قسط نمبر:1-روزہ کی تعریف، روازے کی نیت اور اقسام:
جناب فضیل بن یسار ، امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا :
"الْفُضَيْلِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ عَلَى الصَّلَاةِ وَ الزَّكَاةِ وَ الْحَجِّ وَ الصَّوْمِ وَ الْوَلَايَة(وسائل الشیعہ ۔ ج ۱ ،ص ۱۳)
''اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے : نماز ، زکات ،حج ، روزہ اور اہل بیت کی ولایت"
روزہ کے معنی : تمام مسلمان اللہ تعالی کی اطاعت کی خاطر اذانِ صبح سے اذانِ مغرب تک روزےکوباطل کرنےوالی نو چیزوں سے اجتناب کرنا ہے
ہر مکلف پر ماہ مبارک رمضان کے روزے واجب ہے لیکن اس واجب کے درسے انجام دہی کے لئے چندشرعی مسائل کا جاننا واجب ہے جب کو ہم ان شااللہ بطور اختصار چند قسطون میں ہمارے قارئین کرام کے لئے پیش کرینگے
روزہ کی تعریف، روازے کی نیت اور اقسام:
روزے کی تعریف:
اسلام کے واجبات اور انسان کی خود سازی کے سالانہ پروگرام میں سے ایک، روزہ ہے، اذان صبح سے مغرب تک حکم خدا کو بجالانے کے لئے کچھ کام انجام دینے سے پرہیز کرنے کو روزہ کہتے ہیں
روزے کی نیت:
ماہ مبارک رمضان میں ہر رات کو کل کے روزہ کے لئے نیت کی جاسکتی ہے لیکن بہتر ہے ماہ رمضان کی پہلی تاریخ کی پہلی رات کو پورے ایک ماہ کے روزوں کی نیت کی جائے۔
روزہ کی قسمیں
١۔ واجب
٢۔ حرام
٣۔مستحب
٤۔مکروہ
قسط نمبر:2- واجب روزے اور حرام روزے
واجب روزے:
درج ذیل روزے واجب ہیں:
* ماہ مبارک رمضان کے روزے۔
*قضا روزے
*کفار ے کے روزے*
*نذرکی بنا پر واجب ہونے والے روزے۔
* باپ کے قضا روزے جو بڑے بیٹے پر واجب ہوتے ہیں۔
العروہ الوثقی، ج ٢، ص ٤٠ ٢ اور توضیح المسائل،م ٩٠ ١٣
بعض حرام روزے:
* عید فطر( اول شوال) کو روزہ رکھنا۔
*عید قربان ( ١٠ذی الحجہ) کو روزہ رکھنا۔
* اولاد کا مستجی روزہ والدین کے لئے اذیت کا سبب بنے ۔
* (احتیاط واجب کی بناپر) توضیح المسائل، م ٩ ٧٣ تا ١٧٤٢
اولاد کا مستجی روزہ رکھنا جب کہ اس کے والدین نے منع کیا ہو۔
قسط نمبر:3-مستحب روزے اور مکروہ روزے
مستحب روزے:
سال کے بعض مستحب روزے
ہر جمعرات اور جمعہ
عید مبعث (٢٧ ماہ رجب)
عید غدیر(١٨ذی الحجہ)
*عید میلاد النبی (١٧ ربیع الاول)
*عرفہ کے دن (٩ذی الحجہ) اس شرط پر کہ روزہ رکھنااس دن کی دعاؤں سے محرومیت کا سبب نہ بنے۔
ماہ رجب اور ماہ شعبان کے پورے مہینے
ہرماہ کی ١٣، ١٤ اور ٥ ١ تاریخ
توضیح المسائل، م٨ ٤ ١٧
مکروہ روزے:
*مہمان کا میزبان کی اجازت کے بغیر مستجی روزہ رکھنا۔
*مہمان کا میزبان کے منع کرنے کے باوجود مستجی روزہ رکھنا ۔
*فرزند کا باپ کی اجازت کے بغیر مستحبی روزہ رکھنا۔
*عاشورہ کے دن کا روزہ۔
*عرفہ کے دن کا روزہ اگر اس دن کی دعا کے لئے روزہ رکاوٹ بن جائے۔
*اس دن کا روزہ کہ نہیں جانتا ہو عرفہ ہے یا عید قربان۔ توضیح المسائل، م ١٧٤٧
قسط نمبر:4-کچھ تفصیل روزہ کی نیت :
١۔ روزہ ایک عبادت ہے اسے خدا کے حکم کی تعمیل کے لئے بجالانا چاہئے۔
٢۔ انسان ماہ رمضان کی ہر رات کو کل کے روزہ کے لئے نیت کرسکتاہے۔ بہتر ہے ماہ رمضان کی پہلی تاریخ کی رات کو پورے مہینے کے روزوں کیلئے ایک ساتھ نیت کرلے۔
