فرقہٴ امامیہ جعفریہ
شیعت کا آغاز اورتعد اد ۱۔
عصر حاضر میں شیعہ اثنا عشری فرقہ مسلمانوں کاایک بڑافرقہ ھے ، جس کی کل تعداد مسلمانوں کے تقریباً ایک چوتھائی ھے ۔ اور اس فرقہ کی تاریخی جڑیں صدر اسلام کے اس دن سے شروع ھوتی ھیں جس دن سورہ بینہ کی یہ آیت نازل ھوئی تھی: [1]
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیا وھی بہترین مخلوق ھیں۔
چنانچہ جب یہ آیت نازل ھوئی تو رسول خدا (ص)نے اپنا ھاتھ علی کے شانہ پر رکھا اس وقت اصحاب بھی وھاں موجود تھے، اور آپ نے فرمایا : ” یٰا عَلِیُّ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ همْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ “؛ اے علی! آپ اور آپ کے شیعہ بہترین مخلوق ھیں ۔ تفسیر طبری ( جامع البیان )
اسی وجہ سے یہ فرقہ - جو امام جعفر صادق(ع) کی فقہ میں ان کا پیرو ھونے کی بنا پر ان کی طرف منسوب ھے- شیعہ فرقہ کے نام سے مشھورھوا ۔
شیعوں کا محل سکونت ۲
۔شیعہ فرقہ کثیر تعداد میں ایران ، عراق ، پاکستان اور ہندوستان میں زندگی بسرکرتاھے ، اسی طرح اس کی ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک ، ترکی ، سوریا (شام )، لبنان، روس اور اس سے جدا ھونے ھونے والے جدید ممالک میں موجود ھے ، نیز یہ فرقہ یورپی ممالک جیسے انگلینڈ ، جرمن ، فرانس اور امریکہ ، اسی طرح افریقی ممالک، اور مشرقی ایشیا میں بھی پھیلا ھوا ھے ، ان مقامات پر ان کی اپنی مسجدیں اور علمی ، ثقافتی اور سماجی مراکز بھی ھیں ۔
شیعوں کی ساخت و ساز ۳۔
اس فرقہ کے افراد اگرچہ مختلف ممالک ،قوموں اور متعدد رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ھيں لیکن اس کے باوجود اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کے ساتھ بڑے پیار و محبت سے رہتے ھيں ،اور تمام آسان یا مشکل میدانوں میں سچے دل ا ور اخلاص کے ساتھ ان کا تعاون کرتے ھیں،ا ور یہ سب اس فرمان خدا پر عمل کرتے ھوئے انجام دیتے ھیں: [2]
”مومنین آپس میں بھائی بھائی ھیں “۔
شیعوں کااسلامی خدمات کا علمبردار ھونا ۴۔
پوری تاریخ اسلام میں دین خدا اور ملت اسلامیہ کے دفاع کے سلسلہ میں اس فرقہ کا ایک اھم اورواضح کردار رھا ھے، جیسے اس کی حکومتوں اور ریاستوں نے اسلامی ثقافت اور تمدن کی ھمیشہ خدمت کی ھے ، نیز اس فرقہ کے علماء اور دانشوروں نے اسلامی میراث کو غنی بنانے اور بچانے کے سلسلے میں مختلف علمی اور تجربی میدانوںمیںجیسے تفسیر، حدیث، عقائد، فقہ، اصول، اخلاق، درایہ، رجال، فلسفہ، موعظہ، حکومت،سماجیاتت، زبان وادب،بلکہ طب اورفیزیکس کیمیا، ریاضیات، نجوم،اوراس کے علاوہ متعددحیاتیاتی علوم کے بارے میں لاکھوں کتابیں تحریر کرکے اس سلسلے میں بہت اھم کردار ادا کیا ھے، بلکہ بہت سے علوم کے موجد دانشور تو اسی فرقہ سے تعلق رکھتے ھیں.[3]
شیعوں کاعقیدہٴ توحید ۵۔
شیعہ فرقہ معتقد ھے کہ خدااحدو صمد ھے، اس کی نہ کوئی اولاد ھے اور نہ والد، اور نہ اس کا کوئی کفو ھے اور نہ ھمسر ، اور اس سے جسمانیت ، مکان، زمان ، جہت، تغیر ، حرکت، صعود ونزول وغیرہ جیسی صفات جو اس کی صفات کمال وجمال و جلال کے شایان شان نھيں ھیں،ان کی نفی کرتا ھے۔ اور شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نھیں، اور حکم اور تشریع (شریعت کاقانون بنانا ) صرف اسی کا کام ھے، اور ھر طرح کا شرک چاھے وہ خفی ھو یا جلی ایک عظیم ظلم اور ناقابل بخشش گناہ ھے ۔
