چالیس حدیثیں
مترجم: محمد عسکری عابدی
پیشکش : امام حسین فاونڈیشن
پہلی حدیث: نیک بات کی اہمیت
عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع قَالَ: الْقَوْلُ الْحَسَنُ يُثْرِي الْمَالَ وَ يُنْمِي الرِّزْقَ وَ يُنْسِي فِي الْأَجَلِ وَ يُحَبِّبُ إِلَى الْأَهْلِ وَ يُدْخِلُ الْجَنَّةَ.-1
علی ابن الحسین علیہما السلام فرماتے ہیں: پیاری گفتگو مال کی فراوانی کا سبب اور موت کو ٹال دیتی ہے، حسن کلام انسان کو لوگوں کے درمیان محبوب کر دیتی ہے اور جنت میں داخل کر دیتی ہے۔
دوسری حدیث: عقل کی عظمت
وَ عَنْهُ ع أَنَّهُ قَالَ لَا أَدَبَ لِمَنْ لَا عَقْلَ لَهُ وَ لَا مُرُوَّةَ لِمَنْ لَا هِمَّةَ لَهُ وَ لَا حَيَاءَ لِمَنْ لَا دِينَ لَهُ وَ رَأْسُ الْعَقْلِ مُعَاشَرَةُ النَّاسِ بِالْجَمِيلِ وَ بِالْعَقْلِ تُدْرَكُ الدَّارَانِ جَمِيعاً وَ مَنْ حُرِمَ مِنَ الْعَقْلِ حُرِمَهُمَا جَمِيعاً.-2
امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں: جس کے پاس عقل نہ ہو اس کے پاس ادب نہیں اور جس کے پاس ہمت نہ ہو اس کے پاس مروت نہیں اور جس کے پاس دین نہیں اس کے پاس حیا نہیں ، عقل مندی یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں اور عقل کے ذریعے دونوں جہانوں کو حاصل کیا جا سکتا ہے اور جو عقل سے محروم گیا وہ تمام چیزوں سے محروم جائے گا۔
تیسری حدیث: علم و ادب
وَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع يَا مُؤْمِنُ إِنَ هَذَا الْعِلْمَ وَ الْأَدَبَ ثَمَنُ نَفْسِكَ فَاجْتَهِدْ فِي تَعَلُّمِهَا فَمَا يَزِيدُ مِنْ عِلْمِكَ وَ أَدَبِكَ يَزِيدُ فِي ثَمَنِكَ وَ قَدْرِكَ فَإِنَّ بِالْعِلْمِ تَهْتَدِي إِلَى رَبِّكَ وَ بِالْأَدَبِ تُحْسِنُ خِدْمَةَ رَبِّكَ وَ بِأَدَبِ الْخِدْمَةِ يَسْتَوْجِبُ الْعَبْدُ وَلَايَتَهُ وَ قُرْبَهُ فَاقْبَلِ النَّصِيحَةَ كَيْ تَنْجُوَ مِنَ الْعَذَاب-3
حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: اے مومن! بے شک یہ علم اور ادب ہی تیری نفس کی قیمت ہیں، پس ان کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کرو، جب تیری علم اور ادب میں اضافہ ہو گا تو تیری قیمت اور قدرت بڑھے گی۔ بے شک علم کے ذریعے اپنے رب کی طرف ہدایت پاؤ گے اور ادب کے ذریعے اللہ کی خوشنودی اور ولایت کا سبب بنے گا ؛ پس نصیحت کو قبول کرو تا کہ عذاب سے چھٹکارا حاصل کر سکو۔
چوتھی حدیث: پانچ چیزیں
عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع قَالَ: خَمْسٌ مَنْ لَمْ تَكُنْ فِيهِ لَمْ يَكُنْ فِيهِ كَثِيرُ مُسْتَمْتَعٍ قِيلَ وَ مَا هُنَّ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ قَالَ الدِّينُ وَ الْعَقْلُ وَ الْحَيَاءُ وَ حُسْنُ الْخُلُقِ وَ حُسْنُ الْأَدَبِ وَ خَمْسٌ مَنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ فِيهِ لَمْ يَتَهَنَّ بِالْعَيْشِ الصِّحَّةُ وَ الْأَمْنُ وَ الْغِنَى وَ الْقَنَاعَةُ وَ الْأَنِيسُ الْمُوَافِقُ.-4
امام جعفر صادق علیہ السلام امام باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پانچ چیزیں جس کے اندر نہ ہوں تو اس میں زیادہ خوشحالی نہیں ہوتی ہے۔ پوچھا وہ کون سی چیزیں ہیں؟ آپ ع نے فرمایا: دین، عقل، حیا، خوش اخلاقی، اور نیک ادب۔ اور پھر آپ نے فرمایا: پانچ چیزیں ایسی ہیں جو اگر کسی میں نہ ہوں تو زندگی میں آرام نہیں: صحت، امن، دولت مندی، قناعت اور نیک ہمسفر۔
پانچویں حدیث: دعا اور پاکدامنی
قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع أَحَبُ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ فِي الْأَرْضِ الدُّعَاءُ وَ أَفْضَلُ الْعِبَادَةِ الْعَفَافُ «7» قَالَ وَ كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع رَجُلًا دَعَّاءً.-5
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:" خدا کے نزدیک روئے زمین پر سب سے محبوب عمل دعا مانگنا ہے، اور سب سے افضل عبادت پاکدامنی ہے" اس کے امام علیہ السلام نے کسی آدمی کے لیے دعا کیا۔
چھٹی حدیث: دعا کی اہمیت
قَالَ أَبُو الْحَسَنِ مُوسَى ع عَلَيْكُمْ بِالدُّعَاءِ فَإِنَّ الدُّعَاءَ لِلَّهِ وَ الطَّلَبَ إِلَى اللَّهِ يَرُدُّ الْبَلَاءَ وَ قَدْ قُدِّرَ وَ قُضِيَ وَ لَمْ يَبْقَ إِلَّا إِمْضَاؤُهُ- فَإِذَا دُعِيَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ سُئِلَ صَرَفَ الْبَلَاءَ صَرْفَةً.-6
امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں: تم پر ہے دعا مانگنا بیشک دعا اللہ کے لیے ہی ہے اور اللہ سے مانگے تو بلا دور ہو جاتی ہے اور قضا و قدر بھی ٹال سکتی ہے۔
ساتویں حدیث:چار چیزیں
قَالَ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ع مَنْ أُعْطِيَ أَرْبَعاً لَمْ يُحْرَمْ أَرْبَعاً مَنْ أُعْطِيَ الدُّعَاءَ لَمْ يُحْرَمِ الْإِجَابَةَ وَ مَنْ أُعْطِيَ الِاسْتِغْفَارَ لَمْ يُحْرَمِ التَّوْبَةَ وَ مَنْ أُعْطِيَ الشُّكْرَ لَمْ يُحْرَمِ الزِّيَادَةَ وَ مَنْ أُعْطِيَ الصَّبْرَ لَمْ يُحْرَمِ الْأَجْرَ.-7
