چالیس حدیثیں
  • عنوان: چالیس حدیثیں
  • مصنف: مترجم: تصدق حسین ہاشمی پاروی
  • ذریعہ: پیشکش امام حسین فاونڈیشن قم المقدسہ
  • رہائی کی تاریخ: 15:37:42 1-9-1403

چالیس حدیثیں
مترجم: تصدق حسین ہاشمی پاروی

پیشکش امام حسین فاونڈیشن



بسم الله الرحمن الرحیم
پہلی حدیث: عیاشی کی ممانعت
عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ "اغْدُ عَالِماً أَوْ مُتَعَلِّماً وَ إِيَّاكَ‏ أَنْ‏ تَكُونَ‏ لَاهِياً مُتَلَذِّذاً وَ فِي حَدِيثٍ آخَرَ وَ إِيَّاكَ أَنْ تَكُونَ مُتَلَذِّذاً"-(1)
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے: عالم بنو یا طالب علم اور اپنے اوقات کو بے ہودگی اور عیاشی میں صرف نہ کرو۔
دوسری حدیث: مشرکوں سے بھی حکمت لینے کا حکم
قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ص‏ خُذِ الْحِكْمَةَ وَ لَوْ مِنَ‏ الْمُشْرِكِين‏-(2)
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:  علم حاصل کرو (حکمت کو لے لو) اگر چہ مشرکین سے ہی کیوں نہ ہو ۔
تیسری حدیث: پاگلوں سے بھی علم حاصل کرو
قال الامام الصادق خُذِ الْحِكْمَةَ وَ لَوْ مِنْ أَفْوَاهِ‏ الْمَجَانِين‏-(3)
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: علم حاصل کرو (حکمت کو لے لو) اگر چہ دیوانوں کی زبان سے ہی کیوں نہ ہو۔
چوتھی حدیث: ادب کی فضیلت
عليكم بالعلم و الأدب فإن العالم‏ يكرم‏ و إن لم ينتسب و يكرم و إن كان فقيرا و يكرم و إن كان حدثا-(4)
تم پر فرض ہے کہ علم و ادب حاصل کرو؛ کیونکہ  عالم کا احترام کیا جاتا ہے اگر چہ اس کا کوئی نسب نہ ہو، اور اس کا احترام کیا جاتا ہے اگر چہ وہ فقیر ہو اور اس کا احترام کیا جاتا ہے اگر چہ وہ جوان ہو۔
پانچویں حدیث: علم کی فضیلت
عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ (عَلَيْهِمُ السَّلَامُ)، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ) يَقُولُ: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، فَاطْلُبُوا الْعِلْمَ فِي مَظَانِّهِ، وَ اقْتَبِسُوهُ مِنْ أَهْلِهِ، فَإِنْ تَعَلُّمِهِ لِلَّهِ حَسَنَةً، وَ طَلَبِهِ‏ عِبَادَةِ، وَ الْمُذَاكَرَةِ فِيهِ تَسْبِيحٌ، وَ الْعَمَلُ بِهِ جِهَادِ، وَ تَعْلِيمُهُ مِنْ لَا يَعْلَمُهُ صَدَقَةَ، وَ بَذَلَهُ لِأَهْلِهِ قُرْبَةٌ إِلَى اللَّهِ (تَعَالَى)، لِأَنَّهُ مَعَالِمَ الْحَلَالِ وَ الْحَرَامِ، وَ مَنَارُ سُبُلِ الْجَنَّةِ، وَ المؤنس فِي الْوَحْشَةِ، وَ الصَّاحِبِ فِي الْغُرْبَةِ وَ الْوَحْدَةِ، وَ الْمُحْدِثُ فِي الْخَلْوَةِ، وَ الدَّلِيلُ فِي السَّرَّاءِ وَ الضَّرَّاءِ، وَ السِّلَاحَ عَلَى الْأَعْدَاءِ، وَ الزَّيْنَ عِنْدَ الأخلاء-(5)
امیر المومنین علی  بن ابی طالب علیہما السلام فرماتے ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے پس جہاں جہاں علم کے ہونے کا گمان ہو وہاں تلاش کریں اور صاحبان علم سے اس کا اقتباس کرو؛ کیونکہ خدا کی رضا کے لیے تعلیم دینا حسنہ ہے اور علم حاصل کرنا عبادت ہے اور علمی گفتگو کرنا تسبیح اور اس پر عمل کرنا جہاد ہے اور جو نہیں جانتے انہیں تعلیم دینا صدقہ ہے اور جو صلاحیت رکھتے ہیں ان تک علم پہنچانا قرب الہی کا سبب ہے؛ کیونکہ وہ حلال اور حرام کی تعلیم دینے والا ، بہشت کی راہ دکھانے والا اور تنہائی میں مونس ہے۔ پردیس میں دوست، خلوت میں باتیں کرنے والا  رفیق، مشکلات اور آسانیوں میں راستہ دکھانے والا، دشمن کے مد مقابل سپر اور دوستوں کے پاس زینت ہے۔
چھٹی حدیث: خدا کی رضایت کے لیے علم حاصل کرنا
قَالَ ص‏ مَنْ‏ تَعَلَّمَ‏ بَاباً مِنَ الْعِلْمِ لِيُعَلِّمَهُ النَّاسَ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ أَعْطَاهُ اللَّهُ أَجْرَ سَبْعِينَ نَبِيّاً(6)
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: جو شخص علم کا ایک حصہ حاصل کرے تاکہ خدا کی خوشنودی کے لیے لوگوں کو سکھایا جا سکے تو اللہ اسے ستر نبیوں کا اجر عطا کرے گا۔
ساتویں حدیث:عالم کی مجلس اور تشییع جنازہ
