کیا شیعہ صحابہ پر سب و شتم اکرتے ہیں ؟
  • عنوان: کیا شیعہ صحابہ پر سب و شتم اکرتے ہیں ؟
  • مصنف: سایٹ ولیعصر
  • ذریعہ:
  • رہائی کی تاریخ: 20:24:42 1-10-1403

کیا شیعہ اصحاب کو عادل نہیں سمجھتے ؟

کیا شیعہ صحابہ پر سب و شتم اکرتے ہیں ؟
 
تحریر : استاد رستمی نژاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ : سید میثم زیدی
 
 اعتراض :  شیعہ اصحاب پیغمبر اکرم ﷺ کی توہین کرتے ہیں  اور یہاں تک کہ ان پر سب و شتم  اور لعنت  کرتے ہیں جبکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے دوست و مددگار تھے  اور انہیں کے ذریعہ اسلام ہم تک پہونچا ہے ۔
تحلیل جائزہ :
 
وہابیوں کا شیعوں پر اعتراض کرنے کا  ایک سب سے  بڑا اور اہم  بہانا صحابہ پر سب و شتم اور  لعنت  کرنا ہے ۔   وہ ہمیشہ اس مسئلہ پرتأکید کرتے ہیں  اور ہمیشہ اس تنور کو گرم رکھنا چاہتے ہیں ۔ کیا واقعا ً ایسا ہے کہ شیعہ اصحاب پیغمبر اکرم ﷺ پر سب و شتم اور  لعنت  کرتے ہیں ؟ !

اس اعتراض کے جواب میں سب سے پہلے مرحلہ میں ہمیں سب اور لعنت کے درمیان فرق کو سمجھنا   پڑے گا  چونکہ یہ دونوں ایک  چیز نہیں ہیں بلکہ ان دونوں کی ماہیت و حقیقت  ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ ہے ۔

سب  و شتم کا حکم
اس کے متعلق دو نکات قابل ذکر ہیں :

پہلا نکتہ :  سب  و شتم ،  گالی دینا اور کسی کو بُرا بھلا کہنا  ،  ،  اللہ کے حرام کردہ امور میں سے ہیں  اور کوئی بھی عقلمند انسان  ، اس طرح کے بُرے کام کو انجام نہیں دیتا ۔

تاریخی دستاویز وں کے مطابق ، جنگ صفین کے موقع پر جب کچھ لوگوں نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام تک یہ خبر پہونچائی کہ  آپ کے لشکر کے کچھ لوگ شامیوں کو برُا بھلا کہہ رہے ہیں آپ نے  اپنے سپاہیوں کو خطاب کرتے ہوئے  ارشاد فرمایا : ’’ إِنِّی أَکْرَهُ لَکُمْ أَنْ تَکُونُوا سَبَّابِینَ، وَ لَکِنَّکُمْ لَوْ وَصَفْتُمْ أَعْمَالَهُمْ، وَ ذَکَرْتُمْ حَالَهُمْ، کانَ أَصْوَبَ فِی الْقَوْلِ، وَ أَبْلَغَ فِی الْعُذْرِ ‘‘ ۔([1])  مجھے یہ امر سخت  نا پسند و ناگوار  ہے کہ تم لوگ کسی کو بُرا بھلا کہنے  والے بنو اگر تم  ان کے (برے )اعمال کو دیکھو تو تم     ان کرتوتوں پر  ان کی تنقید  کرسکتے ہو  اور یہ چیز  حقیقت سے زیادہ نزدیک اور تمہاری طرف سے قابل قبول عذر ہوگا ۔

انسان تو کیا قرآن مجید میں بتوں کو بھی گالی دینے سے منع کیا گیا ہے  چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : ’’  وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَيَسُبُّوا اللَّـهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ‘ ‘ ۔([2]) اور (خبردار) تم ان کو گالیاں نہ دو جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ورنہ یہ لوگ اپنی جہالت و ناسمجھی کی بنا پر حد سے گزر کر اللہ کو گالیاں دینے لگیں گے ۔