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جس کو چار چیزوں کی توفیق دی گئی وہ چار چیزوں سے محروم نہیں رہتا ہے؛ جس کو دعا مانگنے کی توفیق دی گئی وہ اجابت سے محروم نہیں رہے گا، جس کو استغفار کی توفیق ملی وہ توبہ سے محروم نہیں رہے گا، جس کی شکر کی توفیق نصیب ہوئی وہ مالداری سے محروم نہیں رہتا ہے اور جس کو صبر کی توفیق ملی وہ اجر سے بھی محروم نہیں رہے گا۔
آٹھویں حدیث: چار لوگوں کی دعا
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص فِي وَصِيَّتِهِ يَا عَلِيُّ أَرْبَعَةٌ لَا يُرَدُّ لَهُمْ دَعْوَةٌ إِمَامٌ عَادِلٌ وَ وَالِدٌ لِوَلَدِهِ وَ الرَّجُلُ يَدْعُو لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ وَ الْمَظْلُومُ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ عِزَّتِي وَ جَلَالِي لَأَنْصُرَنَّكَ وَ لَوْ بَعْدَ حِين-8
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی وصیت میں امام علی علیہ السلام سے فرماتے ہیں: یا علی چار لوگوں کی دعا رد نہیں ہوتی؛ 1- امام عادل کی دعا، 2- والد کی دعا اپنے بیٹے کی حق میں، 3- مرد کی دعا اپنے بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں، 4-مظلوم کی دعا۔ خدا وند عالم اپنی ذات کی قسم کھا (مظلوم سے) کہتا ہے : میں تیری مدد کروں گا اگر چہ مدتوں کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔
نویں حدیث: ادب بہترین میراث
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام: «إِنَ خَيْرَ مَا وَرَّثَ الْآبَاءُ لِأَبْنَائِهِمُ الْأَدَبُ، لَاالْمَالُ؛ فَإِنَّ الْمَالَ يَذْهَبُ، وَ الْأَدَبَ يَبْقى»-9
امام ابو عبد اللہ جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: بیشک بہترین ارث والدین کا اپنی اولاد کے لیے ادب سکھانا ہے نہ مال و دولت؛ کیونکہ مال و دولت ختم ہونے والی چیزیں ہیں لیکن ادب ہمیشہ رہنے والی چیز ہے۔
دسویں حدیث: اللہ کی وعظ پر عمل
وَ مَنْ تَأَدَّبَ بِأَدَبِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَدَّاهُ إِلَى الْفَلَاحِ الدَّائِمِ، وَ مَنِ اسْتَوْصَى بِوَصِيَّةِ اللَّهِ كَانَ لَهُ خَيْرُ الدَّارَيْنِ.-10
جو کوئی الہی آداب کو اپنائے تو خدا اسے فلاح اور کامیابی تک پہنچا دے گا اور جو کوئی اللہ کے مواعظ اور وصیتوں پر عمل کرے اس کے لیے دنیا اور آخرت کی سعادتیں ہیں۔
گیارہویں حدیث: مومن کی حاجب روائی کا اجر
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام، قَالَ: «مَنْ سَعى فِي حَاجَةِ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ، فَاجْتَهَدَ فِيهَا، فَأَجْرَى اللَّهُ عَلى يَدَيْهِ قَضَاءَهَا، كَتَبَ اللَّهُ- عَزَّ وَ جَلَّ- لَهُ حَجَّةً وَ عُمْرَةً وَ اعْتِكَافَ شَهْرَيْنِ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ صِيَامَهُمَا، وَ إِنِ اجْتَهَدَ فِيهَا وَ لَمْ يُجْرِ اللَّهُ قَضَاءَهَا عَلى يَدَيْهِ، كَتَبَ اللَّهُ- عَزَّ وَ جَلَّ- لَهُ حَجَّةً وَ عُمْرَةً».-11
ابو بصیر سے روایت ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: کوئی بھی اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے کے لیے کوشش کرتا ہے خدا اس کے بھائی سے حاجت پوری کرتا ہے اس وقت خدا اس کو ایک حج، ایک عمرہ اور دو مہینہ کعبہ کے ادر اعتکاف کرنے اور روزہ رکھنے کا ثواب لکھ دے گا، اگر وہ کوشش کرتا ہے لیکن خدا وند اس کے ہاتھوں سے مومن بھائی کی حاجت پوری نہیں کرتا ہے تو بھی خدا اس کے لیے حج اور عمرہ کا ثواب لکھتا ہے۔
بارہویں حدیث: ہاتھ ملانے کے آثار
عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: إِذَا صَافَحَ الرَّجُلُ صَاحِبَهُ فَالَّذِي يَلْزَمُ التَّصَافُحَ أَعْظَمُ أَجْراً مِنَ الَّذِي يَدَعُ أَلَا وَ إِنَّ الذُّنُوبَ لَتَتَحَاتُّ فِيمَا بَيْنَهُمْ حَتَّى لَا يَبْقَى ذَنْبٌ.-12
مالک ابن اعین سے روایت ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: جب بھی کوئی اپنے دوست سے ہاتھ ملاتا ہے اور دیر سے ہاتھ چھوڑتا ہے اس کے لیے ثواب زیادہ ہے اس سے جو جلدی اپنے ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ جان لو! کہ ان دونوں کے سب گناہیں ختم ہو جاتی ہیں، اور کوئی گناہ باقی نہیں بچتا ہے۔
تیرہویں حدیث: مومن بھائی کی دیدار
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام، قَالَ: «مَنْ زَارَ أَخَاهُ لِلَّهِ لَالِغَيْرِهِ الْتِمَاسَ مَوْعِدِ اللَّهِ وَ تَنَجُّزَ مَا عِنْدَ اللَّهِ، وَكَّلَ اللَّهُ بِهِ سَبْعِينَ أَلْفَ مَلَكٍ يُنَادُونَهُ: أَلَا طِبْتَ وَ طَابَتْ لَكَ الْجَنَّةُ».-13
ابو حمزہ سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: کوئی شخص خدا کے لیے نہ کسی اور کے لیے، خدا نے جو وعدہ کر رکھا ہے اس کی امید میں، جو کچھ اللہ کے ہاں ہیں اس کو پانے کی امید میں اپنے بھائی کی زیارت کرے تو خدا وند عالم ستر ہزار فرشتوں کو بھیجتا ہے ، سب فرشتے کہیں گے: جان لو تم پاک ہو گئے ہو اور تم کو جنت مبارک ہو!۔
