سلیم بن قیس ھلالی
شیخ ابو صادق سلیم ‘قیس کوفی کے بیٹے اور امام علی‘ امام حسن‘ امام حسین اور امام زین العابدین علیھم السلام کے اصحاب میں سے تھے‘ آپ جوانی میں حضرت عمر کی حکومت کے دوران مدینہ میں داخل ہوئے اور نبی کریم کے اصحاب و انصار سے آشنائی کے بعد حضرت علی کا ساتھ دینے کو انتخاب کیا۔ آپ کا سلمان‘ ابوذر اور مقداد کے ساتھ انتہائی گہرا اور دوستانہ رابطہ تھا۔ آپ نبی کرم کی سیرت اور آپ کی وفات کے بعد کے حالات کے بارے میں لوگوں سے پوچھتے اور چھوٹے چھوٹے مسائل کو بھی یاد رکھتے۔
حضرت عمر اور عثمان کے زمانہ میں حدیث پر پابندی کے باوجود اپنی احادیث کو چھپائے رکھتے یہاں تک کہ حضرت علی کی حکومت کے دوران ان حقائق لکھنے کی فرصت آپ کو میسر آئی سلیم جنگ جمل‘ صفین اور نہروان میں امام علی کے ساتھ شریک ہوئے اور امام حسن و حسین علیھم السلام کے زمانہ میں آپ کا ساتھ دینے کو ہی ترجیح دی اور واقعہ کربلا کے دوران احتمالاً آپ قید تھے امام حسین اور آپ کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد امام زین العابدین کا ساتھ دیا اور 75ھ میں حجاج بن یوسف کے ظلم و ستم سے تنگ آ کرایران چلے گئے اور فارس کے ایک شہر نوبندجان میں مقیم ہو گئے۔
اس شہر میں ابان بن ابی عباس نامی نوجوان سے واقفیت ہوئی اور دینی مسائل کو سیکھنے کا شوق باعث بنا کہ سلیم بن قیس نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں امام علی اور آپ کے بیٹوں اور دیگر اصحاب رسول کے فرامین کو ایک کتاب کی صورت میں تدوین کیا۔
76ھ میں سلیم بن قیس کی وفات کے بعد ابان مدینہ گئے اور امام زین العابدین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلیم کی کتاب کو آپ کے سامنے پیش کیا ۔ امام کے دو صحابیوں ابوطفیل کنانی اور عمر ابی سلمہ نے تین دن کتاب کے مطالب کو امام کو پڑھ کر سنایا تو امام سجاد نے فرمایا سلیم نے سچ کہا ہے خدا اس کی مغفرت کرے یہ سب ہمارا کلام ہے کہ جس سے ہم آگاہ ہیں۔
امام نے اس فرمان کے ساتھ شیعہ کی پہلی تدوین شدہ کتاب کی تائید کی۔ سلیم کا نام معتبر شیعہ اصول لکھنے والے ایک مئولف کی حیثیت سے درج ہے۔ ایک کتاب کہ جو کتاب سلیم بن قیس کے نام سے مشہور ہے علماء کرام کی توجہ کا باعث بنی ہے اور ان کا نظریہ ہے کہ گزشتہ زمان کے باوجود اس کے کتاب کے مطالب تحریف سے محفوظ رہے ہیں۔
ابان بن ابی عیاش ‘ ابراہیم بن عثمان اور ابراہیم بن عمر یمانی سلیم کے شاگردوں میں سے ہیں۔
محمد بن مسلم
آپ کی کنیت ابو جعفر اور آپ اہل طائف اور کوفہ میں رہائش پذیر اور اعورد طحان کے نام سے مشہور ہیں۔
محمد ‘ مسلم کے بیٹے‘ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیھا السلام کے قریب ترین ساتھیوں میں سے تھے آپ کوفہ کے عالم ترین اور متقی الدین افراد میں سے تھے‘ اور 150ہجری میں سترسال کی عمر میں وفات پائی ۔
محمد بن مسلم اصحاب اجماع میں سے ہیں۔ آپ سے نقل شدہ ہر روایت علماء کے نزدیک صحیح ہے علم رجال کے ماہر نجاشی آپ کو شیعہ کی عزت اور متقی ترین فقیہ سمجھتے تھے۔ شیخ مفید بھی آپ کو ان فقہا میں سے جانتے ہیں کہ جن پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔
آپ نے چار سال تک مدینہ میں رہتے ہوئے امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیھا السلام سے احکام دین اور معارف اسلامی سیکھے اور اپنی بابرکت عمر کے دوران امام محمد باقر سے 30ہزار اور امام جعفر صادق سے 16ہزار احادیث کو نقل کیا۔
آپ کی علمی شخصیت کے بارے میں اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جلیل القدر راوی ابن ابی یعفور‘ امام جعفر صادق سے وہ سوال کہ جو نہیں جانتا اور امام تک اس کی دسترس بھی نہیں پوچھتا ہے تو امام محمد بن مسلم کو پتہ بتاتے ہیں اہل سنت کے علماء میں بھی آپ کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔
ابو حنیفہ بھی اپنے مسائل کو ایک واسطہ کے ذریعہ آپ سے دریافت کرتا ہے۔
محمد بن مسلم ایک دولتمند شخص تھے۔ تو اس وقت امام باقر نے فرمایا کہ تواضع کرو آپ نے ایک ٹوکرے میں کھجوریں اور ترازو اٹھا کر مسجد کے سامنے بیچنا شروع کر دیا۔ آپ کے رشتہ داروں نے اس کام سے آپ کو منع کیا تو آپ نے فرمایا‘ میرے مولا نے مجھے اس چیز کا حکم دیا ہے میں اپنے مولاکی مخالفت نہیں کر سکتا۔
آپ کے رشتہ داروں نے کہا اگر آپ کام کرنا چاہتے ہیں تو ایک آٹا پیسنے والی چکی لگا لیں تو آپ نے ان کی اس تجویز سے اتفاق کیا اور چکی لگا لی اسی لئے آپ کو طحان یا آٹا بیچنے والا بھی کہتے ہیں۔
امام باقر آپ سے بہت محبت کرتے تھے۔ ایک سفر کے بعد جب محمد بن مسلم مدینہ میں داخل ہوئے اور مرض کی شدت کی وجہ سے امام کی خدمت میں شرف یاف نہ ہو سکے تو امام نے اپنے ایک غلام کے ذریعہ ایک شربت محمد بن مسلم کے لئے بھیجا کہ جس کو پینے کے فوراً بعد آپ کی صحت ٹھیک ہو گئی تو آپ فوراً امام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
محمد بن مسلم نے ابو حمزہ ثمالی‘ حمران‘ ابوالصباح اور دوسروں سے روایت کو نقل کیا ہے اور ابن رئاب‘ صفوان بن یحییٰ ‘ یونس بن عبدالرحمن جیسے بزرگوں نے آپ سے روایت نقل کی ہیں۔
اسماء بنت عمیس
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ علیھم السلام کے اصحاب میں علم دوست اور بامعرفت خواتین بھی تھیں۔کہ جنہوں نے روایات کو بیان کر کے اپنی قابلیت کو دکھایا ۔علم رجال کے ایک حصہ میں ان عورتوں کو متعارف کرایا گیا ہے
اسماء کہ جو عمیس کی بیٹی اور ہمسر رسول خدا ہیں۔ آپ نے پہلے حضرت جعفر بن ابی طالب سے شادی کی اور آپ کے ساتھ ہی حبشہ ہجرت کی 8ئہجری میں حضرت جعفر طیار کی شہادت کے بعد حضرت ابوبکر سے آپ کی شادی ہوئی اور حضرت محمد بن ابی بکر اس شادی کا ہی ثمر تھے۔
حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد آپ نے امام علی علیہ السلام سے نکاح کیا۔ اورآپ 40ئھ میں فوت ہوئیں۔ اسماء اسلام میں سبقت لانے والوں میں سے تھیں اور ہمیشہ خاندان پیغمبر سے محبت کرنے والی اور وفادار رہیں۔ اورجب سے مدینہ آئیں حضرت فاطمہ زہرا کے لئے مہربان ماں کی طرح اور اسرار کی محرم رہیں۔
آپ نے حضرت زہرا کی خواہش کے مطابق ایک تابوت بنوایا تاکہ آپ کا بدن مبارک ظاہر نہ ہو۔ حضرت فاطمہ زہراء کی وصیت کے مطابق اسماء نے امام علی کو آپ کے پاک بدن کو غسل دینے میں مدد دی۔
اسماء قضیہ فدک کے گواہ اور حدیث نحن معاشر الانبیاء لا نورث ماتر کناہ صدقہ کی تکذیب کرنے والی تھیں لیکن حضرت ابو بکر نے آپ کی گواہی کو قبول نہ کیا۔
امام محمد باقر ایک روایت میں سات جنتی بہنوں کے نام بیان کرتے ہیں اور ان کے لئے خدا کی رحمت کے طلبگار تھے۔ ابتداء میں اسماء بنت عمیس کا نام تھا۔
پیغمبر اکرم کی ایک حدیث میں مومن بہنوں میں اسماء کا نام آیا ہے۔
شیخ طوسی آپ کو اصحاب رسول خدا سے مانتے ہیں۔
اسماء پیغمبر اکرم اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا سے روایت بیان کرتی ہیں۔
عبداللہ بن جعفر‘ قاسم بن محمد بن ابی بکر‘ فاطمہ بنت علی اور عبداللہ بن عباس اور دوسروں نے آپ سے حدیث کو سنا۔
زرارة بن اعین
آل اعین ‘ کوفہ میں شیعہ مذہب خاندان تھا۔ یہ خاندان امام سجاد سے غیبت کبریٰ تک اہل بیت کے ساتھ تھے۔ اعین کا معنی کھلی آنکھ والا ہے۔ زرارہ بن اعین کے والد ایک رومی غلام تھے کہ جنہیں قبیلہ بنی شیبان نے شہر حلب سے خریدا اور قرآن کریم پڑھانے اور تعلیمات دین سکھانے کے بعد آزاد کر دیا۔ اعین کے بیٹے بزرگ شیعہ علماء میں سے ہیں۔ زرارہ کا نام اعین کے دیگر بیٹوں سے زیادہ روشن تر ہے۔
زرارة 80ئھ میں پیدا ہوئے اور 150ئھ میں امام صادق کی شہادت کے دو ماہ سے کم عرصہ بعد میں فوت ہوئے آپ امام محمد باقر و امام جعفر صادق کے مخلص ترین اور قابل اعتماد ترین راویوں میں سے تھے۔ آپ نے فقہ‘ حدیث ‘ کلام ‘ ادب اور شعر کو سیکھا لیکن فقہ میں آپ کی مہارت زیادہ ہے فقہ کا کوئی باب ایسا نہیں کہ جس میں زرارہ کی حدیث موجود نہ ہو۔ شیعہ حدیثی آثار میں زرارہ سے دو ہزار حدیث منقول ہے۔
زرارہ ان لائق اور با معرفت ترین افراد میں شامل ہے کہ جسے وہ مقدس کتاب دیکھنا نصیب ہوئی جو پیغمبر اکرم نے حضرت علی کو املا کی صورت احکام شریعت لکھائے تھے۔
امام باقر نے زرارہ کو جنت کی بشارت دی اور فرمایا۔ خد ا پر یہ حق ہے کہ آپ کو جنت میں جگہ دے۔ امام صادق نے بھی آپ سے جنت کا وعدہ کیا۔
علماء رجال نے بھی آپ کی تعریف کی ہے۔ معروف شیعہ رجال کے عالم نجاشی کہتے ہیں۔ زرارہ ہمارے بزرگ اساتذہ‘ فقیہ‘ متکلم‘ شاعر‘ ادیب‘ علم قرائت کے استاد تھے۔ تمام ذاتی و دینی خصوصیات آپ میں جمع تھیں۔
آپ سچے‘ قابل اعتماد‘ اپنے زمانے کے تمام اصحاب میں سے مقدم تھے۔ زرارہ کی بہت سی تالیفات ہیں۔ لیکن صرف الاستطاعة و الجبر والعھود کتاب ہی آپ کے نام سے لکھی گئی۔ ہشام بن سالم‘ عمر بن اذینہ‘ بن دواج آپ کے اساتذہ اور بکیر بن اعین‘ حمران بن اعین وغیرہ نے آپ سے حدیث کو نقل کیا ہے۔
صفوان بن یحییٰ
صفوان ‘ یحییٰ کے بیٹے‘ آپ کی کنیت ابو محمد بجلی کوفی ہے۔ آپ قیمتی ترین کپڑا سابری کے نام سے فروخت کرتے تھے اسی لئے آپ کو سابری بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد امام صادق کے اصحاب میں سے تھے۔ آپ خود امام کاظم‘ امام رضا ‘ امام نقی کے ساتھیوں اور راویوں اور امام رضا کے وکیل تھے آپ 210ئھ میں فوت ہوئے۔