اہل بیت  علیہم السلام  ہمیشہ اپنے چاہنے اور پیروی کرنے والوں  کو ایسے قبیح اعمال  کے نزدیک ہونے سے بھی  منع فرمایا کرتے تھے ۔ چنانچہ امام علی علیہ السلام نے اپنے  وصیت نامہ میں فرمایا : ’’  گالی گلوچ کے ساتھ بات مت کرو ، چونکہ گالی گلوچ کرنا ہمارے اور ہمازے شیعوں کو زیب نہیں دیتا ہے  اور گالی دینے والا ہمارا دوست  نہیں  ہوسکتا ۔([3])

اس بنا پر ، گالی دینا ، دیگر  تمام چیزوں  کو چھوڑتے ہوئے ، ایک دیندار اور با تقویٰ انسان کی شایان شأن نہیں ہے  اور اگر کوئی شخص  ایسے عمل کا مرتکب ہوا یا ہو رہا ہے وہ جہل ، نادانی اور تعصب کی وجہ سے ہے  اور اس کے اس عمل کا تعلق تشیع کے پاک و پاکیزہ مذہب سے نہیں ہے ۔

دوسرا نکتہ :  شیعہ صرف یہی نہیں کہ اصحاب پیغمبر اکرم ﷺ کو گالی نہیں دیتے  اور بُرا بھلا نہیں کہتے بلکہ  وہ تو  اس شخص کو خدا کی لعنت اور اس کے غضب کا مستحق  جانتے ہیں جس نے اس بدعت ( صحابہ  پر  سب و شتم کرنے ) کی بنیاد ڈالی تھی ۔

مسلم اپنی صحیح میں  عامر بن سعد بن  ابی وقاص  سے نقل کرتے ہیں : ’’  مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ : أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلَاثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَنْ أَسُبَّهُ ‘‘ ۔([4])  معاویہ بن ابی سفیان نے سعد بن ابی وقاص سے کہا :  کوئی سی چیز تمہیں ابو تراب (ع) کو گالی  دینے اور برا بھلا کہنے سے روکتی ہے ؟  سعد نے جواب دیا :  جب تک مجھے علی علیہ السلام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے فرمائے ہوئی تین چیزیں یاد رہیں گی  میں کبھی ان پر سب و شتم نہیں کرسکتا   ۔۔۔۔۔  اور اس کے بعد انہوں نے ان تین چیزوں کو معاویہ کے سامنے بیان کردیا   ۔

اب سوال یہ ہے کہ وہ  وہابی کہ جو ہر وقت  صحابہ کی محبت کا دم بھرتے ہیں  اور ان کی الفت کے پتھروں سے اپنا سینہ کوٹتے ہیں اور اپنے زعم ناقص میں  شیعوں کو سبّ  صحابہ کا سب سے بڑا مجرم  تصور کرتے ہیں ، تو  وہ اس شخص کے خلاف اپنی زبانیں کیوں نہیں کھولتے جس نے اس بدعت کا سنگ بنیاد رکھا  تھا ؟  کیوں وہ معاویہ کے اس قبیح عمل سے برات کا اظہار کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ؟  کیا معاویہ وہ پہلا فرد نہیں تھا کہ جس نے صحابہ پر سب و شتم کرنے کی بنیاد رکھی تھی  اور دوسروں کو بھی اس امر پر وادار کیا کرتا تھا ؟ !  جب  بات معاویہ کی آجاتی ہے تو کیوں وہابی خاموشی اختیار کرلیتے ہیں ؟ !

لعنت  کا حکم :
یہاں پر بھی چند نکات توجہ کے قابل ہیں :