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ص فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذَا حَضَرَتْ جَنَازَةٌ وَ حَضَرَ مَجْلِسُ عَالِمٍ أَيُّمَا أَحَبُّ إِلَيْكَ أَنْ أَشْهَدَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ إِنْ كَانَ‏ لِلْجَنَازَةِ مَنْ يَتْبَعُهُا وَ يَدْفِنُهَا فَإِنَّ حُضُورَ مَجْلِسِ‏ عَالِمٍ‏ أَفْضَلُ‏ مِنْ حُضُورِ أَلْفِ جِنَازَةٍ وَ مِنْ عِيَادَةِ أَلْفِ مَرِيضٍ وَ مِنْ قِيَامِ أَلْفِ لَيْلَةٍ وَ مِنْ صِيَامِ أَلْفِ يَوْمٍ- وَ مِنْ أَلْفِ دِرْهَمٍ يُتَصَدَّقُ بِهَا عَلَى الْمَسَاكِينِ وَ مِنْ أَلْفِ حِجَّةٍ سِوَى الْفَرِيضَةِ- وَ مِنْ أَلْفِ غَزْوَةٍ سِوَى الْوَاجِبِ تَغْزُوهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِمَالِكَ وَ بِنَفْسِكَ ... أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ اللَّهَ يُطَاعُ بِالْعِلْمِ وَ يُعْبَدُ بِالْعِلْمِ- وَ خَيْرُ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ مَعَ الْعِلْمِ وَ شَرُّ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ مَعَ الْجَهْل (7)
ایک آدمی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور عرض کرنے لگا کہ : یا رسول اللہ! جب کوئی جنازہ (تشییع کے لیے)لایا جائے اور  اسی وقت کسی عالم  کی مجلس بھی برپا ہو رہی ہو آپ (ص) مجھے کونسی جگہ دیکھنا پسند فرمائیں گے؟ اس وقت حضور (ص) نے فرمایا: اگر جنازہ کے لیے تشییع کرنے والے اور دفن کرنے والے ہوں تو  عالم کی مجلس میں حاضر ہونا ہزار تشییع جنازہ میں جانے اور ہزار مریضوں کی عیادت کرنے سے افضل ہے، ہزار راتیں(عبادت خدا میں) بیدار رہنے اور ہزار دن روزہ کی حالت میں گزارنے سے افضل ہے ، اسی طرح ہزار درہموں سے بھی افضل ہے جو فقیروں کو صدقہ دیے جاتے ہیں، اسی طرح ہزار مستحب حج ، ہزارمستحب جنگوں سے بھی افضل ہے جنہیں اپنی جان اور مال سے انجام دی جاتی ہیں ۔۔۔ کیا تم نہیں جانتے ہو ! کہ خدا کی اطاعت اور عبادت علم کے ذریعے سے ہی کی جاتی ہے، دنیا اور آخرت کی تمام نیکیاں علم کے ساتھ ہیں اوربرائیاں جہل کے ساتھ۔
آٹھویں حدیث: حصول علم حج کے برابر ہے
وَ قَوْلُهُ ص‏ مَنْ غَدَا إِلَى الْمَسْجِدِ لَا يُرِيدُ إِلَّا لِيَتَعَلَّمَ‏ خَيْراً أَوْ لِيُعَلِّمَهُ كَانَ لَهُ أَجْرُ مُعْتَمِرٍ تَامِّ الْعُمْرَةِ وَ مَنْ رَاحَ إِلَى الْمَسْجِدِ لَا يُرِيدُ إِلَّا لِيَتَعَلَّمَ‏ خَيْراً أَوْ لِيُعَلِّمَهُ فَلَهُ أَجْرُ حَاجٍّ تَامِّ الْحِجَّةِ (8)
جو شخص مسجد میں رفت و آمد کرے تاکہ مفید علم حاصل کر سکے یا سکھا سکے اس کا اجر اس حاجی کے برابر ہو گا جس نے حج کو اپنے تمام مناسک اور شرائط کے ساتھ اختتام تک پہنچایا ہو۔
نویں حدیث: علم حکمت ہے
وَ قَالَ‏ الْكَلِمَةُ مِنَ‏ الْحِكْمَةِ يَسْمَعُ بِهَا الرَّجُلُ فَيَقُولُ أَوْ يَعْمَلُ بِهَا خَيْرٌ مِنْ عِبَادَةِ سَنَة(9)
علم کا تعلق حکمت سے ہے جو اسے سنے اور دوسروں کے لیے نقل کرے یا خود اس پر عمل کرے تو یہ ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آیاہے کہ:
 وَ اعْلَمُوا أَنَّ الْكَلِمَةَ مِنَ‏ الْحِكْمَةِ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ فَعَلَيْكُمْ بِالْعِلْمِ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ وَ رَفْعُهُ غَيْبَةُ عَالِمِكُمْ بَيْنَ أَظْهُرِكُم(10)
جان لیں کہ علم کا تعلق حکمت سے ہے اور یہ مومن کی گمشدہ  چیز ہے پس تم پر لازم ہے کہ علم حاصل کریں اس سے پہلے کہ تمہارے درمیان سے اٹھ جائے علم کے اٹھ جانے سے مراد یہ ہے کہ عالم تمہارے درمیان سے غائب ہو جاتے ہیں۔
دسویں حدیث: علم راہ میں دو  قدم چلنے کا ثواب
وَ قَالَ ع‏ مَنْ‏ مَشَى‏ فِي‏ طَلَبِ‏ الْعِلْمِ‏ خُطْوَتَيْنِ وَ جَلَسَ عِنْدَ الْعَالِمِ سَاعَتَيْنِ وَ سَمِعَ مِنَ الْمُعَلِّمِ كَلِمَتَيْنِ أَوْجَبَ اللَّهُ لَهُ جَنَّتَيْنِ كَمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى‏﴿وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ﴾(11)
جو شخص علم کی حصول کی راہ میں دو قدم اٹھائے اور دو گھنٹہ عالم کے پاس بیٹھے اور استاد سے دو حرف سنے تو خدوند اس کے لیے دو بہشت واجب کرے گا جیسا کہ خدا نے فرمایا : اور جو شخص اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہونے کا خوف رکھتا ہے اس کے لیے دو باغ ہیں۔(12)
گیارہویں حدیث: استاد اور شاگرد کا اجر
عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عليه السلام، قَالَ: «إِنَ‏ الَّذِي‏ يُعَلِّمُ‏ الْعِلْمَ‏ مِنْكُمْ‏ لَهُ أَجْرٌ مِثْلُ أَجْرِ الْمُتَعَلِّمِ‏، وَ لَهُ الْفَضْلُ عَلَيْهِ، فَتَعَلَّمُوا الْعِلْمَ مِنْ حَمَلَةِ الْعِلْمِ‏، وَ عَلِّمُوهُ إِخْوَانَكُمْ كَمَا عَلَّمَكُمُوهُ‏ الْعُلَمَاءُ»(13)
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: تم میں سے جو دوسروں کو علم سکھائے گا اس کا ثواب اس انسان کے برابر ہے جو اس سے علم حاصل کرتا ہے اور اس معلم کو اپنے شاگرد پر فضیلت حاصل ہے ، پس علم کو صاحبان علم سے حاصل کریں، اپنے بھائیوں کو علم سکھائیں جس طرح کہ تمہیں اپنے علماء نے سکھائے ہیں۔
بارہویں حدیث: علم بادشاہ ہے
العلم‏ سلطان‏ من‏ وجده‏ صال به و من لم يجده صيل عليه‏(14)
علم قدرت و طاقت ہے جو اسے پا لے گا وہ غلبہ پاے گا اور جو اسے حاصل نہیں کرے گا شکست کھائے گا۔
تیرہویں حدیث: کون سے علوم سیکھنے کی ضرورت ہے؟
أولى‏ الأشياء أن‏ يتعلمها الأحداث الأشياء التي إذا صاروا رجالا احتاجوا إليها(15)
جوانی میں بہترین تعلیم یہ ہے کہ ان چیزوں کا علم حاصل کریں جن کی بڑھاپے میں ضرورت پڑتا ہے۔
چودہویں حدیث: بچپن میں علم حاصل کرنے کا اثر
تعلموا العلم‏ صغارا تسودوا به كبارا (16)
چھوٹی عمر میں علم حاصل کرو تاکہ بڑھاپے میں سعادت حاصل کر سکو۔
پندرہویں حدیث: علم لا محدود ہے۔
الْعِلْمُ‏ أَكْثَرُ مِنْ‏ أَنْ‏ يُحَاطَ بِهِ فَخُذُوا مِنْ كُلِّ شَيْ‏ءٍ أَحْسَنَهُ‏.(17)
علم کی کثرت اس حد تک ہے کہ اس کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا، پس علوم میں سے ہر وہ علم حاصل کرو جو بہترین ہیں۔
سولہویں حدیث: علم ہر چیز سے افضل ہے
جَابِرٌ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ‏ تَنَازَعُوا فِي‏ طَلَبِ‏ الْعِلْمِ‏ وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَحَدِيثٌ وَاحِدٌ فِي حَلَالٍ وَ حَرَامٍ تَأْخُذُهُ عَنْ صَادِقٍ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَ مَا حَمَلَتْ مِنْ ذَهَبٍ وَ فِضَّةٍ(18)
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: حصول علم میں ایک دوسرے سے سبقت لے لو، خدا کی قسم حلال و حرام کے بارے میں ایک حدیث کسی سچے انسان سے سننا دنیا اور سونا اور چاندی سے بہتر ہے۔
سترہویں حدیث: علوم اہل بیت ع کا سیکھنا
عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ صَالِحٍ الْهَرَوِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ عَلِيَّ بْنَ مُوسَى الرِّضَا ع يَقُولُ رَحِمَ اللَّهُ عَبْداً أَحْيَا أَمْرَنَا فَقُلْتُ لَهُ وَ كَيْفَ يُحْيِي أَمْرَكُمْ قَالَ يَتَعَلَّمُ عُلُومَنَا وَ يُعَلِّمُهَا النَّاسَ فَإِنَّ النَّاسَ لَوْ عَلِمُوا مَحَاسِنَ كَلَامِنَا لَاتَّبَعُونَا(19)
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا اس شخص پر رحم کرے جوہمارے امر کو زندہ رکھتا ہے۔(راوی کہتا ہے) میں نے پوچھا: آپ کے امر کو کیسے زندہ  رکھا جاتا ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: ہمارے علوم سیکھتے ہیں اور لوگوں کو سکھاتے ہیں؛ کیونکہ اگر لوگ کلام کی خوبصورتیوں کو جان لیں تو ہماری پیروی کریں گے۔
اٹھارہویں حدیث: بچپن میں کلمہ سکھانا
عنه صلى الله عليه و آله عن طريق أهل السنّة قال: «افتحوا على صبيانكم أوّل كلمة لا إله إلّا اللّه، و لقّنوهم عند الموت لا إله إلّا اللّه»(20)
اہل سنت کے راویوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کی ہیں: اپنے بچوں کے زبان پر پہلا کلمہ "لا الہ الا اللہ " ہونا چاہیئے   اور مرتے وقت انہیں "لا الہ الا اللہ " کی تلقین دی جائے۔
انیسویں حدیث: ارث کے مسائل سیکھنے کی ضرورت
رُوِيَ عَنْهُ ص قَالَ‏ تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ‏ وَ عَلِّمُوهَا النَّاسَ‏ فَإِنَّهَا نِصْفُ الْعِلْمِ وَ هُوَ يُنْسَى وَ هُوَ أَوَّلُ شَيْ‏ءٍ يُنْتَزَعُ مِنْ أُمَّتِي‏(21)
ارث کے مسائل سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ؛ کیونکہ یہ نصف علم ہے اور اگر پیروی نہ کی جائے تو بھلا دیا جائے گا یہ وہ پہلی چیز ہے جو میری امت سے جدا ہو جائے گی۔
بیسویں حدیث: اصلاح تین چیزوں کی