چودہویں حدیث: مومن کے حقوق
عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عليه السلام، قَالَ: «مِنْ حَقِ الْمُؤْمِنِ عَلى أَخِيهِ الْمُؤْمِنِ أَنْ يُشْبِعَ جَوْعَتَهُ، وَ يُوَارِيَ عَوْرَتَهُ، وَ يُفَرِّجَ عَنْهُ كُرْبَتَهُ، وَ يَقْضِيَ دَيْنَهُ، فَإِذَا مَاتَ خَلَفَهُ فِي أَهْلِهِ وَ وُلْدِهِ».-14
جابر سے روایت ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: مومن کی اپنے دوسرے بھائی پر موجود حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اگر ہو بھوکا ہے اسے کھانا کھلائے، اگر اس کو لباس کی ضرورت ہے تو سے لباس دے دیا جائے، اگر وہ مشکلات میں ہے تو اس کی مشکل حل کریں، مقروض ہے تو قرض ادا کریں اور اگر وہ اس دنیا سے چلا جائے تو اس کے بال بچوں ک ساتھ اس کا جانشین بن کے رہے۔
پندرہویں حدیث: صلہ رحم کی کم سے کم حد
وَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: «صِلْ رَحِمَكَ وَ لَوْ بِشَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ، وَ أَفْضَلُ مَا يُوصَلُ بِهِ الرَّحِمُ كَفُّ الْأَذَى عَنْهَا. وَ قَالَ: صِلَةُ الرَّحِمِ مَنْسَأَةٌ فِي الْأَجَلِ، مَثْرَاةٌ فِي الْمَالِ، وَ مَحَبَّةٌ فِي الْأَهْلِ»-15
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ: صلہ رحم کرو چاہے ایک گھونٹ پانی سے ہی کیوں نہ ہو، بہترین چیز جو صلہ رحم کے قریب ہے وہ یہ ہے کہ انہیں اذیت نہ کریں، صلہ رحم موت کو ٹال دیتا ہے اور خاندان کے درمیان محبت کا سبب بنتا ہے۔
سولہویں حدیث: عبادت اور دعا میں خلوص
عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا عليه السلام: «أَنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ- صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ- كَانَ يَقُولُ: طُوبى لِمَنْ أَخْلَصَ لِلَّهِ الْعِبَادَةَ وَ الدُّعَاءَ، وَ لَمْ يَشْغَلْ قَلْبَهُ بِمَا تَرى عَيْنَاهُ، وَ لَمْ يَنْسَ ذِكْرَ اللَّهِ بِمَا تَسْمَعُ أُذُنَاهُ، وَ لَمْ يَحْزُنْ صَدْرَهُ بِمَا أُعْطِيَ غَيْرُهُ»-16
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے: خوش نصیب وہ ہے جو عبادت پروردگار اورع دعا کو خلوص سے انجام دیتا ہے، اور اپنے دل کو آنکھوں سے جوچیزیں دیکھتا ہے ان میں مشغول نہیں کرتا ہے اور کان سے سنی ہوئی باتوں کی وجہ سے خدا کی یاد سے غافل نہیں رہتا ہے اور اس وجہ سے غمزدہ بھی نہیں ہوتا ہے چیزیں دوسروں کو دیا گیا ہے۔
سترہویں حدیث: تین لوگوں کو کھانا کھلانے کا ثواب
عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: مَنْ أَطْعَمَ ثَلَاثَةَ نَفَرٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَطْعَمَهُ اللَّهُ مِنْ ثَلَاثِ جِنَانٍ مَلَكُوتِ السَّمَاءِ الْفِرْدَوْسِ وَ مِنْ جَنَّةِ عَدْنٍ وَ مِنْ شَجَرَةٍ فِي جَنَّةِ عَدْنٍ غَرَسَهَا رَبِّي بِيَدِهِ-17
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے: جو بھی مسلمانوں میں تین نفر کو کھانا کھلاتا ہے خدا وند اس کو تین بہشتوں میں جوملکوت آسمان میں ہیں کھانا دیتا ہے ،تین بہشت سے مراد فردوس ، بہشت عدن اور طوبی ہیں۔ طوبی اس درخت کا نام ہے جو بہشت عدن سے باہر نکلا ہوا ہے اور ہمارے پروردگار نے خود اسے اپنے ہاتھوں سے سینچا ہے۔
اٹھارہویں حدیث: امام حسین ع کی محبت
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: مَنْ أَرَادَ اللَّهُ بِهِ الْخَيْرَ قَذَفَ فِي قَلْبِهِ حُبَ الْحُسَيْنِ ع وَ حُبَّ زِيَارَتِهِ وَ مَنْ أَرَادَ اللَّهُ بِهِ السُّوءَ قَذَفَ فِي قَلْبِهِ بُغْضَ الْحُسَيْنِ وَ بُغْضَ زِيَارَتِهِ-18
ابی عبد اللہ جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: خداوند جب کسی کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کے دل میں امام حسین علیہ السلام کی محبت کو زیادہ کرتا ہے اور زیارت امام حسین علیہ السلام کی محبت اس کے دل میں ڈال دیتاہے ۔ جب خدا کسی کا برا چاہتا ہے تو اس کے دل میں امام حسین علیہ السلام اور ان کی زیارت سے نفرت ایجاد کرتا ہے۔
انیسویں حدیث: قرآن کی تلاوت
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص يَا سَلْمَانُ عَلَيْكَ بِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فَإِنَّ قِرَاءَتَهُ كَفَّارَةُ الذُّنُوبِ وَ سُتْرَةٌ مِنَ النَّارِ وَ أَمَانٌ مِنَ الْعَذَابِ وَ يُكْتَبُ لَهُ بِقِرَاءَةِ كُلِّ آيَةٍ ثَوَابُ مِائَةِ شَهِيدٍ وَ يُعْطَى بِكُلِّ سُورَةٍ ثَوَابَ نَبِيٍّ مُرْسَلٍ وَ تَنْزِلُ عَلَى صَاحِبِهِ الرَّحْمَةُ وَ تَسْتَغْفِرُ لَهُ الْمَلَائِكَةُ وَ اشْتَاقَتْ إِلَيْهِ الْجَنَّةُ وَ رَضِيَ عَنْهُ الْمَوْلَى-19