پہلا نکتہ :  لعنت ،  کے معنی کسی بھی فرد کے برے اور قبیح اعمال سے بیزاری  اور برائت  ۔ چاہے وہ صحابی ہو یا  غیر صحابی ۔  حقیقی ایمان کا لازمہ ہے  اور امر بالمعروف اور نہی از منکر کے مصادیق میں سے ہے ۔  اور اس عمل میں نہ یہ کہ کوئی قباحت ہی  نہیں ہے بلکہ خداوند عالم  نے بھی قرآن مجیدمیں کچھ لوگوں اور گروہوں پر لعنت کی ہے ۔  چنانچہ  قرآن مجید میں جن لوگوں پر لعنت کی گئی ہے  ان کے نام یہ ہیں : ۱ ۔ ابلیس : ’’ وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ  ‘‘ ۔([5])اور روزِ جزا (قیامت) تک تجھ پر لعنت ہے۔؛ ۲ ۔ کفار : ’’  إِنَّ اللَّـهَ لَعَنَ الْكَافِرِينَ  ‘‘ ۔([6]) بے شک اللہ نے کافروں پر لعنت کی ہے ۔ ؛ ۳ ۔ یہود : ’’ وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّـهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ‘‘ ۔([7]) یہودی کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ بندھا ہوا ہے (اور وہ کچھ نہیں کر سکتا) ان کے ہاتھ بندھیں اور اس (بے ادبانہ) قول کی وجہ سے ان پر لعنت ہو۔ ؛ ۴ ۔ پیغمبر اکرم ﷺ کو اذیت   پہونچانے والے : ’’ إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا  ‘‘ ۔([8]) بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول(ص) کو اذیت پہنچاتے ہیں اللہ ان پر دنیا و آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کیلئے اس نے  رسوا کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ ؛ ۵ ۔ تہمت لگانے والے : ’’ إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ‘‘ ۔([9]) جو لوگ پاکدامن، بے خبر اور ایماندار عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کیلئے بہت بڑا عذاب ہے۔ ؛ ۶ ۔ بنی امیہ : ’’ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ‘ ‘ ۔([10]) اور اس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، ہم نے لوگوں کیلئے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے۔

اس امر کی طرف توجہ رکھنی چاہیئے کہ سب  و شتم  اور لعنت دونوں  کی ماہیت  و حقیقت  الگ  الگ ہیں  ۔ چونکہ سب  گالی گلوچ  ہے  اور گالی گلوچ ایک برا عمل ہے ۔ لیکن لعنت  ۔ جیسا کہ بیان کیا گیا  ۔ کا منشأ قرآن مجید  ہے  اور خود اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے ابلیس پر لعنت کی تھی ۔ البتہ اگر خدا کسی پر لعنت کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اسے اپنی رحمت سے دور اور محروم کردیا ہے  لیکن اگر غیر خدا کسی پر لعنت کرے  تو اس کے معنی بدعا  کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے رحمت کے سائے سے محروم  کردے  ۔ اس بیان کی روشنی میں  لعنت کا مطلب بدعا اور سب کا مطلب گالی اور برا بھلا کہنا ہے اور ان دونوں کی حقیقت و ماہیت میں  زمین و  آسمان  کا فرق  ہے ۔

سیرت پیغمبر اکرم ﷺ  میں بھی ہمیں بہت سے افراد پر لعنت بھیجنے کے نمونے ملتے ہیں  چنانچہ کبھی سرکار ﷺ  نے پورے پورے گروہ اور جماعت پر لعنت کی ہے جیسا کہ رباخوروں ، شراب خوروں اور چوری کرنے والوں پر۔([11])  اور کبھی کچھ خاص افراد پر انفرادی  طور پر  بھی لعنت بھیجی ہے ۔

احمد بن حنبل اپنی مسند میں رقمطراز ہیں : ’’  عبد اللہ بن  زبیر نے اس عالم  میں کہ خانہ کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگا رکھی تھا کہا :  اس گھر کے مالک کی قسم ! ’’ لقد لعن رسول الله فلاناً و ما ولد من صلبه ‘‘  ۔ ([12])  رسول اللہ ﷺ نے فلاں ( حکم ) پر لعنت کی ہے  جبکہ وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا ۔

اسی طرح ابن کثیر نے روایت کی ہے کہ  : رسول اللہ ﷺ نے حکم اور اس کے بیٹے ( مروان ) پر لعنت  بھیجی تھی ۔ ([13])

