ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عورتوں کے سماجی ملنے جلنے یا ملازمت یا تجارت کی راہ میں پردہ حائل ہے؟
اس کا جواب منفی میں ہے یعنی ہر گز ایسا نہیں ہے کہ پردہ عورتوں کے سماجی مسائل یا ملازمت یا تجارت میں حائل ہو۔ بلکہ ایک عورت پردہ کرکے ہر جگہ جا سکتی ہے اور تقریبا ہر کام کر سکتی ہے۔ عورت اپنے پردے کا خیال رکھتے ہوئے پولیس ، ڈاکٹر یا پائلٹ کے فرائض بھی انجام دے سکتی ہے۔ جو عورتیں برقع کو بطور پردہ استعمال کرتی ہیں وہ اپنے برقعوں بلکہ صرف نقاب کے ڈیزائینوں میں مناسب فرق کر کے بہت سے کام انجام دے سکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ با پردہ عورت کو چلنے پھرنے اور کام کرنے کی جو سہولت ہے وہ بے پردہ عورت کو نہیں ، پردے کی بدولت نادار خواتین بھی معمولی لباس کے باوجود عزت سے رہ سکتی ہیں۔یہ غریب، نادار اور مفلس عورتوں کا وفادار محافظ بھی ہے۔
ذرا اس عورت سے پوچھ لیا جائے جو پردہ نہیں کرتی۔ وہ گھر سے باہر نہیں جاسکتی، جب تک اس کے پاس صاف ستھرے استری کئے ہوئے مناسب کپڑے نہ ہوں۔ بے شک یورپ اور امریکہ جیسے ممالک کی عورتیں درجنوں کپڑے رکھتی ہیں اور رکھ سکتی ہیں۔ لیکن یہ موقع افریقہ اور ایشاءمیں اس کی غریب بہن کو نصیب نہیں۔ ایک با پردہ عورت جانتی ہے کہ اس کے پاس ایک طلسمی غلاف ہے جو لباس کے ہر عیب اور ہر کمی کو چھپا لیتا ہے۔ ذرا اس عورت سے پوچھ لیا جائے جو برقع سے آزاد ہے۔ کیا وہ حمل کے تیسرے مہینے سے لیکر نویں مہینے تک دیکھنے والوں کی نگاہوں سے اپنی کیفیت کو چھپا سکتی ہے۔ہر گز نہیں بلکہ اس کا راز عیاں ہو جاتا ہے۔ اس کے بر خلاف چادر یا برقع پوش عورتکے پاس ایک طلسمی غلاف ہے جو اس کا راز ایک حد تک چھپا سکتا ہے۔مغربی ممالک میں ایسے زنانہ لباس کی تلاش سر گرمی سے جاری ہے جو حاملہ عورت کے گرد و پیش کو عوام سے چھپا سکے۔ البتہ محرم او ر نا محرم کا سوال عیسائیسوں میں نہیں ہے۔
عورت کی سب سے بڑی دولت اس کی حیا ہے۔ جس سے مغربی ممالک کی عورتیں بالکل محروم ہیں۔ بلکہ عورت کا دوسرا نام حیاءہے اگر حیاءنہیں تو عورت نہیں، غیرو ں کی نظروں سے نسوانیت کے ڈھکے چھپے رہنے کا نام پردہ ہے۔چنانچہ جس طرح مرد زنانہ لباس میں اچھا نہیں لگ سکتا اسی طرح عورت بھی مردانہ لباس میں اچھی نہیں لگ سکتی۔ زنانہ لباس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ عورت کی ضرورت کے تحت ہو۔ اور سب سے بڑی ضرورت اس کی حفاظت ہے۔ خود اس کے ہاتھوں سے بھی۔ اس طرح برقع اور چادر سب سے موثر تدبیر ہے۔
پردہ عورت کے لئے آئینی قلعہ ہے۔ یہ اشارہ ہے بد معاشوں کو دور رکھنے کا یہ اشارہ ہے کہ اس چادر کے اندر صرف صورت ہی نہیں بلکہ سیرت بھی ہے۔ بے پردہ عورت ارادی یا غیر ارادی طور پر اپنانسوانی مال و متاع دکھا کر چوروں اور ڈاکووں کی توجہ کھینچتی ہے۔ وہ دکھاتی ہے کہ وہ کالی ہے یا گوری، جوان ہے یا بوڑھی، حسین ہے یا بد شکل، اسی طرح وہ کسی کے بھی جال میں پھنس سکتی ہے۔اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پردہ ایک مسلم عورت کا مخصوص لباس ہے۔ یہ عالمگیر مسلم خواتین کا مشترکہ یونیفارم ہے حقیقت یہ ہے کہ تمام مذہبوں اورتمام تہذیبوں میں اسلام ہی کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے اپنی بیٹیوں کے لئے ایسا یونیفارم پیش کیا جس کی نظیر آج تک نہ مل سکی اور نہ آیندہ مل سکے گی۔