آنحضرت ص سلمان سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں: اے سلمان! تم پر واجب ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنا، بیشک تلاوت قرآن گناہوں کا کفارہ ، جہنم سے پردہ اور عذاب سے امان ہے، اور ہر آیت کی تلاوت کے بدلے سو شہید کا اجر اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا، اسی طرح ہر سورہ کے عوض ایک نبی مرسل کا اجر لکھا جائے گا ، تلاوت کرنے والے پر رحمت نازل ہوگی ، فرشتے اس کے لیے استغفار کریں گے، جنت اس کا مشتاق رہے گی اور مولا اس سے راضی ہوگا۔
بیسویں حدیث: قرآن کی شفاعت
نعم الشّفيع القرآن لصاحبه يوم القيمة-20
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: بہترین شفاعت کرنے والا اپنے دوست کے روز قیامت، قرآن مجید ہے۔
اکیسویں حدیث: حدیث لکھنا
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام، قَالَ: «مَنْ أَرَادَ الْحَدِيثَ لِمَنْفَعَةِ الدُّنْيَا، لَمْ يَكُنْ لَهُ فِي الْآخِرَةِ نَصِيبٌ؛ وَ مَنْ أَرَادَ بِهِ خَيْرَ الْآخِرَةِ، أَعْطَاهُ اللَّهُخَيْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ-21
ابی حذیفہ سے روایت ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو بھی دنیا کے فائدے کے لیے حدیث لکھتا ہے تو آخرت میں اس کی نصیب میں کچھ بھی نہیں رہے گی، اور جو بھی آخرت کی بھلائی کے لیے حدیث لکھتا ہے تو خدا اسے دنیا اور آخرت دونوں میں خیر عطا کرے گا۔
بائیسویں حدیث: علماء پیغمبروں کے امانتدار
وَ عَنْهُمْ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: وَ الْفُقَهَاءُ أُمَنَاءُ الرُّسُلِ مَا لَمْ يَدْخُلُوا فِي الدُّنْيَا قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ مَا دُخُولُهُمْ فِي الدُّنْيَا قَالَ اتِّبَاعُ السُّلْطَانِ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ فَاحْذَرُوهُمْ عَلَى أَدْيَانِكُمْ-22
ائمہ علیہم السلام فرماتے ہیں: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا " علماء جب تک دنیا کے پیچھے نہیں جائیں امانتداران پیغمبران میں سے ہیں۔ کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! ان کا دنیا کے پیچھے جانے سے کیا مراد ہے؟ آنحضرت ص نے فرمایا: حکمرانوں کی پیروی کرنا، پس جب ایسا کریں گے تو اپنے دین کو ان سے بچائیں۔
تئیسویں حدیث: بصیرت کے بغیر عمل
وَ أَرْوِي عَنِ الْعَالِمِ ع الْعَامِلُ عَلَى غَيْرِ بَصِيرَةٍ كَالسَّائِرِ عَلَى غَيْرِ الطَّرِيقِ لَا يَزِيدُهُ سُرْعَةُ السَّيْرِ إِلَّا بُعْداً عَنِ الطَّرِيقِ-23
عالم آل محمد (امام رضا علیہ السلام) فرماتے ہیں: بصیرت کے بغیر عمل کرنے والا غلط راستے پر چلنے والے کی طرح ہے کہ جتنا ہو تیزی سے آگے بڑھے گا اتنا ہی صحیح راستہ سے دور ہو جائے گا۔
چوبیسویں حدیث: چالیس حدیثیں یاد کرنا
عن ابی عَبْدِ اللَّهِ ع انه قَالَ مَنْ حَفِظَ مِنْ أَحَادِيثِنَا أَرْبَعِينَ حَدِيثاً بَعَثَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَالِماً فَقِيهاً-24
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جو کوئی ہماری احادیث میں سے چالیس حدیثیں حفظ کرے گا خدا وند عالم قیامت کے دن اسے عالم اور فقیہ محشور فرماے گا۔
پچیسویں حدیث: عاق والدین کے آثار
عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص فِي كَلَامٍ لَهُ إِيَّاكُمْ وَ عُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ فَإِنَّ رِيحَ الْجَنَّةِ تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَلْفِ عَامٍ وَ لَا يَجِدُهَا عَاقٌّ وَ لَا قَاطِعُ رَحِمٍ وَ لَا شَيْخٌ زَانٍ وَ لَا جَارٌّ إِزَارَهُ خُيَلَاءَ إِنَّمَا الْكِبْرِيَاءُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين-25
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے" اپنے والدین کی نا فرمانی سے بچو؛ کیونکہ جنت کی خوشبو ہزار سال کے فاصلے پر سے سونگھ سکے گا لیکن والدین کا عاق شدہ اس فاصلہ سے بھی نہیں سونگھ سکے گا اور اسی طرح قطع رحم کرنے والا، زنا کرنے والا بوڑھا اور غرور کی حالت میں اپنے لباس سے زمین پر خط کھینچتے ہوئے چلنے والے لوگ بھی بزرگی صرف پروردگار عالمین کے لیے مخصوص ہے۔ "
چھبیسویں حدیث: مذاق میں جھوٹ
قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام: «لَا يَجِدُ عَبْدٌ طَعْمَ الْإِيمَانِ حَتّى يَتْرُكَ الْكَذِبَ هَزْلَه-26
اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:کوئی بھی بندہ ایمان کی حلاوت کو اس وقت تک نہیں محسوس نہیں کر سے گا جب تک جھوٹ کو چاہے مذاق کی حالت میں ہی کیوں نہ ہو ترک نہ کرے۔
ستائیسویں حدیث:خواہشات سے بچنا
عَنْ أَبِي مُحَمَّد الْوَابِشِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللّهِ عليه السلام يَقُولُ: «احْذَرُوا أَهْوَاءَكُمْ كَمَا تَحْذَرُونَ أَعْدَاءَكُمْ، فَلَيْسَ شَيْءٌ أَعْدى لِلرِّجَالِ مِنِ اتِّبَاعِ أَهْوَائِهِمْ ، وَ حَصَائِدِ أَلْسِنَتِهِمْ-27
ابو محمد وابشی کہتا ہے کہ: میں نے امام صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا: اپنی نفس کی خواہشات سے اس طرح بچتے رہیں جس طرح سے تم لوگ اپنے دشمنوں سے بچ کے رہتے ہو؛ کیونکہ بد ترین دشمن مردان ہوا و ہوس کی پیروی کرنا اور ان کی مانگ ہے۔