قَالَ الصَّادِقُ ع‏ لَا يَصْلُحُ‏ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ‏ إِلَّا بِثَلَاثٍ التَّفَقُّهِ فِي الدِّينِ وَ التَّقْدِيرِ فِي الْمَعِيشَةِ وَ الصَّبْرِ عَلَى النَّائِبَة(22)
کسی مسلمان کی فقط تین چیزوں کی اصلاح کریں؛ 1۔ دین شناسی، 2۔ زندگی (کی معیشت) میں صحیح برنامہ ریزی، 3۔ مصیبت میں صبر۔
اکیسویں حدیث: ہنر کا مقام
الْحُرْفَةُ مَعَ‏ الْعِفَّةِ خَيْرٌ مِنَ الْغِنَى مَعَ الْفُجُورِ.(23)
ایسا ہنر کہ جس میں عزت نفس سلامت رہے اس دولت مندی سے بہتر ہے جس میں نا پاکی ہو۔
بائیسویں حدیث: تجارت کے احکام سیکھنے کی ضرورت
وَ عَنْ عَلِيٍّ ع‏ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لَهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنِّي‏ أُرِيدُ التِّجَارَةَ قَالَ أَ فَقِهْتَ فِي دِينِ اللَّهِ قَالَ يَكُونُ بَعْضُ ذَلِكَ قَالَ وَيْحَكَ الْفِقْهَ ثُمَّ الْمَتْجَرَ فَإِنَّهُ مَنْ بَاعَ وَ اشْتَرَى وَ لَمْ يَسْأَلْ عَنْ حَرَامٍ وَ لَا حَلَالٍ ارْتَطَمَ‏ «1» فِي الرِّبَا ثُمَّ ارْتَطَم‏(24)
ایک شخص نے امیر المومنین علیہ السلام سے عرض کیا کہ: میں تجارت کرنا چاہتا ہوں۔ امام علیہ السلام نے اس سے پوچھا: کیا تم نے دین کا علم حاصل کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: بعد میں سیکھوں گا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: وائے ہو تم پر! پہلے دین سیکھو پھر جا کر تجارت کرو؛ کیونکہ اگر کوئی شخص لین دین کریں لیکن حلال و حرام کے بارے میں نہ پوچھے تو ربا کی گرداب میں گر جائے گا۔
تئیسویں حدیث: علم کے کمالات
عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ (عَلَيْهِمُ السَّلَامُ)، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ) يَقُولُ: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، فَاطْلُبُوا الْعِلْمَ‏ مِنْ‏ مَظَانِّهِ‏، وَ اقْتَبِسُوهُ مِنْ أَهْلِهِ، فَإِنَّ تَعْلِيمَهُ لِلَّهِ حَسَنَةٌ، وَ طَلَبَهُ عِبَادَةٌ، وَ الْمُذَاكَرَةَ فِيهِ تَسْبِيحٌ، وَ الْعَمَلَ بِهِ جِهَادٌ، وَ تَعْلِيمَهُ مَنْ لَا يَعْلَمُهُ صَدَقَةٌ، وَ بَذْلَهُ لِأَهْلِهِ قُرْبَةٌ إِلَى اللَّهِ (تَعَالَى)، لِأَنَّهُ مَعَالِمُ الْحَلَالِ وَ الْحَرَامِ، وَ مَنَارُ سَبِيلِ الْجَنَّةِ، وَ الْمُؤْنِسُ فِي الْوَحْشَةِ، وَ الصَّاحِبُ فِي الْغُرْبَةِ وَ الْوَحْدَةِ، وَ الْمُحَدِّثُ فِي الْخَلْوَةِ، وَ الدَّلِيلُ عَلَى السَّرَّاءِ وَ الضَّرَّاءِ، وَ السِّلَاحُ عَلَى الْأَعْدَاءِ، وَ الزَّيْنُ عِنْدَ الْأَخِلَّاءِ، يَرْفَعُ اللَّهُ بِهِ أَقْوَاماً وَ يَجْعَلُهُمْ فِي الْخَيْرِ (25)
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔ علم کو اس کی جگہ سے اوراہل علم سے حاصل کریں؛ کیونکہ اللہ کی رضایت کے لیے اس کی تعلیم دینا نیک ہے اور اس کا حاصل کرنا عبادت۔ علمی گفتگو تسبیح ہے اور اس پر عمل کرنا جہاد، جاہل کو علم سکھانا علم کا صدقہ ہے اور اہل علم کے درمیان اس کا انفاق کرنااللہ سے قریب ہونے کا وسیلہ، کیونکہ علم ہی ہے جو حلال و حرام کو بیان کرتا ہے، یہی علم جنت کے راستے کا نور بھی ہے، تنہائی میں مونس، پردیس میں رفیق، خلوت میں دوست، مشکلات اور آسانیوں میں راستہ دکھانے والا، دشمن کے مقابلے میں اسلحہ اورع دوستوں کے درمیان باعث زینت ہے۔ علم کی وجہ سے خدا قوموں کو اٹھا لیتا ہے اور انہیں خیر و صلاح میں قرار دیتا ہے۔
چوبیسویں حدیث: کس سے علم نہ لیا جائے
وَ مِنْ وَصِيَّةِ ذِي الْقَرْنَيْنِ لَا تَتَعَلَّمِ‏ الْعِلْمَ‏ مِمَّنْ‏ لَمْ يَنْتَفِعْ بِهِ فَإِنَّ مَنْ لَمْ يَنْفَعْهُ عِلْمُهُ لَا يَنْفَعُك(26)
ذو القرنین کی وصیتوں میں ایک وصیت یہ ہے کہ: اس شخص سے علم مت لو جس نے اپنے علم سے فائدہ حاصل نہ کیا ہو ؛ کیونکہ جس کا علم اسے فائدہ نہ دے سکے  تمہیں  بھی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔
پچیسویں حدیث: پانچ بے مثال چیزیں
عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع‏ خَمْسَةٌ لَوْ رَحَّلْتُمْ فِيهِنَّ الْمَطَايَا لَمْ يقدروا [تَقْدِرُوا] عَلَى مِثْلِهِنَ‏ «1» لَا يَخَافُ عَبْدٌ إِلَّا ذَنْبَهُ وَ لَا يَرْجُو إِلَّا رَبَّهُ وَ لَا يَسْتَحْيِي الْجَاهِلُ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ أَنْ يَقُولَ لَا أَعْلَمُ وَ لَا يَسْتَحْيِي أَحَدُكُمْ إِذَا لَمْ‏ يَعْلَمْ‏ أَنْ‏ يَتَعَلَّمَ‏ وَ الصَّبْرُ مِنَ الْإِيمَانِ بِمَنْزِلَةِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ وَ لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا صَبْرَ لَهُ.(27)
امام رضا علیہ السلام امام علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: امام علی علیہ السلام نے فرمایا: پانچ چیزیں ایسی ہیں جنہیں ڈھونڈنے کے لیے اگر تم ہمت کی کمر باندھ کر ڈھونڈنا چاہے تو ان کے جیسے نہیں ملیں گے: 1- کوئی بھی بندہ اپنے گناہ کے علاوہ کسی اور چیز سے نہ ڈرے، 2۔ کوئی بھی اپنے پروردگار کے علاوہ کسی اور سے امید نہ رکھے، 3۔ جاہل کبھی بھی اس بات سے شرم نہ کرئے کہ جو چیز وہ نہیں جانتا ہے اس کے بارے میں کہے کہ "میں نہیں جانتا ہوں" 4- تم میں سے  اگر کوئی علم نہیں رکھتا ہے تو اسے حاصل کرنے میں شرم نہیں کرنی چاہیئے۔5۔ صبر کا ایمان سے اس طرح رابطہ ہے جس طرح  سر کا بدن سے اور جس کے پاس صبر نہیں ہے اس کے پاس ایمان بھی نہیں ہے۔
چھبیسویں حدیث: علم حیات ابدی ہے
 اكْتَسِبُوا الْعِلْمَ‏ يُكْسِبْكُمُ الْجَاهَ‏(28)
مولا فرماتے ہیں: علم حاصل کرو تاکہ وہ تمھارے لئے حیات ابدی کو حاصل کرے۔
ستائیسویں حدیث: حسد صرف حصول علم کے لیے صحیح ہے
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع قَالَ: لَيْسَ مِنْ أَخْلَاقِ الْمُؤْمِنِ التَّمَلُّقُ وَ لَا الْحَسَدُ إِلَّا فِي‏ طَلَبِ‏ الْعِلْمِ‏.(29)
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: تملق اور حسد مومن کے اخلاق میں سے نہیں ہے مگر حصول علم میں۔
اٹھائیسویں حدیث: علم خزانہ ہے
عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ ع قَالَ: الْعِلْمُ‏ خَزَائِنُ‏ وَ الْمَفَاتِيحُ السُّؤَالُ فَاسْأَلُوا يَرْحَمْكُمُ اللَّهُ فَإِنَّهُ يُؤْجَرُ فِي الْعِلْمِ أَرْبَعَةٌ السَّائِلُ وَ الْمُتَكَلِّمُ وَ الْمُسْتَمِعُ وَ الْمُحِبُّ لَهُمْ.(30)
امام جعفر صادق علیہ السلام امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: علم خزانے ہیں اور ان کی  چابیاں سوال ہے، پس سوال کریں، خدا تم پر رحمت نازل کرے گا؛ کیونکہ چار افراد کو علم کا پاداش دیا جائے گا؛ سوال کرنے والا، جواب سننے والا،  اس گفتگو کو سننے والا، اور اس کو چاہنے والا۔
انتیسویں حدیث: علم بہترین صدقہ
وَ قَوْلُهُ ص‏ أَفْضَلُ‏ الصَّدَقَةِ أَنْ‏ يَعْلَمَ‏ الْمَرْءُ عِلْماً ثُمَّ يُعَلِّمُهُ أَخَاهُ(31)
بہترین صدقہ یہ ہے کہ آدمی علم حاصل کرے اور پھر اپنے بھائی کو سکھائے۔
تیسویں حدیث: علم کی زکات
عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: زَكَاةُ الْعِلْمِ‏ أَنْ تُعَلِّمَهُ عِبَادَ اللَّهِ.(32)
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : علم کی زکات یہ ہے کہ اسے اللہ کے بندوں کو سکھا دے۔
اکتیسویں حدیث: مہمان کا مقام
أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي، إِنِّي أُحْسِنُ الْوُضُوءَ، وَ أُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَ أُوتِي الزَّكَاةَ فِي وَقْتِهَا، وَ أُقْرِئُ الضَّيْفَ طَيِّبَةً بِهَا نَفْسِي، مُحْتَسِبٌ بِذَلِكَ أَرْجُو مَا عِنْدَ اللَّهِ. فَقَالَ: «بَخْ بَخْ بَخْ، مَا لِجَهَنَّمَ عَلَيْكَ سَبِيلٌ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَرَّأَكَ مِنَ الشُّحِّ، إِنْ كُنْتَ كَذَلِكَ». ثُمَّ قَالَ:: «نَهَى عَنِ التَّكَلُّفِ لِلضَّيْفِ مَا لَا يُقْدَرُ عَلَيْهِ إِلَّا بِمَشَقَّةٍ، وَ مَا مِنْ ضَيْفٍ حَلَّ بِقَوْمٍ إِلَّا وَ رِزْقُهُ مَعَهُ»(33)
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک شخص آنحضرت ص کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں اچھی وضو کرتا ہوں اچھی نماز پڑھتا ہوں، زکات کو اپنے وقت پر دیتا ہوں، مہمان کو خوش آمدید کہتا ہوں  اور میں اس کام سے اللہ کی ذات سے اجر کی امید رکھتا ہوں۔ اس وقت آنحضرت ص نے فرمایا:" واہ وا،واہ وا، واہ وا، جہنم سے تم بچ گئے ہو خدا تم نے تمہیں بخل سے بچا لیا ہے اگر تم ایسا ہی ہوں"  اس کے بعد  آنحضرت ص نے اس کو مہمان کی خاطر اپنے کو مشقت میں ڈالنے سے نہی فرمایا اور فرمایا "کوئی بھی مہمان جب کسی کے ہاں آتا ہے تو اپنا رزق خود کے لے کے آتا ہے"