دوسرا نکتہ :  جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو غضباک کیا   شیعہ اس کے بارے میں عائشہ سے زیادہ تو کچھ اور  نہیں کہتے ہیں ۔  چنانچہ خود وہابیوں کی مقبول نظر کتابوں میں نقل کردہ روایات کی روشنی میں ،   آخری حج کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ  جو لوگ اپنے ہمراہ اپنے قربانی کے جانور نہیں لائے ہیں وہ احرام سے نکل جائیں  تو کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی توہین اور آپ کی شأن میں گستاخی کرنے کے لئے سامنے آ کھڑے ہوئے  ان کا یہ عمل سرکار رسالتمآب ﷺ کے غضبناک ہونے کا سبب بنا  یہاں تک کہ جناب عائشہ نے  خود پیغمبر اکرم ﷺ کے سامنے ان لوگوں پر لعنت کی  اور کہا : ’’ من اغضبک یا رسول الله أدخله الله النار ‘‘ ۔ ([14]) اے اللہ کے رسول ﷺ ! جس نے آپ کو غضبناک کیا اللہ   ، دوزخ  کو اس کا ٹھکانہ قرار دے  ! ۔  کیا وہابی اس موقع پر عائشہ پر بھی اعتراض  کرسکتے ہیں کہ انہوں نے کیوں رسول اللہ ﷺ کے اصحاب پر  خود سرکار ﷺ کی موجودگی میں لعنت کرنے کی جسارت و گستاخی کی ؟ !  عائشہ کسی پر لعنت کرے تو کوئی بات نہیں  لیکن اگر شیعہ کسی پر لعنت کردیں تو وہابیوں  کو اذیت ہونے لگتی ہے ، کیوں  ؟ !

تیسرا نکتہ :  یہ اعتراض کہ شیعہ اصحاب پیغمبر ﷺ کی نسبت  بے احترامی کرتے ہیں  قطعا  و یقیناً    تمام شیعوں کو اس کلیہ اور عام قانون میں داخل کرکے  سب کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکا جاسکتا ہے ۔  چونکہ شیعہ  ان اصحاب  کا بے حد احترام و تکریم کرتے ہیں جن کا تعلق پہلے گروہ سے ہے اور جن سے  اللہ نے بخشش و مغفرت  کا وعدہ کیا ہے   اور شیعہ ان کی نسبت کسی چھوٹی سی بھی توہین  کو برداشت نہیں کرتے چہ جائیکہ ان پر لعنت بھیجیں   ۔ ہمارے عقیدہ کے مطابق وہ سب لوگ احترام و تکریم کے لائق ہیں  اور قرآن مجید نے  ایمان لانے میں اس کی سبقت کو مداحیہ انداز میں اس طرح اور یہ کہہ کر ’’ السابقون  الأولون ‘‘ ۔([15])  ان کی  تمجید کی ہے ۔

نیز آئمہ معصومین علیہم السلام  سے منقول روایات میں بھی صحابہ کے اس گروہ  کو بزرگی اور عظمت کے ساتھ یاد کیا گیا ہے ۔امیرالمؤمنین علی علیہ السلام   عصر پیغمبر اکرم ﷺ کے سچے اور حقیقی جانثاروں کو ایک خطہ میں اس طرح یاد کرتے ہیں : ’’ لَقَدْ رَأَيْتُ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ (صلى الله عليه وآله) فَمَا أَرَى أَحَداً يُشْبِهُهُمْ مِنْكُمْ لَقَدْ كَانُوا يُصْبِحُونَ شُعْثاً غُبْراً وَ قَدْ بَاتُوا سُجَّداً وَ قِيَاماً يُرَاوِحُونَ بَيْنَ جِبَاهِهِمْ وَ خُدُودِهِمْ وَ يَقِفُونَ عَلَى مِثْلِ الْجَمْرِ مِنْ ذِكْرِ مَعَادِهِمْ ‘ ‘ ۔([16]) میں نے اصحاب پیغمبر ﷺ کو دیکھا ہے  میں نے ان جیسا کسی کو نہیں پایا  ۔   وہ دنوں کو اپنے پریشان  اور غبار آلود بالوں کے ساتھ شب کرتے تھے  اور راتوں کو سجدوں   اور قیام میں گذارتے تھے کبھی اپنی پیشانی کو زمین پر رکھتے تھے  اور کبھی اپنے رخساروں کو مٹی سے ملتے تھے  اور قیامت و معاد کا تذکرہ  اس اضطراب کے ساتھ کیا کرتے تھے گویا وہ  بھڑکتے ہوئے شعلوں پر کھڑے  ہوئے ہوں ۔