اٹھائیسویں حدیث:کثرت مال سبب کثرت گناہ
عَنْ عَلِيِّ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَخِيهِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ ع قَالَ: أَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَى مُوسَى ع يَا مُوسَى لَا تَفْرَحْ بِكَثْرَةِ الْمَالِ وَ لَا تَدَعْ ذِكْرِي عَلَى كُلِّ حَالٍ فَإِنَّ كَثْرَةَ الْمَالِ تَنْسَى الذُّنُوبَ وَ إِنَّ تَرْكَ ذِكْرِي يُقَسِّي الْقُلُوبَ-28
علی ابن جعفر(29) اپنے بھائی موسی ابن جعفرسے اور آپ اپنے والد گرامی امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں: پروردگار نے حضرت موسی علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ اے موسی ! زیادہ مال ہونے کی وجہ سے زیادہ خوش مت ہونا اور کسی صورت میں میری ذکر مت چھوڑنا؛ کیونکہ مال کی زیادتی گناہوں کو بلا دیتی ہے اور بیشک میری ذکر کو چھوڑنا دل کو سخت بنا دیتا ہے۔
انتیسویں حدیث: جلد قبول ہونے والی دعا
عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ أَوْشَكُ دَعْوَةٍ وَ أَسْرَعُ إِجَابَةٍ دَعْوَةُ الْمُؤْمِنِ لِأَخِيهِ الْمُؤْمِنِ بِظَهْرِ الْغَيْب-30
فضیل بن یسار سے روایت ہے کہ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: نزدیک ترین دعا اور جلدی قبول ہونے والی دعا وہ جو انسان اپنے برادر کی غیر موجودگی میں اس کے حق میں کرتا ہے۔
تیسویں حدیث: لا الہ الا اللہ کی فضیلت
عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ مَا مِنْ شَيْءٍ أَعْظَمَ ثَوَاباً مِنْ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَا يَعْدِلُهُ شَيْءٌ وَ لَا يَشْرَكُهُ فِي الْأَمْرِ أَحَدٌ-31
ابن حمزہ کہتا ہے کہ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: کلمہ لا الہ الا اللہ کی گواہی سے بڑھ کر کوئی چیز ثواب میں زیادہ نہیں ہے، بیشک کوئی بھی چیز خدا وند عز و جل کی برابری نہیں کر سکتا اور کوئی بھی اس کے کاموں میں شریک نہیں ہے۔
اکتیسویں حدیث: خدا کے نزدیک محبوب ترین لوگ
عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع أَنَّهُ قَالَ: أَحَبُ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ الْعَامِلُ فِيمَا أَنْعَمَ بِهِ عَلَيْهِ بِالشُّكْرِ وَ أَبْغَضُهُمْ إِلَيْهِ الْعَامِلُ فِي نِعَمِهِ بِالْكُفْرِ-32
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : خدا کے نزدیک محبوب ترین لوگ وہ ہیں کہ جنہیں عطا کی گئی ہے ان پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور بد ترین لوگ وہ ہیں جو نعمتوں کے سلسلے میں نا شکری سے کام لیتے ہیں۔
بتیسویں حدیث: امیر المومنین کی نگاہ میں خوش نصیب لوگ
يُعْجِبُنِي مِنَ الرَّجُلِ أَنْ يَعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَهُ وَ يَصِلَ مَنْ قَطَعَهُ وَ يُعْطِيَ مَنْ حَرَمَهُ وَ يُقَابِلَ الْإِسَاءَةَ بِالْإِحْسَانِ-33
امیر المومنین فرماتے ہیں: مجھے تعجب ہوتا ہے اس انسان پر (یعنی میں اس انسان سے خوشحال ہوتا ہوں) جو اس شخص کو بخش دیتا ہے جس نے ا س پر ظلم کیا ہو اور جس نے اس سے قطع تعلق کیا اس سے صلح کرتا ہے اور اس کو عطا کر تا ہے جس نے اسے محروم رکھا ہو اور برائی کا بدلہ نیکی سے کرتا ہے۔
تینتیسویں حدیث: عقل مند انسان
الْعَاقِلُ مَنْ زَهِدَ فِي دَنِيَّةٍ فَانِيَةٍ وَ رَغِبَ فِي جَنَّةٍ سَنِيَّةٍ خَالِدَةٍ عَالِيَةٍ-34
امیر المومنین فرماتے ہیں: عقل مند انسان وہ جو اس فانی اور پست دنیا میں زہد اختیار کرتا ہے اور جنت کی طرف توجہ دیتا ہے جو بہت ہی بلند مقام والی جگہ ہے اور جس میں اس نے ہمیشہ کے لیے رہنا ہے۔
چونتیسویں حدیث: چار چیزیں
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص أَرْبَعٌ مَنْ أُعْطِيَهُنَّ فَقَدْ أُعْطِيَ خَيْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ بَدَناً صَابِراً وَ لِسَاناً ذَاكِراً وَ قَلْباً شَاكِراً وَ زَوْجَةً صَالِحَةً-35
علی ابن ابی طالب علیہما السلام سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے: چار چیزیں ایسی ہیں جنہیں اگر کسی کو عطا کی گئی تو اسے دنیا اور آخرت کی خوبیاں مل گئیں: مصیبتوں اور بلاؤں پر صبر کرنے والا بدن، ہمیشہ خدا کے حمد بجا لانے والی زبان، نعمتوں پر شکر کرنے والا دل اور پاک صالح بیوی۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
أَرْبَعٌ مَنْ أُعْطِيَهُنَّ فَقَدْ أُعْطِيَ خَيْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ: صِدْقُ حَدِيثٍ، وَ أَدَاءُ أَمَانَةٍ، وَ عِفَّةُ بَطْنٍ، وَ حُسْنُ خُلُقٍ-36
چار چیزیں جس کو مل گئی اسے دنیا اور آخرت کی خوبیاں مل گئی: بات میں سچائی، امانت کی ادائیگی، حرام چیزوں سے اپنے شکم کی حفاظت اور خوش اخلاقی۔
پنتیسویں حدیث: سب سے افضل نیکی
إِنَ أَفْضَلَ الْخَيْرِ صَدَقَةُ السِّرِّ وَ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ وَ صِلَةُ الرَّحِم-37
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: بیشک افضل ترین نیکی، وہ صدقہ ہے جو چھپا کے دیا جاتا ہے، والدین کے ساتھ نیکی اور صلہ رحم کرنا ہے۔
چھتیسویں حدیث: تین علم
وَ قَالَ ع الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ الْفِقْهُ لِلْأَدْيَانِ وَ الطِّبُّ لِلْأَبْدَانِ وَ النَّحْوُ لِلِّسَانِ-38
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: علم کی تین قسم ہے: دین سمجھنے کے لیے علم فقہ حاصل کرنا، بدن سلامتی کے لیے علم طب حاصل کرنا اور زبان کو لفظی خطاؤں سے بچانے کے لیے علم نحو سیکھنا۔
سینتیسویں حدیث: آنے والے زمانے کی خبر
وَ قَالَ ع يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُعْرَفُ فِيهِ إِلَّا الْمَاحِلُ وَ لَا يُظَرَّفُ فِيهِ إِلَّا الْفَاجِرُ «2» وَ لَا يُؤْتَمَنُ فِيهِ إِلَّا الْخَائِنُ وَ لَا يَخُونُ إِلَّا الْمُؤْتَمَنُ يَتَّخِذُونَ الْفَيْءَ مَغْنَماً وَ الصَّدَقَةَ مَغْرَماً وَ صِلَةَ الرَّحِمِ مَنّاً وَ الْعِبَادَةَ اسْتِطَالَةً عَلَى النَّاسِ وَ تَعَدِّياً وَ ذَلِكَ يَكُونُ عِنْدَ سُلْطَانِ النِّسَاءِ وَ مُشَاوَرَةِ الْإِمَاءِ وَ إِمَارَةِ الصِّبْيَانِ-39
حضرت امیر المومنین فرماتے ہیں: لوگوں پر ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں جھگڑا لو اور برے لوگوں کے علاوہ دوسرے لوگ نہیں پہچانے جائیں گے، فاسق و فاجر کے علاوہ باقی لوگوں کو خوش اخلاق نہیں سمجھے جائیں گے، خائن کو امین اور امین کو خائن سمجھا جائے گا، بیت المال کو اپنی ذاتی مال کی طرح استعمال کیا جائے گا، صلہ رحم کو منت کے طور پر انجام دیا جائے گا، عبادت کو اپنی پرہیزگاری دکھانے اور لوگوں پر ظلم و ستم کرنے کے لیے بجا لائے گا، یہ سب اس زمانے میں واقع ہوں گے جس میں عورتیں حاکم ہوں گی، کنیزیں مشاور اور بچوں کی حکمرانی ہو گی۔
اٹھتیسویں حدیث: معاملات سدھارنا
وَ قَالَ ع مَنْ أَصْلَحَ مَا بَيْنَهُ وَ بَيْنَ اللَّهِ أَصْلَحَ اللَّهُ مَا بَيْنَهُ وَ بَيْنَ النَّاسِ وَ مَنْ أَصْلَحَ أَمْرَ آخِرَتِهِ أَصْلَحَ اللَّهُ لَهُ أَمْرَ دُنْيَاهُ وَ مَنْ كَانَ لَهُ مِنْ نَفْسِهِ وَاعِظٌ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ اللَّهِ حَافِظ-40
امیر المومنین فرماتے ہیں: جو اپنے اور خدا کے درمیان والی امور کی اصلاح کرے تو خدا وند اس کے اور لوگوں کے درمیان اصلاح کرے گا، جو اپنی آخرت کو ٹھیک کرے گا خدا اس کی دنیائی کاموں کی اصلاح کرے گا، اور جس نے ااپنی نفس کو موعظہ اور نصیحت کیا اس نے اپنے اوپر خدا کی حفاظت کی حصار کو اور مضبوط کردیا۔
انتالیسویں حدیث: آل محمد کی محبت اور دشمنی کا اثر
1 ألا من مات على حبّ آل محمّد مات شهيدا.
2 ألا و من مات على حبّ آل محمّد مات مغفورا له.
3 ألا و من مات على حبّ آل محمّد مات تائبا.
4 ألا و من مات على حبّ آل محمّد مات مؤمنا مستكمل الايمان.
5 ألا و من مات على حبّ آل محمّد بشره ملك الموت بالجنة ثمّ منكرا و نكيرا.
6 ألا و من مات على حبّ آل محمّد جعل اللّه قبره مزار ملائكة الرحمة.
7 ألا و من مات على حبّ آل محمّد فتح له في قبره بابان من الجنة.
8 ألا و من مات على حبّ آل محمّد يزف الى الجنة كما تزف العروس الى بيت زوجها.
9 ألا و من مات على حبّ آل محمّد مات على السنة و الجماعة.
10 ألا و من مات على بغض آل محمّد جاء يوم القيامة مكتوب بين عينيه «آيس من رحمة اللّه».
11 ألا و من مات على بغض آل محمّد مات كافرا.
12 ألا و من مات على بغض آل محمّد لم يشم رائحة الجنة-41
1 آگاہ ہو جاؤ! جو آل محمد علیہم السلام کی محبت میں اس دنیا سے جائے گا وہ شہید کی موت مرے گا۔
2 آگاہ ہو جاؤ! جو آل محمد علیہم السلام کی محبت میں اس دنیا سے جائے گا اس کے گناہیں معاف ہو کے مرے گا۔
3 آگاہ ہو جاؤ! جو آل محمد علیہم السلام کی محبت میں اس دنیا سے جائے گا اس کی توبہ قبول ہو کے مرے گا۔
4 آگاہ ہو جاؤ! جو آل محمد علیہم السلام کی محبت میں اس دنیا سے جائے گا وہ مومن کامل ہو کے مرے گا۔
5 آگاہ ہو جاؤ! جو آل محمد علیہم السلام کی محبت میں اس دنیا سے جائے گا وہ اس حال میں مرے گا کہ ملک الموت اور نکیر و منکر اسے جنت کی بشارت دے رہے ہوں گے۔
6 آگاہ ہو جاؤ! جو آل محمد علیہم السلام کی محبت میں اس دنیا سے جائے گا خدا اس کی قبر کو فرشتوں کے لیے زیارتگاہ بنائے گا۔
7 آگاہ ہو جاؤ! جو آل محمد علیہم السلام کی محبت میں اس دنیا سے جائے گااس کی قبر سے جنت کی طرف دو دروازے کھول دئے جائیں گے۔
8 آگاہ ہو جاؤ! جو آل محمد علیہم السلام کی محبت میں اس دنیا سے جائے گااسے اس طرح جنت کی طرف لے جائیں گے جس طرح سے دلہن کو دلہنیا لے جائیں گے۔
9 آگاہ ہو جاؤ! جو آل محمد علیہم السلام کی محبت میں اس دنیا سے جائے گا وہ سنت رسول پر اور جن چیزوں پر ثابت قدم رہنے کا حکم دیا گیا ہے ان پر ثابت قدم رہ کر مرے گا۔
10 آگاہ ہو جاؤ! جو آل محمد علیہم السلام کی بغض و دشمنی میں مرے گا وہ قیامت کے دن اس حال میں محشر میں آئے گا کہ اس کے دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوا ہوگا کہ یہ رحمت خدا سے مایوس ہونے والوں میں سے ہے۔