امام تقی علیہ السلام کو آپ سے خاص محبت تھی ۔ امام نے آپ کی وفات پر اپنی طرف سے کفن اور حنوط بھیجا اور امام کاظم کے بیٹے اسماعیل کو حکم دیا کہ آپ کی نماز جنازہ پڑھائے اورایک روایت کے مطابق صفوان سے اپنی رضایت کو بیان کیا۔
صفوان تجارت میں عبداللہ بن جندب اور علی بن نعمان کے شریک تھے۔ ایک دن انہوں نے بیت اللہ الحرام میں عہد کیا کہ جو کوئی پہلے فوت ہوا جو زندہ رہے وہ دوسرے کے لئے نماز‘ روز‘ زکوٰة دے گا۔ وہ دونوں پہلے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ صفوان دن میں 150رکعت نماز پڑھتے سال میں تین مہینے روزے رکھتے۔ ہر سال تین مرتبہ زکوٰة دیتے۔ جو مستحب کام بھی بجا لاتے ان دونوں کے لئے بھی انجام دیتے۔
صفوان اصحاب اجماع میں سے ہیں شیعہ علماء بالاتفاق آپ کی روایات کے صحیح ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ نجاشی آپ کو ثقہ‘ عین ثقہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ شیخ طوسی صفوان کو علماء حدیث کے نزدیک موثق ترین افراد میں سے سمجھتے ہیں۔ آپ اپنے زمانے کے عبادت گزار ترین افراد میں سے تھے۔
صفوان نے 30کتابیں تصنیف کیں اور آپ کا نام سلسلہ سند میں 1100سے زیادہ مرتبہ آیا ہے۔ صفوان نے ابن ابی عمیر‘ ابن بکیر ‘حماد بن عثمان‘ عبداللہ بن سنان اور دوسروں سے روایت کو سنا ہے اور احمد بن محمد بن ابی البزنطی‘ محمد بن خالد البرقی‘ فضل بن شاذان نیشاپوری وغیرہ نے آپ کی حدیث کو نقل کیا ہے۔
یونس بن عبدالرحمن
یونس‘ عبدالرحمن کے بیٹے تقریباً 125ئھ میں پیدا اور 208ئھ میں مدینہ میں فوت ہوئے۔ آپ اصحاب آئمہ علیھم السلام اور بلند مقام و منزلت کے حامل تھے۔ حج کے زمانے میں امام صادق کی زیارت کی لیکن آپ سے حدیث نقل نہیں کی۔ آپ نے روایات کو امام کاظم اور امام رضا سے سنا۔
یونس کی مدح و تعریف میں بہت سی احادیث آئی ہیں۔ امام رضا علم و فتویٰ کے لئے لوگوں میں آپ کی شناخت کراتے۔ امام کاظم کی شہادت کے بعد آپ کے بعض نمائندے منحرف ہو گئے کہ جو واقفیہ کہلائے انہوں نے یونس کے لئے بہت دولت و ثروت بھیجی تاکہ آپ کو حق کے راستہ سے ہٹائیں لیکن یونس نے ان کی کسی پیش کش کو قبول نہ کیا اور حق پر ثابت قدم رہے۔
بعض علماء کا نظریہ ہے کہ صفوان کا یہی رویہ باعث بنا کہ واقفیہ آپ کے دوستوں میں آپ کے روشن چہرہ کو ضرب لگائیں اور آپ کے خلا ف بدگوئی کریں۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ بصرہ کے کچھ لوگ امام رضا کی خدمت میں شرفیاب ہوئے امام یونس سے فرماتے ہیں کہ پردہ کے پیچھے چھپ جائیں۔ وہ گروہ امام کے حضور یونس کی بدگوئی کرنے کے بعد چلے گئے یونس پردہ کے پیچھے سے روتے ہوئے باہر آئے اور امام سے فرمایا میں آپ پر قربان ہو جاؤں آپ کی حمایت کرتا ہوں اور دوسروں کے نزدیک میری یہ حالت ہے۔
امام نے اس سے فرمایا۔ اے یونس ان کے کہنے سے تجھے کیا نقصان پہنچا ہے۔ جب کہ تیرا امام تجھ سے راضی ہے۔ یونس اگر تیری دائیں ہاتھ میں موتی ہو اور لوگ کہیں فضلہ ہے تو تجھے کیا نقصان پہنچے گا۔ اگر تمہارے ہاتھ میں فضلہ ہو اور لوگ کہیں موتی ہے تو کیا نفع تجھے حاصل ہو گا۔ یونس نے جواب دیا کچھ بھی نہیں۔
امام نے فرمایا تیرا حال بھی یہی ہے۔ اگر نیک ہو اور امام تجھ سے راضی ہے تو لوگ تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔
امام حسن عسکری جب آپ کی کتاب یوم ولیلة کو دیکھتے ہیں تو فرماتے ہیں۔ خداوند ہر حرف کے بدلے قیامت کے دن اسے ایک نور عطا کرے گا۔ ہشام بن سالم بن حکم‘ ابان بن عثمان آپ کے اساتذہ اور ابن ابی عمیر‘ ابو عبداللہ البرقی‘ محمد بن عیسیٰ نے آپ سے روایت کو سنا ہے۔
حسن بن محبوب
حسن‘ محبوب کے بیٹے‘ زراد یا سراد کوفی کے نام سے مشہور ہیں اور 224ئھ میں پیدا اور 75سال کی عمر میں فوت ہوئے۔
حسن بن محبوب امام کاظم اور امام رضا کے ساتھیوں میں سے ہیں۔ آپ امام صادق کے 60شاگردوں سے حدیث کو نقل کرتے ہیں۔
حسن بن محبوب کو اصحاب اجماع سے سمجھا گیا ہے۔ آپ ایک جلیل القدر ‘ ثقہ اور اپنے زمانے کے چار بزرگ افراد میں سے ایک تھے۔ بقیہ تین افراد۔ یونس بن عبدالرحمن‘ صفوان بن یحییٰ‘ احمد بن محمد بن ابی نصیر بزنطی کے جوار کان اربعہ کے نام سے مشہور ہیں۔
سراد یا زرار کے نام یک شہرت کا سبب آپ کے تیسرے جد وھب ہیں کہ جوزرہ بنانے والے اور جریر بن عبداللہ بجلی کوفی کے غلام تھے۔ وھب امام سے درخواست کرتے ہیں کہ جریر سے اس کو خرید لیں اور جریر کہ جو معاویہ کا معتقد تھا ۔ وھب کو آزاد کرتا ہے تاکہ ولایت کے حق کو ضائع نہ کرے لیکن وھب امام علی کے معتقد تھا اور آپکا خادم ہو جاتا ہے۔
حسن اپنے باپ کے شوق سے روایت کولکھتا ہے اور ہر روایت کو لکھنے کے بدلے میں علی بن رئاب سے ایک درہم لیتا ہے۔
امام رضا نے اسے لکھا خداوند نے تمہاری زبان پر حکمت کو جاری کیا ہے اور تائید فرمائی کہ خدا نے تجھے سیدھے راستہ پر ہدایت کی ہے۔ اور تیری آخرت کو تجھ پر آسان کرے اور اپنی اطاعت میں تجھے کامیاب کرے۔
شیخ طوسی علم رجال کے عظیم عالم آپ کو قابل اطمینان سمجھتے ہیں۔ ابن داؤد حلی بھی آپ کے بارے میں فرماتے ہیں فقہا آپ سے جو روایت کرتے ہیں صحیح جانتے ہیں۔
المسیخة ابن محبوب کی پہلی تالیف ہے کہ جوعلم رجال کے موضوع پر لکھی گئی لیکن متاسفانہ اصحاب آئمہ کی دیگر کتب کی طرح ہمارے ہاتھوں تک نہیں پہنچی۔
الحدود‘ النوارد‘ النکاح و کتاب تفیسر جیسی کتابوں کو حسن بن محبوب کی تالیف سمجھا جاتا ہے۔ ابن ابی عمیر ‘ علی بن رئاب‘ ابن سنان‘ حماد بن عیسیٰ آپ کے سایتہ اور احمد بن ابی عبداللہ البرقی علی بن مھز یار اور عبداللہ بن صلت آپ کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔
احمد بن محمدبن ابی نصر البزنطی
احمد بن محمد کہ جو بزنطی کے نام سے مشہور ہیں امام رضا اور امام تقی کے محترم ترین اصحابمیں سے ہیں آپ 221ئھ میں فوت ہوئے بزنطی کے نام سے مشہور ہونے کی وجہ آپ کا پیشہ ہے کہ آپ بزنطی نامی کپڑا فروخت کرتے تھے یا سیتے تھے آپ اہل کوفہ میں سے ہیں۔ بزنطی اصحاب اجماع میں سے ہیں علماء جب روایت میں آپ کے نام تک پہنچتے ہیں اس سند سے معصوم تک اعتماد کرتے ہیں‘ شیخ طوسی فرماتے ہیں کہ ابتداء میں وہ واقفی مذہب تھے چونکہ آپ نے امام رضا کی امامت کے معجزات کو دیکھنے کے بعد حق کو قبول کرلیا اور پھر آپ کے بیٹے کی امامت کے قائل ہو گئے اور امام رضا کی خاص عنایت بھی آپ کے حصہ میں آئی۔
امام رضا کی بزنطی پر خاص توجہ کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک رات جب بزنطی آپ کی خدمت میں تھے اور جب جانا چاہا حضرت نے اپنی کنیز سے کہا کہ امام کے مخصوص بستر کو بزنطی کے لئے بچھاؤ وہ خود سوچتے تھے کہ کس کو میری طرح یہ اعزاز حاصل ہے۔ کہ ولی خدا کے گھر اس کے بستر پر سوئے اور جب یہ سوچ آپ کے دماغ میں آئی امام نے اس سے کہا احمد یاد رکھو امیرالمومنین صعصعہ بن صوحان کی عیادت کے لئے گئے اور واپسی پر فرمایا صعصعة یہ کہ تیری عیادت کی اپنے دینی بھائیوں پر گھمنڈ نہ کرنا۔ خدا سے ڈرو۔ متواضع رہو تاکہ خدا تجھے بلند مقام عطا کرے۔
شیخ طوسی اور نجاشی اور ثقہ امام رضا اور امام جواد کے عظیم المنزلت اصحاب میں سے سمجھتے ہیں۔ بزنطی کا نام سلسلہ سند میں سات سو مرتبہ آیا ہے۔ دو اماموں کے علاوہ ابن ابی یعفور ابن بکیر ‘ صفوان بن یحییٰ وغیرہ سے روایت کرتے ہیں۔ ابو عبداللہ البرقی‘ الحسین بن سعید‘ علی بن مھزیار آپ کے شاگرد وں اور راویان حدیث میں سے ہیں۔
عبداللہ بن جعفر الحمیری
ابو العباس عبداللہ بن جعفر حمیری قم کے بزرگ علماء اور شیعہ کے درخشندہ ستارے ہیں آپ امام علی نقی اور امام حسن عسکری کے ساتھیوں میں سے ہیں۔ 290ئھ کو کوفہ میں داخل ہوئے کوفہ کے لوگ آپ کے بیانات سے استفادہ کرتے۔ آپ نے وہاں پر اپنے شاگردوں کی تربیت کرنا شروع کی۔ آپ یمنی الاصل سمجھے جاتے ۔
علماء علم رجال آپ کو ثقہ اور قابل اطمینان سمجھتے ہیں اور آپ کے بہت سے قلمی آثار کو بیان کرتے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
الامامة ‘ الدلائل‘ العظمة والتوحید‘ الغیبة والغیبة والحیرہ‘ الطب‘ المسائل و التوقیعات آپ کا ایک اور قیمتی اثر کہ جو باقی رہ گیا ہے قرب الاسناد ہے۔ قرب الاسناد وہ کتا ب ہے کہ جو قدیم محدثین میں رائج تھی۔ اس میں عالی السند احادیث اور امام تک کم واسطہ تک پہنچنے والی روایات کو جمع کیا گیا ہے۔ علی بن ابراہیم ‘ محمد بن عیسیٰ‘ یقطینی اور علی بن بابویہ بھی قرب الاسناد رکھتے ہیں لیکن صرف قرب الاسناد حمیری ہی اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے۔
کہ جس میں نزدیک ترین سند امام صادق اور امام کاظم اور امام رضا تک پہنچنے والی روایات کو جمع کیا گیا ہے۔
ابراہیم بن شھریار‘ احمد بن حمزہ‘ محمد بن عیسیٰ آپ کے اساتذہ اور احمد بن محمد‘ سعد بن عبداللہ ‘ محمد بن سعید آزربائیجانی کو آپ کے شاگردوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
محمد بن عبداللہ آپ کے بیٹے نے بھی آپ کے علم سے فائدہ اٹھایا بعض قرب الاسناد کو آپ کے ساتھ نسبت دیتے ہیں۔
علی بن ابراہیم قمی
علی بن ابراہیم قم کے بزرگ مصنفین ‘ محدثین اور حدیث کے برجستہ ترین اساتذہ میں سے ہیں۔ شیعہ علماء رجال آپ کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں اور ثقہ فی الحدیث جیسی تعابیر استعمال کرتے ہیں