امام علی علیہ السلام   اصحاب پیغمبر ﷺ کے پاک طینت  گروہ سے جدائی کو اس کرب و سوز کے ساتھ بیان فرماتے ہیں : ’’   أَيْنَ إِخْوَانِيَ الَّذِينَ رَكِبُوا الطَّرِيقَ وَ مَضَوْا عَلَى الْحَقِّ؟ أَيْنَ عَمَّارٌ وَ أَيْنَ ابْنُ التَّيِّهَانِ وَ أَيْنَ ذُو الشَّهَادَتَيْنِ وَ أَيْنَ نُظَرَاؤُهُمْ مِنْ إِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ تَلَوُا الْقُرْآنَ فَأَحْكَمُوهُ، وَ تَدَبَّرُوا الْفَرْضَ فَأَقَامُوهُ ‘‘ ۔([17])  کہاں ہیں میرے وہ بھائی  جنہوں نے حق کے راستے کو طئے کیا  اور حق کے واسطے اپنی جان نچھاور کردی ؟ کہاں ہیں عمار ؟  کہاں ہیں ابن تیہان ؟ کہاں ہیں ذو الشہادتین ؟  کہاں چلے گئے  یہ اور ان جیسے ان کے بھائی  ، وہ جو قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے اور   اس کو حفظ  کرنے میں مشغول رہتے تھے  اور واجبات میں غور و خوض کرنے کے بعد ان پر عمل کیا کرتے تھے  ۔

ایک روایت کے مطابق امیرالمؤمنین  علی علیہ السلام نے رسول  اللہ ﷺ کے تمام اصحاب کو اپنے اصحاب  بتلایا ہے : ’’  کل اصحاب محمد اصحابي ‘‘ ۔ ([18]) رسول اللہ ﷺ کے تمام صحابی  میرے بھی  صحابی ہیں ۔

سعید بن جبیر سے ذہبی   کی نقل کردہ  روایت  کے مطابق   ، جنگ جمل میں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ آپ کی رکاب میں جنگ کرنے کے لئے   انصاری اصحاب کے ۸۰۰   افراد اور بیعت رضوان میں حاضر  ۴۰۰ اصحاب  شریک تھے۔ ([19])

جبکہ مسعودی   کی تحقیق  کے مطابق حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ جنگ صفین میں شرکت کرنے والے اصحاب کی تعداد ۲۸۰۰ افراد پر مشتمل تھی کہ جن میں ۸۷ بدری اور ۹۰۰   افراد بیعت رضوان میں شریک و حاضر اصحاب تھے ۔([20])

 واضح سی بات ہے کہ شیعوں کے نزدیک  ان کثیر تعداد   صحابہ  کی عظمت   و احترام  اپنی جانوں سے بھی  زیادہ عزیز ہے   اور وہ  ان کی نسبت ،  کسی طرح کی بے حرمتی اور بے توجہی کوبرداشت نہیں کرتے ۔ وہابیوں کے برخلاف ،  کہ وہ ان کے قبروں کی توہین کرکے  ان کی شأن میں ہر طرح  کی  توہین اور بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں  ۔

امام سجاد علیہ السلام انہیں عظیم المرتبت اصحاب کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ اللَّهُمَّ وَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ خَاصَّةً الَّذِینَ أَحْسَنُوا الصَّحَابَةَ وَ الَّذِینَ أَبْلَوُا الْبَلَاءَ الْحَسَنَ فِی نَصْرِهِ ‘‘ ۔([21]) خدایا !  پیغمبر ﷺ کے اصحاب پر درود بھیج !  وہ کہ جو اچھے اور بہترین تھے  اور جو آپ ﷺ کی نصرت  کے سلسلہ میں  نیک بلاؤں میں مبتلاء ہوئے ۔

اپنے شیعوں کو  آئمہ اطہار علیہم السلام  کی  یہ سب  تعلیمات ہیں  اب بھلا ان بزرگواروں کی اتباع و پیروی کا دم بھرنے والے  تاریخ کے ان زندہ جاوید ہستیوں پر  کیسے لعنت کرسکتے ہیں  کہ خود ان کے آئمہ  نے جن کو عظمت و احترام کے ساتھ یاد کیا ہو ؟ !