بتیسویں حدیث: تکلفات کی ممانعت
أَهْنَأُ الْعَيْشِ إِطْرَاحُ‏ الْكُلَفِ‏.(34)
بہترین زندگی تکلفات کو ختم کرنا ہے۔
تینتیسویں حدیث
وَ قَالَ ع‏ يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يَكُونَ فِيهِ ثَمَانُ خِصَالٍ وَقُورٌ عِنْدَ الْهَزَاهِزِ «3» صَبُورٌ عِنْدَ الْبَلَاءِ شَكُورٌ عِنْدَ الرَّخَاءِ قَانِعٌ بِمَا رَزَقَهُ اللَّهُ لَا يَظْلِمُ الْأَعْدَاءَ وَ لَا يَتَحَمَّلُ الْأَصْدِقَاءَ «4» بَدَنُهُ مِنْهُ فِي تَعَبٍ وَ النَّاسُ مِنْهُ فِي رَاحَةٍ.(35)
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:  مومن میں آٹھ خصلتوں کا ہونا ضروری ہے: 1- فتنہ فساد اور مشکلات کے وقت با وقار، 2۔ بلاء  اور  مصیبت میں صبر کرنے والا ہو، 3۔ مشکلات اور پریشانی میں شکر کرنے والا ہو4۔ اللہ کی دی ہوئی رزق پر قانع، 5۔ دشمنوں پر ظلم نہ کرنے والا ہو، 6۔   دوستوں پر کوئی  تکلیف اور مشقت نہ ڈالنے والا۔ 7۔ دوسروں کی خاطر خود کو مشقت میں ڈالنے والا ہو، 8۔ لوگ ہمیشہ اس سے سکون اور راحت محسوس کرتے ہیں۔
چونتیسویں حدیث: بلند پروازی سے روکنے والی تین چیزیں
ثَلَاثٌ يَحْجُزْنَ الْمَرْءَ عَنْ‏ طَلَبِ‏ الْمَعَالِي‏ قَصْرُ الْهِمَّةِ وَ قِلَّةُ الْحِيلَةِ وَ ضَعْفُ الرَّأْي‏(36)
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: تین چیزیں انسان کو بلند مقام تک پہنچنے سے روکتی ہیں: کم ہمتی، کم تدبیری اور رائے کی کمزوری۔
پنتیسویں حدیث:وقت سے پہلے ظاہر کرنا
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِظْهَارُ الشَّيْ‏ءِ قَبْلَ أَنْ‏ يَسْتَحْكِمَ‏ مَفْسَدَةٌ لَهُ.(37)
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:کسی چیز کی مضبوطی سے پہلے ظاہر کرنا اس کے ضائع ہونے کا سبب بنتا ہے۔
چھتیسویں حدیث: مسلسل تفکر
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام، قَالَ: «أَفْضَلُ الْعِبَادَةِ إِدْمَانُ‏ التَّفَكُّرِ فِي اللَّهِ‏  وَ فِي قُدْرَتِهِ»(38)
سب سے بڑی عبادت خدا کے بارے میں اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں مسلسل غور و فکر کرنا ہے۔
سینتیسویں حدیث: تفکر ہی عبادت ہے
مُعَمَّرُ بْنُ خَلَّادٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا ع يَقُولُ‏ لَيْسَ الْعِبَادَةُ كَثْرَةَ الصَّلَاةِ وَ الصَّوْمِ وَ إِنَّمَا الْعِبَادَةُ التَّفَكُّرُ فِي أَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَل‏(39)
معمر بن خلاد کہتا ہے: میں نے ابا الحسن رضا کو فرماتے ہوئے سنا:  زیادہ نمازیں پڑھنا اور زیادہ روزے رکھنا عبادت نہیں کہلاتا ہے بلکہ حقیقی عبادت خدائے  عز  و جل کے کاموں میں غور و فکر کرنا  ہے۔
اٹھتیسویں حدیث: کاموں میں مضبوطی
إنّ اللَّه تعالى يحبّ إذا عمل‏ أحدكم‏ عملا أن يتقنه.(40)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:  خدا  دوست رکھتا ہے کہ تم میں سے جو بھی کوئی کام انجام دیں تو اس کو محکم طریقے سے انجام دیں  ۔
انتالیسویں حدیث: محکم زندگی
الإمام علي «ع»: قوام‏ العيش‏ حسن‏ التّقدير، و ملاكه حسن التّدبير.(41)
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:  محکم اور استوار زندگی وہ ہے جس میں برنامہ ریزی  اور نظم و نسق ہو اور اس کا ملاک اچھی تدبیر ہے۔
چالیسویں حدیث: مباحثہ کی فضیلت
عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ع قَالَ: اجْتَمِعُوا وَ تَذَاكَرُوا تَحُفَّ بِكُمُ الْمَلَائِكَةُ رَحِمَ اللَّهُ مَنْ أَحْيَا أَمْرَنَا.(42)

ابی جعفر محمد بن علی علیہما السلام فرماتے ہیں :  آپس میں مل بیٹھیں اور بحث و مباحثہ کریں کہ فرشتے تمہارے گرد جمع ہوں گے۔ خدا ان پر رحمت نازل کرے جو ہمارے امر کو زندہ رکھتا ہے۔
--------
منابع :
(1) برقى، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن؛ ج‏1 ؛ ص227
(2) طبرسى، على بن حسن، مشكاة الأنوار في غرر الأخبار؛ النص ؛ ص134
(3) منسوب به جعفربن محمد عليه السلام، امام ششم عليه السلام، مصباح الشريعة؛ ص161
