

قرآنی آیات میں غور کرنے سے یہ واضح ہوتاہے کہ حکومت صرف بشری اور دنیوی امر نہیں ہے اسلام نے حکومت کا اختیار انسانوں پر نہیں چھوڑا ہے بلکہ سماجی زندگی کے بھی احکام بیان کۓ ہیں لھذا حکومت کو بشری اور دنیوی امر سمجھنا دین اسلام پر ایک طرح کا ظلم اور قرآن کریم کی صریحی آیات کی مخالفت ہے قرآن کریم سکیولر حکومت کو قبول نہیں کرتا بلکہ سکیولریزم بنیادی طور پر قرآن سے تضاد رکھتا ہے اسے ہم قرآن و سنت نبوی کے برابر لاکرکھڑانہیں کرسکتے ۔