پس ان دلائل کی بنیاد پر شیعوں کے ذریعہ تمام  اصحاب پرلعنت کرنے کا اعتراض   ، ایک افتراء اور تہمت سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہے ۔

چوتھا نکتہ :  قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں لعنت کا اپنا ایک مخصوص معیار اور ملاک ہے  اور ظاہر سی بات ہے کہ اگر کسی میں وہ معیار و ملاک پایا جائے  تو وہ لعنت کا مستحق قرار پائے گا  چاہے وہ کوئی صحابی ہو یا غیر صحابی ۔ اس اصول کی بنیاد پر  اصحاب میں سے جن لوگوں نے بڑے  منکرات اور جرائیم کا  ارتکاب  کرکے اپنے حق میں قرآن کے معیار لعنت کو محقق کیا ہے وہ  ہر حال میں لعنت کے مستحق ہیں ۔ اور خاص طور پر یہ ملاک اور معیار  ان کے لئے مزید شدت اختیار کرلیتا ہے چونکہ  وہ  رسول اللہ ﷺ کے صحابی  ہیں   اور ان کے نامہ زندگی میں  سرکار ختمی مرتبت ﷺ کی صحبت و ہمراہی کا شرف لکھا ہوا ہے  لہذا اگر یہ اس شرف کی ناقدری کرتے ہوئے  حضرت کے بتائے ہوئے طریقہ کے برخلاف قدم اٹھائیں گے تو یہ بطریق اولیٰ لعنت کے مستحق ہونگے ۔

پس دینی تعلیمات کی روشنی میں  جو چیز اہم ہے وہ لعنت کے معیار و ملاک کا محقق ہونا ہے  نہ کہ دیگر  کسی عنوان  کا،  کہ وہ صحابی ہے یا غیر صحابی ۔

نمونے کے طور پر قرآن مجید نے لعنت کا ایک معیار پیغمبر اکرم ﷺ کو اذیت و آزار پہونچانا بتلایا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : ’’  إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا ‘‘ ۔([22]) بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول(ص) کو اذیت پہنچاتے ہیں اللہ ان پر دنیا و آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کیلئے رسوا کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اذیت پہونچانے والاکوئی صحابی ہو یا صحابی  کے علاوہ کوئی دوسرا ۔ جب بھی کوئی شخص اپنے اعمال سے رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہونچا کر ملول خاطر کرے گا  لعنت کا معیار اس کے حق میں  صادق آجائے گا  اور اس سلسلہ میں اصحاب کے لئے قرآن مجید نے کسی امتیاز کا تذکرہ نہیں کیا ہے  لہذ ۔ قرآن مجید کے سورہ احزاب کی ان آیات کی روشنی میں کہ جو پیغمبر اکرم ﷺ کی ازواج کے متعلق نازل ہوئی  ہیں ۔ ہم جرات کے ساتھ یہ دعویٰ کرسکتے ہیں  کہ لعنت کا ملاک  ۔ اذیت پہونچانے کی صورت میں ۔ صحابہ کے متعلق زیادہ شدید اورقوی ہے   چونکہ انہوں نے تو اپنی آنکھوں سے پیغمبر اکرم ﷺ کو دیکھا ہے  لیکن انہوں نے آپ ﷺ کے احترام کا پاس لحاظ نہ کرتے ہوئے  وہ لوگ  آپ ﷺ کی توہین کے مرتکب ہوگئے ہیں ۔ اور جس  طرح  خود رسول اللہ ﷺ کی ازواج بھی آپ کی صحابیات ہیں   اور اگر وہ  بھی کسی گناہ کی مرتکب ہوں تو قرآن مجید نے انہیں  بھی عذاب کا وعدہ دیا ہے ۔([23])

نتیجہ :
 شیعہ سبّ  اور گالی دینے کو ایک حرام اور نامناسب کام سمجھتے ہیں ۔  وہ کسی کو بھی  گالی نہیں دیتے ہیں  چاہے وہ صحابی ہوں یا ان کے علاوہ کوئی اور ۔ لیکن لعنت کے سلسلہ میں  شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ  جو بھی اپنے حق میں لعنت کے معیار کو محقق کرلے گا وہ لعنت کا مستحق  قرار پائے گا  چاہے وہ صحابی ہو یا نہ ہو ۔ اور یہ مسئلہ ۔(لعنت کرنا )  شیعہ مذہب سے خاص طور پر متعلق نہیں  ہے بلکہ لعنت کا معیار قرآن مجید اور سنت متواترہ  کے ذریعہ ثابت ہے ۔