آپ کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات ہمارے اختیار میں نہیں ہیں۔ گویا آپ امام حسن عسکری کے زمانے میں شیعہ روات میں سے تھے اور 307ئھ تک زندہ رے آپ کی وفات کی صحیح تاریخ لکھی نہیں گئی۔
علی بن ابراہیم نے بہت سی روایات کو سنا اور بہت سی کتابوں کو تالیف کیا آپ وسط عمر میں نابینا ہو گئے۔ آپ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں یہی کافی ہے کہ ثقة الاسلام کلینی نے اپنی کتاب کافی میں آپ کی بہت سی احادیث کو بیان کیا ہے۔ دعاؤں کی سند‘ مسجد سہلہ کے اعمال کہ جو سب کے نزدیک قابل قبول ہیں کی سند آپ تک ہی پہنچتی ہے۔
آپ کے والد ابراہیم بن ہاشم امام رضا کے اصحاب میں سے اور یونس بن عبدالرحمن کے شاگرد تھے کہ جو کوفہ سے قم آئے آپ ان پہلے افراد میں سے ہیں کہ جنہوں نے اہل کوفہ کی احادیث کو قم میں نشر کیا۔ علماء قم میں ان روایات کا منتشر ہونا ان کی قبولیت کی دلیل ہے۔ آپ کے بیٹے علی نے بھی بہت سی روایات کو اپنے والد سے سنا۔
علی بن ابراہیم کا نام سات ہزار روایات میں موجود ہے اور تفسیر قمی کہ جو اس وقت بھی علماء و محقیقین کے لئے قابل استفادہ ہے آپ کی تالیفات میں سے ہے۔ الناسخ والمنسوخ‘ المغازی الشرائع اور قرب الاسناد آپ کی دیگر کتابوں میں سے ہیں۔
آپ نے احمد بن ابی عبداللہ ‘ اسحاق بن ابراہیم‘ عبداللہ بن الصلت‘ محمد بن عیسیٰ اور بہت سے دوسروں سے روایت کو سنا ہے اور شیخ کلینی ‘ حسن بن حمزہ علوی نے آپ سے روایت کو نقل کیا۔
حسین بن سیدا ھوازی
بزرگ شیعہ فقیہ‘ محدث حسین بن سعید اھوازی اورآپ کے بھائی حسن دونوں اصحاب امام رضا ‘ امام تقی ‘ امام نقی میں سے ہیں۔ آپ کے دادا حماد بن سعید امام زین العابدین کے دوستوں میں سے ہیں۔ یہ دونوں بھائی اہل کوفہ میں سے تھے۔ لیکن بعد میں اھواز منتقل ہو گئے اور حسین قم آئے اور حسن بن ابان کے گھر قیام کیا اور تقریباً 300ء ھ میں فوت ہوئے۔
شیعہ علماء نے ان دونوں بھائیوں پر اعتماد کیا ہے اور ثقہ اور جلیل القدر جیسے الفاظ سے تعریف کی ہے۔ دونوں بھائیوں نے شیعہ مذہب کی ترویج و اشاعت کے لئے بہت کوششیں کی ہیں۔ حسن بن سعید علی بن مھزیار اور اسحاق بن ابراہیم اور علی بن ریان کی ہدایت کا سبب بنے اور انہیں امام رضا کی خدمت میں پہنچایا۔ ان دونوں بزرگوں کی خصوصیات میں دونوں کا ملکر تالیفاتی کام انجام دینا ہے۔ علم رجال کے منابع میں 30آثار ان بھائیوں کے نام سے درج ہیں۔ حسین بن سعید کی کتاب الزھد خاص شہرت رکھتی ہے اور اس وقت بھی محققین اس سے بھرہ مند ہو رہے ہیں۔ ابن ندیم ان دونوں کی توصیف میں لکھتے ہیں ہر کسی سے فقہ ‘ آثار‘ مناقب اور علوم شیعہ میں دانا ترہیں۔
شیخ صدوق بھی حسین بن سعید کی کتابوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ حسین بن سعید کا نام سلسلہ سند میں تقریبا ً پانچ ہزار مرتبہ آیا ہے۔ ابن ابی عمر‘ حسن بن محبوب‘ احمد بن محمد بن ابی نصر‘ عثمان بن عیسیٰ‘ حماد بن عیسیٰ آپ کے اساتذہ اور سعد بن عبداللہ‘ احمد بن محمد بن خالد‘ علی بن مھزیار اور ابراہیم بن ہاشم آپ کے شاگردوں اور روایت نقل کرنے والوں میں سے ہیں۔
احمد بن محمد بن خالد برقی
احمد بن محمد برقی کے نام سے مشہور امام جواد اور امام ھادی علیہا السلام کے اصحاب میں سے ہیں آپ کی کنیت ابو جعفر ہے۔ یوسف بن عمر آپ کے تیسرے دادا کو جیل میں بند کر دیا ہے اور زید بن علی کی شہادت کے بعد انہیں قتل کر دیا ہے۔ اس وقت خالد اپنے والد کے ساتھ قم ہجرت کی اور برقہ نامی دیہات میں رہائش پذیر ہو جاتے ہیں اسی لئے آپ کو برقی کہا جاتا ہے۔ احمد بزرگ شیعہ علماء اور مئولفین میں سے ہیں آپ 274ء یا 280ئھ میں فوت ہوئے۔
بہت سے علماء رجال نے آپ کو ثقہ اور قابل اطمینان جانا ہے۔ لیکن اس اعتبار سے کہ ضعیف افراد سے حدیث کو نقل کیا ہے۔ قمی علماء نے مذمت کی ہے۔ اس اعتبار سے احمد بن محمد بن محمد عیسیٰ کہ جو اس زمانہ میں علماء قم کے رئیس تھے انہیں قم سے دربدر کر دیا۔ لیکن کچھ مدت کے بعد آپ کو واپس بلا لیا اور آپ کے جنازہ میں ننگے سر و پاؤں شرکت کی تاکہ آپ سے کی گئی توہین کا کچھ ازالہ کرسکیں۔
نجاشی کہ جو شیعہ علم رجال کی مشہور شخصیت ہیں فرماتے ہیں۔ آپ خود مورد اطمینان تھے۔ اورضعیف افراد سے بھی روایت بیان کرتے ہیں اور مرسل و بغیر سند حدیث پر بھی اعتماد کرتے ہیں شیخ الطائفة اور علامہ حلی بھی آپ کو قابل اطمینان سمجھتے ہیں۔ برقی کے بہت سے قلمی آثار ہیں۔ مشہور کتاب المحاسن کہ جو سو کتابوں پر مشتمل مختلف فقہی موضوعات‘ احکام‘ آداب‘ علل الشرائع وغیرہ کو جمع کیا ہے۔ اب ان کتابوں میں سے صرف گیارہ کتابیں ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ کہ فقط دو جلدیں چھپ سکی ہیں۔
