حدیث نبوی(ص) کے بارے میں امیرالمومنین(ع) کا خطبہ
  • عنوان: حدیث نبوی(ص) کے بارے میں امیرالمومنین(ع) کا خطبہ
  • مصنف: آیت اللہ العظمی سعید طباطبائی
  • ذریعہ: اقتباس ازکتاب فریقین کے عقائد کا تحلیلی جائزہ
  • رہائی کی تاریخ: 13:48:14 3-9-1403


 امیرالمومنین(ع) سے پوچھا گیا کہ مولا یہ نئی نئی حدیثوں اور لوگوں کے پاس موجود حدیثوں میں اتنا واضح اختلاف کیسے ہوا؟
آپ نے فرمایا، لوگوں کے پاس حق بھی ہے اور باطل بھی، صدق بھی ہے اور کذب بھی، ناسخ بھی ہے اور منسوخ بھی ہے، عام بھی ہے اور خاص بھی، محکم بھی ہے اور متشابہ بھی، محفوظ بھی ہے موہوم بھی، پیغمبر(ص) پر تو آپ کی زندگی میں جھوٹ باندھا گیا یہاں تک کہ آپ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: جو مجھ پر جان بوحھ کے جھوٹ باندھے اس کی بیٹھک کو آگ سے بھر دیا جائے گا تمہارے پاس حدیث پہچانے والے چار طرح کے لوگ ہوتے ہیں پانچواں نہیں.


۱.وہ مرد منافق جو ایمان کا اظہار کرتا ہے اسلام میں بناوٹ کرتا ہے اور رنجیدہ نہیں ہوتا نہ کوئی حرج محسوس کرتا ہے پیغمبر(ص) پر عمدا جھوٹ باندھتا ہے اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ ہ جھوٹا اور منافق ہے تو اس سے نہ حدیث قبول کریں اور نہ اس کی تصدیق کریں لیکن تو یہ کہتے ہیں وہ پیغمبر(ص) کا صحابی ہے اس نے پیغمبر(ص) سے براہ راست سنا ہے اور حدیثیں حاصل کی ہیں نتیجہ میں لوگ اس سے اسی کے لفظوں میں حدیث لیتے ہیں حالانکہ خدا نے تو تمہیں منافقین کے بارے میں خبردار کر دیا ہے اور اچھی طرح منافقین کو پہچنوا دیا ہے یہ منافقین نبی(ص) کے بعد بھی باقی رہے اور انہوں نے گمراہ اماموں کے دربار میں کذب و افتراء کا بازاز گرم کیا، بہتان اور جھوٹ کے ذریعہ جہنم کی طرف دعوت دینے والے اماموں سے ملے ایسے ہی لوگوں کو خدمت کا موقع دیا گیا اور لوگوں کی گردنوں پر حاکم بنا دیا اور ان کے ذریعہ دنیا حاصل کی لوگ تو بادشاہ اور دنیا کے ساتھ رہتے ہی ہیں مگر صرف وہ لوگ جنہیں اللہ بخشنے کی توفیق دے چار میں سے ایک کا تعارف تو ہوگیا.


۲.دوسرا وہ جس نے حدیث نبی(ص) سے سنی ضرور لیکن اس کو یاد نہیں رکھ سکا نتیجہ میں وہم کا شکار ہوگیا وہ عمدا جھوٹ تو نہیں بولتا لیکن اپنے وہم کو حدیث سمجھ کے اپنے سامنے رکھتا ہے اور اسی کی روایت کرتا اور اسی پر عمل کرتا ہے اور یہ کہا ہے کہ میں نے ہر بات رسول اللہ(ص) سے سنی ہے، پس اگر مسلمانوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس کو وہم ہوا ہے تو اس سے حدیثیں قبول نہیں کریں گے وہ خود بھی اگر یہ جان جائے کہ اس کی روایتیں وہم کا نتیجہ ہیں تو انہیں چھوڑ دے گا.