اورشیعوں نے یہ عقائد،عقل محکم (سالم) سے اخذ کئے ھيں، جن کی تائید و تصدیق کتاب خدا اور سنت شریفہ سے بھی ھوتی ھے جو بھی اس کا مصدر ھو۔
اور شیعوں نے اپنے عقائد کے میدان میں ان احادیث پر تکیہ نھیں کیا ھے جن میں اسرائیلیات ( جعلی توریت اور انجیل ) اور مجوسیت کی گڑھی ھوئی باتوں کی آمیزش ھے، جنھوں نے الله کو بشر کے مانند ماناھے، اوروہ اس کی تشبیہ مخلوق سے دیتے ھیں، یا پھر اس کی طرف ظلم و جور، اور لغو و بیھودہ جیسے کاموں کی نسبت دیتے ھیں ،حالانکہ الله تعالی ان تمام باتوں سے بالکل پاک و پاکیزہ ھے،یا یہ لوگ خدا کے علی الاطلاق پاک و پاکیزہ اور معصوم انبیاء کی طرف برائیوں اور قبیح باتوںکی نسبت دیتے ھیں ۔
شیعوں کا عقیدہٴ عدل الٰھی ۶۔
شیعہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ خدا عادل اور حکیم ھے ،اور اس نے عدل و حکمت سے خلق کیا ، چاھے وہ انسان ھو یا حیوان،جماد ات ھوںیا نباتات، زمین ھو یاآسمان ، اس نے کوئی شے عبث خلق نھیں کی ھے،کیونکہ عبث (فضول یا بیکار ھونا) نہ صرف اس کے عدل و حکمت کے مخالف ھے بلکہ اس کی اس الوھی ت کے بھی مخالف ھے جس کا لازمہ یہ ھے کہ خداوند متعال کے لئے تمام کمالات کا اثبات کیا جائے ، اور اس سے ھر قسم کے نقص کی نفی کی جائے ۔
شیعوں کاعقیدہٴ نبوت ۷۔
شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ خدا وند متعال نے عدل و حکمت کے ساتھ ابتدائے خلقت سے ھی اس کی طرف انبیاء و مرسلین کو معصوم بنا کر بھیجا ، اور پھر انھیں وسیع علم سے آراستہ کیاجو وحی کے ذریعہ الله کی جانب سے انھیں عطا کیا گیا ،اور یہ سب کچھ نوع بشر کی ھدایت اور اسے اس کے گمشدہ کمال تک پہنچانے کیلئے تھا تاکہ اس کے ذریعہ اسے ایسی اطاعت کی طرف بھی راہنمائی ھوجائے جو اسے جنتی بنانے کے ساتھ ساتھ پروردگار کی خوشنودی اور اس کی رحمت کا مستحق قراردے، اوران انبیاء و مرسلین کے درمیان آدم ، نوح ، ابراھی م ، عیسی، موسی اور حضرت محمد مصطفی سب سے مشھور ھیں ، جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ھے، یا جن کے اسماء گرامی اور دیگر حالات احادیث میں بیان ھوئے ھیں۔
شیعوں کاعقیدہٴ اطاعت الٰھی اور نتائج ۸۔
شیعوں کا عقیدہ ھے کہ جو شخص الله کی اطاعت کرے ، اس کے احکام کو نافذ کرے ، اور زندگی کے ھر شعبہ میں اس کے قوانین پر عمل کرے وہ نجات یافتہ اور کامیاب ھے ، اور وھی مستحق مدح و ثواب ھے ، اور جس نے خدا کی نافرمانی کی ، وہ مستحق مذمت اور ھلاک ھونے اور گھاٹاا ٹھانے والوں میں سے ھے ۔
شیعہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ ثواب و عقاب ملنے کی جگہ روز قیامت ھے جس دن حساب و کتاب ، میزان اور جنت و دوزخ سب کے سامنے ھوں گی، اور یہ مرحلہ برزخ اور عالم قبر کے بعد ھوگا ۔
شیعوں کاعقیدہٴ خاتمیت اور امتیازات ۹۔
شیعہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ انبیاء ومرسلین کی آخری فرد اور ان سب سے افضل نبی حضرت محمد(ص) بن عبد الله بن عبد المطلب ھیں[4] جنھیں خداوند متعال نے ھر خطا اور لغزش سے محفوظ رکھا اور ھر گناہ صغیرہ و کبیرہ سے معصوم قرار دیا چاھے وہ قبل بعثت ھویا بعد بعثت ،چاھے تبلیغ کا مرحلہ ھو یاتبلیغ کے علاوہ کوئی اور کام ھو ،اور ان پر قرآن کریم نازل کیا ، تاکہ وہ حیات بشری کیلئے ایک دائمی دستور العمل قرار پائے ، پس رسول اسلام (ص)نے رسالت کی تبلیغ کی اور صداقت و اخلاص کے ساتھ لوگوں تک امانت کو پہنچا دیا ۔
شیعوں کے عقیدہٴ امامت کی بنیاد ۱۰۔
شیعہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ جب حضرت محمد مصطفی (ص) کی وفات کا وقت قریب ھوا تو آ پ نے حضرت علی(ع) کو تمام مسلمانوں کی رہبری کیلئے اپنا خلیفہ اور لوگوں کے لئے امام منصوب کیا ، تاکہ علی (ع)ان کی سیاسی قیادت اورفکری راہنمائی اور ان کی مشکلوں کو حل کریں ، نیزان کے نفوس کا تزکیہ اور ان کی تربیت کریں،اور یہ سب خدا کے حکم سے مقام غدیر خم میں ر(ص)سول کی حیات کے آخری حج کے بعد،ان مسلمان حاجیوں کے جم غفیر کے درمیان انجام پایاجو آپ کے ساتھ حج کرکے واپس آرھے تھے ، جن کی تعداد بعض روایات ایک لاکھ بتاتی ھيں ، اور اس مناسبت سے متعدد آیتیں نازل ھوئیں ۔
اس کے بعد آنخضرت (ص)نے علی (ع)کے ھاتھوں پر لوگوں سے بیعت طلب کی، چنانچہ تمام لوگوں نے علی (ع)کی بیعت کی اور ان بیعت کرنے والوں میں سب سے آگے مھاجرین و انصار کے بزرگ اور مشھور صحابہ تھے، مزید تفصیل کے لئے دیکھیے: کتاب” الغدیر“جس میں علامہ امینی نے مسلمانوں کے تفسیری اور تاریخی منابع و مآخذ سے اس واقعہ کو نقل کیا ھے۔
شیعوں کاعقیدہٴ وظائف امامت ۱۱۔
شیعوں کا عقیدہ ھے کہ چونکہ - رسول اکرم (ص) کے بعد-امام کی ذمہ داری وھی ھے جو نبی کی ھوتی ھے جیسے امت کی قیادت و ھدایت ، تعلیم و تربیت ، احکام کی وضاحت اوران کی سخت فکری مشکلات کا حل کرنا ، نیز سماجی اھم امور کا حل کرنا،لہٰذا یہ ضروری ھے کہ امام اور خلیفہ ایسا ھونا چاھی ے کہ لو گ اس پر بھروسہ اور اعتبار کرتے ھوں ، تاکہ وہ امت کو امن و امان کے ساحل تک پہنچا سکے ، پس امام تمام صلاحیتوں اور صفات میں نبی جیسا ھونا چاھی ے، (جیسے عصمت اور وسیع علم) کیونکہ وحی اور نبوت کے علاوہ امام کے فرائض بھی نبی کی طرح ھوتے ھيں، کیونکہ حضرت محمد بن عبدالله (ص)پر نبوت ختم ھوگئی، آپ ھی خاتم الانبیاء والمرسلین ھیں ، نیز آپ کا دین خاتم الادیان ، اور آپ کی شریعت خاتم الشرائع اور آپ کی کتاب خاتم الکتب ھے ، ( شیعوں کے پاس اس سلسلہ میں بھی متعدداور متنوع ضخیم اور فکری واستدلالی کتابیں موجود ھیں)
۱۲۔ شیعوں کا عقیدہ ھے کہ امت کو سیدھی راہ پر چلا نے والے معصوم قائد اور ولی کی ضرورت اس بات کا تقاضا کرتی ھے کہ رسول (ص)کے بعد امامت اور خلافت کا منصب صرف علی پ(ع)ر ھی نہ رک جائے ، بلکہ قیادت کے اس سلسلہ کو طویل مدت تک قائم رہنا ضروری ھے، تاکہ اسلام کی جڑیں مضبوط اور اس کی بنیادیں محفوظ ھوجائیں ۔
شیعوں کے بارہ امام ھونے کے اعتقاد کی حکمت ۱۳۔
شیعہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ نبی اکرم حضرت محمد مصطفی (ص)نے اسی سبب اور اسی بلند حکمت کی بنا پر الله کے حکم کی بنا پر علی(ع) کے بعد گیارہ امام معین فرمائے،لہٰذا حضرت علی(ع) کو ملاکر کل بارہ امام ھیں ، جیساکہ ان کی تعداد کے بارے میں نبی(ص) اکرم کی حدیثوں میں اشارہ ھے کہ ان سب کا تعلق قبیلہٴ قریش سے ھوگا،جیساکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مختلف الفاظ کے ساتھ اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ھے،البتہ ان کے اسماء اور خصوصیات کا تذکرہ نھیں ھے۔
”…عن رسول الله (ص)؛ان الدین لایزال ماضیاً/ قائماً/ عزیزاً/منیعاًماکان فیهم اثناعشرامیراًاوخلیفةً،کلهم من قریش“
بخاری اور مسلم دونوں نے رسول خدا(ص) سے روایت نقل کی ھے کہ آپ نے فرمایا : بیشک دین اسلام اس وقت تک غالب، قائم اور مضبوط رھے گا جب تک اس میں بارہ امیر یا بارہ خلیفہ رھيں گے ، یہ سب قریش سے ھوں گے۔