11 آگاہ ہو جاؤ! جو آل محمد علیہم السلام کی بغض و دشمنی میں مرے گا وہ کافر کی موت مرے گا۔
12 آگاہ ہو جاؤ! جو آل محمد علیہم السلام کی بغض و دشمنی میں مرے گا وہ ہرگز جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکے گا۔
چالیسویں حدیث: آنے والے زمانے کی خبر
وَ قَالَ ع يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى فِيهِمْ مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ وَ مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَ مَسَاجِدُهُمْ يَوْمَئِذٍ عَامِرَةٌ مِنَ الْبِنَاءِ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى سُكَّانُهَا وَ عُمَّارُهَا شَرُّ أَهْلِ الْأَرْضِ مِنْهُمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَ إِلَيْهِمْ تَأْوِي الْخَطِيئَةُ يَرُدُّونَ مَنْ شَذَّ عَنْهَا فِيهَا وَ يَسُوقُونَ مَنْ تَأَخَّرَ عَنْهَا إِلَيْهَا يَقُولُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ فَبِي حَلَفْتُ لَأَبْعَثَنَّ عَلَى أُولَئِكَ فِتْنَةً [أَتْرُكُ] تَتْرُكُ الْحَلِيمَ فِيهَا حَيْرَانَ وَ قَدْ فَعَلَ وَ نَحْنُ نَسْتَقِيلُ اللَّهَ عَثْرَةَ الْغَفْلَة-42
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: لوگوں پر ایسا دور آئے گا جب ان میں صرف قرآن کے نقوش اور اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا۔ اس وقت مسجدیں تعمیر و زینت کے لحاظ سے آباد اور ہدایت کے اعتبار سے ویران ہوں گی، ان میں ٹھہرنے والے اور انہیں آباد کرنے والے تمام اہل زمین میں سے بد تر ہوں گے۔ وہ فتنوں کا سر چشمہ اور گناہوں کا مرکز ہوں گے۔ جو ان فتنوں سے منہ موڑ لے گا انہیں انہی فتنوں کی طرف پلٹائیں گے اور جو قدم پیچھے ہٹائے گا، انہیں دھکیل کر ان کی طرف لائیں گے۔ ارشاد الہی ہے"مجھے اپنی ذات کی قسم ان لوگوں پر ایسا فتنہ نازل کروں گا جس میں حلیم و برد بار کو حیران و سرگردان چھوڑ دوں گا۔ چنانچہ وہ ایسا ہی کرے گا" ہم اللہ سے غفلت کے ٹھوکروں سے عفو کے خواستگار ہیں-43
-------------------------
-1ابن بابويه، محمد بن على، الأمالي ؛ النص ؛ ص2
-2اربلى، على بن عيسى، كشف الغمة في معرفة الأئمة ؛ ج1 ؛ ص571
3- فتال نيشابورى، محمد بن احمد، روضة الواعظين و بصيرة المتعظين؛ ج1 ؛ ص11
4- الأمالي( للصدوق) ؛ النص ؛ ص291
5- ابن فهد حلى، احمد بن محمد، عدة الداعي و نجاح الساعي؛ ج2 ؛ ص470
6- كلينى، محمد بن يعقوب بن اسحاق، الكافي ؛ ج4 ؛ ص306
7- ابن بابويه، محمد بن على، الخصال ؛ ج1 ؛ ص202
8- روضة الواعظين و بصيرة المتعظين (ط - القديمة) ؛ ج2 ؛ ص325
9- الكافي (ط - دارالحديث) ؛ ج15 ؛ ص361
10-حسن بن على عليه السلام، امام يازدهم، التفسير المنسوب إلى الإمام الحسن العسكري عليه السلام؛ ص17
11-- الكافي (ط - دارالحديث) ؛ ج3 ؛ ص505
12- شيخ حر عاملى، محمد بن حسن، تفصيل وسائل الشيعة إلى تحصيل مسائل الشريعة؛ ج12 ؛ ص143
13- الكافي (ط - دارالحديث) ؛ ج3 ؛ ص449
14- الكافي (ط - دارالحديث) ؛ ج3 ؛ ص432
15- حميرى، عبد الله بن جعفر، قرب الإسناد ؛ ص355ح 1272
16- الكافي (ط - دارالحديث) ؛ ج3 ؛ ص45
17- برقى، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن؛ ج2 ؛ ص393
18- ابن قولويه، جعفر بن محمد، كامل الزيارات،؛ النص ؛ ص142
19- شعيري، محمد بن محمد، جامع الأخبار؛ ص39
20- پاينده، ابو القاسم، نهج الفصاحة (مجموعه كلمات قصار حضرت رسول صلى الله عليه و آله)؛ ص787 ح 3134
21- الكافي (ط - دارالحديث) ؛ ج1 ؛ ص113
22- ابن حيون، نعمان بن محمد مغربى، دعائم الإسلام و ذكر الحلال و الحرام و القضايا و الأحكام؛ ج1 ؛ ص81
23- منسوب به على بن موسى، امام هشتم عليه السلام، الفقه المنسوب إلى الإمام الرضا عليه السلام؛ ص381
24- مفيد، محمد بن محمد، الإختصاص؛ النص ؛ ص2
25- طبرسى، على بن حسن، مشكاة الأنوار في غرر الأخبار؛ النص ؛ ص161
26- الكافي (ط - دارالحديث) ؛ ج4 ؛ ص44
27- الكافي (ط - دار الحديث)؛ ج4، ص: 33
28- عريضى،على بن جعفر، مسائل عليّ بن جعفر و مستدركاتها ؛ ص344
29- یہ وہی علی ابن جعفر ہے جس کا روضہ مبارک ایران کے مقدس شہر قم میں گلزار شہدا نامہ جگہ واقع ہے، آپ صاحب کرامات تھے۔ حضرت امام کاظم علیہ السلام کی دختر گرامی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی قم آمد سے پہلے آپ یہاں آئے تھے اور اپنے بھائی امام موسی کاظم علیہ السلام اور والد گرامی امام جعفر صادق علیہ السلام سے بہت سی احادیث نقل کئے ہیں، آپ نے اپنے بھائی اور والد گرامی علیہم السلام سے پوچھے گئے سوالات اور ان کے جوابات کو ایک کتاب میں تحریر فرمایا جو مسائل عليّ بن جعفر و مستدركاتها کے نام سے 1409 ہ ق میں موسسہ آل البیت کی توسط سے چھاپی ہے۔
30- طبرسى، حسن بن فضل، مكارم الأخلاق؛ ص275
31- ابن بابويه، محمد بن على، التوحيد؛ ص19
32- نورى، حسين بن محمد تقى، مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل؛ ج11 ؛ ص353.