علامہ مجلسی برقی کی کتاب محاسن کو معتبر شیعہ اصول میں سے سمجھتے ہیں۔ شیخ صدوق اور کلینی بھی محاسن پر اعتماد کرتے ہیں اور بہت سی روایات کو اس سے نقل کرتے ہیں۔
برقی دو سو آدمیوں سے حدیث نقل کرتے ہیں کہ جن میں سے بعض یہ ہیں۔ احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی‘ حسن بن محبوب‘ حماد بن عیسیٰ اسی طرح محمد بن الحسن الصفار‘ علی بن ابراہیم ‘ محمد بن الحسن بن الولید نے آپ سے روایات کو سنا ہے۔
محمد بن ابی عمیر
محمد‘ زیاد کے بیٹے‘ آپ کی کنیت ابو احمد ازدی ہے۔ آپ کو اکثر اپنے والد کی کنیت سے ہی مشہور ہیں۔ آپ امام موسیٰ کاظم ‘ امام علی رضا ‘امام محمد تقی کے اصحاب میں سے ہیں اور 217ئھ میں فوت ہوئے۔ شیعہ و سنی علماء نے آپ پر اطمینان کیا ہے۔
آپ اصحاب اجماع اور اصول اربعماة میں سے ایک اصول کے مئولف بھی ہیں۔ آپ اپنے زمانے کے عابد ترین اور پرہیز گار ترین افراد میں سے تھے۔
حافظ ‘ مشہور سنی عالم دین‘ قحطان کے لوگوں کی عدنان پر برتری میں ابن ابی عمیر کا نام لیتا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے۔
محمد بن ابی عمیر حدیث کو بیان کرنے میں نہایت دقت سے کام لیتے تھے۔ باوجود اس کے کہ آپ نے اہل سنت علماء سے بھی بہت کچھ سنا تھا لیکن کہیں بھی ان سے نقل نہیں کیا۔ تاکہ آئمہ کا کلام ان کے کلام سے مل نہ جائے۔ ہارون الرشید نے آپ کو مجبور کیا کہ امام کاظم کے کچھ شیعوں کے نام بتائے یا کسی شہر کے قاضی کے منصب کو قبول کرے لیکن آپ نے اس کی ان تجاویز سے ہرگز اتفاق نہ کیا۔ اسی لئے اس نے آپ کو قید میں بند کر دیا اور تازیانے مارے گئے۔ اسی دوران آپ کی بہن نے آپ کی 94جلد کتابوں کو زمین میں چھپایا کہ جو بعد میں ضائع ہو گئیں۔ آپ انتہائی عبادت گزار تھے بعض اوقات صبح کی نماز کے بعد سجدے میں سر رکھتے اور ظہر کے وقت اٹھاتے۔
ابن ابی عمیر بھی ایک تاجر اور دولتمند شخص تھے جب چار سال کے بعد جیل سے نکلے تو آپ کی تمام جمع شدہ ثروت ختم ہو چکی تھی۔ اس وقت ایک شخص کہ آپ کا مقروض تھا اس نے اپنے گھر کو بیچا اور ایک ہزاردرہم آپ کے لئے لایا لیکن آپ نے وہ رقم لینے سے انکار کر دیا اور کہا بے شک مجھے ایک درہم کی بھی ضرورت ہے لیکن امام صادق نے فرمایا‘ مقروض شخص کو قرض کی وجہ سے اپنے گھر سے نہیں نکالنا چاہئے۔
آپ کی بعض کتب میں الاحتجاج فی الامامة‘ الکفروالایمان‘ اختلاف الحدیث وغیرہ شامل ہیں ابوبصیر‘ ابان بن عثمان اور جمیل دراج‘ جیسی بزرگ شخصیات آپ کے اساتذہ میں سے ہیں اور ابوعبداللہ برقی‘ ابراہیم بن ہاشم اور محمد بن عیسیٰ وغیرہ جیسوں نے آپ سے روایت کو سنا ہے۔
شیخ طوسی ابو جعفر
محمد کہ جو شیخ طوسی کے نام سے مشہور ہیں398ئھ رمضان المبارک کے مہینہ میں طوس کے مقام پر پیدا ہوئے۔ 1408ئھ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعداس وقت کے دارالحکومت بغداد چلے گئے۔ اور وہاں پر جا کر شیخ مفید کی سربراہی میں دینی تعلیم کے مدرسہ میں داخلہ لیا۔ اس وقت آپ کی عمر 23 تھی شیخ مفید کے درس میں شرکت کی وجہ سے جلد ہی آپ اپنے استاد کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی۔
آپ نے شیخ مفید سے پانچ سال تک کسب فیض کیا اور اسی دوران اپنے استاد کی کتاب المقنعہ کہ جو شیعہ فقہ کی مختصر کتا ب کی شرح لکھی اور شیخ مفید کی وفات تک کتاب طہارت کو مکمل کیا اسی طرح شیعہ کی چار معتبر کتابوں میں سے ایک کتاب تہذیب الاحکام آپ کی جوانی کی یادگار ہے۔
شیخ طوسی نے شیخ مفید کی وفات کے بعد 23سال تک سید مرتضی سے علمِ کلام و فقہ اور اصول کے دروس سے استفادہ کیا اور426ئہجری سید مرتضی کی وفات کے بعد شیعہ حوزہ علمیہ کے رئیس بن گئے جبکہ اس وقت شیخ مفید کے نسبت سے لائق شاگرد جیسے کرا چکی اور نجاشی زندہ تھے۔
شیخ طوسی 447ئھ میں بغداد کے شیعوں کے قتل عام کے وقت بغداد سے نجف اشرف کہ جو ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ رہائش پذیر ہو گئے۔ آپ کے دروس کی وجہ سے نجف ایک بہت بڑے شیعہ حوزہ علمیہ کی شکل اختیار کر گیا۔ کہ جہاں سے نامور شیعہ علماء پیدا ہوئے آپ نے 22محرم 460ئھ میں وفات پائی۔
شیخ طوسی کو شیخ الطائفة کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس وقت کے بہت سے نامور علماء آپ کے شاگرد تھے اور اکثر حدیث کے اجازے آپ پر منتھی ہوتے آپ نے حدیث‘ فقہ ‘ رجال میں بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں شیعہ حدیث کی چار اہم کتابوں میں سے دو آپ کی تالیف کردہ ہیں۔
آپ کے بعض قلمی آثار درج ذیل ہیں۔