( بعض نسخوں میں بنی ھاشم بھی آیا ھے ،اور صحاح ستہ کے علاوہ دوسری کتب فضائل و مناقب و شعر و ادب میں ان حضرات کے اسماء بھی مذکور ھیں)
یہ احادیث اگر چہ ائمہ اثنا عشر( جوکہ علی علیہ السلام اوران کی گیارہ اولاد علیھم السلام ھیں ) کے بارے میں نص نھیں ھیں لیکن یہ تعداد شیعوں کے عقیدہ پر منطبق ھوتی ھے ،اور اس کی کوئی تفسیر نھیں ھوسکتی مگر صرف وھی جو شیعہ کہتے ھیں ، ( دیکھےے، خلفاء النبی، موٴلفہ حائری بحرانی )
شیعوںکے بارہ اماموںکے اسمائے گرامی ۱۴۔
شیعوں کا جعفری فرقہ یہ عقیدہ رکھتا ھے کہ ائمہ اثنا عشر( بارہ اماموں) سے مراد حضرت علی ابن ابیطالب(ع) جو رسول (ص)کے چچا زاد بھائی اور آپ کی بیٹی فاطمہ زھرا (ع)کے شوھر ھیں۔
اور حسن (ع)اور حسین (ع)ھیں( جو علی (ع) و فاطمہ(ص) کے بیٹے اورسبط رسول اسلام(ص) ھیں)
زین العابدین علی بن الحسین (ع) (السجاد)۔
ان کے بعد :
امام محمد بن علی(ع) ( الباقر)
امام جعفربن (ع)محمد (الصادق)
امام موسی بن جعفر(ع)(الکاظم)
امام علی بن موسی(ع)(الرضا)
امام محمدبن علی(ع) (الجواد التقی)
امام علی بن محمد(ع) (الھادی)
امام حسن بن علی(ع) ( العسکری)
امام محمد بن الحسن(ع) ( المھدی الموعود المنتظر) ھیں۔
یھی وہ اھل بیت(ع) ھیں جنھیں رسول خدا (ص) نے بحکم خدا، امت اسلام کاقائد قرار دیا،کیونکہ یہ حضرات تمام خطاوٴں اور گناھوں سے پاک اور معصوم ھیں ، یھی حضرات اپنے جدکے وسیع علم کے وارث ھیں، ان کی مودت اورپیروی کا حکم دیا گیاھے ، جیساکہ خدا نے ارشاد فرمایا :
[5]
”اے رسول !آپ کہہ دیجیے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نھیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو “۔
< یٰااَیُّهاالَّذِیْنَ آمَنُوْااتَّقُوْااللهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ>[6]
”اے ایماندارو! تقوی اختیار کروا ور سچوں کے ساتھ ھوجاوٴ “۔
(دیکھیے : کتب حدیث و تفسیر، اور فضائل میں فریقین کے نزدیک جو صحیح اوردوسری کتابیں ھیں)
شیعوں کاعقیدہٴ عصمت ائمہ (ع) اور اس کے آثار ۱۵۔
شیعہ جعفری فرقہ عقیدہ رکھتا ھے کہ یہ ائمہ اطھار (ع)وہ ھیں جن کے دامن پر تاریخ نہ کوئی لغزش لکھ سکی اور نہ کسی خطا کو ثابت کر پائی ، نہ قول میں اور نہ عمل میں، انھوں نے اپنے وافر علوم کے ذریعہ امت مسلمہ کی خدمت کی ھے ، اور اپنی عمیق معرفت، سالم اور عمیق فکر کے ذریعہ ،عقیدہ و شریعت ، اخلاق و آداب ، تفسیرو تاریخ اور مستقبل کے لائحہ عمل کو صحیح جہت عطا کی ھے ، اور ھر میدان میں اسلامی ثقافت کو محفوظ کردیا ھے جیسے انھوں نے اپنے قول اور عمل کے ذریعہ، چندایسے منفردا ور ممتاز ، نیک سیرت اورپاک کردارمردوںاور عورتوں کی تربیت کی ھے ، جن کے فضل و علم ، اور حسن سیرت کے سبھی قائل ھیں۔
اور شیعہ اعتقاد رکھتے ھیں کہ اگرچہ ( یہ بہت افسوس کا مقام ھے کہ ) امت اسلامیہ نے ان کو سیاسی قیادت سے دور رکھا، لیکن انھوں نے پھر بھی عقائد کے اصول اور شریعت کے قواعد و احکام کی حفاظت کرکے اپنی فکری اور اجتماعی ذمہ داری بہترین طور سے ادا کی ھے ۔
چنانچہ ملت مسلمہ اگر انھیں سیاسی قیادت کا موقع دیتی جسے رسول اسلام (ص)نے خدا کے حکم سے ان کو سونپا تھا ، تو یقیناً اسلامی امت سعادت و عزت اور مکمل عظمت حاصل کرتی،اور یہ امت متحد و متفق اور یگانہ رہتی،اور کسی طرح کا شقاق ، اختلاف ، نزاع ، لڑائی ، جھگڑا ، قتل و غارت اور ذلت و رسوائی نہ دیکھنا پڑتی ۔[7]
شیعوں کے عقیدہ ٴ مھدویت کے اسباب ۱۶۔