دوسرا مسئلہ جو عرصہ دراز سے نام نہاد روشنفکروں کی طرف سے اٹھایا جاتا رہا ہے کہ اسلام میں عورت کو محدود کر کے رکھا گیا ہے۔ اس کی آزادی کو چھین لیا گیا ہے۔ اور اس کے حقوق کو پامال کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ جبکہ تاریخ کے معمولی سے شعور رکھنے والا انسان بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اسلام نے نہ صرف یہ کہ حقوق نسواں کو پامال نہیں کیا ہے بلکہ اس نے خواتین کو عزت و وقار سے نوازا ہے۔ورنہ آج کے نام نہاد روشن فکروں کے برخلاف کل کے نام نہاد روشن فکر اسلام سے پہلے لڑکی کو زندہ دفن کردیا کرتے تھے اور انہیں یہ بھی خیال نہیں آتا تھا کہ یہ میری اولاد ہے۔ یعنی کل تک کے روشن خیالوں کی عقلوں پر پڑا ہوا پردہ آج بھی برقرار ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ کل ان کی نفرت میں شدت تھی اور آج ان کی الفت میں شدت ہے۔
حقوق نسواں کے سلسلے میں ایک مسئلہ پردہ کے سلسلہ میں اٹھایا جاتا ہے کہ قرآن میں پردہ صرف عورتوں پر ہی لازم قرار دیا ہے اور اس کے لئے سورہ نساءکی آیت سے استدلال کیا جاتا ہے (و قل للمومنات یغضضن من ابصارہن و یحفظن فروجہن و لا یبدین زینتہن۔۔۔۔) اے رسول مومن خواتین سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے بناو سنگار کو نامحرم پر ظاہر نہ کریں۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ اس آیت میں صرف عورتوں سے پردہ کے بارے میں کہا گیا ہے۔
اس کا فلسفہءفطرت شناسوں کے لئے واضح ہے، کیونکہ مرد عورت دونوں کے جذبات ایک طرح کے نہیں ہوتے ۔ حتی جسمانی ساخت کے اعتبار سے بھی ایک دوسرے کے مشابہ نہیں ہیں۔ دونوں کے جذبات الگ الگ ہیں، فطری اعتبار سے مرد اپنی آنکھوں کے علاوہ دوسرے اعضاءسے عورت کی طرف بڑھتا ہے نہ کہ عورت مرد کی طرف۔ در حقیقت اس کائنات میں نر و مادہ کی خلقت اسی طرح ہوئی ہے کہ عورت مرد کی طرف نہیں جاتی بلکہ مرد عورت کی طرف جاتا ہے۔
اس فطری قانون کو آپ کائنات کے دیگر حیوانات میں بھی ملاحظہ کرتے ہیں۔ کہ نر ہمیشہ مادہ کی تلاش و جستجو میں ہوتا ہے۔چڑیا اور کبوتر سے لے کر ہاتھی اور شیر تک سبھی اس قانون فطرت کے تحت آتے ہیں۔
جنس مادہ بھی جنس نر کی طالب ہوتی ہے لیکن تلاش و جستجو ہمیشہ جنس نر کی طرف سے ہے۔ اسی لئے اسلام میں خطبہ کا تصور پایا جاتا ہے کہ لڑکے کی طرف سے لڑکی کے لئے پیغام جائے نہ کہ لڑکی کی طرف سے لڑکے کے لئے۔ لڑکے کی طرف سے شادی کا پیغام جانا فطری قانون کے مطابق ہے۔ بعض اوقات سننے میں آیا ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لڑکی شادی کا پیغام بھیجے!