٣۔ واجب روزوں میں روزہ کی نیت کو کسی عذر کے بغیر صبح کی اذان سے زیادہ تاخیر میں نہیں ڈالنا چاہئے۔
٤۔ واجب روزوں میں اگر کسی عذر کی وجہ سے، جیسے فراموشی یا سفر، کی وجہ سے روزہ کی نیت نہ کی ہو اور ایسا کوئی کام بھی انجام نہ دیا ہوکہ جو روزہ کو باطل کرتاہے، تو وہ ظہر تک روزہ کی نیت کرسکتا ہے۔
٥۔ ضروری نہیں ہے کہ روزہ کی نیت کو زبان پر جاری کیا جائے بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ خدا وند عالم کے حکم کی تعمیل کے لئے صبح کی اذان سے مغرب تک روزہ کو باطل کرنے والا کوئی کام انجام نہ دے ۔
توضیح المسائل م،١٥٥٤۔ ١٥٦١
١۔ کھانے پینے، غلیظ غبار کو حلق تک پہنچانے، پورے سر کو پانی کے نیچے ڈبونے،قے کرنے، مباشرت کرنے، استمناء کرنے اور صبح کی اذان تک جنابت پر باقی رہنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے اکثر فقہاء کے نزدیک خدا اور رسول پر جھوٹ باندھنایا اسی طرح کسی ایک معصوم(ع) پر جھوٹ باندھنا، سیال چیز سےحقنہ کرنا۔
٢۔ لعاب دہن کو نگل لینے سے روزہ باطل نہیں ہوتاہے۔
٣۔ اگر روزہ دار بھولے سے کوئی چیز کھالے یا پی لے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔
٤۔ اگر انجکشن لگوانا، بجائے غذانہ ہو تو روزہ باطل نہیں ہوتا۔
٥۔ اگر غبار غلیظ نہ ہو یا غلیظ غبار حلق تک نہ پہنچے یا روزہ دار شک کرے کہ حلق تک پہنچایا نہیں اس کا روزہ باطل نہیں ہے۔
٦۔ اگر کوئی بھولے سے اپنے سرکو پانی کے نیچے ڈبوئے، یا بے اختیار پانی میں گرجائے، یا زبردستی اسے پانی میں گرادیا جائے، تو ایسی صورت میں اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔
٧۔ اگر روزہ داربے اختیارقے کرے یا نہ جانتاہو روزہ سے ہے، تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔
٨۔ اگر روزہ دارکو احتلام ہوجائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا۔
قسط نمبر:5-خلاصہ
١۔ اگر روزہ دار ماہ رمضان یا رمضان کے روزوں کی قضا کے دوران صبح کی اذان تک غسل کئے بغیر جنابت کی حالت میں باقی رہے یا اس کا فریضہ تیمم ہونے کی صورت میں تیمم نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے۔
٢۔ اگر ماہ رمضان کے روزوں کے دوران غسل یا تیمم کو فراموش کرے اور ایک یا چند روز کے بعد یاد آئے، تو ان دنوں کے روزے قضا کرے۔
٣۔اگر روزہ دار کو دن کے دوران احتلام ہوجائے، تو فوراًغسل کرنا واجب نہیں ہے، نیز اس کا روزہ بھی صحیح ہے۔
٤۔اگر ماہ رمضان کی ر ات میں مجنب یا محتلم کو معلوم ہو کہ اگر سو گیا توغسل کرنے کیلئے اذان سے پہلے بیدار نہیں ہوسکتا تو اسے نہیں سونا چاہئے اور اگر سوگیا اور بیدار نہ ہوا تو اس کا روزہ باطل ہے۔
٥۔معطر نباتات کو سونگھنا اور ترلباس زیب تن کرنا مکروہ ہے۔
٦۔ وقت گزرنے کے بعد رکھے جانے والے روزہ کو ''روزہ قضا'' اور عمداً روزہ نہ رکھنے کے تاوان (ہرجانہ)کو''کفارہ'' کہتے ہیں۔
٧۔ جس پر کفارہ واجب ہو، اسے ایک غلام آزاد کرنا چاہئے، یا دو مہینے روزہ رکھے یا ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلائے۔