”تھذیب الاحکام‘ الاستبصار‘ النھایة ،فہرست‘ الخلاف ،التبیان‘ المبسوط‘ رجال اور مصباح المتھجد“300مجتہدین آپ کے شاگردوں میں سے تھے۔
آپ کے بیٹے ابو علی کہ جو مفید ثانی کے نام سے مشہور ہیں‘ شہر آشوب مازندرانی قاضی بن براج‘ فتال نیشیاپوری آپ کے نامور شاگردوں میں سے ہیں۔
ابو بصیر
ابو بصیر‘ اصحاب امام باقر و امام صادق علیھا السلام کہ جو یحییٰ بن ابی القاسم اسدی اور میت بن بختر مرادی کے ناموں سے مشہور ہیں۔
بہت سی روایات میں ابو بصیر کا نام بغیر کسی قید کے سند میں ذکر کیا گیا ہے کہ دیگر قرائن کی مدد سے ہی راوی کی شخصیت کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ بہت سے علماء علم رجال نے آپ کو ثقہ اور مورد اطمینان قرار دیاہے۔
ابو بصیر یحییٰ‘ ابو القاسم اسدی کے بیٹے‘ شیعہ علماء میں سے تھے آپ 150ئھ میں فوت ہوئے‘ آپ کی کنیت ابو محمد ہے ممکن ہے کہ آپ کو ابو بصیرا س لئے کہا جاتا ہے چونکہ آپ بینائی سے محروم تھے۔ ابو بصیر اسدی‘ امام باقر ‘ صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے اور بہت سی فقہی‘ اعتقادی روایات آپ نے نقل کی ہیں۔ آپ کا شمار شیعہ رہبری کے ایک قطب کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ آپ نے فکری و اعتقادی لحاظ سے مختاریہ اور زیدیہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
ابو بصیر اسدی نے زندگی کے آخری دو سال امام کاظم کی امامت کو شروع ہوئے دو سال گزرے اور امام کاظم کا ساتھ دیتے ہوئے فطحیہ کا مقابلہ کیا۔ اور امام کاظم کے ممتا ز اصحاب میں سے آپ کا شمار ہوتا تھا۔ ابو بصیر اصحاب اجماع میں سے ہیں تمام شیعہ علماء نے آپ کی تعریف کی ہے۔
ابو بصیر حدیث کو نقل کرتے ہیں کہ جو لوح حدیث کے نام سے مشہور ہے اور بارہ اماموں پر اعتقاد کو مطرح کیا گیا ہے۔
آپ نے ابو حمزہ ثمالی‘ صالح بن میثم اور دوسروں سے روایت نقل کی ہے اور ابان بن عثمان ‘ عاصم بن حمید‘ عبداللہ بن حماد انصاری جیسوں نے آپ سے روایت کو نقل کیا ہے۔
ابو حمزہ ثمانی
ثابت بن دینار‘ پرہیز گار ترین علماء میں سے ہیں۔ کہ جنہوں نے اہل بیت کی عصمت و طہارت سے تربیت حاصل کی اور تشیع و ولایت کے مرکز کوفہ میں نشوونما پائی آپ نامور علمی شخصیت اور تشیع کے اہم ستونوں میں سے تھے۔ آپ کی کنیت ابو حمزہ مشہور ہے اسی لئے اکثر آپ کو ابو حمزہ ثمالی کہا جاتا ہے ثمالی کی وجہ شہرت اس لئے ہے کہ آپ کی قوم دودھ کہتھیلی پر رکھ کر پیتے تھے۔ یا اس لئے کہ آپ کے سوا آپ کے خاندان کے تمام افراد قتل ہو گئے۔
ابو حمزہ ثمالی ‘ امام زین العابدین ‘ امام محمد باقر ‘ امام صادق کے اصحاب میں سے تھے اور 150ئھ میں ستر سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ آئمہ معصومین نے ابوحمزہ کی شخصیت کی تعریف و تمجید کی ہے۔
امام صادق آپ کے بارے میں فرماتے ہیں ابو حمزہ اپنے زمانے میں سلمان کی طرح ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جب میں ابو حمزہ کو دیکھتا ہوں تو سکون محسوس کرتا ہوں۔ امام موسیٰ کاظم ابو حمزہ کو ان مومنوں میں سے سمجھتے ہیں کہ خداوند نے جن کے دلوں کو نورانی کیا اور صحیح علم و دانش عطا کی۔
علماء رجال نے ثقہ‘ عادل کے الفاظ سے تعریف کی ہے اور آپ کو امام سجاد کے قریب ترین افراد میں سے فقہ‘ کلام‘ تفسیر اور عرفان میں ابو حمزہ نے بہت سی روایات بیان کی ہیں ان کے علاوہ رمضان المبارک میں دعائے سحر کو ابو حمزہ ‘ امام زین العابدین سے نقل کرتے ہیں رسالة الحقوق‘ کتاب الزھد و النور آپ کی تالیفات میں سے ہیں۔
زید بن علی بن الحسین‘ جابر بن عبداللہ الانصاری‘ عبداللہ بن الحسن اور اصبغ بن نباتہ آپ کے اساتذہ میں سے ہیں حسن بنا محبوب‘ امان بن عثمان‘ ہشام بن سالم‘ محمد بن مسلم کے علاوہ 100سے زائد علماء آپ کے شاگردوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
عمار بن یاسر
حضرت عمار، یاسر کے بیٹے اور آپ کی کنیت ابو یقظان ہے۔ وہ اپنے زمانے کے ان چار بڑے آدمیوں میں سے تھے جنہیں اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کی باقی تین افراد درجہ ذیل ہیں۔
ابو ذر‘ مقداد اور سلمان
عمار کے والدین نے اسلام اور پیغمبر اکرم کی حمایت کی وجہ سے سخت تکالیف اٹھایں اور انہیں تکالیف کے نتیجہ میں شہید ہوئے۔
جب بھی پیغمبر اکرم عمار کے خاندان کو قریش کی طرف سے پہنچائی جانے والی تکالیف کو دیکھتے تو انہیں جنت کی بشارت دیتے ہوئے فرماتے صبرا یا آل یاسر فان موعدکم الجنة
عمار نے بھی سخت تکالف اٹھانے کے بعد قریش کے کہنے کے مطابق کہا جبکہ آپ کو یہ سب کچھ کہنے کو ہرگز پسند نہ کرتے تھے اور قریش کے ظلم و ستم سے جان بچانے میں کامیاب ہو گئے اور تقیہ کی آیت شاید آپ کی شان میں ہی نازل ہوئی‘ الدمن اکرہ و قبلہ مطمئن بالرعان