ہم یہاں اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ اسی نظام فطرت سے عورت کو عزت حاصل ہوتی ہے۔ یعنی مرد کوشش کرے کہ عورت کی رضایت حاصل ہو جائے۔ مہر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یعنی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرد کو عورت کی ضرورت ہے نہ کہ عورت کو مرد کی۔ قرآن نے مہر کو یخلہ کہا ہے یعنی ہدیہ ظاہر ہے کہ ہدیہ کسی کی رضایت حاصل کرنے کے لئے دیا جاتا ہے۔مہر عورت کی قیمت نہیں ہے بلکہ عورت کے لئے ہدیہ ہے۔دوسرا لفظ قرآن نے مہر کے لئے صداق استعمال کیا ہے صداق یعنی کسی چیز کو اس بات کی علامت کے طور پر دینا کہ آپ سے میرا لگاو صادق ہے۔ سچا ہے، صادقانہ ہے، جھوٹا نہیں ہے۔
مرد اورعورت کی خلقت الگ الگ ہے ، اسی لئے عورت اپنے آپ کو سجاتی سنوارتی ہے تا کہ مرد کی توجہات کا مرکز بن سکے۔ عورت، زیور، سنگھار ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔
عورت ایک لطیف و نازک حقیقت ہے۔ مادہ ہمیشہ مظہر زیبائش و آرایش ہے۔ اسی لئے جب فتنہ و فساد سے روکنا مقصود ہو تو اس سے پردہ کے لئے کہا جائے گا۔جو مظہر حسن و جمال ہے اس سے کہیں گے کہ اپنے آپ کو نا محرموں سے پوشیدہ رکھو نہ کہ اس سے جو طاقت و قوت کا مظہر ہو۔ یعنی اسباب فتنہ کو ختم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ایک اور نکتے پر بھی توجہ دی جا سکتی ہے کہ آیت میں عورتوں کے لئے تین حکم بیان کئے گئے ہیں
۱۔ یغضضن من ابصارہن ۔ نگاہیں نیچی رکھیں۔
۲۔ یحفظن فروجہن ۔ شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔
3۔ لا یبدین زینتہن۔ بناؤسنگھار کو نا محرموں پر ظاہرنہ کریں۔
اور اس سے پہلی والی آیت یعنی سورہ نور کی تیسویں آیت میں مردوں کے لئے یوں کہا گیا ہے :
(قل للمومنین یغضوا من ابصارھم و یحفظوا فروجھم۔۔۔)
اے رسول مومنین سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔
اس سے ظاہر ہے کہ پہلے حکم میں مرد اور عورت دونوں مساوی ہیں اور تیسرا حکم ایسا ہے جو صرف عورت سے مخصوص ہے۔لہذا پابندی صرف عورت سے مخصوص نہیں رہ گئی بلکہ مردوں کا بھی اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔
تیسرا حکم بھی جیسا کہ ذکر ہوا اس لیے ہے کہ قانون فطرت اس طرح ہے یعنی مرد عورت کے جذبات بھی الگ الگ ہیں اور مرد عورت دونوں جسمانی ساخت کے حوالے سے بھی مختلف ہیں۔ آخر میں رب تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری ماووں، بہنوں اور بیٹیوں کو حجاب کے قوانین کو لحاظ رکھتے ہوئے حضرت زہرا(س) کی سیرت پر اور نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین