نماز جماعت میں شرکت نہ کرنابغیر کسی عذر شرعی
لأن ابن عباس روى أن النبي صلى الله عليه وآله قال: (من سمع النداء فلم يأته فلا صلاة له إلا من عذر) وهو محمول على الجمعة، أو على نفي الكمال، لا الإجزاء.
یہ روایت اہل عامہ(سنیوں)کی کتاب ( سنن ابن ماجة ١: ٢٦٠ / ٧٩٣، سنن البيهقي ٣: ٥٧، المستدرك للحاكم ١: ٢٤٥.)اور(الراوي : - | المحدث : العيني | المصدر : عمدة القاري | الصفحة أو الرقم : 5/239 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح)میں صحیح السند طریقے سےمنقول ہے
اور ہماری(اہل خاصہ اور امامیہ) کی کچھ کتب میں بھی اس کی مانند روایت آئی ہے
باب كراهة ترك حضور الجماعة۔۔۔- محمد بن يعقوب، عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، وعن محمد بن إسماعيل، عن الفضل بن شاذان جميعا، عن حماد، عن حريز، عن زرارة، عن أبي جعفر (عليه السلام) - في حديث - قال: قال أمير المؤمنين (عليه السلام): من سمع النداء فلم يجبه من غير علة فلا صلاة له.
ورواه الشيخ باسناده عن محمد بن يعقوب، مثله (التهذيب ٣: ٢٣ / ٨٣) ( الكافي ٣: ٣٧٢ / ٤.)-نقلا من وسائل الشيعة (آل البيت) - الحر العاملي - ج ٨ - الصفحة ٢٩١
(نماز جماعت کی باب میں موجود ہے:نماز جماعت میں شرکت نہ کرنابغیر کسی عذر شرعی مکروہ ہے البتہ نماز کی ثواب میں کمی کا باعث ہے لیکن بغیر جماعت کے بھی نماز صحیح اور کافی ہوگی)
متن حدیث" امام علي عليه السلام :لا صَلاةَ لِجارِ الْمَسْجِدِ اِلاّ فِى الْمَسْجِدِ.[بحارالانوار، ج 83، ص 379.] "
جس طرح مسجد کے ہمسایوں کی نماز ہے یعنی جو مسجد کے ہمسایہ میں ہوتے ہوئے اگر مسجد میں نہ جائے تو اس کی نماز تو صحیح ہے لیکن ثواب کم ملے گا ۔