عمار یاسر حبشہ کے مہاجرین اور دو قبلہ کی جانب نماز پڑھنے والوں بدر اور دیگر جنگوں میں شریک ہونے والوں میں سے ہیں اور بیعت رضوان بھی نبی اکرم کے ساتھ تھے اور یہ ان تمام خواص میں سے ہر ایک آپ کی فضیلت اور برتری کے لئے کافی ہے۔ پیغمبر نے بھی کئی مرتبہ آپ کی تعریف و تمجید کی ہے اور آپ کے بارے میں فرمایا عمار کا پورا بدن پاؤں سے چوٹی تک آپ کے گوشت‘ پوست میں ایمان بھرا ہوا ہے۔
اسی طرح پیغمبر نے امام علی سے کہا جنت آپ ‘عمار‘ سلمان اور ابوذر کی منتظر ہے اور آپ کی شخصیت کے بارے میں فرمایا عمار حق کے ساتھ ہے اور حق عمار کے ساتھ ہے جب عمار اورخالد بن ولید کے درمیان جھگڑا ہوا تو پیغمبر اکرم نے فرمایا ۔
کہ جو کوئی بھی عمار کے ساتھ دشمنی کرے گا اس نے خدا کے ساتھ دشمنی کی اور جس نے بھی عمار کو ناراض کیا اس نے خدا کو ناراض کیا اورجس نے بھی عمار کو گالی دی اس نے خدا کو گالی دی۔
عمار امام علی کے ساتھیوں میں سے تھے۔ نبی اکرم کی رحلت کے بعد جناب فاطمہ زہرا کے جنازے میں شرکت کی اور جنگ جمل اور صفین میں امام علی کے سپہ سالاروں میں سے تھے اور امام علی کی حکومت کے ایک اہم ستون تھے۔
عمار 37ئھ کو جنگ صفین میں شہید ہوئے۔ نبی کریم کا عمارکے بارے میں مشہور جملہ کہ عمار کو ایک باغی و سرکش گروہ قتل کرے گا“ نے معاویہ اور اس کے ساتھیوں کی حقیقت کو ان کے لئے ظاہر کر دیا کہ جو شک و تردید کا شکار تھے اور عمار کی شہادت کے بعد بہت لوگ کہ جو جنگ میں شریک نہیں تھے شریک ہوئے اور جام شہادت نوش کیا۔
علماء رجال نے عمار کی شان و منزلت بیان کرتے ہوئے ان کی روایت کو تواتر کی حد تک جانا ہے۔ عمار روایات کو نبی اکرم اور امام علی اور حذیفہ بن یمان سے نقل کرتے ہیں اور جابر بن عبداللہ ‘ عبداللہ بن جعفر اور عبداللہ بن عباس وغیرہ نے بھی عمار یاسر سے روایات نقل کی ہیں۔
عبداللہ بن عباس
عبداللہ بن عباس رسول خدا کے چچا زاد بھائی اور نامور مفسرین قرآن میں سے ہیں۔
ابن عباس نے پیغمبر ‘ امام علی‘ امام حسن و حسین علیھم السلام سے روایات کو نقل کیا ہے۔ آپ بعثت کے گیارھویں سال پیدا ہوئے اور 69 ئہجری 71سال کی عمر میں فوت ہوئے محمد بن حنفیہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔
ابن عباس عمر کے آخری حصہ میں نابینا ہو گئے۔ بعض نے آپ کی نابینائی کی علت کو امام علی و امام حسن و حسین علیھم السلام پر بہت زیادہ گریہ کرنا کو بیان کیا ہے اور بعض نے امام حسنین کی مدد نہ کرنے کو بیان کیا ہے۔
امام علی کی حکومت میں آنحضرت کے ساتھیوں میں سے تھے اور خوارج کے ساتھ بحث و گفتگو کے لئے آپ کے نمائندہ مقرر ہوئے اور جنگ جمل میں آپ کی نمائندگی کرتے ہوئے حضرت عائشہ کے پاس گئے اور ایک مدلل گفتگو کے بعدآپ کو مدینہ جانے کے لئے کہا۔
امام علی نے حکمیت کے مسئلہ میں پہلے عبداللہ بن عباس کو ہی مقرر کیا اورآ پ کی توصیف میں فرمایا ”فان عمراً لا یعقد عقدة حلھا عبداللّٰہ ولا یحل عقدة الا عقدھا و لا یلبرم امرا الانقضہ و لا نیقض امرا الاابرمہ“ لیکن خوارج نے آپ کی مخالفت کی اور مجبوراً ابو موسیٰ اشعری کو مقرر کیا۔ ابن عباس ایک متین اور زبان رسا شخص تھے اور علم فقہ‘ تفسیر‘ تاویل ‘ انساب اور شعر میں اپنی مثال نہ رکھتے تھے۔ آپ کا شمار حضرت امام علی کے لائق شاگردوں میں سے ہوتا تھا۔ آنحضرت نے آپ کے حق میں دعا فرمائی تھی کہ اے پروردگار اسے دین کی آگاہی دے۔
علامہ حلی آپ کی توصیف میں فرماتے ہیں وہ امام علی کے ساتھی اور شاگرد تھے اور امام علی کے ساتھ آپ کا اخلاص اور وفاداری کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ ابن داؤد حلی رضی اللّٰہ عنہ کے الفاظ سے آپ کو یاد کرتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ آپ کی مذمت کے بارے میں بھی کچھ ارشادات ہیں۔ بصرہ کے بیت المال کے انچارج کی حیثیت سے آپ کی برطرفی اور امام علی کا عتاب انگیز خط بھی علماء رجال کی توجہ کا باعث بنا ہے بعض علماء نے اس حدیث کو مردو جانا ہے۔ امام علی کے ساتھ آپ کی محبت کی وجہ سے اس جیسی جھوٹی احادیث گھڑی گئیں۔
بعض دیگر علماء بھی اس قسم کی روایات کی نفی نہیں کرتے بلکہ معتقد ہیں کہ آپ معصوم نہ تھے اور امام علی حکومتی امور میں کسی کا لحاظ نہ کرتے تھے ان سب کے باوجود معروف شیعہ علماء آپ کو جلیل القدر‘ بلند مرتبہ‘ ثقہ‘ امام علی اور امام حسنین کا دفاع کرنے والے سمجھتے ہیں۔ عبداللہ بن عباس سے سعد بن عبادہ یاسر‘ ابوزرغفاری‘ ام سلمہ نے روایات کو سنا ہے اور ابو سعید خدری‘ عبداللہ بن جعفر‘ سعید بن جبیہ‘ عکرمة اور دوسروں نے آپ سے روایات نقل کی ہیں۔