مطالعہ کے لئے مزید کتب :

الشیعۃ و افتراء السب  و الشتم ؛ سید محمد حسینی قزوینی ۔

راہنمای حقیقت ؛ آیت اللہ جعفر سبحانی ۔

شبہات فاطمیہ ؛ سید مجتبیٰ عصیری   ۔

تحریر : استاد رستمی نژاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ : سید میثم زیدی

 

[1] ۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ۲۰۱ ۔

[2] ۔ سورہ انعام : آیت ۱۰۸ ۔

[3] ۔ دعائم الاسلام ، ج۲ ، ص ۳۵۲ ۔

[4] ۔ صحيح مسلم ، ج7 ، ص120 ، كتاب فضائل الصحابة ، باب من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه .

[5] ۔سورہ حجر : آیت ۳۵ ۔

[6] ۔سورہ احزاب : آیت ۶۴ ۔

[7] ۔ سورہ مائدہ : آیت ۶۴ ۔

[8] ۔ سورہ احزاب : آیت ۵۷ ۔

[9] ۔ سورہ نور : آیت ۲۳ ۔

[10] ۔ سورہ اسراء : آیت ۶۰ ۔ فریقین سے بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے خواب میں بنی امیہ کو بندروں کی صورت میں دیکھا کہ جو آپ کے منبر پر اچھل کود کررہے ہیں آپ اتنا  مضطرب ہوئے  کہ پھر آخری عمر تک تبسم نہیں فرمایا ، پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل کیا ۔ ’’ رأی رسول الله صلی الله علیه وسلم بنی أمیة ینزون علی منبره نزو القردة فساءه ذلک فما استجمع ضاحکا حتی مات وأنزل الله تعالی : وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ‘‘ ۔ ( تفسیر ثعلبی ، ج۶ ، ص ۱۱۱ ؛ التفسیر الکبیر ، فخر رازی ، ج۲۰ ، ص ۲۳۶ ؛ جامع البیان ، طبری ، ج۱۵ ، ص ۱۴۱ ، ح ۱۶۹۳۰ ؛ منسد ابو یعلی ، ج۱۱ ، ص ۳۴۸ ؛ تفسیر القرطبی ، ج۱۰ ، ص ۲۸۳ ) ۔

[11] ۔ مسند احمد ، ج۱ ، ص ۸۳ ؛ سنن دارمی ، ج۲ ، ص ۲۴۶ ؛ صحیح البخاری ، ج۸ ، ص ۱۵ ۔

[12] ۔ مسند احمد ، ج۴ ، ص ۵ ۔

[13] ۔ البدایۃ و النہایۃ ، ج۸ ، ص ۲۸۴ ؛ مجمع الزوائد ، ج۵ ، ص ۲۴۱ ۔

[14] ۔ صحیح مسلم ، ج۴ ، ص ۳۴ ؛ مسند احمد ، ج۶ ، ص ۱۷۵ ۔

[15] ۔ سورہ توبہ : آیت ۱۰۰ ۔

[16] ۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ۹۷ ۔

[17] ۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۸۲ ۔

[18] ۔ الغارات ، ج۱ ، ص ۱۷۷ ۔

[19] ۔ تاریخ اسلام ، ج۳ ، ص ۴۸۴ ۔ ’’ کان مع علي  یوم وقعة الجمل ثمان مأة من الانصار و أربع مأة ممن شهدوا بیعة الرضوان ‘‘ ۔

[20] ۔ مروج الذہب ، ج۱ ، ص ۳۱۴ ۔ ’’ ۔ ۔ ۔ ۔ و کان جمیع من شهد معه من الصحابة ألفین و ثمانمأة ‘‘ ۔

[21] ۔ صحیفہ سجادیہ ، ص ۴۳ ۔ ۴۵  ۔

[22] ۔ سورہ احزاب : آیت ۵۷ ۔

[23] ۔ سورہ احزاب : آیت ۳۰ ۔  ’’ يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ، وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرًا  ‘‘ ۔