(4) ابن أبي الحديد، عبد الحميد بن هبه الله، شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد،؛ ج‏20 ؛ ص332
(5) طوسى، محمد بن الحسن، الأمالي؛ النص ؛ ص488
(6) فتال نيشابورى، محمد بن احمد، روضة الواعظين و بصيرة المتعظين (ط - القديمة)، ؛ ج‏1 ؛ ص12
(7) مشكاة الأنوار في غرر الأخبار ؛ النص ؛ ص135
(8) شهيد ثانى، زين الدين بن على، منية المريد؛ ص106
(9) كراجكى، محمد بن على، كنز الفوائد، ؛ ج‏2 ؛ ص108
(10) ابن شعبه حرانى، حسن بن على، تحف العقول عن آل الرسول صلى الله عليه و آله،؛ ص394
(11) ديلمى، حسن بن محمد، إرشاد القلوب إلى الصواب،؛ ج‏1 ؛ ص195

(12) سورہ رحمن : 46۔ یہ دو باغ خصوصیت کے حامل ہیں، ورنہ دیگر آیات میں فرمایا: جنات۔ یعنی بہت سے باغات ہیں۔ اگلی چند آیات میں ان دو باغوں کی نعمتوں کا ذکر ہے۔ یہ خوف مقام رَب سے ہے، اس لیے اس قسم کے خوف کو فضیلت ملی۔ مقام رَب یعنی اللہ کی بارگاہ، جس میں حساب کے لیے بندے کو پیش ہونا ہے۔ وہ بندگی کا حق ادا نہ ہونے پر رَب سے شرمندہ ہے۔ اسی لیے وہ اس بارگاہ میں جانے کا خوف دل میں رکھتا ہے، یہ خوف از عقاب نہیں جس کا روایات میں ذکر ہے۔ عذاب سے خوف کی وجہ سے ہونے والی عبادت غلاموں کی عبادت ہے۔ یعنی یہ جنت ان لوگوں کے لیے ہے، جنہوں نے دنیا میں صرف آرزوؤں کی بنیاد پر بے لگام ہو کر زندگی نہ گزاری ہو، بلکہ ہر عمل اور ہر قدم میں اللہ کی بارگاہ میں جوابدہی کا خوف دل میں رکھتے رہے ہوں۔ جس کا دل خوف خدا کی وجہ سے بیدار ہو، وہ ان درجات کو حاصل کر سکتا ہے۔
(13) كلينى، محمد بن يعقوب بن اسحاق، الكافي؛ ج‏1 ؛ ص84
(14) ابن أبي الحديد، عبد الحميد بن هبه الله، شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد؛ ج‏20 ؛ ص319
(15) شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد ؛ ج‏20 ؛ ص333
(16) ایـضا ج‏20 ؛ ص267
(17) ليثى واسطى، على بن محمد، عيون الحكم و المواعظ؛ ص54 حدیث نمبر 1401۔
(18) ابن ادريس، محمد بن احمد، السرائر الحاوي لتحرير الفتاوي( و المستطرفات) ؛ ج‏3 ؛ ص645
(19) ابن بابويه، محمد بن على، عيون أخبار الرضا عليه السلام؛ ج‏1 ؛ ص307
(20) شيرازى، قدرت الله انصارى و پژوهشگران مركز فقهى ائمه اطهار عليهم، موسوعة أحكام الأطفال و أدلتها، ج‌3، ص: 430
(21) ابن أبي جمهور، محمد بن زين الدين، عوالي اللئالي العزيزية في الأحاديث الدينية؛ ج‏3 ؛ ص491
(22) ابن بابويه، محمد بن على، من لا يحضره الفقيه ج‏3 ؛ ص166
(23) ليثى واسطى، على بن محمد، عيون الحكم و المواعظ؛ ص59
(24) ابن حيون، نعمان بن محمد مغربى، دعائم الإسلام و ذكر الحلال و الحرام و القضايا و الأحكام؛ ج‏2 ؛ ص16
(25) طوسى، محمد بن الحسن، الأمالي؛ النص ؛ ص569
(26) قطب الدين راوندى، سعيد بن هبة الله، الدعوات (للراوندي) / سلوة الحزين؛ النص ؛ ص63
(27) عيون أخبار الرضا عليه السلام ؛ ج‏2 ؛ ص44
(28) عيون الحكم و المواعظ (لليثي) ؛ ؛ ص92
(29) ابن اشعث، محمد بن محمد، الجعفريات؛ ص235
(30) ابن بابويه، محمد بن على، الخصال؛ ج‏1 ؛ ص245
(31)شهيد ثانى، زين الدين بن على، منية المريد؛ ص105
(32) الكافي (ط - دارالحديث) ؛ ج‏1 ؛ ص101
(33) حميرى، عبد الله بن جعفر، قرب الإسناد (ط - الحديثة) ؛ متن ؛ ص75
(34) عيون الحكم و المواعظ (لليثي) ؛ ؛ ص118 ح 2646
(35) تحف العقول ؛ النص ؛ ص361
(36) مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار؛ ج‏75 ؛ ص231
(37) شيخ حر عاملى، محمد بن حسن، تفصيل وسائل الشيعة إلى تحصيل مسائل الشريعة؛ ج‏2 ؛ ص408
(38) الكافي (ط - دارالحديث) ؛ ج‏3 ؛ ص141
(39) ورام بن أبي فراس، مسعود بن عيسى، تنبيه الخواطر و نزهة النواظر المعروف بمجموعة ورّام؛ ج‏2 ؛ ص183
(40) پاينده، ابو القاسم، نهج الفصاحة (مجموعه كلمات قصار حضرت رسول صلى الله عليه و آله) ؛ ص305
(41) حكيمى، محمدرضا و حكيمى، محمد و حكيمى، على - آرام، احمد، الحياة / ترجمه احمد آرام؛ ج‏4 ؛ ص347
(42) ابن بابويه، محمد بن على، مصادقة الإخوان،
(43) امام باقر یا امام جواد علیہما السلام۔

--------
ku
1.    ابن أبي الحديد، عبد الحميد بن هبه الله، شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد، 10جلد، مكتبة آية الله المرعشي النجفي - قم، چاپ: اول، 1404ق.