33- ليثى واسطى، على بن محمد، عيون الحكم و المواعظ؛ ص556 ح 10249
34- ایضا؛ ص56 پ 1435
35- ابن اشعث، محمد بن محمد، الجعفريات؛ ص230
36- عيون الحكم و المواعظ (لليثي) ؛ ؛ ص74
37- تميمى آمدى، عبد الواحد بن محمد، تصنيف غرر الحكم و درر الكلم؛ ص395ح 9137
38- ابن شعبه حرانى، حسن بن على، تحف العقول عن آل الرسول صلى الله عليه و آله؛ النص ؛ ص208
39 مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار؛ ج75 ؛ ص22
40- شريف الرضى، محمد بن حسين، نهج البلاغة (للصبحي صالح) ؛ ؛ ص483 حکمت 89 (86 بعض نسخوں میں)
41- ابن شاذان، محمد بن احمد، مائة منقبة من مناقب أمير المؤمنين و الأئمة من ولده عليهم السلام من طريق العامة ؛ ص67
42- نهج البلاغة (للصبحي صالح) ؛ ؛ ص540
43- مفتی، جعفرحسین، ترجمہ نہج البلاغہ ترجمہ و حواشی، ص 798 ، 799
-----------
1 ابن اشعث، محمد بن محمد، الجعفريات (الأشعثيات)، 1جلد، مكتبة النينوى الحديثة - تهران، چاپ: اول، بى تا.
2 ابن بابويه، محمد بن على، الأمالي (للصدوق)، 1جلد، كتابچى - تهران، چاپ: ششم، 1376ش.
3 ابن بابويه، محمد بن على، التوحيد (للصدوق)، 1جلد، جامعه مدرسين - ايران ؛ قم، چاپ: اول، 1398ق.
4 ابن بابويه، محمد بن على، الخصال، 2جلد، جامعه مدرسين - قم، چاپ: اول، 1362ش.
5 ابن حيون، نعمان بن محمد مغربى، دعائم الإسلام و ذكر الحلال و الحرام و القضايا و الأحكام، 2جلد، مؤسسة آل البيت عليهم السلام - قم، چاپ: دوم، 1385ق.
6 ابن شاذان، محمد بن احمد، مائة منقبة من مناقب أمير المؤمنين و الأئمة من ولده عليهم السلام من طريق العامة، 1جلد، مدرسة الإمام المهدى عجّل اللة تعالى فرجة الشريف - ايران ؛ قم، چاپ: اول، 1407ق.
7 ابن شعبه حرانى، حسن بن على، تحف العقول عن آل الرسول صلى الله عليه و آله، 1جلد، جامعه مدرسين - قم، چاپ: دوم، 1404 / 1363ق.
8 ابن فهد حلى، احمد بن محمد، عدة الداعي و نجاح الساعي، 1جلد، دار الكتب الإسلامي، چاپ: اول، 1407 ق.
9 ابن قولويه، جعفر بن محمد، كامل الزيارات، 1جلد، دار المرتضوية - نجف اشرف، چاپ: اول، 1356ش.
10 اربلى، على بن عيسى، كشف الغمة في معرفة الأئمة (ط - القديمة)، 2جلد، بنى هاشمى - تبريز، چاپ: اول، 1381ق.
11 برقى، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، 2جلد، دار الكتب الإسلامية - قم، چاپ: دوم، 1371 ق.
12 پاينده، ابو القاسم، نهج الفصاحة (مجموعه كلمات قصار حضرت رسول صلى الله عليه و آله)، 1جلد، دنياى دانش - تهران، چاپ: چهارم، 1382ش.
13 تميمى آمدى، عبد الواحد بن محمد، تصنيف غرر الحكم و درر الكلم، 1جلد، دفتر تبليغات - ايران ؛ قم، چاپ: اول، 1366ش.
14 حسن بن على عليه السلام، امام يازدهم، التفسير المنسوب إلى الإمام الحسن العسكري عليه السلام، 1جلد، مدرسة الإمام المهدي عجل الله تعالى فرجه الشريف - ايران ؛ قم، چاپ: اول، 1409 ق.
15 حميرى، عبد الله بن جعفر، قرب الإسناد (ط - الحديثة)، 1جلد، مؤسسة آل البيت عليهم السلام - قم، چاپ: اول، 1413 ق.
16 شعيري، محمد بن محمد، جامع الأخبار(للشعيري)، 1جلد، مطبعة حيدرية - نجف، چاپ: اول، بى تا.
17 شريف الرضى، محمد بن حسين، نهج البلاغة (للصبحي صالح)، 1جلد، هجرت - قم، چاپ: اول، 1414 ق.
18 شيخ حر عاملى، محمد بن حسن، تفصيل وسائل الشيعة إلى تحصيل مسائل الشريعة، 30جلد، مؤسسة آل البيت عليهم السلام - قم، چاپ: اول، 1409 ق.
19 طبرسى، حسن بن فضل، مكارم الأخلاق، 1جلد، شريف رضى - قم، چاپ: چهارم، 1412 ق / 1370 ش.
20 طبرسى، على بن حسن، مشكاة الأنوار في غرر الأخبار، 1جلد، المكتبة الحيدرية - نجف، چاپ: دوم، 1385ق / 1965م / 1344ش.
21 عريضى،على بن جعفر، مسائل عليّ بن جعفر و مستدركاتها، 1جلد، مؤسسة آل البيت عليهم السلام - قم، چاپ: اول، 1409 ق.
22 فتال نيشابورى، محمد بن احمد، روضة الواعظين و بصيرة المتعظين (ط - القديمة)، 2جلد، انتشارات رضى - ايران ؛ قم، چاپ: اول، 1375 ش.
23 كلينى، محمد بن يعقوب بن اسحاق، الكافي (ط - دارالحديث)، 15جلد، دار الحديث - قم، چاپ: اول، ق1429.
24 ليثى واسطى، على بن محمد، عيون الحكم و المواعظ (لليثي)، 1جلد، دار الحديث - قم، چاپ: اول، 1376 ش.
25 مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار (ط - بيروت)، 111جلد، دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.
26 مفتی، جعفرحسین، ترجمة نهج البلاغة ترجمة و حواشی، المعراج کمپنی، لاهور – پاکستان، اول، نومبر 2003م
27 مفيد، محمد بن محمد، الإختصاص، 1جلد، الموتمر العالمى لالفية الشيخ المفيد - ايران ؛ قم، چاپ: اول، 1413 ق.
28 منسوب به على بن موسى، امام هشتم عليه السلام، الفقه المنسوب إلى الإمام الرضا عليه السلام، 1جلد، مؤسسة آل البيت عليهم السلام - مشهد، چاپ: اول، 1406 ق.
29 نورى، حسين بن محمد تقى، مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل، 28جلد، مؤسسة آل البيت عليهم السلام - قم، چاپ: اول، 1408ق