۳.تیسرا وہ ہے جس نے نبی(ص) کو کسی چیز کے بارے میں امر کرتے ہوئے سنا لیکن آپ نے ‌جب اس کام کی نہی کی تو وہ موجود نہی تھا اس لئے نہیں سن سکا یا کسی چیز کی نہی سنا اور اس کے بارے میں جب نبی(ص) نے امر کیا تو نہیں سن سکا اب وہ اوامر و نواہی کے بارے میں نہیں جانتا اس کو منسوخ یاد ہے ناسخ نہیں معلوم اور اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے منسوخ ہے تو اس کو چھوڑ دے گا اور مسلمانوں کو بھی اگر معلوم ہو جائے کہ اس کے پاس منسوخ حدیثیں ہیں تو لوگ اس سے حدیثیں قبول نہیں کریں گے.


۴.چوتھا آدمی وہ ہے جو پیغمبر(ص) پر اور خدائے پیغمبر(ص) پر جھوٹ نہیں باندھتا بلکہ خوف خدا اور تعظیم پیغمبر(ص) کی بنیاد پر جھوٹ کا دشمن ہے اس کو وہم نہیں ہوتا بلکہ اس نے نبی(ص) سے جیسا سنا ویسا یاد رکھا اس میں نہ زیادتی کی نہ ہی کمی اس کے پاس ناسخ محفوظ ہے اسی پر عمل کرتا ہے اور منسوخ بھی محفوظ ہے جس سے وہ پرہیز کرتا ہے خاص اور عام کو پہچانتا ہے اور ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھتا ہے محکم اور متشابہ کو پہچانتا ہے.
کبھی ایسا ہوتا تھا کہ کلام پیغمبر(ص) کے دو رخ ہوتے تھے کلام خاص اور کلام عام سننے والا سن تو لیتا تھا  لیکن اس کو یہ نہیں معلوم ہوتا تھا خدا اور خدا کے رسول(ص) نے اس کلام سے کیا مراد لیا ہے وہ حدیث کو لیتا تھا اور چونکہ معنی سے واقف نہیں تھا اس لئے غیر معنی کی طرف توجیہ کر دیتا تھا اس کو یہ نہیں معلوم کہ اس حدیث کا مقصد کیا ہے اور حدیث کی حدوں سے خارج ہے پیغمبر(ص) کا ہر صحابی آپ سے سوال بھی نہیں کرتا تھا اور سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتا تھا بلکہ اصحاب پیغمبر(ص) تو چاہتے تھے کہ کوئی اعرابی یا مسافر آکے پیغمبر(ص) سے مسئلہ پوچھے تو وہ جواب سن کے فائدہ اٹھا لیں لیکن میرے سامنے جب بھی کوئی مسئلہ آتا تھا میں پیغمبر(ص) سے بخ تکلف ہو کے پوچھتا تھا اور اس کو یاد رکھتا تھا وہ مجھے اب تک یاد ہے یہی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے لوگوں میں حدیثوں کا اختلاف پایا جاتاہے نیز کمزور حدیثیں روایت کرنے کی بھی یہی وجہ ہے.
پوچھنے والے کا انداز سوال بتا رہاہے کہ بدعتی حدیثیں اور خبروں میں اختلاف اتنا جاری و سار ہوگیا تھا ہ لوگ مقام حیرت و شک میں تھے اور حق کی تمیز کی صلاحیت کھو بیٹھے تھے یہاں تک کہ سائل نے امیرالمومنین(ع) سے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی اور امیر المومنین(ع) کے جواب دینے کا انداز یہ بتا رہا ہے کہ لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ حدیثوں میں آلودگی ہو چکی ہے اور حدیث نبوی کو وہم و گمان ور کذب و افترا سے خلط ملط کر کے بیان کیا جارہا ہے عام مسلمان اس اختلاط سے غافل تھے ان کے پاس جو حدیثیں بھی پہونچی تھیں ان پر وہ آنکھ بند کر کے عمل کرتے تھے اور اندھا اعتماد کرتے تھے محض اس لئے کہ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ حدیثیں صحابی کے ذریعہ آرہی ہیں اور حدیث کے معاملے میں صحابی رسول (ص) پر افترا نہیں کرسکتا ان کے گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ صحابی جھوٹا اور منافق بھی ہوسکتا ہے وہ تو صحابی کو صحابی کی حیثیت سے جانتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ صحابی جھوٹ نہیں بول سکتا نہ اس کو وہم ہوسکتا ہے اور ناسخ و منسوخ سے بھی خوب واقف ہے.