2.    ابن أبي جمهور، محمد بن زين الدين، عوالي اللئالي العزيزية في الأحاديث الدينية، 4جلد، دار سيد الشهداء للنشر - قم، چاپ: اول، 1405 ق.
3.    ابن ادريس، محمد بن احمد، السرائر الحاوي لتحرير الفتاوي( و المستطرفات)، 3جلد، دفتر انتشارات اسلامى وابسته به جامعه مدرسين حوزه علميه قم - قم، چاپ: دوم، 1410 ق.
4.    ابن اشعث، محمد بن محمد، الجعفريات، 1جلد، مكتبة النينوى الحديثة - تهران، چاپ: اول، بى تا.
5.    ابن بابويه، محمد بن على، الخصال، 2جلد، جامعه مدرسين - قم، چاپ: اول، 1362ش.
6.    ابن بابويه، محمد بن على، عيون أخبار الرضا عليه السلام، 2جلد، نشر جهان - تهران، چاپ: اول، 1378ق.
7.    ابن بابويه، محمد بن على، مصادقة الإخوان، 1جلد، مكتبة الإمام صاحب الزمان العامة - الكاظميه، چاپ: اول، 1402ق.
8.    ابن بابويه، محمد بن على، من لا يحضره الفقيه، 4جلد، دفتر انتشارات اسلامى وابسته به جامعه مدرسين حوزه علميه قم - قم، چاپ: دوم، 1413 ق.
9.    ابن حيون، نعمان بن محمد مغربى، دعائم الإسلام و ذكر الحلال و الحرام و القضايا و الأحكام، 2جلد، مؤسسة آل البيت عليهم السلام - قم، چاپ: دوم، 1385ق.
10.    ابن شعبه حرانى، حسن بن على، تحف العقول عن آل الرسول صلى الله عليه و آله، 1جلد، جامعه مدرسين - قم، چاپ: دوم، 1404 / 1363ق.
11.    برقى، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، 2جلد، دار الكتب الإسلامية - قم، چاپ: دوم، 1371 ق.
12.    پاينده، ابو القاسم، نهج الفصاحة (مجموعه كلمات قصار حضرت رسول صلى الله عليه و آله)، 1جلد، دنياى دانش - تهران، چاپ: چهارم، 1382ش.
13.    حكيمى، محمدرضا و حكيمى، محمد و حكيمى، على - آرام، احمد، الحياة / ترجمه احمد آرام، 6جلد، دفتر نشر فرهنگ اسلامى - تهران، چاپ: اول، 1380ش.
14.    حميرى، عبد الله بن جعفر، قرب الإسناد (ط - الحديثة)، 1جلد، مؤسسة آل البيت عليهم السلام - قم، چاپ: اول، 1413 ق.
15.    ديلمى، حسن بن محمد، إرشاد القلوب إلى الصواب، 2جلد، الشريف الرضي - قم، چاپ: اول، 1412ق.
16.    شهيد ثانى، زين الدين بن على، منية المريد، 1جلد، مكتب الإعلام الإسلامي - قم، چاپ: اول، 1409ق.
17.    شيخ حر عاملى، محمد بن حسن، تفصيل وسائل الشيعة إلى تحصيل مسائل الشريعة، 30جلد، مؤسسة آل البيت عليهم السلام - قم، چاپ: اول، 1409 ق.
18.    شيرازى، قدرت الله انصارى و پژوهشگران مركز فقهى ائمه اطهار عليهم، موسوعة أحكام الأطفال و أدلتها، 4 جلد، مركز فقهى ائمه اطهار عليهم السلام، قم - ايران، اول، 1429 ه‍ ق
19.    طبرسى، على بن حسن، مشكاة الأنوار في غرر الأخبار، 1جلد، المكتبة الحيدرية - نجف، چاپ: دوم، 1385ق / 1965م / 1344ش.
20.    طوسى، محمد بن الحسن، الأمالي (للطوسي)، 1جلد، دار الثقافة - قم، چاپ: اول، 1414ق.
21.    طوسى، محمد بن الحسن، الأمالي 1جلد، دار الثقافة - قم، چاپ: اول، 1414ق.
22.    فتال نيشابورى، محمد بن احمد، روضة الواعظين و بصيرة المتعظين (ط - القديمة)، 2جلد، انتشارات رضى - ايران ؛ قم، چاپ: اول، 1375 ش.
23.    قطب الدين راوندى، سعيد بن هبة الله، الدعوات / سلوة الحزين، 1جلد، انتشارات مدرسه امام مهدى (عجل الله تعالى فرجه الشريف) - قم، چاپ: اول، 1407ق.
24.    كراجكى، محمد بن على، كنز الفوائد، 2جلد، دارالذخائر - ايران ؛ قم، چاپ: اول، 1410 ق.
25.    كلينى، محمد بن يعقوب بن اسحاق، الكافي (ط - دارالحديث)، 15جلد، دار الحديث - قم، چاپ: اول، ق‏1429.
26.    ليثى واسطى، على بن محمد، عيون الحكم و المواعظ، 1جلد، دار الحديث - قم، چاپ: اول، 1376 ش.
27.    مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار (ط - بيروت)، 111جلد، دار إحياء التراث العربي - بيروت، چاپ: دوم، 1403 ق.
28.    منسوب به جعفربن محمد عليه السلام، امام ششم عليه السلام، مصباح الشريعة، 1جلد، اعلمى - بيروت، چاپ: اول، 1400ق.