٨۔اگر روزہ دار عمداً قے کرے یا ماہ رمضان میں غسل جنابت کرنا بھول جائے اور ایک دودن روزہ رکھنے کے بعد یاد آئے تو ان دنوں کی قضا بجالائے لیکن کفارہ نہیں ہے۔
٩۔اگر تحقیق کے بغیر کھانا کھائے اس کے بعد معلوم ہوجائے کہ اذان صبح کے بعد کھایاہے، تو اس کا روزہ باطل ہے اس کی قضا واجب ہے لیکن کفارہ نہیں ہے۔
١٠۔ اگر عمداً رمضان کا روزہ نہ رکھے، تو قضا کے علاوہ کفارہ بھی واجب ہے۔
قسط نمبر:6-روزہ کا کفارہ
کفارہ وہی جرمانہ ہے جو روزہ باطل کرنے کے جرم میں معین ہوا ہے جو یہ ہے:
* ایک غلام آزاد کرنا۔
*اس طرح دو مہینے روزہ رکھناکہ ٣١ روز مسلسل روزہ رکھے۔
*٦٠ فقیروںکو پیٹ بھر کے کھاناکھلانا یاہر ایک کو ایک مد طعام دینا۔
مد: یعنی ١٠سیر ( ایک سیر = ٧٥ گرام) گندم، چاول یا اس کے مانند کوئی دوسری چیز فقیر کو دیدے (توضح المسائل م ٣ ٠ ٧ ١ )
قسط نمبر:7- خلاصہ
اگر کئی ماہ رمضان کے روزے قضاہوئے ہوں تو جسے چاہئے اول بجالاسکتا ہے لیکن اگر آخری رمضان کے روزوں کا وقت تنگ ہوچکا ہوتو پہلے انہیں کو بجالائے۔
اگر کفارہ ادا کرنے میں چندسال تاخیر ہوجائے تو اس میں کوئی چیز اضافہ نہیں ہوتی۔
اگر ماہ رمضان کے قضا روزوںکو اگلے رمضان تک عمداً نہ بجا لائے توقضا کے علاوہ، ہر دن کے لئے ایک مد طعام بھی فقیر کو دیدے۔
اگر کوئی اپنے روزہ کو فعل حرام سے باطل کرے تو اس پر ایک ساتھ سارے کفارے واجب ہوجاتے ہیں۔
بالغ ہونے سے پہلے کے روزوںاور ایام کفر (تازہ مسلمان) کے روزوں کی قضا نہیں ہے۔
بڑے بیٹے کو اپنے باپ کے قضا روزے اس کی وفات کے بعد بجالانے چاہئے ۔
جس سفر میں نماز قصر ہے، روزہ بھی باطل ہے۔
اگر روزہ دار ظہر کے بعد سفر پر جائے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔
اگر مسافر ظہر سے پہلے وطن یا ایسی جگہ پر پہنچے جہاں دس دن ٹھہرنا ہو تو اگر اس وقت تک کوئی ایسا کا م انجام نہ دیا ہوجس سے روزہ باطل ہوتا ہے تو اس دن کے روزہ کو آخر تک پہنچائے اور وہ صحیح ہے۔
باپ کے قضا روزے، اس کی موت کے بعد بڑے بیٹے پر واجب ہیں۔
عید فطر اور عید قربان کے روزے اور فرزند کے ایسے مستجی روزے جن سے اس کے ماں باپ کو تکلیف پہنچے، حرام ہیں۔
باپ کی اجازت کے بغیر فرزند کا مستحبی روزہ مکروہ ہے۔
بیوی کا شوہر کی اجازت کے بغیر مستحب روزہ رکھنا اگر شوہر کی حق تلفی ہو تو حرام ہے
قسط نمبر:8-بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر قضاء روزے رکھ سکتی ہے؟
جواب: عورت کے لیے ماہ رمضان کا قضاء روزہ رکھنا اگر شوہر کی کسی بھی طرح کی حق تلفی ہو رہی ہو تو جایز نہیں ہے بلکہ احتیاط لازم کی بنا پر اگر شوہر منع کرے تو بھی روزہ نہ رکھے گر چہ شوہر کی حق تلفی نہ بھی ہو رہی ہو، ہاں اگر روزہ رکھنا ہمیشہ شوہر کی حق تلفی کا باعث ہو یا ہمیشہ کے لیے منع کرے جو واجب کے فوت ہونے کا باعث ہو تو اس کی اطاعت جایز نہیں ہے روزہ صحیح ہے، اور اسی طرح اس کی اطاعت کرنا قضاء کرنے میں اتنی تاخیر کا باعث ہو جو واجب کے ادا کرنے میں کوتاہی شمار ہو تو بھی جایز نہیں ہے ۔