جعفری شیعہ،امام مھدی منتظر(ع)کے وجود کا عقیدہ رکھتے ھیں ،کیونکہ اس بارے میں رسول اسلام(ص) سے کثیر روایات نقل ھوئی ھیںکہ وہ اولاد فاطمہ(ص) سے ھوں گے، اور امام حسین (ع)کے نویں فرزند، کیونکہ امام حسین (ع)کے آٹھویں فرزند (آٹھویں پشت سے) امام حسن عسکری (ع)ھیں جن کی وفات ۲۶۰ھ میں ھوئی، اور آپ کو خدا نے صرف ایک بیٹا عنایت کیا تھا جس کا نام( محمد) تھا چنانچہ آپ ھی امام مھدی (ع)ھیں جن کی کنیت ابو القاسم ھے۔[8]
آپ کو موٴثق مسلمانوں نے دیکھا ھے، اور آپ کی ولادت ، خصوصیات اور امامت نیز آپ کی امامت پرآپ کے والدکی طرف سے نص کی خبر دی ھے ، آپ اپنی ولادت کے پانچ سال بعد لوگوں کی نظروں سے غائب ھوگئے ، کیونکہ دشمنوں نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا تھا، لیکن خدا وند متعال نے آپ کو اس لئے ذخیرہ کر رکھا ھے تاکہ آخری زمانے میں عدل و انصاف پر مبنی اسلامی حکومت قائم کریں ، اور زمین کو ظلم و فساد سے پاک کر دیں بعد اس کے کہ وہ اس سے بھری ھوئی ھوگی ۔
اور یہ کوئی عجیب و غریب بات نھیں کہ آ پ کی عمر اس قدر طولانی کیسے ھوگئی؟ کیونکہ قرآن مجید اس وقت بھی حضرت عیسیٰ (ع) کے زندہ ھونے کی خبر د ے رھا ھے ، جبکہ ان کی ولادت کو اس وقت ۲۰۰۵/ سال ھونے چاہتے ھیں، اسی طرح حضرت نو(ع)ح اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال زندہ رھے اور اپنی قوم کو الله کی طرف دعوت دیتے رھے، اور حضرت (ع)خضربھی ابھی تک موجودھیں ۔
اھل سنت کے جلیل القدر علماء کی ایک بڑی جماعت حضرت امام مھدی(عج) کی ولادت اوران کے وجود کی قائل ھے، اور انھوںنے ان کے اوصاف و والدین کے نام کا ذکر کیا ھے ، مثلاً: عبد الموٴمن شبلنجی اپنی کتاب ”نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار “ میں۔
شیعوں کے عبادی اعمال ۱۷۔
جعفری شیعہ نماز پڑھتے ھیں، روزہ رکھتے ھیں ، اپنے مال سے زکوٰة اور خمس ادا کرتے ھیں ، مکہٴ مکرمہ جاکر ایک بار بطور واجب حج بیت الله الحرام کرتے ھیں، اس کے علاوہ بھی مستحب عمرہ و حج ادا کرتے رہتے ھیں ، نیکیوں کی طرف دعوت دیتے ھیں،اور برائیوں سے روکتے ھیں، اولیائے خدا و رسول (ص)سے محبت کرتے ھیں، اور خدا و رسول (ص)کے دشمنوں سے دشمنی کرتے ھیں، الله کی راہ میں ھر اس کافر و مشرک سے جھاد کرتے ھیں جو اسلام کے خلاف اعلان جنگ کرتا ھو،اور ھر اس حاکم سے جنگ کرتے ھیں، جو قھر و غلبہ کے ذریعہ امت مسلمہ پر مسلط ھوگیا ھے، اور دین اسلام(جوکہ دین حنیف ھے)کی موافقت کرتے ھوئے تمام اقتصادی ،سماجی اور گھریلو مشغلوں اور سرگرمیوں میں مصروف رہتے ھیں ، جیسے تجارت ، اجارہ ، نکاح ، طلاق، میراث ، تربیت و پرورش، رضاعت اور حجاب وغیرہ ۔
اور ان سب چیزوں کے احکام کو اجتھاد کے ذریعہ حاصل کرتے ھیں، جنھیں متقی اور پرھی زگار علماء ،کتاب،صحیح سنت اوراھل بیت(ع) سے ثابت شدہ احادیث عقل اور اجماع کے ذریعہ استنباط کرتے ھیں ۔
شیعوں کا عقیدہٴ اوقات نماز پنجگانہ ۱۸۔
شیعہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ تمام یومیہ فرائض کے اوقات معین ھیں، اور یومیہ نماز کے لئے پانچ وقت ھیں : فجر، ظھر ، عصر ، مغرب اور عشاء ، اور افضل یہ ھے کہ ھر نماز کو اس کے مخصوص وقت میں پڑھا جائے ، مگر یہ کہ نماز ظھر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو جمع کرکے پڑھاجا سکتاھے ،کیونکہ رسول خدا (ص) نے کسی عذر ، مرض، بارش اور سفر کے بغیر ان نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا تھا ، جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں نقل ھوا ھے، اور یہ امت مسلمہ کی سھولت کیلئے کیا گیا ھے خاص طور سے ھمارے زما نہ میں ایک فطری اور عام بات ھے ۔
شیعوں کا عقیدہٴ اذان ۱۹۔
شیعہ بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح اذان دیتے ھیں ، البتہ جب جملہٴ ” حی علی الفلاح“آ تا ھے تو اس کے بعد جملہٴ ”حی علی خیر العمل “بھی پڑھتے ھیں، کیونکہ رسول خدا (ص) کے زمانہ میں یہ جملہ اذان میں کھا جاتا تھا ، لیکن حضرت عمر نے اپنے اجتھاد کی بناپر بعد میں حذف کر دیا ۔
البتہ شیعہ حضرات جو ”اشھدان محمداًرسول الله“ کے بعد ” اشھد ان علیاً ولی الله“ کہتے ھیں تو یہ ان روایات کی بنا پر ھے جو رسول خدا (ص)اور اھل بیت(ع) سے نقل ھوئیھیں ، جن میں یہ تصریح موجود ھے کہ محمد(ص) رسول الله کھیں ذکر نھیں ھوا ،یا باب جنت پر نھیں لکھا گیا مگر اس کے ساتھ علی ولی الله ضرور تھا، اور یہ جملہ اس بات کی عکاسی کرتا ھے کہ شیعہ علی(ع) (ع)کو نبی بھی نھیں سمجھتے چہ جائیکہ (نعوذ بالله) وہ آپ کی ربوبیت اور الوھی ت کاعقیدہ رکھتے ھوں ،لہٰذاتوحید و رسالت کی شھادت کے بعد تیسری شھادت( علی ولی الله) کہنا جائز ھے ، اس امید میں کہ یہ بھی مطلوب پرور دگار ھو، البتہ اس کو جزاور وجوب کے قصد سے انجام نہ دےا جائے، یھی اکثر شیعہ علماء کا فتوی ھے۔
شیعوں کا مٹی وغیرہ پر سجدہ کرنے کا عقیدہ ۲۰۔
شیعہ زمین اورمٹی یا کنکر اور پتھریا زمین کے اجزااور نباتات وغیرہ پرسجدہ کرتے ھیں،دری ،قالین یا چادر، کپڑے اور کھائی جانے والی چیزوں اور زیورات پر سجدہ نھیں ھوتا، کیونکہ اس سلسلہ میں کثیر تعداد میں شیعہ او رسنی کتابوں میں روایتیں بیان ھوئی ھیں، البتہ اس مٹی کوپاک ھونا چاھی ے ، اسی طھارت کی تاکید کی بناپر شیعہ لوگ اپنے ساتھ مٹی کا پاک ڈھیلا (جیسے سجدہ گاہ وغیرہ) رکھتے ھيں، اسی طرح شیعہ نماز میں اپنے داہنے ھاتھ کو بائیں ھاتھ پر نھیں رکھتے ، کیونکہ رسول اسلام (ص)نے نماز میں یہ کام انجام نھیں دیا ،اور یہ بات قطعی نص صریح سے ثابت نھیں ھے ، یھی وجہ ھے کہ سنی مالکی حضرات بھی یہ فعل انجام نھیں دیتے ھیں۔
شیعوں کے وضو کی کیفیت ۲۱۔
شیعہ فرقہ وضو میں دونوں ھاتھوں کو کہنیوں سے انگلیوں کے سرے تک اوپرکی جانب سے دھوتے ھیں، اوراس کے برخلاف نھیں کرتے ، کیونکہ یہ طریقہ انھوں نے اپنے ائمہ ٴ ا اھلبیت(ع) سے اخذ کیا ھے ، اور ائمہ(ع) نے اس کو رسول خدا (ص)سے اخذ کیا ھے ، اور اھل بیت (ع)اپنے جد کی باتوں کو دوسروں سے بہتر طریقہ سے جانتے ھیںکہ ان کے جد یہ کام کیسے کیا کرتے تھے ، جیساکہ رسول خدا (ص) بھی اسی طرح انجام دیتے تھے۔
اسی طرح یہ لوگ اپنے پیروں اور سروں کو دھونے کے بجائے ان کا مسح کرتے ھیں، جس کا سبب ھم نے اوپر ذکر کیا ھے۔
شیعوں کے محرمات کا عقیدہ ۲۲۔
جعفری شیعہ زنا ، لواط، سود خوری ، نفس محترمہ کا قتل ، شراب نوشی ، جوا، بلوا وبغاوت ، مکروفریب،دھوکا دھڑی ،ذخیرہ اندوزی ،ناپ تول میں کمی کرنا، غصب ، چوری ، خیانت ، کینہ و کھوٹ، رقص و غنا ، اتھام ،بہتان ، تھمت ، چغل خوری ، فساد پھیلانا ، مومن کواذیت دینا ، غیبت کرنا ،گالی گلوچ، کذب و بہتان اور ان کے علاوہ تمام گناھان کبیرہ و صغیرہ کو حرام جانتے ھیں، اور ھمیشہ ان گناھوں سے دور رہتے ھیں اور حتی الامکان ان سے اجتناب کی کوشش کرتے ھیں ۔
شیعوں کے یھاں مختلف زیارتوں کے اہتمام کی علت ۲۳۔
شیعہ نبی اکرم (ص)، اھل بیت (ع)اور آپ کی پاک ذریت جو جنت البقیع اور مدینہ منورہ میں مدفون ھیں ان کی قبروں کا احترام کرتے ھیں ، جن میں امام حسن مجتبیٰ ، امام زین العابدین ، امام محمد باقر ، اور امام جعفر صادق علیھم السلام ھیں۔
نجف اشرف میں امام علی(ع) کا مرقد ھے ، اور کربلا میں امام حسین(ع) اور آپ کے بھائی ،آپ کی اولاد اورآپ کے چچا کی اولاد اور آپ کے اصحاب و انصار ( جو آپ کے ساتھ روز عاشورہ شھی د ھوئے تھے)کی قبریں ھیں۔
اور سامرہ میں امام ھادی(ع) ( علی (ع)نقی)، امام حسن عسکر(ع)ی کے روضے ھیں، اور کاظمین میں امام جوا(ع)د اور امام کاظم (ع)کے مراقد جو سب کے سب عراق میں ھیں ،اور ایران کے شھر مشھدمیں امام رضا(ع) کا مرقد ھے ،بھر حال ان تمام روضوں اورمقبروں کااحترام کرنا رسول (ص)کے پاس و لحاظ کی بنا پرھے ، کیونکہ ھر شخص اپنی اولاد کے ذریعہ باقی اور محفوظ رہتا ھے ، اور کسی کی اولاد کا احترام کرنا خوداس کا احترام کرنے کے برابر ھے ، جیساکہ قرآن کریم نے آل عمران ، آل یٰسین ، آل ابراھی م اور آل یعقوب ، کی مدح فرمائی ھے ، اور ان کی قدر و منزلت کو بلند قرار دیا ھے حالانکہ ان میں سے بعض انبیاء بھی نھیں تھے، جیسا کہ فرمایا:
[9]
”یہ ایک نسل ھے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ھے “۔
شیعوں کا عقیدہٴ توسل اور شفاعت ۲۴۔
شیعہ رسول اکرم (ص) اور ان کی آل پاک سے شفاعت طلب کرتے ھیں، اور ان کو خدا کی بارگاہ میں اپنے گناھوں کی مغفرت ، طلب حاجات، اور مریضوں کی شفایابی کیلئے ، وسیلہ قرر دیتے ھیں ، کیونکہ قرآن مجید نے اس بات کو نہ صرف یہ کہ بہترقرار دیا ھے ، بلکہ اس نے اس کی طرف واضح انداز میںدعوت بھی دی ھے :
[10]
”اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناھوں کے لیے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ھی توبہ قبول کرنے والا اور مھربان پاتے “۔
اور فرمایا : [11]
”اور عنقریب تمھارا پروردگار تمھیں اس قدر عطا کرے گا کہ تم خوش ھوجاوٴ“۔ اس آیت سے مرادمقام شفاعت ھے ۔
یہ بات کیسے معقول ھے کہ ایک جانب رسو(ص)ل اکرم کو خدا گنھگاروں کی شفاعت کیلئے مقام شفاعت اور صاحبان حاجات کیلئے مقام وسیلہ عنایت فرما دے اور دوسری طرف لوگوں کو منع فرمائے کہ ان سے شفاعت طلب نہ کریں؟! یا نبی اکرم (ص)پر حرام قرار د ےدے کہ آپ اس مقام سے کوئی استفادہ نہ کریں ؟!
اور کوئی یہ دعوی نھیں کر سکتا کہ نبی اور ائمہ (ع) مر چکے ھیں لہٰذا ان سے دعا طلب کرنا مفید نھیں ؟ کیونکہ انبیاء اور خاصان خدا زندہ رہتے ھیں خاص طور سے حضرت محمد مصطفی (ص) جن کے بارے میںخدا نے یہ ارشاد فرمایا :
[12]
”اور تحویل قبلہ کی طرح ھم نے تم کو درمیانی امت قرار دیا ھے ، تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رھو اور پیغمبر تمھارے اعمال کے گواہ رھیں “۔
اس آیت میں” شھی دا ً“کے معنی شاھد اور گواہ ھیں ۔
شیعوں کی محفلوں اور مجلسوں کے مواقع ۲۵۔
جعفری شیعہ نبی (ص)اور ائمہ اھلبیت (ع)کی ولادت پر محفل اور خوشی کے پروگرام کرتے ھیں ، اور ان کی وفات پر ماتم و عزا کرتے ھیں، اور ان پروگراموں میں ان کے فضائل و مناقب اور ان کی ھدایت بخش سیرت و کردار کا ذکر کرتے ھیں۔
شیعوں کی حدیث کی بنیادی کتابیں ۲۶۔
جعفری شیعہ ایسی کتابوں سے استفادہ کرتے ھیں جو احادیث رسول اکرم (ص) اور اھل (ع)بیت عصمت و طھارت کی روایات پر مشتمل ھیں ، جیسے” الکافی“ موٴلفہ ثقة الاسلام شیخ کلینی، ”من لا یحضرہ الفقیہ“ موٴلفہ شیخ صدوق، ”الاستبصار“ اور ”تہذیب“ موٴلفہ شیخ طوسی، ان کے یھاں یہ احادیث کی اھم کتابیں ھیں۔
یہ کتابیں اگرچہ صحیح احادیث پر مشتمل ھیں ، لیکن نہ ان کے موٴلفین و مصنفین اور نہ ھی شیعہ فرقہ ان تمام احادیث کو صحیح قرار دیتا ھے ، یھی وجہ ھے کہ شیعہ فقھا ء ان کی تما م احادیث کو صحیح نھیں جانتے ، بلکہ وہ صرف انھیں احادیث کو قبول کرتے ھیں جو ان کے نزدیک شرائط صحت پر کھری اترتی ھوں، جو علم درایہ، رجال اور قوانین حدیث پر پوری نھیں اترتی ھیں ان کو ترک کردیتے ھیں۔
شیعوں کی اعتقادی،دعائی اور اخلاقی کتابیں ۲۷۔
اسی طریقہ سے شیعہ( عقائد ، فقہ اور دعا و اخلاق کے سلسلہ میں) دوسری کتابوں سے استفادہ کرتے ھیں ، جن میں ائمہ(ع) سے مختلف قسم کی حدیثیں نقل کی گئی ھیں ، جیسے نہج البلاغہ ، جسے سید رضی (رہ) نے تالیف کی ھے ، اور اس میں امام علی(ع) کے خطبے ، خطوط ، اور حکمت آمیز مختصر کلمات موجود ھیں ، اور اسی طرح امام زین العابدین علی بن الحسین(ع) کا ”رسالہٴ حقوق “ اور ”صحیفہ ٴ سجادیہ“۔
شیعوں کے نزدیک ھر زمانہ کے مسلمانوں کی مشکلات کے دو سبب ۲۸۔
شیعہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ مسلمانوں کو دور قدیم و جدید میں جن مشکلات اور جانی یا مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ھے ،وہ صرف ان دو چیزوں کا نتیجہ ھیں :
۱۔اھل بیت (ع) کو بھلا دینا جبکہ وہ در حقیقت قیادت کی لیاقت اور صلاحیت رکھتے تھے ، اسی طرح ان کے ارشادات و تعلیمات کو بھلا دینا، بالخصوص قرآن مجید کی تفسیر ان سے ہٹ کر بیان کرنا ۔
۲۔ اسلامی فرقوں ا ور مذاھبکے درمیان اختلاف ، تفرقہ ، اور لڑائی ، جھگڑے ۔
یھی وجہ ھے کہ شیعہ فرقہ ھمیشہ ملت اسلامیہ کی صفوں کے درمیان وحدت قائم کرنے کی دعوت دیتا رھا ھے، اور تمام لوگوں کی طرف پیار و دوستی اور بھائی چارگی کا ھاتھ بڑھاتاھے۔
علمائے شیعہ کا دوسرے اسلامی مکاتب فکر کو دعوت عام ۲۹۔
جعفری شیعہ کے بزرگ علماء تمام اسلامی مختلف مذاھبکے علماء کے درمیان مختلف موضوعات میںگفتگو اور تبادلہٴ خیال کی ضرورت پر زوردیتے ھیں،اورجعفری شیعہ کسی بھی مسلمان کو کافر نھیں کہتا ، کیونکہ شیعوں کا فقھی مسئلہ اور ان کا عقیدہ یہ ھے کہ کافر وہ ھوتا ھے جس کے کفر پر تمام مسلمانوں کا اجماع ھو، شیعہ ( بعض اوقات، نہ ھمیشہ ) تقیہ کرتے ھیں ، جس کا مطلب یہ ھے کہ اپنے مذھباور عقیدہ کو (کسی سبب کی بناپر) پوشیدہ کیا جائے ، اور یہ تقیہ قرآنی آیات کے مطابق ایک جائز امر ھے ، اور اس پر تمام اسلامی مذاھب عمل کرتے ھیں البتہ جب کسی دشمن کے درمیان پھنس جائے(اور اظھار عقیدہ کی صورت میں یقینی طور پر خطرہ موجودھو) تو تقیہ کیا جاسکتا ھے ،اور یہ دو سبب کی بنا پرھوتا ھے :
۱۔ اپنی جان کی حفاظت کی خاطر تاکہ اس کا خون رائگاں نہ بہہ جائے ۔
۲۔وحدت مسلمین باقی رھے ، اور ان کے درمیان اختلاف و افتراق پیدا نہ ھو۔
شیعوں کا اسلامی حکومتوں سے بھرہ مند ھونے کا عقیدہ ۳۰۔
شیعہ فرقہ عقیدہ رکھتا ھے کہ مسلمانوں کاحق یہ ھے کہ ان اسلامی حکومتوں سے فائدہ اٹھائےں، جو کتاب و سنت کے مطابق عمل کرتی ھيں،اور مسلمانوںکے حقوق کی حفاظت کرتی ھيں ، اور دوسری حکومتوں سے مناسب اور مسالمت انداز میں رابطہ قائم کرتی ھيں، اوراپنی سر حدوں کی حفاظت کرتی ھيں ،نیز مسلمانوں کے ثقافتی ، اقتصادی اور سیاسی استقلال کیلئے کوشاں رہتی ھیں ، تاکہ مسلمان با عزت رہ سکیں ، جیسا کہ ان کے لئے چاہتاھے جیسا کہ فرمایا: [13]
”اور عزت صرف خدا اور اس کے رسول اور مومنین کےلئے ھے “۔
والحمد للّہ رب العالمین
------------